Maarif-ul-Quran - Al-Ahzaab : 30
یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ مَنْ یَّاْتِ مِنْكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ یُّضٰعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَیْنِ١ؕ وَ كَانَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرًا
يٰنِسَآءَ النَّبِيِّ : اے نبی کی بیبیو مَنْ : جو کوئی يَّاْتِ : لائے (مرتکب ہو) مِنْكُنَّ : تم میں سے بِفَاحِشَةٍ : بیہودگی کے ساتھ مُّبَيِّنَةٍ : کھلی يُّضٰعَفْ : بڑھایا جائے گا لَهَا : اس کے لیے الْعَذَابُ : عذاب ضِعْفَيْنِ ۭ : دو چند وَكَانَ : اور ہے ذٰلِكَ : یہ عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ يَسِيْرًا : آسان
اے پیغمبر کی بیویو ! تم میں سے جو کوئی صریح ناشائستہ (الفاظ کہہ کر رسول اللہ کو ایذا دینے کی) حرکت کرے گی اس کو دونی سزا دی جائے گی اور یہ بات خدا کو آسان ہے
خطاب تکریم وتشریف بہ ضمن تنبیہ وتخویف قال اللہ تعالیٰ ینساء النبی من یات منکن بفاحشۃ مبینۃ یضعف لھا العذاب ضعفین وکان ذلک علی اللہ یسیرا۔ (ربط) گذشتہ آیات میں حضور پر نور ﷺ کے واسطہ سے ازواج مطہرات کو یہ حکم دیا گیا کہ نبی کی بیبیوں کے لئے مناسب نہیں کہ وہ زینت دنیا کی طرف نظر اٹھا کر دیکھیں اور جو عورتیں اللہ اور اس کے رسول کو اور دار آخرت کو اختیار کریں ان کے لئے اجر عظیم اور درجات عالیہ اور مراتب فائقہ کا وعدہ فرمایا اب آئندہ آیات میں حق جل شانہ خود ازواج مطہرات سے خطاب فرماتے ہیں اور آئندہ معصیت پر تنبیہ اور تخویف فرماتے ہیں کہ جس قدر مراتب بلند ہوتے ہیں اسی قدر خطر بھی عظیم ہوتا ہے جیسا کہ مکہ معظمہ میں نیکی کا اجر زیادہ ہے اسی قدر بدی کا گناہ بھی زیادہ ہے اس لئے (ف 1) اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات کی بزرگی ظاہر کرنے کے لئے اور تمام جہان کی عورتوں پر ان کی فضیلت اور خصوصیت ظاہر کرنے کے لئے یہ آیتیں ان کی کرامت میں نازل فرمائیں اور براہ راست ان کو مخاطب بنایا اور فرمایا اے نبی کی عورتو ! تمہارا مقام جہان کی سب عورتوں سے بڑھ کر ہے اس لئے کہ تم ایسے نبی کی عورتیں ہو جو تمام اولین اور آخرین سے افضل اور اکمل ہے لہٰذا تم میں سے بالفرض اگر کوئی عورت معصیت ظاہرہ اور کھلی بےحیائی کو عمل میں لاوے گی جو رسول کی ایذا کا خاص طور پر باعث بنے تو اس عورت کو بہ نسبت دوسری عورتوں کے دو چند اور دوہرا عذاب دیا جائے گا کیونکہ نبی کی بیبیوں سے گناہ کا سرزد ہونا بہت ہی برا ہے اور دوہرا گناہ ہے ایک خدا کا گناہ دوسرے نبی کی دل آزاری اور حق صحبت میں کو تاہی۔ فائدہ : ” فاحشہ مبینہ “ کے معنی صریح بدکاری کے ہیں صریح کی قید اس لئے لگائی کہ بعض کام بظاہر برے ہوتے ہیں مگر ان کی برائی صریح اور ظاہر نہیں ہوتی تو ان کے ارتکاب پر یہ سزا نہ ہوگی۔ صریح نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن اور حدیث میں اس کی برائی مذکور نہ ہو اور نہ صریح عقل سے اس کا برا ہونا ثابت ہو اور یہ دوہری سزا دینا اللہ پر بہت آسان ہے تمہاری عزت و کرامت اور نسبت زوجیت اور نساء نبی ہونا اللہ کو سزا دینے سے روک نہیں سکتی بلکہ یہ شرافت اور کرامت مزید سزا کا سبب ہے جیسے عالم بوجہ علم کے معصیت پر دوہری سزا کا مستحق ہے۔ 1 دیکھو صاوی حاشیہ جلالین ص 276 ج 3۔ فائدۂ اولی : ازواج مطہرات کو یہ خطاب بطور شرط ہے جس کے لئے وقوع ضروری نہیں اور شرط کا مطلب یہ ہے کہ اگر بالفرض والتقدیر تم سے کوئی معصیت سرزد ہوجائے تو جو سزا اوروں کو ملتی تم کو اس سے دوگنی سزا ملے گی جس سے مقصود محض تخویف اور تنبیہ ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ کے متعلق آیا ہے۔ لئن اشرکت لیحبطن عملک یعنی اگر بالفرض والتقدیر آپ ﷺ سے شرک سرزد ہوجائے تو آپ ﷺ کے اعمال حبط کر لئے جائیں گے اگرچہ پیغمبر خدا سے شرک کا سرزد ہونا محال ہے مقصود دوسروں کو سنانا ہے تاکہ شرک کی قباحت اور شناعت ان پر ظاہر ہوجائے۔ فائدہ دوم : ان تمام آیات سے ازواج مطہرات کی فضیلت اور بزرگی کو بیان کرنا مقصود ہے اور یہ بتلانا ہے کہ ان سے کبھی کوئی معصیت قبیحہ سرزد نہیں ہوگی اور یہ عورتیں محسنات اور مخلصات ہیں اور امہات المومنین ہیں اور نبی کی وفات کے بعد ان سے کوئی نکاح نہیں کرسکتا۔ فائدہ سوم : ازواج مطہرات باجماع صحابہ وتابعین دنیا اور آخرت میں آپ ﷺ کی زوجہ مطہرہ ہیں خصوصا حضرت علی ؓ اور حضرت عمار ؓ اور ابو موسیٰ اشعری ؓ وغیرہم نے صحابہ وتابعین کے ہزاروں اور لاکھوں کے مجمع میں بآواز بلند یہ اعلان کیا کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیہ ؓ دنیا اور آخرت میں نبی اکرم ﷺ کی زوجہ مطہرہ ہیں لہٰذا کسی اور گمراہ فرقہ کا یہ کہنا کہ ازواج مطہرات کا زوجہ رسول ہونا فقط دنیا تک محدود ہے صریح گمراہی ہے اور کسی رافضی کا یہ کہنا کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد حضرت علی ؓ نے حضرت عائشہ ؓ کو طلاق دے دی تھی یہ کفر بھی ہے اور صریح جھوٹ بھی ہے۔ لعنۃ اللہ علی الکاذبین۔ الحمد للہ آج بتاریخ 8 شوال المکرم 1392 یوم چہار شنبہ ظہر اور عصر کے درمیان اکیسویں پارہ کی تفسیر سے فراغت ہوئی وللہ الحمد اولا واخرا۔
Top