بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - Az-Zumar : 1
تَنْزِیْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللّٰهِ الْعَزِیْزِ الْحَكِیْمِ
تَنْزِيْلُ : نازل کیا جانا الْكِتٰبِ : یہ کتاب مِنَ اللّٰهِ : اللہ کی طرف سے الْعَزِيْزِ : غالب الْحَكِيْمِ : حکمت والا
اس کتاب کا اتارا جانا خدائے غالب (اور) حکمت والے کی طرف سے ہے
اثبات حقانیت کتاب الہی و توحید خداوندی وابطال شرک : قال اللہ تعالیٰ : (آیت) ” تنزیل الکتب من اللہ العزیز الحکیم ....... الی ....... فانی تصرفون “۔ (ربط) گذشتہ سورت میں زیادہ ترمضامین اثبات رسالت کے متعلق تھے اور مشرکین مکہ آنحضرت ﷺ کی نبوت و رسالت پر جو اعتراضات کرتے تھے ان کا جواب ورد تھا اور ان کے بیہودہ تمسخر پر تحمیق وتجہیل تھی اب اس سورت میں توحید خداوندی کا بیان ہے اور ابطال شرک اور یہ کہ عبادت صرف اللہ کا حق ہے اس میں کسی کو شریک کرنا خواہ کسی بھی عقیدہ اور تخیل سے ہو عقل اور فطرت کے خلاف ہے اور شرک کے مرتکب کا انجام تباہی اور ہلاکت کے سوا کچھ نہیں ان مضامین کیلئے بطور تمہید حقانیت قرآن کا ذکر فرما کر یہ سلسلہ مضامین شروع کیا جارہا ہے۔ (آیت) ” بسم اللہ الرحمن الرحیم : تنزیل الکتاب من اللہ العزیز الحکیم “۔ فرمایا یہ نازل کی ہوئی کتاب ہے اللہ غالب حکمت والے کی طرف سے اس لئے کسی کو جرأت نہ ہونی چاہیے کہ اس کا انکار کرے اگر انکار وتردد کیا تو ظاہر ہے اس غلبہ اور طاقت والے پروردگار کی گرفت اور سزا سے نہیں بچ سکے گا اور چونکہ وہ حکمت والا ہے اس وجہ سے کسی کو قدرت نہیں کہ اس کے کسی پیغام وحکم کو خلاف مصلحت کہے بیشک ہم نے اتارا ہے اس کتاب کو آپ ﷺ کی طرف حق کے ساتھ ٹھیک طور سے لہذا آپ ﷺ اللہ کی عبادت کرتے رہیے جیسا کہ اب تک آپ ﷺ اسکی عبادت میں مصروف ہیں خالص اللہ ہی کی معبودیت والوہیت کا اعتقاد رکھتے ہوئے یاد رکھو اللہ ہی کے لیے عبادت و بندگی مخصوص ہے جوہر قسم کی شرک کی گندگی سے پاک ہو اور اللہ کی توحید وخالقیت اور عبادت صرف اسی کا حق ہے یہ عین فطرت اور عقل کے مطابق ہے فطرت انسان اور عقل اس کو ہرگز گوارہ نہیں کرتی کہ اس معبود حقیقی کی عبادت میں کسی کو شریک بنایا جائے اس لیے ہر ایک پر یہ لازم ہے کہ اسکو قبول کرے اور اس کے مطابق عمل کرے اور جن لوگوں نے اللہ کی عبادت خاصہ چھوڑ کر خدا کے سوا اور معبود تجویز کر رکھے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہم نہیں عبادت کرتے ہیں ان معبودوں کی مگر صرف اس لئے کہ یہ معبود ہم کو اللہ کے قریب کردیں گے اور اسکا مقرب ہم کو بنا دیں گے سو ان کا یہ گمان اور عقیدہ لغو اور باطل ہے بیشک اللہ تعالیٰ فیصلہ کردے گا ان کے اور اہل ایمان کے درمیان قیامت کے روز انکے اس اختلافی