Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 93
وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا
وَمَنْ : اور جو کوئی يَّقْتُلْ : قتل کردے مُؤْمِنًا : کسی مسلمان کو مُّتَعَمِّدًا : دانستہ (قصداً ) فَجَزَآؤُهٗ : تو اس کی سزا جَهَنَّمُ : جہنم خٰلِدًا : ہمیشہ رہے گا فِيْھَا : اس میں وَغَضِبَ اللّٰهُ : اور اللہ کا غضب عَلَيْهِ : اس پر وَلَعَنَهٗ : اور اس کی لعنت وَاَعَدَّ لَهٗ : اور اس کے لیے تیار کر رکھا ہے عَذَابًا : عذاب عَظِيْمًا : بڑا
اور جو شخص مسلمان کو قصدا مار ڈالے گا تو اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ (جلتا) رہے گا اور خدا اس پر غضبناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور ایسے شخص کے لیے اس نے بڑا (سخت) عذاب تیار کر رکھا ہے
تتمہ حکم سابق۔ تہدید شدید ووعید اکید برقتل عمد مومن را۔ قال تعالیٰ ومن یقتل مومنا متعمدا۔۔۔ الی۔۔۔ عظیما۔ آیت۔ ربط) گزشتہ آیات میں قتل خطا کے احکام مذکور ہوئے اب اس آیت میں کسی مومن کو عمدا قتل کرنے کی وعید مذکور ہے چناچہ فرماتے ہیں اور جو شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرڈالے تو دنیاوی حکم تو اس کا قصاص ہے جیسا کہ سورة بقرہ میں گذرا اور حکم اخروی اس کا یہ ہے اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب نازل ہوگا اور اللہ اس پر لعنت کرے گا یعنی اس کو اپنی خاص رحمت سے دور کردے گا اور اس نے اس کے لیے بڑا عذاب تیار کیا ہے جو دوسرے کبائر کے عذاب سے بہت بڑھ کر ہے اور اس آیت میں جو حکم مذکور ہے وہ اس شخص کے لیے ہے جو شخص جان بوجھ کر بلاوجہ کسی مومن کو مار ڈالے اور پھر بغیر توبہ کے مرجائے تو وہ طویل مدت تک دوزخ میں رہے گا اس لیے کہ توبہ سے تو ہر گناہ معاف ہوجاتا ہے حتی کہ کفر اور شرک بھی معاف ہوجاتا ہے کل قرآن کا طرز بیان ایسا ہی ہوا ہے کہ جہاں کہی بھی کسی گناہ کی سزابیان کی گئی ہے اس کے ساتھ عدم توبہ شرط ہے خواہ وہ شرط لفظوں میں مذکور ہو یا نہ ہو اللہ کا ارشاد ہے ان اللہ لایغفر ان یشرک بہ تحقیق اللہ شرک کو نہیں بخشتا ظاہر ہے کہ شرک اس حالت میں نہیں بخشا جائے گا جب کہ مشرک بغیر توبہ کے مرجائے اس لیے کہ توبہ سے شرک کا بخشا جانا قطعی اور یقینی ہے ہر جگہ اس شرط کے ذکر کرنے کی اس لیے ضرورت نہیں خہ توبہ سے ہر گناہ بخشا جانا اسلام کے اصول مسلمہ میں ہے اور اللہ نے قرآن کریم میں جابجا اس کی تصریح فرمادی کہ توبہ سے ہر گناہ معاف ہوجاتا ہے کماقال تعالی، وانی لغفار لمن تاب وامن وعمل صالحا۔ یعنی میں بلاشبہ اس کو معاف کرنے والا ہوں جس نے توبہ کرلی اور ایمان لے آیا اور آئندہ کو نیک کام کیے یہ حکم تو عمومی ہے جس میں کفر اور شرک اور تمام اعمال قبیحہ سب اس میں داخل ہیں اور سورة فرقان میں تو اسی قتل کے بارے میں فرماتے ہیں، ومن یفعل ذالک یلق۔۔۔۔ الی۔۔۔ رحیما۔ آیت۔ نیز اس آیت میں خلو د سے طویل مدت تک دوزخ میں رہنا مراد ہے کافروں کی طرح غیر محدود اور ابدی طور پر رہنا مراد نہیں اس لیے کہ احادیث متواترہ سے یہ امر ثابت ہے کہ جس شخص کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا وہ دوزخ میں ہمیشہ نہ رہے گا اور اسی پر تمام سلف اور خلف کا اجماع اور سب اس کے قائل ہیں کہ آیت میں خلود سے زیادہ مدت تک رہنا مراد ہے قائل کے خلود اور کافر کے خلود میں فرق ہے کافر کا خلود ابدی ہے اس وجہ سے قرآن کریم میں کافروں کے خلود کے ساتھ ابدا کا لفظ آیا ہے اور قاتل کا خلود غیر ابدی ہے۔ اور ابن عباس سے مروی ہے کہ سورة فرقان میں قتل نفس پر توبہ کا ذکر ہے وہ اس شخص کے حق میں ۃ ے جس نے حالت شرک میں کسی کو قتل کیا اور بعد میں توبہ کی تو اس کی توبہ قبول ہے اور یہ آیت یعنی، ومن یقتل مومنا۔۔۔ الی۔۔۔ عذابا عظیما۔ آیت۔ اس شخص کے حق میں ہے جو مومن ہو پھر وہ دوسرے مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی توبہ قبول نہیں اور ابن عباس سے یہ بھی منقول ہے کہ یہ آیت اپنے ظاہر پر محمول ہے اور اس میں کوئی تاویل بھی نہیں اور نہ یہ آیت منسوخ ہے بلکہ آیات مغفرت کے لیے ناسخ ہے۔ محققین کی رائے یہ ہے کہ ابن عباس کا یہ قول تغلیظ اور تشدید پر محمول ہے تاکہ لوگ اس وعید کو سن کر قتل مومن پر جرات نہ کریں ورنہ آیت ان اللہ لایغفر ان یشرک بہ ویغفر ما دون ذالک لمن یشاء۔ آیت۔ اور احادیث اس بارے میں صریح ہیں کہ کفر اور شرک سے کم درجہ سے جو گناہ ہیں وہ اللہ کی مشیت میں ہیں چاہے اللہ ان کو معاف کرے اور چاہے ان کو عذاب دے گزشتہ امتوں میں سے ایک شخص کا سو آدمیوں کا قتل کرنا اور پھر اس سے توبہ کرنا اور پھر اس کی توبہ کا مقبول ہونا بخاری اور مسلم میں مذکور ہے۔
Top