Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 71
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَكُمْ فَانْفِرُوْا ثُبَاتٍ اَوِ انْفِرُوْا جَمِیْعًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ لوگ جو ایمان لائے) (ایمان والو) خُذُوْا : لے لو حِذْرَكُمْ : اپنے بچاؤ (ہتھیار) فَانْفِرُوْا : پھر نکلو ثُبَاتٍ : جدا جدا اَوِ : یا انْفِرُوْا : نکلو (کوچ کرو) جَمِيْعًا : سب
مومنو ! (جہاد کے لئے) ہتھیار لے لیا کرو پھر یا تو جماعت جماعت ہو کر نکلا کرو یا سب اکٹھے کوچ کیا کرو
حکم بستم وجوب جہاد برائے احیاء دین وتخلیص ضعفاء ومظلومین۔ قال تعالی، یا ایھا الذین آمنوا۔۔۔ الی۔۔ تنکیلا۔ ربط) گذشتہ آیات میں اہل کتاب اور منافقین اور اعداء دین کی شرارتوں کا ذکر تھا اب ان آیات میں مسلمانوں کو ان سے جہاد کا حکم دیتے ہیں جو احیاء دین اور اعلاء کلمۃ اللہ کا ذریعہ ہے بدسرشتوں کے قلع قمع کا بہترین طریقہ ہے جو مسلمان کافروں کے پنجہ ظلم میں بےطرح گرفتار ہیں ان کی خلاصی اور رہائی کی سبیل ہے اور جہاد فی سبیل اللہ اطاعت خدا اور رسول کا جس کا ماقبل ذکر تھا اعلی اور اکمال فرر ہے جس سے اندرونی اخلاص اور نفاق ظاہر ہوجاتا ہے کیونکہ جہاد کا حکم منافقین پر بہت شاق اور گراں گذرتا ہے اسی وجہ سے یہاں سے لے کر چھ رکوع تک اسی مضمون کے متعلقات کا بیان چلا گیا ہے اور اس ضمن میں اللہ نے منافقین کی ایک عجیب کیفیت بیان فرمائی وہ یہ کہ جب کسی غزوہ میں مسلمانوں کو شکست ہوتی ہے تو یہ منافقین بہت خوش ہوتے ہیں اور اپنے شریک جنگ نہ ہونے کو انعام الٰہی سمجھتے ہیں اور جب مسلمانوں کو فتح ہوتی ہے تو بہت پچتاتے ہیں اور حسرت سے یہ کہتے ہیں کہ کاش ہم بھی شریک جنت ہوتے تو ہم کو بھی مال غنیمت میں سے حصہ ملتا چناچہ فرماتے ہیں اے ایمان والو ایمان کا مقتضی یہ ہے کہ خدا کا بول بالا کرنے کے لیے دشمنان خدا سے جہاد و قتال کرو اور خدا اور رسول کی بہترین اطاعت یہ ہے کہ اس کی راہ میں جانبازی وسرفروشی دکھلاؤ مگر اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو تم اپنی احتیاط اور بچاؤ کو پوری طرح ملحوظ رکھو پس ہتھیاروں اور سامان جنگ اور تدبیر عقل سے اور تیر وتلوار سے درست ہو کر اور دشمن کے مقابلہ کے لیے نکلو جیسا موقع اور مصلحت ہو ویسا کرو اور تحقیق تم سے بعض ایسے بھی ہیں مراد اس سے منافقین ہیں جو تمہارے ساتھ جہاد میں نکلنے سے دیر کرتا ہے یعنی جہاد میں تمہارے ساتھ شریک نہیں ہوتے پھر اگر جہاد اور لڑائی میں تم کو کوئی مصیبت پہنچ جاتی ہے جیسے شکست وغیرہ تو یہ منافق خوش ہو کر یہ کہتا ہے تحقیق اللہ نے مجھ پر بڑا ہی فضل کیا کہ میں ان لوگوں کے ساتھ لڑائی میں حاضر نہ ہوا اور اگر تمہیں اللہ کا فضل پہنچے اور لڑائی میں تم فتح یاب ہوجاؤ اور کچھ مال غنیمت تم کو مل جائے تو یہ منافق نہایت حسرت کے ساتھ اس طرح کہتا ہے کہ گویا تمہارے اور اس کے درمیان کبھی کوئی دوستانہ تعلق ہی نہ تھا مالی اور دنیوی نفع کے فوت ہونے پر اس طرح کہتا ہے کہ اے کاش میں ان کے ساتھ ہوتا تو بڑی مراد پاتا یعنی ان منافقین کا مطمع نظر فقط دنیاوی نفع ہے مالی فائدہ کو وہ اپنی بڑی کامیابی سمجھتے ہیں خدا کی فرمانبرداری سے ان کو کوئی سروکار نہیں مطلب یہ ہے کہ اگر خدا کے فضل سے مسلمانوں کو فتح ہوگئی اور بہت سامال غنیمت ہاتھ آگیا تو یہ منافق پچھتاتے ہیں اور دشمنوں کی طرح غلبہ حسد سے کف افسوس ملتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ افسوس اگر میں بھی جہاد میں مسلمانوں کے ساتھ ہوتا تو مجھ کو بھی بڑی