Maarif-ul-Quran - Al-Ahzaab : 49
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَیْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّوْنَهَا١ۚ فَمَتِّعُوْهُنَّ وَ سَرِّحُوْهُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : ایمان والو اِذَا : جب نَكَحْتُمُ : تم نکاح کرو الْمُؤْمِنٰتِ : مومن عورتوں ثُمَّ : پھر طَلَّقْتُمُوْهُنَّ : تم انہیں طلاق دو مِنْ قَبْلِ : پہلے اَنْ : کہ تَمَسُّوْهُنَّ : تم انہیں ہاتھ لگاؤ فَمَا لَكُمْ : تو نہیں تمہارے لیے عَلَيْهِنَّ : ان پر مِنْ عِدَّةٍ : کوئی عدت تَعْتَدُّوْنَهَا ۚ : کہ پوری کراؤ تم اس سے فَمَتِّعُوْهُنَّ : پس تم انہیں کچھ متاع دو وَسَرِّحُوْهُنَّ : اور انہیں رخصت کردو سَرَاحًا : رخصت جَمِيْلًا : اچھی طرح
مومنو ! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کر کے ان کو ہاتھ لگانے (یعنی ان کے پاس جانے) سے پہلے طلاق دے دو تو تم کو کچھ اختیار نہیں کہ ان سے عدت پوری کراؤ ان کو کچھ فائدہ (یعنی خرچ) دے کر اچھی طرح سے رخصت کردو
ذکر بعض احکام نکاح و طلاق وبعض خصائص نبوی دوبارہ نکاح قال اللہ تعالیٰ یایھا الذین امنوا اذا نکحتم ال مومن ات۔۔۔ الی۔۔۔ وکان اللہ علی کل شیء رقیبا۔ (ربط) گزشتہ آیات میں حضرت زینب ؓ کے نکاح اور طلاق کا قصہ مذکور تھا۔ اس لئے آئندہ آیات میں نکاح اور طلاق وغیرہ کے کچھ احکام ذکر کرتے ہیں۔ بعض احکام تو وہ ہیں جو عام مومنین سے متعلق ہیں اور بعض احکام وہ ہیں جو خاص آنحضرت ﷺ کے نکاح سے متعلق ہیں اور آپ ﷺ کی ذات بابرکات کے ساتھ مخصوص ہیں جو آپ ﷺ کی فضیلت اور شرف اور کرامت کی دلیل ہیں تاکہ معلوم ہوجائے کہ نبی کی ایک خاص شان امتیازی ہے جس کی بنا پر نبی کے حق میں بعض احکام امت کے احکام سے جدا ہیں اور نکاح کے بارے میں جو وسعت اور سہولت آپ ﷺ کو عطا کی گئی ہے وہ دوسروں کو نہیں دی گئی اور اسی طرح ازواج مطہرات بعض احکام میں عام مسلمان عورتوں سے جدا اور ممتاز ہیں اور ازواج مطہرات بعض احکام میں عام مسلمان عورتوں سے جدا اور ممتاز ہیں اور ازواج مطہرات عام مسلمان عورتوں کی طرح نہیں جیسا کہ پہلے گذر چکا ہے۔ حضور پر نور ﷺ کی وفات کے بعد ازواج مطہرات سے نکاح حرام ہے کیونکہ وہ بھی آپ ﷺ کی ایذا کا سبب ہے آنحضرت ﷺ مسلمانوں کے روحانی باپ ہیں اور ازواج مطہرات مسلمانوں کی روحانی مائیں ہیں ان کا ادب اور احترام ہر مسلمان پر فرض ہے اور ان میں کوتاہی نبی کی ایذا کا سبب ہے جو بلاشبہ حرام اور موجب لعنت ہے اور اسی سلسلہ میں حضرت زینب ؓ کے نکاح کے بارے میں دعوت ولیمہ کے وقت بعض لوگوں کے کھانا کھا کر دیر تک بیٹھے رہنے اور باتیں کرتے رہنے سے حضور پر نور ﷺ کو جو گرانی پیش آئے ان آیات میں اس کا ذکر فرمایا۔ اور اس کے بارے میں حکم نازل فرمایا۔ بعض لوگوں کا دعوت ولیمہ میں دیر تک بیٹھے باتیں رہنا اگرچہ بطور موانست اور تفریح طبع تھا معاذ اللہ معاذ اللہ حضور پر نور ﷺ کے ایذا اور تکلیف کے ارادہ سے نہ تھا لیکن بہرحال دیر تک اس طرح بیٹھے باتیں کرتے رہنا آنحضرت ﷺ کی خاطر عاطر کے لئے باعث گرانی ہوا اس لئے حکم نازل ہوگیا کہ کھانے سے فراغت کے بعد اپنے گھروں کو واپس ہونا چاہئے۔ غرض یہ کہ ان آیات میں جس قدر احکام ذکر کئے گئے ان سب سے آپ ﷺ کی جلالت شان کا اظہار مقصود ہے اور یہ بتلانا ہے کہ اہل ایمان پر یہ لازم ہے کہ غیر اختیاری طور پر بھی نبی کی ایذا اور تکلیف کا سبب نہ بنیں کہ دعوت میں کھانا کھا کر بےفکری سے بیٹھے باتیں کرتے رہیں دور تک یہی سلسلہ کلام چلا گیا ہے۔ چناچہ فرماتے ہیں اے ایمان والو ایمان کا مقتضی یہ ہے کہ خدا اور اس کے رسول نے نکاح اور طلاق کے بارے میں تم کو جو احکام دئیے ہیں ان کی تعمیل کرو منجملہ ان احکام کے ایک حکم یہ ہے کہ اے اہل ایمان جب تم ایمان والیوں کو اپنے نکاح میں لاؤ پھر کسی وجہ سے تم ان کو ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو ۔ یعنی مباشرت یا خلوت صحیحہ سے پہلے ہی ان کو طلاق دے دو تو تمہارے لئے ان عورتوں پر کوئی عدت واجب نہیں جس کے دنوں کو شمار کرو۔ طلاق قبل الدخول میں کسی قسم کی عدت نہیں اس کو اختیار ہے کہ جہاں چاہے چلی جائے اور جس سے چاہے نکاح کرے ایسی عورت پر تمہارا کوئی حق نہیں رہا پس طلاق کے بعد تم ان کو کچھ مالی فائدہ پہنچا دو اور ان کو متعہ یعنی ایک جوڑا پوشاک دے کر خوبی کے ساتھ رخصت کر دو جس میں ان کو کسی قسم کا ضرر نہ ہو۔ ” متعہ “ اس عطیہ کو کہتے ہیں جو خاوند کی طرف سے طلاق دینے کے بعدبیوی کو دیا جاتا ہے۔ : ازواج مطہرات کے سلسلہ میں اس مسئلہ کا بیان کرنا شاید اس بنا پر ہو کہ سرور عالم ﷺ نے ایک عورت سے نکاح کیا جب آپ ﷺ اس کے پاس گئے تو وہ بولی اللہ تم سے پناہ دے آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو نے بڑی ذات کی پناہ مانگی ہے اور آپ ﷺ الگ ہوگئے اور باہر آگئے اور اس عورت کو جوڑا پوشاک دے کر رخصت کردیا۔ ان آیات میں نکاح اور طلاق کے متعلق جو حکم بیان کیا گیا وہ عام مسلمانوں سے متعلق ہے اب آئندہ آیات میں نکاح کے ان احکام کو بیان کرتے ہیں جو آنحضرت ﷺ کی ذات بابرکات کے ساتھ مخصوص ہے۔ حکم اول اے پیغمبر تحقیق ہم نے حلال رکھا تیرے لئے تیری ان بیبیوں کو جو اس وقت تیرے نکاح میں ہیں جنہوں نے دنیا کے مقابلہ میں دار آخرت کو اختیار کیا اور باوجود فقروفاقہ کے نبی ﷺ کی زوجیت کو بصد ہزار رغبت قبول کیا اور جن کا مہر بھی ادا کرچکے ہیں۔ اگرچہ ان کا عدد چار سے زیادہ ہے مگر ہم نے خاص آپ ﷺ کے لئے ان کی زوجیت کو برقرار رکھا اور یہ حکم آپ ﷺ کے لئے مخصوص ہے آپ ﷺ کے سوا کسی اور کے لئے چار سے زیادہ بیبیاں رکھنا حلال نہیں آیت کی یہ تفسیر ابی بن کعب ؓ سے منقول ہے دیکھو تفسیر ابن جریر ص 16 ج 22۔ امام قرطبی (رح) فرماتے ہیں۔ جمہور علماء کے نزدیک آیت کے یہی معنی مختار اور راجح ہیں کہ آیت میں ازواجک سے موجودہ ازواج مطہرات مراد ہیں جنہوں نے دنیا کے مقابلہ میں دار آخرت اور اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کیا کیونکہ آیت میں اتیت اجورہن بصیغہ ماضی آیا ہے جو صراحۃً اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ازواجک سے وہی بیبیاں مراد ہیں جن کا مہر آپ ﷺ زمانہ گزشتہ میں ادا کرچکے ہیں۔ تفسیر قرطبی (ف 1) ص 206 ج 14 1 قال الامام القرطبی (رح) اختلف الناس فی تاویل قولہ تعالیٰ انا احللنا لک ازواجک فقیل المراد بھا ان اللہ تعالیٰ احل لہ ان یتزوج کل امراۃ یوتیھا مہرھا۔ وقیل المراد احللنا لک ازواجک ای الکائنات عندک لانھن قد اخترنک علی الدنیا والاخرۃ قالہ الجمہور من العلماء وھو الظاہر لان قولہ اتیت اجورھن ماض ولا یکون الفعل الماضی بمعضی الاستقبال الا بشروط۔۔۔ ویوید ھذا التاویل ماروی عن ابن عباس ؓ کان رسول اللہ ﷺ یتزوج فی ای الناس شاء وکان یشق ذلک علی نساہ فلما نزلت ھذہ الایۃ وحرم علیہ بھا النساء الامن سمی، سر نساء ہ بذلک۔ (تفسیر قرطبی ص 206 ج 14 ) ۔ حکم دوم اور ہم نے آپ ﷺ کے لئے وہ لونڈیاں اور باندیاں حلال کیں جو اللہ نے آپ کو مال غنیمت میں عطا کیں خواہ وہ کسی قوم کی ہوں وہ سب آپ ﷺ کے لئے حلال ہیں ان میں سے جس عورت کو آپ ﷺ چاہیں بطور ملک یمین اپنے تصرف میں لاسکتے ہیں اس لئے کہ جو باندی مال غنیمت سے ملی ہے وہ بلاشبہ حلال ہے۔ خریدی ہوئی چیز میں شبہ ہوسکتا ہے مگر مال غنیمت کے بارے میں کوئی شبہ نہیں ہوسکتا۔ دنیا کے مالوں میں سے کوئی مال غنیمت سے بڑھ کر حلال اور طیب نہیں۔ باندیوں کے بارے میں آپ ﷺ کی خصوصیت یہ تھی کہ غنیمت کی تقسیم سے پہلے آپ ﷺ کو اختیار تھا کہ جو چیز آپ ﷺ کو پسند آئے وہ لے لیں چناچہ غزوہ خیبر میں آپ ﷺ نے حضرت صفیہ ؓ کو اسی طرح لیا تھا اور یہ حق آپ ﷺ کے سوا دوسرے کو نہیں نیز اس بارے میں ایک خصوصیت آپ ﷺ کی یہ تھی کہ اہل حرب کی جانب سے جو ہدایا آپ ﷺ کے پاس آتے تھے وہ سب آپ کی ملک ہوتے تھے اور آپ ﷺ کے بعد اگر کسی خلیفہ یا بادشاہ کو اہل حرب کوئی ہدیہ دیں تو وہ عام مسلمانوں اور بیت المال کا حق ہے اور ایک خصوصیت آپ ﷺ کی یہ تھی کہ جو باندی وفات تک آپ ﷺ کے پاس رہی ہو جیسے ماریہ قبطیہ۔ وہ دوسروں کے لئے حرام تھیں ممکن ہے کہ اس کے علاوہ اور بھی کچھ خصوصیتیں ہوں جو اسی زمانہ کے لوگوں کو معلوم ہوں اور انہی کو اس کی ضرورت بھی تھی۔ حکم سوم اور ہم نے حلال کیا تیرے واسطے تیرے چچا کی بیٹیاں اور تیری پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تیرے ماموں کی بیٹیاں اور تیری خالاؤں کی بیٹیاں۔ جنہوں نے تیرے ساتھ ہجرت بھی کی ہو یعنی جنہوں نے آپ ﷺ کے ساتھ ہجرت نہیں کی وہ آپ ﷺ کے لئے حلال نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جن عورتوں سے آپ ﷺ کو ماں باپ کی جانب سے قرابت ہو آپ ﷺ کے لئے ان سے نکاح حلال ہے مگر بشرط ہجرت اور اسی وجہ سے آپ ﷺ اپنی چچا زاد بہن ام ہانی ؓ بنت ابی طالب سے نکاح نہیں کہ انہوں نے ہجرت نہیں کی تھی۔ وقال تعالی۔ والذین امنوا ولم یھاجروا مالکم من ولایتہم من شیء حتی یھاجروا۔ : اور ساتھ ہجرت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس عمل میں آپ ﷺ کی شریک اور موافق ہو یعنی انہوں نے بھی آپ ﷺ کی طرح ہجرت کی ہو۔ معیت سے معیت زمانیہ مراد نہیں بلکہ عمل میں موافقت مراد ہے جیسا کہ قرآن کریم میں بلقیس کا قول منقول ہے۔ واسلمت مع سبحان للہ رب العلمین۔ حکم چہارم اور مزید برآن ہم نے حلال کردیا آپ ﷺ کے لئے اس عورت کو کہ جو مسلمان ہو اگر وہ اپنے نفس اور ذات کو بلا کسی عوض کے اور بلا مہر (ف 1) کے پیغمبر کو ہبہ کر دے تاکہ اس کو نبی کی زوجیت اور خدمت کا شرف حاصل ہوجائے تو اگر نبی اس کو اپنے نکاح میں لینا چاہیں تو ان کے لئے جائز اور درست ہے کہ وہ اس کو قبول کر کے اپنے نکاح میں لے لیں اور مومنہ کی قید اس لئے لگائی کہ کافرہ عورت کسی حال میں آپ ﷺ کے لئے حلال نہیں اگرچہ وہ کتابیہ ہو اور اگرچہ وہ آزاد ہو۔ مطلب یہ ہے کہ جو عورت اپنی جان کو نبی کے لئے ہبہ کر دے اور بلا مہر آپ ﷺ کے نکاح میں آنا چاہے اور اس کا مقصود مال اور مہر نہ ہو بلکہ محض آپ ﷺ کی زوجیت کا شرف اس کا مطمح نظر ہو تو وہ بھی آپ ﷺ کے لئے حلال ہے بشرطیکہ آپ ﷺ اس کو اپنے نکاح میں لانا چاہیں اور یہ حلت اور یہ اجازت خالص آپ ﷺ کے لئے ہے سب مسلمانوں کے لئے نہیں۔ آپ کے سوا کسی مسلمان کے لئے نہیں آپ ﷺ کے سوا کسی اور مسلمان کے لئے بدون مہر کے کسی عورت کو اپنے نکاح میں لے لینا حلال نہیں اور یہ اجازت صرف آپ ﷺ کے لئے ہے لہٰذا جو عورت اپنی جان کو بلا مہر آپ ﷺ کو ہبہ کر دے تو اس کے لئے کسی حالت میں مہر کا مطالبہ جائز نہیں بلا مہر نکاح کی حلت آپ ﷺ کی خصوصیات میں سے ہے آپ کے سوا اگر کوئی بلا مہر نکاح کرے تو اس پر مہر مثل واجب ہوگا۔ ہمیں خوب معلوم ہے جو ہم نے عام مسلمانوں پر ان کی بیبیوں اور باندیوں کے بارے میں جو حقوق (ف 2) اور فرائض اور شرائط عقد مقرر کئے ہیں جیسے مہر اور گواہ اور نان ونفقہ اور سکنی وغیرہ۔ اور اس بارے میں جو احکام ان کو دئیے ہیں وہ آیات اور احادیث میں مذکور ہیں اور سب کو معلوم ہیں نکاح میں مہر کا ہونا ضروری ہے۔ کما قال تعالیٰ ان تبتغوا باموالکم وغیرہ وغیرہ اور نکاح کے بارے میں جو قیود اور شرائط ہم نے عام مومنین پر لگائے ہیں وہ ہم نے آپ ﷺ پر نہیں لگائے تاکہ آپ پر تنگی نہ ہو یعنی اللہ تعالیٰ نے جو حقوق اور فرائض اور شرائط عقد۔ عورتوں کے بارے میں عام مسلمانوں پر لازم کئے ہیں۔ آپ پر فرض اور لازم نہیں کئے تاکہ آپ ﷺ پر وسعت اور سہولت ہو۔ اور لوگوں پر آپ ﷺ کی شان امتیازی ظاہر ہو۔ اور ہے اللہ بڑا بخشنے والا اور بڑا مہربان جس چیز سے بچنا مشکل ہوتا ہے اسے معاف کردیتا ہے اور اپنی رحمت اور مہربانی سے جس پر چاہے وسعت کردیتا ہے۔ 1 کما روی عن ابن عباس ؓ تفسیر قرطبی ج 14 ص 208۔ 2 قال القرطبی قولہ تعالیٰ قد علمنا ما فرضنا علیہم فی ازواجہم ای ما اجبنا علی المومنین وھو ان لا یتزوجوا الا اربع نسوۃ بمھر وبینۃ وولی قال معناہ ابی بن کعب وقتادۃ وغیرہما۔ تفسیر قرطبی ص 214 ج 14۔ حکم پنجم منجملہ احکام مخصوصہ کے ایک حکم یہ ہے کہ جس مرد کے پاس کئی عورتیں ہوں اس پر یہ واجب ہے کہ وہ تمام بیبیوں کے پاس باری باری سے رہے مگر آنحضرت ﷺ پر تقسیم یعنی باری باری سے بیبیوں کے پاس رہنا واجب نہ تھا۔ شب باشی میں آپ ﷺ کو اختیار دیا گیا کہ جس کے پاس چاہیں رات کو رہیں چناچہ فرماتے ہیں اے نبی آپ کو اختیار ہے کہ اپنی عورتوں میں سے جس کو چاہیں پیچھے کریں۔ اور جس کو چاہیں اپنے پاس جگہ دیں یعنی آپ کو اختیار ہے کہ باری ہے میں جس کو چاہیں آگے کریں اور جس کو چاہیں پیچھے کریں مطلب یہ ہے کہ جس کو چاہیں باری دیں اور جس کو چاہیں اس کو باری نہ دیں اور جن عورتوں کو آپ نے علیحدہ کردیا ہے اور ان سے کنارہ کشی کی ہے ان میں سے اگر کسی کو بلانا چاہیں اور اس کی خواہش کریں تو اس میں آپ پر کوئی گناہ اور تنگی نہیں یعنی جس بی بی سے آپ ﷺ نے کنارہ کیا ہو تو آپ ﷺ کو اس کے دوبارہ بلانے کا بھی اختیار ہے حق جل شانہ نے آپ ( ﷺ ) کو یہ حقوق اور اختیارات دئیے مگر آپ ﷺ نے مدت العمر کبھی اس سے کام نہیں لیا باری میں ہمیشہ برابری اور عدل اور مساوات کو ملحوظ رکھا جیسا کہ احادیث میں ہے کہ اگر آپ ﷺ کسی کی باری کے دن دوسری بیوی کے پاس رہنا چاہتے تو اس سے اجازت لیتے۔ اب اگلی آیت میں اس اختیار اور تفویض کی حکمت اور مصلحت بیان فرماتے ہیں کہ یہ اختیار جو آپ ﷺ کو دیا گیا اس میں مصلحت یہ ہے کہ یہ اختیار اس امر کے بہت زیادہ قریب ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور رنجیدہ خاطر نہ ہوں اور اس پر راضی رہیں جو آپ ان کو دے دیں۔ سب کی سب یعنی آپ ﷺ کو یہ اختیار اس لئے دیا گیا کہ عورتیں اپنا حق نہ سمجھیں اور جان لیں کہ شب باشی میں ہمارا کوئی حق مقرر نہیں آپ جو ان کو دے دیں خوش ہو کر اور آپ ﷺ کا احسان سمجھ کر اسے قبول کریں اگر پاس بلائیں تو ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور اگر نہ بلائیں تو رنجیدہ نہ ہوں اور نہ شکوہ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر یہ فضل فرمایا کہ ازواج کو آپ ﷺ کی رضا مندی کا پابند بنایا اور آپ ﷺ کو ان کی رضا اور خواہش کا پابند نہیں کیا مگر بایں ہمہ آپ ﷺ نے ہمیشہ ان کے ساتھ منصفانہ سلوک رکھا۔ جس پر آپ مجبور نہ تھے سب کی باری برابر رکھی۔ صرف ایک حضرت سودہ ؓ جب ان کی عمر بڑی ہوگئی تو انہوں نے از خود اپنی باری حضرت عائشہ ؓ کو ہبہ کردی تھی۔ خلاصہ کلام یہ کہ جب عورتوں کو یہ معلوم ہوجائے گا کہ باری دینا آپ ﷺ پر واجب نہیں تو اس کے بعد جو بھی آپ ﷺ ان کے ساتھ سلوک کریں اور عدل اور احسان کا معاملہ فرمائیں گے تو وہ خوش اور راضی رہیں گی۔ اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اللہ اس کو خوب جانتا ہے کہ تمہارے دل میں کس بیوی کی محبت اور رغبت زیادہ ہے اگر تمہارے دل میں کسی زوجہ کی طرف زیادہ میلان ہو تو اللہ تعالیٰ اس پر مواخذہ نہیں کرتا کیونکہ وہ تمہارے اختیار میں نہیں اور اللہ جاننے والا اور بردبار ہے جو لوگ اس قسم کے احکام میں نبی پر نکتہ چینی یا بدگمانی کرتے ہیں اللہ کو اس کا علم ہے مگر بردباری کی وجہ سے ان کو جلدی سزا نہیں دیتا۔ حکم ششم آیت تخییر کے نزول کے بعد اجب ازواج مطہرات نے رسول اللہ ﷺ کو اختیار کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے صلہ میں یہ حکم نازل کیا کہ اے پیغمبر اب اس کے بعد یعنی (ف 1) ان نوبیبیوں کے جو اس وقت آپ ﷺ کے عقد نکاح میں ہیں جنہوں نے دنیا کے مقابلہ میں دار آخرت اور اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کیا تو اب اس کے بعد آپ کے لئے اور عورتیں حلال نہیں یعنی اب کسی حال میں آپ ﷺ کے لئے مزید کسی عورت سے نکاح حلال نہیں بلکہ انہی ازواج کو باقی رکھو جو موجودہ بیبیاں دنیا اور آخرت دونوں ہی میں آپ ﷺ کی ازواج ہیں یہ نو بیبیاں آپ ﷺ کے حق میں ایسی ہیں جیسے امت کے حق میں چار بیبیاں اور آیت کی یہ تفسیر ابن عباس ؓ بنہ سے منقول ہے دیکھو تفسیر ابن جریر ص 21 ج 22 اور ابن عباس ؓ کے علاوہ مجاہد اور ضحاک اور قتادہ وغیرہم سے منقول ہے دیکھو تفسیر ابن کثیر ص 501 ج 3 اور اسی تفسیر کو امام بغوی نے اختیار کیا۔ تفسیر مظہری ص 401 ج 7 اس آیت کی تفیسر میں اور بھی اقوال ہیں مگر امام رازی نے اپنی تفسیر میں اسی تفسیر کو اختیار کیا۔ جو ہم نے ذکر کی حضرت اہل علم تفسیر کبیر (ف 2) ص 622 ج 6 دیکھیں وحاشیہ شیخ زادہ دیکھیں ص 72 ج 4 حکم ہفتم اور نہ آپ ﷺ کے لئے یہ حلال ہے کہ موجودہ بیبیوں کے بدلہ میں دوسری بیبیاں کرلیں کہ ان میں سے کسی کو طلاق دے دیں اور اس کے بدلہ میں دوسری بیوی کرلیں اور اس طرح نو کا عدد پورا کرلیں اگرچہ آپ کو ان کا حسن پسند آئے تب بھی آپ ﷺ کے لئے ان سے نکاح حلال نہیں چونکہ اکثر وبیشتر نکاح کی رغبت حسن و جمال ہی کی وجہ سے ہوتی ہے اس لئے یہ فرمایا ولو اعجبک حسنھن خلاصہ کلام یہ ہے کہ اے نبی ان موجودہ نو بیبیوں کے علاوہ آپ کے لئے نہ کسی عورت سے نکاح حلال ہے اور نہ ان نو میں میں کوئی تغیر وتبدل جائز ہے مگر وہ باندیاں جن کے تمہارے ہاتھ مالک ہیں ان میں کمی اور زیادتی اور تغیر وتبدل کا آپ ﷺ کو اختیار ہے۔ اور اللہ ہر چیز پر نگہبان ہے کوئی چیز اس پر مخفی نہیں۔ چو دانستی کہ حق دانا وبیناست نہان وآشکار خویش کن راست جمہور صحابہ وتابعین کے قول کے مطابق آیت کی تفسیر کردی گئی لیکن حضرت عائشہ ؓ اور ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ یہ ممانعت بعد میں منسوخ ہوگئی۔ (رواہ احمد والترمذی والنسائی) یعنی بعد میں آپ ﷺ کو نکاح کی بھی اجازت ہوگئی اور تغیر وتبدل کی بھی اجازت ہوگئی۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ آپ ﷺ نے اس کے بعد نہ کسی عورت سے نکاح کیا اور نہ ان میں سے کسی کو طلاق دے کر اس کی جگہ دوسری بیوی کی۔ مگر ظاہر آیت سے یہی معلوم اور مفہوم ہوتا ہے کہ یہ حکم محکم ہے منسوخ نہیں ہوا اور صحابہ وتابعین کی ایک جماعت سے اسی طرح منقول ہے اور اسی کو امام بن جریر طبری (رح) نے اختیار کیا۔ (دیکھو تفسیر البحر المحیط لابی حیان ص 244 ج 7) 1 کما قال النیشا بوری قال اکثر المفسرین (فی تفسیر قولہ تعالیٰ لا یحل لک النساء من بعد) ای من بعد التسع المذکورۃ فالتسع نصاب رسول اللہ ﷺ من الازواج کما ان الاربع نصاب امتہ (تفسیر غرائب القران ص 26 ج 22 ) ۔ 2 قال الامام الرازی الاولی (فی تفسیر الایۃ) ان یقال لا تحل لک النساء من بعد اختیارہن اللہ ورسولہ ورضاہن بما یوتیھن من الوصل والہجران والنقص والحرمان فلما اخترن اللہ ورسولہ ذکر اللہ لہن ما جازا ھن بہ من تحریم غیرہن علی النبی ﷺ ومنعہ من طلاقہن بقولہ ولا ان تبدل بھن کذا فی التفسیر الکبیر ص 622 ج 6 وقال ابن الشیخ بعد نقل کلام الامام انما حرم اللہ تعالیٰ علیہ النساء سواہن ونھاہ عن تطلیقہن وعن الاستبدال بھن شکرا لہن علی حسن ضیعہن۔ (حاشیہ شیخزادہ علی تفسیر البیضاوی ص 72 ج 4) ۔
Top