Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Ahzaab : 72
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَى السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَهَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْهَا وَ حَمَلَهَا الْاِنْسَانُ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًاۙ
اِنَّا
: بیشک ہم
عَرَضْنَا
: ہم نے پیش کیا
الْاَمَانَةَ
: امانت
عَلَي
: پر
السَّمٰوٰتِ
: آسمان (جمع)
وَالْاَرْضِ
: اور زمین
وَالْجِبَالِ
: اور پہاڑ
فَاَبَيْنَ
: تو انہوں نے انکار کیا
اَنْ يَّحْمِلْنَهَا
: کہ وہ اسے اٹھائیں
وَاَشْفَقْنَ
: اور وہ ڈر گئے
مِنْهَا
: اس سے
وَحَمَلَهَا
: اور اس اٹھا لیا
الْاِنْسَانُ ۭ
: انسان نے
اِنَّهٗ
: بیشک وہ
كَانَ
: تھا
ظَلُوْمًا
: ظالم
جَهُوْلًا
: بڑا نادان
ہم نے (بار) امانت کو آسمانوں اور زمینوں پر پیش کیا تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اس کو اٹھا لیا بیشک وہ ظالم اور جاہل تھا
ترغیب برحفاظت امانت وترہیب از خیانت واضاعت قال اللہ تعالی۔ انا عرضنا الامانۃ۔۔۔ الی۔۔۔ وکان اللہ غفورا رحیما۔ (ربط) گزشتہ آیات میں طاعت خداوندی اور رسول اور ایمان اور تقویٰ اور قول سدید کی تاکید اکید تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ طاعت خدا و رسول اللہ کی ایک امانت ہے جس کو ایمان لا کر تم نے قبول کیا ہے یا وہ عہد الست ہے جس کو تم نے بلی کہہ کر قبول کیا ہے وہ تمہارے پاس خدا کی امانت ہے اور ظاہر ہے کہ تمام خوبیوں کی جڑ صفت امانت ہے جیسا کہ حدیث میں ہے۔ لا ایمان لمن لا امانۃ لہ اس لئے آئندہ آیت میں امانت کا مرتب اور اس کی عظمت اور فخامت اور کرامت کو بیان کرتے ہیں کہ امانت الٰہیہ اس قدر عظیم اور ثقیل ہے کہ آسمان اور زمین بھی اس کے بوجھ کو برداشت نہیں کرسکے انسان نے چونکہ اس امانت الٰہیہ کو قبول کیا ہے لہٰذا انسان کو چاہیے کہ خدا کی اس امانت اور عہد الست کی پوری پوری حفاظت کرے مبادا اس ظلوم وجہول کی غفلت سے یہ امانت کہیں ضائع نہ ہوجائے اور مبادا شیطان تم کو دھوکہ دے کر خیانت پر آمادہ نہ کرے کردہ بار امانت را قبول از کشیدن پس نباید شد ملول امانت کا صاحب امانت کو ادا کرنا اور صحیح سالم اس تک پہنچا دینا فرض اور واجب ہے ان اللہ یامرکم ان تؤدوا الامنت الی اھلھا۔ لہٰذا تم کو چاہئے کہ اللہ کی امانت (عہد اطاعت) کی حفاظت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھو اور اس کا حق ادا کرو تاکہ مورد عنایت خداوندی بنو اور اس کو ضائع کر کے مستحق عذاب نہ بنو خوب سمجھ لو کہ خدا اور رسول کو ایذا پہنچانے والے اور یہ تمام منافقین اور منافقات اور مرجفین اور مرجفات نسب بد عہد اور بےایمان اور خائن ہیں ان سب نے اللہ کی امانت میں خیانت کی اللہ تعالیٰ اس سے درگذر فرمائے گا اور وکان اللہ غفورا رحیما کا یہی مطلب ہے اور اس امانت کا خلاصہ لا الہ اللہ محمد رسول اللہ ہے یعنی اقرار الوہیت اور اقرار رسالت جس کا حاصل و محصول اطاعت وفرمانبرداری ہے جو بمنزلہ امانت کے ہے اس کی حفاظت واجب ہے اور اس میں خیانت ناجائز اور حرام ہے خلاصہ کلام یہ کہ حق جل شانہ نے اس سورت میں بار بار مومنین مخلصین کو یایھا الذین امنوا کی ندا اور خطاب سے عزت بخشی جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ایمان کا مقتضی یہ ہے اور حدیث میں ہے لا ایمان لمن لا امانۃ لہ جس میں امانت کی صفت نہیں اس میں ایمان بھی نہیں اس لئے اب اس سورت کو امانت کی عظمت کے بیان پر ختم کرتے ہیں تاکہ اہل ایمان بحق ایمان اس امانت کی حفاظت میں کوتاہی نہ کریں اس لئے کہ امانت تمام خوبیوں کی جڑ ہے۔ چناچہ فرماتے ہیں تحقیق ہم نے اپنی بارگاہ عظمت و جلال سے آسمانوں کے اور زمین کے اور پہاڑوں کے سامنے امانت پیش کی یعنی احکام شریعت کی اطاعت (ف 1) اور بجا آوری کو بمنزلہ امانت کے ہے آسمان اور زمین پر اس طور پیش کیا کہ اگر تم نے ہمارے احکام اور اوامر اور نواہی کی تعمیل کی تو مستحق اجر اور ثواب کے ہو گے اور اگر نافرمانی اور حکم عدولی کی تو مستحق عذاب اور سزا کے ہو گے اور ہم نے جنت اور جہنم کو اسی ثواب اور عتاب کے لئے پیدا کیا ہے پس اگر تم ہماری اطاعت کرو گے تو جزا پاؤ گے اور اگر نافرمانی کرو گے تو سزا پاؤ گے غرض یہ کہ امانت خداوندی مراد ہے پس ہم نے اس امانت کو آسمان و زمین کے سامنے کردیا اور ان کو دکھا دیا اور ان میں شعور اور ادراک بھی پیدا کردیا۔ اور ماننے اور نہ ماننے کا اختیار بھی ان کو دے دیا اور کہہ دیا کہ یہ امانت تمہارے سامنے ہے اگر تم ہمارے احکام کی پابندی اس طرح اپنے ذمہ لیتے ہو تو لے لو اگر ان کے موافق عمل کیا تو اجر اور ثواب کے مستحق ہو گے اور اگر خلاف ورزی کی تو عذاب اور سز ا کے مستحق ہو گے اور تم کو اس ذمہ داری قبول کرنے اور نہ کرنے کا اختیار ہے غرض یہ کہ امانت سے تکلیف احکام خداوندی ہے یعنی احکام خداوندی کی تعمیل کو اس طرح اپنے ذمہ لے لینا کہ اطاعت کی صورت میں مستحق ثواب ہوں اور معصیت کی صورت میں مستحق عذاب ہوں۔ پس ان سب نے اس امانت کے اٹھانے سے اور اس ذمہ داری کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور بولے کہ ہم میں اتنی طاقت اور قوت نہیں کہ تیری امانت کے بوجھ کو اٹھا سکیں اور اس ذمہ داری سے ڈر گئے کہ خدا جانے بعد میں کیا انجام ہو خدانخواستہ اگر یہ امانت ہمارے ہاتھ سے ضائع ہوگئی یا کماحقہ ہم اس امانت کی حفاظت نہ کرسکے یا غلطی سے اس میں خیانت کر بیٹھے تو نہ معلوم ہم پر کیا مصیبت نازل ہو اور بولے کہ اے خدا جس کام کے لئے آپ نے ہم کو پیدا کیا ہے اور جس کام پر آپ نے ہم کو لگا دیا ہے ہم اس پر راضی ہیں تیرے روبرو مسخر اور ذلیل اور پست ہیں اور ہر طرح سے تیرے مطیع اور فرمانبرداری ہیں ہماری طبعی اور ذاتی کوئی خواہش نہیں ہم تیرا حکم ماننے والے ہیں جس شے پر آپ نے ہم کو مامور