بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - Al-Fath : 1
اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًاۙ
اِنَّا فَتَحْنَا : بیشک ہم نے فتح دی لَكَ : آپ کو فَتْحًا : فتح مُّبِيْنًا : کھلی
(اے محمد) ﷺ ہم نے تم کو فتح دی فتح بھی صریح و صاف
پیغام تہنیت برائے سید المرسلین ﷺ بفتح مبین واعلان اتمام نعمت رب العالمین : قال اللہ تعالیٰ : (آیت ) ” انا فتحنالک فتحا مبینا ..... الی ...... نصرا عزیزا “۔ (ربط) جیسا کہ گذشتہ سطور میں عرض کیا کہ سورة محمد ﷺ یا سورة قتال کا موضوع اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے جہاد فی سبیل اللہ تھا اور یہ کہ اہل ایمان کو منافقین کی سازشوں سے نہ پریشان ہونا چاہیے اور نہ ہی اپنے مادی وسائل کی قلت سے ڈرنا چاہئے، اللہ رب العزت ہر چیز پر قادر ہے، قوی کو ضعیف اور ضعیف کو قوی کرسکتا ہے غالب کو مغلوب ومفتوح اور مظلوم وبے سہارا قوم کو فتح ونصرت سے ہم کنار کرسکتا ہے تو اس سورة پاک میں مسلمانوں کو فتح مبین کی بشارت سنائی جارہی ہے، فرمایا بیشک ہم نے فیصلہ کردیا ہے آپ کے واسطے فتح مبین کا جو کہ صلح حدیبیہ ہے جس سے ظاہری اور باطنی فتوحات اور دینی ودنیاوی نعمتوں کا دروازہ کھول دیا گیا یہ۔ 1 حاشیہ : (جمہور علماء کا قول یہی ہے جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا۔ احمد بن حنبل (رح)، ابن سعد (رح)، ابوداؤد (رح)، نے یہی بیان کیا اور اس روایت کی ابن المنذر (رح)، ابن مردویہ (رح)، نے تصحیح کی، بیہقی نے دلائل النبوۃ میں مجمع بن جاریۃ الانصاری ؓ سے روایت کی ہے کہ قال شھدنا مع رسول اللہ ﷺ الحدیبیۃ فلما انصرفنا عنھا الی کو اع الغمیم فاذا رسول اللہ ﷺ عند کو اع الغمیم فاجتمع الناس الیہ فقرء علیہم (آیت ) ” انا فتحنالک فتحا مبینا۔ الخ۔ 12) یہ صلح حدیبیہ جن رحمتوں نعمتوں اور کرامات کا آغاز ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ درگزر کرے آپ کے واسطے اللہ تعالیٰ آپ کی وہ تمام تقصیرات جو پہلے گذریں اور وہ جو بعد میں گذریں اس لئے اب آپ ﷺ کی کسی بھی ایسی تقصیر پر جو قبل از نبوت ہوئی یا بعد از نبوت جو بمقتضائے بشریت قبل از وحی پیغمبر سے ممکن ہے آپ ﷺ سے نہ کوئی مؤاخذہ ہوگا اور نہ سوال و عتاب اور نہ ہی ان باتوں پر کوئی گرفت ہوگی جو آپ ﷺ کے مقام عالی اور آپ کی آرزو سے کم تر ہوں کیونکہ آپ ﷺ کی تو آرزو ہر لمحہ یہی تھی کہ درجات زیادہ سے زیادہ بلند تر ہوں اور اللہ کا دین زائد سے زائد غالب اور بلند ہو اور صرف تقصیرات سے درگزر ہی نہیں بلکہ پورا کردے آپ ﷺ پر اپنا انعام ظاہری وباطنی اور مادی وروحانی انعامات میں جو اب تک آپ ﷺ پر ہوچکے ہیں اور چلائے آپ کو سیدھی راہ پر کہ ہمیشہ ہدایت اور استقامت کی سیدھی راہ پر آپ ﷺ معرفت وشہود کے غیر محدود مراتب طے کرتے رہیں اور ابدان وقلوب پر اسلام کی حکومت قائم کرنے کی راہ میں آپ ﷺ کے واسطے کوئی رکاوٹ حائل نہ ہوسکے گی۔ 