Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 58
اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَا١ۙ وَ اِذَا حَكَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا یَعِظُكُمْ بِهٖ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَاْمُرُكُمْ : تمہیں حکم دیتا ہے اَنْ : کہ تُؤَدُّوا : پہنچا دو الْاَمٰنٰتِ : امانتیں اِلٰٓى : طرف (کو) اَھْلِھَا : امانت والے وَاِذَا : اور جب حَكَمْتُمْ : تم فیصلہ کرنے لگو بَيْنَ : درمیان النَّاسِ : لوگ اَنْ : تو تَحْكُمُوْا : تم فیصلہ کرو بِالْعَدْلِ : انصاف سے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ نِعِمَّا : اچھی يَعِظُكُمْ : نصیحت کرتا ہے بِهٖ : اس سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے سَمِيْعًۢا : سننے والا بَصِيْرًا : دیکھنے والا
خدا تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالے کردیا کرو اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو خدا تمہیں بہت خوب نصیحت کرتا ہے بیشک خدا سنتا (اور) دیکھتا ہے
حکم نوزدہم اداء امانت و اقامت عدل۔ قال تعالی، ان اللہ یامرکم۔۔۔ الی۔۔۔ تاویلا۔ ربط) دور سے یہود کے قبائح اور حدود اللہ سے ان کی تعدیوں کا بیان چلا آرہا ہے اب ان آیات میں ان کی ایک اور تعدی کو بیان فرماتے ہیں کہ من جملہ تعدی حدود اللہ کے ایک تعدی امانت میں خیانت اور فیصلہ میں بےانصافی ہے یہود کی یہ عادت تھی کہ امانت میں خیانت کے کرتے اور فصل خومات میں رشوت لے کر بےانصافی کرتے اس لیے ان آیات میں اللہ نے امانت داری اور عدل و انصاف اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور اولی الامر کی اطاعت کا حکم دیتے ہیں اس لیے دخول جنت اور ازواج مطہرہ اور ظل ظلیل کے مستحق اہل امانت اور اہل عدالت ہی ہوسکتے ہیں اور اعمال صالحہ میں امانت اور عدالت بہت بڑا عمل صالح ہے بلکہ تمام اخلاق اور اعمال اور معاملات دنییہ ودنیویہ اور حکومت و ریاست کی روح بھی صفت عدل وامانت ہے چناچہ فرماتے ہیں تحقیق اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو امانت والوں کے حوالہ اور سپرد کرو خواہ وہ امانتیں دنیا سے متعلق ہوں یا دین سے اس آیت میں عثمان بن طلحہ کے قصہ کی طرف اشارہ ہے امام بغوی فرماتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن نبی نے خانہ کعبہ کے اندر داخل ہونا چاہا تو عثمان بن طلحہ جو خانہ کعبہ کے کلید براردر تھے ان سے نبی ﷺ نے خانہ کعبہ کی کنجی طلب کی عثمان نے کنجی دینے سے انکار کردیا اور کہا کہ اگر میں آپ کو خدا کا رسول جانتا تو میں کنجی دینے سے انکار نہ کرتا لیکن میرے علم میں آپ خدا کے رسول نہیں اس پر حضرت علی نے عثمان کا ہاتھ پکڑ کر مروڑ دیا اور کنجی ان سے چھین لی اور خانہ کعبہ کا دروازہ کھولا رسول اللہ خانہ کعبہ کے اندر داخل ہوئے اور دو رکعت نماز پڑھی جب آپ باہر نکلے تو حضرت عباس نے آپ سے درخواست کی کہ یہ کنجی مجھ کو دے دی جائے تاکہ سقایت زمزم یعنی حاجیوں کو زمزم پلانے کی خدمت