Maarif-ul-Quran - Al-Maaida : 119
قَالَ اللّٰهُ هٰذَا یَوْمُ یَنْفَعُ الصّٰدِقِیْنَ صِدْقُهُمْ١ؕ لَهُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا١ؕ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ١ؕ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ
قَالَ : فرمایا اللّٰهُ : اللہ هٰذَا : یہ يَوْمُ : دن يَنْفَعُ : نفع دے گا الصّٰدِقِيْنَ : سچے صِدْقُهُمْ : ان کا سچ لَهُمْ : ان کے لیے جَنّٰتٌ : باغات تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ تَحْتِهَا : ان کے نیچے الْاَنْھٰرُ : نہریں خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہیں گے وہ فِيْهَآ : ان میں اَبَدًا : ہمیشہ رَضِيَ : راضی ہوا اللّٰهُ : اللہ عَنْهُمْ : ان سے وَرَضُوْا : اور وہ راضی ہوئے عَنْهُ : اس سے ذٰلِكَ : یہ الْفَوْزُ : کامیابی الْعَظِيْمُ : بڑی
خدا فرمائے گا کہ آج وہ دن ہے کہ راست بازوں کو ان کی سچّائی ہی فائدہ دے گی۔ ان کے لئے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ابد الآ باد ان میں بستے رہیں گے۔ خدا ان سے خوش ہے اور وہ خدا سے خوش ہیں۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔
نتیجہ مخاطبات ومحاسبات مذکورہ۔ قال اللہ تعالی، ھذا یوم ینفع الصادقین۔۔۔ الی۔۔۔ قدیر۔ ربط) ۔ گذشتہ آیات میں قیامت کے دن اعمال وحوال کی تفتیش اور محاسبہ کا ذکر تھا اب ان آیات میں اس تفتیش اور محاسبہ کا ذکر کرتے ہیں کہ جب عیسیٰ (علیہ السلام) جواب سے فارغ ہوجائیں گے اور نصارائے کاذبین سے اظہار تبری اور بیزاری کے بعد جب ان کا معاملہ اور فیصلہ اللہ کے ارادہ اور مشیت کے سپرد کردیں گے تو اس وقت اللہ یہ فرمائیں گے یہ وہ دن ہے کہ سچوں کو ان کا سچ نفع دے گا سچوں سے مراد انبیاء کرام اور انکے متبعین ہیں یعنی جو لوگ دنیا میں عقائد اور اعمال کے اعتبار سے سچے تھے آج قیامت کے دن ان کا صدق ان کو نفع سے گا اور جن لوگوں نے دنیا میں خدا اور اس کے رسول پر جھوٹ بولا اور حضرت مسیح اور ان کی ماں کو خدا بتایا آج ان کے لیے کوئی بہتری نہیں کیونکہ یہ لوگ سچے نہیں اور یہ دن سچوں کے نفع کا ہے اور صادقین کے نفع کی صورت یہ ہوگی کہ ان کے لیے باغات ہوں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہا کریں گے اللہ ان سے راضی ہو اور ان کے صدق دل کی وجہ اور وہ اللہ سے راضی ہوئے کہ اللہ نے میدان حشر میں سب کے سامنے ان کا صدق ظاہر فرمایا اور سب کے سامنے ان کو سربلند کیا اور ان کے دشمنوں کا جھوٹ ظاہر کرکے سب کے سامنے انکوذلیل اور رسوا کیا یہی بڑی کامیابی ہے کہ عزت کے ساتھ دار کرامت میں داخل کردیے جائیں گے اور ساتھ ساتھ خوشنودی کا پروانہ بھی عطا کردیا گیا رضائے الٰہی سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں ورضوان من اللہ اکبر۔ اللہ ہی کے لیے بادشاہت آسمانوں کی اور زمین کی اور جو ان کے درمیان میں ہے اس میں عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ بھی آگئیں تو خدا کیسے بنائے گئے یہ جملہ پہلے جملہ یعنی ذالک الفوز العظیم کی دلیل ہے اور مطلب یہ ہے کہ جو ذات آسمان اور زمین کی تمام اشیاء کی مالک ہے اسی کاراضی ہوجانا فوز عظیم ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے جس کو چاہے عذاب دے اور جس کو چاہے اپنی نعمتوں سے سرفراز فرمائے کامیابی کا اصل دارومدار اس کی قدرت اور مشیت پر ہے کسی کے استحقاق کی بناء پر نہیں۔ نکتہ) ۔ یہ اس سورت کی آخری آیتیں ہیں جن میں اللہ نے اپنا مالک ارضین وسماوات وکائنات و مخلوقات ہونا بیان کیا جس میں عیسیٰ (علیہ السلام) اور انکی والدہ وغیرہ سب آگئے اس آیت سے اس کا مستحق عبادت ہونا بھی ثابت ہوا پس چونکہ اس سورت کے شروع میں ایفاء عقود وعہود کا حکم تھا اس لیے خاتمہ سورت پر سب سے اہم اور مقدم عہد اور میثاق یعنی توحید فی العبادت کو ذکر فرمایا گویا یا ایھا الذین آمنو اوفو ابالعقود۔ آیت۔ بمنزلہ متن کے تھا اور تمام سورت اس کی شرح اور تفصیل تھی جس چیز سے سورت کا آغاز ہوا تھا اسی پر سورت کا اختتام ہوا۔ اللھم اجعلنا من عبادک الفائزین المفلحین الراضین عنک والمرضیین عندک آمین یارب العالمین۔ لطائف معارف۔ (1) ۔ یہ دونوں رکوع اس سورت کے آخری رکوع ہیں جو اہل کتاب یعنی یہود اور نصاری کی تردید وتکذیب پر اور ذکر معاد اور حساب و کتاب اور جزا وسزا کے بیان پر مشتمل ہیں اور ان دونوں باتوں کا تعلق اور ارتباط ماقبل کے مضامین سے بالکل واضح اور روشن ہے۔ (2) ۔ اللہ جل شانہ نے ان آیات میں قیامت کا کچھ حال بیان کیا کہ اس دن تمام انبیاء جمع ہوں گے اور ان کی قوموں اور امتوں کو بھی حاضر کیا جائے گا اور قوموں اور امتوں کی زجر اور توبیخ کے لیے ان کی موجودگی میں ان کے سامنے انبیاء کرام سے پوچھا جائے گا کہ جب تم نے اپنی اپنی قوموں کو ہمارے احکام پہنچائے تھے تو انہوں نے تم کو کیا جواب دیا تھا تمہاری اطاعت کی یا تکذیب کی انبیاء کرام ابتداء میں نہایت ادب سے عرض کریں گے لاعلم لنا انک انت علام الغیوب پھر اس کے بعد امتوں کے متعلق عرض کریں گے کہ یہ غلط کہتے ہیں ہم نے تیری سب احکام پہنچا دیے فلنسالن الذین ارسل الیھم ولنسا لن المرسلین، وقال تعالی، فوربک لنسالنھم اجمعین عما کانوا یعملون۔ وقال تعالی، فکیف اذا جئنا۔۔۔ الی۔۔۔ شھیدا۔ آیت۔ (3) ۔ پھر انبیائے کرام سے دریافت کرنے کے بعد عیسیٰ (علیہ السلام) کو بلائیں گے اور اول ان کو اپنے انعامات و احسانات یاد دلائیں گے جس کا وہ دل وجان سے اعتراف اور اقرار کریں گے اور پھر تذکیر انعامات کے بعد ان سے یہ سوالات ہوں گے، انت قلت للناس اتخذونی ومی الھین من دون اللہ۔ آیت۔ اور یہ تمام ماجرا یعنی انبیاء کرام کو جمع کرنا اور عیسیٰ کو بلا کر اولا اپنے انعامات کو یاد دلانا اور پھر ان سے یہ سوال کرنا کہ کیا تم نے کہا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو خدا بناؤ یہ سب قیامت کے دن ہوگا۔ جیسا کہ ابوموسی اشعری کی حدیث مرفوع میں اس کی تصریح ہے۔ (4) ۔ اور اس تمام تذکرہ سے اصل مقصود نصاری کی تردید ہے جو ان کو خدا سمجھتے ہیں اللہ نے حضرت عیسیٰ پر اپنے انعامات و احسانات کا ذکر فرمایا جس سے ان کا بندہ اور محتاج خدا ہونا صاف ظاہر ہے اور اسی ضمن میں یہود کی بھی تردید ہوجاتی ہے جو ان کی نبوت و رسالت کے منکر ہیں ان آیات میں اللہ نے یہود کو متنبہ کردیا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) بھی موسیٰ (علیہ السلام) کی طرح خدا کے رسول اور صاحب معجزات عظیمہ تھے۔ (5) ۔ ان آیات میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے احیاء موتی اور ابراء اکمہ وابرض کے معجزہ کا ذکر ہے جس کی تفصیل سورة آل عمران میں گذر چکی۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے سرسید علی گرھی کی تقلید میں ان معجزات کا انکار کیا اور اس پر اضافہ کیا کہ ایسا عقیدہ رکھنا شرک ہے اور عیسائیوں کی طرح عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا ماننا ہے پس مرزائے قادیان خدا تعالیٰ کی ان آیات کا منکر ہے اور اللہ نے قرآن کریم میں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات ذکر کیے ہیں مرزائے قادیان ان کو شرک کی تعلیم قرار دیتا ہے قادیان کے اس نادان کو خبر نہیں کہ معجزات سے کسی کی خدائی ثابت نہیں ہوتی بلکہ معجزات نبوت و رسالت کی دلیل ہوتے ہیں ان سے نبوت و رسالت ثابت ہوتی ہے قرآن کریم میں حضرت مسیح کے معجزات کے ذکر کرنے سے یہود کا رد مقصود ہے جو حضرت عیسیٰ کی نبوت و رسالت کے منکر تھے مرزائے قادیان کہتا ہے کہ وہ احیاء موتی نہ تھا بلکہ قریب الموت مردہ کو مسمریز کے عمل سے چند منٹ کے لیے حرکت دے دیتے تھے اور اگر یہ عاجز یعنی مرزا عمل مسمریزم کو مکرو اور قابل نفرت نہ سمجھتا تو امید قوی رکھتا کہ ان اعجوبہ نمائیوں میں حضرت ابن مریم سے کم نہ رہتا۔ کبرت کلمۃ تخرج من افواہھم ان یقولون الاکذبا۔ آیت۔ (6) ۔ ان آیات میں اللہ نے حضرت عیسیٰ پر جن انعامات کا ذکر فرمایا ان میں کا ایک انعام یہ ہے واذ کففت بنی اسرائیل عنک اذ جئتھم بالبینات۔ آیت۔ اے عیسیٰ تم اس وقت کو یاد کرو جب کہ ہم نے بنی اسرائیل کو یعنی یہود کو تمہارے قریب آنے بھی باز رکھا اور ان کی دست درازی سے تمہاری حفاظت کی دشمن تمہیں قتل تو کیا کرسکتے انہیں تو اتنی بھی قدرت نہ ہوئی کہ تمہارے قریب ہی آسکیں اور تمہیں پکڑ سکیں۔ اس آیت میں ان لوگوں کا صریح رد ہے جو یہود کی طرح حضرت عیسیٰ کو مقتول اور مصلوب مانتے ہیں جیسا کہ مسیلمہ پنجاب مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے اذناب یہ کہتے ہیں کہ یہود نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو سولی دی مگر وہ اس سولی سے مرے نہیں بلکہ بےہوش ہوگئے تھے اس لیے قبر ان کو مردہ سمجھ کر قبر میں دفن کردیا مگر چونکہ وہ مرے نہ تھے اور صرف بےہوش ہوئے تھے اس لیے قبر سے زندہ نکل آئے اور چھپ کر ملک شام سے کشمیر پہنچ گئے اور وہاں جا کر اپنے زخموں کا علاج کرایا اور اچھے ہوگئے اور زندگی پوری کرکے اپنی موت سے مرے اور کشمیر کے شہر سری نگر محلہ خان یار میں دفن ہوئے یہ سب ہذیان ہے اور یہود سے بڑھ کر حضرت