Maarif-ul-Quran - Al-Maaida : 116
وَ اِذْ قَالَ اللّٰهُ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَ اُمِّیَ اِلٰهَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ؕ قَالَ سُبْحٰنَكَ مَا یَكُوْنُ لِیْۤ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَیْسَ لِیْ١ۗ بِحَقٍّ١ؐؕ اِنْ كُنْتُ قُلْتُهٗ فَقَدْ عَلِمْتَهٗ١ؕ تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ وَ لَاۤ اَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِكَ١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا اللّٰهُ : اللہ يٰعِيْسَى : اے عیسیٰ ابْنَ مَرْيَمَ : ابن مریم ءَاَنْتَ : کیا۔ تو قُلْتَ : تونے کہا لِلنَّاسِ : لوگوں سے اتَّخِذُوْنِيْ : مجھے ٹھہرا لو وَاُمِّيَ : اور میری ماں اِلٰهَيْنِ : دو معبود مِنْ : سے دُوْنِ : سوا اللّٰهِ : اللہ قَالَ : اس نے کہا سُبْحٰنَكَ : تو پاک ہے مَا : نہیں يَكُوْنُ : ہے لِيْٓ : میرے لیے اَنْ : کہ اَقُوْلَ : میں کہوں مَا لَيْسَ : نہیں لِيْ : میرے لیے بِحَقٍّ : حق اِنْ : اگر كُنْتُ قُلْتُهٗ : میں نے یہ کہا ہوتا فَقَدْ عَلِمْتَهٗ : تو تجھے ضرور اس کا علم ہوتا تَعْلَمُ : تو جانتا ہے مَا : جو فِيْ : میں نَفْسِيْ : میرا دل وَ : اور لَآ اَعْلَمُ : میں نہیں جانتا مَا : جو فِيْ نَفْسِكَ : تیرے دل میں اِنَّكَ : بیشک تو اَنْتَ : تو عَلَّامُ : جاننے والا الْغُيُوْبِ : چھپی باتیں
اور (اس وقت کو بھی یاد رکھو) جب خدا فرمائے گا کہ اے عیسیٰ بن مریم ! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ خدا کے سوا مجھے اور میری والدہ کو معبود مقرر کرو ؟ وہ کہیں گے کہ تو پاک ہے مجھے کب شایاں تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کا مجھے کچھ حق نہیں۔ اگر میں نے ایسا کہا ہوگا تو تجھ کو معلوم ہوگا۔ (کیونکہ) جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے اسے میں نہیں جانتا بیشک تو علامّ الغیوب ہے۔
ذکر مخاطبت رب العزت باعیسی (علیہ السلام) دریوم قیامت برائے تنبیہ نصاری حیاری بربطلان عقیدہ الوہیت۔ قال اللہ تعالی، واذ قال اللہ یعیسی بن مریم۔۔ الی۔۔۔ انت العزیز الحکیم۔ ربط) ۔ اوپر سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ چلا آرہا ہے اور یہ اسی گفتگو کا تتمہ ہے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے قیامت میں ہوگی اولا اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ کو بلا کر اپنے وہ عظیم الشان انعامات و احسانات یاد دلائیں گے جو ان پر اور ان کی والدہ پر مبذول ہوئے بعد ازاں نصاری کے عقیدہ باطلہ یعنی عقیدہ الوہیت مریم کے متعلق دریافت کیا جائے گا جس سے مقصودیہ بتلانا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) ہمیشہ توحید کی دعوت دیتے رہے اور شرک سے منع کرتے رہے اور اپنی عبدیت کا اقرار کرتے رہے اور ان دن رات خدا ہی کی عبادت اور بندگی میں لگے رہے اور قیامت کے دن حضرت عیسیٰ ان لوگوں سے برات اور