Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - Al-Ahzaab : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰهَ وَ لَا تُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًاۙ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ
: اے نبی !
اتَّقِ اللّٰهَ
: آپ اللہ سے ڈرتے رہیں
وَلَا تُطِعِ
: اور کہا نہ مانیں
الْكٰفِرِيْنَ
: کافروں
وَالْمُنٰفِقِيْنَ ۭ
: اور منافقوں
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
كَانَ
: ہے
عَلِيْمًا
: جاننے والا
حَكِيْمًا
: حکمت والا
اے پیغمبر خدا سے ڈرتے رہنا اور کافروں اور منافقوں کا کہا نہ ماننا بیشک خدا جاننے والا اور حکمت والا ہے
آغاز سورت بحکم تقویٰ و توکل وتحذیر از موافقت کفار منافقین وتنبیہ برکید وعداوت مخاد عین و جواب از بعض مطاعن مخالفین برائے تسلیہ نبی کریم ﷺ قال اللہ تعالیٰ یایھا النبی اتق اللہ ولا تطع الکفرین والمنفقین۔۔۔ الی۔۔۔ کان ذلک فی الکتب مسطورا۔ (ربط) گذشتہ سورت کے ختم پر کافروں سے اعراض کا اور انتظار کا حکم دیا گیا فاعرض عنہم وانتظر انہم منتظرون اور کافروں ولنذیقنہم من العذاب الادنی دون العذاب الاکبر کی دھمکی دی گئی اب اس سورت میں غزوہ احزاب میں اللہ تعالیٰ کی غیبی فتح ونصرت کا ذکر کر کے یہ بتلاتے ہیں کہ جس فتح ونصرت کے وعدہ کا آپ ﷺ کو انتظار تھا وہ پورا ہوگیا اور وہ آپ کے سامنے آگیا اور کافروں کو اپنی ذلت کا انتظار تھا وہ بھی ان کے سامنے آگئی اور روز روشن کی طرح نبی کریم ﷺ کی نبوت اور صداقت کا ظہور ہوگیا اور شکست احزاب سے اس عذاب ادنیٰ کا ظہور ہوگیا جس کی دھمکی دی گئی تھی وہ عذاب اولی تو سامنے آگیا اور عذاب اکبر قیامت کے بعد سامنے آئے گا نیز کفار آنحضرت ﷺ کو طرح طرح سے ایذائیں پہنچاتے تھے اس لئے اس سورت میں آنحضرت ﷺ کی جلالت شان کو بیان کیا کہ نبی تمہاری جان سے زیادہ تمہارے قریب ہے اس لئے نبی کو ایذا پہنچانا اور تکلیف دینا قطعا حرام ہے اس لئے اس ضمن میں منافقین اور مخالفین کی بعض ایذاؤں کا ذکر کر کے ان کا جواب دیا ہے جن کا ایک دل آزار طعنہ یہ تھا کہ حضور پر نور ﷺ نے اپنے متبنی زید بن حارثہ ؓ کی مطلقہ بیوی (زینب ؓ سے زید ؓ کے طلاق دینے کے بعد نکاح کرلیا۔ اس سورت میں مختلف عنوانات سے یہ بتلایا گیا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی تعظیم و تکریم فرض ہے اور نبی کریم ﷺ کو ایذا پہنچانا بلاشبہ حرام اور موجب لعنت ہے اس لئے اس سورت کا آغاز وصف نبوت سے فرمایا یعنی یایھا النبی کے عنوان سے آپ ﷺ کے عنوان سے آپ ﷺ کو خطاب کیا گیا جو خطاب تشریف و تکریم ہے جس سے مقصود لوگوں کو تنبیہ ہے کہ آپ ﷺ کو نبی برحق جانیں اور آپ کی اطاعت کریں اور آپ کی ایذا سے بالکلیہ پرہیز کریں۔ شان نزول : ابو سفیان بن حرب اور عکرمہ بن ابی جہل اور ابو الاعور عمر وبن سفیان سلمی یہ لوگ مکہ سے چل کر مدینہ آئے اور راس المنافقین عبد اللہ بن ابی ابن سلول کے یہاں ٹھہرے اور گفتگو کے لئے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عمر بن الخطاب بھی آپ ﷺ کی خدمت میں موجود تھے ان لوگوں نے حاضر ہو کر نبی اکرم ﷺ سے کہا کہ آپ ہمارے معبودوں کو برا بھلا نہ کہیے ہم آپ کو آپ کے رب کے متعلق کچھ نہ کہیں گے آنحضرت ﷺ کو ان لوگوں کی یہ بات نہایت شاق گذری حضرت عمر ؓ نے یہ دیکھ کر عرض کیا کہ حکم دیجئے کہ ان کو قتل کردیا جائے آپ ﷺ نے فرمایا ان کو امان دے رکھی ہے اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے حکم دیا کہ ان کو مدینہ سے نکال دیا جائے چناچہ وہ نکال دئیے گئے اس موقعہ پر مذکورہ بالا آیتیں نازل ہوئیں۔ (تفسیر قرطبی ص 114 ج 14 ) ان سردارن قریش کے ساتھ یہود بھی ملاقات کے لئے حاضر ہوئے تھے انہوں نے اہل مکہ کی تائید کی اور دوستانہ لہجہ میں نہایت نرمی سے حضور پر نور ﷺ کو مشورہ دینے لگے کہ آپ ﷺ سرداران قریش کے ساتھ نرمی کریں اور چرب لسانی سے آپ ﷺ کو مشورہ دینے لگے کہ صلح اور آشتی میں خیر ہے اس ظاہری خیر خواہی میں مکروفریب چھپا ہوا تھا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرما کر آپ ﷺ ان کے مشورہ پر ہرگز عمل نہ کریں کذافی البحر المحیط ص 210 ج 7 والنہر (ف 1) المراد ص 209 ج 7 مختصرا۔ 1 عبارۃ النھر ہکذا سبب نزولھا روی انہ لما قدم المدینۃ وکان یحب اسلام الیھود فبایعہ ناس فہم علی التفاق وکان یلین لہم جانبہ وکانوا یظھرون النصائح الودبیہ فی طرق المخادعۃ ولخلقہ الکریم وحرصہ علی اسلامہم ربما کان یسمع منہم فنزلت تحذیر الہ منہم وتنبیھا علی عداوتہم کذافی النھر المراد ص 209 ج 7۔ چناچہ فرماتے ہیں اے نبی آپ اللہ سے ڈرتے رہئے اور خشیت اور تقویٰ پر قائم رہئے اور جو لباس تقویٰ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو پہنایا ہے اس کو کافروں اور منافقوں کے گردوغبار سے محفوظ رکھیے اور کافروں اور منافقوں کا کہنا نہ مانیئے یعنی جو لوگ کفر کو ظاہر کرتے ہیں اور جو لوگ کفر کو چھپاتے ہیں یہ سب مکار ہیں آپ ﷺ ان سے مشورہ نہ لیجئے اور نہ ان کی بات سنیئے یہ لوگ آپ ﷺ ہمارے معبودوں کا برائی سے ذکر نہ کریں ہم آپ ﷺ سے تعرض کرنا چھوڑ دیں گے یا مثلا آپ ﷺ ہماری فلاں فلاں بائیں مان لیں تو ہم آپ ﷺ کے دین میں داخل ہوجائیں گے اللہ تعالیٰ نے بتلا دیا کہ آپ ﷺ ان کی چالوں میں نہ آئیے یہ اسلام کے دشمن ہیں آپ ﷺ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں اور ان کی دھمکیوں کی مطلق پرواہ نہ کیجئے اور اللہ کی غیبی فتح ونصرت کا انتظار کیجئے بیشک اللہ تعالیٰ ان کی سازشوں سے خبردار ہے اور حکمت والا ہے جو کچھ ہو رہا