مسیح پر بہتان ہے کیونکہ یہود جو قتل اور صلیب کے مدعی ہیں اس کا بظاہر کچھ نہ کچھ منشا تو بیان کرتے ہیں اور مسیلمہ قادیان کے پاس تو سوائے جھوٹ اور بہتان کے کوئی دلیل نہیں شاید اس زمانہ میں کشمیر بیت المقدس سے زیادہ مقدس اور متبرک ہوگا جس کو عیسیٰ نے ہجرت کے لیے اختیار کیا اور غالبا فن طب کا مرکز ہوگا اور مایوس العلاج مریضوں کی امیدگاہ ہوگا جہاں عیسیٰ اپنے زخموں کا علاج کرانے پاپیادہ سفر کرکے پہنچے حضرت عیسیٰ اگرچہ مسیحا تھے مگر اپنے زخموں کے علاج کے لیے کشمیر کی طرف ہجرت فرمائی۔ خوب سمجھ لو کہ اس آیت میں اس خیال باطل کی صریح تردید موجود ہے اس آیت کا سیاق اور مدلول یہ ہے کہ جب یہود نے حضرت مسیح کے قتل کا ارادہ کیا تو اللہ نے حضرت عیسیٰ کی پوری حفاظت فرمائی اور ان کو یہود کی دست درازی اور ان کے شر سے بالکلیہ محفوظ رکھا کف کے معنی عربی زبان میں بازگر دانیدن یعنی روکنے کے ہیں جیسا کہ سورة فتح میں ہے، وکف ایدی الناس عنکم۔۔۔ الی۔۔۔ عنکم۔ آیت۔ اس قسم کے تمام مواضع کف ایدی سے لڑائی سے ہاتھوں کاروکنا مراد ہے اور اسی سورة مائدہ میں یہ آیت گذر چکی ہے، یا ایھا الذین آمنواذکرو نعمۃ اللہ۔۔۔۔ الی۔۔۔ عنکم۔ آیت۔ یہ آیت یہود بنی نضیر کے بارے میں نازل ہوئی جب انہوں نے نبی کریم صلی اللہ کو ہلاک کرنے کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے بنی نضیر کے ہاتھوں کو نبی ﷺ تک پہنچے سے روک دیا یعنی آپ کی حفاظت فرمائی اور بنی نضیر کو اپنے ارادوں میں ناکام فرمایا یہ مطلب ہے اذ ھم قوم ان یبسطوا لیکم ایدہم عنکم۔ آیت۔ کاٹھیک اسی طرح یہود نے حضرت مسیح کو قتل کرنے اور صلب کا ارادہ کیا مگر اللہ نے بنی اسرائیل یعنی یہود کے ہاتھوں کو حضرت مسیح تک پہنچنے سے روک لیا اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا اور دشمنوں کو ناپاک ہاتھوں کو مسیح بن مریم تک پہنچے سے ہی روک دیا۔ پس اگر بقول مرزائے قادیان اس امر کو تسلیم کرلیاجائے کہ یہودیوں نے حضرت مسیح کو صلیب پر چڑھا دیا تو پھر اللہ نے ان کی کیا حفاظت کی یہود کی قدرت اور امکان میں جو تھا وہ سب کچھ کر گزرے اپنے خیال میں ان کو سولی پر چڑھا دیا اور مار بھی ڈالا اور اپنے خیال میں مار کر قبر میں دفن بھی کردیا انکی قدرت میں جو تھا وہ سب کچھ کر گزرے تو اللہ نے ان کی کیا حفاظت کی اور خدا نے بنی اسرائیل کو کس کام سے روکا جن کا اس آیت میں ذکر ہے۔ پھر یہ کہ اللہ نے جب صریح طور پر یہودیوں اور عیسائیوں کے عقیدہ قتل وصلب کی ان واضح الفاظ میں تردید کردی وماقتلوہ وماصلبوہ (انہوں نے مسیح کو نہ مارا اور نہ سولی پر چڑھایا) تو اب اس خیال میں باطل کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔ نکتہ) ۔ لفظ کف جس کے معنی روکنے اور باز رکھنے کے ہیں اس کا استعمال اس موقعہ پر ہوتا ہے جہاں آپس میں دونوں کا اجتماع ہی نہ ہوا ہو اور ایک دوسرے سے بالکل الگ رہا ہو کففت بنی اسرائیل عنک کا مطلب یہ ہوگا کہ میں نے بنی اسرائیل کو مسیح بن مریم تک پہنچنے سے ہی روک دیا اور ایک دوسرے سے مل ہی نہیں سکے پس قتل اور صلب کی خود بخود نفی ہوگئی۔ 7۔ آیت فلما توفتنی کنت انت۔۔۔ الی۔۔ شہید۔ اس آیت میں مرزائے قادیان نے وفات مسیح پر استدلال کیا ہے کہ عیسیٰ مرچکے ہیں۔ جواب) ۔ یہ استدلال بالکل غلط ہے ہم سورة آل عمران میں آیت انی متوفیک کی تفسیر میں یہ ثابت کرچکے ہیں کہ تو فی کے اصلی اور حقیقی معنی مراد ہیں تب بھی مرزائے قادیان کا مدعا یعنی وفات قبل النزول ثابت نہ ہوگی اور اسلیے کہ دلائل اور شواہد اور آیت کے سیاق وسباق اور حدیث مرفوع سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ یہ واقعہ قیامت کے دن کا ہے اور نزول من السماء کے بعد قیامت سے پہلے ہم بھی وفات مسیح کے قائل ہیں اور مرزا صاحب نے اپنی متعدد تصانیف میں اس کا اقرار کیا ہے یہ سوال جواب قیامت کے دن ہوگا چناچہ لکھتے ہیں اور یادرکھو کہ اب عیسیٰ تو ہرگز نازل نہ ہوگا کیونکہ جو اقرار اس نے آیت فلما توفتنی کی رد قیامت کے دن کرتا ہے۔ نیز مرزا صاحب حقیقۃ الوحی ص 30 میں لکھتے ہیں فلما توفتنی کنت اس جگہ اگر توفی کے معنی مع جسم عنصری آسمان پر اٹھانا تجویز کیا جائے تو یہ معنی بدیہی البطلان ہیں کیونکہ قرآن کریم کی انہی آیات سے ظاہر ہے کہ یہ سوال حضرت عیسیٰ سے قیامت کے دن ہوگا علاوہ ازیں قیامت کے دن ان کا یہ جواب ہوگا۔ دیکھو حقیقۃ الوحی ص 30۔ اور ضمیمہ حقیقہ الوحی ص 43 میں اس طرح ہے یعنی عیسیٰ یہ جواب قیامت کے دن دیں گے یعنی فلما توفتنی قیامت کے دن کہیں گے جس دن مخلوق قبروں سے نکل کر میدان حشر میں جمع ہوگی جیسا کہ تم قرآن میں پڑھتے ہو اے عقل مندو۔ مرزا صاحب کی ان عبارات سے صاف ظاہر ہے کہ یہ سوال جواب قیامت کے دن پیش آئیں گے اور نزول کے بعد اور قیامت سے پہلے تمام اہل اسلام اس بات کے قائل ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نزول من السماء کے بعد ایک عرصہ دراز تک زندہ رہیں گے اور مدینہ منورہ میں وفات پائیں گے اور روضہ اقدس میں حضور پرنور کے قریب مدفون ہوں گے۔ ایک شبہ) ۔ مرزاصاحب کہتے ہیں کہ توفی کے معنی سوائے مارنے یا موت دینے کے صحیح نہیں ہوسکتے اس لیے کہ صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ نبی کریم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ قیامت کے دن اسی طرح کہوں گا جس طرح عیسیٰ بن مریم نے کہا فلما توفتنی اس حدیث میں نبی نے اپنے لیے فلماتوفتنی کا لفظ استعمال فرمایا اور ظاہر ہے کہ نبی کی توفی یقیناً موت سے واقع ہوئی ہے پس معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی توفی بھی ضرور موت کے ذریعہ واقع ہوگی دیکھو ازالۃ الاوہام ص 91 مصنفہ مرزا غلام۔ (ازالہ) ۔ اس قسم کی تشبہیات سے یہ نکالنا اور سمجھنا کہ حضور پرنور اور حضرت عیسیٰ کی توفی بالکل یکساں اور ہم رنگ ہے کم عقلی اور عربی زبان سے ناواقفی کی دلیل ہے بخاری شریف کی حدیث کے الفاظ یہ ہیں۔ فاقول کما قال العبد الصالح، وکنت علیھم شیھدامادمت فیھم فلما توفتنی کنت انت الرقیب علیہم۔ بخاری شریف) ۔ میں قیامت کے دن اسی طرح کہوں گا جس طرح خدا کے نیک بندہ عیسیٰ نے کہا۔ حضور پرنور نے اس حدیث میں اپنے ایک قول کو حضرت عیسیٰ کے ایک قوم کے ساتھ تشبیہ دی ہے اپنی توفی کو حضرت عیسیٰ کی توفی کے ساتھ تشبیہ نہیں دی تاکہ یہ لازم آئے کہ دونوں کی توفی ایک قسم کی تھی۔ 2۔ حدیث میں مشرکین مکہ ایک درخت پر ہتھیار لٹکایا کرتے تھے اور اس درخت کا نام ذات انواط تھا صحابہ نے ایک مرتبہ عرض کیا یارسول اللہ ہمارے لیے بھی ایک ذات انواط مقرر کردیجئے جیسا کہ ان کے یہاں ہے اس پر نبی نے ارشاد فرمایا، ھذا کما قال قوم موسیٰ اجعل لنا الھا کمالھم الھۃ۔ یعنی تمہاری یہ درخواست تو ایسی ہے جیسے قوم موسیٰ نے بتوں کو دیکھ کر یہ درخواست کی تھی کہ اے موسیٰ ہمارے لیے بھی ایک خدا تجویز کردیجئے جیسے ان بتوں پرستوں کے لیے خدا ہیں کیا اس تشبیہ سے کسی مسلمان کو ادنی درجہ کا یہ بھی وہم و گمان ہوسکتا ہے کہ معاذ اللہ صحابہ کرام نے بھی بنی اسرائیل کی طرح بت پرستی کی درخواست کی تھی حاشا وکلا ومعاذ اللہ یہ تشبیہ محض قول میں تھی کہ جس طرح بنی اسرائیل نے بت پرستوں کو دیکھ کر یہ کہا کہ اجعل لنا۔ اسی طرح تم نے مشرکین کے درخت کو دیکھ کر یہ کہا اجعل لنا ذات انواط۔ 3۔ قرآن کریم میں ہے کما بدانا اول خلق نعید کما بداکم تعودون۔ آیت۔ یعنی جس طرح ہم نے تم کو پہلی بار پیدا کیا اسی طرح تم کو دوبارہ پیدا کریں گے پہلی مرتبہ اللہ نے ماں باپ کے ذریعہ پیدا کیا تو کیا قیامت کے دن دوبارہ پیدائش بھی اسی طرح ماں باپ کے ذریعہ ہوگی کہا جاتا ہے کہ زید مثل شیر کے ہے اور جس طرح وہ میرا بھائی ہے اسی طرح میں بھی اس کا بھائی ہوں کیا ان تشبیہات سے کوئی ادنی عقل والا یہ سمجھتا ہے کہ دونوں بھائیوں کی ولادت اور وفات یکساں اور ہم رنگ ہے تشبیہ میں ادنی مماثلت کافی ہوتی ہے پوری مطابقت اور مساوات ضروری نہیں خود مرزا صاحب ازالۃ الاوہام کے حاشیہ میں لکھتے ہیں تشبیہات میں پوری تطبقی کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ بسا اوقات ایک ادنی مماثلت کی وجہ سے بلکہ ایک جز میں مشارکت کی باعث ایک چیز کا نام دوسری چیز پر اطلاق کردیا جاتا ہے دیکھوازالۃ الاوہام ص 72 طبع اول۔ اسی طرح حدیث میں نبی کریم کا مقصود اس تشبیہ سے یہ ہے کہ جس طرح عیسیٰ رفع جسمانی کی بناء پر اپنی قوم سے جدا ہوگئے اور ان کی قوم نے ان کی عدم موجودگی میں جو گمراہی پھیلائی وہ اس سے بالکل بری ہیں اسی طرح حضور پرنور بھی اپنی وفات کے بعد لوگوں سے جدا ہوگئے اور آپ کو معلوم نہیں کہ لوگوں نے آپ کی عدم موجودگی میں کیا کیا آپ اس سے بری اور بےتعلق ہیں۔ الحمدللہ آج بروز چہار شنبہ بوقت ساڑھے چار بجے 16 ذی الحجہ کو سورة مائدہ کی تفسیر سے فراغت حاصل ہوئی۔ الحمدللہ الذی بنعمتہ تتم الصالحات ولہ الحمد اولا وآخر سبحان ربک رب العزت عمایصفون وسلام علی المرسلین والحمدللہ رب العالمین و صلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ سیدنا مولانا محمد وعلی و اصحابہ وازواجہ وذریاتہ اجمعین وعلینا معھم یا ارحم الراحمین۔
Top