بےزاری ظاہر فرمائیں گے جنہوں نے ان کو خدا ٹھہرایا معلوم ہوا کہ عقیدہ الوہیت مسیح اور عقیدہ ابنیت اور عقیدہ تثلیث یہ سب بدعتیں اور گمراہیاں ہیں جو حضرت مسیح کے بعد دین مسیح میں داخل ہوئیں اور عیسیٰ (علیہ السلام) ان سب سے بری اور بیزار ہیں خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ پر انعامات خاصہ کا ذکر اور معجزہ احیاء موتی اور معجزہ نزول مائدہ کا ذکر یہود کی توبیخ کے لیے ہے اور حضرت عیسیٰ کا اپنی عبدیت کا اعتراف واقرار اور اپنی الوہیت سے تبری اور بےزاری کا ذکر نصاری کی توبیخ کے لیے ہے معبود برحق صرف اللہ تعالیٰ ہے اور عبادت بندگی خاص اسی کا حق ہے اور جس طرح تمام انبیاء کرام توحید کی دعوت دیتے چلے آئے، کما قال تعالیٰ وماارسلنا من قبلک۔۔۔۔ الی۔۔۔۔ الا اللہ۔ اسی طرح عیسیٰ بن مریم بھی لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے رہے معاذ اللہ انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ مجھ کو اور میری ماں کو خدا بناؤ چناچہ فرماتے ہیں اور یاد کرو اس دن کو کہ اللہ تعالیٰ تمام انبیاء کو جمع کرکے سوال کرے گا اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے انعامات اور احسانات یاد دلائے گا اور اس کے بعد عیسیٰ (علیہ السلام) سے کہے گا اے مریم کے بیٹے جو ایک کنواری کے پیٹ سے پیدا ہو اور اس کی گود میں پلا اور پرورش پائی اور جوان ہوا جس میں الوہیت کا امکان ہی نہیں کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو خدا بنالو حالانکہ تم اور تمہاری ماں دونوں خدا تعالیٰ سے دون یعنی کم تر ہیں اور جو خدا کا ہمسر نہیں ہوسکتا کیونکہ خدا سب سے اعلی اور بالا اور برتر ہوتا ہے پس بتلاؤ کہ کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو معبود بنالو یان لوگوں نے خود اپنی طرف سے یہ عقیدہ تراش لیا ہے خطاب تو عیسیٰ کو ہوگا اور مورد عتاب نصاری ہوں گے وہ اس قابل بھی نہیں کہ ان سے باز پرس کی جاسکے کیونکہ کسی مولود کو عقلا اپنے معبود ہونے کا گمان ہو ہی نہیں سکتا جو کسی کے پیٹ سے پیدا ہو وہ کیسے خدا ہوسکتا ہے عرب کے نصاری حضرت مریم کو بھی خدا کہتے تھے اس لیے سوال میں حضرت مسیح کے ساتھ ان کی والدہ کا بھی ذکر کیا گیا۔ قیامت کے دن یہ سوال حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے محض ان کی امت کی سرزنش کے لیے کیا جائے گا عیسیٰ (علیہ السلام) کے جواب سے وہ جھوٹے ٹھہریں اور ان پر اللہ کی حجت قائم ہو۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے جواب باصواب۔ بیان کیا جاتا ہے جب اللہ تعالیٰ عیسیٰ (علیہ السلام) سے سوال کریں گے ا انت قلت للناس التخذونی وامی الھین من دون اللہ۔ آیت۔ تو عیسیٰ (علیہ السلام) اس سوال پر کانپ اٹھیں گے اور تمام بدن پر لرزہ طاری ہوجائے گا جب سکون ہوجائے گا تو نہایت ادب سے عرض کریں گے اور کہیں گے سبحانک یعنی تو پاک ہے اور میں تیری پاکی بیان کرتا ہوں تو شرک سے پاک اور منزہ ہے یہ ممکن ہی نہیں کہ ذات وصفات وافعال میں کوئی تیرا شریک ہوسکے نیز میرے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ میں زبان سے ایسی بات کہوں جو میرے لیے کسی طرح زیبا نہیں یعنی تو تو شریک اور زن و فرزند سے پاک ہے اور میں تیرا عبد اور عابد ہوں معبود نہیں میں تیرا مربوب (پروردہ) ہوں رب نہیں اور پھر میں نبی ہو کر ایسی جھوٹی بات کیوں کہنے لگا جو نہ بحیثیت عبدیت مجھ کو سزاوار ہے اور نہ بحیثیت نبوت کے اس لیے کہ منصب نبوت ہدایت خلق کے لیے عطا کی ا جاتا ہے نہ کہ بندوں کو گمراہ کرنے کے لیے اور شرک کی دعوت دینے کے لیے اگر بالفرض والتقدیر میں نے یہ بات کہی ہوگی تو تیرے علم میں ہوگی اس لیے کہ تو تو میرے باطن اور ضمیر کی بات کو خوب جانتا ہے اور میں تیرے جی کی بات کو بالکل نہیں جانتا اس لیے کہ بیشک تو ہی تمام پوشیدہ باتوں کا جاننے والا ہے پس جب میں اس قدر عاجز اور لاچار ہوں اور اس درجہ بیخبر ہوں کہ بغیر آپ کو بتلائے ہوئے کسی غیب کا مجھے علم نہیں ہوسکتا تو میں الوہیت کا دعوی کیسے کرسکتا ہوں اور اے خدا وندعالم آپ نے لوگوں کو ہدایت کے لیے مجھے رسول بنا کر بھیجا میں نے ان سے صرف وہی کہا تھا جس کو تو نے مجھ کو حکم دیا تھا وہ یہ کہ اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی پروردگار ہے یہاں تک تو عیسیٰ نے اپنے معلق عرض ومعروض کی اب آئندہ آیت میں قوم کے متعلق عرض کرتے ہیں اور اے پروردگار عالم میں ان کانگران اور نگہبان تھا جب تک میں ان میں رہا یعنی مجھے ان کے صرف وہ حالات معلوم ہیں جو میرے سامنے پیش آئے پھر جب آپ نے مجھے اپنے قبضہ میں لے لیا اور دنیا سے اٹھا تو میری نگرانی ختم ہوگئی اور اس وقت آپ ہی ان پر نگران اور نگہبان تھے یعنی آسمان پر اٹھائے جانے کے بعد جو کچھ ہوا مجھے اس کی خبر نہیں کہ انہوں نے کس طرح مجھ کو اور میری ماں کو خدا بنالیا یہ جو کچھ کیا سب میری تعلیم اور تلقین کے خلاف کیا اب آئندہ ان کی جزا اور سزا کے متعلق عرض کرتے ہیں کہ اے پر ورگار اگر تو انکو عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں تجھ پر کوئی اعتراض نہیں تو مالک مطلق ہے اور وہ مملوک مطلق ہیں اور مالک مطلق کو اپنی ملک میں ہر قسم کے تصرف کا اختیار ہے نافرمان بندے کو سزا دینا نہ خلاف انصاف ہے اور نہ قابل اعتراض، مالک اپنی کسی مملوکہ چیز کو بلاوجہ بھی تنور میں ڈال دے تو کوئی اعتراض نہیں مطلب یہ کہ اے پر ورگار یہ تو مجرم بھی ہیں جنہوں نے مجھ کو اور میری ماں کو تیرے شریک گردانا اور ان کا سزا دینا تو کیا خلاف انصاف ہوتا بالفرض والتقدیر اگر یہ لوگ شرک بھی نہ کرتے بلکہ عابد اور زاہد ہوتے تب بھی تجھ کو عذاب دینے کا حق ہے اس لیے کہ یہ سب تیرے بندے اور مملوک ہیں تو مالک مطلق ہے تو اپنی ملک میں جا چاہے تصرف کرے تجھ پر کوئی اعتراض نہیں اور اے پر ورگار عالم اگر تو ان کو معاف کردے گو وہ معافی اور بخشش کے مستحق نہیں تو بیشک زبردست اور حکمت والا ہے یعنی بڑے سے بڑے مجرم کو معاف کرسکتا ہے یعنی آپ کو قدرت ہے کہ اگر اپنے قہر و