کامیابی نصیب ہوتی یعنی مال غنیمت میں سے حصہ ملتا پس مسلمانوں کو چاہیے کہ ان دنیا طلب لوگوں کی طرح دنیاوی نفع پر نظر نہ رکھیں اور یہ منافقین اگر دنیوی منافع کو تکتے رہتے ہیں تو تکتے رہیں مگر جو لوگ دنیاوی زندگی کو فروخت کرکے اس کے بدلے آخرت لے رہیے ہیں اور دنیائے فانی پر لات مارچکے ہیں ان کو چاہیے کہ خدا کی راہ میں دشمنان خدا سے محض خدا کے لیے جہاد و قتال کریں اور دنیاوی زندگی اور اس کے مال و دولت پر نظرنہ رکھیں اور جو خدا کی راہ میں جنگ کرے پھر مارا جائے یا دشمن پر غالب آوے تو ہر حالت میں ہم اس کو ضرور اجر عظیم دیں گے جس کے سامنے دنیاوی منافع کی کوئی حقیقت نہیں آگے ارشاد فرماتے ہیں اگر ہم بالفرض تم سے اجر عظیم کا وعدہ بھی نہ کرتے تب بھی تم پر دو وجہ سے کافروں سے لڑنا ضروری ہے ایک تو یہ کہ اللہ کا دین غالب اور بلند ہو اور دوسرے یہ کہ جو مظلوم مسلمان مکہ میں کافروں کے پنجہ میں گرفتار ہیں اور جو معصوم بچے ان کے ظلم وستم کا نشانہ بنے ہوتے ہیں ان کی نجات اور رہائی کی صورت نکلے چناچہ فرماتے ہیں اور تم کو کیا ہوا کہ تم خدا کی راہ میں جہاد و قتال نہ کرو اور اس کا بول بالا کرنے کے لیے اس کے دشمنوں سے نہ لڑو اور تم کو کیا ہوا کہ تم بےچارہ اور بےبس مردوں اور عورتوں اور بچوں کو چھڑانے کے لیے نہیں لڑتے جو کفار کی اذیتوں سے تنگ آکر یہ دعا مانگتے ہیں اے ہمارے پروردگار کسی طرح ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے بڑے ہی ظالم اور ستم گر ہیں جن کے ساتھ نباہ بہت ہی مشکل ہے اور اپنے پاس سے ہمارے لیے کوئی کارساز مقرر فرما جو ہمارے دین و ایمان کی حفاظت کرسکے اور ان ظالموں کے پنجہ سے ہم کو چھڑائے چناچہ اللہ نے ان کی دعا قبول فرمائی کہ نبی اکرم ﷺ کو ان کی حمایت کے لیے کھڑا کیا چناچہ آپ نے فتح مکہ کیا اور کافروں کے ہاتھ سے ان کو چھڑایا اور عتاب بن اسید ؓ کو ان پر حاکم مقرر کیا جو مظلوموں کی مدد کرتے تھے اور زبردست سے کمزور کا بدلہ لیتے تھے جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ بتقاضائے ایمان خدا کی راہ میں لرتے ہیں تاکہ اللہ کا دین سربلند ہو اور حق باطل پر غالب آجائے اور جو لوگ کافر ہیں وہ معبود باطل کی راہ میں لڑتے ہیں تاکہ دنیا میں طغیان اور سرکشی اور گمراہی کا خوب دور دورہ ہو اور نفس اور شیطان کے مقابلہ میں نیکی اور سچائی کا اثر بڑھنے نہ پائے پس اے خدا کے دوستوں تم شیطان کے دوستوں سے جنگ کرو اور ان کے کید اور مکی کی پروانہ کرو تحقیق شیطان کا داؤ اور فریب بہت کمزور ہے خدا کے دوستوں کے مقابلہ میں کارگر نہیں ہوسکتا تمہارا حامی اور مددگار اللہ ہے تمہارے مقابلہ میں ان کا لشکر نہیں ٹھہر سکتا لہذا تم خدا پر نظر کرکے خدا کی راہ میں جہاد و قتال کرو اور ہرگز ان سے نہ ڈرو ان کی سب تدبیریں غلط ہوجائیں گی تم غالب ہوگے اور وہ مغلوب۔ پادری لوگ مسئلہ جہاد پر یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ دین کے سلسلہ میں تو صرف وعظ وپند پر اکتفا کرنا چاہیے قتل و قتال کی کیا ضرورت ہے جیسا کہ حضرت مسیح نے کیا اس آیت میں اس اعتراض کے جواب کی طرف اشارہ ہے کہ شیطان کے دوست تو شیطان کی راہ میں باطل اور دنیاوی اور نفسانی اغراض کے لیے لڑتے ہیں ان پر تو تم اعتراض نہیں کرتے اور جو حق اور صداقت کی نصرت اور حمایت کے لیے خدا کی راہ میں لڑتے ہیں اس کو تم معیوب سمجھتے ہو۔ شکایات دوستاں برتمنائے التواء حکم جہاد۔ گذشتہ آیات میں جہاد و قتال کی ترغیب تھی اب ان آیات میں پھر جہاد پر جوش اور غیرت دلائی جاتی ہے اور اس بارے میں ایک خاص شکایت کی جاتی ہے وہ یہ کہ جب مسلمان مکہ مکرمہ میں کفار کی اذیتوں اور مظالم سے تنگ آگئے تو نبی ﷺ سے عرض کیا یارسول اللہ ہم ان لوگوں سے سخت تنگ آگئے ہیں آپ ہم کو اجازت دیں کہ ہم ان سے جہاد و قتال کریں آپ نے فرمایا ابھی تک جہاد کی اجازت نازل نہیں ہوئی لہذا فی الحال تم صبر کرو اور اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو اور حسب دستور نماز پڑھتے رہو اور زکوٰۃ دیتے رہو ہجرت کے بعد جب جہاد کی اجازت ملی تو بعضے کچے مسلمان اور دل کے کمزور طبعی طور پر ڈرنے لگے اور موت کے خوف سے یہ کہنے لگے کہ کاش اگر اور تھوڑی مدت جہاد و قتال کا حکم نازل نہ ہوتا تو اچھا ہوتا اس پر اللہ نے شکایت فرمائی کہ جب جہاد کا حکم نازل ہوا تو تم ڈرنے لگے تم کو خوش ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری درخواست قبول کی اور تمہاری دلی تمنا اور آرزو پوری ہوئی یا تو پہلے یہ زور شور تھا یا اب یہ بےنم کی ہے اور آئندہ ان کو نصیحت فرماتا ہے کہ دنیا تو چند روزہ ہے اس کے آرام و تکلیف کا خیال نہ کرو موت اپنے وقت مقرر پر آئے گی وقت سے پہلے نہ آئے گی اس لیے اس کا خوف بےسود ہے یہ دنیا فانی یا تو خواب ہے یا سراب ہے۔ دنیا خوابیست زندگانی دروے، خوابست کہ درخواب بہ بینی آنرا۔ چناچہ فرماتے ہیں کہ کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو ابتداء میں یہ حکم ہوا تھا کہ ابھی اپنے ہاتھوں کو جہاد و قتال سے روکے رکھو اور حسب سابق نماز کو قائم رکھو اور زکوٰۃ دیتے رہو یہ حکم ہجرت سے پہلے تھا پس جب ہجرت کے بعد ان پر جہاد و قتال فرض کردیا گیا تو ناگہاں ایک گروہ ان میں سے اپنے مخالف لوگوں سے ایسا ڈرنے لگا جیسے خدا سے ڈرنا چاہیے بلکہ اس سے بھی زیادہ ڈرنے لگا اس گروہ سے یا تو منافقین کا گروہ مراد ہے یا ضعیف الایمان اور کمزور اور کچے مسلمان مراد ہیں اور یہ خوف ان کا طبعی تھا اعتقادی نہ تھا کہ معاذ اللہ دل سے حکم خداوندی کو ناپسند کرتے ہوں جیسے مومن موت کو حق سمجھتا ہے مگر طبعا موت اس کو گراں معلوم ہوتی ہے اس لیے بعض ضیعف الایمان طبعی کمزوری کی بناء پر برائے چندے التواء جہاد کی تمنا اور آرزو میں یہ کہنے لگے اے ہمارے پروردگار آپ نے ابھی سے ہم پر جہاد و قتال کو فرض کردیا کیوں نہ ڈھیل دی آپ نے ہم کو ایک قریبی وقت تک یعنی ذرا اور بےفکری سے جی لیتے ضعیف الایمان مسلمانوں کا یہ کہنا بطور اعتراض نہ تھا بلکہ طبعی کمزوری کی بناء پر تھا اور بطور حسرت اور تمنا تھا ان پر کوئی گناہ نہیں ہوا آگے اس کا جواب ارشا دفرماتے ہیں اے نبی کریم آپ کہہ دیجئے کہ دنیا کی بہر مندی بہت تھوڑی ہے دنیا کے فوائد فنا اور زائل ہونے والے ہیں ان سے دل لگانا نہیں چاہیے لہذا اس التواء کی تمنا بےسود ہے آخرت اب کے اور آخرت پرہیزگار کے لیے دنیا سے بدرجہا بہتر ہے اور نعماء آخرت کے حصول کا بہترین ذریعہ جہاد ہے اور آخرت میں تم پر تاگے کے برابر بھی ظلم نہ ہوگا خوب سمجھ لو کہ اگر جہاد نہ بھی کیا تو موت سے نہیں بچ سکتے جس جگرہ بھی تم ہوگے تو موت تم کو آپکڑے گی اگرچہ مضبوط محلوں میں ۃ و جہاں اگرچہ قاتل نہ پہنچ سکے لیکن موت کافرشتہ تو ضرور پہنچ جاتا ہے لہذا موت کے ڈر سے جہاد سے جان چرانا نادانی ہے اور اسلام میں کمزوری اور کچے ہونے کی دلیل ہے۔ منافقین کے ایک خیال خام کی تردید۔ آئندہ آیات میں منافقین کے ایک خیال خام کا دفعیہ فرماتے ہیں جو بعض منافقین کو ہوتا تھا وہ یہ کہ جب کبھی جہاد میں کوئی فتح ونصرت ہوتی اور مال غنیمت ہاتھ آتا تو یہ کہتے کہ یہ اللہ کی طرف سے اتفاقا بات بن گئی ہے رسول اللہ کی تدبیر کے قائل نہ ہوتے اور جب کبھی شکست ہوتی اور کچھ نقصان پہنچتا تو اس کو نبی صلی اللہ کی طرف منسوب کرتے اور یہ کہتے کہ یہ مصیبت آپ کی اور آپ کے اصحاب کی نحوست سے ہم کو پہنچی ہے آئندہ آیت میں منافقین کی اسی بےہودہ بات کا جواب دیتے ہیں اور اگر پہنچتی ہے ان منافقین کو کوئی نعمت اور رحت یعنی خوشحالی اور کامرانی تو یہ کہتے کہ یہ منجانب اللہ اتفاقا ہوگئی ہے اس میں نبی کریم ﷺ اور مسلمانوں کی تدبیر کی کوئی دخل نہیں جیسے محاورہ میں کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ بات تو من جانب اللہ ہے یعنی تمہاری تدبیر کا نتیجہ نہیں اور اگر ان منافقین کو کوئی برائی اور تکلیف پہنچ جائے تو یہ کہتے کہ اے محمد یہ مصیبت اور بلا آپ کے پاس سے آئی ہے یعنی یہ آپ کی نحوست ہے نبی ﷺ ہجرت فرما کر جب مدینہ منوری رونق افروز ہوئے تو ان ایام میں مدینہ میں غلہ اور پھلوں کی افراط تھی اور ہر چیز کا نرخ ارزاں تھا پھ جب منافقوں نے اپنے نفاق اور یہودیوں نے اپنی عناد کا اظہار کیا تو اللہ نے ان کے رزق میں کسی قدر تنگی پیدا کردی اور کم ہوئی پیدوار اور نرخ چڑھ گیا اس پر یہودیوں اور منافقوں نے کہا جب سے یہ شخص ہمارے شہر میں آیا ہے اسی وقت سے ہمارے پھلوں اور کھیتوں میں نقصان ہونے لگا اس آیت میں انہی منافقوں کا بیان ہے پس حسنہ (بھلائی) سے مراد پیدوار کی کثرت اور نرخ کی ارزانی ہے اور سیۂ (برائی) سے مراد قحط اور مہنگائی ہے اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بھلائی سے مراد فتح اور غنیمت ہے اور برائی سے مراد قتل اور ہزیمت ہے بہرحال جو ابھی مراد ہو حسنہ اور سیۂ کا لفظ سب کو شامل ہے۔ اور اس روایت کی بناء پر مطلب یہ ہے کہ اگر لڑائی میں مسلمانوں کو فتح ہوتی ہے اور غنیمت ان کے ہاتھ آتی ہے جیسے بدر میں تو منافق یہ کہتے ہیں کہ یہ فتح اور غنیمت اللہ کیطرف سے اتفاقا پیش آگئی ہے اور مسلمان جو اس فتح کو اپنی تائید غیبی اور نبی اکرم ﷺ کی دلیل نبوت اور برہان صداقت سمجھتے ہیں یہ سب غلط ہے یہ فتح محض ایک اتفاقی امر ہے اور اگر مسلمانوں کی شکست ہوتی ہے جیسے احد میں تو کہتے ہیں کہ یہ بات محمد ﷺ کی طرف سے ہے یعنی آپ کی بےتدبیری کا نتیجہ ہے آپ ان کے جواب میں یہ کہہ دیجئے کہ یہ سب اللہ کی طرف سے ہے میرا ان میں کوئی دخل نہیں اور جو امور باعث آرام ہیں وہ اللہ کا انعام ہیں اور جو باعث تکلیف ہیں وہ اس کی طرف سے ابتلاء اور آزمائش ہیں پس کیا حال ہے ان منافقین کا کہ ایک بات کے سمجھنے کے پاس نہیں جاتے یعنی ان کو اتنی سمجھ نہیں کہ بھلائی اور برائی سب اللہ کی طرف سے ہے انسان کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ اگر ان منافقین کو عقل ہوتی تو سمجھ لیتے کہ ہر راحت اور مصیبت کا خالق اور موجد اللہ ہی ہے ارزانی اور گرانی اور فتح اور شکست سب اللہ ہی کی قضاقدر سے ہے اس میں کسی دوسرے کو دخل نہیں اور پیغمبر کی تدبیر بھی اللہ کی قضا وقدر ہے اور اللہ تعالیٰ ہی کے الہام سے ہے لہذا نبی پر تمہارا الزام رکھنا غلط فہمی ہے اور بگڑے کو بگڑا نہ سمجھو یہ اللہ کی حکمت ہے اللہ تعالیٰ تم کو تمہاری تقصیروں پر متنبہ کرتا ہے اور تم کو سدھارتا اور سنوارتا اور آزماتا ہے یہ منافقین کے الزام کا اجمالی جواب ہوا آئندہ آیت میں اس کی تفصیل ہے اے انسان تجھ کو نعمت اور راحت اور بھلائی کی قسم سے جو چیز پہنچے تو وہ اللہ کی طرف سے ہے اور برائی کی قسم سے جو چیز تجھ کو پہنچے تو وہ تیرے نفس کی طرف سے ہے مطلب یہ ہے کہ انسان کو جو نعمت اور راحت پہنچتی ہے وہ محض اللہ کا فضل اور احسان ہے اور جو تکلیف اسے پہنچتی ہے وہ اس کے اعمال کی شامت سے پہنچتی ہے۔ اس سے اوپر کی آیت میں اللہ نے یہ فرمایا تھا کہ بھلائی ہو برائی سب اللہ کی طرف سے ہے اور اس آیت میں یہ فرمایا کہ بھلائی تو اللہ کی طرف سے ہے اور برائی بندے کی طرف سے ہے بظاہر ان دونوں باتوں میں تعارض معلوم ہوتا ہے مگر درحقیقت تعارض نہیں دوسری آیت پہلی آیت کی تفصیل ہے۔ خلاصہ جواب یہ ہے کہ عالم اسباب سے قطع نظر کرکے فاعل حقیقی اور مسبب الاسباب کی طرف خیال کرو تو ہر بھلائی اور برائی کا خالق اور موجد صرف وہی ہے اس اعتبار سے تمہارا بھلائی اور برائی میں تفرقہ کرنا یہ بھلائی تو اللہ کی طرف سے ہے اور یہ برائی رسول کی طرف سے ہے سراسر حماقت ہے، فمالھوالاء القوم لایکادون یفقہون حدیثا۔ آیت۔ یعنی یہ لوگ ایسے نادان ہیں خہ اپنی حماقت کو بھی نہیں سمجھتے اور اگر عالم اسباب پر نظر کرتے ہو تو خوب سمجھ لو کہ عالم اسباب میں تم کو جو خیر اور بھلائی پہنچتی ہے وہ محض اللہ کا فضل اور احسان اس میں تمہارے کسی عمل کو دخل نہیں تم جو عمل صالح کرنے بھی ہو تو وہ بھی اللہ ہی کا فضل اور احسان ہے اس کی توفیق سے اور اس کی دی ہوئی قدرت سے اور اس کے دیے ہوئے اعضاء اور جوارح سے کرتے ہو تمہارا وجود بھی اسی کا فضل اور احسان ہے اور اگر تم کو کوئی برائی اور تکلیف پہنچے تو سمجھ لو کہ وہ تمہارے اعمال بد کا نتیجہ ہے، کما قال تعالی، ومااصابکم من مصیبۃ۔۔۔ الی۔۔ کثیرا۔ لہذا ادب کا مقتضی یہ ہے کہ براء کو اپنی طرف اور بھلائی کو اللہ کی طرف منسوب کرو اور فتح اور کامرانی کو اللہ کا فضل جانو اور قحط اور گرانی اور شکست اور ناکامی کو اپنے اعمال کی شامت جانور پیغمبر خدا پر کوئی الزام نہ رکھو اور یقین رکھو کہ بھلائی اور برائی کا خالق اور موجد صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے مگر تمہارا عمل اس کا سبب ہے اور پیغمبر خدا اس برائی کے نہ خالق اور موجد ہیں اور نہ سبب ہیں لہذا پیش آمدہ برائی کو معاذ اللہ نبی ﷺ کی نحوست بتلانا کمال حماقت ہے۔ اللہ جل شانہ منافقین کے الزام دور کرنے کے بعد نبی کریم سے خطاب کرکے فرماتے ہیں اور اے نبی ﷺ آپ کا سبب نحوست ہونا تو قطعا ناممکن اور محال ہے تاکہ آپ لوگوں کو ہر خیر کی طرف دعوت دیں اور ہر شر سے ڈرائیں آپ کی ذات بابرکات تو ہر خیر اور رحمت کا منبع اور سرچشمہ ہے وہ نحوست کا سبب کیسے بن سکتی ہے نحوست کا منبع خود ان کا نفس امارہ ہے اور یہود اور منافقین جس برائی کا مشاہدہ کررہے ہیں وہ ان کے اعمال کی شامت ہے اے نبی کریم آپ ان کے بےہودہ الزام کی پروا نہ کیجئے اور غمگین اور رنجیدہ نہ ہوجائے اپنا کاررسالت کیے جائے اور اگر یہ لوگ آپ کی رسالت کا انکار کریں تو اللہ تعالیٰ آپ کی رسالت کا انکار کریں تو اللہ تعالیٰ آپ کی رسالت کا کافی گواہ ہے اللہ نے آپ کو جو معجزات عطا کیے ہیں وہ سب من جانب اللہ آپ کی نبوت و رسالت کے گواہ ہیں اور ظاہر ہے کہ رسالت اور نحوست کا اجتماع عقلا ناممکن ہے نحوست جب آتی ہے تو بارگاہ رسالت کی مخالفت سے آتی ہے اور اس لیے کہ جس کسی نے رسول کی اطاعت کی تو تحقیق اس نے بلاشبہ اللہ کی اطاعت کی اور اللہ کی اطاعت موجب خیروبرکت اور باعث رحمت ہے نہ کہ باعث شوم ونحوست اور جو آپ کی اطاعت سے اعراض کرے تو اس کو اختیار ہے کہ خیرو برکت سے روگردانی کرکے نحوست میں داخل ہوجائے ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا کہ آپ جبرا وقہرا ان کو نحوست سے بچالیں یا نکال لیں آپ بےفکری رہیں ان کے بارے میں آپ سے کوئی باز پرس نہ ہوگی آپ کا کام پیغام پہنچا دینا ہے۔ فرستادہ خاص پروردگار رسانندہ حجت استوار گرانما یہ ترتاج آزاد گا ں گرامی تراز آدمی زاد گاں بیان حقیقت حال منافقین۔ اور منافقین کی حالت یہ ہے کہ بظاہر نبی کریم ﷺ کی اطاعت کا دم بھرتے ہیں اور آپ کے سامنے یہ کہتے ہیں کہ ہمارا شیوہ تو آپ کی فرمانبرداری ہے زبان سے تو اظہار فرمانبرداری کرتے ہیں پھر جب آپ کی مجلس سے اٹھ کر باہر جاتے ہیں تو ان میں کے کچھ لوگ یعنی ان کے سردار رات کے وقت آپ کے فرمودہ اور حکم کے برخلاف مشورے کرتے ہیں اور ان کو یہ معلوم نہیں کہ یہ جو کچھ کررہے ہیں اللہ ان کو ان کے نامہائے اعمال میں لکھتا ہے اور پھر بذریعہ وحی کے اپنے نبی کو ان کے پوشیدہ مشوروں سے مطلع کرتا ہے اور منافقین یہ سمجھتے ہیں کہہ ہمارے پوشیدہ مشوروں کی کسی کو کیا خبر ہوسکتی ہے پس اے نبی کریم ہم نے آپ پر ان کا نفاق ظاہر کردیا ہے لہذا آپ ان سے تغافل برتیے نہ ان کو سزا دیں نہ ان کی فکر میں پڑیں اور اللہ پر بھروسہ رکھیے اور اللہ پورا کارساز ہے اللہ آپ کو ان کے شر سے محفوظ رکھے گا یہ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ اثبات رسالت محمدیہ باعجاز قرآن۔ اوپر کی آیتوں میں اللہ نے منافقین کی انواع و اقسام کی دو رنگیاں اور دغابازیاں بیاں کیں جن کا اصل منشاء اور سبب یہ تھا کہ وہ نبی ﷺ کو دعوائے رسالت میں سچا نہیں سمجھتے تھے اور قرآن کریم کو کلام الہی نہیں جانتے تھے اس لیے اس آیت میں ان کو یہ حکم دیا کہ تم قرآن میں غوروفکر کیا تو تم پر روز روشن کی طرح یہ امر واضح ہوجائے گا کہ یہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور نبی ﷺ خدا تعالیٰ کے رسول برحق ہیں چناچہ فرماتے ہیں کیا یہ منافقین قرآن میں غوروفکر نہ کریں گے تاکہ اس کے اسرار بلاغت اور دلائل اعجاز کو دیکھ کر اس کا کلام الہی ہونا ان پر واضح ہوجائے اور یہ سمجھ جائیں کہ جس پر یہ کلام الہی نازل ہوا ہے وہ بلاشبہ اللہ کا رسول ہے۔ اس لیے کہ اس قرآن کی فصاحت وبلاغت ایسی بےنظیر ہے جو طاقت بشری سے باہر ہے اور اس کے تمام احکام عین حکمت اور عین صواب ہیں اور جابجا قرآن میں غیب کی خبریں ہیں جن کا علم سوائے اللہ کے کسی کو نہیں ہوسکتا گزشتہ کی اس میں خبریں ہیں اور آئندہ کی اس میں پیش گوئیاں ہیں اور یہ سب کو معلوم ہے کہ نبی پر نور امی ہیں پڑھنے لکھے نہیں جو کسی سے پڑھ کر یا کسی کتاب کو دیکھ کر یہ علوم ومعارف بیان کرتے ہوں جس سے بخوبی ثابت ہوا کہ بلاشبہ یہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور آپ اپنے دعوائے رسالت میں سچے ہیں اور گر یہ قرآن غیر اللہ کی طرف سے ہوتا یعنی اگر خدا کا کلام نہ ہوتا بلکہ معاذ اللہ نبی کا بنایا ہوا ہوتا یا کسی اور بشر کا کلام ہوا جیسا کہ مخالفین اسلام کہتے ہیں کہ تو ضرور پاتے اس میں بہت سخت اختلافات اور تناقض اور تفاوت کوئی خبر اس کی صحیح ہوتی اور کوئی غلط کوئی جملہ اس کا فصیح ہوتا اور کوئی رکیک مگر اس میں کسی قسم کا اختلاف اور تناقض نہیں فصاحت وبلاغت میں اول سے آخر تک یکساں ہے اس کے ایک بیان سے دوسرے بیان کی تصدیق ہوتی ہے اس کی پیش گوئیاں تمام صحیح اور واقع کے مطابق ہیں باہمی تناقض اور اختلاف کا نام ونشان نہیں اور ظاہر ہے کہ غیب کا علم سوائے اللہ کے کسی کو نہیں ان باتوں سے ہر شخص بخوبی یہ سمجھ سکتا ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے کیونکہ بشر کا کلام ایک اسلوب اور ایک حال پر کبھی بھی نہیں رہ سکتا بشر پر مختلف احوال پیش آتے ہیں ہر حال تمہیں اسی حالت کے مطابق کلام کرتا ہے دوسری حالت کا دھیان نہیں رہتا نیز آدمی