معاملہ میں کہ اہل ایمان و توحید کو جنت میں داخل فرمادیا جائے گا اور اہل شرک ذلت و خواری کے ساتھ جہنم میں ڈال دیئے جائیں گے اور اس طرح عملا اس اختلاف کا فیصلہ ہوجائے گا آپ ﷺ ایسے بدنصیبوں کی گمراہی اور ہلاکت پر غم نہ کیجئے اور نہ تعجب کہ ایسے واضح دلائل کے باوجود کیوں راہ حق سے بھٹکے ہوئے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ہرگز ایسے شخص کو راہ پر نہیں لاتا جو جھوٹا اور نافرمان ہو اور جو اپنی زبان سے اقوال کا ذبہ اور کفریہ بولتا ہو دل کفر کے اعتقاد سے لبریز ہو اور عمل سے نافرمانی اور کفر پر تلا ہوا ہو ظاہر ہے کہ یہ جملہ احوال ایسے شخص کی بدنصیبی اور محرومی ہی کا باعث ہیں۔ مشرکین کا ایک شرک یہ بھی تھا کہ اللہ کے لیے اولاد تجویز کرتے جیسا کہ نصاری نے حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کا خدا کا بیٹا قرار دیا تو ان کا رد کرتے ہوئے ارشاد فرمایا اگر بالفرض اللہ تعالیٰ ارادہ فرماتا اس بات کا کہ کسی کو بیٹا بنائے تو چن لیتا اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہتا ہر چیز کائنات میں اس کی مخلوق ہے اور بیٹا ہونے کے لئے اگر کسی کو منتخب کرتا تو وہ بھی اس کی مخلوق ہوتا جو یقیناً اللہ کی جنس سے نہ ہوتا اور یہ بات ظاہر ہے کہ بیٹا باپ کی جنس سے ہوتا ہے تو یہ کیونکر ممکن تھا کہ مخلوق اس کی اولاد ہوجائے اور اگر بالفرض ایسا ہو تو یہ بہت بڑا عیب اور نقصان ہے کہ بیٹا والد کی جنس سے نہ ہو وہ تو ہر عیب سے پاک ہے وہ اللہ یکتا ہے کہ اس کا کوئی شریک اور نمونہ نہیں جو زبردست عزت اور غلبہ والا ہے لہذا نہ اس کی طرف اولاد کی نسبت کی جاسکتی ہے اور نہ یہ ممکن ہے کہ ایسے شرک کا ارتکاب کرنے والے اس کی گرفت اور عذاب سے بچ سکیں اس کی قوت اور غلبہ کا تو یہ عالم ہے کہ اس نے آسمان و زمین کو حکمت سے پیدا کیا اور رات کی ظلمت کو لپیٹ دیتا ہے دن کی روشنی پر جس سے دن غائب ہوجاتا ہے اور ایسا ہی ہوجاتا ہے جیسے کسی چیز کو کسی میں لپیٹ کر چھپا دیا گیا اور دن کی روشنی کو لپیٹ دیتا ہے رات کی ظلمت پر جس سے رات غائب ہوجاتی ہے اور مسخر کردیا ہے اس نے سورج کو اور چاند کو ہر ایک کو اپنے کام میں لگا رکھا ہے کہ ان میں ہر ایک چلتا رہے گا ایک وقت مقرر تک ہر ایک کی رفتار اور نظام لیل ونہار قیامت تک اسی بہترین اسلوب کے ساتھ جاری رہے گا یہ آسمان اور زمین اور لیل ونہارا اپنے میں کس قدر حکمتیں اور خالق رب العالمین کی وحدانیت اور الوہیت کی دلیلیں لئے ہوئے ہیں خبر دار ہوجاؤ وہی ہے زبردست قدرت والا ان لوگوں کو عذاب دینے کے لیے جو ان دلائل کے باوجود اس کی توحید پر ایمان نہ لائیں ساتھ ہی بڑی مغفرت کرنے والا ہے ان لوگوں کے لیے جو اپنی گذشتہ زندگی کے کفر وشرک کو چھوڑ کر