Maarif-ul-Quran - Al-Maaida : 109
یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ مَا ذَاۤ اُجِبْتُمْ١ؕ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ
يَوْمَ : دن يَجْمَعُ : جمع کرے گا اللّٰهُ : اللہ الرُّسُلَ : رسول (جمع) فَيَقُوْلُ : پھر کہے گا مَاذَآ : کیا اُجِبْتُمْ : تمہیں جواب ملا قَالُوْا : وہ کہیں گے لَا عِلْمَ : نہیں خبر لَنَا : ہمیں اِنَّكَ : بیشک تو اَنْتَ : تو عَلَّامُ : جاننے والا الْغُيُوْبِ : چھپی باتیں
(وہ دن یاد رکھنے کے لائق ہے) جس دن خدا پیغمبروں کو جمع کرے گا اور ان سے پوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب ملا تھا ؟ وہ عرض کریں گے کہ ہمیں کچھ معلوم نہیں۔ تو ہی غیب کی باتوں سے واقف ہے۔
خاتمہ احکام سورت برتذکیر آخرت وذکر انعامات و احسانات۔ خداوند انام برعیسی (علیہ الصلوۃ والسلام) برائے اثبات عبدیت و اثبات ورسالت۔ قال اللہ تعالیٰ یوم یجمع اللہ الرسل۔۔۔ الی۔۔۔ سحرمبین۔ ربط) ۔ قرآن مجید میں اللہ کی یہ عادت ہے کہ شرائع اور احکام بیان کرنے کے بعد یا تو اپنی ذات وصفات یا انبیاء کرام کے احوال یا قیامت کے احوال بیان فرماتے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال اور آخرت کا تذکرہ اور استحضار امتثال احکام میں ممد اور معاون ہو اس لیے ختم سورت پر قیامت کا حال ذکر فرمایا کہ اس دین تمام انبیاء مجتمع ہوں گے اور ان کی قوموں اور امتوں کی زجر اور توبیخ کے لیے انہی کے سامنے علی روس الاشہاد سوال و جواب ہوں گے تاکہ امتیں سن لیں اور ڈرجائیں جیسا کہ قرآن مجید میں ہے واذا المودۃ سئلت بای ذنب قتلت۔ جو لڑکی زندہ گاڑی گئی تھی اس سے سوال ہوگا کہ کس گناہ پر ماری گئی تو سوال تو موودہ سے ہوگا مگر اس سوال سے مقصود وائد (یعنی گاڑنے والے) کی توبیخ اور سرزنش ہوگی اس طرح قیامت کے دن جو انبیاء کرام سے سوال ہوگا تو اس سے مقصود امتوں اور قوموں کی توبیخ اور سرزنش ہوگی اللہ جل شانہ نے ان آیات میں بالاجمال تمام انبیاء سے سوال کا ذکر فرمایا اور اس کے بعد خاص طور پر عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر فرمایا جن کو عیسائیوں نے خدا ٹھہرا رکھا ہے کیونکہ اوپر سے سلسلہ کلام اہل کتاب کے غلو اور افراط اور تفریط کے متعلق چلا آرہا ہے اس لیے اللہ نے ان آیات میں عیسیٰ (علیہ السلام) پر اپنے انعامات اور احسانات کا ذکر فرمایا، اس تذکرہ سے اصلی مقصود تو نصاری کے عقائد کی تردید ہے جو انہیں خدا اور خدا کا بیٹا سمجھتے ہیں اس لیے کہ دوسری امتوں کا کفر انبیاء کرام کی ذات تک محدود تھا اور نصاری کا کفر حق نبوت سے تجاوز کرکے خدا تعالیٰ کی حد تک پہنچ چکا تھا اس لیے کہ خداوندقدوس کے لیے بیٹا تجویز کرنا بارگاہ خداوندی میں