Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 59
اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ١ؕ خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ
اِنَّ : بیشک مَثَلَ : مثال عِيْسٰى : عیسیٰ عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک كَمَثَلِ : مثال جیسی اٰدَمَ : آدم خَلَقَهٗ : اس کو پیدا کیا مِنْ : سے تُرَابٍ : مٹی ثُمَّ : پھر قَالَ : کہا لَهٗ : اس کو كُنْ : ہوجا فَيَكُوْنُ : سو وہ ہوگیا
عیسیٰ کا حال خدا کے نزدیک آدم کا سا ہے کہ اس نے (پہلے) مٹی سے ان کا قالب بنایا پھر فرمایا کہ (انسان) ہوجاؤ تو وہ (انسان) ہوگئے
نصاری کے ایک استدلال یا شبہ کا جواب۔ ان مثل عیسیٰ عنداللہ کمثل۔۔۔ الی۔۔ الممترین۔ اس آیت میں اللہ جل شانہ نے نصارائے نجران کے ایک شبہ کا جواب دیا ہے جس کو وہ حضرت عیسیٰ کے ابنیت کے لیے بطور استدلال ذکر کرتے تھے وہ یہ کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بغیر باپ کے پیدا ہوئے معلوم ہوا کہ وہ خدا اور خدا کے بیٹے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں یہ آیت نازل فرمائی کہ عیسیٰ کا بغیر باپ کے پیدا ہونا کچھ تعجب انگیز نہیں ہم نے آدم کو اپنی قدرت سے بغیر ماں اور باپ کے مٹی سے پیدا کیا حضرت عیسیٰ اگرچہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے لیکن اپنی جنس کے ایک رد سے تو پیدا ہوئے مگر آدم تو بالکل ہی غیر جنس سے پیدا ہوئے پس اگر بغیر باپ کے پیدا ہونا دلیل الوہیت ہے تو آدم اس کے زیادہ سزاوار ہیں چناچہ فرماتے ہیں تحقیق عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم جیسی مثال ہے آدم کی تصویر کو مٹی سے بنایا پھر اس میں روح پھونک دی اور اس قالب کو حکم دیا کہ زندہ آدمی ہوجاتو فورا اسی طرح ہوگیا جس طرح حکم ہوا تھا یہی بات حق ہے جو تیرے پروردگار کی طرف سے حضرت عیسیٰ کے بارے میں بتلادی گئی پس اے مخاطب تو ان لوگوں سے مت بن جو حضرت عیسیٰ کے بارے میں شک اور تردد میں پڑے ہوئے ہیں یہود کی طرح نہ ان کی والدہ ماجدہ پر تہمت لگا اور نہ نصاری کی طرح ان کو ابن اللہ سمجھ بلکہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے بتلادیا ہے اس کے مطابق ایمان لا وہ یہ کہ حضرت عیسیٰ خدا کے برگزیدہ بندہ تھے بغیر باپ کے پیدا ہوئے اور جب دشمنوں نے ان کے قتل کا ارادہ کیا تو اللہ نے ان کو زندہ آسمان پر اٹھایا۔ نکتہ) ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) چونکہ روح القدس یعنی جبرائیل امین کے نفخہ سے پیدا ہوئے اور روح الامین کی طرح ان کالقب بھی روح اللہ ہوا تو معلوم ہوا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اگرچہ صورۃ انسان اور بشر تھے مگر حقیقۃ جنس ملائکہ سے تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو آسمان پر اٹھایا تاکہ اپنے ہم جنس فرشتوں میں زندگی بسر کریں اور حضرت عیسیٰ کو جو معجزات دیے گئے ان کو بھی رفع الی السماء سے خاص مناسبت تھی وہ یہ کہ متی کا پتلا پھونک مارنے سے باذن اللہ پرند بن کر اڑنے لگتا تھا اشارہ اس طرف تھا کہ ایک دن عیسیٰ (علیہ السلام) بھی اسی طرح اڑ کر آسمان پر چلے جائیں گے اور چونکہ عیسیٰ (علیہ السلام) اپنے باپ آدم (علیہ السلام) کے مشابہ ہیں اس لیے حضرت عیسیٰ قیامت کے قریب آسمان سے نازل ہوں گے جیسے آدم (علیہ السلام) آسمان سے زمین پر اترے تھے ایسے ہی حضرت عیسیٰ کا نزول، حضرت آدم کے ھبوط کے مشابہ ہوگا اور جس طرح آدم (علیہ السلام) کا ھبوط من السماء جسمانی تھا اسی طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا نزول من السماء بھی جسمانی ہوگا۔ لطائف ومعارف۔ 1۔ حواری، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارہ یار کالقب تھا حواری اصل میں دھوبی کو کہتے ہیں پہلے دو شخص جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے تابع ہوئے وہ دھوبی تھے حضرت عیسیٰ نے ان سے کہا کہ کپڑے کیا دھوتے ہو میں تم کو دل دھونے سکھادوں وہ ان کے ساتھ ہوگئے پھر اسی طرح سب ساتھیوں کا یہی لقب پڑگیا (کذا فی موضح القرآن) گرض کہ حواریین میں سے حضرت مسیح کے انصار اور خاص اصحاب مراد ہیں قاموس میں ہے کہ حواری کے معنی دھوبی یاخالص دوست یا نبی کے مددگار کے ہیں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے خاص اصحاب، حضرت عیسیٰ کے معاون ہونے کی وجہ سے حواریین کے نام سے موسوم ہوگئے، صحیحین میں ہے کہ حضور پرنور ﷺ نے یوم خندق میں تین مرتبہ آواز دی تینوں مرتبہ حضرت زبیر بن عوام نے جواب دیا تو آپ نے فرمایا کہ ہر نبی کا ایک حواری ہوتا ہے اور میرا حواری زبیر ہے۔ 2۔ مکر کی تفسیر میں مفسرین کا اختلاف ہے مفسرین کی ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ مکر اصل لغت میں اس حیلہ کو کہتے ہیں کہ جو دوسرے کے نقصان کا سبب ہو اور یہ بظاہر قبیح اور مذموم ہے اس لیے یہ لفظ مکر، منکرین عیسیٰ کے حق میں بطور حقیقت استعمال ہوا ہے اور مکر اللہ میں جو مکر کی نسبت حق تعالیٰ کی طرف کی گئی ہے وہ بطریق مجاز ہے یعنی مقابلہ اور ازدواج کے طور پر استعمال ہوا ہے اس لیے کہ مکر ایک برافعل ہے جس سے ذات باری تعالیٰ کو منزہ ہونا چاہیے اس لیے زجاج کا قول ہے کہ مکر اللہ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ نے ان کے مکر کا بدلہ دیا ہے، جیسے جزاؤ سیءۃ سیءۃ مثلھا، میں برائی کے بدلہ اور سزا کو بطور مقابلہ برائی سے تعبیر کیا گیا ہے اور جیسے قرآن کریم میں جزا خداع اور جزاء استہزاء کو خداع اور استہزاء سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ، محققین کی رائے یہ ہے کہ مکر اصل لغت میں کسی برے معنی پر دلالت نہیں کرتا تاکہ بغرض تنزیہ ومکر اللہ میں معنی مجازی مراد لیے جائیں کیونکہ اصل میں مکر کے معنی تدبیر خفی کے ہیں جو ایسے نامعلوم طریقہ سے کی جائے کہ دوسرے کو اس کا خیال بھی نہ ہو پس اگر یہ تدبیر کسی محمود اور مستحسن غرج کے لیے کی جائے تو یہ تدبیر بھی محمود اور مستحسن ہوگی اور اگر کسی غرض فاسد کے لیے کی جائے تو قبیح اور مذموم ہوگی عرف میں اگر لفظ مکر بری تدبیروں ہی کے لیے بولا جاتا ہے مگر حقیقت اور اصل لغت میں اچھی اور بری دونوں ہی قسم کی تدبیریں مکر کے مفہوم میں داخل ہیں یعنی اگر کسی حکمت اور مصلحت سے کسی کے حق میں بھلائی کی تدبیر چپکے چپکے کی جائے تو وہ مکر محمود ہوگا اور اگر کسی غرض فاسد سے کسی کی برائی کے لیے خفیہ تدبیر کی جائے تو وہ مکر مذموم ہوگا اور ولا یحیق المکرالسئی الاباھلہ۔ میں مکر کے ساتھ سیئی کی قید لگانا بھی اس پر دلالت کرتا ہے کہ مکر اچھا بھی ہوتا ہے اور برا بھی اب اس تحقیق کی بناء پر لفظ مکر ومکر اللہ میں اپنے حقیقی اور لغوی معنی میں مستعمل ہوا ہے مجاز پر محمول کرنے کی ضرورت نہیں اگرچہ آیت میں مجازی معنی بھی صحیح اور درست ہوسکتے ہیں تاہم بہتریہی ہے کہ معنی حقیقی مراد لیے جائیں اصل لغت کے اعتبار سے مکر کے معنی میں کوئی برائی نہیں تاکہ بغرض تنزیہ اس کو مجاز پر محمول کرنے کی ضرورت پیش آئے اور ذوق اور وجدان بھی یہی کہتا ہے کہ اللہ کا مکر محمود تھا اور بنی اسرائیل کا مکر مذموم تھا اس لیے ومکر اللہ کو ماقبل بطور عطف ذکر فرمایا ہے اور عطف تغایر کو چاہتا ہے۔ حکایت۔ بعض اولیاء اللہ سے سوال کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کیسے مکروہ کرتا ہے توا یک چیخ ماری اور یہ کہا کہ اللہ کے فعل کے لیے کسی علت اور سبب کی ضرورت نہیں اور اس کے بعدیہ شعر پڑھنے شروع کیے۔ فدیتک قد جبک علی ھواکا ونفسی لاتنازعنی سواکا۔ قربان ہوجاؤں تجھ پر اے محبوب میری حبت اور فطرت میں تیری محبت داخل ہے اور میرا نفس تیرے سوا کسی کی کشمکش میں مبتلا نہیں ہوتا۔ احبک لاببعضی، بل بکلی وان لم یبق حبک لی حراکا۔ میں تجھ کو محبوب رکھتا ہوں مگر اپنے بعض اجزاء کے اعتبار سے نہیں بلکہ اپنے کل اجزاء کے اعتبار سے تجھ کو محبوب رکھتا ہوں اگرچہ تیری محبت نے مجھ میں ہلنے کی سکت باقی نہیں چھوڑی۔ ویقبح من سواک الفعل عندی وتفعلہ فیحسن منک ذاکا۔ اور تیرے سوا سے جو فعل صادر ہوتا ہے وہ میرے نزدیک قبیح اور برا ہوتا ہے اور جب اسی فعل کو تو کرتا ہے تو وہ نہایت مستحسن اور پسندیدہ ہوتا ہے۔ (روح المعانی 169 ج 3) ۔ 3۔ یہود کا مکر یہ تھا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل اور صلب کا ارادہ کیا اور اللہ کا مکر یہ تھا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو جبرایل امین کے ذریعہ گھر کے روشن دان سے آسمان پر اٹھالیا جیسا کہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ یہود نے حضرت عیسیٰ کے خلاف طرح طرح کی سازشیں کیں بادشاہ کے کان بھردیے کہ یہ شخص معاذ اللہ ملحد ہے توریت کو بدلنا چاہتا ہے اور سب کو بےدین بنانا چاہتا ہے بادشاہ نے حضرت عیسیٰ کی گرفتاری کا حکم دیا اور جب وہ لوگ حضرت عیسیٰ کو گرفتار کرنے کے لیے گئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کے بچانے کی یہ تدبیر کی کہ انہی لوگوں میں سے ایک شخص کو حضرت عیسیٰ کے ہمشکل بنادیا اور حضرت عیسیٰ کو آسمان پر اٹھالیا لوگوں نے اس شخص کو جو انہی میں کا تھا اور حضرت عیسیٰ کے ہم شکل بنادیا گیا تھا حضرت عیسیٰ سمجھ کر پکڑ لیا اور سولی پر چڑھادیا جیسا کہ عبداللہ بن عباس سے سند صحیح کے ساتھ مروی ہے (تفسیر ابن کثیر عربی ص 365 ج 1) ۔ 4۔ لفظ توفی کے متعلق حافط ابن تیمیہ الجواب الصحیح ص 383 میں لکھتے ہیں کہ، ترجمہ۔ یعنی لغت عربی میں توفی کے معنی استیفاء پورا پورا لے لینے اور اپنے قبضہ میں کرلینے کے ہیں اور توفی کی تین قسمیں ہیں ایک توفی نوم، یعنی خواب اور نیند کی توفی جس میں انسان کے شعور اور ادراک کو پورا پورا قبض کرلیا جاتا ہے اور دوسری توفی موت، یعنی موت کے وقت روح کو پورا پورا قبض کرلینا اور تیسری توفی الروح والجسد یعنی جسم اور روح کو پورا پورا لے لینا انتہی یعنی روح اور جسم دونوں کو پورا پورا آسمان پرلے جانا۔ لفظ توفی کے متعلق ابوالبقاء اپنی کلیات میں لکھتے ہیں، التوفی فی الاماتت وقبض الروح وعلیہ استعمال العامۃ او الاستیفاء واخذ الحق وعلیہ استعمال البلغاء۔ یعنی توفی کا لفظ عوام کے یہاں موت دینے اور روح قبض کرنے کے لیے مستعمل ہوتا ہے لیکن بلغاء کے نزدیک استیفاء یعنی کسی چیز کے پورا پورا لے لینے کے معنی میں مستعمل ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ توفی کے اصل معنی تو ستیفاء کے ہیں اور موت پر جو لفظ توفی کا اطلاق آتا ہے وہ بھی اسی وجہ سے آتا ہے کہ اس میں جان پوری پوری لے لی جاتی ہے یا یہ کہ عمر پوری کردی جاتی ہے پس اگر فقط جان پوری پوری لے لی جائے تو بھی توفی ہے اور اگر جان اور جسم دونوں کو پورا پورا لے لیاجائے تو بدرجہ اولی توفی ہوگی بلکہ اعلی درجہ کی توفی ہوگی کیونکہ جن ائمہ لغت نے توفی کے معنی قبض روح کے لکھے ہیں انہوں نے یہ کہیں نہیں لکھا کہ فقط قبض روح کو توفی کہتے ہیں کہ اور اگر قبض روح مع البدن ہو تو اس کو توفی نہیں کہتے بلکہ ظاہر ہے کہ اگر قبض روح کے ساتھ قبض بدن بھی ہو تو بدرجہ اولی توفی ہوگی غرض یہ کہ اصل لغت کے اعتبار سے توفی کے معنی استیفاء اور قبض کے ہیں جو اپنی معنی اصلی اور جنسی کے لحاظ سے نوم (نیند) اور موت اور رفع جسمانی سب پر صادق آتا ہے۔ دیکھئے حق جل شانہ نے اپنے اس ارشاد اللہ یتوفی الانفس۔۔۔ الی۔۔ منامھا۔ میں توفی نفس کی دو صورتیں بتلائی ہیں ایک موت اور دوسری نوم یعنی نیند اور حین موتہا کی قید لگا کر یہ بتلادیا کہ کبھی توفی موت کے وقت ہوتی ہے عین موت نہیں ورنہ شی کا خود اپنے لیے ظرف ہونالازم آئیگا اور وھوالذی یتوفاکم بالیل میں بھی توفی کا استعمال نیند کے موقعہ پر کیا گیا ہے۔ نکتہ) ۔ توفی کے اصلی معنی تو پورا پورا وصول کرلینے کے ہیں محاورہ عرب میں لفظ توفی نوم اور موت کے لیے مستعمل نہیں ہوتا تھا لیکن قرآن کریم نے لفظ توفی کو نوم اور مت کے معنی میں اسلیے استعمال کرنا شروع کردیا تاکہ اہل عرب پر موت اور نوم کی حقیقت واضح ہوجائے کہ انسان کے بدن میں کوئی چیز پوشیدہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نوم اور موت کی حالت میں بندہ سے لے لیتے ہیں عرب کا عقیدہ یہ تھا کہ انسان مر کر نیست ونابود ہوجاتا ہے موت کو فنا اور عدم کے مرادف سمجھتے تھے اسی لیے وہ بعثت یعنی قیامت کے دن دوبارہ زندہ ہونے کے منکر تھے اور یہ کہتے تھے، أاذاضللنا فی الارض ائنا لفی خلق جدید۔ اللہ نے ان کے رد کے لیے یہ ارشاد فرمایا، قل یتوفکم ملک الموت الذی وکل بکم، یعنی آپ ان مکرین بعثت سے کہہ دیجئے کہ تم مر کر فنا نہیں ہوجاتے بلکہ موت کافرشتہ تم سے اللہ کا پورا پورا حق وصول کرلیتا ہے یعنی وہ ارواح جو اللہ کی امانت ہیں وہ تمہارے جسموں سے لے لی جاتی ہیں اور اللہ کے یہاں محفوظ رہتی ہیں قیامت کے دن پھر انہی ارواح کو تمہارے اجسام کے ساتھ متعلق کرکے حساب و کتاب لیاجائے گا چناچہ شاہ عبدالقادر فرماتے ہیں تم اپنے آپ کو دھڑ سمجھتے ہو کہ خاک میں رل گئے تم جان ہو وہ فرشتہ لے جاتا ہے فنا نہیں ہوتے۔ 5۔ تمام امت محمدیہ کا اس پر اجماع اور اتفاق ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) زندہ آسمان پر اٹھائے گئے اور قیامت کے قریب آسمان سے نازل ہوں گے سلف اور خلف میں سے نہ کوئی حضرت عیسیٰ کے رفع الی السماء کا منکر ہے اور نہ نزول من السماء کا جیسا کہ حافظ ابن حجر نے تلخیص جبیر ص 391 میں اس پر اجماع نقل کیا ہے اور حافظ ابن کثیر نے احادیث نزول کو متواتر کہا ہے تفصیل کے لیے کلمۃ اللہ فی حیاۃ روح اللہ کو دیکھیے۔ اختلاف صرف اس میں ہے کہ رفع الی السماء سے پہلے کچھ دیر کے لیے موت طاری ہوئی یا نہیں یا حالت نوم میں آسمان پر اٹھائے گئے، جمہور صحابہ وتابعین اور عامہ سلف صالحین یہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں توفی سے موت کے معنی مراد نہیں بلکہ توفی کے اصل اور حقیقی معنی مراد ہیں یعنی کسی شے کا پورا پورا لے لینا کیونکہ دشمنوں کے ہجوم اور نرغہ کے وقت توفی کی بشارت حضرت عیسیٰ کی تسلی اور تسکین کے لیے ہے کہ اے عیسیٰ تم دشمنوں کے ہجوم اور نرغہ سے گھبرانا نہیں میں تم کو پورا پورا روح اور جسم سمیت ان نابکاروں سے چھین لوں گا تیرا وجود ان کے لیے میری ایک عظیم نعمت تھا ان کے کردار سے یہ ثابت ہوگیا کہ یہ نابکارا اور ناہنجار اس قابل نہیں کہ تیرے وجود کی نعمت کو ان کے لیے باقی رکھاجائے ان کی ناقدری اور ناسپاسی کی سزا یہ ہے کہ ان سے یہ نعمت پوری پوری واپس لے لی جائے حضرت مولانا سید انور شاہ قدس سرہ اس بارے میں فرماتے ہیں، وجوہ لم تکن اھلالخیر۔۔۔ فیاخذ منھم عیسیٰ الیہ۔ یہ چہرے کسی خیر کے قابل نہ تھے اس لیے تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ ویرفعہ ولایبقیہ فیھم۔۔۔ کا خذ الشی لم یشکر علیہ۔ اور اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی طرف اٹھالیا اور ان میں باقی نہ چھوڑا اور اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ کو ان سے ایسا لے لیا جیسا کہ اس شے کو لے لیا جاتا ہے جس کی ناقدرسی کی جائے، وحیزکما یحاز الشئی حفظا۔۔۔ وآواہ الی ماوی لدیہ۔ اور ان سے چھین کر اپنے پاس ان کو خاص طور سے محفوظ رکھا اور اپنے قریب میں ان کو ٹھکانہ دیا۔ غرض یہ کہ آیت میں توفی سے پورا پورا لے لینے کے معنی مراد ہیں موت کے معنی مراد ہیں اور نہ اس مقام کے مناسب ہیں اس لیے کہ جب ہر طرف سے خون کے پیاسے اور جان کے لیوا کھڑے ہوئے تو اس وقت تسلی اور تسکین خاطر کے لیے موت کی خبر دینا کہ میں تجھ کو مت دوں گا مناسب نہیں دشمنوں ج کا تو مقصود ہی جان لینا ہے اس وقت تو مناسب یہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ تم گھبراؤ نہیں ہم تم کو تمہارے دشمنوں کے نرغہ سے پورا پورا اور صحیح وسالم نکال لے جائیں گے کہ دشمنوں کو تمہارا سایہ بھی نہ مل سکے گا پس اگر آیت میں توفی سے موت کے معنی مراد ہوں تو عیسیٰ (علیہ السلام) کی تسلی تو نہ ہوگی البتہ یہود کی تسلی ہوجائے گی اور مطلب یہ ہوگا کہ اے یہود تم بالکل نہ گھبراؤ اور نہ مسیح کے قتل کی فکرو میں خود ہی ان کو موت دوں گا اور میں خود ہی تمہاری تمنا اور آرزوپوری کردوں گا تمہیں کوئی مشقت نہ ہوگی یہ تو حضرت عیسیٰ کی تسلی نہ ہوئی بلکہ یہود کی تسلی ہوئی۔ 2۔ نیز یہ کہ توفی بعنی الموت تو ایک عام شی ہے جس میں تمام مومن و کافر انسان اور حیوان سب ہی شریک ہیں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی کیا خصوصیات ہے جو خاص طور پر ان سے توفی کا وعدہ کیا گیا۔ 3۔ نیز ومکرواللہ ومکر اللہ سے بھی یہی معلوم اور مفہوم ہوتا ہے کہ اللہ کا مکر اور اس کی تدبیر یہود کی تدبیر اور مکر کے خلاف اور ضد تھی جیسا کہ، یکیدون یکدا واکیدا کیدا۔ ومکروا، مکرا ومکرنا مکرا۔ اور یمکرون ویمکرون اللہ، ان تمام واقعات میں اللہ کی تدبیر کافروں کی تدبیر کے برعکس تھی۔ قوم صالح نے صالح (علیہ السلام) کے قتل کی تدبیریں کیں اور مشرکین مکہ نے نبی اکرم صلی اللہ کے قتل کی تدبیریں کیں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کی حفاظت کی تدبیر کی اسی طرح آیت زیربحث میں مراد یہ ہے کہ یہود نے حضرت عیسیٰ کے قتل کی تدبیر کی اور اللہ تعایل نے ان کی حفاظت کی تدبیر کی کہ دشمنوں کے ہاتھ سے صحیح وسالم نکال کر آسمان کی طرف ہجرت کرادی اب اس ہجرت کے بعد زمین پر جو نزل ہوگا وہ اس زمین کے فتح کرنے کے لیے ہوگا جیسا کہ نبی ہجرت کے کچھ عرصہ بعد مکہ فتح کرنے کے لیے تشریف لائے اور تمام اہل مکہ مشرف باسلام ہوئے اسی طرح جب عیسیٰ زمین کے فتح کرنے کے لیے نازل ہوں گے تو تمام اہل کتاب ایمان لے آئیں گے جیسے تمام اہل مکہ ایمان لے آئے تھے امام رازی قدس سرہ فرماتے ہیں کہ توفی کے معنی کسی چیز کو پورا پورا کرلینے کے ہیں چونکہ اللہ تعالیٰ کو یہ علم تھا کہ شاید کسی کے دل میں یہ خطرہ گذرے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی فقط روح اٹھائی گئی روح اور جسم دونوں نہیں اٹھائے گئے (جیسا کہ نصاری کا خیال ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اپنے لاہوت کے ساتھ آسمان پر اٹھائے گئے اور ناسوت زمین پر ہی رہا اس لیے اللہ تعالیٰ نے متوفیک اور ورافعک فرما کر آگاہ کردیا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی روح اور جسم دونوں پورے پورے اٹھائے گئے اور یہ آیت حضرت عیسیٰ کی تسلی کے لیے ایسی ہوگی جیسے ومایضرونک من شئی (تفسیر کبیر ص 481 ج 2) ۔ 