1 حاشیہ (فوائد شیخ الاسلام حضرت علامہ عثمانی (رح) اور مدد کرے اللہ آپ کی نہایت ہی مضبوط مدد، جس کو دنیا کی کوئی طاقت روک نہ سکے، اور جب وہ مدد وظفر و کامیابی آپ کے قدموں کے ساتھ ہوگی تو لوگ دین الہی میں فوج در فوج داخل ہونے لگیں گے تو اس وقت آپ ﷺ کا بس یہی وظیفہ ہوگا کہ اپنے رب کی تسبیح وتحمید اور استغفار ہی میں منہمک ہوجائیں گے تو یہ بات اس وعدہ کی تکمیل اور تتمیم ہوجائے گی جو اس وقت فرمایا جارہا ہے (لیغفرلک اللہ الخ) فتح مبین اور انعامات خداوندی : ان آیات میں فتح مبین کی بشارت سناتے ہوئے چار خصوصی انعامات کا بیان فرمایا (1) اول مغفرت۔ (2) دوم اتمام نعمت۔ (3) سوم ہدایت صراط مستقیم۔ (4) چہارم نصر عزیز۔ مغفرت ذنوب سے کنایہ ہے کہ آپ ﷺ سے کسی قسم کا کوئی مواخذہ نہ ہوگا کیونکہ آپ ﷺ سید البشر ہیں اور اولین وآخرین انبیاء کے سردار ہیں یہ کرامت وفضیلت ایسی ہے۔ کہ کسی کو عطا نہیں کی گئی جس کا خاص طور پر ظہور قیامت کے روز شفاعت عظمے کی صورت میں ہوگا جب کہ تمام پیغمبر نفسی نفسی کہتے ہوں گے اور ہر پیغمبر کو کسی نہ کسی امر پر مؤاخذہ کا اندیشہ ہوگا اگرچہ وہ تقصیر نہ تو گناہ ہوگی اور نہ کسی خلاف امر خداوندی کا ارتکاب ہوگا بلکہ یا تو وہ بات بغیر کسی وحی خداوندی یا قبل از وحی منشاء خداوندی سے کچھ مختلف واقعی ہوگی کیونکہ انبیاء (علیہم السلام) معصوم ہوتے ہیں اور عصمت کے منافی یہ امر ہے کہ صریح حکم خداوندی کے خلاف دیدہ و دانستہ کسی امر کا واقع ہونا، سو ظاہر ہے کہ یہ کسی بھی پیغمبر سے نہیں ہوا چہ جائیکہ سرور کائنات جناب رسول اللہ ﷺ سے ! تو ارحم الراحمین نے ختم النبیین کو (آیت ) ” لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تاخر “۔ کی بشارت عظمی سنا کر ہر قسم کے مؤاخذہ سے مطمئن کردیا۔ 2 حاشیہ (روح المعانی جلد 26۔ ) حدیث شفاعت میں ہے کہ جب اہل محشر روز حشر کی شدت سے گھبرا کر اول حضرت آدم (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے کہ وہ خدا کے خلیفہ اور پہلے رسول اور نبی ہیں اور ہمارے باپ ہیں تاکہ وہ ہمارے لئے شفاعت کریں تو حضرت آدم (علیہ السلام) اپنی اس لغزش کی بناء پر جو بھولے سے سرزد ہوگئی تھی معذرت کریں گے اور فرمائیں گے ” لست لھا “۔ میں اس مقام اور مرتبہ کے لائق نہیں۔ بالآخر جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی خدمت میں یہ درخواست لے کر جائیں گے تو عیسیٰ (علیہ السلام) اول تو یہی عذر کریں گے ” لست لھا “۔ کہ میں بھی مقام شفاعت میں کھڑے ہونے کا اہل نہیں اور بعد ازاں اہل محشر کو یہ مشورہ دیں گے۔ ولکن ایتوا محمد ا ﷺ عبدا غفر اللہ لہ ماتقدم من ذنبہ وما تاخر (صحیح بخاری ص 1108) لیکن تم سب محمد رسول اللہ ﷺ کے پاس جاؤ وہ اللہ کے ایسے بندے ہیں جن کی اگلی اور پچھلی تمام تقصیرات کو اللہ نے معاف کردیا ہے۔ باب قول اللہ (آیت ) ” وجوہ یومئذ ناضرۃ الی ربھا ناظرۃ (صحیح بخاری ص 243) باب قول اللہ عزوجل (آیت ) ” وعلم ادم الاسمآء کلھا “۔ از کتاب التفسیر “۔ یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کو یہ خطرہ نہیں کہ ان سے کسی تقصیر پر کوئی سوال اور مؤاخذہ ہو اللہ تعالیٰ نے (آیت ) ” لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تاخر “۔ کی بشارت دے کر اس خطرہ اور اندیشہ سے مامون اور مطمئن کردیا ہے لہذا تم انکی خدمت میں حاضر ہو کر شفاعت کی درخواست کرو اور ایک روایت میں یہ الفاظ آتے ہیں۔ فیاتون محمد ا ﷺ فیقولون یا محمد انت رسول اللہ وخاتم الانبیاء وقد غفر اللہ لک ما تقدم من ذنبک وما تاخر اشفع لنا الی ربک الاتری مانحن فیہ۔ (صحیح بخاری تفسیر سورة اسراء ) پس اہل محشر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کریں گے کہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور خاتم الانبیاء ہیں اور اللہ نے آپ ﷺ کی اگلی اور پچھلی کوتاہیوں کو معاف کردیا اس لیے آپ ہمارے رب سے ہمارے لئے شفاعت کیجئے کیا آپ ہماری اس مصیبت و پریشانی کو نہیں دیکھ رہے جس میں ہم مبتلا ہیں۔ سورة محمد کی تفسیر جیسا کہ گذر چکا ذنب سے اس آیت مبارکہ میں وہ سہو ونسیان مراد ہوسکتا ہے جو بمقتضائے بشریت آپ ﷺ سے کسی وقت مدت العمر ظہور میں آیا ہو مقصد آیت یہ ہے کہ آپ ﷺ ہمارے محبوب ہیں آپ ﷺ کو تسلی اور بشارت دی جاتی ہے کہ آپ ﷺ کی ہر بات سے درگزر کیا گیا اور کسی بھی امر پر آپ سے سوال ومؤاخذہ نہ ہوگا یہ (1) پہلا انعام ہوا۔ (2) دوسرا نعام، اتمام نعمت، کہ عفو تقصیر پر در گذر ہی پر اکتفاء نہ کیا جائے گا بلکہ اس نعمت وبشارت کے بعد اور جس قد ر بھی نعمتیں ہیں انکی بھی تکمیل وتتمیم فرما دی جائے گی اور ان نعمتوں میں سب سے بڑی اور عظیم تر نعمت یہ ہوگی کہ آپ ﷺ کا دین کامل اور تمام ادیان پر غالب کردیا جائے گا۔ (3) انعام، ہدایت صراط مستقیم یعنی آپ ﷺ کا دین اور شریعت ایسا سیدھا واضح اور ہموار راستہ ہوگا کہ اس پر چلنے میں نہ کسی کو رکاوٹ ہوگی نہ کوئی ابہام وخفا باقی رہے گا جس طرح کہ سورج کی روشنی میں سیدھے راہ پر چلنے والا مسافر بلاروک ٹوک سہولت کے ساتھ اپنا سفر طے کررہا ہو۔ (4) چوتھا انعام۔ نصر عزیز، کہ ایسی کامیابی اور غلبہ، جو نہایت مضبوط ومستحکم ہو جو کسی کی مخالفت ومقابلہ اور بغاوت سے متاثر نہ ہوسکے اور اسلام کے واسطے اس طرح راستہ کشادہ ہوجائیگا کہ بلاکسی روک ٹوک کے لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے لگیں گے اور جب فتح ونصرت اور غلبہ دین اور اشاعت وقبولیت اسلام کا یہ منظر آپ ﷺ کے سامنے آجائے تو سمجھ لینا کہ آپ ﷺ کی بعثت کا مقصد پورا ہوگیا اور اللہ تعالیٰ نے جس غرض کے واسطے دنیا میں آپ ﷺ کو مبعوث فرمایا تھا وہ غرض پوری ہوگئی تو بس مخلوق سے فارغ ویکسو ہو کر صرف اپنے خالق کی طرف رجوع کرنا اور اسی کی تسبیح وتحمید میں مصروف ہوجانا جس کو سورة نصر میں فرمایا (آیت ) ” اذا جآء نصر اللہ والفتح ورایت الناس یدخلون فی دین اللہ افواجا فسبح بحمد ربک واستغرہ انہ کان توابا “۔ اور دار دنیا سے روانہ ہو کر دارآخرت میں قدم رکھو تو رنجیدہ وپریشان نہ ہونا کیونکہ ہم نے آپ ﷺ کی ہر بات سے درگزر کرلیا ہے۔ اور جو فتح مبین اور نصر عزیز آپ ﷺ کو عطا کی گئی اسکی تکمیل اور باقی ماندہ رفعت وبلندی کے مراتب آپ ﷺ کے وصال کے بعد آپ ﷺ کے جانشینوں کے ہاتھوں پورے ہوجائیں گے چناچہ ایران اور شام کی سرزمین آپ ﷺ کے خلفاء نے فتح کی اور قیصر وکسرے کے خزائن تقسیم کئے گئے یہ تھی اتمام نعمت جس کی خبر ان کلمات میں دے دی گئی تھی (آیت ) ” ویتم نعمتہ علیک “۔ اور یہی نصر عزیز کی تکمیل تھی جس کو (آیت ) ” وینصرک اللہ نصرا عزیزا “۔ میں فرمایا گیا۔ الغرض یہی حدیبیہ کی صلح فتح خیبر کا سبب بنی، دو سال بعد مکہ فتح ہوگیا حنین وطائف بھی فتح ہوگئے جس کے بعد کل حجاز، نجد اور یمن کے علاقوں میں اسلام کی حکومت قائم ہوگئی فتح روم وفارس سے ظاہری اور باطنی نعمتوں اور خیر کے دروازے کھل گئے۔ تاریخی روایات سے ثابت ہے کہ معاہدہ حدیبیہ سے فارغ ہو کر آنحضرت ﷺ نے شاہان عالم کے نام دعوت اسلام کے خطوت روانہ فرمائے اور قیصر و کسری اور مقوقس شاہ مصر وغیرہ کی طرف خطوط دیکر قاصد روانہ کیے اور اس صلح کی وجہ سے مشرکین کا مسلمانوں کے ساتھ اختلاط شروع اور کافروں کے دلوں میں جو قفل پڑے ہوئے تھے وہ کھلنا شروع ہوئے اور اسلام کی باتیں کافروں کے کانوں اور دلوں میں داخل ہونے لگیں نتیجہ یہ ہوا کہ تھوڑی سی ہی مدت میں بیشمار لوگ اسلام میں داخل ہوگئے اور جو لوگ بیس سال سے اسلام کے دشمن خونخوار بنے ہوئے تھے اب وہ اسلام کے عاشق جانثار بن گئے۔ قریش نے اسلام کی رفتار اور گفتار اور اسکے کردار سے اندرونی طور پر یہ سمجھ لیا کہ اب اسلام دبنے والا نہیں اور جو لشکر حضور پر نور ﷺ کے ساتھ ہے وہ کوئی بادشاہی فوج نہیں بلکہ وہ عاشقوں اور جانبازوں اور پروانوں کا کوئی لشکر ہے جن کے عشق کا یہ عالم ہے کہ حضور پر نور ﷺ کے وضو کا پانی زمین پر نہیں گرتا بلکہ صحابہ کے ہاتھوں پر گرتا ہے جس کو وہ اپنے منہ پر مل لیتے ہیں اور جب حضور پرنور ﷺ بولتے ہیں تو سناٹے کا یہ عالم ہوتا ہے کہ گویا ان کے سر پر پرندے بیٹھے ہیں قریش نے یہ منظر دیکھ کر سمجھ لیا کہ یہ شخص کوئی بادشاہ نہیں بلکہ خدا کا کوئی برگزیدہ بندہ ہے جس پر محبوبیت ختم ہے اور یہ مسلمان جو آپ ﷺ کے گرد جمع ہیں ان پر عاشقیت ختم ہے ان دیوانوں اور پروانوں سے جنگ کرنا آسان نہیں اس لئے صلح پر آمادہ ہوگئے بیس سال سے جو عداوت کا نشہ سر پر چڑھا ہوا تھا وہ ڈھیلا ہوگیا اور آج کل کی اصطلاح میں صلح کے معنی ہتھیار ڈال دینے کے ہیں قریش ظاہر میں بڑائی کی باتیں کرتے تھے مگر دل سے خوفزدہ تھے اور آنحضرت ﷺ دل سے مطمئن تھے اور قریش کی ہر شرط کو منظور کرتے جاتے تھے اس لئے کہ آپ ﷺ جانتے تھے کہ سب چند روزہ قصہ ہے۔ 1 حاشیہ (ازافادات حضرت والد محترم سید المحدثین والمفسرین حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی (رح)
Top