جب کلام طویل کرتا ہے تو وہ یکساں نہیں ہوتا بلکہ کوئی جملہ فصیح ہوتا ہے اور کوئی غیر فصیح اور قرآن عظیم اتنی بڑی کتاب ہے کہ اس کان جملہ اختلافات سے پاک ہونا اس امر کی قطعی دلیل ہے کہ ہی اللہ کا کلام ہے خلاصہ مطلب یہ کہ کیا یہ منافقین قرآن میں غور نہیں کرتے کہ اس کے عدم اختلاف اور عدم تناقض سے رسول اللہ کا صدق معلوم کرلیں اور کم ازکم اسی میں غور کرلیں کہ قرآن کریم تمہارے باطنی نفاق اور اندرونی عقائد اور خیالات کی صحیح خبر دے رہا ہے جو اس امر کی دلیل قطعی ہے کہ یہ وحی اللہ کی ہے سوائے اللہ کے کون کسی کے دل کا حال بتا سکتا ہے اگر یہ قرآن خدا کی طرف سے نہ ہوتا تو منافقین کے نفاق اور اسرار باطنی کے متعلق جو خبریں دی جاتی ہیں تو منافقین ان میں ضرور اختلاف کرتے منافقین کے متعلق قرآن کی کوئی خبر سچی نکلتی اور کوئی جھوٹی، اور اگر منافقین کو قرآن میں کوئی اختلاف نظر آتا تو ضرور اس کو شائع کرتے اس لیے کہ ان کی عادت یہ تھی کہ جب ان کے پاس امن یا خوف کی کوئی خبر آتی ہے تو اسی وقت اس کو شائع اور مشہور کردیتے ہیں منافقوں کی عادت یہ تھی کہ جب مسلمانوں کی فتح یا شکست کی خبر ان کو کہیں سے ملتی تو بلا تحقیق اس کو شائع اور مشہور کردیتے ہیں جس سے مسلمانوں کو نقصان پہنچتا ہے کیونکہ بعض خبریں تو جھوٹی ہوتی ہیں اور بعض کا ظاہر کرنا خلاف مصلحت ہوتا ہے اسی طرح اگر ان منافقین کو قرآن میں کوئی اختلاف اور تناقض نظر آتا تو اس کو بھی ضرور شائع اور مشہور کر ڈالتے اور ان کے نفاق کے متعلق قرآن میں جو خبریں دی جاری ہیں ان میں سے اگر کوئی خبر غلط نکلتی تو آسمان و زمین ایک کردیتے اور مطلب آیت کا یہ ہے کہ اگر ان منافقین کے پاس مسلمانوں کی فتح اور غنیمت یا قتل اور ہزیمت کی کوئی خبر آتی تو خواہ مخواہ جھوٹی ہو یا سچی اور اس کے ظاہر کرنے میں مصلحت ہو یا نہ ہو یہ لوگ اس کو مشہور کردیتے اور اگر بجائے خود مشہور کرنے کہ یہ لوگ اس خبر کو رسول اللہ کی طرف اور صحابہ میں جو لوگ ذی الرائے اور ذی اختیار ہیں ان تک پہنچاتے یعنی یہ لوگ اگر خبر سننے کے بعد اس خبر کو رسول اللہ اور اکابر صحابہ تک پہنچادیتے اور از خود اس کو شائع نہ کرتے تو اہل اسلام میں سے جو لوگ بات کی تہ اور گہرائی کو پہنچنے والے ہیں تو وہ بیشک پہچان لیتے کہ یہ خبر مشہور کرنے کے قابل ہے یا نہیں ہر شخص بات کی تہ اور گہرائی کو نہیں پہنچتا لہذا ایسے اشخاص کو چاہیے کہ وہ مسنبطین اور مجتہدین کی طرف رجوع کریں اور ان سے بغیر دریافت کیے دین کی کوئی خبر اور بات زبان سے نہ نکالیں اسنتباط کے لغوی معنی زمین کھود کر اس کی تہ میں سے پانی نکالنے کے لیں اور اصطلاھ شریعت میں نصوص شریعت کی تہ میں جو حقائق اور معارف مستور ہیں ان کو خدادا دفہم و فراست سے کھود کر نکالنے کا نام استنباط اور اجتہاد ہے شریعت کے بہت سے احکام آیات اور احادیث کے ظاہر سے مفہوم نہیں ہوتے لیکن وہ بلاشبہ نصوص شریعت اور کتاب وسنت کی گہرائیوں میں مستور اور پوشیدہ ہوتے ہیں یہ ناممکن ہے کہ شریعت نے کوئی امر چھوڑ دیا ہو اور اس کے متعلق کوئی حکم نہ دیا ہو فقہاء کرام جن کے ساتھ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے خاص خیر کا ارادہ فرمایا وہ اپنے دقیق اور عمیق نظر اور فکر کے ذریعے سے زمین شریعت کو کھود کر اس کی تہ اور گہرائیوں میں سے ان پوشیدہ احکام کو نکال کر لاتے ہیں جو زمین شریعت کی ظاہری سطح پر نمایاں نہ تھے شریعت کی تہ گہرائی میں سے کسی پوشیدہ حکم کے نکال لینے کا نام استنباط اور اجتہاد اور قیاس ہے۔ اسی بناء پر حضرات فقہاء لکھتے ہیں کہ قیاس مظہر حکم ہے نہ کہ مثبت حکم یعنی قیاس سے کوئی حکم شرعی ثابت نہیں ہوتا بلکہ جو حکم قرآن و حدیث میں پہلے موجود تھا مگر مخفی تھا قیاس نے اس کو اب ظاہر کردیا حکم درحقیقت کتاب وسنت ہی کا ہے قیاس خدا اور رسول کے پوشیدہ حکم کا مظہر اور محض ظاہر کرنے والا ہے قیاس مثبت حکم نہیں یعنی قیاس اپنی طرف سے کوئی حکم نہیں دیتا عرف عام میں چونکہ قیاس کے معنی خیال اور گمان اور وہم کے ہیں اس لیے بہت سے نادانوں نے یہ گمان کرلیا کہ قیاس شرعی کی حقیقت بھی یہی ہے اور اصطلاح شریعت میں قیاس شرعی کی حقیقت یہ ہے کہ غیر منصوص الحکم کو منصوص الحکم کے مشابہ اور مماثل دیکھ کر بوجہ مماثلت اور مشابہت کے منصوص الحکم کے حکم کو غیر منصوص کے لیے ثابت کرنا اس کا نام قیاس ہے یعنی جس چیز کا حکم کتاب وسنت اور اجماع امت میں منصوص اور مصرح نہیں اس میں یہ غوروفکر کرنا کہ جس چیز کا حکم شریعت میں موجود ہے یہ غیر منصوص کس کے ساتھ زیادہ مشابہ اور مماثل ہے مشابہت کی بناء پر غیرمنصوص کے لیے اس حکم کے ثابت کرنے کا نام قیاس شرعی ہے جیسے ہائی کو رٹ کا کوئی فاضل جج جس مقدمہ کا حکم صراحتۃ قانون میں موجود نہ ہوں وہاں نظائر کو پیش نظر رکھ کر فیصلہ صادر کرتا ہے یہ بھی تو ایک قسم کا قیاس ہی ہوا عدالتوں میں ہزارہا مقدمات کا فیصلہ نظاہر ہی پر ہوتا ہے نظیر کے موافق حکم دینا یہی قیاس ہے معلوم ہوا کہ ہر قانون میں قیاس موجود ہے بلا قیاس کے عدالتوں کا فیصلہ ناممکن ہے امام بخاری نے بھی قیاس کی یہی حقیت قرار دی ہے۔ چناچہ فرماتے ہیں، باب من شبہ اصلا معلوما باصل مبین قدبین اللہ حکمھا یفھم السائل۔ جس سے اشارہ اس طرف ہے کہ قیاس کی حقیقت تشبیہ اور تمثیل ہے اور اسبارہ میں امام بخاری نے متعدد تراجم قائم فرماتے ہیں سب کا حاصل یہ ہے کہ قیاس اور رائے کی دو قسمیں ہیں ایک محمود اور ایک مذموم وہ ہے جس کی کتاب وسنت اور اجماع میں کوئی اصل موجود نہ ہو اور محمود وہ ہے جو کتاب وسنت اور اجماع امت سے ماخوذ ہو حضرات اہل علم فتح الباری جلد سیزدھم باب الاعتصام کی مراجعت فرمائیں اور اگر تم پر خدا کا یہ خاص فضل اور یہ خاص مہربانی نہ ہوگی یعنی اگر بالفرض تمہاری ہدایت کے لیے حق تعالیٰ یہ قرآن نازل نہ فرماتے اور نبی اکرم ﷺ کو تمہاری تعلیم اور تزکیہ کے لیے مبعوث نہ فرماتے جس نے تم پر حق اور باطل کا فرق واضح کیا تو البتہ تم شیطان کے پیرو ہوجاتے اور کفر وشرک میں مبتلا ہوجاتے مگر بہت کم ایسے ہوتے جو خداداد نور فہم و فراست سے توحید کو اختیار کرتے اور شرک سے محفوظ ہوتے جیسے زید بن عمرو بن نفیل اور ورقہ بن نوفل وغیرہم کو جو خدادا نور فہم سے زمانہ جاہلیت میں کفروشرک سے محفوظ رہے اتباع شیطان سے اس قسم کی محفوظیت اور معصومیت سے بہت ہی کم افراد کو نوازا جاتا ہے لہذا تباع شیطان سے بچنے کا طریقہ یہ ہے بغیر مستنبطین کی اجازت کے کوئی خبر شائع نہ کریں بغیر اہل الرائے کے صلاح اور حکم کسی خبر کو شائع کرنا شیطان کی پیروی ہے۔ پس اے نبی کریم ﷺ اگر یہ منافقین اور ضعیف الایمان مسلمان تمہارا ساتھ چھوڑ دیں تو پروا نہ کیجئے آپ تن تنہا خدا کی راہ میں جہاد و قتال کیجئے آپ صرف اپنی ذات کے ذمہ دار ہیں غیروں کی ذمہ داری آپ پر نہیں اور آپ تو صرف مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دیجئے ماننا نہ ماننا ان کا کام ہے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کافروں کی جنگ کو روک دے گا اور اللہ تعالیٰ سخت ہیبت والا اور سخت عذاب دینے والا ہے اس کے مقابلہ میں کوئی نہیں جیت سکتا نہ کوئی اس کے عذاب سے چھڑا سکتا ہے۔
Top