4۔ ربیع بن انس سے یہ منقول ہے کہ اس آیت میں توفی سے نوم (نیند) مراد ہے جیسا کہ وھوالذی یتوفاکم بالیل میں توفی سے نوم کے معنی مراد ہیں کہ جو توفی اور وفات کی ایک قسم ہے اللہ تعالیٰ نے پہلے سلایا اور پھر بحالت خواب ان کو آسمان پر اٹھایا پس آیت کے یہ معنی ہوں گے کہ اے عیسیٰ تم گھبراؤ نہیں میں تم کو سلاؤں گا اور پھر اسی حالت میں تم کو اٹھا لوں گا۔ 5۔ ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ توفی سے موت مراد ہے مگر ساتھ ہی ساتھ ابن عباس یہ بھی فرماتے ہیں کہ آیت میں تقدیم وتاخیر ہے کہ آیت میں جو چیز پہلے مذکور ہے اس کا وقع بعد میں ہوگا اور جو بعد میں مذکور ہے اس کا وقع مقدم ہے یعنی رفع آسمانی پہلے ہوا اور یہ توفی بمعنی الموت قیامت کے قریب نزول من السماء کے بعد ہوگی اور آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ اے عیسیٰ میں اس وقت تم کو آسمان پر اٹھاؤں گا اور پھر آخری زمانہ میں تمہارے نازل ہونے کے بعد تم کو موت دوں گا۔ اس تفسیر کی رو سے رفع، توفی پر مقدم ٹھہرتا ہے اور آیت میں تقدیم وتاخیر کا قائل ہونالازم آتا ہے لیکن یہ اعتراض قابل التفات نہیں اس لیے کہ واؤ ترتیب کے لیے وضع نہیں ہوا اور تقدیم وتاخیر نہ قواعد عربیت کے خلاف ہے اور نہ فصاحت وبلاغت میں مخل ہے امام رازی قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں، ابن عباس کی تفسیر میں جو تقدیم وتاخیر پائی جاتی ہے سو اس قسم کی تقدیم وتاخیر قرآن کریم میں بہت کثرت کے ساتھ موجود ہے اور قرآن کریم میں تقدیم وتاخیر کے نظائر اور شواہد ہم نے اپنے رسالہ کلمۃ اللہ فی حیاۃ روح اللہ میں لکھ دیے ہیں وہاں دیکھ لیاجائیں۔ ابن عباس ؓ سے باسانید صحیحہ منقول ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) زندہ آسمان پر اٹھائے گئے اور قیامت کے قریب نازل ہوں گے اور دجال کو قتل کریں گے اور آیت انی متوفیک میں توفی سے توفی موت مراد ہے لیکن یہ اخیر زمانہ میں ہوگی۔ اسحاق بن بشر اور ابن عساکر ضحاک سے راوی ہیں کہ ابن عباس، متوفیک کی تفسیر میں یہ فرماتے تھے کہ حضرت مسیح کا رفع مقدم ہے اور انکی وفات اخیر زمانہ میں ہوگی۔ (تفسیر درمنثور) ۔ پس اگر ابن عباس ؓ سے متوفیک کی تفسیر ممیک کے ساتھ منقول ہے تو انہی ابن عباس سے باسانید صحیحہ وحیدہ یہ بھی منقول ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) زندہ آسمان پر اٹھائے گئے اور قیامت کے قریب نازل ہوں گے اور انہی سے یہ بھی منقول ہے کہ آیت میں تقدیم وتاخیر ہے تو پھر ان کے نصف قول کو ماننا اور نصف کا انکار کردینا کونسی عقل اور کون سی دیانت ہے قادیان کے دہقان ابن عباس کے اس نصف قول کو قبول کرتے ہیں جو ان کی ہوائے نفسانی اور غرض کے موافق ہے اور دوسرا نصف جو ان کی غرض کے خلاف ہے اس سے گریز کرتے ہیں یہ ایسا ہی ہے کہ جیسا کہ تارک صلوۃ، لاتقربوالصلوۃ سے حجت پکڑتے ہیں اور انتم سکاری سے آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔ نکتہ) ۔ رہا یہ امر کہ اس تقدیم وتاخیر میں نکتہ کیا ہے سونکتہ یہ ہے کہ انی متوفیک ورافعک الی، الخ۔ سے مقصود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تسلی ہے کہ یہ دشمن جو آپ کے قتل اور صلب کے درپے ہیں اور آپ کی جان لینا چاہتے ہیں یہ ہرگز آپ کے قتل کرنے اور سولی دینے پر قادر نہ ہوں گے اللہ تعالیٰ آپ کو وقت مقدر پر طبعی موت سے وفات دیں گے اور فی الحال آپ کو اپنی طرف اٹھالیں گے آپ بالکل مطمئن رہیں کہ دشمن آپ کی جان نہیں لے سکیں گے غرض یہ کہ دشمن جان لینا چاہتے تھے اس لیے توفی کا ذکرمقدم فرمایا جس سے مقسود دشمنوں سے محفوظ رہنے کی بشارت دینا ہے کہ موت ان کے قبضہ میں نہیں وہ ہمارے ہاتھ میں ہے جو ہمارے حکم سے اپنے وقت پر ہوگی نیز توفی کی تقدیم میں ایک نکتہ یہ ہے کہ بیک وقت اور بیک لفظ یہود اور نصاری دونوں کی تردید ہوجاتی ہے یہود کی تردید اس طرح ہوئی کہ یہود ان کے مارنے میں کامیاب نہ ہوں گے اللہ تعالیٰ خود ان کو وقت مقرر پر وفات دے گا اور نصاری کی تردید اس طرح ہوئی کہ عیسیٰ (علیہ السلام) خدا نہیں کیونکہ ان پر ایک وقت آنے والا ہے کہ اس وقت ان پر موت اور فناء آئیگی اور فانی خدا نہیں ہوسکتا۔ 6۔ حق جل شانہ نے اس آیت میں عیسیٰ (علیہ السلام) سے پانچ وعدوں کا ذکر فرمایا ہے، ایک وعدہ توفی کا جس کی تفصیل گذر گئی۔ دوسرا وعدہ رفع الی السماء کماقال تعالیٰ ورافعک الی۔ یعنی اے عیسیٰ میں تم کو اپنی طرف اٹھاؤں گا جہاں میرے فرشتے رہتے ہیں وہاں تم کو رکھوں گا اس آیت میں رفع سے جسمانی رفع مراد ہے اس لیے کہ ورافعک الی میں خطاب عیسیٰ (علیہ السلام) کو ہے جو مجموعہ ہے جسم اور روح کا اور یہاں رفع درجات اس لیے مراد نہیں ہوسکتا کہ وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو پہلے ہی سے حاصل تھا اور رفع جسمانی میں تو اور بھی رفع درجات حاصل ہوجاتا ہے رفع جسمانی، رفع درجات کے منافی نہیں اور فقط رفع روحانی ہر مرد صالح کو بوقت موت حاصل ہوتا ہے اس کو خاص طور پر بطور وعدہ ذکر کرنا بےمعنی ہے۔ نیز باتفاق محدثین ومفسرین مورخین یہ آیتیں نصارائے نجران کے حق میں ان سے مناظرہ اور ان کے عقائد کی اصطلاح کے بارے میں نازل ہوئیں اور ان کا عقیدہ یہ تھا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) خدا تعالیٰ کے بیٹے ہیں اور دشمنوں کے ہاتھ سے مقتول اور مصلوب ہوئے اور پھر دوبارہ زندہ ہوکر آسمان پر اٹھائے گئے اللہ نے قرآن کریم میں عقیدہ ابنیت اور عقیدہ قتل وصلب کی صریح لفظوں میں تردید اور نفی فرمائی کہ وہ خدا کے بیٹے نہ تھے بلکہ خدا کے بندہ اور رسول تھے اور یہود کا یہ زعم کہ اناقتلنا المسیح عیسیٰ بن مریم رسول اللہ۔ کہ ہم نے عیسیٰ بن مریم کو قتل کردیا یہ بالکل غلط ہے وماقتلوہ وماصلبوہ۔ یعنی دشمنوں نے نہ عیسیٰ کو قتل کیا اور نہ سولی دی میں قتل اور صلب کی نفی کرنے کے بعد متصلا یہ فرمایا بل رفعہ اللہ الیہ بلکہ اللہ نے ان کو آسمان پر زندہ اٹھا لیا اگر عقیدہ قتل وصلب کی طرح عقیدہ رفع الی السماء بھی غلط تھا تو جس طرح وماقتلوہ وماصلبوہ کہہ کر عقیدہ قتل وصلب کی صراحۃ تردید فرمائی اسی طرح بجائے بل رفعہ اللہ الیہ کے ومارفعہ اللہ فرما کر عقیدہ رفع الی السماء کی تردید فرماتے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو نہیں اٹھایا۔ تیسراوعدہ، ومطھرک من الذین کفروا۔ کا ہے تطہیر سے مراد یہ ہے کہ اہل کفر کے نجس اور ناپاک قرب و جوار سے الگ کرکے تم کو آسمان پر بلالوں گا۔ چوتھا وعدہ یہ ہے کہ تیرے متبعین کو تیرے منکروں پر غالب رکھوں گا اور تیرے دشمنوں کو کبھی حاکمانہ اقتدار نصیب نہ ہوگا کماقال تعالی، وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الی یوم القیامۃ۔ جاننا چاہیے کہ نبی ﷺ کی بعثت سے پہلے حضرت عیسیٰ کے تابع اور پیرونصاری تھے جو حضرت عیسیٰ کے دین پر تھے اور نبی کی بعثت کے بعد حضرت عیسیٰ کے صحیح پیروکار مسلمان ہیں جو حضرت عیسیٰ کو خدا کا بندہ اور رسول مانتے ہیں اور حضرت عیسیٰ کی وصیت مبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد پر عمل کرنے والے ہیں پس حاصل یہ نکلا کہ امت محمدیہ اور نصاری نے ہمیشہ یہود پر غالب اور حاکم رہیں گے چناچہ یہ وعدہ جلد ہی پورا ہوا کہ یہود ذلیل اور خوار ہوئے اور سلطنت ان کی ختم ہوئی اور پھر آج تک یہود جہاں کہیں بھی ہیں یا تو نصاری کی رعایا ہیں یا اہل سلام کی اور اس وقت فلسطین میں یہودیوں کی برائے نام حکومت قام ہوئی ہے وہ درحقیقت نصاری (امریکہ وبرطانیہ) کی ہے نام یہود کا ہے اس برائے سلطنت کا وجود تمام تر نصاری کے رحم وکرم اور اعانت اور امداد کا مرہون منت ہے اور قیامت تک ایسا ہی رہے گا صرف چالیس دن کے لیے دجال کا شوروغوغا ہوگا اور یہودی اس کے ساتھ ہوں گے سو اس چند روزہ شوروغوغا سلطنت نہیں کہا جاسکتا اور عجب نہیں کہ فلسطین میں یہ برائے نام حکومت اس لیے قائم ہوئی ہو کہ یہودی سب ایک جگہ جمع ہوجایں اور عیسیٰ اور امام مہدی کو نزول اور ظہور کے بعد قتل میں سہولت ہو کہ سب ایک جمع ہیں قتل کے لیے تلاش نہ کرنا پڑے۔ پانچواں وعدہ فیصلہ اختلاف ہے، ثم الی مرجعکم فاحکم بینکم فیما کنتم فیہ تختلفون۔ یہ پانچواں وعدہ ہے کہ جو اختلافات کے فیصلہ سے متعلق ہے تمام اختلافات کا آخری فیصلہ تو آخرت اور قیامت کے دن ہوگا لیکن یہود اور نصاری اہل اسلام کے اختلافات کا ایک فیصلہ قیامت قائم ہونے سے کچھ روز پہلے ہی ہوجائے گا اور وہ مبارک وقت ہوگا کہ جب عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان سے نازل ہوں گے اور دجال کو قتل کریں گے اور یہود کو چن چن کر ماریں گے کوئی یہودی اس وقت اپنی جان نہ بچاسکے گا حدیث میں ہے کہ اس وقت اگر کوئی یہودی جان بچانے کے لیے کسی شجر یا حجر کے پیچھے چھپ جائے گا تو شجر اور حجر میں سے آواز آئے گی ھذا یہودی ورائی فاقتلہ، یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے اس کو قتل کیجئے غرض یہ کہ اس طرح کہ تیغ بےدریغ سے تو یہودیت کا فیصلہ اور خاتم ہوجائے گا اور حضرت عیسیٰ نزول کے بعد صلیب کو جو کہ نصرانیت کانشان ہے توڑیں گے جس سے نصرانیت کا فیصلہ اور خاتم ہوجائے گا اور یہود اور نصاری حضرت عیسیٰ کی نبوت پر ایمان لے آئیں گے اور یہودعقیدہ قتل وصلب سے تائب ہوجائیں گے اور نصاری عقیدہ ابنیت سے تائب ہوجائیں گے اور مسلمان تو پہلے ہی سے حضرت عیسیٰ کے بارے میں صحیح عقیدہ رکھتے تھے اور ان تمام چیزوں پر ایمان رکھتے تھے اور مسلمان نزول کے بعد جب ان تمام چیزوں کا آنکھوں سے مشاہدہ کرلیں گے تو مسلمانوں کا ایمان بالغیب، ایمان شہودی بن جائیگا جس کے بعد ارتداد کا اندیشہ نہیں رہتا اور چونکہ مسلمان کا ایمان اور عقیدہ حضرت عیسیٰ کے بارے میں بالکل صحیح ہوگا اس لیے حضرت عیسیٰ کا نزول مسلمانوں ہی کی ایک مسجد کے منارہ پر ہوگا اور مسلمان ہی آپ کے گردوپیش اور آپ کے معین و مددگار ہوں گے اور حضرت عیسیٰ کا نزول دین اسلام ہی کی تجدید کے لی ہوگا۔ غرض یہ کہ اس طرح حضرت عیسیٰ کے نزول سے تمام اختلافات کا فیصلہ ہوجائے گا اور اللہ کا یہ آخری وعدہ دنیا کے اخیر میں پورا ہوگا۔ 7۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) چالیس سال کی عمر میں نبی بنائے گئے اور اسی سال کی عمر میں آسمان پر اٹھائے گئے اور آسمان سے نازل ہونے کے بعد چالیس سال زمین پر زندہ رہیں گے اور اس کے بعد وفات پائیں اور حجرہ نبوی میں مدفون ہوں گے اس طرح وفات کے وقت حضرت عیسیٰ کی عمر ایک سوبیس سال کی ہوگی۔ (کذا فی عقیدۃ الاسلام ص 29) ۔
Top