Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Ahzaab : 37
وَ اِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِیْۤ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِ اَمْسِكْ عَلَیْكَ زَوْجَكَ وَ اتَّقِ اللّٰهَ وَ تُخْفِیْ فِیْ نَفْسِكَ مَا اللّٰهُ مُبْدِیْهِ وَ تَخْشَى النَّاسَ١ۚ وَ اللّٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشٰىهُ١ؕ فَلَمَّا قَضٰى زَیْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنٰكَهَا لِكَیْ لَا یَكُوْنَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِیْۤ اَزْوَاجِ اَدْعِیَآئِهِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا١ؕ وَ كَانَ اَمْرُ اللّٰهِ مَفْعُوْلًا
وَاِذْ
: اور (یاد کرو) جب
تَقُوْلُ
: آپ فرماتے تھے
لِلَّذِيْٓ
: اس شخص کو
اَنْعَمَ اللّٰهُ
: اللہ نے انعام کیا
عَلَيْهِ
: اس پر
وَاَنْعَمْتَ
: اور آپ نے انعام کیا
عَلَيْهِ
: اس پر
اَمْسِكْ
: روکے رکھ
عَلَيْكَ
: اپنے پاس
زَوْجَكَ
: اپنی بیوی
وَاتَّقِ اللّٰهَ
: اور ڈر اللہ سے
وَتُخْفِيْ
: اور آپ چھپاتے تھے
فِيْ نَفْسِكَ
: اپنے دل میں
مَا اللّٰهُ
: جو اللہ
مُبْدِيْهِ
: اس کو ظاہر کرنے والا
وَتَخْشَى
: اور آپ ڈرتے تھے
النَّاسَ ۚ
: لوگ
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
اَحَقُّ
: زیادہ حقدار
اَنْ
: کہ
تَخْشٰىهُ ۭ
: تم اس سے ڈرو
فَلَمَّا
: پھر جب
قَضٰى
: پوری کرلی
زَيْدٌ
: زید
مِّنْهَا
: اس سے
وَطَرًا
: اپنی حاجت
زَوَّجْنٰكَهَا
: ہم نے اسے تمہارے نکاح میں دیدیا
لِكَيْ
: تاکہ
لَا يَكُوْنَ
: نہ رہے
عَلَي
: پر
الْمُؤْمِنِيْنَ
: مومنوں
حَرَجٌ
: کوئی تنگی
فِيْٓ اَزْوَاجِ
: بیویوں میں
اَدْعِيَآئِهِمْ
: اپنے لے پالک
اِذَا
: جب وہ
قَضَوْا
: پوری کرچکیں
مِنْهُنَّ
: ان سے
وَطَرًا ۭ
: اپنی حاجت
وَكَانَ
: اور ہے
اَمْرُ اللّٰهِ
: اللہ کا حکم
مَفْعُوْلًا
: ہوکر رہنے والا
اور جب تم اس شخص سے جس پر خدا نے احسان کیا اور تم نے بھی احسان کیا (یہ) کہتے تھے کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رہنے دو اور خدا سے ڈر اور تم اپنے دل میں وہ بات پوشیدہ کرتے تھے جس کو خدا ظاہر کرنے والا تھا اور تم لوگوں سے ڈرتے تھے حالانکہ خدا اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس سے ڈرو پھر جب زید نے اس سے (کوئی) حاجت (متعلق) نہ رکھی (یعنی اس کو طلاق دے دی) تو ہم نے تم سے اس کا نکاح کردیا تاکہ مومنوں کے لئے انکے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں (کے ساتھ نکاح کرنے کے بارے) میں جب وہ ان سے (اپنی) حاجت (متعلق) نہ رکھیں (یعنی طلاق دے دیں) کچھ تنگی نہ رہے اور خدا کا حکم واقع ہو کر رہنے والا تھا
(بقیہ پچھلی آیت میں) خلاصہ کلام یہ کہ مولانا محمد قاسم نانوتوی (رح) کے کلام معرفت التیام کا حاصل یہ ہے کہ خاتمیت ایک جنس ہے جس کی دو قسمیں ہیں ایک زمانی اور دوسرے رتبی۔ خاتمیت زمانیہ کے معنی یہ ہیں کہ حضور پر نور سب سے اخیر زمانہ میں تمام انبیا کے بعد مبعوث ہوئے اور اب آپ کے بعد قیامت تک کوئی نبی مبعوث نہ ہوگا اور خاتمیت رتبہ کے معنی یہ ہیں کہ نبوت و رسالت کے تمام کمالات اور مراتب حضور پر نور ﷺ پر ختم ہیں اور حضور پر نور ﷺ دونوں اعتبار سے خاتم النبیین ہیں زمانہ کے اعتبار سے بھی اور مراتب نبوت اور کمالات رسالت کے اعتبار سے بھی خاتم ہیں۔ حضور ﷺ کی خاتمیت فقط زمانی نہیں بلکہ زمانی اور رتبی دونوں قسم کی خاتمیت حضور ﷺ کو حاصل ہے اور حضور ﷺ کی خاتمیت زمانیہ قرآن اور حدیث متواتر اور اجماع امت سے ثابت ہے جس پر ایمان لانا فرض ہے اور حضور ﷺ کی خاتمیت زمانیہ کا منکر ایسا ہی کافر ہے۔ جیسا کہ رکعات نماز کا منکر کافر ہے۔ اطلاع : اس ناچیز نے حضرت مولانا قاسم (رح) اور شیخ محی الدین ابن عربی (رح) کے کلام کی تحقیق میں ایک مستقل رسالہ بھی لکھ دیا ہے اس کو بھی دیکھ لیا جائے۔ (4) ایک شبہ اور اس کا ازالہ خاتم النبیین کے معنی یہ ہیں کہ حضور پر نور ﷺ کے بعد کسی نبی نہیں بنایا جائے گا اور آپ ﷺ کے بعد کسی کو منصب نبوت عطا نہیں کیا جائے گا۔ لہٰذا اخیر زمانہ میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا آسمان سے نزول ختم نبوت کے منافی نہیں اس لئے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) آنحضرت ﷺ سے چھ سو سال پہلے نبی بنائے گئے اور صرف بنی اسرائیل کے لئے نبی بنا کر بھیجے گئے اور پھر اسی جسم عنصری کے ساتھ زندہ آسمان پر اٹھا لئے گئے اور قیامت کے قریب آسمان سے اسی سابق جسم کے ساتھ نازل ہوں گے کوئی دوسرا جسم نہ ہوگا اور نہ یہ کوئی دوسرا جنم ہوگا اور وہ نزول بحیثیت نبوت و رسالت کے نہ ہوگا۔ اور وہ اس امت کی طرف نبی بنا کر نہیں بھیجے جائیں گے بلکہ بحیثیت نبوت و رسالت کے نہ ہوگا۔ اور وہ اس امت کی طرف نبی بنا کر نہیں بھیجے جائیں گے بلکہ بحیثیت خلافت ہوگا یعنی خاتم الانبیاء کے خلیفہ ہونے کی حیثیت سے ان کا نزول ہوگا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آپ ﷺ سے پہلے نبی بنائے جا چکے ہیں اور نبی نبوت سے کبھی معزول نہیں ہوتا اس لئے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نزول کے بعد نبی اور رسول بھی ہوں گے اور حسب سابق اپنی نبوت و رسالت پر قائم ہوں گے لیکن خاتم الانبیاء (علیہ السلام) کے تابع ہوں گے آپ ﷺ ہی کی شریعت پر عمل کریں گے اور آپ ﷺ ہی کے قبلہ کی طرف منہ کر کے آپ ﷺ کی شریعت کے مطابق نماز پڑھیں گے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نزول کے بعد اگرچہ نبی اور رسول ہوں گے مگر آپ ﷺ ہی کی شریعت کے تابع ہوں گے ان کا تمام عمل کتاب وسنت اور شریعت پیغمبر آخر الزمان کے مطابق ہوگا اور اسی معنی کو آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ لو کان موسیٰ حیاما وسعہ الا اتباع۔ یعنی اگر موسیٰ (علیہ السلام) زندہ ہوتے تو انہیں میری متابعت کے بغیر چارہ نہ ہوتا اسی طرح سمجھو کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نزول کے بعد حضور پر نور ﷺ اور آپ ﷺ کی شریعت کے تابع ہوں گے جس طرح حضرت ہارون (علیہ السلام) نبی تھے مگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے تابع اور ان کے وزیر تھے اور حضرت لوط (علیہ السلام) نبی تھے مگر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شریعت کے تابع تھے اور یحییٰ (علیہ السلام) نبی تھے مگر زکریا (علیہ السلام) کے تابع تھے اسی طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان سے نازل ہونے کے بعد خاتم النبیین کے وزیر اور خلیفہ اور تابع ہوں گے اور جب ایک زمانہ میں بیک وقت ایسے دو نبی کر ہوسکتے ہیں کہ ایک نبی دوسرے نبی کا تابع ہو تو ایک نبی کے گذر جانے کے بعد دوسرا نبی جو پہلے سے نبی ہوچکا ہے آنے والے نبی کے تابع ہوجائے تو اس میں کیا حرج ہے آخر انبیاء بنی اسرائیل موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد توریت پر عمل کرتے تھے اور شریعت موسویہ کے مطابق فیصلے کرتے تھے۔ کما قال تعالی۔ ولقد اتینا موسیٰ الکتب وقفینا من بعدہ بالرسل۔ وقال تعالیٰ انا انزلنا التوراۃ فیھا ھدی ونور یحکم بھا النبیون الذین اسلموا للذین ھادوا والربانیون والاحبار۔ معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جن کو خاتم الانبیاء سے پہلے مل چکی ہے ان کا دنیا میں نازل ہونا ختم نبوت کے منافی نہیں البتہ کسی نئے شخص کا دعوائے نبوت خاتم النبیین کے خلاف ہے۔ اور یہی دعوائے نبوت اس مدعی کے کذاب اور دجال ہونے کی صریح دلیل ہے۔ مرزائے قادیان کا گمان ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول سے تو ختم نبوت کی مہر ٹوٹ جائے گی مگر قادیان کے ایک دہقان کے دعوائے نبوت سے ختم نبوت کی مہر نہیں ٹتی۔ (5) نکتہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اس امت کی طرف پیغمبر بنا کر نہیں بھیجے جائیں گے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت صرف بنی اسرائیل کی طرف تھی۔ ورسولا الی بنی اسرائیل پھر وہ آسمان پر اٹھا لئے گئے اور ان کا زمانہ بعثت ختم ہوگیا اب اخیر زمانہ میں جب ان کا نزول ہوگا اور وہ نزول امت محمدیہ کی مدد کے لئے ہوگا۔ آخر زمانہ میں کافروں کا غلبہ ہوگا اور ان کا سردار دجال خبیث ہوگا جس سے بطور استدراج عجیب و غریب خوارق کا ظہور ہوگا۔ مردوں کو زندہ کرے گا اور بادل سے کہے گا کہ پانی برسا تو وہ اسی وقت برسنے لگے گا۔ اس کے ہلاک کرنے کے لئے حضرت مسیح بن مریم (علیہ السلام) آسمان سے نازل ہوں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے زمانہ نبوت میں اسی قسم کے معجزات عطا کئے تھے اور اجل مقدر سے پہلے آسمان پر اٹھائے گئے پس اخیر زمانہ میں اللہ تعالیٰ اپنے مسیح طیب کو اس مسیح خبیث یعنی دجال کی ہلاکت کے لئے نازل فرمائیں گے تاکہ وہ نزول کے بعد اپنی دنیاوی حیات پوری کریں اور اس زندگی میں امت محمدیہ کی مدد کریں کہ امت محمدیہ کو دجال کے فتنہ سے نجات دلائیں۔ واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔ (6) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) چونکہ خاتم النبیین نہ تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں خبر دے دی کہ ان کے بعد ان کی ذریت میں نبوت کا سلسلہ جاری رہے گا۔ کما قال تعالیٰ وجعلنا فی ذریتہ النبوۃ والکتب چناچہ ان کی اولاد میں ہزاروں سال نبوت کا سلسلہ جاری رہا اور علی ہذا موسیٰ (علیہ السلام) بھی خاتم النبیین نہ تھے اس لئے انہوں نے بھی اپنے بعد آنے والے نبیوں کی اور خاص کر نبی اکرم ﷺ کے ظہور کی خبر دی کہ اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے یعنی بنی اسمعیل میں سے مجھ جیسا ایک نبی برپا کرے گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالے گا اور خبر دی کہ اخیر زمانہ میں اللہ کا نور فاران کی چوٹیوں سے چمکے گا اور علی ہذا داؤد (علیہ السلام) خاتم النبیین نہ تھے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی طرح انہوں نے بھی نبی آخر الزمان ﷺ کے ظہور کی خبر دی اور خلفاء راشدین کی بھی خبر دی کہ اس نبی آخر الزمان کے خلیفہ اور جانشین ایران اور شام وغیرہ کی زمینوں کے وارث ہوں گے۔ کما قال تعالی۔ ولقد کتنبا فی الذبور من بعد الذکر ان الارض یرثھا عبادی الصلحون۔ اس آیت میں بالاتفاق عباد صالحین سے صحابہ کرام مراد ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ قیصرو کسریٰ کی سلطنت کے اور تخت وتاج کے وارث خدا کے نیک بندے ہوں گے نبی نہ ہوں گے بلکہ نبی آخر الزمان کے خلفاء راشدین ہوں گے جس کی تفصیل سورة انبیاء میں گزر چکی ہے۔ اور علیٰ ہذا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی چونکہ خاتم النبیین نہ تھے اس لئے انہوں نے اپنے بعد آنے والے فارقلیط کی بشارت دی۔ کما قال تعالی۔ واذ قال عیسیٰ ابن امریم یبنی اسراء یل انی رسول اللہ الیکم مصدقا لما بین یدی من التوراۃ ومبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد۔ اور توریت اور زبور اور انجیل کی انہی بشارات کی بنا پر ہر زمانہ میں علماء یہود اور نصاریٰ نبی آخر الزمان کے آمد کے منتظر رہے کیونکہ سب کو یقین تھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ خاتم النبیین نہ تھے۔ اور سرور عالم سیدنا محمد رسول اللہ (علیہ السلام) چونکہ خاتم النبیین تھے اس لئے آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ میں خاتم النبیین ہوں اور آخری نبی ہوں میرے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں اور کبھی یہ نہیں فرمایا کہ میرے بعد ایران یا قادیان یا ہندوستان میں کسی جگہ کوئی نبی ظاہر ہو تو تم اس کی پیروی کرنا جیسا کہ انبیاء سابقین اپنے بعد آنے والے نبیوں کی خبر دیتے رہے آپ ﷺ نے اس قسم کی کوئی خبر نہیں دی بلکہ بار بار یہ فرمایا کہ میرے بعد مطلقا جو نبوت کا دعویٰ کرے وہ دجال اور کذاب ہے اور ایک حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ بنی اسرائیل میں نبوت کا دعویٰ کرے وہ دجال اور کذاب ہے اور ایک حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ بنی اسرائیل میں نبوت کا سلسلہ جاری تھا ایک نبی کے بعد دوسرا نبی آتا مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں اور بار بار آپ ﷺ نے اس کا اعلان فرمایا کہ تم آخری امت ہو اور میں آخری نبی ہوں اور فرمایا بالفرض میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمر ؓ ہوتے اور ظاہر ہے کہ اگر عمر ؓ نبی ہوتے تو مستقل نبی نہ ہوتے بلکہ آپ ﷺ کی شریعت کے تابع ہوتے۔ اور ایک حدیث میں ہے کہ اے علی ؓ تو میرے لئے بمنزلہ ہارون (علیہ السلام) کے ہے لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں نہ تشریعی اور نہ غیر تشریعی۔ اس لئے ہارون (علیہ السلام) موسیٰ (علیہ السلام) کے تابع تھے اسی طرح حضرت علی ؓ آپ ﷺ کے تابع ہوتے مستقل نبی نہ ہوتے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں نہ تشریعی اور نہ غیر تشریعی اور حضرت عمر ؓ اور حضرت علی ؓ کے متعلق جو آیا ہے وہ حکم فرضی اور تقدیری ہے کہ اگر بالفرض والتقدیر میرے بعد ہوتے تو یہ لوگ ہوتے لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں اور اسی طرح آپ ﷺ کا یہ ارشاد کہ :۔ (اگر میرا فرزند ابراہیم ؓ زندہ رہتا تو نبی اور صدیق ہوتا) یہ کلام بھی فرضی اور تقدیری ہے جس سے یہ بتلانا ہے کہ مجھ پر نبوت ختم ہوچکی ہے میرے بعد نبی ہو کر آنا محال اور ناممکن ہے اس قسم کا کلام کسی چیز کا امکان ظاہر کرنے کے لئے نہیں ہوتا بلکہ اس کے محال اور ناممکن ظاہر کرنے کے لئے ہوتا ہے کما قال تعالیٰ لو کان فیھما الھۃ الا اللہ لفسدتا۔ قرآن کریم نے جس طرح اس بات کی خبر دی ہے کہ توریت اور انجیل میں نبی کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم کی بشارتیں موجود ہیں اسی طرح قرآن کریم نے یہ خبر دی ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام کی صفات اور بشارات بھی توریت اور انجیل میں مذکور ہیں کما قال تعالی۔ مثلہم فی التورۃ ومثلہم فی الانجیل۔ الی اخر السورۃ۔ اور اس کے علاوہ بیشمار آیتیں صحابہ کرام کی مدح میں نازل ہوئیں تو کیا صحابہ کرام میں سے ایک شخص بھی اس قابل نہ ہوا کہ حضور پر نور ﷺ کا نام پا سکے اور ظلی یا بروزی یا کسی قسم کی نبوت اس کو مل سکے۔ تیرہ سو برس تک نبوت کا دروازہ بند رہا صرف مرزا قادیان کے لئے کھلا اور پھر قیامت تک کے لئے بند ہوگیا۔ اور مرزا صاحب کے بعد مرزا صاحب کے جن مریدوں نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ ہم مرزا صاحب کے ظل اور بروز ہیں ان کو بھی مرزا صاحب نے کافر اور مرتد اور واجب القتل کہہ کر اپنے سلسلہ سے خارج کردیا گویا کہ مرزا صاحب کے لئے تو نبوت کا دروازہ کھلا ہوا ہے اور باقی سب کے لئے بند ہے اس چودہ سو سال کی مدت میں آنحضرت ﷺ کی مہر صرف مرزا نے قادیان کو نبی بنا سکی اور مرزا کے بعد وہ مہر ختم ہوگئی یا اس مہر کی صلاحیت ختم ہوگئی کہ اب اس مہر سے قیامت تک کوئی نبی نہیں بن سکتا۔ جس کا صاف مطلب یہ نکلا کہ دراصل خاتم النبیین اور آخری نبی مرزائے قادیان ہے اور آنحضرت ﷺ کی ختم نبوت حقیقی اور پوری نہ تھی آپ ﷺ کے بعد مرزا صاحب کے لئے تو نبوت کا دروازہ کھلا ہوا تھا مگر مرزا صاحب کے بعد نبوت کا دروازہ مکمل طور پر بند ہوگیا کہ اب کوئی فرد بشر اس میں داخل نہیں ہوسکتا۔ خلاصہ : یہ کہ قرآن اور حدیث سے یہ امر روز روشن کی طرح واضح ہے کہ حضور پرنور خاتم النبیین ﷺ اور آخری نبی ہیں آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں اور آیات اور احادیث میں ظلی اور بروزی نبی کی کوئی قید نہیں بلکہ مطلق نبوت کی نفی ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کسی قسم کی نبوت نہیں ملے گی اور آپ ﷺ کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں ہوسکتا نہ تشریعی اور نہ غیر تشریعی اور نہ ظلی اور نہ بروزی۔ مسیلمہء قادیان کا ہذیان بہرحال ختم نبوت مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ ہے اور مسیلمہء قادیان یعنی مرزا غلام قادیانی ختم نبوت کا منکر اور بقاء نبوت کا مدعی ہے کبھی کہتا ہے کہ میں مستقل نبی اور رسول ہوں اور کمالات نبوت میں تمام انبیا ومرسلین سے برتر اور بڑھ کر ہوں۔ چناچہ نزول المسیح کے ص 99 پر لکھا ہے۔ انبیاء گرچہ بودہ اندب سے من بعرفاں نہ کمترم زکسے آنچہ دادہ ست ہر نبی را جام داد آں جام مرا بتمام اس قسم کے اشعار سے صاف ظاہر ہے کہ مرزائے قادیان اپنے کو انبیاء کا ہمسر بھی نہیں بلکہ ان سے برتر اور بہتر سمجھتا ہے اور اس قسم کی بیشمار عبارتیں اس کی کتابوں میں موجود ہیں۔ مگر مرزا اپنی پردہ پوشی کے لئے اور مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لئے اور مخالفین کو خاموش کرنے کے لئے اپنے آپ کو ظلی اور بروزی نبی بتلاتا ہے اور کہتا ہے کہ میری نبوت۔ نبوت محمد یہ سے کوئی علیحدہ چیز نہیں اور اس سے مہر نبوت نہیں ٹوٹتی اور کبھی کہتا ہے کہ میں عین محمد ﷺ ہوں۔ سبحان اللہ۔ کیا مرزا کے والد کا نام عبد اللہ اور اس کی والدہ کا نام آمنہ اور اس کی بیٹی کا نام فاطمہ ؓ تھا مرزا کا یہ کہنا کہ میں عین محمد ہوں اگر اس کا یہ مطلب ہے کہ میں حقیقۃً اور واقعی عین محمد ہوں تو یہ کھلا ہوا کفر ہے اور آنحضرت ﷺ کے ساتھ استہزاء اور تمسخر ہے اور اگر واقع میں عین محمد نہیں تو پھر فی الحقیقت دوسرے نبی بنے جس سے ختم نبوت کی مہر ٹوٹی۔ اور کبھی کہتا ہے کہ میں غیر تشریعی اور غیر مستقل نبی ہوں اور کہتا ہے کہ حدیث لا نبی بعدی کے معنی یہ ہیں کہ میرے بعد کوئی مستقل اور صاحب شریعت نبی نہ ہوگا۔ اور کبھی کہتا ہے کہ میں ظلی اور بروزی نبی ہوں مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ میں رام چندر اور کرشن بھی ہوں یعنی ان کا بھی ظل اور بروز ہوں۔ ہر طرف ہاتھ مارتا ہے۔ ہندوؤں کا اوتار اور مسلمانوں کا نبی بننا چاہتا ہے۔ غرض یہ کہ مرزا کا کہنا کہ میں آنحضرت ﷺ کا ظل اور بروز ہوں محض لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے اور کفر اور دجل کو چھپانے کے لئے ہے ورنہ مرزا اور حقیقت بصد صراحت نبوت تشریعیہ اور مستقلہ کا مدعی ہے اور اپنی وحی کو قرآن کی طرح واجب الایمان قرار دیتا ہے اور اپنے منکر اور متردد کو کافر اور جہنمی قرار دیتا ہے۔ حالانکہ خود مرزا کا اقرار ہے کہ صرف صاحب شریعت نبی کے انکار سے کافر ہوتا ہے ملہم من اللہ کے انکار سے کافر نہیں ہوتا۔ مرزا نے مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لئے چند الفاظ ظلی اور بروزی کے گھڑے ہیں جن کی قرآن اور حدیث میں کوئی اصل نہیں اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ خود مرزا کے کلام سے ان الفاظ کی حقیقت واضح کردی جائے بروزی اور ظلی نبوت کی حقیقت مرزائے قادیان حقیقۃ النبوۃ ص 265 وص 266 پر بحوالہ ” ایک غلطی کا ازالہ “ لکھتا ہے۔ مگر میں کہتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ ۔ جو در حقیقت خاتم النبیین تھے مجھے رسول اور نبی کے لفظ سے پکارا جانا کوئی اعتراض کی بات نہیں اور نہ اس سے مہر ختمیت ٹوٹتی ہے کیونکہ میں بارہا بتلا چکا ہوں کہ میں بموجب آیت واخرین منہم لما یلحقوا بہم۔ بروزی طور پر وہی نبی خاتم الانبیاء ہوں اور خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا ہے اور مجھے آنحضرت ﷺ ہی کا وجود قرار دیا جائے پس اس طور سے آنحضرت ﷺ کے خاتم الانبیاء ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا کیونکہ ظل اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا۔ اس عبارت کا صاف مطلب یہ ہے کہ مرزا صاحب کو نبوت ملنے سے آنحضرت ﷺ کی خاتمیت نبوت میں کوئی فرق نہیں آتا کیونکہ میں آپ کا ظل اور سایہ ہوں اور سایہ اصل کا غیر نہیں ہوتا یعنی میں آپ ﷺ کا عین ہوں اور میرا نام بھی محمد اور احمد ہے اس لئے میں بعینہ محمد ﷺ ہوں۔ اور تریاق القلوب حاشیہ ص 377 میں خود مرزا لکھتا ہے۔ غرض جیسا کہ صوفیوں کے نزدیک مانا گیا ہے کہ مراتب وجود دوریہ ہیں اسی طرح ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی خو اور طبیعت اور دلی مشابہت کے لحاظ سے تقریبا اڑھائی ہزار برس اپنی وفات کے بعد عبد اللہ بن عبد المطلب کے گھر میں جنم لیا اور محمد ﷺ کے نام سے پکارا گیا۔ اور کتاب قول فیصل ص 6 میں بحوالہ اخبار الحکم 24 اپریل 1903 ء مرزا کا قول اس طرح نقل کیا گیا ہے۔ ” کمالات متفرقہ جو تمام دیگر انبیاء میں پائے جاتے ہیں وہ سب حضرت رسول کریم ﷺ میں ان سے بڑھ کر موجود تھے اور اب وہ سارے کمالات حضرت رسول کریم ﷺ سے ظلی طور پر ہم کو عطا کئے گئے۔ پہلے تمام انبیا ظلی تھے۔ نبی کریم ﷺ کی خاص خاص صفات میں اب ہم ان تمام صفات میں نبی کریم کے ظل ہیں۔ “ ان عبارات میں مرزائے قادیان نے اپنے آپ کو ظلی اور بروزی نبی کہہ کر دنیا کو دھوکہ دیا ہے کہ میری نبوت آنحضرت ﷺ کی نبوت سے علیحدہ کوئی چیز نہیں لہٰذا اس سے مہر نبوت نہیں ٹوٹتی۔ کیونکہ میں نبی کریم ﷺ کا ظل اور بروز ہوں اور آپ ﷺ کا سایہ ہوں اور سایہ اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا۔ (1) یہ سب لغو اور باطل اور بیہودہ خیال ہے اور عقلا ونقلا محال ہے اگر بروز سے مرزائے قادیان کا یہ مطلب ہے کہ روح محمدی نے تیرہ سو سال کے بعد مرزا کے جسم میں جنم لیا ہے اور روح محمدی بطریق تناسخ مرزائے قادیان کے جسم میں حلول کر آئی ہے تو یہ عقیدہ اسلام میں کفر ہے یہ عقیدہ تو ہندوؤں کا ہے جو تناسخ کے قائل ہیں اور قیامت کے اور حشر ونشر کے منکر ہیں پس اگر بروزی نبوت سے مرزا کی یہ مراد ہے کہ آنحضرت ﷺ کی روح مبارک تیرہ سو سال بعد اعلیٰ علیین سے اور مدینہ منورہ سے چل کر قادیان آئی اور پھر مرزا غلام احمد کے جسم میں اس کا بروز ہوا تو یہ بعینہ تناسخ ہے جس کے ہندو اور آریہ قائل ہیں کہ مرنے کے بعد ارواح فنا نہیں ہوتیں بلکہ ہوا میں پھرتے رہتی ہیں اور جب کوئی مردہ جسم پاتی ہیں تو اس میں گھس جاتی ہیں اور پھر اس میں یہ پاندی نہیں کہ انسان کی روح انسان ہی کے جسم میں داخ ہو بلکہ گدھے اور کتے وغیرہ کے کے جسم میں بھی داخل ہوجاتی ہے غرض یہ کہ اگر بروز سے مرزا کی بھی یہی مراد ہے تو یہ حقیقت تناسخ ہے۔ (2) نیز تریاق القلوب کی عبارت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مرزا کے نزدیک حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا بروز تھا اور حقیقت ابراہیمی اور حقیقت محمدی ایک تھی اور دونوں ایک دوسرے کے عین تھے کیونکہ مرزا کے نزدیک ظل اور صاحب ظل میں عینیت ہوتی ہے اور اسی وجہ سے مرزا اپنے آپ کو عین محمد ﷺ کہتا ہے اور یہ بات بالکل غلط ہے اس لئے کہ اس سے صاف طور پر لازم آتا ہے کہ سرور عالم محمد ﷺ معاذ اللہ بذات خود کوئی مستقل چیز نہ تھے نہ آپ کا وجود مستقل تھا اور نہ آپ ﷺ کی نبوت کوئی مستقل شے تھی۔ بلکہ آپ ﷺ کا تشریف لانا بعینہ ابراہیم (علیہ السلام) کا تشریف لانا تھا گویا کہ ابراہیم (علیہ السلام) تو اصل رہے اور آنحضرت ﷺ ان کا ظل اور بروز ہوئے جس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی نبوت مستقل نہ تھی بلکہ ظلی اور بروزی تھی۔ اصل نبوت تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تھی اور حضور ﷺ کی نبوت۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نبوت کا ظل اور بروز تھی۔ اصل تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تھے اور محمد رسول اللہ ﷺ ان کی نبوت کا آئینہ تھے اور یہ صریح کفر ہے۔ (3) نیز عبارت مذکورہ بالا کی بنا پر جب رسول اللہ ﷺ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا بروز اور ظل ہوئے اور خاتم النبیین آپ ﷺ ہی ہوئے تو اس سے یہ لازم آیا کہ اصل خاتم النبیین حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہیں نہ کہ آنحضرت ﷺ ۔ کیونکہ بقول مرزا سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ظل اور بروز ہیں جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اصل خاتم النبیین تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہیں اور سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ ظلی اور بروزی خاتم النبیین ہیں اور فقط سایہ ابراہیمی ہیں اور اگر یہ کہو کہ باوجود ظل اور بروز ہونے کے اصل خاتم النبیین سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ ہی ہیں نہ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام۔ تو پھر بقول مرزا یہ لازم آئے کہ اصل خاتم النبیین تو مرزائے قادیان ہو جو کہ خاتم النبیین ﷺ کے ظل اور بروز ہونے کا مدعی ہے نہ کہ آنحضرت ﷺ یعنی اصلی خاتم النبیین تو مرزا ہوا۔ اور آنحضرت ﷺ کی ختم نبوت محض ظلی اور بروزی اور مجازی ہوجائے اور ظاہر ہے کہ یہ امر بھی صریح کفر ہے۔ (4) نیز الحکم کی عبارت مذکورہ بالا سے یہ ثابت ہوا کہ آنحضرت ﷺ تمام کمالات رسالت کے جامع تھے تو پھر جب بقول مرزا آنحضرت ﷺ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ظل اور بروز ہوئے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اصل مجمع کمالات حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تھے کہ آنحضرت ﷺ کیونکہ آپ ﷺ تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ظل اور بروز تھے اور اصل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تھے اور یہ صریح توہین ہے سرور عالم ﷺ کی اور صریح کفر ہے۔ (5) نیز مرزا نے جو بروز اور ظل کا افسانہ گھڑا ہے وہ بظاہر ہندوؤں کے عقیدہ تناسخ دوسرے جون میں کسی بدن میں آجائے تو وہ بعینہ پہلا شخص ہوگا اور اس کے وہی حقوق ہوں گے جو اس شخص کے پہلے جون میں تھے مثلا فرض کرو کہ کوئی شخص پہلے جون میں ہندوستان کا راجہ تھا یا کسی کا باپ تھا یا ماں تھی یا بیوی تھی اب وہ دوسرے جون میں آنے کے بعد یہ کہے کہ میں تمہارا سابق راجہ ہوں تم پر میرے احکام کی تعمیل واجب ہے یا کسی عورت سے کہے کہ میں تیرا سابق شوہر ہوں اور تو میری سابق بیوی ہے لہٰذا تو میرے ساتھ چل اور میرے گھر کو سنبھال۔ تو کیا کسی عاقل کے نزدیک یہ بات قابل قبول ہوسکتی ہے تیس سال پہلے سنا گیا تھا کہ ہندوستان میں کسی پنڈت جی نے کسی عورت کے متعلق یہ دعویٰ کیا تھا کہ یہ عورت پہلے جون میں میری بیوی تھی لہٰذا یہ عورت مجھ کو دلائی جائے (واللہ اعلم ) ۔ (6) نیز مرزا صاحب مسیح موعود اور مہدی مسعود اور کرشن اور رامچندر وغیرہ وغیرہ ہونے کے بھی مدعی ہیں تو کیا مرزا صاحب ان سب کے بروز ہیں اور کیا مرزا صاحب کے ایک وجود میں یہ سارے مختلف الانواع وجود جمع ہوگئے۔ محمد رسول اللہ ﷺ اور کرشن وغیرہ وغیرہ یہ سارے مختلف روپ ایک مرزا کے جسم میں کیسے جمع ہوگئے اور ایک جسم خاکی میں یہ مختلف روحیں کیسے جمع ہوگئیں حالانکہ ایک بدن کی مدبر اور منتظم ایک ہی روح ہوسکتی ہے مختلف اور متضاد روحیں ایک بدن کی کیسے مدبر ہوسکتی ہیں۔ سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی روح مبارک کے ساتھ معاذ اللہ کرشن جی کی روح مرزا صاحب کے جسم میں کیسے آگئی۔ سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی روح تو قیامت کی جزا اور سزا کا وعظ کہے گی اور کرش جی کی روح قیامت کا انکار کرے گی اور تناسخ کا چکر بتائے گی۔ کرشن جی کی تعلیم کا نمونہ ذیل کے شعروں سے معلوم کرلیں جو فیضی نے اکبر شاہ کے حکم سے لکھتے تھے۔ من از ہر سہ عالم جدا گشتہ ام تہی گشتہ از خود خدا گشتہ ام منم ہرچہ ہستم خدا از من ست فنا از من ست وبقا از من ست تناسخ و انکار قیامت ہمہ شکل اعمال بگر فتہ اند بہ تقلیب احوال دل گفتہ اند گرفتار زندان آمد شدند زبیدانشی خصم جان خود اند (نعوذ باللہ) ناظرین کرام غور کریں کہ ایک شخص ببانگ دہل دعویٰ کرتا ہے کہ میں محمد ﷺ بھی ہوں اور عیسیٰ (علیہ السلام) بھی ہوں اور مہدی (علیہ السلام) بھی ہوں اور حتی کہ کرشن بھی ہوں اور دلیل کسی بات کی بھی نہیں لیکن جب اس سے ثبوت طلب کیا جاتا ہے تو یہ کہہ دیتا ہے کہ میں اصلی نہیں بلکہ میں تو ان کا بروز اور ظل ہوں۔ (7) ناظرین کرام غور کریں کہ بروز کے اصل معنی ظہور یعنی ظاہر ہونے کے ہیں اور ظہور تین قسم کا ہوتا ہے جسمانی یا روحانی یا صفاتی اگر مرزا صاحب کا مطلب یہ ہے کہ میں محمد رسول اللہ ﷺ اور عیسیٰ (علیہ السلام) روح اللہ اور مہدی (علیہ السلام) اور رجل فارسی اور مجدد اور کرشن وغیرہ کا جسمانی بروز ہوں تو یہ بالکل باطل اور مہمل ہے کیونکہ مرزا غلام اپنے باپ غلام مرتضیٰ کے نطفہ سے اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا وہ ان اشخاص کا جسمانی بروز کیسے ہوسکتا ہے جو اس سے سینکڑوں اور ہزاروں برس پہلے پیدا ہوچکے ہیں اور امام مہدی (علیہ السلام) تو ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے اور جن میں سے کوئی عربی النسل ہے اور کوئی فارسی النسل ہے اجتماع ضدین تو عقلا کے نزدیک محال ہے۔ غرض یہ کہ بروز جسمانی تو عقلا محال ہے اور کوئی عاقل دنیا میں اس کا قائل نہیں۔ اور اگر اس بروز سے مرزا صاحب کی مراد روحانی بروز یعنی روحانی تعلق ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی روح مبارک نے مرزا کے جسم میں بروز کیا ہے تو وہ بھی باطل ہے ایک جسم کے اندر متعدد اور متضاد روحیں جمع نہیں ہوسکتیں تمام حکما متقدمین اور حکما حال کا اس پر اتفاق ہے کہ روح ایک جو ہر مجرد ہے وہ صرف ایک ہی بدن میں مدبر اور متصرف ہوسکتا ہے اور بقول مرزا صاحب بھی روحانی بروز ناممکن ہے اس لئے کہ مرزا صاحب کے نزدیک ارواح انبیا کرام بعد مرگ بہشت میں داخل ہوچکی ہیں اور جو بہشت میں داخل ہوچکا اس کو وہاں سے نکلنے کی اجازت نہیں۔ دیکھو ازالۃ الاوہام ص 352۔ پس جب روح بہشت سے نکل ہی نہیں سکتی تو روحانی بروز باطل ہوا اور روحانی ظلیت بھی باطل ہوئی کیونکہ ظل یعنی سایہ تو اصل کا ہوتا ہے جب اصل بہشت میں ہے تو دنیا میں اس کا ظل محال ہے ظل کے لئے اصل کا وجود ضروری ہے۔ جب اس دنیا میں اصل کا وجود نہیں تو ظل کا وجود کیسے ہوسکتا ہے۔ اور اگر بروز سے مرزا صاحب کے نزدیک صفاتی بروز مراد ہے تو صفاتی بروز کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی بشر میں کسی صالح یا طالح کی صفات ظہور پذیر ہوجائیں پس اگر اس میں صالحین جیسی صفات اور کمالات نظر آئیں تو یہ کہیں گے کہ یہ شخص صالحین کا بروز صفاتی ہے اور اگر کسی میں کفار وفجار کے کردار نظر آئیں تو یہ کہیں گے کہ یہ شخص کفار وفجار کا بروز صفاتی ہے اور یہ امر روز روشن کی طرح ظاہر ہے کہ مرزا صاحب کے اخلاق و اعمال انبیاء جیسے تو در کنار۔ نیک مسلمانوں جیسے بھی نہ تھے لہٰذا مرزا صاحب صالحین کے بروز صفاتی تو ہو نہیں سکتے البتہ مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی سے لے کر اس وقت تک جس قدر بھی مدعیان نبوت وعیسویت ومہدیت اور دجالین اور کذابین گذرے ہیں مرزا صاحب ان سب کے دعاوی کا ذبہ اور اخلاق سینہ اور اعمال قبیحہ کے حامل تھے اس لئے مرزا صاحب کو یہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ اس امت کے پیدا شدہ تمام دجالین اور کذابین کے بروز صفاتی تھے تو بالکل درست ہے اگر کوئی شخص تکبر اور غرور میں سے حد سے گذر جائے تو یہ کہنا درست ہوگا کہ یہ شخص فرعون کا بروز صفات ہے اسی طرح سمجھو کہ مرزا صاحب کے اس دعوائے بروز سے ان کی نبوت ثابت نہیں ہوتی بلکہ مسیلمہ کذاب کا بروز ہونا ثابت ہوتا ہے۔ مرزا صاحب نے جب یہ دیکھا کہ قرآن اور حدیث سے یہ ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ خاتم النبیین اور آخری نبی ہیں اور پچاس سالہ عمر تک خود مرزا بھی ختم نبوت کا علی الاعلان اقرار کرتا رہا پھر جب دعوائے نبوت کی فکر دامنگیر ہوئی تو یہ خیال آیا کہ دعوائے نبوت پر علما اور مولوی اور عام مسلمان میرا پیچھا نہیں چھوڑیں گے اور مجھ کو دجال اور کذاب بتائیں گے اس لئے یہ تدبیر نکالی کہ یہ کہنا شروع کیا کہ خود نبی کریم ﷺ نے مجھ میں بروز کیا ہے اور میں حضور پر نور ﷺ کا ظل اور سایہ ہوں تاکہ جہال یہ سن کر دم نہ مارسکیں اس لئے کہ دجال وکذاب تو وہ ہو کہ جو آنحضرت ﷺ کے سوا کوئی دوسرا نبی ہو جو حضرت کے بعد نبوت کا دعویٰ کرے جب خود حضرت ہی وہ دعویٰ کر رہے ہیں تو اب کسی کو انکار کی مجال ہی کیا۔ یہ سب ابلہ فریبی اور مکاری اور دھوکہ دہی ہے اس طرح تو جس جی چاہے دعویٰ کر دے کہ میں فلاح نبی کا یا فلاں رسول کا ظل اور بروز ہوں اور ان کا عین ہوں اور ان کا وجود میرا وجود ہے اور اللہ نے بیس برس پہلے میرا نام محمد اور احمد رکھا تھا وغیرہ وغیرہ۔ آخر دعوے کے لئے دلیل تو چاہئے زبانی دعویٰ تو کچھ بھی مشکل نہیں۔ (8) نیز مرزا کا یہ کہنا کہ سایہ زی سایہ کا عین ہوتا ہے بالکل غلط اور مہمل ہے کسی شخص کا سایہ ذی سایہ کا عین نہیں ہوتا اسی طرح بالفرض اگر کسی کو نبی کا سایہ مان بھی لیا جائے تو نبی کا سایہ نبی کا عین نہیں ہوسکتا اور نہ اس سایہ کو نبی اور رسول کہا جاسکتا ہے لہٰذا رسول اللہ ﷺ کے نبی ہونے سے مرزا کا نبی ہونا لازم نہیں آتا۔ (9) اور اگر بفرض محال تھوڑی دیر کے لئے یہ مان لیا جائے کہ سایہ اور ذی سایہ ایک ہی ہوتا ہے تو رسول اللہ ﷺ ظل اللہ ہیں یعنی اللہ کا سایہ ہیں تو لازم آئے گا کہ حضور پر نور عین خدا ہیں اور مرزا صاحب اپنے خیال میں عین محمد ہیں اور ظل محمد ہیں اور محمد رسول اللہ ﷺ سایہ خدا ہیں تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ معاذاللہ۔ مرزا صاحب عین خدا ہیں اور اس کے کفر ہونے میں کیا شبہ ہے۔ (10) نیز مرزا صاحب بار بار یہ کہتے ہیں کہ میں بعینہ محمد ﷺ ہوں تو کیا مرزا صاحب کے والد کا نام عبد اللہ اور والدہ کا نام آمنہ تھا کیا کوئی ادنیٰ عقل والا اس کا تصور کرسکتا ہے کہ قادیان کا ایک دہقان مختاری کے امتحان میں فیل ہونے والا اور انگریزی کچہریوں کا چکر لگانے والا وہ بعینہ محمد ﷺ ہوسکتا ہے۔ معاذ اللہ معاذ اللہ۔ اور اگر ظل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ذی ظل کی کوئی صفت اس میں آجائے تو اس سے اتحاد اور عینیت ثابت نہیں ہوتی جس طرح حدیث میں شاہ عادل کو ظل اللہ کہا گیا ہے تو اس سے اس کی الوہیت ثابت نہیں ہوجاتی۔ ممکن ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ ظل ہونے سے مرزا صاحب کی مراد یہ ہے کہ جس طرح آئینہ میں کسی شخص کا عکس پڑجاتا ہے اسی طرح مرزا صاحب میں بھی کمالات محمدیہ اور انوار رسالت مصطفویہ کا عکس پڑا ہے پس اگر تھوڑی دیر کے لئے اس دعوائے بلا دلیل کو تسلیم کرلیا جائے تو اس سے بھی مرزا کی نبوت ثابت نہیں ہوتی۔ اس لئے کہ آئینہ میں عکس پڑنے سے آئینہ کی کوئی حقیقی صفت ثابت نہیں ہوجاتی آئینہ میں بادشاہ کا بھی عکس پڑجاتا ہے مگر اس انعکاس سے آئینہ بادشاہ نہیں بن جاتا۔ عکس سے آئینہ میں ذی عکس کی کوئی حقیقی صفت نہیں آجاتی بلکہ ایک قسم کی مشابہت اور ہم رنگی آجاتی ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ میری امت کے علما انبیا نبی اسرائیل کے مشابہ ہیں۔ یعنی ان کے ہم رنگ ہیں اور ان کے کمالات کا نمونہ ہیں اور یہ مطلب نہیں کہ اس امت کے علما حقیقۃ پیغمبر اور نبی ہیں غرض یہ کہ انعکاس اور ظلیت سے عینیت ثابت نہیں ہوتی۔ حضرت آدم (علیہ السلام) اللہ کے خلیفہ تھے اور کمالات خداوندی کا آئینہ اور نمونہ تھے جیسا کہ حدیث میں ہے خلق اللہ ادم علی صورتہ مگر معاذ اللہ عین خدا نہ تھے۔ پس خلیفہ ساخت صاحب سینہ تابود شاہین را آئینہ اور خلفا راشدین آنحضرت ﷺ کے کمالات علمیہ وعملیہ کا آئینہ اور نمونہ تھے مگر نبی نہ تھے۔ فقط نبی کے خلیفہ اور جانشین تھے جیسا کہ شاہ ولی اللہ (رح) نے ازالۃ الخفاء میں خلفا راشدین کا آنحضرت ﷺ سے قوت اور علمیہ اور قوت عملیہ کا تشبہ ثابت کیا ہے اور عقلی اور نقلی دلائل سے اس کو مدلل اور مبرہن کیا ہے جس سے خلفا راشدین کی فضیلت ثابت ہوئی نہ کہ نبوت۔ خلاصہ کلام یہ کہ ظلیت اور انعکاس سے اتحاد اور عینیت کا ثابت کرنا سراسر غلط اور باطل ہے ظلیت اور انعکاس سے صرف ایک قسم کی مشابہت اور مناسبت اور ہم رنگی ثابت ہوجاتی ہے سو اگر مرزا کے یہ خیال اور گمان (بشرطیکہ ثابت ہوجائے) کہ میں آنحضرت ﷺ کے کمالات کا آئینہ اور نمونہ ہوں اور کمالات نبوت میں سرور عالم ﷺ کا مشابہ اور ہمرنگ ہوں تو مرزائے قادیان کی امت بتلائے کہ مرزائے قادیان کن کن کمالات علمیہ اور عملیہ میں سرور عالم ﷺ کا آئینہ اور نمونہ تھے۔ ظاہر ہے کہ جب کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ میں فلاں شخص کا ظل اور بروز ہوں اور اس کا عکس اور مظہر اتم ہوں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ شخص صفات کمال میں اس کا ایک نمونہ ہے اور اخلاق و اعمال میں اس کا شبیہ اور مثیل ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ یہ اس کا عکس اور اس کی تصویر ہے تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ اگرچہ ذات مختلف ہے مگر آئینہ میں جو عکس اور نقش نظر آرہا ہے وہ اصل کے ہمرنگ ہے اور بظاہر ہو بہو وہی معلوم ہوتا ہے لہٰذا جب مرزا قادیان یہ دعوائے کرتا ہے کہ میں سرور عالم ﷺ کا ظل اور بروز ہوں اور حضور پر نور ﷺ کے کمالات کا مظہر اتم ہوں تو آخرت بتلائے بھی سہی کہ وہ کن صفات اور کمالات میں سرور عالم ﷺ کے مشابہ تھا۔ مرزائے غلام حضور پر نور ﷺ کے تو کیا مشابہ اور مماثل ہوتا وہ تو غلامان غلامان غلامان غلامان غلامان غلامان غلامان غلامان غلامان غلامان رسول اللہ ﷺ کے مشابہ بھی نہیں ہوسکتا۔ ہاں تیرہ سو برس میں جس قدر بھی مدعیان نبوت اور مسیحیت اور مہدویت اور دجال وکذاب گذرے ان سب کے وساوس اور وسائس کا ظل اور بروز تھا۔ آج اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ میں ہارون رشید کا یا سلطان صلاح الدین کا یا شاہ عالمگیر کا یا قائداعظم کا ظل اور بروز ہوں اور ان کا مظہر اتم ہوں لہٰذا تم سب پر میری اطاعت واجب اور لازم ہے تو حکومت اس کو جیل خانہ یا پاگل خانہ بھیج دے گی۔ اس قسم کی باتوں سے جب بادشاہت ثابت نہیں ہوسکتی تو نبوت و رسالت کہاں ثابت ہوسکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر آج کوئی سیاہ فام یا گلفام یہ دعویٰ کرنے لگے کہ میں یوسف (علیہ السلام) کا ظل اور بروز ہوں اور میں عزیز مصر ہوں تو شاید کوئی پرلے درجہ کا دیوانہ ہی اس دعویٰ کے قبول کرنے پر تیار ہوجائے۔ یہی حال ان لوگوں کا ہے جو قادیان کے ایک دہقان کو تمام انبیا ومرسلین کا ظل اور بروز اور ان کے کمالات اور صفات کا آئینہ اور مظہرا تم ماننے پر تیار ہوگئے ہیں۔ چہ نسبت خاک را باعالم پاک کجا عیسیٰ کجا دجال ناپاک خلاصہ کلام یہ کہ حدیث لا نبی بعدی میں مرزائیوں کی یہ تاویل تو ایسی ہے جیسے کوئی مدعی الوہیت لا الہ الا اللہ کے یہ معنی بیان کرنے لگے کہ خدا کے سوا کوئی مستقل معبود نہیں لیکن جو معبود خدا تعالیٰ کا ظل ہو یا اس کا بروز ہو یا اس کا عین ہو تو ایسا عقیدہ عقیدہ توحید کے منافی نہیں جیسا کہ مشرکین تلبیہ میں کہا کرتے تھے۔ لا شریک لہ الا شریک لک تملکہ وما ملک اے خدا تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ شریک جو تیری ہی ملک ہے یعنی بت وغیرہ وہ سب تیرے ہی ماتحت ہیں یعنی جس طرح لا الہ الا اللہ کی تاویل مذکور کفر ہے اسی طرح لا نبی بعدی کی مرزائی تاویل بھی کفر ہے۔ مرزائیوں کی اس تاویل کے جواب میں کوئی مدعی الوہیت کہہ سکتا ہے کہ میری الوہیت خدا تعالیٰ کی الوہیت اور وحدانیت کے منافی نہیں اور تاویل یہ کرے کہ میں مستقل الوہیت کا مدعی نہیں بلکہ میں ظلی اور بروزی الوہیت کا مدعی ہوں تو کیا یہ تاویل اس مدعی الوہیت کو کفر سے بچا سکتی ہے۔ ہرگز نہیں۔ اسی طرح مرزائے غلام کا یا اس کے کسی چیلہ کا یہ کہنا کہ مرزا مستقل نبوت کا مدعی نہیں بلکہ ظلی اور بروزی نبوت کا مدعی ہے اس کو کفر سے نہیں بچا سکتی۔ (10) تمام اسلامی فرقے اس عقیدہ پر متفق ہیں کہ آنحضرت ﷺ خاتم النبیین ہیں آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں لیکن شیعوں کے بعض فرقے بظاہر اگرچہ ختم نبوت کے قائل اور مقر ہیں مگر در پردہ ائمہ کی نبوت کے قائل ہیں اس لئے کہ ان کے نزدیک جب ائمہ انبیاء سے افضل ہیں اور معصوم اور واجب الاطاعت ہیں اور صاحب وحی ہیں اور تحلیل وتحریم کے مختار ہیں تو یہی خلاصہ ہے نبوت کا۔ تو یہ فرقے در پردہ ختم نبوت کے منکر ہیں۔ اور شیعوں کے بعض فرقوں کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت امیر کا درجہ تمام انبیا کرام سے بالا اور برتر ہے پس ان شیعوں کا حضرت علی ؓ کو نبی ماننا یہ بھی در پردہ ختم نبوت کا انکار ہے۔ مگر چونکہ صراحۃً ختم نبوت کے منکر نہیں اور خاتم النبیین کے سوا کسی کے لئے مثبت نبوت نہیں اس لئے فقہا نے اس بنا پر شیعوں کی تکفیر نہیں کی کیونکہ لزوم کفر ہے۔ التزام کفر نہیں۔ خوب سمجھ لو۔
Top