Maarif-ul-Quran - Al-Maaida : 111
وَ اِذْ اَوْحَیْتُ اِلَى الْحَوَارِیّٖنَ اَنْ اٰمِنُوْا بِیْ وَ بِرَسُوْلِیْ١ۚ قَالُوْۤا اٰمَنَّا وَ اشْهَدْ بِاَنَّنَا مُسْلِمُوْنَ
وَاِذْ : اور جب اَوْحَيْتُ : میں نے دل میں ڈال دیا اِلَى : طرف الْحَوَارِيّٖنَ : حواری (جمع) اَنْ : کہ اٰمِنُوْا بِيْ : ایمان لاؤ مجھ پر وَبِرَسُوْلِيْ : اور میرے رسول پر قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے وَاشْهَدْ : اور آپ گواہ رہیں بِاَنَّنَا : کہ بیشک ہم مُسْلِمُوْنَ : فرمانبردار
اور جب میں نے حواریوں کی طرف حکم بھیجا کہ مجھ پر اور میرے پیغمبر پر ایمان لاؤ وہ کہنے لگے کہ (پروردگار) ہم ایمان لائے تو شاہد رہیو کہ ہم فرمانبردار ہیں
قصہ نزول مائدہ۔ قال اللہ تعالی۔ واذا اوحیت الی۔۔۔۔ الی۔۔۔ العالمین۔ ربط) ۔ ان آیات میں اللہ نے حضرت عیسیٰ پر اپنے ایک خاص انعام اور خاص معجزہ کا ذکر فرمایا تھا جس سے یہود اور نصاری دونوں ہی کو تنبیہ مقصود ہے یعنی مائدہ کے نازل ہونے کا قصہ ذکر فرماتے ہیں جس کی طرف یہ سورت منسوب ہے یعنی سورة مائدہ کہ اللہ نے اپنے برگزیدہ بندہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعا قبول کی اور اس پر آسمان سے مائدہ اتارا جو ان کی نبوت و رسالت کی آیت باہرہ اور حجت قاہرہ تھی اور اس بات کی بھی دلیل تھی کہ جس کے لیے یہ آسمانی رزق کا خوان اتارا جارہا ہے وہ خدا کا برگزیدہ بندہ ہے کہ من وسلوی کی طرح اس مائدہ سے خدا کا رزق کھائے اور اس کا شکر بجالائے معاذ اللہ وہ خدا نہیں ہے رزق کا محتاج بندہ ہوتا ہے نہ کہ خدا موسیٰ (علیہ السلام) کا قول ہے، رب انی لماانزلت الی من خیر فقیر۔ آیت۔ چناچہ فرماتے ہیں اور یاد کرو اس وقت کو جب یہودیوں نے حضرت عیسیٰ کے واضح معجزات کو دیکھ کر یہ کہہ دیا کہ یہ صریح جادو ہے تو اس وقت میں نے اپنے خاص الخاص لطف و عنایت سے حواریین کے دل میں یہ القاء کیا کہ تم ایمان لاؤ مجھ پر اور میرے رسول پر یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) پر انہوں نے جواب میں کہا کہ ہم ایمان لائے اور اے اللہ تو گواہ رہ کہ ہم تیرے حکم ماننے والے ہیں جو حکم دے گا اس کی تعمیل کریں گے یہ بھی اللہ کا انعام اور احسان تھا کہ حواریین کے دل میں یہ القاء اور الہام کیا کہ تم ہمارے نبی برحق پر ایمان لے آؤ چناچہ ایمان لے ائے اور خدا کو اپنے اسلام پر گواہ بنا لیا۔ اس کے بعد اب دوسرے انعام کا زکر ہے کہ حواریین کی درخواست کی بناء پر آسمان سے مائدہ نازل ہوا ایمان اور اسلام باطنی رزق اور اخروی نعمت ہے اور مائدہ ظاہری رزق دنیوی نعمت ہے چناچہ فرماتے ہیں یاد کرو اس وقت کو جب کہ حواریین نے عیسیٰ (علیہ السلام) سے یہ عرض کیا اے عیسیٰ بن مریم علیک السلام کیا یہ ہوسکتا ہے کہ تیرا پیروردگار ہم پر آسمان سے نعمتوں بھرا ہو ایک خوان اتارے اس کا یہ مطلب نہیں کہ حواریین کو حق تعالیٰ کی قدرت میں کسی قسم کا کوئی شک تھا بلکہ مطلب یہ تھا کہ اے مسیح بن مریم کیا خداوندعالم آپ کے طفیل میں آپ کے خادموں اور غلاموں کے لیے اپنے عام دستور و عادت کے خلاف آسمان سے الوان نعمت کا کوئی خوان اتار سکتا ہے ہم تاس قابل نہیں کہ ہمارے لیے آسمان سے خوان اتاراجائے ہاں یہ ممکن ہے کہ آپ جیسی برگزیدہ ذات بارگاہ خداوندی میں یہ سوال کرے اور قبول ہوجائے تو آپ کے طفیل ہماری یہ آرزو پوری ہوجائے اس کی مثال بعینہ ایسی ہے کہ جیسے کوئی شخص کسی بڑے شخص کو اپنے ساتھ بازار لے جانا چاہے اور یہ کہے کہ کیا آپ میرے ساتھ بازار چلنے کی تکلیف برداشت کرسکیں گے عیسیٰ نے ان کے جواب میں کہا اللہ سے ڈرو اگر تم میری نبوت و رسالت پر یقین رکھتے ہو یعنی تمہارا یہ سوال اول تو خلاف ادب ہے خلاف عادت امور کی فرمائش خلاف ادب ہے اس قسم کی فرمائشیں معاندی کا طریقہ ہیں اور علاوہ ازیں اس سوال سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تمہیں میری نبوت و رسالت میں کوئی شک ہے جب ہی تو تم نے مجھ سے اس معجزہ اور خارق عادت امر کی فرمائش کی گویا کہ بزبان حال اس سوال سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ تم اپنے ایمان کو معجزات اور خوارق عادات کے مشاہدہ پر موقوف رکھنا چاہتے ہو یہ علامت شک اور تردد کی ہے نیز مجھ کو یہ ڈر ہے کہ وہ خوان تمہارے لیے فتنہ کا سامان نہ بن جائے لہذا تم اللہ سے ڈرو اور ایسی چیز کا سوال نہ کرو جو تمہارے لیے فتنہ کا سبب بنے اور میری نسبت شک میں پڑ کر اپنے ایمان کو متزلزل نہ کرو حواریین بولے ہم آپ پر پورا پورا ایمان رکھتے ہیں اور ہمیں ذرہ برابر شک نہیں لیکن ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس خوان میں سے کھائیں جو آسمان سے نازل ہو کیونکہ جو رزق آسمان سے نازل ہوگا وہ سراسر مبارک ہوگا اور اس کے کھانے سے ظاہری اور باطنی شفا اور صحت حاصل ہوگی، اور تیری عبادت اور اطاعت میں قوت کا ذریعہ بنے گا دنیا کے رزق سے بعض مرتبہ دل میں معصیت کا داعیہ پیدا ہوتا ہے مگر جو رزق آسمان سے نازل ہوگا وہ دل میں تیری اطاعت اور بندگی کا ایسا جوش اور ولولہ پیدا کرے گا کہ ہم کو عبادت اور بندگی میں ملائکہ کا ہم رنگ بنا دے گا اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس آسمانی خوان سے کھا کر ہمارے دل مطمئن ہوجائیں یعنی ہمارے دل طمانیت اور سکینت سے ایسے لبریز ہوجائیں کہ ہمارے ایمان میں شک اور تردد کا امکان ہی ختم ہوجائے اور شہودی اور حسی طور پر ہم یہ جان لیں کہ آپ نے نعماء جنت کے بارے میں ہم کو خبر دی ہیں اس میں آپ نے ہم سے سچ بولا کہ جنت اور اس کی نعمتیں حق ہیں اور یہ آسمانی خوان جنت کی نعمتوں کا ایک نمونہ ہے اگرچہ استدلالی اور برہانی طریقہ پر ہم کو آپ کی صداقت کا پہلے ہی سے علم حاصل ہے مگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس میں علم استدلالی کے ساتھ علم شہودی اور علم عیانی بھی مل جائے تاکہ کفر اور نفاق اور ارتداد کے خطرہ سے ہم نکل جائیں اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم اس معجزہ پر گواہی دینے والوں میں سے ہوجائیں کہ ہم بنی اسرائیل کے سامنے گواہی دیں کہ ہم نے یہ معجزہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے تاکہ جن لوگوں نے یہ معجزہ نہیں دیکھا ان کے سامنے گواہی دیں اور آپ کی نبوت و رسالت کو ثابت کرسکیں ہم کو تبلیغ اور دعوت کا اجر ملے اور ان کو ہدایت ملے عیسیٰ (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ اس درخواست سے ان کی غرض صحیح ہے تو بولے اور یہ دعا کی بار خدایا اے ہمارے پروردگار ہماری ظاہری اور باطنی تربیت کے لیے آسمان سے ایک خوان اتار جو ہمارے اگلے اور پچھلوں کے لیے عید بنے یعنی جو لوگ اس وقت موجود ہیں اور جو لوگ بعد کے