Maarif-ul-Quran - Al-Ghaafir : 79
اَللّٰهُ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَنْعَامَ لِتَرْكَبُوْا مِنْهَا وَ مِنْهَا تَاْكُلُوْنَ٘
اَللّٰهُ : اللہ الَّذِيْ جَعَلَ : وہ جس نے بنائے لَكُمُ : تمہارے لئے الْاَنْعَامَ : چوپائے لِتَرْكَبُوْا : تاکہ تم سوار ہو مِنْهَا : ان سے وَمِنْهَا : اور ان سے تَاْكُلُوْنَ : تم کھاتے ہو
خدا ہی تو ہے جس نے تمہارے لئے چارپائے بنائے تاکہ ان میں سے بعض پر سوار ہو اور بعض کو تم کھاتے ہو
ذکر انعامات و توحید رب العالمین، وتہدید منکرین ومشرکین : قال اللہ تعالیٰ : (آیت ) ” اللہ الذی جعل لکم الانعام ....... الی ........ وخسرھنالک الکفرون “۔ (ربط) گزشتہ آیات میں سلسلہ مضمون توحید خداوندی تھا اور دلائل قدرت کے بیان کے ساتھ مجرمین کے انجام ہلاکت پر افسوس وملامت کا اظہار ہے، اور یہ کہ خود مجرمین آخرت میں اپنے اعمال پر کس قدر پچھتائیں گے، آیات میں مزید انعامات خداوندی ذکر فرما کر مضمون توحید اور منکرین ومشرکین کی تہدید پر سورت کو ختم فرما دیا گیا، ارشاد ہے، اللہ ہی ہے جس نے تمہارے ہی نفع کے لیے مویشی بنائے تاکہ ان میں سے بعض سے تم سواری لو اور ان میں سے بعض کو کھاؤ، اور بھی بہت سے فوائد رکھے کہ ان کے بال اون اور کھالوں سے نفع حاصل کرو۔ اور اس لیے کہ تم ان پر سوار ہو کر اپنے اس مقصد تک پہنچ جاؤ جو تمہارے دلوں میں ہے، خواہ ملاقات ہو یا تجارتی سفر ہو یا تعلیم و تعلم، جہاد ہو یا حج کے لیے سفر ہو اور صرف یہی نہیں کہ تم ان پر سواری کرو بلکہ ان پر اور کشتیوں پر بھی تم لدے پھرتے ہو۔ تم اور تمہارا سامان ان پر لاوا جاتا ہے نقل وحمل کا سلسلہ جاری ہے جس سے تمہارے معاشی مسائل حل ہورہے ہیں، اور حصول منافع کا سلسلہ قائم ہے اور بھی قدرت کی نشانیاں اللہ تم کو دکھاتا ہے سو تم اللہ کی نشانیوں میں سے کون کون سی نشانیوں (اور دلائل قدرت) کا انکار کروگے، کیا ان لوگوں نے زمین کا سفر نہیں کیا ہے کہ دیکھ لیتے کیسا انجام ہوا ان منکرین کا جو ان سے پہلے گذرے ہیں جو ان سے زائد تھے اپنی تعداد میں اور ان سے زائد تھے اپنی طاقت اور نشانیوں کے اعتبار سے جو آثار ونشانیاں انہوں نے اپنی دولت و ثروت اور عزت و حکومت کی چھوڑیں مگر ان کے کچھ کام نہ آئیں یہ تمام باتیں جو کرتے تھے، اور وہ مادی تدابیر اپنی شان و شوکت کی اور اللہ کے پیغمبروں کے مقابلہ میں ہر طرح کی سازشیں، اور کسی طرح بھی وہ عذاب الہی سے نہ بچ سکے، غرض جب ان کے پاس ان کے پیغمبر اللہ کی کھلی نشان لے کر آئے تو وہ اپنے اس علم پر خوش ہونے اور ناز کرنے لگے جو ان کے پاس تھا دنیوی اور معاشی علوم میں سے اور اس کے مقابلہ میں خدا اور اس کے رسول کے علم کو حقیر جانا تو آپڑا ان پر عذاب اسی چیز کی بدولت جس کا وہ تمسخر و مذاق کررہے تھے پھر انہوں نے ہمارا عذاب