کے ساتھ خانہ کعبہ کی حجابت (کلید برداری) بھی مجھے مل جائے اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی رسول اللہ نے حضرت علی کو حکم دیا کہ کنجی عثمان بن طلحہ کے حوالہ کردو علی نے کنجی عثمان بن طلحہ کے حوالہ کردی اور کہا کہ تمہارے بارے میں اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی اور ان کو یہ آیت پڑھ کر سنائی عثمان بن طلحہ نے جب یہ آیت سنی تو فورا مسلمان ہوگئے اور کہا کہ اشھد ان الالہ الا اللہ وان محمد رسول اللہ۔ امام بغوی کی اس روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عثمان بن طلحہ فتح مکہ کے دن اس آیت کے نزول کے بعد مشرف باسلام ہوئے لیکن اکثر علماء کا قول یہ ہے کہ عثمان بن طلحہ صلح حدیبیہ کے زمانہ میں خالد بن ولید کے ساتھ مدینہ منورہ حاضر ہو کر آئے اور اسلام قبول کیا اور جب فتح مکہ کے دن نبی مکہ آئے اور عثمان سے خانہ کعبہ کی کنجی طلب کی تو عثمان نے بےتامل آپ کے حوالے کردی اور پھر خانہ کعبہ سے باہر آکر جب آپ وہ کنجی عثمان کو دینے لگے تو حضرت عباس ؓ بول اٹھے کہ یارسول اللہ یہ کنجی میرے حوالے کردی جائے اور اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور آپ نے عثمان کی امانت عثمان کے حوالے کردی اور یہ فرمایا کہ اللہ نے یہ کنجی تم کو واپس دلائی ہے اب یہ کنجی ہمیشہ تمہارے ہی پاس رہے گی اور جو شخص یہ کنجی تم سے چھینے گا وہ ظالم کہلائے گا مرتے دم تک یہ کنجی عثمان ہی کے پاس رہی مرتے وقت یہ کنجی اپنے بھائی شیبہ کو دی چناچہ اب تک خانہ کعبہ کی کنجی شیبہ کی اولاد میں ہے اور انشاء اللہ قیامت تک اسی کی اولاد میں رہے گی۔ عدل کا حکم۔ اور اللہ تعالیٰ تم کو یہ حکم دیتے ہیں خہ جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو یعنی فیصلہ میں کسی کی رعایت نہ کرو اور نہ کسی پر ظلم کرو مدعی اور مدعی علیہ دونوں کو اپنے پاس بٹھا کر دونوں کی طرف متوجہ ہو اور دونوں کی بات سن کر جو حق معلوم ہو اس کے مطابق فیصلہ کرو اور اپنے اور پرائے کا امتیاز نہ کرو بیشک اللہ تعالیٰ تم کو بہت ہی عمدہ نصیحت کرتا ہے یعنی امانت کا ادا کرنا اور عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنا بلاشبہ امانت اور عدالت نہایت ہی عمدہ خصلت ہے جس پر دین ودنیا کی صلاح اور فلاح موقوف ہے آخرت کا معاملہ تو بہت بڑا ہے دنیائے فانی کی حکومت میں بدون امانت اور عدالت نہیں چلتی بیشک اللہ تعالیٰ تمہارے اقول وافعال کو جو فیصلہ کے عقت سرزد ہوتے ہیں سننے والا دیکھنے ولا ہے تمہاری امانت اور خیانت اللہ سے مخفی نہیں پس تم کو چاہیے کہ اللہ اور اس کی رسول کے حکم پر چلو اور اختلاف کے وقت اللہ اور اس کے رسول یعنی کتاب وسنت کی طرف رجوع کرو چناچہ فرماتے ہیں کہ اے ایمان والو اطاعت اور فرمانبرداری کرو اللہ کی جو قانون عدل اور امانت کا واضع ہے اور فرمانبرداری کرو پیغمبر خدا کی جو قانون خداوندی کی ترجمان ہے اور فرمانبرداری کرو اپنے فرماں رواؤں کی بشرطیکہ وہ تم میں سے ہوں یعنی مسلمانوں سے ہوں اللہ اور اس