Maarif-ul-Quran - Az-Zumar : 64
قُلْ اَفَغَیْرَ اللّٰهِ تَاْمُرُوْٓنِّیْۤ اَعْبُدُ اَیُّهَا الْجٰهِلُوْنَ
قُلْ : فرمادیں اَفَغَيْرَ اللّٰهِ : تو کیا اللہ کے سوا تَاْمُرُوْٓنِّىْٓ : تم مجھے کہتے ہو اَعْبُدُ : میں پرستش کروں اَيُّهَا : اے الْجٰهِلُوْنَ : جاہلو (جمع)
کہہ دو کہ اے نادانو ! تم مجھ سے یہ کہتے ہو کہ میں غیر خدا کی پرستش کرنے لگوں
اعلان برأت از شرک وتنبیہ ووعید بحبط اعمال و خسران انجام برنافرمانی رب العالمین : قال اللہ تعالیٰ : (آیت ) ” قل افغیر اللہ تامرونی ...... الی ....... وھو اعلم بما یفعلون “۔ (ربط) گذشتہ آیات میں دنیا کے تمام انسانوں کو دعوت رحمت دی گئی اور یہ کہ دلائل حق واضح ہونے پر اگر کوئی شخص قبول حق سے محض اس وجہ سے اعراض کرتا ہے کہ اس کو اپنے سابق اعمال کا ڈر ہے اور یہ تصور ہے کہ اس کی نجات ممکن نہیں تو اس کا یہ خیال غلط ہے، اس کو چاہئے کہ مایوسی کا یہ تصور قلب و دماغ سے نکال دے، اب ان آیات میں اس امر کی ہدایت کی جارہی ہے کہ ہر حق پرست اور موحد انسان کو شرک سے برأت وبیزاری کا اعلان کردینا چاہئے، تاکہ کافروں کو اس کے بارے میں ایسی کوئی طمع باقی نہ رہے کہ شاید کسی ذریعہ سے یہ شخص راہ راست سے بھٹک سکتا ہے، اسی ضمن میں یہ بھی فرمادیا گیا، اللہ رب العالمین کی نافرمانی انسان کے لیے تمام اعمال خیر کو برباد کرتی ہے اور اس کا انجام خسارہ اور تباہی کے سوا کچھ نہیں، فرمایا۔ کہہ دیجئے اے ہمارے پیغمبر ﷺ تو کیا غیر اللہ کی عبادت کرنے کی مجھ سے فرمائش کرتے ہو تم اے جاہلو، بعداس کے کہ حق واضح ہوچکا، اور توحید ثابت ہوگئی، اب بجائے اس کے کہ تم اس توحٰد کو قبول کرو، خود تمہاری یہ جرأت اور طمع کیسے ہوئی کہ تم مجھ سے غیر اللہ کی پرستش کے لیے کہنے لگے، اور حال یہ ہے کہ بیشک آپ ﷺ کی طرف وحی بھیجی جاچکی۔ اور ان انبیاء کی طرف جو آپ سے پہلے گذرے کہ اے مخاطب اگر تو شرک کرے گا تو یقیناً تیرا سارا عمل برباد ہوگا اور تو خسارہ میں پڑے گا، اے مخاطب شرک تو کیا بلکہ تو تو ہمیشہ اللہ ہی کی عبادت کرتا رہ اور ہمیشہ اللہ کے شکر گزار بندوں میں سے رہنا اور سب سے بڑا حق اللہ کا اس کی عظمت و توحید پر ایمان لانا ہے تو ظاہر ہے کہ شرک کے ارتکاب کے ساتھ اللہ کا شکر ادا ہوسکتا ہے، اور جو لوگ شرک کے مرتکب ہیں، حقیقت تو یہ ہے کہ وہ خدا کی عظمت اور قدرومنزلت کو پہچانتے ہیں نہیں چناچہ یہ وہی لوگ ہیں کہ انہوں نے خدا کی عظمت نہیں کی جیسے کہ خدا کی عظمت کا حق تھا اور حق عظمت ادا کرنا قبول توحید کے بغیر ممکن نہیں، حالانکہ اس کی شان یہ ہے کہ ساری زمین اس کی مٹھی میں ہوگی، قیامت کے روز اور تمام آسمان لپٹے ہوئے ہوں گے، اس کے دائیں ہاتھ میں پس پاکی ہے اس پروردگار کی اور برتر ہے وہ ذات ان کے ہر شرک سے جو وہ کرتے ہیں اور قیامت کے روز جس میں حق تعالیٰ کی یہ شان عظمت ہوگی، صور میں پھونک ماری جائے گی تو مدہوش ہوکرگرپڑیں گے، تمام زمین و آسمان والے بجز اس کے کہ جس کو