ایمان لے آئیں آخر سوچنا چاہیے کہ انسان اس خالق حقیقی اور رب منعم کا انکار اور اس کے ساتھ شرک کرتا ہے جس نے اس کی تخلیق میں مادہ وحدت اور یگانگت کا رکھا کہ تمام بنی نوع انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیں پھر یہی وہ اس کے ساتھ شرک کرکے انسانوں میں مومن و کافر کی تفریق پیدا کررہا ہے ان باہر کے دلائل کے علاوہ خود اس کے وجود میں ایسے دلائل ہیں کہ وہ ان سے خدا کو پہچان سکتا ہے اور یہ کہ اس کی وحدانیت پر ایمان لانا عین فطرت کا تقاضا ہے تو اے انسانو ! پیدا کیا اس نے تم کو ایک جان یعنی آدم (علیہ السلام) سے پھر اسی سے بنایا اس کا جوڑا یعنی حوا (علیہا السلام) کو پیدا کیا جس سے دنیا انسانوں کی پیدائش کا سلسلہ جاری ہوا اور بنائے تمہارے نفع کے لیے جو پاؤں میں سے آٹھ نرو مادہ اونٹ، گائے بھیڑ، بکری، جو پروردگار پیدا کرتا ہے تم کو اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے تمہاری ماؤں کے پیٹ میں ایک طرح کے بعد دوسری طرح پر تین اندھیروں میں یعنی بتدریج تم کو نطفہ سے علقہ بناتا ہے اور پھر اس دم بستہ کو مضغۂ لحم پھر اس پر ہڈیاں اور گوشت چڑھاتا ہے پھر روح پھونک کر حیات وزندگی کے ساتھ ان تین۔ 1 حاشیہ نمبر 1 (تین اندھیروں سے مراد ایک پیٹ ہے دوسرا اندھیرا رحم ہے اور تیسرا وہ جھلی جس میں بچہ محفوظ ہوتا ہے ان اندھیروں میں ہی خدا نے اس کو بتدریج نشوونما کی پھر حیات وزندگی بخشی اور پھر اس رحم مادر سے باہر نکالا تو وہ دیکھنے اور سننے والا تھا۔ 12۔ ) اندھیروں سے تم کو باہر لاتا ہے سن لو یہ ہے اللہ تمہارا رب جس کی یہ عظیم قدرتیں اور بلند پایہ حکمتیں ہیں اور ان میں سے ہر ایک چیز اسکی ربوبیت وخالقیت اور وحدانیت کی ایسی دلیل ہے جو تمہارے وجود میں رچی ہوتی ہے اسی کی سلطنت وحکمرانی ہے اس کے سوا کوئی تعریف کے لائق نہیں سوائے انسانو ! ان دلائل وحقائق کے بعد بھی تم کہاں بھٹک رہے ہو تم پر واجب ہے کہ اس کی خالقیت اور وحدانیت پر ایمان لاؤ۔ ان آیات مبارکہ میں حق تعالیٰ نے کتاب الہی کو حق کے ساتھ نازل کئے جانے پر یہ حکم تنوع فرمایا (آیت ) ” فاعبد اللہ مخلصا لہ الدین “۔ اس لیے کہ جو کتاب حق واصداقت لے کر نازل ہوئی اس پر عمل اس طرح ممکن ہے کہ اخلاص نیت کے ساتھ صرف اللہ ہی کی عبادت کی جائے اخلاص کے بغیر توحید کا حق ادا نہیں ہوسکتا کیونکہ اخلاص کی نفی اور ضد شرک اور ریاء ہے اخلاص کے حکم کے ساتھ (آیت ) ” الا للہ الدین الخالص “۔ اسی کی تاکید اور تکمیل کے لیے فرمایا گیا تاکہ یہ ظاہر ہوجائے کہ اللہ کی بارگاہ میں پسندیدہ دین وہی ہے جو شرک کی آمیزش سے ہر طرح پاک ہویزید رقاشی ؓ سے منقول ہے ایک شخص نے عرض کیا یارسول اللہ ہم میں سے بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو مال خرچ کرتے اللہ کی راہ میں مگر وہ چاہتے ہیں ان کی شہرت ہو تو کیا ایسی صورت میں کوئی اجر وثواب ہے آپ ﷺ نے فرمایا اللہ رب العزت صرف اسی چیز کو قبول فرماتا ہے جو صرف اسی کے واسطے خالص کی گئی ہو اور پھر یہ آیت تلاوت فرمائی (آیت ) ” الا للہ الدین الخالص “۔ (آیت ) ” لو اراد اللہ ان یتخذوالدا “۔ سلسلہ توحید خداوندی میں یہ آیت مشرکین ونصاری اور ان تمام گمراہ فرقوں کا رد ہے جو اللہ کے لئے اولاد تجویز کرتے ہیں مثلا نصاری حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں اور اسی کے ساتھ تین خداؤں (تثلیث) کے بھی قائل ہیں اور مشرکین عرب میں بعض قبیلے فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہا کرتے۔ مراد یہ ہے کہ بالفرض اگر خدا تعالیٰ یہ ارادہ کرتا کہ اس کی کوئی اولاد ہو تو ظاہر ہے کہ وہ اپنی مخلوق ہی میں کسی کو اس مقصد کے لئے چنتا کیونکہ یہ بات تو دلائل سے ثابت ہوچکی کہ خدا ایک ہے اور اس کے سوا کائنات میں جو کچھ ہے وہ اسکی مخلوق ہے اور یہ ظاہر ہے کہ مخلوق اور خالق میں کسی طرح کا بھی نوعی یا جنسی اشتراک نہیں ہوسکتا تو پھر ایک دوسرے کا باپ بیٹا کیسے ہوسکتا ہے اور جب مخلوق و خالق میں یہ رشتہ محال ہے تو یقیناً اللہ کی طرف سے ایسا ارادہ کرنا بھی محال ہوگا علاوہ ازیں اگر اس محال کے بارے میں بھی یہ فرض کرلیں کہ یہ محال نہیں تب بھی فرشتوں کو بیٹیاں بنانا عقل میں آنے والی بات نہیں ہے اس لیے کہ جب مخلوق میں انتکاب ہی کرنا ٹھیرا تو اس کا کیا مطلب ہے خدا تعالیٰ اپنی واسطے گھٹیاچیز انتخاب کرے یعنی بیٹیاں اور عمدہ چیز چن چن کر تمہیں دے دے یعنی بیٹے غرض یہ کہ ایسا فرض کرنا بھی امکان سے خارج ہے اور اللہ کی الوہیت میں تو کوئی دوسرا کیا شریک ہوتا اسکے ساتھ تو کسی کو نوعی یا جنسی اشتراک بھی نہیں ہوسکتا ، (آیت ) ” وانزل لکم من الانعام “۔ میں لفظ انزل بمعنی خلق یعنی پیدا کئے تمہارے واسطے آٹھ اقسام چوپایوں کے نرومادہ سے ملاکر یہاں انزل بمعنی خلق (آیت ) ” اوجد “ ہوا اور یہ ایسا ہی ہوا جیسے (آیت ) ” وانزلنا الحدید “۔ اور (آیت ) ” یا بنی ادم قد انزلنا علیکم لباسایواری سوء تکم “۔ میں لفظ انزل استعمال کیا گیا یہ بھی ممکن ہے کہ یہ عنوان اس لحاظ سے اختیار کیا گیا ہو کہ یہ تمام اشیا ازقبیل انعامات خداوندی ہیں اور انعام کی عطا و بخشش ملا اعلی سے دنیا والوں کے لیے ہوتی ہے تو اس وجہ سے انزل کا عنوان اختیار فرمالیا گیا یا یہ کہ انعام وچوپایوں اور لباس جو نباتات کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے ان کے وجود میں آسمان کے پانی اور بارش کو دخل ہے یا بقول بعض مفسرین یہ اشیا درحقیقت اپنی اصل لحاظ سے جنت میں تھیں انکو جنت سے زمین پر اتارا گیا۔
Top