دیکھا تو کہنے لگے ہم ایمان لائے خدائے واحد پر اور ہم نے ان سب چیزوں کا انکار کیا جن کو ہم اس کے ساتھ شریک ٹھہراتے تھے اس وقت عذاب خداوندی کے ظاہر ہونے اور دیکھنے کے بعد تو کوئی ایمان لانا معتبر نہیں ہوسکتا تھا تو ان کا ایمان لانا ان کے واسطے کسی درجہ میں ن افع نہیں ہوا جب کہ انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا، اس لیے کہ اب یہ ایمان بالغیب نہ رہا جب کہ عذاب کا مشاہدہ ہوگیا اور نہ اختیاری رہا بلکہ اضطراری ہوگیا، اور ایمان تو وہی معتبر ہے جو بالغیب ہو اور بحالت اختیاری ہو۔ 1 حاشیہ (تمام ایمہ متکلمین کا اجماع ہے کہ ایسا ایمان، ایمان بأس کہلاتا ہے، اور نص قرآنی سے ایسا ایمان ناقابل اعتبار قرار دیا گیا جیسے ارشاد فرمادیا گیا۔ (آیت ) ” لا ینفع نفسا ایمانھا لم تکن امنت من قبل اوکسبت فی ایمانھا خیرا “۔ اسی طرح سکرات موت شروع ہوجانے پر بھی ایمان معتبر نہیں، اس کو ایمان یأس کہا جاتا ہے۔ ) اللہ کا یہی قانون اور طریقہ ہے جو اس کے بندوں میں پہلے سے چلا آرہا ہے اور ظاہر ہے کہ اس وقت جب کہ کافروں پر عذاب خداوندی مسلط ہوگیا اور ان کا ایمان بھی نافع ومعتبر نہ ہوا تو خسارہ میں پڑگئے، اللہ کا انکار وکفر کرنے والے، اور یہ خسارہ انتہائی اور آخری درجہ کا ہے کیونکہ اس کے بعد تو تلافی کا کوئی امکان ہی نہیں، نہ ایمان لانے کا وقت رہا، نہ توبہ کی مہلت رہی۔ بخلاف اس کے کہ اگر ایسے لوگ عذاب نازل ہونے سے پہلے کفر ونافرمانی کا تدارک کرلیتے تو تدارک ہوسکتا تھا۔ بحث ایمان بأس و ایمان یأس : اب تو نہ پچھتانے سے کوئی فائدہ اور نہ توبہ ومعذرت سے کوئی ثمرہ مرتب ہوگا۔ فرعون نے غرق ہوتے وقت جب ایمان لانا چاہا تو اس کو دھتکار دیا گیا کہ (آیت ) ” ا آئن وقد عصیت قبل وکنت من المفسدین “۔ کہ اب ایمان لاتا ہے اور حال یہ کہ پہلے سے نافرمانی کرتا رہا اور موت کے وقت یہی ایمان چونکہ ایمان بالغیب نہیں رہتا، اس لیے وہ بھی معتبر نہیں جیسے کہ ارشاد فرمادیا گیا۔ (آیت ) ” ولیست التوبۃ للذین یعملون السیات حتی اذا حضر احدھم الموت قال انی تبت الان ولاالذین یموتون وھم کفار “۔ تفصیل سابق میں گذر چکی) حدیث میں ارشاد ہے فرمایا۔ ان اللہ تعالیٰ یقبل توبۃ العبد مالم یغر غر “۔ کو اللہ تعالیٰ بندہ کی توبہ اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک کہ وہ غرغرہ یعنی نزع کی حالت میں نہ آجائے تو حق تعالیٰ نے کافروں کی اس قدیم روش کا ذکر کرتے ہوئے نتیجہ یہ فیصلہ فرما دیا کہ ایسا ایمان کسی درجہ میں بھی نفع بخش نہ ہوا اور منکرین وکافرین خائب و خاسر ہوئے۔ اللھم احفظنا من الخسرین واحفظنا من غضیک وعذابک توفنا مسلمین والحقنا بالصالحین غیر خزایا ولا ندامی ولا مفتونین، آمین یا رب العلمین، تم سورة ال مومن بفضل اللہ و توفیقہ ولہ الحمد حمدا کثیرا “۔
Top