کردیا ہے ہم اس میں تیری نافرمانی نہ کریں گے ہم تیرے حکم کے مسخر ہیں ہم نہ ثواب کے طلب گار ہیں اور نہ ہم میں آپ کے عذاب کے اٹھانے کی طاقت ہے ہم تیری تسخیر پر راضی ہیں مگر تیرے اوامر اور نواہی کی تکلیف (یعنی ان کی ذمہ داری) قبول کرنے کی ہم میں طاقت اور ہمت نہیں امانت کے بوجھ سے اس قدر ڈرے کہ عذاب کے خوف سے ثواب سے بھی دستبردار ہوگئے کہ خدا جانے بعد میں کیا انجام ہو اور نہ معلوم ہم سے اس امانت کی حفاظت ہو سکے یا نہ ہو سکے اور ہم اس کے حقوق ادا کرسکیں یا نہ کرسکیں اے پروردگار ہم نہ ثواب چاہتے ہیں اور نہ ہم میں آپ کے عذاب کی اور نہ آپ کے عتاب کی طاقت ہے۔ 1 کما روی ابن عباس وجماعۃ من الصحابۃ و اکثر السلف۔ امام رازی (رح) فرماتے ہیں کہ آسمانوں اور زمین کا یہ اباء اور انکار ابلیس کی طرح اباء استکبار نہ تھا۔ بلکہ اباء استصغار اور انکار استحقار تھا کہ اپنے آپ کو اس بار امانت کے اٹھانے سے صغیر اور حقیر سمجھا جیسا کہ واشفقن منھا کا لفظ اس پر دلالت کرتا ہے اور اپنی اس کمزوری کے اظہار سے مقصود نیاز مندانہ اعتذار تھا (دیکھو تفسیر کبیر ص 630 ج 6) غرض یہ کہ ان سب نے بار امانت کے اٹھانے سے عذر کیا اور آسمان و زمین کے بعد جب یہ امانت انسان پر پیش کی گئی تو انسان ناتواں ضعیف البنیان نے ہمت کر کے اس امانت کے بوجھ کو اٹھا لیا اور خدا تعالیٰ کی اس پیش کردہ ذمہ داری کو قبول کرلیا اور انسان اپنے طبعی ذاتی مادہ انس کی وجہ سے شرمایا کہ اپنے پروردگار کی امانت کو کیسے واپس کروں اس لئے بصد شوق ورغبت مادہ انس و محبت کی وجہ سے اپنے پروردگار کی پیش کردہ امانت کو سر اور آنکھوں پر رکھ لیا بلکہ ھل من مزید کا نعرہ لگانے لگا بیشک انسان بڑا ہی ظالم تھا کہ جس نے اپنی جان پر ترس نہ کھایا اور اس کو اپنے اوپر رحم نہ آیا۔ اور جس بوجھ کے اٹھانے سے آسمان اور زمین جیسے اجسام عظیمہ نے پہلو تہی کی اس ضعیف اور ناتواں نے باوجود اپنے ضعف اور ناتوانی کے بصد شوق ورغبت اس بوجھ کو اپنے سر پر اٹھا لیا اور اپنے ضعف اور ناتوانی پر نظر نہ کی اور بڑا ہی نادان تھا کہ اس امانت میں خیانت کے انجام پر نظر نہ کی اور نہ یہ خیال کیا کہ اندرونی یا بیرونی دشمن (نفس اور شیطان) ہماری تاک میں تو نہیں۔ صحیح سالم منزل طے کرنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ راستہ میں کوئی راہزن چھپا نہ بیٹھا ہو انسان بڑا ہی ظلوم وجہول یعنی بڑا ہی ستمگار اور بالکل ہی ناتجربہ کار تھا۔ نہ تو اپنی کمزوری پر نظر کی اور نہ کسی اندرونی اور بیرونی دشمن کا خطرہ محسوس کیا بہرحال انسان نے اللہ کی اس امانت کو قبول کرلیا۔ زید بن اسلم ؓ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جب انسان نے اللہ کی اس امانت کو قبول کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے انسان تیری اعانت کرنے والا ہوں۔ (تفسیر ابن کثیر ص 423 ج 3) غرض یہ کہ انسان نے بار امانت تو اٹھا لیا مگر مشکل میں پڑگیا جیسا کہ حافظ شیرازی کا قول ہے کہ عشق آساں نمود اول ولے افتاد مشکلہا اور یہ اٹھانا انسان کی فطرت اور صلاحیت کے بھی مناسب تھا امام رازی (رح) فرماتے ہیں کہ آسمانوں اور زمین نے اور پہاڑوں نے اس امانت کے ثقل پر نظر کی اس لئے اس کے اٹھانے سے انکار کردیا اور انسان نے اس امانت کے پیش کرنے والے پر نظر کی کہ وہ میرا پروردگار ہے غیرت اور حیاء کے مارے قبول کرلیا اور سمجھا کہ میرے ظلم اور جہالت کی تلافی اللہ تعالیٰ کی امانت اور اس کی مغرت و رحمت سے ہوجائے گی۔ تفسیر کبیر ص 632 ج 6۔ : انہ کان ظلوما جہولا۔ بظاہر یہ دونوں لفظ منقصت پر دلالت کرتے ہیں مگر اہل ذوق سمجھتے ہیں کہ اس قسم کے الفاظ در حقیقت کمال لطف و عنایت اور نوازش اور محبت پر مبنی ہیں اور مطلب یہ ہے کہ اے انسان اگرچہ تو عدالت اور علم کے ساتھ بالفعل موصوف نہیں مگر تجھ میں عدل اور انصاف اور علم اور معرفت کی صلاحیت اور قابلیت موجود ہے اور تو نے اپنی رضا ورغبت سے اس امانت کو قبول کیا ہے۔ پس تو اللہ (ف 1) سے ڈر۔ کہ اس کی امانت میں خیانت نہ ہوجائے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا کہ امانت کا حق ادا ہو۔ ذکر انجام امانت : یہاں تک اس بات کو بیان کیا کہ انسان نے اس امانت کو اٹھا لیا اور اس ذمہ داری کو قبول کرلیا اب آئندہ آیت میں اس امانت کے انجام کو بیان کرتے ہیں کہ ہم نے یہ امانت انسان پر اس لئے پیش کی تاکہ انسان کی طبیعت میں جو امانت اور خیانت کا مادہ چھپا ہوا ہے وہ ظاہر ہوجائے۔ اور منافق کا نفاق اور مشرک کا شرک اور مومن کا اخلاص اندر سے نکل کر باہر آجائے حاصل کلام یہ کہ انسان نے اس امانت کو اٹھا تو لیا مگر اس کے حق میں اس کا انجام یہ ہے کہ بعض انسان اس امانت کی حفاظت کریں گے اور بعض اس میں خیانت کریں گے پس جس نے اس امانت کی حفاظت کی اور اس کا حق ادا کیا وہ مستحق نعمت اور کرامت ہوا۔ اور جس نے اس امانت میں خیانت کی اس نے اپنی عاقبت خراب کی چناچہ فرماتے ہیں کہ انسان کے اس امانت اٹھانے کا انجام یہ ہوگا کہ آئندہ چل کر اللہ عذاب دے منافق مردوں اور منافق عورتوں کو جنہوں نے دعویٰ تو محبت کا کیا مگر امانت میں خیانت کی۔ ظاہر میں وفا دار بنے اور باطن میں غدار اور مکار بنے اور جھوٹ بولا اور اللہ اور اس کے رسول کو اور اہل ایمان کو دھوکہ دیا اور ایذائیں پہنچائیں۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان بدعہدوں کو اور امانت میں خیانت کرنے والوں کو عذاب دے گا اور تاکہ اللہ تعالیٰ عذاب دے کفر اور شرک کرنے والے مردوں اور عورتوں کو جو ظاہرا اور باطنا دونوں طرح امانت سے منحرف ہوگئے اور کھلم کھلا اس کے منکر ہوگئے اور تاکہ اللہ تعالیٰ ایماندار مردوں اور ایماندار عورتوں پر توجہ اور رحمت فرمائے اور اپنی عنایت سے ان کو نوازے جنہوں نے حتی المقدور اللہ کی امانت کی حفاظت کی اور اپنے عہد پر قائم رہے اور اپنی ذمہ داری کو حتی المقدور پورا کیا مگر بمقتضائے بشریت حقوق امانت میں کچھ تقصیر ہوجائے تو اس سے در گذر کرتا ہے۔ امام رازی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ امانت اول آدم (علیہ السلام) پر پیش ہوئی اور انہوں نے اس امانت کو قبول کیا اور وہ صادق اور امین تھے انہوں نے اس امانت کی حفاظت کی اور بعض نے اس میں خیانت کی۔ (تفسیر کبیر ص 231 ج 6) 1 اس تفسیر سے مقصد یہ ہے کہ امانت کا گذشتہ آیت یعنی یایھا الذین امنوا اتقوا اللہ وقولوا قولا سدیدا یصلح لکم اعمالکم ویغفرلکم ذنوبکم ومن یطع اللہ ورسولہ فقد فاز فوزا عظیما۔ کے ساتھ ربط ہے۔ آیت امانت کی شیعی تفسیر یا تحریف تفسیر قمی میں جو تفسیر اہل بیت کے نام سے مشہور ہے اس میں اس آیت کی عجیب و غریب تفسیر کی ہے وہ یہ کہ امانت سے مراد امانت اور خلافت ہے اور انسان سے ابوبکر ؓ مراد ہے اور معنی آیت کے یہ ہیں کہ اللہ نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین میں پہاڑوں پر پیش کیا مگر سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کردیا لیکن ابوبکر ؓ بڑا ظلوم وجہول تھا اس نے اٹھا لیا اہل عقل سمجھ سکتے ہیں کہ یہ تفسیر نہیں بلکہ تحریف ہے بالفرض والتقدیر اگر یہ تفسیر ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ کہ آفرینش عالم سے پہلے سب کون ومکان حتی کہ حضرت علی ؓ بھی خلافت سے دستبردار ہوچکے تھے ان سب کی دستبرداری کے بعد اللہ نے خلافت ابوبکر ؓ پر پیش کی جس کو ابوبکر ؓ نے اٹھا لیا اور اٹھا کر اپنی ہی جان پر ظلم کیا نہ کہ حضرت علی ؓ پر اور حضرت ابوبکر ؓ کو جو خلافت ملی وہ مغصوبہ نہ تھی بلکہ خدا کی پیش کردہ تھی۔ خدا کی طرف سے ان کو یہ خلافت ملی تھی جس سے حضرت علی ؓ اپنی پیدائش سے پہلے ہی بصدرضا ورغبت دستبردار ہوچکے تھے۔ شیعوں کی یہ تحریف تو اہل سنت کو مفید ہے۔ لطائف ومعارف حضرت حکیم الامت مولانا اشرف تھانوی قدس اللہ سرہ اپنے ایک وعظ میں فرماتے ہیں کہ علماء محققین کا قول یہ ہے کہ اس آیت میں امانت سے تکلیف شرعی مراد ہے اور تکلیف کے معنی تحصیل الاعمال بالاختیار ہیں یعنی اپنے ارادہ اور اختیار سے احکام شریعت کو بجا لانا کیونکہ مطلق عبادت اور اطاعت سے کوئی شے خالی نہیں چناچہ حق جل شانہ فرماتے ہیں ثم استوی الی السماء وھی دخان فقال لھا وللارض ائتیا طوعا او کرھا قالتا اتینا طائعین یعنی ہم نے آسمان اور زمین سے کہا کہ ہمارے احکام تکوینیہ کے لئے تیار ہوجاؤ خواہ خوشی سے یا ناخوشی سے۔ سب نے عرض کیا ہم خوشی سے تیار ہیں معلوم ہوا کہ عابد اور مطیع تو تمام مخلوق ہے لیکن مکلف سب نہیں بجز انسان کے لہٰذا معلوم ہوا کہ تکلیف اور اطاعت میں فرق ہے اور جس امانت سے تمام عالم گھبرا گیا وہ تکلیف شرعی ہی ہے جس سے مراد عمل مع الاختیار ہے مطلب یہ ہے کہ امانت سے وہ اختیاری اطاعت مراد ہے جو طبیعت کے مقتضا کے خلاف ہو یا تکلیف شرعی سے ثواب و عتاب کی اہلیت اور صلاحیت مراد ہے۔ جیسا کہ شاہ عبد القادر موضح القرآن میں لکھتے ہیں کہ امانت کے معنی پرائی چیز کو اپنی خواہش سے روک کر رکھنے کے ہیں اور آسمان و زمین میں اپنی کوئی خواہش نہیں یا ہے تو وہی ہے جو خدا کا حکم ہے۔ حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق سے یہ فرمایا تھا کہ ہمارے کچھ احکام تشریعیہ ہیں ان کا مکلف بالاختیار ہونا کون قبول کرتا ہے یعنی جو شخص ان کا تحمل کرے گا اس کو صفت اختیار مع عقل کے عطا کی جائے گی۔ یعنی اس کی قوت ارادیہ ان احکام پر عمل کرنے کے لئے مجبور نہ ہوگی بلکہ عمل اور عدم عمل دونوں پر اس کو قدرت دی جائے گی پھر جو اپنے اختیار سے احکام کو بجالائے گا اس کو مقرب بنا لیا جائے گا اور جو اپنے اختیار سے احکام میں کوتاہی کرے گا اس کو مطرود (مردود) کردیا جائے گا اس سے سماوات اور ارض اور جبال اور تمام مخلوق ڈر گئی انسان اس کے لئے آمادہ ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کو مکلف بنا دیا یعنی اس کو صفت اختیار مع عقل کے عطا کردی گئی باقی مخلوق میں صفت اختیار اور عقل نہیں وہ جن احکام تکوینیہ یا عبادت کو بجا لاتے ہیں وہ ان کے لئے طبعی ہیں یعنی ان کی قوت ارادیہ اس کے خلاف کی طرف مائل ہی نہیں ہوتی بخلاف انسان کے کہ جن احکام کا یہ مکلف ہے وہ اس کے لئے طبعی نہیں بلکہ اس کی قوت ارادیہ عمل اور عدم عمل دونوں کی طرف مائل ہوتی ہے اب اس کی تکلیف کے معنی ہی یہ ہیں کہ اپنے اختیار سے ایک جانب کو ترجیح دے یعنی جانب عمل کو مامورات میں اور جانب عدم عمل کو منہیات میں ترجیح دے اسی کا نام تحصیل عمل ہے پس امانت یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوقات سے فرمایا کہ یہ صفت اختیار ہے اور یہ صفت عقل ہے اس کو کون لیتا ہے جو اس کو لے گا وہ ہمارے احکام کا مکلف اور پابند بنا دیا جائے گا۔ اس سے سب ڈر گئے اور انسان تیار ہوگیا۔ کذا فی التحصیل والتسہیل ص 23 وعظ نمبر 61 از سلسلہ تبلیغ۔ نیز حضرت حکیم الامت تھانوی (رح) اپنے ایک دوسرے وعظ میں فرماتے ہیں کہ اس آیت میں امانت سے تکلیف شرعی مراد ہے اور تکلیف شرعی سے مراد اعمال کو اپنے اختیار سے بجا لانا ہے یعنی جو اپنے اختیار سے اطاعت کرے گا اس کو ثواب ملے گا اور جو اطاعت نہیں کرے گا اس کو عذاب ہوگا اس کو سن کر سب ڈر گئے نہ آسمان کو ہمت ہوئی اور نہ زمین کو اور نہ پہاڑوں کو۔ اس امانت کا بوجھ اٹھانے سے سب ڈر گئے اور امانت کے اٹھانے سے انکار کردیا مگر حضرت انسان فورا بول اٹھے کہ ہم ہیں اس کے اٹھانے والے۔ کچھ دیکھا نہ بھالا اور ہمت کر کے قبول کرلیا وجہ اس ہمت کی وہ ہے کہ جس طرف کسی صاحب دل نے اشارہ کیا ہے۔ آسماں بار امانت نتوانست کشید قرعہ فال بنان من دیوانہ زدند لفظ دیوانہ اس کی طرف اشارہ ہے یعنی جوش عشق اور محبت نے ایسا بیخود اور دیوانہ بنایا کہ بغیر سوچے سمجھے ہی قبول کرلیا آسمان و زمین میں عشق اور محبت کا مادہ نہ تھا اس لئے ان پر شعور غالب آیا اور بوجھ اٹھانے سے انکار کردیا انسان پر عشق اور محبت کی وجہ سے بےشعوری غالب آئی اس لئے اقرار کرلیا۔ عشق سے خطاب کی لذت محسوس ہوئی اور اندازہ لگا لیا کہ جب خطاب میں لذت ہے تو جب مکلف ہونے کو مان لیں گے تو بار بار خطاب ہوگا اور خوب لطف آئے گا۔ اور بڑا مزہ ہوگا بعد میں چاہے دوزخ میں جلنا پڑے لیکن اس لذت کو نہ چھوڑنا چاہئے اور کچھ نہ سہی اس بہانہ سے بات ہی کرنے کا موقعہ ملا کرے گا جیسے کوئی مریض کسی طبیب پر عاشق ہوجائے اور علاج بھی اسی طبیب کا ہو تو مریض یہ دعا کرے گا کہ اے اللہ میں بیمار رہوں تاکہ حکیم صاحب میرے پاس آتے رہیں ملائکہ میں بھی مادہ عشق کا نہیں عشق کے لئے جوش اور خروش اور شوق اور ہیجان اور ولولہ لازم ہے یہ مادہ انسان میں سب سے زیادہ ہے اسی وجہ سے اگر انسان کی تعریف میں بجائے حیوان ناطق کے حیوان عاشق کہا جائے تو زیادہ بہتر ہے اور انہ کان ظلوما جھولا میں کچھ اس کی بےوفائی کی طرف اشارہ ہے۔ کہ عشق آساں نمود اول ولے افتاد مشکلہا ایک طرف عشق تھا اور ایک طرف انسانی کمزوری تھی عجب حال ہوا۔ ” نہ انکارمی کنم نہ اینکارمی کنم “ کا مضمون ہوگیا۔ اللہ ہم پر رحم فرمائے غرض یہ کہ انسان نے نہ آگا دیکھا نہ پیچھا جوش عشق میں امانت کو اٹھا ہی لیا اسی کو فرمایا ہے وحملھا الانسان اس میں انسان کے عارف ہونے کی طرف اشارہ ہے کہ اس نے پہچان لیا کہ اس تکلیف میں کیا دولت پنہاں ہے مگر یہاں ذکر صرف انسان کا اس لئے فرمایا کہ انسان صفت تکلیف میں اصل ہے اور جن اس کے تابع ہیں اس لئے اصل کو تو ذکر کیا اور تابع کو چھوڑ دیا اور انسان کے اصل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ حق جل شانہ کی عنایتیں جس قدر انسان پر ہیں اتنی جن پر نہیں۔ جن دوسرے درجہ میں ہے چناچہ جو لوگ جنات کے جنات میں (یعنی جنت میں) جانے کے قائل ہیں وہ اس کے بھی قائل ہیں کہ جنات جنت کے گردوپیش میں رہیں گے جیسے تابع لوگ رہا کرتے ہیں اس لئے ان کو خطاب میں شریک نہیں کیا گیا لیکن اثر خطاب اور حکم میں ضرور داخل ہیں کیونکہ تابع متبوع کے ساتھ اثر خطاب میں ضرور داخل ہوتا ہے اور انسان کے اصل ہونے کی دلیل یہ آیت ہے۔ ولقد کرمنا بنی ادم انسان کو حق تعالیٰ نے مکرم بنایا۔ اور حدیث میں ان اللہ خلق ادم علی صورتہ یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو مظہر اتم بنایا حق جل شانہ کی صفات کمالیہ وجمالیہ کا ظہور پورا پورا انسان کے ذریعہ سے ہوا جیسا کہ حدیث میں ہے۔ کنت کنزا مخفیا فاحببت ان اعرف۔ اور اسی وجہ سے ایحسب الانسان ان یترک سدی میں صرف انسان کا ذکر کیا۔ حالانکہ مکلف جن اور انس دونوں ہیں یعنی اس لئے کہ انسان اصل ہے اور جن تابع ہے اور ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ تبلیغ اول انسانوں ہی کو ہوئی اور پھر ثانیا جنوں کو ہوئی۔ کذا فی نقد اللبیب ص 45 وعظ بستم از سلسلہ تبلیغ حضرت شاہ عبد القادر (رح) لکھتے ہیں۔ امانت کیا چیز ہے۔ پرائی چیز کو اپنی خواہش روک کر رکھنے کے ہیں اور آسمان اور زمین میں اپنی خواہش کچھ نہیں، یا ہے تو وہی ہے جس پر وہ قائم ہیں انسان میں خواہش اور ہے اور حکم اس کے خلاف پرائی چیز کو یعنی حکم کو اپنے جی کے خلاف تھامنا بڑا زور چاہتا ہے اس کا انجام یہ ہے کہ منکروں کو قصور پر پکڑنا اور ماننے والوں کا قصور معاف کرنا اب بھی یہی حکم ہے کہ اگر کسی کی امانت کو جان بوجھ کر ضائع کر دے تو اس کا بدلہ (ضمان اور تاوان) دینا پڑے گا اور اگر بلا اختیار ضائع ہوجائے تو اس کا بدلہ یعنی ضمان اور تاوان نہیں (موضح القرآن بتوضیح یسیر) سید الطائفہ جنید بغدادی (رح) فرماتے ہیں کہ آدم (علیہ السلام) کی نظر خدا تعالیٰ کے پیش کرنے پر تھی کہ خدا تعالیٰ پیش کر رہا ہے امانت کے ثقل پر اس کی نظر نہ تھی حق تعالیٰ کے پیش کرنے کی لذت نے امانت کا بوجھ بھلا دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لطف ربانی بزبان عنایت بول اٹھا کہ اے آدم (علیہ السلام) امانت کا اٹھانا تیری طرف سے ہے اور نگہبانی میری طرف سے ہے چونکہ تو نے خوشی سے میری امانت کو اٹھا لیا تو میں نے تجھے اٹھا لیا۔ راہ اور ابدو تو ان پیمود بار اور ابدو تو ان برداشت بعض بزرگوں کا قول ہے کہ جب آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں نے اس بار امانت کے اٹھانے سے انکار کردیا تو انسان آگے بڑھا اور اپنے کاندھے پر اٹھا کر ھل من مزید کا نعرہ لگانے لگا تو غیب سے آواز آئی کہ اے خاکی دلیر تجھ میں یہ قوت کہاں سے آئی تو یہ مشت خاک زبان حال سے بولا کہ یہ بارگراں یار مہربان کی مدد سے کھینچ سکوں گا۔ غرض یہ کہ انسان جس کے نام نامی پر انی جاعل فی الارض خلیفۃ کا پروانہ جاری ہوچکا تھا اس کے قامت سراپا استقامت کے سوا کسی قد پر امانت کا خلعت راس نہ آیا ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء اور کار خلافت کی انجام دہی کے لئے قوت علمیہ اور قوت عملیہ میں کمال درکار ہے۔ سو امتحان علم میں حضرت آدم (علیہ السلام) فرشتوں سے بھی آگے نکلے۔ ادم الاسماء کلھا۔ رہی قدرت سو فرشتوں میں یکطرفہ قدرت تھی ان میں اپنی ذاتی اور طبعی کوئی خواہش اور رغبت نہ تھی اور آدم (علیہ السلام) کی طبیعت اور فطرت میں رغبت اور میلان کا مادہ بھی تھا جو دونوں طرف چل سکے اور اس میں عجیب و غریب ملکات اور کمالات کی استعداد رکھ دی کہ مدارج عالیہ تک پرواز کرسکے اور فرشتوں کے کمالات اور مقامات معین ہیں۔ کما قال تعالیٰ وما منا الا لہ مقام معلوم واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم وعلمہ اتم دا حکم۔ الحمد للہ کہ آج بروز دو شنبہ بوقت اذان عصر بتاریخ 10 ذی قعدۃ الحرام 1392 ھ سورة احزاب کی تفسیر سے فراغت نصیب ہوئی والحمد للہ اولا واخرا اے اللہ باقی تفسیر کی تکمیل کی توفیق عطا فرما۔ ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم وتب علینا انک انت التواب الرحیم۔
Top