Maarif-ul-Quran - Al-Maaida : 68
قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰى شَیْءٍ حَتّٰى تُقِیْمُوا التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ١ؕ وَ لَیَزِیْدَنَّ كَثِیْرًا مِّنْهُمْ مَّاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ طُغْیَانًا وَّ كُفْرًا١ۚ فَلَا تَاْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ : اہل کتاب لَسْتُمْ : تم نہیں ہو عَلٰي شَيْءٍ : کسی چیز پر (کچھ بھی) حَتّٰي : جب تک تُقِيْمُوا : تم قائم کرو التَّوْرٰىةَ : توریت وَالْاِنْجِيْلَ : اور انجیل وَمَآ : اور جو اُنْزِلَ : نازل کیا گیا اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف (تم پر) مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب وَلَيَزِيْدَنَّ : اور ضرور بڑھ جائے گی كَثِيْرًا : اکثر مِّنْهُمْ : ان سے مَّآ اُنْزِلَ : جو نازل کیا گیا اِلَيْكَ : آپ کی طرف ( آپ پر) مِنْ رَّبِّكَ : آپ کے رب کی طرف سے طُغْيَانًا : سرکشی وَّكُفْرًا : اور کفر فَلَا تَاْسَ : تو افسوس نہ کریں عَلَي : پر الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ : قوم کفار
کہو کہ اے اہل کتاب ! جب تک تم تورات اور انجیل کو اور جو (اور کتابیں) تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوئی ان کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے اور (یہ قرآن) جو تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے اس سے ان میں سے اکثر کی سرکشی اور کفر اور بڑھے گا۔ تو تم قوم کفار پر افسوس نہ کرو۔
ابطال باطل۔ قال تعالی، یا اھل الکتاب لستم۔۔۔ الی۔۔۔ یحزنون۔ ربط) ۔ تبلیغ کارکن اول اول احقاق حق ہے اور رکن ثانی ابطال باطل ہے گذشتہ آیات میں اجمالا احقاق حق تھا اب اس کے بعد آیت اجمالا ابطال باطل کا بیان ہے پھر آئندہ آیات میں نصاری کے عقیدہ فاسدہ کا تفصیلا ابطال ہے اور مقصود اہل کتاب کو اسلام میں داخل ہونے کی ترغیب ہے کہ باطل کو چھوڑ کر حق کا اتباع کریں آپ ان یہود ونصاری سے یہ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب تم جو اپنے آپ کو دین کے بارے میں راہ حق اور ہدایت پر سمجھتے ہو خوب جان لوتم کسی راہ پر نہیں ہو چونکہ تم حق سے منحرف ہوچکے ہو اس لیے تم بمنزلہ بےراہ کے ہو تمہارا مذہب بالکل ہیچ ہے جس طریقہ پر تم ہو اس کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کوئی چیز ہے لہذا یہی کہا جائے گا کہ تم کسی چیز پر بھی نہیں جب تک تم توریت اور انجیل کو قائم نہ کرو اور اس کتاب کو قائم نہ کرو جو بواسطہ محمد رسول اللہ تمہاری طرف تمہارے پروردگار کی طرف نازل کی گئی ہے یعنی قرآن کریم مطلب یہ ہے کہ جب تک تم توریت اور انجیل اور صحف انبیاء کے مطابق عمل نہ کرو گے اور ان کی ہدایت کے مطابق نبی آخرالزمان پر ایمان نہ لاؤ گے اور اس کتاب کا اتباع نہ کرو گے جو نبی آخرالزمان پر نازل ہوئی تو حقیقت میں تمہارا ایمان کچھ بھی نہیں نہ توریت وانجیل پر ہے اور نہ موسیٰ اور عیسیٰ ہی پر جیسا کہ رجم اور قصاص کے بارے میں گذرچکا اور ان لوگوں کو راہ راست پر آنا بہت دشوار ہے حسد اور عناد کی وجہ سے ان کی فطرت اس درجہ خراب ہوچکی ہے البتہ وہ کلام الٰہی جو تیرے پروردگار کی طرف سے تیری جانب اتارا گیا ہے وہ ان میں سے بہتوں کی سرکشی اور کفر کو پہلے سے اور زیادہ کردیتا ہے پس آپ ان معاندین اور منکرین کے ایمان نہ لانے پر کچھ افسوس نہ کیجئے کیونکہ ان کے کفر کا ضرر انہی پر ہے آپ ان کے کفر وعناد سے تنگ دل ہوکرفرائض کوئی کمی نہ کیجئے۔ قانون نجات۔ چونکہ یہود اور نصاری کو یہ خیال تھا کہ ہم لوگوں کے سوا اور کوئی نجات نہ پائے گا اس لیے اللہ ان کے اس خیال باطل کو رد فرماتے ہیں اور نجات اخروی کا ایک عام قانون جو اہل کتاب اور تمام اقوام عالم کو حاوی اور شامل ہے وہ بتلاتے ہیں وہ قانون نجات یہ ہے کہ جو شخص صحیح طور پر اللہ پر اور قیامت پر ایمان لائے اور نیک کام کرے نجات اخروی اس کو نصیب ہوجائے گی اور یہ قانون نہایت معقول اور منصفانہ ہے دنیا میں نجات کا یہی طریقہ ہے کہ حکومت کو مانو اور حلف وفاداری اٹھاؤ اور قانون کے مطابق عمل کرو اور اس معقول قانون سے نصاری کا کفارہ مزعومہ خود بخود باطل ہوجائے گا بجائے مجرم کے بادشاہ کے اکلوتے بیٹے کو صلیب پر چڑھا دینے سے نجات کا عقیدہ رکھنا ایک احمقانہ اور مجنونانہ خیال ہے چناچہ فرماتے ہیں تحقیق نجات اخروی کا قانون ہمارے یہاں یہ ہے کہ جو لوگ ظاہری طور پر مسلمان کہلاتے ہیں اور ایمان کے مدعی ہیں جیسے منافقین اور جو یہودی ہیں اور جو لوگ صابی ہیں یعنی ستارہ پرست ہیں اور جو لوگ نصرانی ہیں یا اور کوئی مذہب رکھتا ہو ان میں سے کسی کے ایمان کا اعتبار نہیں صرف وہ لوگ دعوائے ایمان میں صادق ہیں جو قواعد شریعت کے مطابق اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان لے آئیں اور نیک عمل کرین پس ایسے لوگوں کے ایمان کا اعتبار ہے ایسے ہی لوگوں کو اخروی نجات نصیب ہوگی اور آخرت میں ان پر کسی قسم کا خوف نہ ہوگا اور نہ غم ہوگا مطلب یہ ہے کہ نجات اخروی اور حقیقی فلاح اور دائمی کامیابی کا معار ایمان اور عمل صالح ہے پس جو قوم اپنے مقرب الٰہی یا کامیاب ہونے کا دعوی کرے اس کو اس کسوٹی پر کس کر دیکھا جائے گا لہذا جب تک کوئی خداوند قدوس کے وجود باجود اور اس کی وحدانیت اور اس کے صفات کمال اور اس کے احکام اور قوانین اور اس کے سفراء ونائبین یعنی انبیاء ومرسلین پر اور روز جزاء پر ایمان نہ لائے اور اس کے حکم کے مطابق نیک کام نہ کرے اس وقت تک نعیم مقیم اور رضاء خداوندی اور فلاح ابدی سے ہم کنار ہونا ناممکن اور محال ہے اور یہ تمام چیزیں ایمان باللہ کے تحت داخل ہیں فرض کرو کہ ایک روشن خیال بادشاہ کو تو مانتا ہے مگر حکومت کے وزراء اور سفراء کی تکذیب اور توہین کرتا ہے تو کیا یہ حکومت کی تکذیب اور توہین نہیں اسی طرح سمجھ لو کہ جو شخص کسی نبی برحق کی تکذیب اور توہین کرتا ہے تو وہ درحقیقت خداوند احکم الحاکمین کی تکذیب وتوہین کرتا ہے جس نے اس نبی کو اپنا خلیفہ اور سفیر اور نائب مقرر کرکے بھیجا ہے کماقال تعالی، فانھم لایکذبونک۔۔۔ الی۔۔ یجحدون۔ آیت۔ سورة انعام رکوع 4۔ یا فرض کرو کہ کوئی شخص سابق اور قدیم دستور اور آئین کو تو مانتا ہے اور اس کو قابل عمل سمجھتا ہے مگر حکومت کی طرف سے جو فی الوقت قانون اور دستور جاری کیا گیا اس کو نہیں مانتا اور نہ اسے قابل عمل سمجھتا ہے تو ایسا شخص بلاشبہ حکومت کی نظر میں باغی اور مجرم ہے اور اسی طرح منسوخ شریعت پر ایمان لانا اور اسی کو قابل عمل سمجھنا اخروی نجات کے لیے کافی نہیں حکم ناسخ کے بعد حکم منسوخ پر عمل کرنا صریح جہالت اور حماقت ہے خصوصا جب کہ توریت اور انجیل میں نبی آخرالزمان کی بشارت اور اس پر ایمان لانے کی تاکید اکید مذکور ہے تو یہ کہنا کہ توریت وانجیل پر قائم ہیں بالکل غلط ہے اس لیے کہ توریت اور انجیل پر ایمان لانے میں نبی آخرالزمان پر بھی ایمان لانا داخل ہے۔ اور اس آیت کی پوری تفسیر سورة بقرہ میں گذرچ کی ہے وہاں دیکھ لی جائے۔ فائدہ) ۔ صائبین کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے بعض کہتے ہیں یہ ستاہ پرستوں کا گروہ ہے اور بعض کہتے ہیں کہ صائبین سے بےدین لوگ مراد ہیں اور محققین کا قول یہ ہے کہ صائبین ایک فرقہ ہے جو روحانیت کا قائل ہے اور کواکب اور نجوم کی ارواح کو مدیر عالم مانتا ہے اور انبیاء کرام اور نبوت کا بالکل منکر ہے صائبین کے مقابلہ میں حنفاء کی جماعت ہے اور حضرت ابراہیم حنیف تھے ان کی بعثت کے وقت نمرود کی قوم صابی العقیدہ تھی جن کا ابراہیم (علیہ السلام) نے رد فرمایا۔
Top