کی رسول پر ایمان رکھتے ہوں اور ان حکام کا مقصود حکومت سے یہ ہو کر احکام شریعت کے ساتھ فیصلہ کریں تو ایسے حکام کی اطاعت واجب ہے اور اگر تم میں اور حکام میں کسی وقت کسی شے میں باہم نزاع اور اختلاف ہوجائے کہ یہ حکم اور یہ فیصلہ اللہ اور اسکے رسول کو موافق ہے یا مخالف تو اس کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف راجع کرو یعنی جس بات میں اختلاف ہوجائے تو اس کو کتاب اللہ اور سنت رسول کی طرف لوٹاؤ اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو یعنی اگر تم اس پر ایمان رکھتے ہو کہ قانون خداوندی کی اطاعت واجب ہے اور اس پر ایمان رکھتے ہو کہ قیامت کے دن قانون شریعت پر عمل کرنے والوں اور نہ کرنے والوں کو جزاء وسزا ضرور ملے گی تو نزاع کے وقت کتاب وسنت کی طرف رجوع کرو یہ یعنی کتاب وسنت کی طرف رجوع کرنا ہی تمہارے لیے غایت درجہ نافع اور بہتر ہے اور اگر بالفرض والتقدیر اس وقت تم کو حکم شرعی نافع اور مفید نہ معلوم ہو خوب سمجھ لو کہ وہ باعتبار انجام کے تمہارے لیے بہتر ہے یعنی اس کی عاقبت محمود ہے فیصلہ میں خدا کی طرف رجوع کرنے کا انجام بہتر ہے اور اپنی خواہش اور غرض کی طرف رجوع کرنے کا انجام برا ہے۔ لطائف ومعارف۔ 1) امانت کی حقیقت یہ ہے کہ جس کسی کا جو حق تم پر واجب ہو اس کو طیب خاطر کے ساتھ ادا کرو۔ 2) آیت کا نزول اگرچہ خاص واقعہ مفتاح میں ہوا ہے لیکن بالاجماع یہ آیت مال ودیعت کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ لفظ امانات میں جملہ اقسام کی امانتیں داخل ہیں کیونکہ الامانات پر جو الف لام داخل کیا گیا ہے وہ استغراق کے لیے ہے اور مطلب یہ ہے کہ جملہ اقسام کی امانتوں کی رعایت واجب ہے کسی امانت میں بھی خیانت روا نہیں۔ 3) جاننا چاہیے کہ انسان کے معاملات کی کل تین قسمیں ہیں یا تو انسان کا معاملہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ہے اور یا لوگوں کے ساتھ اور یا اپنے نفس کے ساتھ ہے تینوں قسموں میں امانت کی رعایت ہر انسان پر فرض ہے۔ 1) خدا تعالیٰ کے ساتھ امانت کی رعایت یہ ہے کہ جن باتوں کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے ان کو بجالائے اور جن باتوں سے منع کیا ہے ان سے رکار ہے احکام خداوندی کی بجا آوری میں خیانت نہ کرے۔ 2) اور لوگوں کے ساتھ امانت کی رعایت یہ ہے کہ ان کی ودیعتیں اور ان کے قرض ادا کرے مانپ تول کی کمی نہ کرے اور بادشاہوں کی امانت یہ ہے کہ رعایا کے حقوق ادا کریں عہدہ اور منصب کسی نااہل کو نہ دیں نااہل کو عہدہ اور منصب دینا رعایا کے ساتھ خیانت ہے اور علماء کی امانت یہ ہے کہ احکام خداوندی بلاکم وکاست شریعت کے مطابق لوگوں تک پہنچادیں۔ 3) اور اپنے نفس کے ساتھ امانت کی رعایت یہ ہے کہ اپنے اعضاء وجوارح سے وہ کام نہ لے جو دنیا اور آخرت میں اس کے لیے مضر ہوں مثلا زبان کو کلمات کفر اور بدعت اور کذب وغیبت سے محفوظ رکھے اور آنکھ کی امانت یہ ہے کہ اس کو حرام کی طرف دیکھنے سے محفوظ رکھے اور کان کی امانت یہ ہے کہ جھوٹ اور غیبت اور گانے بجانے کے سننے سے محفوظ رکھے اور شرمگاہ کی امانت یہ ہے کہ اس کو حرام سے بچائے۔ قرآن کریم میں جابجا امانت ادا کرنے کی تاکید آئی ہے اور حدیث میں ہے کہ جس میں امانت نہیں اس میں ایمان نہیں اور جس کو اپنے عہد کا پاس اس میں دین نہیں۔ 4) دوسری آیت یعنی واذا حکمتم بین الناس ان تحکموا بالعدل میں حکام کو حکم دیا گیا کہ لوگوں کے اختلافات اور نزاعات کا فیصلہ عدل اور انصاف کے ساتھ کریں حق کے مطابق فیصلہ کریں ذرہ برابر کسی کی رعایت نہ کریں۔ دنیا کے اعتبار سے عدل کا فائدہ یہ ہے کہ حکومت کا بقاء اور استحکام عدل و انصاف پر موقوف ہے حکومت کفر کے ساتھ چل سکتی ہے مگر ظلم کے ساتھ نہیں چل سکتی جس حکومت سے عدل و انصاف رخصت ہوجاتا ہے تو اس کے ساتھ ملک کی برکتیں بھی رخصت ہوجاتی ہیں آسمان کی بارشیں کم ہوجاتی ہیں اور زمین کی پیداوار بھی گھٹ جاتی ہے مروتیں مضمل ہوجاتی ہیں ملک میں مکروفریب پھیل جاتا ہے اور سکون اور اطمینان گم ہوجاتا ہے اور جب مظلوم داد رسی اور فریاد سے محروم ہو کر آسمان کی طرف دیکھتا ہے تو قہر خداوندی جوش میں آتا ہے اور پھر بعد چندے وہ ہوتا ہے جو دنیا دیکھتی ہے اللہ پناہ میں رکھے اور آخرت کے اعتبار عدل کا فائدہ یہ ہے کہ عدل و انصاف قیامت کے دن حق تعالیٰ کے قرب ورضا اور اعزاز اکرام کا ذریعہ ہے۔ حدیث میں ہے کہ عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے والے حاکموں کو قیامت کے دن نور کے منبروں پر بٹھایا جائے گا اور حدیث میں ہے کہ تین شخصوں کی دعا رد نہیں ہوتی، عادل فرمانبردار، اور روزہ دار، اور مظلوم۔ اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سات شخصوں کو عرش کے سایہ میں جگہ دے گا منجملہ ان کے ایک عادل فرمانبردار ہے۔ 5) اولوالامر کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ اولی الامر سے امراء اور حکام مراد ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ اولی الامر سے فقہاء اور علماء دین مراد ہیں اور حضرت ابن عباس جابر بن عبداللہ حسن بصری ضحاک، مجاہد کا یہی قول ہے۔ تفسیر درمنثور ص 176 ج 2) ۔ امام قرطبی فرماتے ہیں کہ امام مالک کے نزدیک بھی یہی قول مختار اور پسندیدہ ہے اور مجاہد کہتے ہیں کہ اولی الامر سے صحابہ کرام مراد ہیں اور عکرمہ کہتے ہیں کہ اس سے ابوبکر وعمر مراد ہیں تفسیر قرطبی ص 259 ج 5) ۔ اور شیعہ کہتے ہیں کہ اولی الامر سے ایمہ اثناء عشر مراد ہیں یعنی ائمہ معصومین مراد ہیں جن کا دنیا میں کہیں وجود نہیں نہ معلوم کہ حضرات شیعہ نے معدوم کی اطاعت کی کیا صورت نکالی۔ اور غوروفکر کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ اولی الامر کے معنی ارباب حکومت اور اہل اختیار کے ہیں جو امراء اور حکام اور علماء دین اور خلفاء راشدین سب پر صادق آتی ہیں کیونکہ شاہ عبدالقادر نے اولی الامر کا ترجمہ (اور جو اختیار والے ہیں تم میں) کیا ہے اور مولانا اشرف علی صاحب نے اولی الامر کا ترجمہ اس طرح کیا ہے اور جو لوگ تم میں اہل حکومت ہیں اور حکومت اور اختیار عام ہے خواہ دنیا کے اعتبار سے ہو یا دین کے اعتبار سے تدبیر ملکی اور حرب اور ضرب میں امراء و حکام کی اطاعت واجب ہے بشرطیکہ ان کے احکام شریعت کے مطابق ہوں اور اگر امیر اور حاکم معصیت کا حکم دے تو پھر امیر اور حاکم کی اطاعت جائز نہیں۔ اور دینی اعتبار سے علماء اور فقہاء اور حاکم اور ذی اختیار ہیں عوام پر علماء اور فقہاء کا اتباع واجب ہے اس لیے کہ علماء انبیاء کرام کے وارث ہیں اور حکام شریعت کے خازن وامین ہیں اور خزانہ علم نبوی کے حفیظ علیم ہیں۔ اور اللہ جل شانہ کا یہ ارشاد ولو ردوہ الی الرسول والی اولی الامر منھم لعلمہ الذین یستنبطونہ۔ آیت۔ بھی اسی پر دلالت کرتا ہے کہ اولی الامر سے علماء مجتہدین مراد ہیں اور جو اجتہاد او استنباط کی صلاحت رکھتے ہوں اور ان کی طرف رجوع کرنا واجب ہے جو احکام اور مسائل بصراحت کتاب وسنت میں نہ پائے جائیں وہاں عوام پر علماء مجتہدین ومستنبطین کی تقلید اور اتباع واجب ہے غرض یہ کہ جو کوئی مسلمانوں کی دینی یا دنیوی صلاح کا والی اور متولی ہو وہ اولی الامر کے تحت میں داخل ہے اور خلفاء راشدین چونکہ نبی کریم ﷺ کے قائم مقام تھے اس لیے وہ دونوں قسم کی اصلاح کے والی اور متولی تھے اور دین دنیا دونوں اعتبار سے حاکم اور فرمانروا اور ذی اختیار تھے اور سب سے زیادہ اولی الامر کے لقب کا استحقاق رکھتے تھے جو خلفاء راشدین کی سنت کے اتباع کو واجب نہ سمجھے وہ اہل سنت والجماعت میں سے نہیں۔ (6) اصول دین اور ادلہ شرعیہ) ۔ امام رازی قدس سرہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس آیت شریفہ میں اصولی دین اور ادلہ شرعیہ کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ علماء اصول نے لکھا ہے کہ ادلہ شرعیہ چار ہیں کتاب اللہ سنت رسول اللہ اجماع امت اور قیاس فقہاء مجتہدین، اطیعواللہ میں کتاب اللہ کے اتباع کی طرف اشارہ ہے جو اصول دین میں اصل اول ہے اور اطیعوالرسول میں سنت رسول اللہ کے اتباع کی طرف اشارہ ہے جو دین کی اصل ثالث ہے کیونکہ حقیقت میں امراء اور اولی الامر سے وہی علماء ربانیین اور راسخین فی العلم مراد ہیں جو کتاب وسنت سے احکام خداوندی کا استنباط کرسکتے ہوں اور علماء اصول کی اصطلاح میں ایسے ہی لوگوں کو اہل حل وعقد کہا جاتا ہے اور ایسے ہی علماء مستنبطین کے قول واقرار سے اجماع منعقد ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے بعد قطعی اور جزمی طور پر جس کا اتباع واجب اور لازم ہے وہ اجماع علماء ہے علماء فردا فردا اگرچہ غیر معصوم ہیں لیکن علماء ربانین اور مستنبطین کا اجماع معصوم عن الخطاء ہے جیسا کہ حدیث میں ہے لاتجتمع امتی علی الضلالۃ اس لیے اولی الامر کے اجماع کی اطاعت اور اتباع رسول اللہ کی اطاعت کے ساتھ ملا کر ایک اطیعوا کے تحت میں ذکر فرمایا ہے اور فان تنازعتم فی شئی میں نزاع اور اختلاف سے اس شی میں نزاع اور اختلاف مراد ہے جس کا حکم کتاب وسنت واجماع میں منصوص اور مصرح نہ ہو کیونکہ جس کا حکم منصوص ہوگا وہ اطیعواللہ واطیعوالرسول والی الامر، میں داخل ہوگا پھر اس قضیہ شرطیہ یعنی فان تنازعتم لانے کی کیا ضرورت ہوگی۔ عالم میں جو واقعات پیش آتے ہیں وہ دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جن کے احکام منصوص ہیں دوم وہ جو منصوص نہیں اول الذکر کے متعلق، اطیعوا اللہ واطیعوالرسول کا حکم دیا گیا اور دوسری قسم یعنی واقعہ کا حکم منصوص نہ ہو تو اس کے متعلق یہ حکم دیا گیا کہ فردوہ الی اللہ والرسول۔ یعنی جس واقعہ کا حکم منصوص نہ ہو تو اس غیر منصوص کا حکم معلوم کرنے کے لیے کتاب وسنت کی طرف رجوع کرو اور اس جیسے واقعات کا جو حکم کتاب وسنت میں ہے وہی اس غیر منصوص کے لیے ثابت کردو اور مشابہت اور مماثلت کی بناء پر غیرمنصوص کے لیے منصوص کا حکم ثابت کرنا اسی کا نام قیاس اور اجتہاد اور استنباط ہے جو دین کی اصل چہارم ہے کتاب وسنت احکام خداوندی کا خزینہ اور دفینہ ہے جو احکام کتاب ونست میں منصوص اور صراحۃ مذکور ہیں وہ بمنزلہ ایسے خزانہ کے ہیں جو گھر میں رکھا ہوا ہے ہر ایک بصیر اور بینا کو دکھائی دے سکتا ہے اور جو احکام غیر منصوص ہیں وہ بمنزلہ دفینہ کے ہیں جو کتاب وسنت کے عمق اور گہرائی میں مدفون اور مستور ہیں جن کا سوائے حاذق اور ماہر کے کسی کو پتہ نہیں چل سکتا پس جو علوم اور احکام کتاب وسنت کی تہ میں مدفون اور مخزون ہیں ان کو اپنی باطنی حذاقت اور اندرونی بصیرت سے باہر نکال لانے کا نام اجتہاد اور استنباط ہے جو شخص خود اسنتباط نہ کرسکے اس کو مستنبطین کا اتباع لازم ہے چوں تو یوسف نیستی یعقوب باش، اور اسی کا نام تقلید ہے جو لوگ اجتہاد اور استنباط کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں اور ان پر راسختین فی العلم اور مستنبطین کا اتباع واجب ہے اور اپنی ناقص رائے اور ناتمام فہم کا اتباع ناجائز ہے۔ حضرت مولانا سید محمد انور شاہ قدس اللہ سرہ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ نے دنیا میں دونعمتیں اتاریں ایک حفظ کی اور ایک فہم کی حفظ کی نعمت سے محدثین اور لغویین کو سرفراز فرمایا اور فہم و فراست کی نعمت سے فقہاء اور عارفین یعنی اولیاء اللہ کو سرفراز فرمایا انتہی کلامہ۔ پس جس طرح اللہ تعالیٰ شانہ نے ذخیرہ حدیث کی تدوین کے لیے بخاری اور مسلم اور ابوداود وترمذی کو خاص طور پر منتخب فرمایا اور امت محمدیہ کو ان حضرات کی تدوین کردہ کتابوں کی تلقی بالقبول کا الہام فرمایا اسی طرح تدوین فقہ اور استنباط مسائل کے لیے ائمہ کرام یعنی امام ابوحنیفہ اور امام مالک اور امام شافعی اور امام احمد کو منتخب فرمایا اور امت کے علماء وصلحاء عوام وخاص کے دلوں میں ان کی تقلید کا داعیہ پیدا فرمایا کہ ان حضرات کے فہم واستنباط پر بھروسہ اور اعتماد کرکے ان کے سمجھے ہوئے کے مطابق شریعت پر عمل کریں ایمہ مجتہیدین کی تقلید پر انکار کرنے والوں اور تقلید شخصی کو شرک و بدعت بتانے والوں پر تعجب ہے کہ صحت حدیث اور جرح وتعدیل میں بخاری اور امام مسلم اور صحاحہ ستہ کا اتباع اور تقلید تو مستحسن ہو اور مسائل اجتہادیہ میں ابوحنیفہ اور شافعی کا اتباع کو رانہ تقلید اور بدعت اور شرک کہلائے دنیا