بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - Az-Zukhruf : 1
حٰمٓۚۛ
حٰمٓ : حا۔ میم
حٰم۔
بیان عظمت وحقانیت کلام ربانی ووعید برروش مجرمین وملحدین : قال اللہ تعالیٰ : حم والکتب المبین ....... الی ....... ان الانسان لکفور مبین : (ربط) گذشتہ “۔ سورة کا اختتامی مضمون وحی الہی کی تحقیق اور نزول وحی کی صورتوں پر تھا، اب اس سورت کی ابتداء وحی الہی اور ربانی کی عظمت اور اوصاف عالیہ کے بیان سے کی جارہی ہے، فرمایا۔ حآ : خدا تعالیٰ ہی اس کی مراد خوب جانتا ہے، قسم ہے اس کتاب کی جو واضح ہے جس کی روشنی اور وضاحت جہل اور گمراہوں کی تاریکی بھی دور بھی دور کرنے والی ہے، جس کتاب کو بنایا ہے، ہم نے قرآن عربی امید ہے کہ اے مخاطبو ! تم اس کے عربی زبان میں ہونے کی وجہ سے سمجھو کہ وہ حق ہے اور اللہ کی طرف سے ایک بلند ہے ہم نے قرآن عربی امید ہے کہ اے مخاطبو ! تم اس کے عربی زبان میں ہونے کی وجہ سے سمجھو کہ وہ حق ہے اور اللہ کی طرف سے ایک جامع کتاب ہدایت ہے اور بیشک یہ قرآن عربی لوح محفوظ میں ہمارے پاس ہمیشہ سے ہے جو نہایت ہی بلند پایہ بڑا ہی مستحکم اور محفوظ حکمتوں سے لبریز ہے ،۔ 1 حاشیہ (مستحکم ومضبوط اور حکمتوں سے لبریز کا لفظ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ لفظ حکیم اس جگہ دونوں معنی پر مشتمل ہے۔ ) کیا پھر تم سے ہم اعراض کرلیں، ذکر ونصیحت کرنے سے اس بنا پر کہ تم حد سے گزر جانے والے ہو، کہ ہم تمہیں نہ نصیحت کریں، اور نہ تمہاری برائیوں پر تنبیہ و وعید نازل کریں نہیں ایسا نہیں ہوگا بلکہ ہم زجر وتنبیہ بھی کریں گے، وعظ ونصیحت بھی کریں گے خواہ تم حد سے تجاوز کرنے والے ہو اور یہ بات تمہاری اے کفار مکہ آج کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ دستور تو پرانے زمانوں سے چلا آرہا ہے، اور ہم نے کتنے ہی رسول بھیجے پہلی قوموں میں وہ اللہ کا پیغام لے کر ان قوموں میں مبعوث ہوتے رہے، اور نہ آتا ان کے پاس کوئی بھی رسول اللہ کے رسولوں میں سے مگر یہ کہ وہ اس کے ساتھ مذاق کرتے، تو کسی کے مذاق و تمسخر سے اللہ رب العزت اپنی ہدایات کے نزول کو نہیں روکتا، پھر ہم نے ہلاک کرڈالا، ان میں سے سخت زور والوں کو بھی، اور چلی آئی ہے یہ مثال اور ایک عبرت ناک تاریخ پہلے لوگوں کی، اللہ رب العزت کے رسولوں کے منکرین ومکذبین کے یہ عبرتناک واقعات حق تعالیٰ کی قدرت والو ہیت اور عظمت کی کھلی نشانیاں ہیں، ان کو دیکھ کر کوئی بھی خدا کی قدرت وخالقیت کا انکار نہیں کرسکتا، اور یہ منکرین بھی اگرچہ اپنی زبانوں سے انکار کرتے ہوں لیکن ان کے دل اقرار کرتے ہیں، چناچہ اگر تم ان سے سوال کرو کہ کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ضرور یہی کہیں گے کہ اس پروردگار نے جو بڑی ہی عزت، زبردست علم