Maarif-ul-Quran - Az-Zukhruf : 16
اَمِ اتَّخَذَ مِمَّا یَخْلُقُ بَنٰتٍ وَّ اَصْفٰىكُمْ بِالْبَنِیْنَ
اَمِ اتَّخَذَ : یا اس نے انتخاب کرلیں مِمَّا يَخْلُقُ : اس میں سے جو وہ پیدا کرتا ہے بَنٰتٍ : بیٹیاں وَّاَصْفٰىكُمْ : اور چن لیا تم کو بِالْبَنِيْنَ : ساتھ بیٹوں کے
کیا اس نے اپنی مخلوقات میں سے خود تو بیٹیاں لیں اور تم کو چن کر بیٹے دے دئیے
تقبیح وتوبیخ برعناد ومخاصمت مشرکین و انکار از قبول حق : قال اللہ تعالیٰ : (آیت ) ” ام اتخذ مما یخلق بنت ...... الی ...... کیف کان عاقبۃ المکذبین “۔ (ربط) گذشتہ آیات میں وحی الہی اور کلام ربانی کی عظمت اور حقانیت کے بیان کے ساتھ مجرمین وملحدین کی غلط روش اور بیہودہ خصلتوں پر وعیدتھی اب ان آیات میں مشرکین کا عناد اور ان کی مخاصمت کا بیان ہے اور یہ کہ ان کی مشرکانہ روش کس قدر گستاخانہ ہے کہ خدا کے واسطے اول تو اولاد تجویز کرتے ہیں اور پھر یہ کہ اس سلسلہ میں بیٹیاں خدا کے لیے تجویز کرتے ہیں حالانکہ یہ لوگ خود اپنے لیے بیٹیوں کے تصور کو انتہائی عار اور اس کی خبر دی جائے تو غصہ اور غم میں ان کا منہ کالا ہوجاتا ہے اسی کے ساتھ یہ بھی ذکر فرمایا جارہا ہے کہ قبول حق سے انکار محض عصبیت کی وجہ سے ہے کہ وہ اپنے آباؤ اجداد کے طریقہ کو چھوڑنا گوارا نہیں کرتے تو مخصوص کردیا بیٹوں کے ساتھ کہ تم اپنے واسطے تو بیٹیاں گوارا نہ کرو، اور خدا کے واسطے ان کو تجویز کرو، حالانکہ جب کبھی بھی ان میں سے کسی کو بشارت سنائی جائے اس چیز کی جس کو انہوں نے رحمن کے واسطے نمونہ بنا رکھا ہے تو غصہ کے مارے اس کا منہ سیاہ ہوجا تا ہے دن بھر اور حال یہ ہے کہ وہ دل میں گھٹ رہا ہے اور پیچ وتاب کھاتا ہے یہ تو عجیب احمقانہ فیصلہ اور مضحکہ خیز تصور ہے تو کیا وہ لڑکی جو پرورش پاتی ہے (زیب وزینت) زیور میں اور وہ جو خصومت میں اپنے مدعا کو بھی ظاہر کرنے والی نہیں ہے، وہ اس قابل ہے کہ اس کو خدا کی اولاد اور اس کا نمونہ قرار دیا جائے، ظاہر ہے کہ زیبائش و آرائش میں نشوونما پانا جسمانی ضعف اور قوائے بدنیہ کے نقصان کی علامت ہے کیونکہ جسمانی زیب وزینت اور آرائش و آسائش انسان کی عملی صلاحیتوں کو ناقص بنانے والی ہے اور اپنے مدعی کو ظاہر وثابت نہ کرسکنا یہ قوائے فکریہ اور عقل کی کمزوری کی علامت ہے، چناچہ یہ کمزوری عورتوں میں واضح طور پر پائی جاتی ہے گو بات طویل کریں گی لیکن نہ تو اپنے مقصد کو مدلل کرسکیں گی اور نہ مخالف کی بات کا معقول جواب اور رد کرسکیں گی، اور ٹھہرایا انہوں نے فرشتوں کو جو اللہ رحمن کے بندے ہیں عورتیں کس قدر ظلم اور حماقت ہے کہ خدا کے فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دیا جائے کیا یہ لوگ موجود تھے ان کی تخلیق کے وقت، اب ہم لکھ رکھیں گے ان کی گواہی اور ان سے باز پرس کی جائیگی کہ تم نے اولا تو خدا کی اولاد تجویز کی اور پھر