ایسی عظیم گستاخی ہے کہ جس سے آسمان و زمین کے پھٹ جانے کا اندیشہ ہے اس لیے ان آیات میں اصل مقصود تو نصاری کی تردید ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہود کی بھی تردید ہے کہ جو حضرت عیسیٰ کی نبوت و رسالت کے منکر ہیں اللہ نے ان آیات میں حضرت عیسیٰ پر اپنے انعامات و احسانات کا ذکر فرمایا جس سے ایک طرف تو ان کا بندہ اور محتاج خدا ہونا ثابت لیے کہ انعام و احسان اور تائید روح القدس اور حفاظت جبرائیلی اور نزول مائدہ کی ضرورت بندہ کو ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کو اور دوسری طرف ان کا برگزیدہ خدا ہونا ظاہر ہوگیا اس طرح سے یہود اور نصاری کے غلو اور افراط اور تفریط دونوں کی تردید ہوگئی اور اسکا تذکرہ اور حکایت سے مقصود یہ ہے کہ یہ سن کر نصاری اور یہود دونوں اپنے اپنے کفر اور عناد سے باز آجائیں چناچہ فرماتے ہیں یاد کرو اس ہولناک دن کو جس دن اللہ کافروں کے الزام کے لیے رسولوں کو جمع کرے گا پھر ان رسولوں سے پوچھے گا کہ تم کو تمہاری امتوں کی طرف سے کیا جواب دیا گیا تھا یعنی جب تم نے ان کو خدا کی طرف بلایا تو انہوں نے تمہاری دعوت کا کیا جواب دیا اسے قبول کیا یارد کیا اس سوال کرنے سے اللہ کا مقصود منکرین اور مکذبین کو توبیخ کرنا ہوگا پیغمبر جواب دیں گے ہمیں حقیقت حال کا علم نہیں تحقیق آپ ہی تمام غیبوں کو جاننے والے ہیں ظاہر و باطن سب تجھ ہی پر روشن ہے ہم تو صرف ظاہر ہی کو کچھ جان لیتے ہیں ہم تیرے سامنے کیا بیان کریں ہمارا علم تیرے علم کے سامنے کوئی چیز نہیں بلکہ بمنزلہ عدم علم کے ہے اور اسی دن جب تمام پیغمبرجمع ہوں گے عیسیٰ (علیہ السلام) کو بلا کر ان سے اللہ یہ فرمائیں گے اے عیسیٰ مریم کے بیٹے میرے اس انعام اور احسان کو یاد کر جو تجھ پر اور تیری ماں پر ہیں قیامت کے دن ان احسانات کے یاد دلانے سے یہودیوں اور عیسائیوں کی زجر اور توبیخ مقصود ہوگی یعنی ان انعامات اور احسانات کو یاد دلا کر ان پر یہ امر ظاہر کیا جائے گا کہ دنیا میں عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں دونوں گروہ غلطی پر تھے عیسیٰ خدا کے بندے ہیں اور خدا تعالیٰ ان کا محسن ہے ان میں کو کچھ خوبی تھی وہ خدا ہی کی دی ہوئی تھی پس نصاری کو یہ حق نہیں تھا کہ انہوں نے عیسیٰ کو خدا بنالیا اور عیسیٰ کے محسن کو بھول گئے اور یہودیوں کے لیے کب مناسب تھا کہ جس ذات پر اللہ کے ایسے عجیب و غریب انعامات و احسانات ہوتے ہوں اس کو مفتری اور کذاب سمجھیں اور اس آیت میں حضرت عیسیٰ کی مان پر احسانات کی تفصیل نہیں کہ اشارہ اور اجمال پر اکتفا کیا تفصیل اس کی سوہ آل عمران میں گذرچ کی ہے کہ وہ طاہر اور مطہرہ اور صدیقہ تھیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کو