والا ہے، کیونکہ ہر مخلوق اپنے خالق کی عظمت بھی بتا رہی ہے، اور اس کے علم و حکمت کی بھی واضح دلیل ہے، وہی ہے پروردگار جس نے اے انسانو ! زمین کو تمہارے واسطے بچھونا بنایا، اور بنائے اس زمین میں تمہارے واسطے راستے تاکہ تم اپنے منافع اور حوائج کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ راستہ پاسکو اور سہولت سے سفر کرسکو اور وہ پروردگار ایسا مہربان ہے جس نے آسمان سے پانی اتارا اندازے کے مطابق کہ جہاں جتنا چاہا برسایا، پھر اس پانی کے ذریعہ شاداب کردیا ایک مردہ جگہ کو جو بےآب وگیاہ بنجر علاقہ تھا پانی نے برس کر اس کو سرسبز و شاداب بنا دیا تو جسطرح مردہ زمین سے سبزہ اور غلہ آگ رہا ہے اور مردہ زمین کی تہوں کے اندر سے نباتات اور سبزے نمودار ہورہے ہیں زمین کی تہہ میں دبے ہوئے تخم اور دانے زمین میں مل جانے اور مٹی مٹی ہوچکنے کے بعد پھر اسی طرح نباتاتوسبزہ کی شکل میں رونما ہورہے ہیں جو پہلے موجود تھی تو اسی طرح اے لوگو ! تم بھی اپنی قبروں سے نکالے جاؤ گے تم زمین میں دفن ہونے کے بعد زمین کے اجزاء کے ساتھ خلط ملط ہوجاؤ ریزہ ریزہ ہوجاؤ، لیکن پھر تمہارا نکلنا اور اٹھنا ہر تخم سے دوبارہ درخت اور سبزہ کے نمودار ہونے کی طرح ہوگا اور وہ پروردگار جس نے جوڑے بنائے ہر چیز کے مثلا نرومادہ نیک وبد، اچھا برا، سیاہ وسفید، خشک وتر، گرم وسرد اور نافع ومضر اور بنا دیا کشتیوں اور چوپایوں کو ایسا کہ تم ان پر سوار ہوتے ہو۔ اور ان پر تم برد بحر کا سفر کرتے ہو اور کشتیوں اور جانوروں کو اس طرح بنایا ہے کہ تم ان کشتیوں اور چوپاؤں کی پشت پر برابر جم کر بیٹھ سکو پھر تم اپنے رب کی نعمت کو یاد کیا کرو جب تم ان پر سوار ہوا کرو اور کہا کرو اپنے پروردگار کی نعمت کا شکر ادا کرتے ہوئے، پاکی ہے اس ذات کی جس نے مسخر وتابع کردیا، ہمارے واسطے اس کو اور ہم تو نہ تھے ایسے کہ اس کو قابو لانے والے ہوتے۔ ظاہر ہے کہ یہ طاقتور حیوان اور وہ تمام مشینیں جو کائنات کی طاقتوں ہوا پانی، اور آگ کی قوتوں سے چلتی ہوں انسان ضعیف کی کیا مجال تھی ان کو اپنے قابو میں لاسکتا، اور اے انسانو ! تم اپنے اس دنیوی مضر کے وقت اصل منزل کی طرف واپسی کا تصور کرتے ہوئے یہ سوچا کرو کہ دنیا کی یہ زندگی بھی ایک سفر ہے اور اس سفر سے اصل حقیقی منزل کی طرف ہی لوٹنا ہے اور کہا کرو۔ 1 حاشیہ (چنانچہ کتاب الا زکار والا رعیہ میں یہ حدیث ہے کہ آنحضرت ﷺ نے سفر شروع کرتے وقت سواری پر سوار ہونے کے بعد یہ کلمات دعائیہ پڑھنے کی ہدایت فرمائی، عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ جب سواری پر سوار ہوتے تو تین بار تکبیر فرماتے اور تین بار سبحان اللہ “۔ فرماتے اور ایک بار ”۔ لاالہ الا اللہ “۔ اور ایک روایت میں ہے کہ ” الا الہ الا اللہ “۔ بھی تین بار فرماتے اور پھر یہ آیت مبارکہ (آیت ) ” سبحان الذی سخرلنا “۔ پڑھتے، اس کے بعد یہ کلمات فرماتے۔ اللہم انی اسئلک فی سفری ھذا من البر والتقوی ومن العمل ما تحب وترضی اللہم ھون علینا السفر واطولنا البعد اللہم انت الصاحب فی السفر والخلیفۃ فی الاھل اللہم اصحبنا فی سفرنا ھذا واخلفنا فی اھلنا “۔ یعنی اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اپنے اس سفر میں نیکی اور تقوی کا اور عمل میں سے ایسے عمل کا جو تجھے پسند ہو اے اللہ ہم پر یہ سفر آسان کر اور اس کے بعد کو تو لپیٹ دے مختصر کردے، اے اللہ تو ہی ساتھی ہے ہمارا سفر میں اور خلیفہ ہے ہمارے اہل میں، اے اللہ تو ہمارا ساتھی رہے ہمارے سفر میں، اور خلیفہ ونگران رہے ہمارے اہل میں، 12) بیشک ہم تم اپنے رب ہی کی طرف یقیناً واپس لوٹنے والے ہیں، یہ دلائل قدرت اور انعامات عظیمہ بلاشبہ اس بات کا موجب تھے کہ لوگ اللہ کی خالقیت اور اس کی وحدانیت کو پہچانتے اور اس پر ایمان لاتے لیکن افسوس بہت سے انسانوں نے اپنی بدنصیبی اور محرومی کا ثبوت دیا اور اللہ کے لیے اس کے بندوں میں سے ہی اولاد کو ٹھہرایا، جیسے نصاری نے حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کو خدا کو بیٹا قرار دیا، جو صریح شرک ہے، اور حق تعالیٰ کی الوہیت ووحدانیت کا انکار ہے، بیشک انسان بڑا ہی کھلم کھلا ناشکرا اور نافرمان ہے بجائے اس کے کہ حق تعالیٰ کی نعمتوں کو پہچان کر اس کا شاکرومطیع ہوتا اس نے نافرمانی اور گستاخی کا طریقہ اختیار کیا کہ اللہ کے واسطے اولاد تجویز کی ، نصاری نے تو ایک بیٹا تجویز کیا تھا مشرکین مکہ نے مزید یہ ظلم کیا کہ بیٹیاں تجویز کرڈالیں، جب کہ خود ان لوگوں کو بیٹیوں سے عار معلوم ہوتا ہے، اولاد چونکہ باپ کے وجود کا ایک جز ہوتا ہے تو خداوند عالم کے لیے تجویز اولاد کو اس عنوان سے تعبیر کیا کہ (آیت ) ” وجعلوا لہ من عبادہ جزء ا “۔ اور ظاہر ہے یہ عقیدہ اس امر کے موجب ہے کہ خداوند عالم کو ایک مرکب شئی تصور کیا گیا، اور مرکب چیز بلاشبہ حادث ہوتی ہے، تو اس طرح تجویز اولاد اس امر کو مستلزم ہوئی کہ خداوند عالم کی خالقیت اور قدرت ہی کا انکار ہے پھر یہ کہ اولاد اور باپ میں یقیناً مشابہت اور مجانست ہوتی ہے، دونوں ایک جنس کے نہ ہوں تو والد ومولود کیونکر ہوسکتے ہیں تو اس طرح خدا کے واسطے امثال اور نظائر بھی گویا تجویز کردیئے، جو اس کی شان صمدیت کے منافی ہے پھر یہ بھی ہے کہ اولاد کا رشتہ عالم کائنات میں ایک طرح کی احتیاج پر مشتمل ہے تو اولاد کی تجویز خداوند عالم کے محتاج ہونے کو ثابت کرنے والی ہے جو کسی طرح بھی ممکن التصور نہیں، تو پھر کیونکر ایسا لغو اور احمقانہ عقیدہ خدا کے لیے اختیار کیا جاتا ہے تو اس سے بڑھ کر انسان کی ناشکری اور نافرمانی کی کیا دلیل ہوسکتی ہے۔
Top