Maarif-ul-Quran - Az-Zukhruf : 57
وَ لَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْیَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ یَصِدُّوْنَ
وَلَمَّا ضُرِبَ : اور جب بیان کیا گیا ابْنُ مَرْيَمَ : مریم کے بیٹے کو مَثَلًا : بطور مثال اِذَا قَوْمُكَ : اچانک تیری قوم مِنْهُ يَصِدُّوْنَ : اس سے تالیاں بجاتی ہے۔ چلاتی ہے
اور جب مریم کے بیٹے (عیسیٰ ) کا حال بیان کیا گیا تو تمہاری قوم کے لوگ اس سے چلا اٹھے
تردید خصومت مشرکین دربارہ توحید و دعوت عیسیٰ بن مریم علیھما السلام : قال اللہ تعالیٰ : (آیت ) ” ولما ضرب ابن مریم مثلا ....... الی ....... ھذا صراط مستقیم “۔ (ربط) سابقہ مضامین انبیاء سابقین کی تعلیم کے بیان پر مشتمل تھے کہ ہر پیغمبر کی دعوت وتعلیم توحید ہی رہی ہے، اور اب نبی آخر الزمان محمد ﷺ رسول اللہ نے بھی اسی توحید کی دعوت دی ہے تو پھر کفار قریش کو اس دعوت پر کیا تامل اور اعتراض ہے اور وہ دعوت توحید جس پر ہر پیغمبر کا اتفاق رہا کیوں نہیں اس کو قبول کرتے، اب ان آیات میں کفار کے ایک معاندانہ اعتراض کا جواب دینا مقصود ہے جس کا منشاء نصاری کا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو معبود بنانا تھا، اس لغو اعتراض کا جواب دینا مقصود ہے جس کا منشاء نصاری کا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو معبود بنانا تھا اس لغو اعتراض کا جواب دیتے ہوئے یہ بیان کیا گیا کہ اللہ کے جس پیغمبر یعنی مسیح ابن مریم (علیہ السلام) کے قصہ کو تم اپنے شرک کی دلیل قرار دے رہے ہو تو خود ان مسیح بن مریم کی تعلیم تو محض توحید تھی ، بعض احادیث میں ہے کہ ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے قریش سے یہ فرمایا تھا، لیس احد یعبد من دون اللہ فیہ خیر ‘۔ یعنی اللہ کے سوا جو بھی معبود ہے اس میں کوئی خیر نہیں تو اس پر بعضوں نے کہا پھر تو اس میں عیسیٰ (علیہ السلام) بھی داخل ہیں کیونکہ ان کو بھی نصاری نے معبود بنایا تھا، اور آپ ﷺ ان کی تعریف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ نبی صالح تھے، تو اس پر یہ آیات نازل ہوئیں، جواب کا حاصل یہ ہوا کہ اس عموم میں عیسیٰ (علیہ السلام) داخل نہیں ہوسکتے، کیونکہ وہ تو شرک کی تردید کرتے تھے، اور توحید کے داعی تھے، اب اگر ان کی مرضی اور دعوت کے خلاف کوئی قوم ان کو معبود بنالے تو یہ ان کی خیریت کے منافی نہیں، خیریت کی نفی اس صورت میں ہوگی، جب کہ اس شرک میں ان معبودوں کی مرضی اور دعوت کو دخل ہو اور نہ کبھی انہوں نے اس شرک سے بیزاری اور نفرت کا اظہار کیا ہو اور نہ ہی روکا ہو، لیکن جس نے نفرت وبیزاری ظاہر کی ہو روکا ہو، تردید کی ہو، اور اس کے برعکس توحید ہی کی دعوت دی ہو تو وہ کیونکر اس میں داخل ہوسکتا ہے، بعض روایات میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جب یہ آیت پڑھی، (آیت ) ” انکم وما تعبدون من دون اللہ حصب جھنم “۔ یعنی اے مشرکو ! تم اور وہ تمہارے معبود جن کی تم عبادت کرتے ہو اللہ کو چھوڑ کر جہنم کا ایندھن ہیں، تو یہ لوگ کہنے لگے، اچھا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی تو نصاری کے معبود تھے، کیونکہ نصاری نے ان کو معبود بنایا تھا، تو پھر بتاؤ تمہارے خیال میں ہمارے معبود اچھے ہیں یاعیسی (علیہ السلام) ؟ ارشاد فرمایا، اور جب کبھی بھی مثال بیان کی جائے مریم کے بیٹے (عیسی (علیہ السلام) کی تو اسی وقت آپ کی قوم اس سے چلانے لگتی ہے۔ اعتراض اور خصومت کرتے ہوئے اور کہنے لگتے ہیں بتائیے کیا ہمارے معبود بہتر ہیں یا وہ اور وہ خود جانتے ہیں کہ ان کا یہ استدلال یا خصومت مہمل اور بےمعنی ہے تو نہیں پیش کرتے ہیں ابن مریم (علیہ السلام) کو آپ کے روبرو مگر محض جھگڑنے کے واسطے، اور یہ بات کوئی وقتی یا عارضی نہیں بلکہ یہ لوگ تو ہیں ہی جھگڑلوان خصومت اور جھگڑا کرنے والے مشرکین کا ابن مریم (علیہ السلام) کو اپنے معبودوں کے درجہ میں قرار دے کر پیش کرنا قطعا غلط اور بیہودہ جھگڑا ہے وہ تو داعی توحید تھے شکر سے قطعا بیزار ومتنفر تھے، وہ تو صرف ایک بندے تھے جن پر ہم نے انعام کیا، اور بنایا تھا ہم نے ان کو ایک مثال بنی اسرائیل کے واسطے کہ بنی اسرائیل کے لیے پیکر ہدایت اور نمونہ توحید تھے، اور سابقہ تاریخ میں بنی اسرائیل نے جو شرک وبت پرستی کی مختلف قسمیں جاری کر رکھی تھیں ان کا رد اور ازالہ کریں ، یہ بات بیشک درست ہے کہ عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) میں بہت سے آثار فرشتوں کے تھے لیکن ان آثار کی وجہ سے ان کو معبود بنالینا کیسے ممکن تھا، حالانکہ فرشتے خود اللہ کی مخلوق ہیں، اور اگر ہم چاہیں تو بنا دیں تم میں سے فرشتے زمین میں جو تمہاری جگہ ہوں اور تمہاری نسل میں سے ہو کر بعد میں زمین پر بسیں جیسا کہ ہر ایک نسل پہلی نسل کے ہوئے اور اس طرح ان کو اللہ نے فرشتوں کا سانمونہ بنادیا جن کے نہ باپ ہیں اور نہ ماں یا ان کو آدم (علیہ السلام) کی طرح پیدا فرمادیا تو نہ آدم (علیہ السلام) خدا اور خدا کے بیٹے ہوئے اور نہ فرشتے معبود ہوسکتے ہیں تو پھر عی سے بن مریم (علیہ السلام) کو نصاری کا معبود بنا لینا کیونکر از روئے عقل صحیح ہوسکتا ہے، اور وہ بیشک ایک نشان ہے قیامت کے واسطے تو اس میں ہرگز کوئی شبہ نہ کرو، اور میری بات مانو یہی ایک سیدھا راستہ ہے، اور ہرگز ایسا نہ ہونا چاہئے کہ شیطان تم کو روکے، اس سیدھے راستے سے وہ تو تمہارا کھلا دشمن ہے۔ غرض یہ کہ حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کی حقیقت تو یہ ہے کہ وہ مریم (علیہ السلام) کے بیٹے اور خدا کے بندے تھے، نہ خدا تھے اور نہ خدا کے بیٹے، اور ان کی تعلیم وہدایت میں سراسر توحید ہی تھی، مگر نصاری نے کس قدر ظلم کیا کہ ان کو معبود بنایا اور توحید کے بجائے شرک کو اختیار کیا ، اور جب آیا عیسیٰ (علیہ السلام) نشانیاں اور دلائل لے کر تو کہا اے میری قوم میں لے کر آیا ہوں تمہارے پاس حکمت کی باتیں اور اس لیے کہ کھول کر بتا دوں میں تم کو بعض وہ باتیں جن میں تم اختلاف کررہے ہو، اور باہم جھگڑ رہے ہو، سو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو، وہ محکم ومضبوط بات جو ہر قسم کی حکمت سے لبریز ہے، یہ ہے کہ بیشک صرف اللہ ہی ہے جو میرا بھی معبود ہے اور تمہارا بھی معبود ہے، بس اسی کی عبادت کرو۔ یہی سیدھا راستہ ہے، بہرکیف یہ تھا پیغام مسیح بن مریم (علیہ السلام) جس میں توحید خداوندی کی دعوت تھی، اور شرک سے نفرت وبیزاری کا اعلان تھا، اس کے باوجود اگر نصاری نے ان کو معبود بنایا تو یہ چیز ان کی فضیلت وخیریت اور عبدیت و بندگی پر کیسے اثرانداز ہوسکتی ہے۔ تفسیر : ” وانہ لعلم للساعۃ “۔ اور مسئلہ نزول عیسیٰ بن مریم علیھما السلام : جمہور مفسرین کے نزدیک ” وانہ “۔ کی ضمیر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف راجع ہے یعنی عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) بیشک ایک علامت ہیں قیامت کے لیے، اور اس سے مراد ان کا آسمان سے نزول فرمانا اور زمین پر آنا ہے تو ان کا یہ آنا منجملہ علامات قیامت کے ایک عظیم نشانی بنایا گیا، ترجمان قرآن حضرت عبداللہ بن عباس ابوہریرہ ؓ ابوالعالیہ ابومالک ؓ عکرمہ ؓ حسن بصری (رح) قتادہ، ضحاک (رح) مجاہد ؓ اور جملہ ائمہ مفسرین کا اسی پر اتفاق ہے کہ (آیت ) ” انہ “۔ کی ضمیر عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف۔ (تفسیر ابن کثیر جلد 4۔ 12) راجع ہے، تفسیر درمنثور میں مجاہد (رح) سے مروی ہے۔ قال : ” ایۃ للساعۃ “ خروج عسیی ابن مریم قبل یوم القیمۃ “۔ فرمایا قیامت کی نشانی حضرت عیسیٰ بن مریم کا قیامت سے پہلے تشریف لانا۔ حافظ ابن کثیر (رح) فرماتے ہیں کہ یہی تفسیر صحیح ہے، ظاہر ہے کہ کسی صحابی سے اس کے خلاف کوئی تفسیر جب منقول نہیں تو ایسی صورت میں حبرامت اور بحرامت ترجمان القرآن ابن عباس ؓ کی تفسیر کے مقابلہ میں کونسی تفسیر قابل قبول ہوسکتی ہے، تفصیل کے لیے تفسیر ابن جریر (25۔ 54) مطبوعہ میریہ تفسیر ابن کثیر (6۔ 146) مطبوعہ میریہ الدرالمنثور (6۔ 20) طبع مصر، عقیدۃ الاسلام فی حیات عیسیٰ (علیہ السلام) (ص 3) ملاحظہ ہو، عقیدۃ الاسلام (ص 5) میں جناب امام العصر حضرت انور شاہ (رح) فرماتے ہیں۔ اذا تواترت الاحادیث بنزولہ وتواترت الاثار وھو والمتبادر من نظم الایۃ فلایجوز تفسیر بغیرہ الخ۔ جب (عیسی (علیہ السلام) کے نزول کی احادیث وآثار متواتر ہیں اور قرآن کریم کی آیت کا واضح مفہوم بھی یہی ہے تو اس کے علاوہ کوئی اور تفسیر صحیح نہ ہوگی،۔ (3) ، (آیت ) ” وان من اھل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ویوم القیمۃ یکون علیھم شھیدا (نساء 159) اور کوئی شخص بھی اہل کتاب میں سے نہ رہے گا، مگر وہ عیسیٰ (علیہ السلام) پر ان کی موت سے قبل ایمان لائے گا ، ” موتہ “۔ کی ضمیر میں نزاع ابن جریر (رح) نے ابن عباس ؓ مجاہد (رح)، عکرمہ (رح)، ابن سیرین (رح)، ضحاک (رح) وغیرہ کی تفسیر کے مطابق اس کی تصحیح وترجیح فرمائی ہے کہ ” موتہ “۔ کی ضمیر راجع ہے عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف اور مقصود یہ ہے کہ نزول (علیہ السلام) کے وقت جتنے اہل کتاب ہوں گے عیسیٰ (علیہ السلام) کی وفات سے پہلے سب ایمان لے آئیں گے اور اسی قول کو ابن جریر (رح) اپنی تفسیر میں “۔ اولی ھذا الاقوال بالصحۃ “۔ قرار دیتے ہیں، ابن کثیر (رح) اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں۔ وھذا القول ھو الحق کما سنبینہ بالدلیل القاطع ان شاء اللہ ..... یہی قول حق ہے جیسا کہ آگے دلیل قطعی کے ساتھ اس کو بیان کریں گے، انشاء اللہ : اور پھر فرماتے ہیں حاصل یہ کہ حق تعالیٰ شانہ نے حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) کی ذات کو ایک خاص نشان بنایا تھا، اور حق تعالیٰ کی قدرت عظیم کے دلائل میں سے بہت بڑی دلیل تھے۔ حاصل یہ ہے کہ ان کا پہلی مرتبہ آنا خاص بنی اسرائیل کے لیے ایک نشان تھا کہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے اور ماں کی گود ہی سے بولنا شروع کیا اور اللہ کی ربوبیت اپنی عبدیت کے قرار اور اعتراف سے بولنے کا آغاز فرمایا اور پھر نبوت و رسالت ملنے کے بعد عجیب و غریب معجزات دکھلائے اور پھر جب دشمنوں نے ان کے قتل کا ارادہ کیا تو اللہ نے ان کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا، تاکہ اپنے باپ آدم (علیہ السلام) کی طرح چند روز آسمان پر رہیں اور زمانہ آئندہ میں قیامت کے قریب آسمان سے زمین پر نازل ہوں اور ان کا یہ دوبارہ آنا قیامت کا نشان ہوگا، چونکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بغیر باپ کے پیدا ہوئے اس اعتبا رسے وہ من وجہ اپنے باپ کی طرح چند روز کے لیے آسمان پر چلے گئے، اور آیات قرآنیہ اور احادیث صریحہ سے حضرت آدم (علیہ السلام) کا آسمان سے زمین پر ہبوط اور نزول قطعی طور پر ثابت ہے ، اسی طرح قیامت کے قریب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا آسمان سے زمین پر نزول وہبوط اپنے باپ آدم (علیہ السلام) کے ہبوط کا نمونہ ہوگا، اور اس طرح آسمان سے ہبوط اور نزول قرب قیامت کی علامت ہوگا ان کے نزول سے لوگ سمجھ لیں گے کہ قیامت بالکل قریب آلگی ہے آیات قرآنیہ سے اور احادیث نبویہ سے تفصیلا یہ امر قطعی طور پر ثابت ہے کہ دجال لعین کے خروج کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) علی نبینا وعلیہ افضل الصلاۃ والسلام آسمان سے نزول فرمائیں گے اور دجال کو قتل فرمائیں گے، اور زمین کو دجال اور اس کے متبعین کی خباثت و فساد اور یہودیوں کی ناپاکیوں اور گندگیوں سے پاک کریں گے، جس طرح عیسیٰ (علیہ السلام) اسی جسد عنصری کے ساتھ آسمان پر گئے ہیں، اسی جسد عنصری کے ساتھ آسمان سے نازل ہوں گے اور یہ مسئلہ اجماعی ہے۔ کسی کا اس میں اختلاف نہیں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول میں ایک بڑی حکمت یہ ہے کہ جب انقراض عالم کی مدت قریب ہوگی تو عیسیٰ (علیہ السلام) چونکہ بنی آدم (علیہ السلام) میں سے ہیں اور بعض اعتبارات سے اپنے باپ آدم (علیہ السلام) کا نمونہ ہیں، اس لیے اول ان کو خدا تعالیٰ نے کفار کے شر سے بچا کر ایک مدت معینہ کے لیے آسمان پر اٹھا لیا، اور چونکہ کوئی انسان آسمان پر فوت نہ ہوگا، بلکہ زمین ہی پر مرے گا۔ لہذا جب عیسیٰ (علیہ السلام) کی اجل مقررہ اور مدت حیات اختتام کو پہنچے گی تو اللہ تعالیٰ ان کو آسمان سے زمین پر نازل کرے گا، تاکہ ان کی موت زمین پر آئے اور جس نبی آخرالزمان ﷺ کی بشارت دینے کے لیے وہ مبعوث ہوئے تھے، جیسا کہ ارشاد ہے۔ (آیت ) ” ومبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد “۔ ان ہی کے قدموں میں دفن ہونے کی سعادت نصیب ہوگی، چناچہ قیامت کے قریب دجال کے قتل کے لیے آنحضرت ﷺ کے قریب مدفون ہوں گے، اور بعض مؤرخین مثلا علامہ سمہودی (رح) کی نقول سے معلوم ہوتا ہے کہ حجرۂ شریفہ میں جو ایک قبر کی جگہ باقی ہے وہ آنحضرت ﷺ کی قبر مبارک سے آگے یعنی آپ ﷺ کے قدمین شریفین سے سمت مشرق میں واقع ہے۔ (دیکھو تفسیر قرطبی ص 105 جلد 16 وزاد المسیر ص 325 جلد، و تفسیر ابن جریر و تفسیر ابن کثیر جلد رابع و درمنثور) ان تمام تفاسیر میں صحابہ وتابعین سے اس آیت کی یہی تفسیر منقول ہے اور اس کے خلاف کسی سے منقول نہیں اور سورة نساء کے اخیر میں (آیت ) ” وان من اھل الکتب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ “۔ کی تفسیر میں نزول عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف حضرت والد صاحب قبلہ (رح) نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ۔ ابن کثیر (رح) نے اسی کو قول حق قرار دیا اور فرمایا کہ دلیل قطعی سے یہی ثابت ہے۔ علاوہ ازیں عیسیٰ (علیہ السلام) احادیث متواترہ سے ثابت ہے جن کی تعداد ایک سو متجاوز ہے۔ ائمہ محدثین نے تو ان احادیث کو بھی متواتر فرمایا ہے جو تیس (30) سے (50) پچاس تک شمار کی گئی ہیں۔ حافظ ابن کثیر (رح) اور شیخ جلال الدین سیوطی (رح) نے احادیث نزول کو اخبار متواترہ سے تعبیر کرتے ہوئے یہ واضح فرمایا کہ یہ تمام احادیث قطعی الثبوت اور قطعی الدلالت ہیں، اس لحاظ سے مسئلہ نزول مسیح (علیہ السلام) دین کے لوازم اور ضروریات میں سے ہوا جس پر ایمان کے بغیر قانون شریعت سے کوئی شخص مسلمان نہیں سمجھا جاسکتا ، فقہ اکبر صفحہ 13 میں امام ابوحنفیہ (رح) کا ارشاد ہے۔ وخروج الدجال ویاجوج وماجوج وطلوع الشمس من مغربھا ونزول عیسیٰ (علیہ السلام) من السماء وسائر علامات القیامۃ علی ماوردت بہ الاخبار الصحیۃ حق کائن واللہ تعالیٰ یھدی من یشآء الی صراط مستقیم “۔ خروج دجال اور خروج یاجوج وماجوج اور آفتاب کا مغرب سے طلوع اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا آسمان سے نزول اور باقی علامات قیامت جن کا احادیث صحیحہ میں ذکر آیا ہے، یہ اور وہ سب حق ہیں اور ضرور ہو کر رہیں گی اور اللہ جس کا چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھاتا ہے۔ امام اعظم (رح) کی اس عبارت میں نزول کے ساتھ من السماء کا لفط صراحۃ اس پر دلالت کرتا ہے کہ عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کا نزول آسمان سے ہوگا، نیز یہ اس بات پر بھی دلالت کرتا ہے کہ وہ اس جسد عنصری کے ساتھ آسمان سے نازل ہو نگے۔ قال الامام البیھقی اخبرنا ابو عبداللہ الحافظ انا ابوبکر بن اسحاق انا احمد بن ابراھیم ثنا ابن کبیر حدثنی اللیث عن یونس عن ابن شھاب عن نافع مولی ابی قتادہ الانصاری قال فی کتاب الاسمآء والصفات “۔ ان ابا ہریرہ قال قال رسول اللہ ﷺ کیف انتم اذا نزل ابن مریم من السمآء فیکم وامامکم منکم (رواہ البیھقی فی کتاب الاسماء والصفات ) امام بیہقی سند صحیح کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تمہاری خوشی کا کیا حال ہوگا جبکہ عیسیٰ (علیہ السلام) بن مریم (علیہ السلام) تمہارے درمیان آسمان سے اتریں گے، اور تمہارا امام خود تم میں سے ہوگا ، امام بیہقی (رح) نے اس حدیث کو اس سند کے ساتھ ذکر فرمایا اور یہ سند صحیح ہے اس کے بعد امام بیہقی (رح) فرماتے ہیں،۔ وقال رواہ البخاری فی الصحیح عن یحی بن یکبر واخرجہ مسلم من وجہ آخر عن یونس وانما اراد نزولہ من السمآء بعد الرفع الیہ (کتاب الاسماء والصفات ص 424 طبع مصر) باب قولہ تعالیٰ عزوجل لعیسی (علیہ السلام) (آیت ) ” انی متوفیک ورافعک الی “۔ الآیہ “۔ کہ اس حدیث کو امام بخاری (رح) اور امام مسلم (رح) نے بھی روایت کیا ہے اور جزایں نیست کہ نزول سے مراد آسمان سے اترنا ہے جیسا کہ رفع سے آسمان پر اٹھایا جانا مراد ہے۔ بخاری اور مسلم کی روایت میں اگرچہ لفظ من السمآء کا موجود نہیں مگر اصل حدیث بخاری اور مسلم میں موجود ہے۔ اس لیے امام بیہقی (رح) نے اس حدیث کو بخاری اور مسلم کی طرف منسوب کیا، اور بتلا دیا کہ حدیث میں صرف نزول من السمآء ہی مراد ہوسکتا ہے، اس کے سوا اور کوئی معنی مراد نہیں ہوسکتے۔ وعن ابن عباس ؓ مرفوعا قال الدجال اول من یتبعہ سبعون الفامن الیھود علیہم السیجان الی قولہ قال ابن عباس ؓ قال رسول اللہ ﷺ فعند ذلک ینزل عیسیٰ بن مریم من السمآء علی جبل افیق اماما ھادیا وحکما عادلا (الحدیث) (کنزالعمال ص 268 ج 7) اور ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ سب سے پہلے جو لوگ دجال کا اتباع کریں گے وہ ستر ہزار یہودی ہوں گے ان کے سروں پر طیلسان ہوں گے۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس وقت جبکہ دجال خروج کریگا تو اس وقت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کوہ افیق پر آسمان سے نازل ہونگے اور وہ اس امت کے حق میں امام اور ہادی اور حاکم منصف ہوں گے۔ یہ ابن عباس ؓ کی مفصل روایت کا ایک ٹکڑا ہے جس میں صراحۃ لفظ آسمان کا موجود ہے اور امام قرطبی (رح) نے اسی حدیث کو اپنی تفسیر میں بروایت ابی ہریرہ ؓ ذکر کیا ہے اس میں بھی من السماء کا لفظ صراحۃ موجود ہے، وذکر الثعلبی والزمخشری وغیرہما من حدیث ابی ہریرہ ؓ ان النبی ﷺ قال ینزل عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) من السمآء علی ثنیۃ من الارض المقدسۃ یقال لھا افیق۔ الی آخرالحدیث تفسیر قرطبی ص 106 ج 16۔ حاصل یہ ہے کہ اس آیت (آیت ) ” وانہ لعلم للساعۃ “۔ میں ” انہ “ کی ضمیر عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کی طرف راجع ہے جو ایک ذات معین کا علم ہے اور قیامت کے قریب ان کے نزول کی خبر دی گئی ہے، اور یہی تمام امت کا اجماعی عقیدہ ہے جیسا کہ عقیدہ طحاویہ اور شرح عقیدہ سفارینیہ میں صراحۃ مذکور ہے، جس طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا اسی جسم عنصری کے ساتھ رفع آسمانی قطعی اور یقینی ہے اسی طرح قیامت کے نزدیک اسی عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کا جن کی ولادت اور نبوت کا قرآن میں ذکر ہے اسی جسم عنصری کے ساتھ آسمان سے نزول بھی قطعی اور یقینی ہے۔ لہذا کسی ملحد اور زندیق کا یہ کہنا کہ مسیح (علیہ السلام) خود نہیں آئیں گے بلکہ ان کا کوئی مثیل اور شبیہ آئے گا، یہ آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ میں صریح تحریف ہے، بیشمار احادیث میں نہایت تفصیل اور صراحت کے ساتھ عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کے نزول کا ذکر ہے اور عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) ایک ذات معین کا علم اور نام ہے جو فلسطین میں پیدا ہوئے تھے، جس سے ذات معین کے علاوہ کوئی دوسرا شخص مراد نہیں ہوسکتا، علم شخصی کو بلاوجہ نکرہ بنانا قطعا جائز نہیں، نبی اکرم ﷺ نے آنے والے مسیح (علیہ السلام) کی تعیین وتشخیص میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا، یہاں تک کہ ان کے اترنے کا مقام بھی متعین کردیا کہ وہ دمشق ہے، جسے سارا عالم جانتا ہے مگر مرزا کہتا ہے کہ اس سے قادیان مراد ہے۔ نیز احادیث نبویہ اوراقوال صحابہ وتابعین سے بھی ثابت نہیں کہ وہ کسی خطہ زمین میں پیدا ہوں گے یا کوئی اور شخص حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کے ہم صورت یا ہم صفت ہندوستان کے کسی خطہ میں پیدا ہوگا، اور انگریزوں کا باج گزار ہوگا اور وہ ” مثل مسیح “۔ گھسیٹی کے پیٹ سے پیدا ہوگا، اور انگریزوں کی کچہریوں میں گھسٹتا پھرے گا ، اشکال : مزار کہتا ہے کہ لفظ نزول جو بحق مسیح آیا ہے اس سے آسمان سے اترنا مراد نہیں بلکہ پیدا ہونا مراد ہے۔ جواب : یہ بالکل غلط ہے نزول کے معنی لغت میں پیدائش کے نہیں نیز حدیث نزول میں یہ بھی وارد ہوا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) دو رنگین کپڑے پہنے دو فرشتوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے دمشق کے جامع مسجد کے منارۂ شرقیہ پر اتریں گے، سو اگر بقول مرزا نزول کے معنی پیدائش کے ہوں تو حدیث کا مطلب یہ ہوگا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) دو رنگین کپڑے پہنے ہوئے دو فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے دمشق کے منارۂ شرقی پر پیدا ہوں گے اور ظاہر ہے کہ یہ معنی بالکل مہمل ہیں اور سراسر غلط ہیں، اور اگر بفرض محال یہ مان لیا جائے کہ مسیح بن مریم (علیہ السلام) تو وفات پاگئے، اب ان کی جگہ دوسرا مسیح پیدا ہوگا، تو اس دوسرے شخص پر لازم ہے کہ وہ اپنے مسیح ہونے کی دلیل پیش کرے اور بتلائے کہ وہ کس دلیل کی بنا پر اپنے کو مسیح کہتا ہے مجض حضرت عسی بن مریم (علیہ السلام) کی وفات سے تو کسی کا مسیح ہونا ثابت نہیں ہوسکتا، محض کسی نبی کی موت سے کسی زندہ کی نبوت ثابت نہیں ہوسکتی، جب تک کہ وہ زندہ اپنی نبوت کی دلیل نہ پیش کرے مثلا اگر کوئی شخص یہ دعوی کرتا ہے کہ میں ہندوستان کا ” شاہ جہان “ یا ” عالمگیر “ ہوں اور دلیل یہ بیان کرتا ہو کہ شاہ جہان اور عالمگیر مرچکے ہیں تو محض شاہ جہان اور عالمگیر کی وفات سے تو اس کی بادشاہت ثابت نہیں ہوسکتی اور اگر یہ کہے کہ میں ان کا مثل اور شبیہ ہوں تو سوال یہ ہوگا کہ کس چیز میں آپ شاہجہان اور عالمگیر کے مشابہ ہیں۔ مرزائے قادیان نہ ذات میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے مشابہ ہے۔ اور نہ صفات میں، دعوی ہی دعوی ہے کہ میں تمثیل مسیح ہوں یا انکا ظل اور بروز ہوں جس پر دلیل کوئی نہیں، اور اگر محض لفظ ظل اور لفظ بروز بڑھا دینے سے نبوت اور رسالت اور مسیحت کا دعوی جائز ہے تو پھر اس طرح تو دعوی الوہیت بھی جائز ہونا چاہئے کہ کوئی یہ کہے کہ میں خدائے تعالیٰ کا ظل اور بروز ہوں اور اس کی صفات کا مظہر ہوں۔ اطلاع : یہ تمام تفصیل والد محترم حضرت مولانا محمد ادریس صاحب قدس اللہ سرہ کی کتاب القول المحکم فی نزول عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) “ اور اس موضوع پر دیگر تالیفات ومضامین سے ماخوذ ہے حق تعالیٰ والد مرحوم کے علوم سے امت کو ہمیشہ مستفیض فرماتا رہے اور ان کے درجات بلند فرمائے، امین۔
Top