میں سینکڑوں محدث اور بیشمار حدیث کی کتابیں ہیں مگر ان میں سے جس طرح صحیین اور صحاح ستہ کو علماء نے منتخب کرلیا ہے اور بلادلیل ان کتابوں کی حدیث کو معتبر سمجھا جاتا ہے اور کوئی شرک اور بدعت نہیں بتلاتا اس طرح دنیا میں بہت سے مجتہد گزرے مگر من جانب اللہ امت محمدیہ کے محدیثین اور مفسرین اور الیاء کرام اور متکلمین انہی چار کی اتباع اور تقلید میں منحصر ہوگئے اور سب علماء کا اس پر اجماع ہوگیا کہ ان چار حضرات سے زیادہ کوئی عالم کتاب وسنت اور احکام شریعت کو سمجھنے والا نہیں۔ اگرچہ اب بھی اجتہاد ممکن ہے نبوت کی طرح اجتہاد کا دروازہ بند نہیں ہوا لیکن یہ امکان ایسا ہی ہے جیسا کہ یہ کہا جائے کہ بخاری اور مسلم جیسا حافظ حدیث ہونا بھی اب ممکن ہے حافظہ بخاری اور مسلم پر ختم نہیں ہوگیا بیشک امکان عقل اب بھی موجود ہے لیکن فقہاء جیسا اجتہاد اور استنباط اور بخاری ومسلم جیسا حافظہ من جانب اللہ دنیا سے اٹھا لیا گیا اور یہ امکان عادۃ مفقود ہوگیا۔ جو لوگ صحیحین اور سنن اربعہ کی احادیث کو بلال دلیل معتبر سمجھتے ہیں ان کے پاس بجز حسن ظن کے کوئی دلیل نہیں منکرین تقلید کو نہ اسانید کو علم ہے اور نہ رجال سند کے اسماء اور کنی اور موالید اور نہ وفیات اور انکی ثقاہت اور ضعف کی کچھ خبر ہے محض بخاری اور مسلم کی امت اور جلالت قدر پر بھروسہ اور اعتماد کرکے بلادلیل ان کی احادیث کو محض حسن ظن کے بناء پر صحیح تسلیم کرتے ہیں کیا یہ تقلید نہیں۔ اسی طرح مقلدین امام ابوحنیفہ اور امام شافعی کے تفقہ اور اجتہاد اور استنباط پر حسن ظن کی بنا پر اعتماد کرکے شریعت کا اتباع کرتے ہیں اور یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ امت محمدیہ کے علماء کا اجماع ہے کہ ابوحنیفہ اور مالک اور شافعی اور احمد تفقہ اور اجتہاد کے آسمان تھے اور ہم ذرہ بےمقدار ہیں اس لیے احتیاط اسی میں ہے کہ ہم ان مستنبطین کی طرف رجوع کریں اور جو شخص ان ائمہ ھدی کے تلقید شخصی سے منحرف ہے وہ اپنے ظلوم وجہول نفس کی تقلید شخصی میں گرفتار ہے۔ 7) ان چار اصول یعنی کتاب وسنت اور اجماع اور قیاس مجتہدین کے ذکر کے بعد اللہ کا یہ ارشادفرمانا ان کنتم تو منون بااللہ والیوم الاخر اس امر کی دلیل ہے کہ جس طرح کتاب وسنت کا اتباع لوازم ایمان میں سے ہے اسی طرح اجماع امت اور قیاس مجتہد کا اتباع بھی مقتضیات ایمان میں سے ہے اور ذالک خیرواحسن تاویلا کا مصداق ہے کیونکہ ان کنتم تو منون کی قید جمع امور مذکور فی الا آیت سے متعلق ہے اور ذالک خیرواحسن تاویلا بھی سب سے متعلق ہے۔ 8) تمام علماء امت کے نزدیک ادلہ شرعیہ چار ہیں، کتاب، سنت، اجماع، قیاس۔ اور امام بخاری نے صحیح بخاری کی کتاب الاعتصام میں اجماع اور قیاس کا دلیل شرعی ہونا کتاب وسنت سے ثابت کیا ہے مگر غیر مقلدین کے نزدیک ادلہ شرعیہ صرف دو ہیں ایک کتاب اور ایک سنت اجماع اور قیاس کی حجیت کے قائل نہیں حتی کہ اجماع صحابہ کے بھی قائل نہیں بیس رکعت تراویح اور تین طلاق کے تین ہونے کے قائل نہیں اور انام اپنا اہل حدیث رکھ لیا ہے۔
Top