Maarif-ul-Quran - Al-Maaida : 103
مَا جَعَلَ اللّٰهُ مِنْۢ بَحِیْرَةٍ وَّ لَا سَآئِبَةٍ وَّ لَا وَصِیْلَةٍ وَّ لَا حَامٍ١ۙ وَّ لٰكِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ١ؕ وَ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ
مَا جَعَلَ : نہیں بنایا اللّٰهُ : اللہ مِنْۢ بَحِيْرَةٍ : بحیرہ وَّلَا : اور نہ سَآئِبَةٍ : سائبہ وَّلَا : اور نہ وَصِيْلَةٍ : وصیلہ وَّلَا حَامٍ : اور نہ حام وَّلٰكِنَّ : اور لیکن الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا يَفْتَرُوْنَ : وہ بہتان باندھتے ہیں عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر الْكَذِبَ : جھوٹے وَاَكْثَرُهُمْ : اور ان کے اکثر لَا يَعْقِلُوْنَ : نہیں رکھتے عقل
خدا نے نہ تو بحیرہ کچھ چیز بنایا اور نہ سائبہ اور نہ وصیلہ اور نہ حام بلکہ کافر خدا پر جھوٹ افتراء کرتے ہیں۔ اور یہ اکثر عقل نہیں رکھتے۔
حکم نوز دہم ابطال بعض رسوم شرکیہ واقوال کفریہ۔ قال اللہ تعالی، ماجعل اللہ من بحیرۃ۔۔۔ الی۔۔۔ یھتدون۔ ربط) ۔ شروع پارہ میں نذر اور قسم کے ذریعہ حلال اور طیب کو اپنے اوپر حرام کرنے کی ممانعت فرمائی اور گزشتہ رکوع میں لایعنی سوالات کی ممانعت فرمائی کہ مبادا لوگوں کے سوال کی وجہ سے کوئی چیز حرام نہ کردی جائے ان آیات میں رسول جاہلیت کا ابطال فرماتے ہیں اور اہل جاہلیت کی گمراہی کو بیان کرتے ہیں کہ ان جاہلوں مشرکوں نے بغیر حکم خداوندی اپنی طرف سے بہت سی چیزیں اپنے اوپر حرام کرلیں اور پھر ان کی دلیری دیکھو کہ ان کو اللہ کی طرف منسوب کردیا یہ محض افتراء ہے اور ان بےعقلوں کی جہالت اس درجہ تک پہنچ چکی ہے کہ جب ان سے یہ کہا جاتا ہے کہ اللہ کے احکام پر چلو تو جواب میں یہ کہتے ہیں کہ ہم تو اپنے باپ دادا کے طریقہ پر چلیں گے چناچہ فرماتے ہیں اللہ نے نہ تو بحیرہ مشروع کیا نہ سائبہ اور نہ وصیلہ اور نہ حام لیکن کافر لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں کہ یہ رسول اللہ کی مقرر کردہ ہیں اور اللہ ان سے خوش ہوتا ہے اور ان میں کے اکثر بےعقل ہیں بحیرہ اور سائبہ اور وصلیہ اور حام یہ سب زمانہ جاہلیت کی رسوم ہیں مشرکین عرب میں یہ دستور تھا کہ اگر اونٹنی پانچ بچے جنتی اور اس کا پانچواں بچہ نر ہوتا تو اس کے کان چیز کر اس کو بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے نہ اس سے سواری لیتے اور نہ اس کو ذبح کرتے اور نہ اس پر بوجھ لادتے اور نہ اس کو کسی پانی اور چراگاہ سے روکتے وہ جہاں چاہے چرتا پھرے اور اس اونٹنی کو وہ لوگ بحیرہ کہتے تھے اور اگر کوئی سفر میں جاتا یا بیمار ہوتا تو یہ کہتا کہ اگر میں اپنے سفر سے واپس آیا یا میں نے اپنی اس بیماری سے شفاپائی تو میری یہ اونٹنی سائبہ ہے یعنی آزاد ہے جہاں چاہے پھرے اب یہ اونٹنی سواری اور باردبرداری کی مشقت سے آزاد ہے تو وہ اونٹنی سائبہ آزاد ہوجاتی اور اس کا حکم وہی ہوتا جو بحیرہ کا حکم تھا، اس زمانہ کا سائبہ ایسا ہے جیسا کہ اس زمانہ میں ۃ ندو لوگ سانڈ چھوڑ دیتے ہیں اور وصیلہ وہ بکری ہے جو مادہ جننے کے بعد پھر دوبارہ مادہ جنے اور درمیان میں نر بچہ پیدا نہ ہو اس کو بھی بتوں کے نام چھوڑ دیتے تھے اور بعض علماء کا قول یہ ہے کہ وصیلہ اس بکری کو کہتے ہیں جو اپنی ماں کے ساتویں بطن سے اپنے بھائی کے ساتھ پیدا ہو تو ایسی بکری کو ذبح نہ کرتے تھے اور حام اس شترنر کو کہتے ہیں جس کی جفتی سے دس بچے پیدا ہوچکے ہوں ایسے اونٹ کو بھی اہل عرب سواری وغیرہ کی خدمت سے آزد کردیتے تھے اور بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے تھے گویا کہ اس نے اپنی پشت کی حمایت اور حفاظت کرلی اس لیے اس کو حام یعنی حامی کہتے تھے یہ بد رسمیں مشرکین عرب میں مدتوں سے چلی آتی تھیں اور انکی نسبت ان کا یہ اعتقاد تھا کہ اللہ تعالیٰ ان رسموں کو مشروع کیا ہے اللہ نے فرمایا کہ یہ سب جھوٹ اور افتراء ہے اللہ نے ان رسموں کو ہرگرز مشروع نہیں کیا ان کے بڑوں نے اللہ پر بہتان باندھا اور عوام کالانعام نے اسے قبول کرلیا۔ الغرض ان آیات میں اس بات کی تنبیہ کردی گئی کہ جس طرح فضول اور لایعنی سوالات کرکے احکام شرعیہ میں تنگی اور سختی کا سبب بننا جرم ہے اس سے کہیں بڑھ کر یہ جرم ہے کہ اپنی رائے سے حلال و حرام تجویز کرے اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جہالت کو چھوڑ دو اور اس کی طرف آؤ جو اللہ نے اتارا ہے اور رسول کی طرف آؤ اور اس کی اطاعت کرو تو جواب میں یہ کہتے کہ ہم کو وہی دین کافی ہے جس پر ہم نے اپنے بڑوں اور بزرگوں کو پایا ہے یعنی ہم اپنے بزرگوں کو چھوڑ کر ان کے آباء و اجداد نہ کچھ علم رکھتے ہوں اور نہ ہدایت پر ہوں مطلب یہ کہ تقلید اور پیروی ایسے شخص کی کرنی چاہیے جو علم اور ہدایت پر ہو اور تمہارے آباء و اجداد تو جاہل اور گمراہ تھے انہیں حق اور باطل کی تمیزہ تھی ان کے پیچھے کیوں چلتے ہو۔
Top