Maarif-ul-Quran - Al-Maaida : 33
اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْۤا اَوْ یُصَلَّبُوْۤا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ١ؕ ذٰلِكَ لَهُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌۙ
اِنَّمَا : یہی جَزٰٓؤُا : سزا الَّذِيْنَ : جو لوگ يُحَارِبُوْنَ : جنگ کرتے ہیں اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول وَ : اور يَسْعَوْنَ : سعی کرتے ہیں فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں فَسَادًا : فساد کرنے اَنْ يُّقَتَّلُوْٓا : کہ وہ قتل کیے جائیں اَوْ : یا يُصَلَّبُوْٓا : وہ سولی دئیے جائیں اَوْ : یا تُقَطَّعَ : کاٹے جائیں اَيْدِيْهِمْ : ان کے ہاتھ وَاَرْجُلُهُمْ : اور ان کے پاؤں مِّنْ : سے خِلَافٍ : ایکدوسرے کے مخالف سے اَوْ يُنْفَوْا : یا، ملک بدر کردئیے جائیں مِنَ الْاَرْضِ : ملک سے ذٰلِكَ : یہ لَهُمْ : ان کے لیے خِزْيٌ : رسوائی فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَلَهُمْ : اور ان کے لیے فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت میں عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
جو لوگ خدا اور اس کے رسول سے لڑائی کریں اور ملک میں فساد کو دوڑتے پھریں انکی یہی سزا ہے کہ قتل کردیے جائیں یا سولی چڑھا دیے جائیں یا ان کے ایک ایک طرف کے ہاتھ اور ایک ایک طرف کے پاؤں کاٹ دیے جائیں یا ملک سے نکال دیے جائیں یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لئے بڑا (بھاری) عذاب (تیّار) ہے۔
حکم دوازدہم، حد قطع طریق۔ قال تعالی، انما جزو الذین یحاربون اللہ ورسولہ۔۔۔ الی۔۔۔ رحیم۔ آیت۔ ربط) گذشتہ آیت میں فساد فی الارض اور قتل ناحق کی شناعت بیان فرمائی چونکہ فساد کی ایک صورت قطع طریق یعنی رہزنی اور ڈکیتی بھی ہے اس لیے اب اس آیت میں سارق (چور) کی سزا کو بیان کرتے ہیں جو اسی حکم کے سابق کا تتمہ اور تکملہ ہے کیونکہ چوری بھی ایک قسم کا فساد ہے جزایں نیست کہ سزا ان لوگوں کی جو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں یعنی شریعت کا مقابلہ کرتے ہیں اور اس کے احکام کی علانیہ مخالفت کرتے ہیں اور زمین میں بارادہ فساد دوڑتے پھر تے ہیں یعنی قتل اور قطع طریق کرتے پھرتے ہیں ایسے لوگوں کی سزا یہی ہے کہ قتل کیے جائیں یا سولی دیے جائیں یا ان کے ہاتھ اور مخالف جانب کے پاؤں کاٹے جائیں یعنی دایاں ہاتھ اور بایاں پیر یا جلاوطن کردیے جائیں جمہور علماء کا قول ہے کہ یہ آیت رہزنوں اور ڈاکوؤں کے متعلق ہے خواہ مسلمان ہوں یا کافر اور الذین یحاربون میں محاربہ سے رہزنی مراد ہے اور بعض علماء کا قول یہ ہے کہ آیت مرتدین کے بارے میں نازل ہوئی اور آیت میں محاربہ سے ارتداد مراد ہے۔ اور ان یقتلوا وایصلبو۔۔۔ الی۔۔۔ الارض۔ آیت۔ میں جو لفظ او وارد ہوا ہے وہ صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت کے نزدیک تخیر کے لیے ہے کہ امام کو اختیار ہے کہ ان چارسزاؤں میں سے بلحاظ نوعیت جرم جون سی سزا مناسب سمجھے دے اور جمہور علماء کے نزدیک او تنویع اور تقسیم کے لیے ہے یعنی مختلف حالات میں اختلاف احکام کے لیے ہے اور مطلب یہ ہے کہ یہ سزائیں جرائم پر منقسم ہیں جس نوع کے جرم کا ارتکاب کیا ہے اسی نوع کی سزا ہوگی مثلا اگر کسی نے صرف کسی کو قتل کیا ہے تو اس کی سزا صرف قتل ہوگی اور اگر قتل کے ساتھ مال بھی لوٹا ہے تو وہ قتل بھی کیا جائے گا اور سولی بھی دیا جائے گا یعنی قتل کرکے عبرت کے لیے سولی پر بھی لٹکا دیا جائے گا اور اگر صرف مال لوٹا ہے تو صرف ایک طرف کا ہاتھ اور دوسری طرف کا پیر کاٹ کر چھوڑ دیا جائے گا اور اگر صرف راہ روؤں کو دھمکایا ہے تو اس کو جلاوطن کردیا جائے گا جیسا کہ امام شافعی کے نزدیک ینفوا من الارض سے جلاوطنی مراد ہے اور امام اعظم کے نزدیک ینفوا من الارض سے قید اور حبس مراد ہے کیونکہ ان لوگوں کو اگر مسلمانوں کے کسی دوسرے شہر کی طرف بھیج دیا گیا تو وہاں کے مسلمانوں کو ایذاء پہنچائیں گے اور اگر کفار کے ملک بھیج دیا جائے تو مرتد ہونے کا اندیشہ ہے۔ یہ حدیں اور سزائیں ان کے لیے دنیا میں زلت اور رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے بڑا عذاب ہے مگر جو لوگ تمہارے پکڑنے اور گرفتار کرنے سے پہلے ہی اپنے گناہوں سے توبہ کرلیں تو خوب جان لو کہ اللہ اپنے حقوق کو معاف کرنے والا ہے اور مہربان ہے باقی حقوق عباد بغیر بندوں کے معاف کرنے کے ساقط نہیں ہوتے مطلب یہ ہے کہ اگر گرفتاری سے پہلے توبہ کرلیں تو حد جو کہ اللہ کا حق ہے وہ تو معاف ہوجائے گا اور حد ان سے ساقط ہوجائے گی البتہ حق العبد باقی رہے گا پس اگر مال لیا ہے تو اس کا ضمان دینا پڑے گا اور اگر کسی کی جان لی ہے توقصاص لازم ہوگا مگر اس ضمان اور قصاص معاف کرنے کا حق صاحب مال اور ولی مقتول کو حاصل ہوگا اور ولی مقتول اگر اس کو قتل کرے تو وہ قتل بطور قصاص کے ہوگا نہ کہ بطور حد خوب سمجھ لو۔ تنبیہ۔ اس حد کے سوا اور باقی حدود مثلا حد زنا اور حد خمر اور حدسرقہ اور حدقذف تو بہ سے ساقط نہیں ہوتے۔ (کذافی البنایہ) ۔ امام ابوبکر رازی اور امام فخرالدین رازی فرماتے ہیں کہ سلف اور خلف کا قول یہ ہے کہ یہ آیت قطاع الطریق یعنی رہزنوں کے بارے میں نازل ہوئی خواہ وہ فاسق وفاجر مسلمان ہوں یا کافر اور بعض علماء جیسے امام بخاری اس طرف گئے ہیں کیہ یہ آیت مرتدین کے بارے میں نازل ہوئی مگر یہ قول شاذ ہے اور پہلا قول ہی قول صحیح ہے اس لیے کہ قتل مرتد ہر حال میں واجب ہے محاربہ اور اظہار فساد پر موقوف نہیں دوم یہ کہ مرتد کا قتل ہی واجب ہے مرتد کا فقط ہاتھ کاٹ دینا یا اس کو جلاوطن کردینا کافی نہیں سوم یہ کہ آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ حد اس وقت ساقط ہوجاتی ہے جب کہ مجرم گرفتار ہونے سے پہلے توبہ کرلے اور اگر گرفتاری کے بعد توبہ کرے تو حد ساقط نہ ہوگی سو یہ حکم قاطع الطریق یعنی رہزن کا تو ہے مگر مرتد کا یہ حکم نہیں اس لیے کہ مرتد کی حد ہر حال میں توبہ سے ساقط ہوجاتی ہے مرتد چاہیگرفتاری سے قبل توبہ کرے یا بعد گرفتاری کے اس پر حد جاری نہ ہوگی، چہارم یہ کہ مرتد کا حکم قتل ہے نہ کہ صلب (سولی) پنجم یہ کہ آیت کے الفاظ عام ہیں جو ارتداد اور ہزنی اور ناحق قتل سب کو شامل ہیں غایت مافی الباب اگر یہ مان بھی لیاجائے کہ آیت مرتدین کے بارے میں نازل ہوئی تو اعتبار عموم الفاط کا ہوگا نہ کہ خصوص مورد کا (تفسیر کبیر ص 407 ج 3) ۔
Top