Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 60
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاكَمُوْۤا اِلَى الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْۤا اَنْ یَّكْفُرُوْا بِهٖ١ؕ وَ یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّهُمْ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف (کو) الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَزْعُمُوْنَ : دعویٰ کرتے ہیں اَنَّھُمْ : کہ وہ اٰمَنُوْا : ایمان لائے بِمَآ اُنْزِلَ : اس پر جو نازل کیا گیا اِلَيْكَ : آپ کی طرف وَمَآ اُنْزِلَ : اور جو نازل کیا گیا مِنْ قَبْلِكَ : آپ سے پہلے يُرِيْدُوْنَ : وہ چاہتے ہیں اَنْ : کہ يَّتَحَاكَمُوْٓا : مقدمہ لے جائیں اِلَى : طرف (پاس) الطَّاغُوْتِ : طاغوت (سرکش) وَقَدْ اُمِرُوْٓا : حالانکہ انہیں حکم ہوچکا اَنْ : کہ يَّكْفُرُوْا : وہ نہ مانیں بِهٖ : اس کو وَيُرِيْدُ : اور چاہتا ہے الشَّيْطٰنُ : شیطان اَنْ : کہ يُّضِلَّھُمْ : انہیں بہکادے ضَلٰلًۢا : گمراہی بَعِيْدًا : دور
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعوی تو یہ کرتے ہیں کہ جو (کتاب) تم پر نازل ہوئی اور جو (کتابیں) تم سے پہلے نازل ہوئیں ان سب ہر ایمان رکھتے ہیں اور چاہتے یہ ہیں کہ اپنا مقدمہ ایک سرکش کے پاس لیجا کر فیصلہ کرائیں حالانکہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ اس سے اعتقاد نہ رکھیں اور شیطان (تو یہ) چاہتا ہے کہ ان کو بہکا کر راستے سے دور ڈال دے
مذمت منافقین برانحراف از فیصلہ شریعت۔ قال تعالیٰ الم تر الی الذین یزعمون۔۔۔ الی۔۔۔ علیما۔ آیت۔ ربط) یہ آیت بھی اہل کتاب سے متعلق ہے ان میں کے کچھ لوگ منافقانہ طور پر مسلمان بن گئے تھے اور فصل خصومات میں رعایت اور رشوت کے عادی ہوگئے تھے ان لوگوں کے دل میں کفر والحاد تھا محض زبان سے توحید و رسالت کا اقرار کرلیا تھا جب کوئی مقدمہ پیش آتا تو اپنا معاملہ یہودیوں کے عالموں اور سرداروں کے پاس لے جانا پسند کرتے کہ وہ ان کی رعایت کریں گے اور رسول اللہ کے پاس فیصلہ کے لیے جانے سے گریز کرتے اس لیے کہ آپ جو فیصلہ کریں گے وہ غایت درجہ عادلانہ ہوگا اس میں ذرہ برابر کسی کی رعایت نہ ہوگی چناچہ مدینہ منورہ میں ایک مرتبہ ایک منافق بشرنامی کا ایک یہودی سے جھگڑا ہوگیا یہودی نے اس خیال سے کہ وہ حق پر تھا یہ چاہا کہ اس مقدمہ کا فیصلہ نبی سے کر ایاجائے کہ آپ بلا کسی رعایت کے حق فیصلہ کریں گے منافق نے چاہا کہ کعب بن اشرف یہودی سے فیصلہ کر ایاجائے یہودی نے کعب بن اشرف کے پاس جانے سے انکار کردیا اور سوائے نبی ﷺ کے اور کسی کے فیصلے پر راضی نہ ہوا آخر یہ طے ہوا کہ نبی ﷺ سے فیصلہ کرایا جائے آپ نے یہودی کے حق میں فیصلہ کردیا اور یہودی ہی حق پر