بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - Faatir : 1
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ جَاعِلِ الْمَلٰٓئِكَةِ رُسُلًا اُولِیْۤ اَجْنِحَةٍ مَّثْنٰى وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ١ؕ یَزِیْدُ فِی الْخَلْقِ مَا یَشَآءُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
اَلْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے فَاطِرِ : پیدا کرنے والا السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین جَاعِلِ : بنانے والا الْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتے رُسُلًا : پیغامبر اُولِيْٓ اَجْنِحَةٍ : پروں والے مَّثْنٰى : دو دو وَثُلٰثَ : اور تین تین وَرُبٰعَ ۭ : اور چار چار يَزِيْدُ : زیادہ کردیتا ہے فِي الْخَلْقِ : پیدائش میں مَا يَشَآءُ ۭ : جو وہ چاہے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے قَدِيْرٌ : قدرت رکھنے والا ہے
سب تعریف خدا ہی کو (سزاوار ہے) جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا (اور) فرشتوں کو قاصد بنانے والا ہے جن کے دو دو اور تین تین اور چار چار پر ہیں وہ (اپنی) مخلوقات میں جو چاہتا ہے بڑھاتا ہے بیشک خدا ہر چیز پر قادر ہے
تحمید خداوند حمید ومجید برائے اثبات توحید وتذکیر نعم وتحذیر از نقم قال تعالیٰ الحمد للہ فاطر السموت والارض جاعل الملئکۃ رسلا اولی اجنحۃ مثنی وثلث وربع۔۔۔ الی۔۔۔ ان اللہ علیم بما یصنعون۔ (ربط) گذشتہ سورت کے اخیر میں کفار ومشرکین کی ہلاکت کا ذکر تھا کہ ان پر اللہ کا قہر نازل ہوا۔ اور ہلاک اور برباد ہوئے اور کافروں کی ہلاکت اور بربادی اللہ کی نعمت ہے جس پر شکر واجب ہے۔ کما قال تعالیٰ فقطع دابر القوم الذین ظلموا والحمد للہ رب العلمین۔ اس لئے اس سورت کا آغاز اللہ کی حمد وثنا سے کیا گیا (روح المعانی ص 148 ج 22) اور اسی ذیل میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ظاہری اور باطنی نعمتوں کا ذکر کر کے شکر پر متنبہ کیا اور ناشکری کے انجام سے ڈرایا۔ اس سورت کا زیادہ حصہ اثبات توحید اور ابطال شرک اور منکرین توحید اور منکرین قیامت کی تہدید اور توبیخ میں ہے اور بعض آیات میں آنحضرت ﷺ کی تسلی کا ذکر ہے جو آپ ﷺ کو کفار کی تکذیب سے رنج وغم ہوتا تھا اور بعض آیات میں جزاء اور سزا اور ایمان اور عمل صالح کی عزت اور کفر اور اعمال سیہ کی ذلت اور خواری کا بیان ہے پہلی سورت کی طرح اس سورت کا آغاز بھی حمد سے ہوتا ہے اور دونوں سورتوں کے مضامین میں مناسبت ظاہر ہے پہلی سورت کی طرح اس سورت کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کے حمد اور شکر سے شروع فرمایا اول اپنے آثار نعمت اور دلائل قدرت کو ذکر فرمایا تاکہ توحید ثابت ہو۔ بعدہ مسئلہ رسالت بیان فرمایا۔ وان یکذبوک فقد کذبت رسل من قبلک والی اللہ ترجع الامور اس کے بعد معاد کا مضمون بیان فرمایا۔ یایھا الناس ان وعد اللہ حق فلا تغرنکم الحیوۃ الدنیا ولا یغرنکم باللہ بالغرور۔ چناچہ فرماتے ہیں تمام تر حمد وثناء اسی خدائے پاک کے لئے لائق ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے جس نے اپنی قدرت کا ملہ سے عدم سے چیر (ف 1) کر آسمان اور زمین کو نکالا اور وجود کا لباس ان کو پہنایا تاکہ دنیا اس کی قدرت کا جلوہ دیکھے اس لئے کہ یہ دونوں اس کی عجیب و غریب رحمتوں اور نعمتوں کے معدن اور مخزن ہیں جن کو دیکھ کر دنیا کے عقلا حیران اور سرگرداں ہیں کہ سارا جہان زمین کے فرش پر آسمان کی چھت کے نیچے بیٹھا ہوا ہے۔ آسمان اور زمین کے اختلاط اور امتزاج سے رزق پیدا ہوتا ہے جیسے مرد اور عورت کے اختلاط اور امتزاج سے بچہ پیدا ہوتا ہے آسمان بمنزلہ مرد کے ہے اور زمین بمنزلہ عورت کے ہے آسمان سے بارش ہوتی ہے اور زمین اس کو اپنے اندر جذب کرلیتی ہے اسی طرح سمجھو کہ علوی اور سفلی کے امتزاج سے رزق پیدا ہوتا ہے یہ اس کی قدرت کا کرشمہ ہے آسمان بمنزلہ فاعل کے ہے اور زمین بمنزلہ قابل کے ہے اور زمین کے ثمرات بمنزلہ اولاد کے ہیں جس کا اصل سرچشمہ آسمان ہے۔ کما قال تعالیٰ وفی السماء رزقکم وما تو عدون۔ پس تمام خوبی اللہ کے لئے جو آسمانوں کا اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے اور اس خدا کے لئے ہے جو فرشتوں کا پیدا کرنے والا ہے اپنے نبیوں کی طرف ان کو اپنا قاصد اور ایلچی بنانے والا ہے کہ آسمان سے اللہ کا پیغام لے کر جلد آسمان سے اتریں اور پیغمبروں کو پہنچائیں تاکہ زمین سے گمراہی کی گندگی دور ہو اور وحی اور الہام اور رؤیائے صالحہ سے شیاطین کے وسوسوں کی ظلمت دور ہو پھر یہ فرشتے جو اللہ کا پیغام لے کر آسمان سے زمین پر اترتے ہیں اور پھر زمین سے آسمان پر چڑھتے ہیں۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے پروں والا اور بازو والا بنایا ہے تاکہ ان پروں کے ذریعے عالم بالا کی پرواز کرسکیں اور اللہ کا حکم لے کر آسمان سے زمین پر جلد پہنچیں۔ غرض یہ کہ فرشتوں کے پر اور بازو ہیں دو دو اور تین تین اور چار چار اور یہ بازو ان کی خلقت کے مناسب ہیں جیسے ان کی خلقت نورانی ہے اسی طرح ان کے بازو بھی نورانی ہیں اور اصل حقیقت اور کیفیت تو اللہ ہی کو معلوم ہے اور پھر خدا کے پیغمبر جنہوں نے فرشتوں کو دیکھا ہے وہی کچھ ان کا حال بتا سکتے ہیں فلسفی اور سائنس دان دائرہ محسوسات میں صرف اتنا بتلا سکتے ہیں کہ کبوتر کے دو بازو ہیں اور دو پر ہیں جن سے وہ ہوا میں اڑتا ہے مگر کس طرح اڑتا ہے اور اس کے طیران (اڑنے کی) حقیقت اور کیفیت کیا ہے یہ بیان نہیں کرسکتا اور یہ فلسفی دو آنکھوں سے دیکھتا ہے اور دو پیروں سے چلتا ہے مگر اپنے دیکھنے اور چلنے کی حقیقت اور کیفیت کے بتلانے سے قاصر اور عاجز ہے اور اگر اس فلسفی کی چار آنکھیں اور چار پیر ہوتے تو کیسے دیکھتا اور کیسے چلتا یا دو زبانیں ہوتیں تو کیسے بولتا یہاں فلسفی دم بخود ہے فلسفی خدا تعالیٰ کے متعلق تو خوب زبان چلاتا ہے ذرا اپنے متعلق بھی تو کچھ زبان چلائے اور ہلائے جو خدا دو پیر اور دو آنکھیں دینے پر قادر ہے وہی خدا چار آنکھیں اور چار پیر دینے پر بھی قادر ہے اور وہی خدا دونوں آنکھیں پھوڑ دینے اور دونوں ٹانگیں توڑ دینے پر بھی قادر ہے۔ یزید فی الخلق ما یشاء ان اللہ علی کل شیء قدیر اس کی قدرت کے اعتبار سے دو اور چار اور توڑنا اور پھوڑنا اور جوڑنا سب برابر ہے۔ اور بڑھاتا ہے وہ فاطر (قادر) پیدائش میں کمیت اور کیفیت اور صورت اور صفت کے اعتبار سے جو چاہتا ہے اور جس قدرچاہتا ہے بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ لہٰذا فرشتوں کے تین چار بازو سن کر تعجب نہ کرنا چاہئے اس کی صنعت کا کوئی اندازہ نہیں کرسکتا وہ قادر مطلق اور خالق مطلق ہے جس طرح چاہے بنائے اس نے اپنی قدرت اور حکمت سے جس مخلوق کی خلقت اور صنعت میں جتنی چاہی زیادہ کردی کسی کو دو پایہ بنایا اور کسی کو چار پایہ اور کسی کو چہل پایہ (کنکھجورا) بنایا مکھی کی آنکھ بظاہر ایک دکھائی دیتی ہے مگر انکشاف جدیدہ سے یہ معلوم ہو کہ جب بذریعہ خورد بین دیکھو تو اس کی آنکھیں آٹھ ہزار سے زیادہ نظر آتی ہیں۔ لوگوں کے حواس خمسہ کم وبیش اور مختلف ہیں کوئی کم دیکھتا ہے اور کوئی زیادہ اور کوئی کم سنتا ہے اور کوئی زیادہ۔ کسی کو عقل اتنی زیادہ دی کہ آسمان تک پرواز کرسکے۔ کسی کو بےبال وپر بنایا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی کسی حکمت سے فرشتوں کی خلقت میں تفاوت رکھا کسی کے دو اور کسی کے تین اور کسی کے چار بازو بنائے اور کسی کے اس سے بھی زیادہ۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ میں نے شب معراج میں جبریل (علیہ السلام) کو دیکھا کہ اس کے چھ سو بازو ہیں۔ 1 ” فطر “ کا اصل مادہ لغت میں شک کے لئے ہے چناچہ انفطار اور تفطر اسی سے ماخوذ ہے۔ اس ترجمہ میں فاطر کے اصل معنی کی طرف اشارہ ہے۔ زجاج (رح) اور فراء (رح) اور جمہور مفسرین کہتے ہیں کہ یزید فی الخلق ما یشاء میں جس زیادتی کا ذکر ہے وہ ملائکہ کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ عام ہے ہر خلقت وصنعت اور قدوقامت اور حواس ظاہرہ اور باطنہ سب کو شامل ہے جس میں حسن صورت اور حسن سیرت اور آنکھوں کی ملاحت اور زبان کی حلاوت اور خوش آوازی اور نغمہء دلکش اور جسامت اور جسمانی قوت اور عقل کی جودت اور متانت وغیرہ وغیرہ سب یزید فی الخلق ما یشاء میں داخل ہے کسی خاص نوع کے ساتھ مخصوص نہیں اور امام رازی (رح) نے تفسیر میں اسی عموم کو اختیار کیا ہے اسی طرح سمجھو کہ فرشتے اللہ کی ایک نورانی مخلوق ہے جو ہوا سے زیادہ لطیف ہے اور ان کی خلقت اور پیدائش میں اس نے اپنی حکمت سے تفاوت رکھا ہے کسی کو دو پر عطا کئے۔ اور کسی کو تین اور کسی کو چار اور کسی کو اس سے بھی زیادہ۔ وہ قادر مطلق اور حکیم مطلق ہے وہ اپنی پیدائش اور بناوٹ میں جو کمی اور زیادتی جانتا ہے اس پر کسی کو چون وچرا کی مجال نہیں سارا عالم اس کی قدرت کے سامنے اور سارے عالم کی عقلیں اس کے علم و حکمت کے سامنے بےبال وپر ہیں کسی کی مجال نہیں اس کے آسمان قدرت و حکمت تک پرواز کرسکے۔ جسم انسانی کی طرح روح انسانی کی بھی ایک خاص شکل اور خاص ہیئت ہے مگر وہ لطیف اور مجرد من المادہ ہے اور لطافت کی وجہ سے ادراک اور احساس سے بالا اور برتر ہے روح کی شکل اور ہیئت کو انسان کی ظاہری ہیئت پر قیاس نہیں کیا جاسکتا اسی طرح فرشتوں کے پروں اور بازوؤں کو پرندوں کے پروں اور بازوؤں پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ نکتہ : طیور یعنی پرندے جسم خاکی ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو خلا میں پرواز کرنے کے لئے پر عطا کئے۔ فرشتے جسم نورانی ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو عالم بالا کی پرواز کے لئے نورانی پر عطا کئے جن کی دلفریبی کی کوئی حد نہیں جسم طیور چونکہ خاکی ہے اس لئے بالطبع مائل بہ سفل (پستی) ہے اور ملائکہ نورانی ہیں اس لئے بالطبع مائل بہ علو (بلندی) ہیں۔ اور چونکہ فرشتے تدابیر عالم پر مامور ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو نورانی اور لطیف بال وپر عطا کئے تاکہ عالم علوی اور عالم سفلی کے ہبوط اور صعود میں ان کو مدد دیں (ماخوذ از تفسیر عزیزی ص 234 ) اور وہ ایسا قادر مطلق ہے کہ کوئی اس کی قدرت میں مزاحم نہیں اس لئے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے لئے جس جسمانی یاروحانی رحمت اور نعمت کا دروازہ کھول دے جیسے بارش اور روزی اور نعمت وصحت اور امن و عافیت اور علم و حکمت اور ایمان اور ہدایت۔ اسے کوئی بند کرنے والا نہیں اور جس چیز کو وہ روک لے تو کوئی اس کو چھوڑنے والا نہیں اور وہی زبردست اور حکمت والا ہے اس کا کھولنا اور بند کرنا سب حکمتوں پر مبنی ہے جس بندہ کو اللہ تعالیٰ نے کوئی فضیلت اور نعمت عطا کی اسے کوئی روک نہیں سکتا اور جس سے خدا نے کوئی نعمت اور فضیلت روک لی اسے کوئی دے نہیں سکتا تمام خزائن رحمت اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ اے لوگو جب تم نے دیکھ لیا کہ تمام نعمتوں اور رحمتوں کے خزانے اسی کے دست قدرت میں ہیں تو تم اپنے اوپر اللہ کے انعام اور احسان کو یاد کرو۔ اور اپنے منعم اور محسن کا شکر کرو کہ اس نے تم کو عدم سے نکال کر وجود عطا کیا اور بیشمار نعمتیں تم کو عطا کیں اور اس نے تم کو رزق اور سامان بقا دیا ہوشیار ہوجاؤ مطلب یہ ہے کہ نعمت کو یاد کر کے منعم کو پہچانو کہ کس نے تم کو یہ نعمت دی۔ بھلا کیا اللہ کے سوا تمہارا کوئی خالق ہے جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق دے کہ آسمان سے بارش برسائے اور زمین سے نباتات اگائے ؟ کوئی نہیں۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ پس جب اللہ کی حجت تم پر قائم ہوگئی تو پھر کہاں پھرے جاتے ہو کہ توحید کو چھوڑ کر شرک میں اوندھے گرے جا رہے ہو۔ اب توحید کے بعد آپ ﷺ کی رسالت کو ذکر کرتے ہیں جو اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے اور اگر یہ لوگ دربارہ توحید و رسالت و قیامت آپ کو جھٹلائیں تو آپ ﷺ غم نہ کریں آپ سے پہلے بہت سے رسول جھٹلائے گئے انہوں نے صبر کیا آپ ﷺ بھی صبر کیجئے اور اگر دنیا میں حق کا اثر ظاہر نہ ہوا تو آخرت میں تمام امور اسی کی طرف لوٹا دئیے جائیں گے نہ کہ اس کے غیر کی طرف۔ وہاں آپ ﷺ کو صبر کی جزاء اور ان کو تکذیب کی سزا دے گا آپ ﷺ نے نصیحت کر کے دنیا میں ان پر حجت قائم کردی۔ اے لوگوتحقیق دار آخرت اور قیامت اور جزا اور سزا کے متعلق اللہ کا وعدہ بالکل حق اور درست ہے پس یہ دنیاوی زندگی اور اس کی زینت اور آرائش اور اس کی عیش و عشرت اور آسائش تم کو دھوکہ میں نہ ڈال دے یہ دنیا فانی ہے دائمی نہیں اور ایسا نہ ہو کہ کوئی دھوکہ باز تم کو دھوکہ دے دے اور پیغمبروں کی پیروی سے تم کو روک دے اور آخرت سے تم کو بےفکر کر دے۔ تحقیق یہ شیطان تمہارے باپ کی طرح تمہارا بھی دشمن ہے۔ تمہاری تاک میں ہے۔ پس تم اس کو اپنا دشمن سمجھے رکھو کسی بات میں اس کو اپنا خیر خواہ نہ سمجھنا۔ ہوشیار ہو اس کے کہنے سے اللہ کی معصیت نہ کرنا معصیت تو معصیت طاعت میں بھی اس سے ہوشیار رہو کہیں ریا اس میں داخل نہ کر دے۔ جز ایں نیست کہ یہ مکار اپنے گروہ کو دنیا کی دعوت دیتا ہے تاکہ انجام کار وہ لوگ بھی اس کے ساتھ دوزخ والوں میں سے ہوجائیں اور اس کے یاروں اور مصاحبوں میں سے ہوجائیں۔ پس خوب سمجھ لو کہ انبیاء کی دعوت اور شیطان کی دعوت دونوں تمہارے سامنے ہیں اور اس کا قبول کرنا تمہارے اختیار میں ہے لہٰذا جو لوگ کافر ہوئے اور شیطان کے کہنے پر چلے ان کے لئے آخرت میں سخت عذاب ہے۔ جن لوگوں نے باوجود حق تعالیٰ کی تنبیہ اور نصیحت کے شیطان کا اتباع کیا وہ اہل شقاوت ہیں جن کا انجام دائمی عذاب ہے اور جن لوگوں نے شیطان کو اپنا دشمن سمجھا اور ایمان لائے اور نیک کام کئے ان کے واسطے مغفرت اور اجر عظیم ہے یہ لوگ اہل سعادت ہیں۔ جن کو وہم و گمان سے بڑھ کر نعمتیں ملیں گی پس کیا وہ شخص جس کو اس کے برے اعمال مزین اور آراستہ کر کے دکھلائے گئے اور پھر اس نے اس کو اچھا سمجھا ایسے شخص کے برابر ہوسکتا ہے کہ جو اچھے اور برے میں تمیز کرتا ہے ہرگز نہیں پس خوب سمجھ لو کہ یہ حق اور باطل کی تمیز من جانب اللہ ہے تحقیق اللہ جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے پس آپ کا نفس ان گمراہوں پر حسرتیں نہ کرے بلکہ خداوند علیم وخبیر پر چھوڑ دے کیونکہ یہ لوگ جو کچھ کرتے ہیں اس کو اللہ خوب جانتا ہے لہٰذا آپ ﷺ ان کی گمراہی پر رنجیدہ اور غمگین نہ ہوں۔ بھلے اور برے کا فرق ان پر واضح ہوچکا تھا۔ اللہ کی حجت ان پر پوری ہوچکی اور اللہ کو پہلے سے اس کا علم تھا۔ لطائف معارف ذکر اقوال مختلفہ دربارہ حقیقت ملائکہ (علیہم السلام) (1) اہل اسلام کے نزدیک ملائکہ اجسام نورانیہ کا نام ہے جو نور سے پیدا کئے گئے ہیں اور لطیف ہیں اور ہر صورت اور شکل میں نمودار ہوسکتے ہیں صورت اور شکل ان کے حق میں لباس کا حکم رکھتی ہے کھانے اور پینے اور توالد اور تناسل سے اور اللہ تعالیٰ کی معصیت سے پاک اور منزہ ہیں ذکر الٰہی ان کی غذا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو افعال قو یہ پر قدرت دی ہے۔ اور یہ باتیں قرآن کریم کی بیشمار آیات اور بیشمار احادیث سے اور صحابہ اور تابعین کے اجماع سے ثابت ہیں اور تمام کتب سماویہ توریت اور انجیل اور زبور سب کی سب فرشتوں کے اقرار اور اعتراف اور ان پر ایمان کے بارے میں متفق ہیں لہٰذا فرشتوں کا انکار اور فرشتوں کے نزول کا انکار سب کفر ہے اس لئے کہ یہ باتیں دلیل قطعی سے ثابت ہیں۔ (2) قدیم فلاسفہ کے نزدیک ملائکہ ارواح مجردہ کا نام ہے یعنی ایسے حقائق کا نام ملائکہ ہے جو بذات خود قائم ہوں اور لوازم مادہ سے بالکلیہ پاک اور بری ہوں اور وہ نفوس ناطقہ انسانی سے ایک علیحدہ نوع ہے جو صاحب ادراک و شعور ہے۔ یہ قدیم فلاسفہ کا مذہب ہے۔ (3) اور فلاسفہ عصر سرے سے وجود ملائکہ کے منکر ہیں۔ (4) اور نصاریٰ کی ایک جماعت کا مذہب یہ ہے کہ ملائکہ ان نفوس ناطقہ کا نام ہے جو انسانی جسموں سے علیحدہ ہوجاتے ہیں۔ اگر وہ نیک ہوں تو وہ ملائکہ ہیں اور اگر بد ہوں تو شیاطین ہیں۔ (5) بعض بت پرستوں کا مذہب یہ ہے کہ ارواح کواکب کا نام ملائک ہے جو سعادت اور نحوست کا اثر دنیا پر ڈالتے ہیں۔ (6) اور مجوس کا عقیدہ یہ ہے کہ عالم کی اصل دو چیزیں ہیں۔ نور اور ظلمت۔ نور ہمیشہ اخیار اور پسندیدہ لوگوں کو پیدا کرتا رہتا ہے یہ گروہ ملائکہ کا گروہ ہے۔ اور ظلمت خبیث اور شریر لوگوں کو پیدا کرتی ہے ان کا نام شیاطین ہے۔ (7) نیچریوں کے نزدیک جوہر چیز کو نیچر کا اثر مانتے ہیں۔ ملائکہ اجسام نورانیہ کا نام نہیں بلکہ ان قوائے فطریہ کا نام ملائکہ ہے جو نیکی کی طرف میلان پیدا کرتی ہے اور جو قوتیں برائی کی طرف کھینچتی ہیں ان کا نام شیاطین ہے یہ زمانہ حال کے نیچریوں کا مذہب ہے جو سرسید علی گڑھی کے پیرو ہیں اور سرسید نے جس بےباکی سے ملائکہ اور شیاطین کے وجود کا انکار کیا ہے اور آیات اور احادیث میں جو تحریف کی ہے یہود اور نصاریٰ میں بھی اس تحریف کی نظیر نہیں۔ نیچریوں کا یہ عقیدہ صریح الحاد اور زندقہ ہے اور صریح آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ کے خلاف ہے سرسید کے نزدیک فرشتہ ایک قوت کا نام ہے جو دکھائی دینے کے قابل نہیں اور قرآن اور حدیث سے یہ امر صاف طور پر ثابت ہے کہ فرشتہ ایک جسم لطیف کا نام ہے جس کا دکھائی دینا ممکن ہے اور انبیاء کرام نے فرشتوں کا مشاہدہ کیا ہے اور مرنے کے وقت ہر شخص فرشتوں کو دیکھتا ہے اور قیامت کے دن کافر بھی فرشتوں کو دیکھیں گے۔ یوم یرون الملئکۃ اور حدیث میں ہے کہ مرغ فرشتہ کو دیکھ کر اذان دیتا ہے اور گدھا شیطان کو دیکھ کر آواز نکالتا ہے۔ غرض یہ کہ نیچریوں کا یہ عقیدہ کہ ملائکہ قوائے فطریہ کا نام ہے۔ صریح آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ کے خلاف ہے ازروئے اسلام ملائکہ ایک ایسی لطیف اور نورانی مخلوق کا نام ہے جو عالم مادی کے ظلمات سے پاک اور منزہ ہے اللہ کی مخلوقات کی کوئی شمار نہیں اس کی بیشمار مخلوقات میں سے ایک نوع فرشتوں کی بھی ہے جو تمام انواع مخلوقات سے علیحدہ اور جدا ہے اور عالم مادی کی صفات اور کیفیات سے مبرا ہے۔ اب ہم چند آیات قرآنیہ پیش کرتے ہیں جو اس خیال خام کے قلع قمع کے لئے کافی ہیں۔ (1) جاعل الملئکۃ رسلا اولی اجنحۃ مثنی وثلث وربع۔ کیا اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قوائے فطریہ کے کچھ پر اور بازو لگا رکھے ہیں۔ (2) وتری الملئکۃ حافین من حول العرش۔ یعنی فرشتے عرش عظیم کو گھیرے ہوئے ہیں۔ (3) ویحمل عرش ربک فوقہم یومئذ ثمنیۃ۔ قیامت کے دن عرش کو آٹھ فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ تو کیا عرش عظیم کو گھیرے میں لینے والے اور اس کو اٹھانے والے یہ قوائے نظریہ ہیں۔ (4) فان اللہ ھو مولاہ وجبریل و صالح المومنین والملئکۃ بعد ذلک ظھیر۔ کیا اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ قوائے فطریہ اور مومنین صالحین نبی کے دوست اور معین اور مددگار ہیں۔ (5) والملئکۃ یدخلون علیہم من کل باب سلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبی الدار۔ کیا اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ قوائے فطریہ ہر دروازہ سے جنت میں داخل ہوں گے اور اہل جنت کو سلام کریں گے۔ (6) ونادوا یمالک لیقض علینا ربک۔ کیا آیت کا یہ مطلب ہے کہ اہل دوزخ قوائے فطریہ سے یہ درخواست کریں گے کہ آپ خدا تعالیٰ سے ہماری موت کا قطعی فیصلہ کرا دیجئے۔ (7) ما یلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید۔ کیا آیت کا یہ مطلب ہے کہ قوائے فطریہ انسان کے الفاظ اور حروف کی نگرانی کرتے ہیں۔ (8) ویرسل علیکم حفظۃ۔ کیا آیت کا یہ مطلب ہے کہ انسان کی حفاظت کے لئے اللہ نے قوائے فطریہ کو مقرر کیا ہے۔ (9) وان علیکم لحافظین کراما کاتبین یعلمون ما تفعلون۔ کیا ان نیاچرہ کے نزدیک قوائے فطریہ ان کے اعمال کی کتابت کرتے ہیں۔ (10) اللہ یصطفی من الملئکۃ رسلا۔ کیا اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض قوائے فطریہ کو اپنا ایلچی اور سفیر بنا رکھا ہے۔ (11) بل عباد مکرمون۔ کیا اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ قوائے فطریہ خدا کے معزز بندے ہیں۔ (12) یوم یقوم الروح والملئکۃ صفا۔ کیا اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ قیامت کے دن قوائے فطریہ خدا کے سامنے صف بستہ کھڑے ہوں گے۔ (13) ان اللہ وملئکتہ یصلون علی النبی۔ کیا اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ قوائے فطریہ آنحضرت ﷺ پر درود بھیجتے ہیں اور اللہم صلی علی محمد وعلی ال محمد کما صلیت علی ابراہیم وعلی ال ابراہیم پڑھتے رہے ہیں۔ (14) وان لنحن الصفون وانا لنحن المسبحون۔ کیا اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ قوائے فطریہ ہر وقت خدا تعالیٰ کے سامنے صف بستہ تسبیح پڑھتے رہتے ہیں۔ (15) وہم من خشیۃ ربہم مشفقون۔ کیا آیت کا یہ مطلب ہے کہ قوائے فطریہ مثلا کشش ثقل اور قوت اتصال خوف خداوندی سے ڈرتے رہتے ہیں۔ (16) تتنزل علیہم الملئکۃ۔ کیا آیت کا یہ مطلب ہے کہ موت کے وقت اہل ایمان پر قوائے فطریہ کا نزول ہوتا ہے ہر انسان کے قوائے فطریہ پہلے ہی سے موجود ہیں۔ (17) تنزل الملئکۃ والروح۔ کیا شب قدر میں قوائے فطریہ کا نزول ہوتا ہے۔ (18) قل یتوفکم ملک الموت۔ (19) توفتہ رسلنا۔ کیا ان آیات کا یہ مطلب ہے کہ قوائے فطریہ انسان کی روح قبض کرتے ہیں۔ (20) یضربون وجوھہم وادبارہم۔ کیا آیت کا یہ مطلب ہے کہ قوائے فطریہ جب کفار کی روح قبض کرنے آتے ہیں تو ان کے منہ اور دبر (سرین) پر کوڑے مارتے ہیں۔ (21) علیھا تسعۃ عشر۔ کیا جہنم پر انیس قوائے فطریہ کا پہرہ ہے۔ (22) زنان مصر نے یوسف (علیہ السلام) کے جمال بیمثال کو دیکھ کر یہ کہا ما ھذا بشرا ان ھذا الا ملک کریم۔ یہ تو بشر نہیں بلکہ فرشتہ ہے تو کیا زنان مصر کے نزدیک یوسف (علیہ السلام) کسی قوت فطریہ کا نام تھا اور کسی آدمی کا نام نہ تھا۔ الغرض اس قسم کی بیشمار آیتیں ہیں جو اس جنون اور بکواس کو رد کرتی ہیں کہ ” ملائکہ قوائے فطریہ کا نام ہے “۔ صرف قصہ پیدائش آدم (علیہ السلام) کو لے لیجئے جس میں ملائکہ کا سوال و جواب مذکور ہے کیا یہ سوال قوائے فطریہ کی طرف سے تھا۔ قرآن کریم میں ملائکہ کے انکار اور ان کی دشمنی اور عداوت کو کفر قرار دیا گیا ہے۔ من کان عدو اللہ وملئکتہ ورسلہ وجبریل ومیکئل فان اللہ عدو للکفرین۔ کیا اس آیت میں قوائے فطریہ کی دشمنی کو کفر کہا گیا ہے۔ ہم نے آج تک کسی بیوقوف کو بھی نہیں سنا کہ وہ اپنے قوائے فطریہ یعنی قوت باصرہ اور قوت سامعہ اور قوت غاذیہ اور قوت دافعہ اور قوت مفکرہ کو اپنا دشمن سمجھتا ہو۔ ان احمقوں سے کوئی پوچھے تو سہی کہ کیا کراما کاتبین اور ملائکۃ الموت اور منکر ونکیر اور جنت و جہنم کے فرشتے۔ کیا ان سب سے قوائے فطریہ مراد ہیں۔ احادیث صحیحہ وصریحہ اور جن احادیث صحیحہ وصریحہ میں ملائکہ اور ان کے اقوال اور افعال اور احوال کا ذکر آیا ہے وہ شمار سے باہر ہیں اور اس قدر صریح اور واضح ہیں کہ نہ مجال انکار کی ہے اور نہ گنجائش تاویل کی ہے۔ حدیث جبرئیل (علیہ السلام) جو ایک معروف ومشہور ہے جس میں حضور ﷺ کی وفات سے کچھ پہلے جبریل امین (علیہ السلام) کا آنا اور آنحضرت ﷺ سے ایمان اور اسلام اور احسان اور قیامت کے متعلق سوال کرنا۔ اور آنحضرت ﷺ کا جواب دینا مذکور ہے کیا یہ سب سوالات قوائے فطریہ کی طرف سے تھے جو لباس جبرئیلی میں نمودار ہوتے تھے۔ کبرت کلمۃ تخرج من افواہم ان یقولون الا کذبا۔ اطلاع : جاننا چاہئے کہ ملائکہ کا وجود قرآن اور حدیث سے صراحۃً ثابت ہے خان بہادر سرسید علی گڑھی اپنی تفسیر میں شدومد سے وجود ملائکہ اور وجود شیاطین کا منکر ہے اور آیات قرآنیہ میں عجیب عجیب تاویلیں کرتا ہے۔ سرسید نے ملائکہ اور شیاطین کے بارے میں جو تحریفات کی ہیں ان کو مولانا عبد الحق صاحب دہلوی (رح) نے اپنی تفسیر حقانی کے مقدمہ میں نقل کر کے ان کا ہذیان اور بکواس ہونا ثابت کیا ہے ناظرین کرام مقدمہ تفسیر حقانی جو تفسیر کے ساتھ چھپا ہوا ہے از ص 20 تا ص 60 ملاحظہ کریں۔ واللہ الھادی الی سواء الطریق۔ وجود ملائکہ پر فلاسفہء حال کے شبہات اور ان کے جوابات فلاسفہء حال چونکہ سرے سے وجود ملائکہ کے قائل نہیں اس لئے ہم ان کے چند شبہات مع جوابات ہدیہ ناظرین کرتے ہیں۔ پہلا شبہ : منکرین ملائکہ کا ایک شبہ یہ ہے کہ اگر ملائکہ (فرشتے) اللہ کی کوئی مخلوق ہے اور موجود ہے تو ہم کو دکھائی کیوں نہیں دیتی۔ جوابات : (1) یہ ہے کہ فرشتے بوجہ لطافت کے نظر نہیں آتے ایک شیشہ میں صاف و شفاف ہوا بھری ہوئی ہوتی ہے مگر لطافت کی وجہ سے نظر نہیں آتی تو کیا اس وجہ سے کوئی فلسفی ہوا کے انکار کرسکتا ہے۔ (2) فلاسفہ حال اس بات کے قائل ہیں کہ یہ تمام عالم ایک غیر محسوس مادہ سے بھرا ہوا ہے جسے ایتھر کہتے ہیں۔ (3) نیز بہت سے اجرام ہوائی ایسے ہیں کہ آلات کے ذریعہ سے تو محسوس ہوتے ہیں بغیر آلات کے محسوس نہیں ہوتے۔ معلوم ہوا کہ یہ امر ممکن ہے کہ ہم کسی چیز کو آلات نہ ہونے کی وجہ سے نہ دیکھ سکیں اگرچہ وہ چیز فی الواقع موجود ہے۔ کھانے میں اگر سنکھیا اور زہر ملا دیا جائے تو بسا اوقات وہ اتنا قلیل ہوتا ہے کہ انسان اس زہر کو نہ قوت باصرہ سے محسوس کرسکتا ہے اور نہ قوت شامہ سے مگر بندر اس کو سونگھ کر فورا پہچان سکتا ہے۔ اور نیولا تو اسے دیکھ کر ہی پہچان لیتا ہے۔ معلوم ہوا کہ بعض چیزیں ایسی بھی ہیں کہ حق جل شانہ نے ان کا ادراک اور احساس انسان کو عطا نہیں فرمایا اور دوسری کمتر مخلوق کو اس کا ادراک عطا فرمایا ہے تو کی اسی طرح یہ ممکن نہیں کہ فرشتوں کا ادراک اور احساس حضرات انبیاء کو عطا کیا ہو اور عام انسانوں کو ان کا ادراک نہ عطا کیا ہو۔ بلکہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض جانوروں کو یہ احساس دیا گیا ہے چناچہ حدیث میں آیا ہے کہ مرغ فرشتہ کو دیکھ کر بولتا ہے اور گدھا شیطان کو دیکھ کر چیختا ہے۔ شہد کی مکھی کبھی راستہ نہیں بھولتی یہ قوت حافظ انسان کو نہیں دی گئی۔ چیونٹی سوراخ کی گہرائیوں میں سے مٹھائی کی خوشبو محسوس کرلیتی ہے یہ اس کی قوت شامہ ہے بندر اور بہت سے حشرات الارض اندھیرے اور اجالے میں یکساں دیکھتے ہیں۔ ریڈیو کے ذریعہ ہزاروں میل کی آوازیں سنائی دیتی ہیں جو بغیر ریڈیو کے نہیں سنائی دے سکتیں ہزاروں میل کی آواز سننے کے لئے اس آلہ کا ہونا شرط ہے لہٰذا جس کے پاس ریڈیو نہ ہو وہ ہزاروں میل کی آواز نہیں سن سکتا اسی طرح ممکن ہے کہ فرشتوں کو دیکھنے کے لئے کوئی خاص بینائی شرط ہو جو انبیا کو عطا کی گئی ہو۔ پس جس طرح ریڈیو کا انکار معتبر نہیں اسی طرح فرشتوں کا انکار بھی معتبر نہیں۔ دوسرا شبہ : یہ ہے کہ فرشتے ایسے قوی تصرفات پر کیسے قادر ہوئے جن کا ذکر قرآن اور حدیث میں آتا ہے جیسے کسی فرشتہ یا جن کا طرفۃ العین میں تخت بلقیس کو سلیمان (علیہ السلام) کے سامنے لا کر رکھ دینا یا فرشتوں کا آسمان سے زمین پر اترنا اور پھر ان کا واپس ہوجانا۔ وغیرہ وغیرہ۔ جواب : یہ ہے کہ فرشتے غایت درجہ لطیف اور نورانی ہیں اور لطیف اور نورانی شے کی تاثیر بھی نہایت قوی ہوتی ہے آگ اور بھاپ اور بجلی اور پانی کی طاقتوں کا حال ہماری نظروں کے سامنے ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔ اور اس کے مقابلہ میں عنصر خاکی کو لے لیجئے۔ جس کی دیگر عناصر کے سامنے کوئی حقیقت نہیں سوائے لطافت اور کثافت کے اور کیا فرق ہے بجلی کے کرشمے آج دنیا کے سامنے ہیں پس قوم ثمود کا فرشتہ کے چیخ مارنے سے کلیجے پھٹ کر مرجانا کیوں مستبعد سمجھتے ہو۔ بارود کو دیکھئے کہ ظاہر میں کچھ نہیں مگر ذرا آگ لگے تو اس میں اتنی قوت آجاتی ہے کہ پہاڑوں کو بھی اڑا کر رکھ دیتی ہے۔ بھاپ اپنی لطافت کی وجہ سے ایک پوری ٹرین کو صدہا میل کھینچ کرلے جاتی ہے اور بجلی کی قوت سے جر ثقیل کے آلات بڑے بڑے جہازوں کو اوپر اٹھا لیتے ہیں تو اگر کوئی خدا کا فرشتہ قوم لوط کی بستیوں کو اٹھا کر لٹا کر دے تو کیوں انکار کرتے ہو۔ تیسرا شبہ : فرشتوں کا مختلف شکلوں کے ساتھ متشکل ہونا آیات اور احادیث سے تابت ہے لیکن عقلا شیء واحد کا مختلف شکلوں کے ساتھ متشکل ہونا آج کل بھی مشاہدہ سے ثابت ہے مادہ ایثریہ (ایتھر) کا مختلف شکلوں اور مختلف صورتوں میں نمودار ہونا اہل سائنس کے نزدیک مسلم ہے ، قال اللہ تعالیٰ ان الشیطان لکم عدو فاتخذوہ عدوا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں خبر دی ہے کہ اے بنی آدم یہ شیطان تمہارے وجود سے پہلے ہی تمہارا دشمن ہے اس کو دشمن سمجھنا دوست نہ بنانا۔ وکان الفضیل بن عیاض یقول یا کذاب یا مفتری انق اللہ ولا تسب الشیطان فی العلانیۃ وانت صدیقہ فی السر (تفسیر قرطبی ص 323 ج 14) جو شخص شیطان کو برا بھلا کہتا) توفضیل ابن عیاض (رح) اس سے یہ کہتے کہ اے کذاب اور اے مفتری اللہ سے ڈر اور اعلانیہ طور پر شیطان کو برا مت کہہ۔ حالانکہ اندرونی طور پر تو شیطان کا سچا اور پکا دوست ہے۔
Top