تمام جہانوں کی عورتوں پر فضیلت دی تھی اور اے عیسیٰ بن مریم اس وقت کو بھی یاد کرو جب میں نے تجھ کو روح القدس یعنی جبریل امنی سے قوت اور مدد دی تھی جو تیری تائید اور تقویت کے لیے ہر وقت تمہارے ساتھ رہتے تھے مطلب یہ ہے کہ خطیرہ القدس کے انوار وبرکات ہر وقت تمہارے محافظ اور نگہبان تھے اور افضل الملائکہ المقربین یعنی جبریل امین کے معیت کی وجہ سے نفس و شیطان کی یہ مجال نہ تھی کہ اپنی ظلمتوں سے آپ کی نورانیت کو پھیکا ہی کرسکے من جانب اللہ روح القدس کی یہ تائید اس کی دلیل تھی کہ آپ خدا کے برگزیدہ بندے ہیں معاذ اللہ خدا نہیں خدا کو کسی کی تائید اور تقویت کی کیا ضرورت ہے اور اللہ کے اس انعام کو بھی یاد کرو کہ آپ گہوارہ میں بھی اور بڑی عمر میں بھی لوگوں سے باتیں کرتے تھے یعنی زمانہ طفولیت اور زمانہ کہولت کے کلام میں باعتبار فصاحت وبلاغت اور باعتبار موعظت و حکمت کوئی فرق نہ تھا دونوں یکساں تھے زمانہ شیر خوارگی میں آپ نے یہ کلام کیا انی عبداللہ اتانی الکتاب وجعلنی۔۔۔۔ الی۔۔۔ حیا۔ آیت۔ اور اس شیر خوارگی میں جو پہلا کلمہ آپ کی زبان سے نکلا وہ یہ تھا انی عبداللہ تحقیق میں اللہ کا بندہ ہوں اور نبوت و رسالت ملنے کے بعد وحی اور الہام سے کلام فرمایا دونوں زمانوں اور دونوں جالتوں کا کلام ایک ہی شان اور ایک صفت کا تھا دونوں میں کوئی تفاوت نہ تھا حالانکہ ان دو حالتوں کا کلام غایت درجہ مختلف اور متفاوت ہوتا ہے یہ بھی من جانب اللہ ایک عظیم معجزہ تھا جو آپ کے حق میں اور آپ کی والدہ ماجدہ کے حق میں نعمت عظیمہ تھی جس سے ان کی طہارت اور نزاہت ثابت ہوئی اور الوہیت کی نفی ہوگئی اس لیے کہ خدا تعالیٰ کا پیش آنا الوہیت کی نفی ہوگئی اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ولادت اور تغیرات سے پاک اور منزہ ہے بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ حالت کہولت میں کلام کرنے سے مراد یہ ہے کہ آسمان سے نازل ہونے کے بعد بھی اس قسم کا کلام سراپا حکمت التیام فرمائیں گے لہذا لفظ وکہلا میں آپ کے نزول من السماء کی طرف اشارہ ہے جس کی تفصیل احادیث میں آئی ہے اس لیے کہ آپ زمانہ کہولیت سے پہلے آسمان پر اٹھائے گئے نزول کے بعد آپ کہولت کو پہنچیں گے اور حکمت وموعظت کی باتیں لوگوں کو بتلائیں گے۔ اور یاد کرو اس وقت کو جب کہ میں نے تم کو لکھنا اور دانائی اور توریت اور انجیل سکھائی کتاب سے کتاب اور فن تحریر مراد ہے اور حکمت سے کلام صواب مراد ہے اس سے معلوم ہوا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) لکھنا جانتے تھے مگر افسوس کہ نصاری کے پاس حضرت مسیح کے ہاتھ کی لکھی ہوئی کوئی انجیل موجود نہیں بخلاف ہمارے نبی اکرم محمد رسول اللہ کے کہ وہ امی تھے لکھنا نہیں جانتے تھے وماکنت تتلوا من قبلہ من کتاب ولا۔۔۔ الی۔۔ مبطلون۔ آیت۔ اس لیے آپ پر جب وحی نازل ہوتی تو کاتبین وحی کو بلا بلا کر املاء کرادیتے بحمدہ تعالیٰ مسلمانوں کے پاس وہ اصل قرآن محفوظ ہے جو کاتبین وحی اور خلفاء راشدین کے مبارک ہاتھوں نے لکھا اور یہ دنیا کے سارے قرآن اس کی نقل مطابق اصل ہیں اور یاد کرو اس وقت کو جب کہ تو میرے حکم سے مٹی سے پرندے کی شکل اور صورت بناتا تھا پھر تو اس مصنوعی صورت وشکل میں پھونک مارتا تھا پھر وہ تیری بنائی ہوئی صورت میرے حکم سے حقیقت میں پرندہ بن جاتی تھی یہ بھی حضرت عیسیٰ کا معجزہ تھا کہ آپ مٹی سے پرند کی صورت بناتے اور پھر اس میں پھونک مارتے تو وہ سچ مچ کا پرندہ بن جاتا اور اڑنے لگتا اور باذنی کی قید اس لیے لگائی کہ اس پرندہ میں جان ڈالنا اللہ کا کام تھا حضرت عیسیٰ کا کام نہیں تھا جیسے مریم کے گریبان میں پھونک مارنا جبرائیل کا کام تھا اور بچہ کو پیدا کرنا اللہ کا کام اور اس میں جان ڈالنا اللہ کا کام تھا اس وجہ سے ہر جگہ باذنی کی قید بڑھائی تاکہ ان معجزات کو دیکھ کر کسی کو ان کی خدائی کا شبہ نہو اس باذنی کے لفظ سے یہ بتلا دیا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے یہ تمام کام اپنی قدرت سے نہ تھے بلکہ خدا کی قدرت سے تھے حضرت عیسیٰ کا کام تو صرف مورت بنانا اور اس میں پھونک مارنا تھا باقی اس میں جان ڈالنا یہ اللہ کا کام تھا عجب نہیں کہ نفخ عیسوی سے باذن اللہ پرندہ بن جانے کا معجزہ۔ نفخ جبرائیلی کا کوئی نمونہ ہو۔ واللہ اعلم۔ اور یاد کرو اس وقت کو جب کہ تم مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو میرے حکم دے ہاتھ پھیر کر اچھا اور چنگا کردیتے تھے بیمار پر ہاتھ پھیرنا تمہارا کام تھا اور شفا اور تندرستی عطا کرنا اور چنگا کردینا یہ میرا کام تھا میں نے تمہاری برگزیدگی ثابت کرنے کے لیے تم کو یہ معجزہ عطا کیا تمہارے دست برکت میں میرا دست قدرت کارفرما تھا اور تمہارا ہاتھ میرے بےچون وچگوں کے ہاتھ کے لیے روپوش تھا اور یاد کرو اس وقت کو جب کہ تو میرے حکم سے مردوں کو زندہ کرکے قبر سے نکالتا تھا عیسیٰ (علیہ السلام) جب یہ چاہتے کہ کوئی مردہ زندہ ہوجائے تو دو رکعت نماز پڑھتے اور خدا سے دعا مانگتے اس کے بعد وہ زندہ ہوجاتا اور اس حالت کو دیکھ کر ہر شخص یہ سمجھ لیتا کہ یہ مردہ دراصل اللہ کی قدرت اور پھر حضرت عیسیٰ کی دعا کی برکت سے زندہ ہوا ہے حضرت عیسیٰ نے دعا کی اور اللہ نے اپنے بندہ کی دعا قبول کی اور اپنی قدرت اور رحمت سے مردہ کو زندہ کردیا زندہ کرنے والے عیسیٰ (علیہ السلام) نہیں اللہ نے حضرت عیسیٰ کو یہ معجزات عطا اس لیے کیے کہ اطباء اور حکماء بھی ان بیماریوں کے علاج سے عاجز اور درماندہ تھے تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ عیسیٰ اطباء کی طرح کوئی طبیب نہیں بلکہ اللہ کے برگزیدہ رسول ہیں جن کو اللہ نے ایسے معجزات، عطا کیے جن سے تمام اطباء عالم عاجز اور درماندہ ہیں یہاں تک منافع اور فوائد کا بیان تھا اب آئندہ آیت میں دفع مضرت کے انعام کو بیان کرتے ہیں اور یاد کرو اس وقت کو جب میں نے بنی اسرائیل یعنی یہودیوں کو تیرے پاس آنے سے روک دیا اور انہوں نے جو تیرے قتل اور صلب کا منصوبہ بنایا تھا اس کو میں نے یک لخت مل یا میٹ کردیا اور تجھ کو صحیح سالم زندہ آسمان پر اٹھا لیا اور وہ تجھے کوئی ضرر نہیں پہنچا سکے جب کہ تو ان کے پاس اپنی نبوت و رسالت کے روشن دلائل لے کر آیا تو ان میں کے جو کافر تھے وہ یہ بولے کہ نہیں ہیں یہ معجزات مگر کھلاجادو اپنی نادانی اور عناد سے معجزات کو جادو سمجھے معجزہ وہ ہے جس کا مثل لانے سے ساراعالم عاجز ہو اور جادو تو ایک فن ہے جو سیکھ لے اس کو آجاتا ہے۔ خلاصہ مضمون آیات مذکورہ بالا۔ ان آیات میں اللہ نے حضرت عیسیٰ پر اپنے انعامات کا ذکر فرمایا جس سے ایک طرف ان کا برگزیدہ ہونا ثابت ہوا جس سے یہود کا رد ہوا اور دوسری طرف ان کی عبدیت ثابت ہوئی اور ان کی الوہیت کی نفی ہوئی جس سے نصاری کی تردید ہوئی کیونکہ روح القدس کی تائید اور تقویت اور گہوارہ میں ان کی تربیت اور کتاب و حکمت کی تعلیم اور ہدایت اور بنی اسرائیل کے شر سے حفاظت، جسکا واذکففت بنی اسرائیل عنک۔ آیت) ۔ میں ذکر ہے یہ سب اس امر کے دلائل اور براہین ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) معاذ اللہ خدا نہ تھے اس لیے کہ خدا کسی کی تائید اور تقویت اور تعلیم اور تربیت اور کسی کی حفاظت کی کیا ضرورت ہے یہ سب امور عبدیت کے دلائل ہیں اور سلسلہ انعامات اور احسانات میں حضرت عیسیٰ کے معجزات ذکر کرنے سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ جو معجزات عطا کیے ان کو وہ ان پر اللہ کا انعام اور احسان تھے اور وہ معجزات ان کی نبوت و رسالت کے دلائل تھے نہ کہ الوہیت اور ابنیت کے دلائل تھے اس سے مقصود نصاری کی غلطی کو واضح کرنا ہے کہ وہ احیاء موتی اور ابراء اکمہ وبرص جیسے معجزات کو حضرت عیسیٰ کی الوہیت کی دلیل سمجھ بیٹھے اور ان کو خدا اور خدا کا بیٹا سمجھ بیٹھے حالانکہ یہ معجزات قاہرہ ان کی نبوت اور رسالت کی دلیل تھے نہ کہ الوہیت اور ابنیت کی دلیل تھے معاذ اللہ خدا کو کسی کے انعام و احسان اور کسی کی تائیدوحفاظت کی ضرورت نہیں اور قیامت کے دن ان انعامات کے ذکر کرنے سے تمام اہل کتاب کی توبیخ مقصود ہے جنہوں نے ان کی شان میں افراط اور تفریط کی اور آئندہ سوالات کی تمہید ہے جن کا آئندہ آیت، ءانت قلت للناس۔۔۔ الھین۔ میں ذکر آئے گا۔
Top