تھا وہ منافق اس پر راضی نہ ہوا جب وہ دونوں آپ کے پاس سے باہر آئے تو منافق یہودی کو چمٹ دیا اور کہا کہ حضرت عمر کے پاس چلو وہ ٹھیک فیصلہ کریں گے منافق کو غالبا یہ گمان ہوا کہ عمر ؓ کافروں کے حق میں بہت سخت ہیں اور میں کلمہ گو ہوں اس لیے حضرت عمر بمقابلہ یہودی میری رعایت کریں گے یہودی اس پر راضی ہوگیا اور سمجھا کہ گو عمر ؓ کافروں کے حق میں سخت ہیں مگر حق پرست ہیں دونوں حضرت عمر ؓ کے پاس پہنچے اور ان سے فیصلہ چاہا یہودی نے سارا ماجرا ان سے کہا یہ سن کر وہ گھر میں تشریف لے گئے اور فرمایا کہ ٹھہرو میں ابھی آتا ہوں اور آکر تمہارا فیصلہ کرتا ہوں یہ کہہ کر حضرت عمر ؓ اندر چلے گئے اور تلوار لے کر آئے اور آتے ہی اس منافق کو قتل کردیا اور فرمایا کہ جو شخص اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ پر راضی نہ ہو اس کا فیصلہ عمر ؓ اس طرح کیا کرتا ہے منافق کے رشتہ دار نبی صلی اللہ علیہ کی خدمت میں آئے اور قتل کا دعوی کیا اور قسمیں کھانے لگے کہ عمر کے پاس صرف اس لیے گئے تھے کہ شاید عمر ؓ صلح کرادیں یہ وجہ نہ تھی کہ ہم نبی ﷺ کے فیصلہ پر راضی نہ تھے اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں جن میں اصل حقیقت ظاہر کردی گئیں امام قرطبی فرماتے ہیں کہ اسی واقعہ میں یہ آیتیں نازل ہوئیں اور نبی کریم نے حضرت عمر کو فرمایا انت الفارق تو فاروق ہے اور جبرایل نے یہ کہا، تحقیق عمر نے حق اور باطل کے درمیان فرق کردیا اس لیے ان کا نام فاروق رکھا گیا۔ اور اسی بارے میں یہ تمام آیتیں نازل ہوئیں۔ (تفسیر قرطبی ص 264 ج 5) ۔ اور بطور تعجب ارشاد فرماتے ہیں کہ اے نبی کریم کیا آپ نے ان لوگوں کی طرف نظر نہیں کی جو زبان سے یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اس کتاب پر جو آپ کی طرف اتاری گئی اورا یمان لائے اس کتاب پر جو آپ سے پہلے نازل کی گئی باوجود اس دعوائے ایمان کے چاہتے یہ ہیں کہ فیصلہ اور تصفیہ کے لیے ایک سرکش کی طرف جائیں یعنی سرداران کفر اور کاہنوں کے پاس اپنا مقدمہ لے جانا چاہتے ہیں تاکہ رشوت یا رو رعایت سے مطلب برآری ہوسکے حالانکہ ان کو تمام کتب الہیہ میں یہ حکم دیا گیا کہ وہ طاغوت کے پاس اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوگیا کہ ہدایت سے ان کو بہت دور لے جاکرڈال دیا دلیل اس کی یہ ہے کہ جب ان سے یہ کہا جاتا ہے کہ آؤ اس حکم کی طرف جو اللہ نے نازل کیا ہے اور رسول کی طرف آؤ تو آپ دیکھیں گے منافقین کو کہ وہ آپ کی طرف رجوع کرنے سے اعراض کرتے ہیں کنارہ کشی اور انحراف کے طور پر اور حکم خداوندی اور حکم رسول کی طرف رجوع سے اعراض یہی دلیل ہے اس امر کی شیطان نے ان کو بہکا کر ہدایت سے دور لے جا کر ڈالا ہے اور بہرحال اس وقت تو آپ کی طرف رجوع کرنے سے اعرض کرتے ہیں اور