فرشتوں کو مؤنثوں کی صف میں لے جا کر کھڑا کردیا ہے، حالانکہ وہ نہ جنس مذکر ہیں اور نہ مؤنث، اور پوچھا جائے گا کہ تمہاری اس بات کی کیا دلیل ہے بجائے اس کے کہ اپنی اس احمقانہ اور بیہودہ بات پر شرمندہ ہوتے اور یہ کہنے لگے اگر اللہ چاہتا تو ہم ان بتوں کی عبادت نہ کرتے جب اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور ہر بات جانتا ہی ہے تو اس نے ہماری یہ بات جاننے کے باوجود جب ہم کو نہیں روکا تو معلوم ہوا کہ ہمارا یہ سب عمل اس کی مرضی سے ہے، اور اچھا ہے، حالانکہ ان کو اس کی کچھ بھی خبر نہیں کہ اس چیز کی وجہ سے انسان کے اپنے اختیار و ارادہ سے کیے ہوئے برے کام اچھے نہیں ہوسکتے، خیر وشر بیشک اللہ کے ارادہ اور قدرت سے ہے، لیکن انسان اپنے اعمال وافعال کا ذمہ دار ہے، اگر ان کا یہ فلسفہ درست قرار دے لیاجائے تو ہر ظالم وخونخوار اپنے ہر عمل کے درست ہونے کے واسطے یہی استدلال پیش کرنے لگے گا کہ جب خدا نے مجھے اس کام سے نہیں روکا تو معلوم ہوا کہ یہ کام اچھا ہے اور ظاہر ہے کہ دنیا کا کوئی صاحب عقل اس فلسفہ کو تسلیم کرنے لیے نہیں تیار نہیں ہوسکتا، یہ تو سب اٹکل اور تخمین کی باتیں کرتے ہیں، جو خود انہوں نے اپنی طرف سے گھڑ رکھی ہیں کیا ہم نے ان کو کوئی کتاب دے رکھی ہے اس سے پہلے تو وہ اس کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہیں کوئی نوشتہ پیغام یا دلیل عقلی تو کیا ہوتی بلکہ وہ تو یہ کہنے لگتے ہیں بیشک ہم نے پایا ہے اپنے باپ دادوں کو ایک طریقہ پر اور ہم انہی کے نشانات قدم سے راہ پاتے ہیں اور جس طرح یہ منکرین ومشرکین اپنے باپ دادوں کی اتباع کرتے ہوئے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں، اسی طرح یہ ہے کہ جب بھی ہم نے آپ سے پہلے کسی کو رسول بنا کر بھیجا اللہ کے عذاب سے ڈرانے والا کسی بستی میں تو وہاں کے عیش پرستوں نے یہی کیا کہ ہم نے تو پایا ہے اپنے باپ دادوں کو ایک طریقہ پر اور ہم تو بس انہی کے قدموں پر چلتے ہیں ، اللہ کا وہ پیغمبر ہمیشہ ان منکرین کی بات پر بولا تو کیا اگر میں تمہارے پاس اس سے زیادہ ہدایت کی چیز لے آؤں جس پر تم نے اپنے باپ دادوں کو پایا ہے، تو بھی تم میرا انکار کرو گے اور اس بےدلیل اور عقل و فطرت کے خلاف بات کے مقابلہ میں رشد وہدایت کی یہ معقول بات نہیں مانوگے تو انہوں نے بس یہی جواب دیا ہم تو اس چیز کا انکار کرتے ہیں جو تم دے کر بھیجے گئے ہو تو ہم نے اس بات پر ان سے انتقام لیا، اور ظاہر ہے کہ ایسی گستاخیاں کب تک برداشت کی جاسکتی ہیں، سو اے مخاطب تو دیکھ لے کیسا ہوتا ہے انجام اللہ کے رسولوں کو جھٹلانے والوں کا اور مکذبین ومنکرین یعنی قوم عاد وثمود وغیرہ کے واقعات تاریخ عالم ہوچکے ہیں، ان کو ہر شخص اور بالخصوص اہل عرب خوب جانتے ہیں تو ان عبرت ناک واقعات سے بخوبی یہ کفار قریش عبرت حاصل کرسکتے ہیں۔
Top