غلبہ اور کمال قدرت سے ان کو بخش دے گا اور جنت میں داخل کرے گا تو کرسکتا ہے اور آپ کا یہ فعل بھی حکمت سے خالی نہ ہوگا مطلب یہ ہے کہ آپ مختار مطلق اور مالک مطلق ہیں جو چاہیں کریں اگر سزا دیں تو عین عدل ہے اور اگر معاف کریں تو محض فضل ہے تجھے نہ کوئی عدل سے روک سکتا ہے اور نہ فضل سے روک سکتا ہے تو عزیز ہے یعنی زبردست اور غالب ہے کوئی مجرم تیرے قبضہ قدرت سے نکل نہیں سکتا تو عزیز ہے یعنی زبردست اور غالب ہے کوئی مجرم تیرے قبضہ قدرت سے نکل کر نہیں جاسکتا اور تو حکیم ہے یعنی حکمت والا ہے تیرا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں تو تو اگر کسی مجرم کو معاف کرے گا تو وہ معافی بھی بےموقع اور خلاف حکمت نہ ہوگی۔ اس طرز کلام سے عیسیٰ (علیہ السلام) کا مقصود یہ ہے کہ بار خدایا یہ لوگ کافر اور مشرک ہیں اور میں ان سے بالکل بری اور بےزار ہوں آپ مالک مطلق اور عزیز مطلق ہیں ان کے بارے میں جو چاہیں حکم صادر کریں مجھے ان لوگوں سے کوئی سرورکار نہیں آپ ان مجرمین کے حق میں جو بھی فیصلہ فرمائیں گے وہ مالکانہ اور حاکمانہ اور قادرانہ اور حکیمانہ ہوگا میں اس فیصلہ میں کیا دم مارسکتا ہوں آپ مختار ہیں جو چاہیں کریں میری مجال کیا ہے کہ بارگاہ ربوبیت میں لب کشائی کرسکوں کسی نے کیا خوب کہا ہے، کر ازہر آنکہ از بیم تو، کشاید زبان جزبہ تسلیم تو، زبان تازہ کردن باقرار تو، نینگیختن علمت از کارتو۔ بتہدیدی گر برکشد تیغ حکم، بمانند کرو بیاں صم وکم۔ وگر دردھد یک صلائے کرم، عزازیل گوید نصیبے برم۔ اس ناچیز نے ان آیات کی تفسیر میں جو کچھ لکھا ہے وہ سب امام فخرالدین رازی کے کلام کی تشریح ہے حضرت اہل علم تفسیر کبری ص 486، ج 3 کی مراجعت کریں۔ تنبیہ) ۔ ناظرین کرام پر ہماری اس تفسیر اور تحریر سے یہ بات بخوبی واضح ہوگئی کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کا مقصود اس کلام سے کفار کے حق میں شفاعت اور سفارش نہیں بلکہ مقصود تفویض و تسلیم ہے کہ آپ مختار ہیں جو چاہیں کریں اس وجہ سے عیسیٰ (علیہ السلام) نے فانک غفور رحیم نہیں فرمایا جو استدعا رحم پر دلالت کرتا ہے بلکہ فانک انت العزیز الحکیم۔ فرمایا جو کمال قہر و غلبہ پر دلالت کرتا ہے اس لیے کہ قیامت کے دن کافروں کے حق میں کوئی شفاعت اور سفارش نہیں ہوسکتی اور یہ ماجرا قیامت کے دن کا ہے اس لیے عیسیٰ (علیہ السلام) نے غفور رحیم کا لفظ استعمال نہیں کیا جو کافروں کے شفاعت کے لیے موہم ہو بخلاف ابراہیم (علیہ السلام) کے انہوں نے دار دنیا میں اپنے پروردگار سے یہ عرض کیا رب انھیں اضللن کثیرا۔۔۔۔ الی۔۔۔ رحیم۔ آیت۔ (اے پروردگار ان بتوں نے بہت سے آدمیوں کو گمراہ کردیا تو جو ان میں سے میرا تابع ہوا یعنی مجھ پر ایمان لایا تو وہ میرا آدمی ہے یعنی مسلمان ہے اور جس نے میری نافرمانی کی اور میری نبوت کو نہ مانا تو پھر تو غفور رحیم ہے) یعنی ابھی دنیا اور تکلیف میں ہے لہذا اگر تو اس کو اپنی رحمت سے توبہ کی توفیق دے کر اس کے گناہوں کو معاف کرے تو کرسکتا ہے۔
Top