کسی حیلہ سے اپنی جان بچالیتے ہیں پس اس وقت کیا کریں گے جب ان کو گزشتہ بداعمالیوں کی سزا میں کوئی مصیبت پہنچے گی اور اپنی بداعمالیوں کا نتیجہ سامنے آئے گا مصیبت سے مراد حضرت عمر کا اس منافق کو قتل کرنا یا نفاق کا کھل جانا اور خباثت باطنی کا پردہ چاک ہوجانا اور لوگوں میں ذلیل ہونا اور باز پرس ہونا ہے یعنی اس وقت فکر ہوتی ہے کہ طاغوت کے پاس مقدمہ لے جانے کی کیا تاویل کریں تو پھر چارناچار خدا کی قسمیں کھاتے ہوئے آپ کے پاس آتے ہیں کہ آپ کے غیر کے پاس مقدمہ لے جانے سے ہمارا مقصود سوائے بھلائی اور باہمی میل وملاپ کے اور کچھ نہ تھا یعنی جو آپ کے پاس سے عمر کے پاس گئے تھے اس سے ہمارا مقصود صرف یہ تھا کہ شاید وہ فریقین میں باہم صلح اور ملاپ کرادیں کیونکہ آپ جو فیصلہ کریں گے تو وہ عین حق اور عین عدل ہوگا اور اس میں ذرہ برابر بھی کسی کی رعایت نہ ہوگی اور باہمی فیصلہ میں کچھ نہ کچھ رعایت ہوجاتی ہے یارسول اللہ آپ ہم کو اپنا مخلص اور نیاز مند سمجھئے دوسری جگہ مقدمہ لے جانے سے ہماری غرض اور نیت بری نہ تھی ہم کو اس مصیبت یعنی ذلت سے بچائے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان کو شرم نہیں آتی کہ کیسی ذلت اور ندامت کے ساتھ اس کے پاس عذر لے کر حاضر ہوئے جس سے ان کو نفرت تھی یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ خوب جانتا ہے ان کے دلوں میں کیا نفاق اور جھوٹ اور باطل کا میلان بھرا ہوا ہے لاکھ زبانی باتیں بنائیں اللہ تعالیٰ کو ان کی دلی باتوں کا خوب علم ہے لاکھ اپنے نفاق کو چھپائیں مگر اللہ سے کہاں چھپ سکتا ہے پس اے نبی کریم ﷺ جب آپ اللہ کے بتلانے سے ان کے نفاق سے آگاہ ہوگئے تو مصلحت یہ ہے کہ آپ ان سے تغافل برتئیے اور ان کی سزا اور مواخذہ سے اعراض فرمائیں اور فی الحال علم خداوندی پر اکتفاء کیجئے ان کے ساتھ ظاہری معاملہ اسلام کا سارکھیے اور دل کا حال اللہ پر چھوڑ دیجئے اور ان کو نصیحت کیجئے یعنی نفاق اور کذب کے برے انجام سے ان کو ڈرائیے کہ اگر تم نے یہ نفاق نہ چھوڑا تو صریح کفر کے احکام تم پر جاری ہوں گے اور ان سے ایسی بات کہیے جو ان کے دلوں میں خوب اچھی طرح پہنچ جائے یعنی ان کے دلوں میں اتر جائے اور اثر کرجائے مطلب یہ ہے کہ آپ ان کی ان باتوں کو دیکھ کر مایوس نہ ہوں وعظ ونصیحت برابر ان کو کرتے رہیں شاید ان میں سے کوئی راہ راست پر آجائے۔ آگے ارشادفرماتے ہیں اور نہیں بھیجا ہم نے کوئی پیغمبر مگر اس لیے کہ بحکم خداوندی اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کی جائے اور دل وجان سے اس کے حکم کو مانا جائے محض زبان سے رسالت کا اقرار کافی نہیں یہ ان منافقین پر زجر وتوبیح ہے جو رسول اللہ کے فیصلہ سے ناخوش تھے اور مطلب یہ ہے کہ اے نبی کریم آپ اللہ کے رسول ہیں اور ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے وہ اسی لیے بھیجا ہے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے لہذا دل وجان سے آپ کی اطاعت ان پر فرض ہے پس جو آپ کا حکم نہیں مانتا وہ درحقیقت اللہ کا حکم نہیں مانتا تو باذن اللہ کے یہ معنی ہوئے کہ نبی کریم ﷺ کی بےچون چرا اطاعت اللہ کے حکم سے فرض ہے اور بعض علماء نے باذن اللہ کے معنی بتوفیق اللہ کے لیے ہیں اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے رسولوں کو اس لیے بھیجا کہ ان کی اطاعت کی جائے مگر ان کی اطاعت وہی شخص کرے گا جس کو اللہ توفیق دے گا آگے پھر انہیں منافقین کے حق میں ارشاد ہے اور اگر یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم وستم یعنی گناہ کرنے کے بعد آپ کے پاس حاضر ہوجاتے ہیں پھر اللہ سے معافی مانگتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ بھی ان کے لیے معافی چاہتے ہیں تو ضرور پاتے اللہ تعالیٰ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان یعنی قبول توبہ کے بعد اللہ کی مہربانی بھی ہوتی معافی کے بعد انعام بھی ملتا مطلب یہ کہ اگر یہ منافق گناہ کرنے کے بعد بھی متنبہ ہوجاتے اور اس وقت آپ کے پاس چلے آتے جب کہ انہوں نے طاغوت کے پاس اپنا مقدمہ لے جاکر اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا اور اس طرح آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی غیرحاضری کا تدارک اور کفارہ کرتے اور پھر اپنے نفاق سے توبہ اور استغفار کرتے اور رسول اللہ بھی ان کے لیے دعا مغفرت کرتے تو امید تھی کہ اللہ ضرور ان کی توبہ قبول کرلیتا اور ان پر مہربان ہوجاتا مگر انہوں نے تو یہ غضب کیا کہ اول تو رسول اللہ کے حکم اور فیصلہ سے اعراض کیا جو بعینہ اللہ کے حکم اور فیصلہ سے اعراض کے مرادف پھر جب اس کا وبال ان پر پڑا اور ذلیل و خوار ہوئے تو جب بھی متنبہ تائب نہ ہوئے بلکہ جھوٹی قسمیں کھانے اور تاویلیں گھڑنے لگے پھر ایسوں کی مغفرت کیسے ہو عذر گناہ بدتر از گناہ۔ اس آیت میں واستغفرلہم الرسول یعنی رسول ان کے لیے معافی مانگتا اس سے مقصود رسول اللہ کی تعظیم کا اظہار ہے کہ جس شخص کو اللہ نے منصب نبوت و رسالت سے سرفراز فرمایا ہے اور اس کو اپنے اور اپنی مخلوق کے درمیان سفری اور ترجمان ٹھہرایا اگر اس کی خدمت میں حاضر ہوتے اور اس سے دعا مغفرت کی درخواست کرتے تو اللہ تعالیٰ اس کی سفارش ضرورقبول کرتا ہر گناہ خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو اس کے لیے ذاتی توبہ اور استغفار کافی ہے اس کے ساتھ کسی اور چیز کی ضرورت نہیں لیکن اس آیت میں منافقین کہ معافی کے لیے رسول اللہ کے استغفار کو بھی شرط قرار دیا یا وجہ اس کی یہ ہے کہ جو منافقین رسول اللہ کے فیصلہ پر راضی نہ ہوہئے اور طاغوت کے فیصلہ کو رسول اللہ کے فیصلہ پر ترجیح دی تو ان لوگوں نے رسول اللہ کے دل کو صدمہ اور ایذا پہنچائی لہذا بغیر رسول اللہ کو راضی کیے انکی توبہ قبول نہیں ہوسکتی۔ شرائط ایمان۔ اب آئندہ آیات میں مضمون سابق کی تائید کے لیے فرماتے ہیں کہ ایمان کی شرط ہے یہ کہ ہر معاملہ میں اپنا فیصلہ رسول اللہ ﷺ سے چاہیے اور جو فیصلہ وہ فرمادیں اس کو حق جان کر دل وجان سے اس کو مان لے اور دل سے اس پر راضی ہو اور دل میں اس سے کوئی تنگی اور ناگواری نہ پائے جب تک دل وجان سے رسول اللہ کے فیصلوں پر راضی نہ ہو اس وقت تک ایمان صحیح نہیں محض ظاہری اطاعت ایمان کے لیے کافی نہیں بلکہ بلا شبہ نفاق ہے حدیث میں ہے کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکا جب تک اس کی نفسانی خواہش میرے حکم کے تابع نہ ہوجائے یعنی میرا حکم آگے آگے ہو اور اس کی نفسانی خواہش میرے حکم کے پیچھے دوڑ رہی ہو۔ چناچہ فرماتے ہیں پس یہ لوگ جو آپ کے فیصلہ سے اعراض کرتے ہیں اگرچہ زبان سے دعوے کریں کہ ہم مومن ہیں لیکن حقیقت میں یہ لوگ مومن نہیں دعوائے ایمان اور تحاکم الی الطاغوت جمع نہیں ہوسکتے قسم ہے تیرے رب کی یہ لوگ جو زبانی ایمان کا دعوی کرتے پھرتے ہیں حقیقی مومن نہیں ہوسکتے جب تک باہمی جھگڑوں میں آپ کو حکم اور منصف نہ جانیں اور پھر آپ کے فیصلہ اور تصفیہ سے اپنے دلوں میں کوئی تنگی اور ناگواری یعنی شک اور تردد کا کوئی ادنی شائبہ بھی نہ پائیں اور طیب خاطر اور شرح صدر اور طمانینت قلب سے آپ کے فیصلہ کو دل وجان سے تسلیم کریں کماحقہ تسلیم کرنا یعنی پورے طور سے تسلیم کریں۔ مطلب یہ ہے کہ جب تک آپ کے حکم کو اپنی رائے پر مقدم نہ سمجھیں گے مسلمان نہ ہوں گے پیغمبر خدا کے سامنے بےچون چرا سر تسلیم خم کردینے ہی کا نام اسلام ہے۔ زباں تازہ کردن باقرار تو، نیگیختن علت از کارتو۔ اللہ جل شانہ جب اہل کتاب کی شرارتوں کو بیان کرچکے اور ناقابل عفو شرارتوں کے معاف کرنے کا طریقہ بھی بتلادیا تو اب اپنی رحمت کاملہ کا اظہار فرماتے ہیں کہ دیکھو دن اسلام میں اللہ نے کیسی آسانی رکھی ہے کوئی حکم اس کا سخت نہیں دیکھو اگلے زمانہ میں جب کوئی گناہ کرتا تھا تو اس کی توبہ قبول ہونے کے لیے یہ شرط تھی کہ وہ اپنے آپ کو قتل کرے جیسا کہ سورة بقرہ میں گوسالہ پرستوں کے بارے میں گذرا فتوبوا الی بارئکم فاقتلوا انفسکم اور ہم نے تمہاری توبہ قبول ہونے کے لیے کوئی سخت شرط نہیں لگائی صرف رسول خدا سے معافی کا خواستگار ہونا اور پیغمبر خدا کی سفارش کرنا مقرر کیا ہے مگر افسوس تم اس پر بھی اطاعت اور انابت کے لیے تیار نہیں۔ چانچہ فرماتے ہیں کہ اور اگر ہم ان منافقین پر یہ حکم کرتے کہ اپنے آپ کو قتل کر ڈالو یا اپنے گھروں سے نکل جاؤ ان میں سوائے چند آدمیوں کے اکثر اس کام کو نہ کرتے یعنی اگر ہم ان منافقین پر یہ باتیں فرض کردیتے تو بہت ہی تھوڑے لوگ جن کے دل میں ایمان کا داعیہ بہت ہی قوی ہوتا وہ اس حکم پر عمل کرتے لہذا ان کو ہمارا مشکور ہوناچا ہے کہ ہم نے ان کو کوئی سخت حکم نہیں دیا بلکہ ایسے آسان حکم دئیے جن پر نہایت آسانی سے عمل کرسکتے ہیں اگر ہم ان کو سخت حکم دیتے تو کسی ذلت اور رسوائی ہوتی مطلب یہ ہے کہ صادق الایمان وہ شخص ہے جو خدا کی راہ میں جان دینے اور وطن سے ہجرت کرنے میں دریغ نہ کرے جیسا کہ صحابہ کرام نے اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں مال وجان دھن اور وطن سب قربان کردیا۔ اور اگر یہ لوگ وہ کام کرتے جس کی ان کی نصیحت کی جاتی ہے تو دین ودنیا کے اعتبار سے ان کے حق میں نہایت بہتر ہوتا اور انکے دین و ایمان کی زیادہ مضبوطی اور ثبات قدمی کا باعث ہوتا یعنی احکام خداوندی پر عمل کرنے سے ان کا دین اور ایمان مضبوط اور مستحکم ہوجاتا اور اسلام پر ثابت قدم ہوجاتے ایمان اور اسلام میں تردد اور تزلزل نہ رہتا اخلاص اور اتباع حق سے قلب میں قوت آتی ہے اور نفاق سے بزدلی اور کمزوری منافق کا دل ہمیشہ ڈانو ڈول رہتا ہے اور اس وقت ہم ان کو البتہ اپنے پاس سے اجرعظیم عطا کرتے اور البتہ چلاتے ہم ان کو سیدھی راہ پر یعنی ہم ان کو اس صراط مستقیم پر چلاتے جو انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین کی راہ ہے جس تذبذب اور تردد کی راہ پر منافقین چل رہے ہیں وہ مغضوبین اور ضالین کی راہ ہے اللہ اس سے محفوظ رکھے آمین۔ وعدہ معیت اہل انعام براطاعت احکام۔ اوپر سے سلسلہ کلام اطاعت خدا اور رسول کی ترغیب وتاکید کے بارے میں چلا آرہا ہے اب اس آیت میں اطاعت پر ایک خاص بشارت اور مطعین کے لیے ایک خالص وعدہ کا ذکر فرماتے ہیں وہ یہ کہ جو لوگ ضروری احکام میں خدا و رسول کی اطاعت اور فرمانبرداری کریں جن کو مطعین کہتے ہیں یہ لوگ اگرچہ فضائل و کمالات میں مرتبہ کمال کو نہ پہنچے ہوں مگر بسبب اطاعت خدا اور رسول ان کو جنت میں کاملین یعنی نبی ن وصدیقین اور شہداء اور صالحین کی معیت اور مرافقت نصیب ہوگی باجود قصور رتبہ کے ان کو اہل انعام کی معیت اور مرافقت کا شرف حاصل ہوگا جیسا کہ حدیث میں ہے المرامع من احب جو شخص خدا کے برگزیدہ بندوں سے محبت رکھے گا وہ قیامت کے دن ان کے ساتھ ہوگا اور جو کفار وفجار سے محبت رکھے گا وہ قیامت کے دن ان کے ساتھ ہوگا۔ اس آیت کا شان نزول جیسا کہ حافظ ابن کثیر اور حافظ سیوطی نے متعدد اسانید کے ساتھ روایت کیا ہے یہ ہے کہ آپ کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان اور دیگر چند صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ آپ ہمیں ہماری جانوں اور اولاد سے زیادہ محبوب ہیں اور ہماری حالت یہ ہے کہ جب کبھی گھر میں آپ یاد آجاتے ہیں تو بےچین ہوجاتے ہیں اور جب تک آپ کو دیکھ نہیں لیتے تو صبر نہیں آتا خیر یہاں تو آپ کو دیکھ لیتے ہیں لیکن جب آخرت کا خیال آتا ہے تو دل بےچین ہوجاتا ہے کہ وہاں آپ کو کیسے دیکھ سکیں گے اس لیے کہ آپ تو اعلی علیین اور جنت کے اعلی درجوں میں ہوں گے وہاں حاضر ہو کر ہم آپ کو کیسے دیکھ سکیں گے اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی اور جو شخص اطاعت اور فرمانبرداری کرے اللہ کی اور رسول کی پس ایسے مطیع اور فرمانبردار لوگ قیامت کے دن ان برگزیدہ بندوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے اپنا خاص الخاص انعام فرمایا یعنی انبیاء کرام اور صدیقین شہداء اور صالحین کے ساتھ ہوں گے۔ ہمچو بلبل دوستی گل گزیں تاشوی باخبر من گل ہم نشیں زاغ چوں مردار راشد ہم نفس یار اومر دار خواہد بودوبس جاننا چاہیے کہ ساتھ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ سب ایک درجہ میں ہوں گے کیونکہ یہ تو محال ہے، ہم درجات عنداللہ۔ اللہ کے یہاں لوگوں کے درجہ مختلف ہیں ساتھ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ نیچے کے درجہ والے اوپر کے درجے والوں سے ملتے رہیں گے درجات اور مراتب کا تفاوت زیارت اور ملاقات سے مانع نہ ہوگا جس طرح دنیا میں تفاوت درجات مانع ملاقات نہیں اسی طرح آخرت میں بھی مانع نہ ہوگا۔ اللہ جل شانہ نے اس آیت میں اہل انعام کی چار قسمیں ذکر فرمائیں، انبیاء کرام، صدیقین، شہداء، صالحین اور ان چاروں کے علاوہ ایک پانچویں قسم مطیعین کی ذکر فرمائی جو درجہ اور مرتبہ میں ان چار قسموں سے کمتر اور فروتر ہیں اس پانچویں قسم یعنی مطیعین کے لیے اللہ نے اس آیت میں یہ وعدہ فرمایا کہ مطیعین اگرچہ درجہ اور رتبہ میں اہل انعام سے کم تر ہیں مگر ہم ان مطیعین کو باوجود قصور رتبہ کے اہل انعام کی معیت اور مرافقت سے نوازیں گے اور یہ لوگ جنت میں ایک دوسرے کی زیارت سے مشرف ہوتے رہیں گے اللہ نے اس آیت شریفہ میں مراتب کمالات انسانی کو ترتیب وار ذکر کیا ہے۔ پہلا مرتبہ نبوت کا ہے۔ جو تمام مراتب انسانی میں سب سے اعلی مرتبہ ہے نبی وہ برگزیدہ شخص ہے جس کو اللہ نے اپنا پیغام دے کر بندوں کے پاس بھیجا ہو اور اس پر اللہ کی وحی نازل ہوتی ہو اب یہ مرتبہ نبی ﷺ پر ختم ہوگیا آپ کے بعد کسی کو نبوت نہیں ملے گی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) قیامت کے قریب آسمان سے نازل ہوں گے بیشک وہ نبی ہوں گے مگر ان کو نبوت حضور پرنور سے پہلے مل چکی ہے۔ دوسرا مرتبہ صدیقیت کا ہے۔ نبوت کے بعد دوسرا مرتبہ صدیقیت کا ہے نبی کے بعد سب سے افضل صدیق ہوتا ہے صدیق وہ ہے کہ جس کی رگ روپے میں ظاہر اور باطن میں صدق ایسا سرایت کرگیا ہو کہ کذب کے جز لایتجزی کی بھی اس میں گنجائش نہ رہی ہو اور پیغمبر خدا جو حق اور صدق لے کر آیا ہے سنتے ہی اس کی بلادلیل اور بلا تردد وتامل صدق دل سے اس طرح تصدیق کرے کہ گویا کہ یہ اس کے دل کی آواز ہے اور جب نبی اس کو دعوت دے تو فوار وہ اپنے نور قلب سے اس کی نبوت کو پہچان لے اور اس کی تصدیق کرے جس طرح کہ ابوبکر اس امت مرحومہ کے صدیق اکبر تھے کہ بلاتردد وتامل نبی کریم ﷺ کی نبوت و رسالت کی تصدیق کی، چشم احمد برابوبکر سے زدہ، ازی کے تصدیق صدیق آمدہ۔ بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ آیت میں صدیقین سے مراد وہ لوگ ہیں کہ جو دین کے تمام امور کی تصدیق کریں اور ان کو دین میں ذرہ برابر بھی شک نہ ہو جیسا کہ اللہ جل شانہ کا یہ ارشاد ہے والذین آمنو باللہ ورسلہ اولئک ھم الصدیقون۔ آیت۔ یعنی جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے وہی صدیق ہیں اور اس امت میں اس وصف میں حضرت ابوبکر سب کے پیشوا اور مقتداء ہیں سب سے پہلے رسول اللہ پر ایمان لائے اور ہر موقعہ پر نبی اکرم ﷺ کے ساتھ رہے کوئی مشہد اور غزوہ ایسا نہیں جس میں ابوبکر آپ کے ساتھ نہ ہوں یار غار جس طرح غار میں آپ کے ساتھ تھے اسی طرح وفات کے بعد آپ کے پہلو میں مدفون ہیں۔ تیسرا درجہ شہادت کا ہے۔ صدیقیت کے بعد درجہ شہادت کا ہے جیسا کہ حضرت عمر اور حضرت عثمان اور حضرت علی ؓ اجمین کو حاصل ہوا اور شہید وہ ہے جو پیغمبر کے حکم پر اپنی جان قربان کرے۔ چوتھا درجہ صلاحیت کا ہے۔ صالحین وہ لوگ ہیں کہ جو اپنے اعتقادات اور اعمال میں صحیح طریق پر ہوں یعنی ان کے اعتقادات اور اعمال میں کسی قسم کا خلل اور فساد نہ ہو لغت میں صلاح نقیض فساد کی ہے صالح اور نیک بخت وہ لوگ ہیں جن کی طبیعت نیکی ہی پر پیدا ہوئی اور اپنے نفس اور بدن کی اصلاح اور صفائی کرچکے ہیں (ماخوذ از موضح القرآن) ۔ خلاصہ کلام۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت اور فرمانبرداری میں آگے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو قیامت کے دن اہل انعام کے ساتھ گنے گا اور باوجود قصور رتب کے ان کو کاملین ہی کی شمار اور ذیل میں لے لیا جائے گا ان حضرات کی رفاقت اور معیت بھی بری دولت اور فضیلت کی بات ہے اور یہ فضیلت ان کو محض اللہ کے فضل وکرم سے ملی ہے ورنہ ان کی اطاعت اس کے لیے کافی نہ تھی اور ہر وان آخرت کے لیے یہ گروہ بہترین رفیق طریق ہیں اور ان حضرات کی معیت اور رفاقت یہ محض اللہ کا فضل ہے کہ عمل تو تمہارا اس درجہ کا نہ تھا مگر اللہ نے محض اپنے فضل اور مہربانی سے تم پر یہ انعام کیا کہ کاملین کی معیت اور رفاقت سے سرفراز کیا ورنہ قاعدہ کا اقتضاء یہ تھا کہ ہر عمل کا اجر اسی کے درجہ کے مطابق دیا جائے اور اللہ تعالیٰ کافی جاننے والا ہے اور اس کو خوب معلوم ہے کہ یہ اطاعت کس درجہ کی ہے اور استحقاق سے زیادہ کسی کو کچھ دے دینا یہ فضل ہے۔
Top