خدا چاہے کہ اس مدہوشی سے محفوظ رہے پھر اس صور میں دوبارہ پھونک ماری جائے گی تو دفعتہ سب ہوش میں آنے کے بعد اپنی قبروں سے باہر نکل کر کھڑے دیکھتے ہوں گے حیرت وتعجب سے کہ یہ سب کچھ کیا ہوگیا اور کیسے ہوگیا، اور پھر حق تعالیٰ جب اپنی شان بےچون وچگوں کے ساتھ زمین کی طرف نزول وتجلی فرمائیں گے تو زمین اپنے رب کے نور سے روشن ہوجائے گی، اور یہ نور اللہ کی تجلی کا ہوگا جیسے کہ ارشاد ہے۔ (آیت ) ” وجآء ربک والملک صفا صفا “۔ اور ہر ایک کا نامہ اعمال اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا اور لایا جائے گا پیغمبروں کو اور گواہوں کو، انبیاء گواہی دیں گے کہ ہم نے اللہ کے احکام پہنچا دیئے تھے اور گواہ (جو کود ان کے ہاتھ پاؤں بھی ہوں گے علاوہ فرشتوں اور امت محمد یہ کے) ان کے اعمال کی گواہی دیتے ہوں گے اور اس طرح سب مکلفین کے درمیان فیصلہ کردیا جائے گا، حق وانآف کے ساتھ مجرمین ونافرمانوں کے واسطے سزا کا اور مطیعین وفرمانبرداروں کے لیے نجات و انعامات کا فیصلہ کردیا جائے گا اور یہی فیصلہ حق و انصاف کا فیصلہ ہوتا ہے اور پورا پورا دے دیا جائے گا، ہر ایک شخص کو اس کے عمل کا بدلہ جو اس نے کیا، نہ کسی کی نیکی ضائع ہوگی اور نہ کوئی ظلم کے بدلہ سے بچ سکے گا، اور وہ پروردگار تو سب کے کاموں کو خوب جانتا ہے جو وہ کرتے تھے، اس لیے اس کے علم اور نظر سے کسی کا کوئی عمل اور کسی کی کوئی حالت پوشیدہ نہیں مگر اس کے باوجود نامہ اعمال مرتب ہوں گے جو ان کے سامنے ہوں گے، انبیاء (علیہم السلام) احکام خداوندی پہنچا دینے کی گواہی دے رہے ہوں گے، اعمال کے لکھنے والے فرشتے اور خود ان کے ہاتھ پاؤں گواہی دیتے ہوں گے کہ اس شخص نے یہ یہ کیا اس طرح عدل و انصاف سے فیصلہ کردیا جائے گا، جس کے بعد مجرمین جہنم کی طرف گھسیٹے جارہے ہوں گے اور مطیعین انعام واکرام اور اعزاز کے ساتھ جنت میں داخل ہورہے ہوں گے اور فرشتے دروازوں پر استقبال کے لیے کھڑے ہوں گے اور تحیہ وسلام ہوتا ہوگا، (آیت ) ” سلام علیکم طبتم فادخلوھا خلدین، وما قدرواللہ حق قدرہ “۔ کی تفسیر میں عبداللہ بن عباس ؓ سے یہ منقول ہے کہ اس کے مصداق تمام کافر ہیں کیونکہ انہوں نے اللہ کی عظمت کو پہچانا ہی نہیں۔ اگر وہ اس کی قدرومنزلت کو پہچان لیتے تو ضرور ایمان لے آتے یعنی مشرکین نے اس کی عظمت و جلال کو اس حد تک نہ سمجھا جہاں تک ایک بندہ کو سمجھنا اور ملحوظ رکھنا چاہئے تھا، یہ کیسے ممکن تھا کہ اس کی شان رفیع کا سمجھنے والا ایک عاجز مخلوق حتی کہ پتھروں کو اس کا شریک بناتا۔ (آیت ) ” والارض جمیعا قبضتہ “۔ کی تفسیر میں حضرات مفسرین نے متعدد روایات بیان کی ہیں اور مختلف اقوال نقل کیے گئے ہیں لیکن اہل سنت والجماعت اور تمام ائمہ سلف اس قسم کی جملہ آیات کو متشابہات میں سے قرار دیتے ہیں اور آیات متشابہات میں سلف کا یہی موقف ہے کہ ظاہر پر برقرار رکھتے ہوئے ان پر ایمان لایا جائے اور کسی کیفیت کی تحقیق اور تعیین سے گریز کیا جائے، اس آیت کے شان نزول میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے جو حدیث امام بخاری (رح) نے اور دیگر ایمہ محدثین نے عبداللہ بن عباس ؓ اور عبداللہ بن مسعود ؓ سے جو حدیث امام بخاری (رح) نے اور دیگر ائمہ محدثین نے عبداللہ بن عباس ؓ اور عبداللہ بن عمر ؓ سے تخریج کی ہے، وہ سلف کے اس مؤقف کے خلاف نہیں جس کا مضمون یہ ہے کہ ایک عالم علماء یہود میں سے آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور اس نے کہا اے محمد ﷺ ہم کتاب میں یہ پاتے ہیں کہ اللہ عزوجل آسمانوں کو ایک انگلی پر اٹھالے گا، اور زمینوں کو ایک انگلی پر درختوں کو ایک انگلی پر، پانی اور مٹی کو ایک انگلی پر ........ اور باقی تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر (اس طرح تمام کائنات کو اپنے دست قدرت میں لے لے گا اور پھر فرمائے گا میں ہی ہوں بادشاہ اور مالک تمام کائنات کا) اور ایک روایت میں ہے اس طرح تمام کائنات کو پانچوں انگلیوں پر لیے ہوئے حرکت دے گا اور ایک روایت میں ہے کہ پھر آنحضرت ﷺ نے اس کی کیفیت بھی اپنے دست مبارک سے ظاہر فرمائی، الغرض جب اس یہودی عالم نے یہ کہا تو آنحضرت ﷺ ہنسے، حتی کہ آپ ﷺ کے دندان مبارک بھی ظاہر ہوگئے، اس عالم کی بات پر تعجب کے طور پر یا بعض احادیث کے کلمات کی رو سے تصدیق کے طور پر، اور اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی، (آیت ) ” وما قدروا اللہ حق قدرہ والارض جمیعا قبضتہ یوم القیمۃ والسموت مطویات بیمینہ “۔ ان تمام روایات کا استیعاب حافظ ابن کثیر (رح) نے اپنی تفسیر میں کردیا ہے۔ اہل علم مراجعت فرمائیں۔ نفخ صور کی تفصیل ‘: نفخ صور والی آیت مبارکہ سے ہی ظاہر ہے کہ ایک مرتبہ صورت پھونکنے پر آسمان اور زمین والے سب مدہوش ہو کر گریں گے اور دوبارہ نفخ صورپر سب انان میدان حشر میں رب العالمین کے سامنے کھڑے حیرت کے ساتھ اس منظر کو دیکھ رہے ہوں گے، پہلے نفخ کو نفخۃ الصعق کہا جاتا ہے جس پر آسمان و زمین کے احیاء پر موت کی مدہوشی طاری ہوگی، اس کے بعد پھر اسرافیل (علیہ السلام) کو جب دوبارہ نفخ صور کا حکم ہوگا تو تمام اموات حتی کہ وہ مردے جن کی ہڈیان اور گوشت پوست ریزہ ریزہ ہوچکے ہوں گے یا سمندروں میں غرق ہوچکے ہوں گے یا ہواؤں میں منتشر ہوچکے ہوں گے سب زندہ ہو کر قیامت کے یہ ہولناک مناظر دیکھنے لگیں گے، اسی چیز کو حق تعالیٰ شانہ نے اس آیۃ مبارکہ میں ارشاد فرمایا ہے (آیت ) ” ثم اذا دعا کم دعوۃ من الارض اذا انتم تخرجون “۔ (روم) اکثر ائمہ مفسرین کے نزدیک نفخ صور دو مرتبہ ہی ہے اور احادیث سے بھی ان ہی دو مرتبوں کی وضاحت وتعیین ہورہی ہے، بعض حضرات مفسرین جیسے حافظ ابن کثیر (رح) کے کلام سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نفخۃ الصعق یعنی مدہوشی کا صور دوسرا ہوگا اور (آیت ) ” ثم نفخ فیہ اخری “۔ کو تیسرا نفخ کہا اور بعض نے یہ فرمایا ایک بار نفخ صور عالم کے فنا ہونے کا ہوگا اور دوسری بار زندہ ہونے کا اور یہ نفخۃ الصعق بعد حشر کے بیہوشی کا تیسری بار ہوگا اور چوتھی مرتبہ کے نفخ پر سب لوگ پروردگار کے رو برو حاضر کھڑے ہوں گے۔ نفخ صور پر مدہوشی سے مستثنی کون ہوں گے : (آیت ) ” الا من شآء اللہ “۔ سے ان افراد کا استثناء فرمایا گیا جو اس مدہوشی سے مستثنی اور محفوظ رہیں گے حدیث میں ہے، آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا دوبارہ نفخ صور پر سب لوگ ہوش میں آئیں گے تو میں ہی وہ شخص ہوں گا جو سب سے پہلے افاقہ پانے والا ہوں گا اور دیکھوں گا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) عرش الہی کا پایہ پکڑے کھڑے ہوئے ہیں، میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آچکے یا آج کی مدہوشی کے بالعوض ان کی کوہ طور کی مدہوشی کو سمجھ لیا گیا جب کہ کوہ طور کی تجلی واقع ہونے سے مدہوش ہو کر گرپڑے تھے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوگیا تھا۔ (صحیح بخاری) بعض مفسرین نے استثناء سے جبرئیل (علیہ السلام) میکائیل (علیہ السلام) اور ملک الموت (علیہ السلام) مراد لیے ہیں، بعض کے نزدیک اس سے مراد حاملین عرش الہی ہیں، اور بعض کہتے ہیں کہ انبیاء وشہداء ہیں۔ ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا، صور کے دونوں نفخوں کے درمیان چالیس کا فرق ہوگا، راوی بیان کرتے ہیں لوگوں نے دریافت کیا اے ابوہریرہ ؓ چالیس دن کا ؟ جواب دیا، میں نہیں جانتا، پھر لوگوں نے کہا، کیا چالیس مہینے کہنے لگے، میں نہیں کہہ سکتا، پوچھا گیا، تو کیا چالیس سال ؟ جواب دیا مجھے نہیں معلوم، اس کے بعد حضور ﷺ کا ارشاد نقل کیا کہ آپ نے فرمایا، پھر حق تعالیٰ آسمان سے بارش برسائے گا جس سے لوگوں کی نشوونما ہوگی اور فرمایا انسان کے جسم میں سے کوئی چیز بھی ایسی باقی نہ رہے گی کہ وہ بوسیدہ اور پارہ پارہ نہ ہوچکی ہو مگر ” عجب الذنب “ ، یعنی پشت کی ہڈی جسے ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے پھر اسی سے (یا اس کے اجزاء سے خواہ وہ کسی بھی شکل میں متغیر ہوچکے ہوں) اس کے تمام بدن کی تخلیق اور ترکیب کی جائے گی (صحیح بخاری) اور اس طرح بعث جسمانی ہوگا۔ (آیت ) ” وجآی بالنبیین “۔ انبیاء کا لایا جانا وہی ہے جو سورة نساء میں گذر چکا ، (آیت ) ” فکیف اذا جئنا من کل امۃ بشھید وجئنا بک علی ھؤلآء شھیدا “۔ کہ ہر امت کے پیغمبر کو لایا جائے گا اور ان انبیاء کی تبلیغ احکام الہی پر گواہی دینے کے لیے آنحضرت ﷺ کو لایا جائے گا، تو ایک گواہی یہ ہوگی، مزید ایک گواہی امت محمدیہ کی طرف سے ہوگی تو امت کے افراد بھی بطور گواہ لائے جائیں گے، جیسے کہ ارشاد ہے، (آیت ) ” لتکونوا شھدآء علی الناس “۔ تیسری قسم کی گواہی ہر انسان کے اعضاء وجوارح کی ہوگی جیسے کہ ارشاد ہے۔ (آیت ) ” الیوم نختم علی افواھھم وتکلمنآ ایدیھم وتشھد ارجلھم بما کانوا یکسبون “۔ چوتھی گواہی ملائکہ اور کراما کاتبین کی ہوگی، چناچہ فرمایا گیا (آیت ) ” وجآءت کل نفس معھا سآ ئق وشھید “۔
Top