زمانہ میں آئیں گے سب کے لیے خوشی کا سامان ہو مطلب یہ ہے کہ تیرا یہ انعام سلف سے لے کر خلف تک جاری رہے اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو کہ جنت کی نعمتوں میں شک اور شبہ نہ کرسکیں اس کانمونہ تم کو دنیا میں دکھلادیا اور اے اللہ ہم کو رزق عطا فرما اور اس پر شکر کی توفیق دے اور سب عطا کرنے والوں میں تو ہی سب سے بہتر عطا کرنے والا ہے دنیا میں جو شخص کسی کو کچھ دیتا ہے وہ اپنے نفع کے لیے دیتا ہے اور اسکے عوض کا طلب گار ہوتا ہے اور تیری عطا بلاعوض اور بلا نفع کے ہے۔ من نکردم خلق تاسودے کنم۔۔۔ بلکہ تابر بندگاں جو دے کنم۔ وارزقنا (ہم کو روزی دے) لفظ اگرچہ عام ہے مگر یہاں خاص روزی مراد ہے یعنی وہی خوان جس کا سوال تھا۔ نکتہ) ۔ حواریین نے جو نزول مائدہ کی درخواست کی اس کا آغاز ھل یستطیع ربک سے کیا جو کسی قدر خلاف ادب معلوم ہوتا ہے اور غرض وغایت یہ بیان کی نرید ان ناکل منھا۔ آیت۔ بخلاف عیسیٰ کے کہ انہوں نے دعا اور استدعا میں جن آداب عبودیت کو ملحوظ رکھا وہ ظاہر ہیں اللھم ربنا سے دعا کو شروع کیا اور ورزقنا وانت خیرالرازقین پر ختم کیا۔ اللہ نے کہا اے عیسیٰ میں نے تمہاری درخواست منظور کرلی اور تحقیق میں تمہاری درخواست کے مطابق وہ خوان آسمان سے تم پر ضرور اتاروں گا پھر تم سے جو کوئی اس کے بعد ناشکری کرے تو میں اس کو ایسا عذاب دوں گا جو جہان والوں میں سے کسی کو نہ دوں گا اس لیے کہ جب نعمت غیرمعمولی ہو اور نرالی ہو تو اس کی ناشکری پر عذاب بھی غیرمعمولی اور نرالا آئے گا۔ جمہور علماء وسلف وخلف کا قول یہ ہے کہ یہ مائدہ حسب وعدہ خداوندی آسمان سے اترا جیسا کہ اللہ نے فرمایا ہے انی منزلھا علیکم اور یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اس کی خبر ہے جو حق صدق ہے یہ ناممکن ہے کہ اللہ کا وعدہ پورا ہوا اور اس کی خبر واقع نہ ہو اور اس کا امام ابن جریر اور ابن کثیر اور امام قرطبی نے اور جمہور علماء تفسیر نے اختیار کیا ہے جیسا کہ ترمذی وغیرہ میں عمار بن یاسر سے مرفوعا اور موقوفا مروی ہے کہ وہ مائدہ آسمان سے اترا اور اس میں گوشت تھا اور روٹی تھی اور اس کے متعلق یہ حکم دیا گیا کہ اس میں خیانت نہ کریں اور چھپا نہ کر رکھیں اور دوسرے دن کے لیے ذخیرہ نہ کریں پس جن لوگوں نے اس حکم کی خلاف ورزی کی وہ بندر اور سور کی صورت اور شکل بنادیے گئے اور تین دن کے بعد وہ ہلاک ہوگئے (دیکھو تفسیر قرطبی ص 372، اور تفسیر ابن کثیر ص 116 ج 2) ۔ اور بعض علماء کا قول یہ ہے کہ یہ مائدہ نازل ہی نہیں ہوا یہ تہدید سن کر مانگنے والے ڈر گئے اور اپنی درخواست واپس لے لی اور مانگاہی نہیں اور اپنے اس سوال سے توبہ اور استغفار کی مگر یہ قول صحیح نہیں ظاہر قرآن کے بھی خلاف ہے اور اخبار اور آثار متواترہ کے بھی خلاف ہے سلف اور خلف سے یہی منقول ہے کہ یہ مائدہ آسمان سے نازل ہوا غرض یہ کہ اتنا امر قطعی اور یقینی ہے کہ آسمان سے خون اترتا تھا اور ایک مدت تک اترتا رہا باقی رہا یہ امر کہ اس خوان میں کیا کیا چیزیں تھیں اور کب تک اترتا رہا اس کی تفصیل میں اختلاف ہے واللہ سبحانہ وتعالی اعلم (دیکھو تفسیر درمنثور ص 346 ج 3) ۔ جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ مائدہ کس شان سے نازل ہوا اور عیسیٰ (علیہ السلام) نے کس شان سے اس کا استقبال کیا، واللہ اعلم۔
Top