ہے وہ ابتلا ہے جو سراسر حکمتوں پر مبنی ہے وہ علیم و حکیم ہے اسے ہی سب کاموں کا انجام معلوم ہے اور اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں لہٰذا اطاعت اس ذات کی کی جائے گی جو عواقب امور کو خوب جانتا ہو اور جو ذات ظاہر و باطن کی علیم وخبیر ہے اسی سے ہر وقت ڈرتے رہنا چاہئے خدا سے ڈرنے والوں کو دشمن ضرر نہیں پہنچا سکتے لہٰذا تم ان کی قوت اور شوکت سے نہ ڈرو اللہ تمہارا ناصر اور معین ہے اور نہ ان کا کہنا مانو بلکہ جو کچھ تیرے پروردگار کی طرف سے وحی کی گئی پورا پورا اس کا اتباع کرو بیشک اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے اور تمہاری نیتوں سے خبردار ہے تمہارا ظاہر و باطن اس سے مخفی نہیں وحی الٰہی کے اتباع میں ذرہ برابر کوتاہی نہ ہونی چاہئے اور کسی کے خوف سے وحی الٰہی کے اتباع کو نہ چھوڑو بلکہ اللہ پر بھروسہ رکھو اور اللہ ہی کافی کارساز ہے اس کے کہنے پر چلو اور اسی پر بھروسہ رکھو وہ تمہارے سب کام بنا دے گا دشمنان دین سے ہراساں ہونے کی ضرورت نہیں۔ اب آئندہ آیات میں چند احکام اور ہدایات بیان کرتے ہیں اور چند باتوں کا رد کرتے ہیں جو وحی ربانی کے خلاف لوگوں میں شائع تھیں مثلاً زمانہ جہالت میں اگر کوئی اپنی بیوی کو ماں کہہ دیتا تو وہ ساری عمر کے لئے اس پر حرام ہوجاتی اور مثلاً اگر کوئی کسی کو بیٹا کہہ کر بولتا تو وہ اس کا سچا بیٹا بن جاتا اللہ تعالیٰ نے بتلا دیا کہ یہ باتیں غلط اور لغو ہیں جیسا کہ اہل جاہلیت کا یہ گمان غلط ہے کہ بعضے شخص کے اندر دو دل ہوتے ہیں پس جس طرح اہل جاہلیت کی یہ بات بالکل غلط اور لغو ہے اس لئے آئندہ احکام کے بیان سے پہلے بطور تمہید اسی کو بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی مرد کے اندر دو دل نہیں رکھے کہ ایک دل سے شک میں رہے اور ایک دل سے یقین کرے اور ایک دل سے سے ایمان لائے اور ایک دل سے کفر کرے ایک دل سے مسلمانوں کے ساتھ رہے اور ایک دل سے کافروں کے ساتھ رہے۔ کسی کے سینہ کو اگر چیر کر دیکھا جائے تو ایک ہی دل نکلے گا مطلب یہ ہے کہ دل تو ایک ہی ہوتا ہے چاہے اس میں کسی کی محبت بھر لو یا نفرت بھر لو منافقین کو چاہئے کہ دو رخی اور دو رنگی چھوڑ دیں منافقین دو طرفہ باتیں کیا کرتے تھے ان کی تنبیہ کے لئے یہ ارشاد فرمایا کہ ایک دل میں دو باتیں جمع نہیں ہوسکتیں یا یہ مطلب ہے کہ سارے دل سے ایک اللہ ہی کا ہو رہ دوسری طرف دل نہ لگا کسی شخص کے اندر دو دل نہیں ہوتے اور اگر بالفرض کسی کے دو دل ہوں تو دل تو مدبر بدن ہوتا ہے تو بتلایا جائے گا کہ اگر دو دلوں میں اختلاف ہوجائے ایک دل تو ایک تدبیر کا خواہاں ہو اور دوسرا دل دوسری تدبیر کا خواہاں ہو تو بتلاؤ کہ نظام بدن میں دونوں دلوں کی تدبیر چلے گی یا ایک دل کی تدبیر چلے گی اگر دونوں کی تدبیر چلی تو نظام بدن فاسد اور درہم برہم ہوجائے گا کیونکہ دلوں کی تدبیریں متضاد اور مختلف ہیں ایک دل چاہتا ہے کہا کہ اعضا حرکت کریں اور دوسرا دل سکون چاہتا ہے کہ اعضا ساکن رہیں اور اگر کہو کہ ایک ہی دل کی تدبیر چلتی ہے تو دوسرا بیکار ہوا اور مدبر بدن نہ رہا۔ یہ آیت قریش کے ایک شخص کے بارے میں نازل ہوئی جس کو قریش ذوالقلبین کہتے تھے یعنی دو دل والا اس کا زعم یہ تھا کہ اس کے دو دل ہیں ایک دل تو تمہارے ساتھ ہے اور دوسرا دل ان کے ساتھ ہے گویا کہ وہ اس طرح اپنے نفاق اور دو رنگی کی تاویل کیا کرتا تھا اس کے رد کے لئے یہ آیت نازل فرمائی جس سے جاہلیت کی ایک معروف ومشہور جہالت کا رد فرمایا اور اس کے بعد جاہلیت کی اور دو رسموں کو باطل فرمایا اور بتلایا کہ جس طرح ایک مرد کے دو دل نہیں ہوتے اسی طرح یہ ممکن نہیں کہ بیوی کو بیوی بھی سمجھے اور ماں بھی جانے اور لے پالک کو لے پالک بھی جانے اور بیٹا بھی جانے انسان کا قلب یعنی اس کی قوت ادراکیہ تو ایک ہی ہے وقت واحد میں دو متضاد ادراک کیسے کرسکتا ہے فائدہ : قلب سے مراد قوت ادراکیہ ہے محض مضغہء گوشت مراد نہیں اور اگر بالفرض شاذونادر کسی کے اندر ظاہرا دو دل یعنی دو مضغہء لحم ہوں بھی تو وہ قرآن کے خلاف نہیں اس لئے کہ قوت ادراکیہ یعنی نفس ناطقہ تو ایک ہی ہوگا کیونکہ قلب تو تمام قوائے ادراکیہ کا منبع ہے اور سرچشمہ ہے اس کا متعدد ہونا ناممکن ہے اور یہی نفس ناطقہ تمام بدن انسانی کے لئے مدبر ہے۔ حکایت : یہ آیت جمیل بن معمر فہری کے بارے میں نازل ہوئی جو قریش میں بڑا ہوشیار اور قوی الحافظہ آدمی تھا اس لئے قریش یہ کہا کرتے تھے کہ اس شخص کے دو دل ہیں اور وہ خود بھی کہتا تھا کہ میرے دو قلب ہیں اسی وجہ سے میں محمد سے زیادہ عقل رکھتا ہوں مگر بدر کے دن جب مشرکین میں بھگڈر پڑی تو جمیل اس طرح بھاگا کہ ایک جوتی ہاتھ میں ہے اور ایک جوتی پیر میں ہے کہنے لگا کہ میں تو یہی سمجھ رہا ہوں کہ دونوں جوتیاں پاؤں میں پہنا ہوا ہوں اس دن لوگوں کو معلوم ہوئی جس میں صراحۃ یہ بتلا دیا گیا کہ آدمی کے دو قلب (دو دل) نہیں ہوتے (تفسیر قرطبی ص 116 ج 14) اور اسلام سے پہلے عرب میں یہ دستور تھا کہ جو شخص اپنی عورت کو یہ کہہ دیتا کہ تو مجھ پر ماں کے برابر ہے تو اس کہنے سے اس عورت پر طلاق پڑجاتی اور وہ اس پر ہمیشہ کے لئے حرام ہوجاتی گویا کہ اس لفظ کے کہنے سے وہ اس کی حقیقی ماں بن جاتی اور ہمیشہ کے لئے حرام ہوجاتی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تمہارا یہ خیال اور اعتقاد جاہلانہ ہے اس کو ترک کرو جس طرح اللہ تعالیٰ نے کسی کے سینہ میں دو دل نہیں بنائے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے تمہاری ان عورتوں کو جن سے تم ظہار کرتے ہو اور ان کو ماں کہہ بیٹھتے ہو اللہ تعالیٰ نے ان کو واقعی سچ مچ تمہاری مائیں نہیں بنا دیا ماں کی اور بیوی کی حقیقت الگ الگ ہے دونوں ایک کیسے ہوسکتی ہے اللہ تعالیٰ نے اس قول زور کے لئے کفارہ مقرر کیا ہے جس کو کفارہ ظہار کہتے ہیں اس کفارہ کے دے دینے کے بعد بیوی حلال ہوجاتی ہے جس کی تفصیل سورة مجادلہ میں آئے گی غرض یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ بتلا دیا کہ اہل عرب کا یہ خیال غلط ہے ماں تو وہ ہے کہ جس کے پیٹ سے یہ پیدا ہوا ہو یہ کیسے ممکن ہے کہ دو عورتوں کے پیٹ سے پیدا ہو نیز زوجہ تو خادمہ ہوتی اور ماں مخدوسہ ہوتی ہے بیوی کا حقیقۃ والدہ ہوجانا عقلا محال ہے نیز آدمی بیوی سے محبت کرتا ہے اور ماں سے بیوی جیسی محبت حرام ہے اور اگر کوئی مان سے ایسی محبت جائز سمجھے تو وہ پرلے درجے کا بےغیرت اور بےحیا ہے لہٰذا ایسی بات زبان سے کہنا جہالت اور حماقت ہے اور زمانہء جاہلیت کی ایک رسم یہ تھی کہ اگر کسی نے کسی کو بیٹا کہہ لیا تو وہ اس کا سچ بیٹا سمجھ لیا تھا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ خیال اور اعتقاد بھی غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے منہ بولوں کو حقیقۃ تمہارا بیٹا نہیں بنایا انسان کا اصلی بیٹا وہ ہے جو اس کے نطفہ سے پیدا ہوا ہو یہ کیونکر ممکن ہے کہ منہ بولا بیٹا حقیقتاً بیٹا ہوجائے عقلا یہ بات کمال ہے کہ حقیقتاً بیٹا نہیں بن جاتا ورنہ اگر منہ بولا بیٹا حقیقۃً بیٹا ہوجائے تو نسب درہم برہم ہوجائے اور حقیقی بیٹے کا وراثت میں مزاحم ہوجائے اور دیگر اقارب کا بھی شریک وراثت ہوجائے اور اس طرح کسی کو بیٹا بنا لینا حقیقی اقارب پر صریح ظلم اور ستم ہے یہ سب جھوٹ اور لغو باتیں ہیں جو تمہارے منہ سے نکلی ہیں واقع میں ان کی کوئی حقیقت نہیں حیوان کی آواز کے مشابہ ہیں اور اللہ ہی ٹھیک بات کہتا ہے اور وہی سیدھی راہ بتاتا ہے جو حقیقت ہے اور واقع کے مطابق ہے اسی کی پیروی کرو تم کو چاہئے کہ لے پالکوں کو ان کے باپوں کی طرف نسبت کر کے پکارو یہی بات اللہ کے نزدیک پورا انصاف ہے منہ بولے بیٹا بنا لینا اور بیوی کو ماں بنا لینا صریح ظلم ہے اور اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو کہ ان کے باپوں کا کیا نام ہے تو وہ تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں اس نسبت سے تم انہیں پکار سکتے ہو یعنی ان کو بھائی اور دوست کہہ کر پکار سکتے ہو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں اور اگر تم اس حکم کے بعد بھی اپنے قدیم عادت کی بنا پر سہو اور خطا سے کسی کو اس کے فرضی باپ کی طرف نسبت کر کے پکارو تو تم پر اس چیز میں کوئی گناہ نہیں جو تم نے خطا سے کہہ دیا اور بلا اختیار سبقت لسانی سے تمہاری زبان سے نکل گیا لیکن گناہ اس چیز میں ہے کہ جس کا تمہارے دل قصہ کریں یعنی اگر قصدا باپ کے سوا دوسرے کی جانب نسبت کرو گے تو تم پر گناہ ہوگا اور اگر بھولے سے ایسا ہوجائے تو معاف ہے اور اللہ تعالیٰ خطا کار کو بخشنے والا ہے اور مہربان ہے قصدا کہنے کے بعد جو توبہ اور استغفار کرلے اسے بھی معاف کردیتا ہے ابتدا اسلام میں آنحضرت ﷺ نے زید بن حارثہ ؓ کو اپنا متبنی بنا لیا تھا اس لئے لوگ اپنے دستور کے مطابق زید بن محمد ﷺ پکارنے لگے جب یہ آیت نازل ہوئی تو سب زید بن حارثہ ؓ کہنے لگے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتلا دیا کہ زید بن حارثہ ؓ حقیقۃ آپ ﷺ کے بیٹے نہیں اب آگے یہ بتلاتے ہیں کہ نبی کریم اگرچہ نسبی طور پر کسی مسلمان کے باپ نہیں لیکن روحانی طور پر سب کے باپ ہیں اور ان کی جان سے زیادہ ان کے قریب ہیں اور نبی کی بیبیاں تمام مسلمانوں کی روحانی مائیں ہیں۔ اور نسبی ماؤں سے بڑھ کر واجب الاحترام ہیں اور نسبی باپ سے روحانی باپ کا درجہ بڑھا ہوا ہے نبی کی اور نبی کی ازواج مطہرات کی تعظیم اور احترام ماں باپ کی تعظیم سے زیادہ فرض ہے کیونکہ پیغمبر ہر کام میں اور ہر بات میں مسلمانوں پر ان کی جان سے زیادہ قریب ہے نبی خدا کا نائب ہے لوگوں کا اپنی جان ومال میں اتنا تصرف نہیں چلتا جتنا کہ نبی کا چلتا ہے لوگ خود اپنے اتنے خیر خواہ نہیں جتنا کہ نبی ان کا خیر خواہ ہے ان کے نفوس شر اور فساد کا حکم دیتے ہیں اور خیر اور صلاح سے روکتے ہیں اور نبی ان کو ہر خیر کا حکم دیتا ہے اور ہر شر سے منع کرتا ہے جیسے مشفق باپ نادان بچے کے ساتھ معاملہ کرتا ہے بچہ خود اپنا خیر خواہ نہیں جتنا کہ باپ اس کا خیر خواہ ہوتا ہے کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے آپ کو آگ میں ڈال دے لیکن اگر نبی حکم دے تو آگ میں کودنا فرض ہے باپ جسمانی حیات کا سبب ہے اور نبی ایمانی اور روحانی حیات کا سبب ہے غرض یہ کہ گذشتہ آیت میں نسبی ابوت کا مسئلہ بیان کیا اور اس آیت میں روحانی ابوت کا مسئلہ بیان کیا اب آئندہ آیت میں ازواج مطہرات کا مسئلہ بیان کرتے ہیں جو گذشتہ مسئلہ کی فرع اور اس کا تتمہ ہے اور پیغمبر کی بیبیاں مسلمانوں کی روحانی مائیں ہیں ماؤں سے بڑھ کر ان کی تعظیم فرض ہے اور یہ حکم باعتبار ادب اور احترام کے ہے پردہ اور میراث کے اعتبار سے نہیں ازواج مطہرات کی امومت یعنی ان کی مائیں ہونا صرف ادب اور احترام اور حرمت نکاح کے اعتبار سے ہے باقی اور امور میں وہ بالکل اجنبی عورتوں کی مانند ہیں اور ابی بن کعب ؓ اور ابن عباس ؓ کی ایک قرات میں اس طرح آیا ہے النبی اولی بال مومنین من انفسہم وھو اب لہم وازواجہ امھاتہم (تفسیر قرطبی ص 123 ج 14 وروح المعانی ص 126 ج 21) یعنی نبی کی عورتیں مسلمانوں کی مائیں ہیں اور نبی ان کے لئے باپ ہیں یعنی ان کے روحانی باپ ہیں