Maarif-ul-Quran - Az-Zumar : 46
قُلِ اللّٰهُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ عٰلِمَ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ اَنْتَ تَحْكُمُ بَیْنَ عِبَادِكَ فِیْ مَا كَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ
قُلِ : فرمادیں اللّٰهُمَّ : اے اللہ فَاطِرَ : پیدا کرنے والا السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین عٰلِمَ : اور جاننے والا الْغَيْبِ : پوشیدہ وَالشَّهَادَةِ : اور ظاہر اَنْتَ : تو تَحْكُمُ : تو فیصلہ کرے گا بَيْنَ : درمیان عِبَادِكَ : اپنے بندوں فِيْ مَا : اس میں جو كَانُوْا : وہ تھے فِيْهِ : اس میں يَخْتَلِفُوْنَ : اختلاف کرتے
کہو کہ اے خدا (اے) آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے (اور) پوشیدہ اور ظاہر کے جاننے والے تو ہی اپنے بندوں میں ان باتوں کا جن میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں فیصلہ کرے گا
تسلی برائے نبی کریم ﷺ بضمن تلقین دعا وبیان بیچارگی عالم پیش قدرت رب کبریاء :۔ قال اللہ تعالیٰ : قل اللھم فاطر السموت والارض ......... الی ......... لقوم یؤمنون “۔ (ربط) گذشتہ آیات مجرمین ومنکرین کی سزا اور قیامت کے روز ان کی ذلت وندامت کے بیان پر مشتمل تھیں اب ان آیات میں آنحضرت ﷺ کو ایک عظیم دعا کی تلقین وتعلیم کے ضمن میں تسلی دی جارہی ہے تاکہ آپ ﷺ کفار کی مخالفت اور شدت عناد سے مغموم ومتأسف نہ ہوں، ارشاد فرمایا : کہہ دیجئے اے ہمارے پیغمبر اپنے پروردگار سے دعا ومناجات کرتے ہوئے اے اللہ آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے، ظاہر و باطن کے جاننے والے آپ ہی قیامت کے روز اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرمائیں گے ان امور میں جن کے متعلق وہ باہم اختلاف کرتے تھے اور یہ کہہ کر آپ ہر معاملہ اللہ کے حوالے کردیجئے، اللہ خود ہی فیصلہ فرما دے گا اور یہ فیصلہ کوئی ایسا فیصلہ نہیں ہوگا کہ جس کو کسی تدبیر اور ذریعہ سے رد کردیا ہی فیصلہ فرما دے گا اور یہ فیصلہ کوئی ایسا فیصلہ نہیں ہوگا کہ جس کو کسی تدیبر اور ذریعہ سے رد کردیا جائے حتی کہ اگر ان لوگوں کے پاس جو کفر وشرک کرکے ظلم کرنے والے ہیں، دنیا بھر کی تمام چیزیں ہوں اور بلکہ ان کے ساتھ اتنی ہی چیزیں اور بھی ہوں تو یہ لوگ ان چیزوں کو فدیہ کرنے لگیں قیامت کے دن سخت عذاب سے بچنے کے لیے اور خدا کی طرف سے ظاہر ہوگا ان کے لیے ایسا معاملہ عذاب وذلت کا جس کا وہ گمان بھی نہ کرتے تھے، اور اس وقت ان کو اپنے وہ تمام برے اعمال ظاہر ہوجائیں گے جو وہ کیا کرتے تھے اور جس عذاب کا وہ استہزاء و مذاق کرتے تھے وہ ان کو آکر گھیرلے گا، حقیقت یہ ہے کہ ایسا انسان اپنی نالائقی اور کمینہ فطرت کے باعث یہ روش اختیار کرتا ہے کہ جب اسکو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہم کو پکارنے لگتا ہے اور اپنے ان معبودوں کو اس وقت بھول جاتا ہے جن کو وہ ہماری الوہیت و عبادت میں شریک کرتا تھا مگر پھر جب اس کو اپنی جانب سے نعمتوں سے نواز دیتے ہیں تو یہ کہنے لگتا ہے کہ یہ نعمت تو مجھے صرف اپنے علم وہنر اور تدبیر کی وجہ سے ملی ہے گویا اتنے ہی فرق اور حالت کی تبدیلی سے جس توحید کا اثر اس کے قلب میں اس اضطراروپریشانی کے عالم میں پیدا ہوا تھا فورا ہی ختم ہوجاتا ہے، اور خدا کے کیے ہوئے انعام میں اپنی تدبیر اور ہنر کو شریک کرنے لگ جاتا ہے حق تعالیٰ اس ناپاک ذہنیت کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں نہیں ہرگز ایسا نہیں بلکہ یہ نعمت تو ایک آزمائش ہے تاکہ ہم دیکھ لیں کہ یہ بندہ اس نعمت کے ملنے پر ہمیں یاد کرتا ہے اور شکر ادا کرتا ہے یا ہم کو بھول جاتا ہے اور انعامات کے ذریعے بندوں کا امتحان یہ ہمارا قانون ہے لیکن ان میں سے اکثر لوگو اس بات کو سمجھتے ہی نہیں، اور طرز بغاوت وناشکری کا آج اس قوم کا کوئی نیا طرز نہیں ہے بلکہ یہ بات ان لوگوں نے بھی شک کہی ہے جو ان سے پہلے گذرے جیسے کہ قارون نے بھی کہا تھا، (آیت ) ” انما اوتیتہ علی علم عندی “۔ مگر ان کی کوئی تدبیر ان کے کام نہ آئی جو وہ کرتے تھے بلکہ ان کی وہ تمام بداعمالیاں ان پر آپڑیں جو وہ کرتے تھے اور جس طرح ان کی بداعمالیوں کا انجام ان پر مسلط ہوا اسی طرح ان میں کے ظالموں کی بداعمالیاں بھی عنقریب ان پر پڑیں گی اور یہ لوگ اس سے بچ نہیں سکتے، چناچہ بدر میں شکست اور بڑی ہی ذلت کا سامنا کرنا پڑا، حالانکہ ان کے پاس سازوسامان کی کوئی کمی نہ تھی اور مسلمان بےسروسامان اور تعداد میں نہایت قلیل تھے، ایسے تاریخی حقائق سے منکروں کو عبرت حاصل کرنی چاہئے، اور دنیا کی دولت اور مادی اسباب پر غرور نہ کرنا چاہئے، کیا انہیں اب تک یہ معلوم نہیں ہوا کہ اللہ تعالیٰ جس کے واسطے چاہے رزق پھیلا دیتا ہے اور جس کے واسطے چاہے تنگ کردیتا ہے رزق کی وسعت و کثرت نہ حق کی دلیل ہے اور نہ غلبہ کی نشانی ہے، بیشک اس چیز میں بہت بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے واسطے جو ایمان ویقین رکھتے ہیں چناچہ ہر صاحب فہم دنیا کے احوال دیکھ کر اس اقرار پر مجبور ہوتا ہے کہ رزق کی وسعت اور تنگی انسان کے ہنروعلم پر موقوف نہیں بلکہ یہ صرف اللہ کی طرف سے تقسیم ہے بہت سے بےہنر اور بےتدبیر مال و دولت کے انبار رکھتے ہیں اور بہت سے سمجھ دار اور ہنر وتدبیر والے خسارہ اور ناکامی کا شکار ہوتے ہیں۔ اگر رزق علم وہنر سے ہی حاصل کیا جاتا تو علم وہنر والے جاہلوں اور بےہنر لوگوں کے واسطے حبہ بھی نہ چھوڑتے، الغرض ان آیات میں حق تعالیٰ شانہ نے نبی کریم ﷺ کو تسلی فرمانے کے ساتھ کافروں اور ظالموں کو انجام بد سے متنبہ فرمایا اور یہ بھی واضح کردیا کہ مال و دولت سے نہ مغرور ہونا چاہئے، او نہ یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ ہمارے علم وہنر کا نتیجہ ہے بلکہ اس کو محض انعام خداوندی جاننا چاہئے اور منعم کا شاکر ومطیع ہونا چاہیئے اور یہ کہ خدا کے عذاب وقہر کے مقابلہ میں دنیا کے تمام اسباب ووسائل بھی عاجز ہیں تو اس پیغام تسلی کے ساتھ مجرمین کو تہدید ودھم کی بھی ہے اور ساتھ ہی اپنے رسول ﷺ کو کامیابی اور غلبہ کی بشارت بھی وہی جارہی ہے، ان آیات میں یہ دعائیہ کلمات نہایت ہی جامع اور بااثر ہیں، ان کلمات مبارکہ میں ایمان ومعرفت اور توکل علی اللہ کی حقیقت پوری طرح روشن ہے آنحضرت ﷺ تہجد کی ابتداء انہی کلمات سے فرمایا کرتے تھے، حضرت عائشہ ﷺ فرماتی ہیں آنحضرت ﷺ جس وقت رات میں بیدار ہو کر نماز کا سلسلہ شروع فرماتے، آپ ﷺ یہ کلمات پڑھا کرتے تھے۔ اللہم رب جبریل ومیکائیل واسرافیل فاطر السموت والارض عالم الغیب والشھادۃ انت تحکم بین عبادک فیما کانوا فیہ یختلفون اھد فی لما اختلف فیہ من الحق باذنک انک تھدی من تشآء الی صراط مستقیم (تفسیر ابن کثیر ج 4) ربیع خثیم (رح) کی مجلس میں حضرت حسین ؓ کی شہادت کا ذکر کیا گیا اور بعض حاضرین مجلس نے اس بارے میں ان سے کچھ دریافت کرنا چاہا تو بڑے ہی رنج وکرب کی کیفیت کے ساتھ (آیت) ” انا للہ وانا الیہ راجعون “۔ پڑھا اور پھر یہی آیت تلاوت فرمائی۔ (آیت) ” اللہم فاطرالسموت والارض عالم الغیب والشھادۃ انت تحکم بین عبادک فیما کانوا فیہ یختلفون۔
Top