اور ان کے مربی ہیں روحانی اعتبار سے نبی تمام مسلمانوں کا باپ ہے نبی نسبی باپ کی طرح نہیں کہ اس کے مال میں میراث جاری ہو سکے وہ روحانی اور ایمانی باپ ہے اور امت مسلمہ اس کی روحانی اولاد ہے جو آپس میں ایک دوسرے کے ایمانہ بھائی ہیں اور جس طرح نبی تمام اہل ایمان کا روحانی باپ ہے اسی طرح نبی کی ازواج مطہرات تمام مسلمانوں کی روحانی مائیں ہیں جو نسبی ماؤں سے بڑھ کر ہیں اور ان سے نکاح حرام ہے جس طرح اپنی نسبی ماؤں سے نکاح حرام ہے اور ماں سے بڑھ کر ازواج مطہرات کا ادب اور احترام فرض ہے مقام حیرت وتعجب ہے کہ رافضی گروہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اور حضرت حفصہ ؓ کے حق میں زبان درازی کرتا ہے بلکہ حضرت خدیجہ ؓ کے سوا تمام ازواج مطہرات کی شان میں گستاخانہ الفاظ زبان سے نکالتا ہے اور اس طرح سے اللہ کے نبی کو اور تمام فرزندان اسلام کو ایذا پہنچاتا ہے خلاصہء کلام یہ کہ حق جل شانہ نے ان آیات میں نبی کی جلالت شان اور اس کا واجب الاحترام ہونا بیان کیا اور بعدہ ازواج مطہرات کی کرامت و حرمت کو بیان کیا اب اس کے بعد اہل اسلام میں بحق قرابت حسب مرتبہ لحاظ رکھنے کا حکم دیتے ہیں اور بتلاتے ہیں کہ میراث کا دارو مدار قرابت پر ہے چونکہ ابتدا اسلام میں ہجرت اور دوستی اور بھائی چارہ کی وجہ سے میراث جاری ہوتی تھی آنحضرت ﷺ نے مہاجرین اور انصار کو آپس میں بھائی بھائی بنا دیا تھا اس بنا پر ایک دوسرے کا وارث ہوتا بعدہ جب مہاجرین کے رشتہ دار مسلمان ہوگئے تب یہ حکم منسوخ ہوگیا اور اسلام میں داخل ہوجانے کے بعد قدرتی رشتہ داروں کو میراث وغیرہ میں بھائی چارہ سے مقدم کردیا اور یہ حکم نازل ہوا کہ قرابت والے بحق قرابت حکم خداوندی میں میراث میں ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں بہ نسبت دوسرے مومنین اور مہاجرین کے جو قرابت نہ رکھتے ہوں ” مومنین “ سے انصار مراد ہیں ہجرت کے بعد آنحضرت ﷺ نے مہاجرین اور انصار میں بھائی چارہ کرا دیا تھا جس کی وجہ سے مہاجر اور انصاری مرنے کے بعد ایک دوسرے کی میراث پاتے تھے پھر اللہ تعالیٰ نے اس حکم کو منسوخ کردیا اور یہ حکم دے دیا کہ اب آئندہ سے میراث کا دارو مدار قدرتی رشتہ پر ہوگا نہ کہ اسلامی برادری پر مگر یہ کہ تم اپنی زندگی میں اپنے دوستوں کے ساتھ بطور وصیت کچھ سلوک اور احسان کرنا چاہو تو یہ جائز ہے اور تم کو اس کی اجازت ہے مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان اپنے رشتے داروں کے علاوہ کسی اور مسلمان مہاجر یا انصاری کے ساتھ سلوک کرنا چاہے اور اپنے مال میں سے کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے جس کی حد ثلث مال (تہائی مال) تک ہے جیسا کہ دوسری جگہ منصوص ہے یہ حکم لوح محفوظ میں یا قرآن میں لکھا جا چکا ہے کہ اب میراث کا دارو مدار قرابت اور رشتہ داری پر ہے اور اسی طرح ہمیشہ جاری رہے گا اور اب تک جو میراث کا حکم اسلام اور ہجرت اور مواخات کی بناہ پر دیا گیا ہے وہ ایک وقتی مصلحت اور ضرورت کی بنا پر تھا جو اب منسوخ ہوگیا صلہ رحمی اور سلوک اور احسان کا حکم اب بھی باقی ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ آئے تو مسلمان بھی اپنا گھر اور کنبہ جو کافر تھے سب کو چھوڑ کر مدینہ میں آ بسے آنحضرت ﷺ نے مہاجرین اور انصار میں مواخات (برادری) کا رشتہ قائم کردیا اور یہ منہ بولے بھائی ایک دوسرے کے وارث قرار دئیے گئے ایک عرصہ تک یہ دستور رہا کہ اس دینی اخوت کے دو بھائیوں (مہاجرین اور انصار) میں سے اگر ایک کا انتقال ہوجاتا تو دوسرا بھائی اس کا وارث قرار پاتا اور عصبات کو کچھ نہ ملتا بعد میں مہاجرین کے خویش و اقارب بھی مسلمان ہو کر مدینہ آگئے تو اس وقت ایمانی اخوت کے ساتھ قرابت نسبی بھی مل گئی تو اس وقت یہ آیت واولوا الارحام بعضہم اولی ببعض الخ نازل ہوئی اور حکم ہوگیا کہ اب میراث مسلمان اولوا الارحام کو یعنی ان خویش و اقارب کو ملے گی جو مسلمان ہیں اور منہ بولے بھائیوں کو میراث نہیں ملے گی اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قرابت اور رشتہ داری تو ارث کا مدار قرار دی گئی اور توارث بالہجرۃ اور توارث بالمواخاۃ اور بالحلف سب منسوخ ہوگیا دیکھو تفسیر قرطبی ص 124 ج 14۔ حضرت شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں یعنی صلہ ارحام واجب است وتوارث بہجرت واسلام منسوخ شد بتوارث بقرابت وارحام انتہی (فتح الرحمن) ان آیات میں اول روحانی باپ کا حق بیان کیا پھر روحانی ماؤں کا حق بیان کیا پھر ایمان بھائیوں کا حق اور حکم بیان کیا۔ نکتہ : ازواج مطہرات کا امہات المومنین ہونا جسم ظاہری کے اعتبار سے نہیں اس لئے کہ یہ امر ظاہر ہے کہ کل مومنین کی پیدائش ان کے پیٹ سے نہیں ہوئی بلکہ روحانی اعتبار سے ہے اور روحانیت کا غلبہ صرف مومنین کاملین پر ہوتا ہے عام طور پر غلبہ جسمانیت ہی کا ہوتا ہے اس لئے کہ یہ دنیا عالم اجسام ہے اس حیات دنیاوی میں غلبہ جسم ظاہری اور محسوسات ہی کا ہے اور حقیقت روحانیہ نظروں سے پوشیدہ ہوتی ہے اس لئے ازواج مطہرات ادب اور احترام میں اگرچہ جسمانی والدات سے کہیں بڑھ کر ہیں لیکن احکام ظاہری کے اعتبار سے مثلاً نظر اور خلوت کے لحاظ سے بمنزلہ اجنبیہ کے ہیں اس لئے کہ اندیشہ ہے کہ جسمانیت اور محسوسات کے آثار میں مبتلا ہو کر اپنے دین ودنیا کو نہ خراب کر بیٹھیں فافہم ذلک واستقم اس وجہ سے شیخ ابن کثیر (رح) لکھتے ہیں کہ یہ حکم تحریمی بالاجماع ازواج مطہرات کی لڑکیوں اور بہنوں کی طرف متعدی نہیں ہوتا حتی کہ آنحضرت ﷺ کی صاحبزادیوں کا نکاح حضرت عثمان ؓ اور حضرت علی ؓ سے ہوا۔
Top