Maarif-ul-Quran - Al-Maaida : 87
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تُحَرِّمُوْا : نہ حرام ٹھہراؤ طَيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزیں مَآ اَحَلَّ : جو حلال کیں اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لیے وَ : اور لَا تَعْتَدُوْا : حد سے نہ بڑھو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا : نہیں يُحِبُّ : پسند کرتا الْمُعْتَدِيْنَ : حد سے بڑھنے والے
مومنو ! جو پاکیزہ چیزیں خدا نے تمہارے لئے حلال کی ہیں ان کو حرام نہ کرو اور حد سے نہ بڑھو کہ خدا حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔
حکم پانزدہم ممانعت از رہبانیت۔ قال تعالی، یا ایھا الذین آمنوا۔۔۔ الی۔۔ مومنون۔ شروع سورت میں ایفاء عہود کی تاکید کے بعد احکام فرعیہ اور حلال و حرام کو بیان فرمایا پھر خاص خاص مناسبتوں سے یہود ونصاری کے عقائد اور اعمال کے ذکر کا سلسلہ شروع ہوگیا اب پھر اصل موضوع کی طرف عود فرماتے ہیں اور چونکہ قریبی آیتوں میں نصاری کی تعریف میں یہ فرمایا کہ ان میں کچھ رہبان بھی ہیں اور رہبانیت لذات دنیاوی کے ترک کا نام ہے خواہ وہ حلال ہوں یا حرام اس لیے اس احتمال سے کہ مبادا مسلمان۔ رہبانیت کو اچھی چیز نہ سمجھنے لگیں اس آیت میں اللہ کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام سمجھنے کی ممانعت فرماتے ہیں اور یہ حکم دیتے ہیں کہ جو چیزیں خدا نے حلال کی ہیں ان کو کھاؤ ور دل میں خوف رکھو اہل کتاب کی طرح دین میں غلومت کرو نصاری کی رہبانیت بھی دین میں غلو اور افراط کی ایک خاص صورت ہے دور تک اسی طرح احکام کا سلسلہ چلا گیا چناچہ فرماتے ہیں اے ایمان والو تم قسم اور عہد کے ذریعہ اپنے اوپر ان پاکیزہ چیزوں کو حرام مت کرو جو اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہیں نصاری کی طرح رہبانیت اختیار کرنا اور حلال اور پاکیزہ چیزوں کو ترک کردینا عنداللہ کوئی اچھی چیز نہیں یہ دین میں غلو اور افراط ہے جو اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ ہے اور حدود شریعت سے آگے نہ بڑھو کہ یہود کی طرح دنیاوی لذات اور شہوات اور حرام خوری میں منہمک ہوجاؤ، شہوات ولذات میں انہماک یہ بھی غلو ہے اور تفریط ہے تحقیق اللہ حد سے گذرنے والوں کو پسند نہیں کرتا اللہ کے نزدیک اعتدال اور توسط پسند یدہ ہے اور اللہ نے تم کو جو حلال اور پاکیزہ چیزیں عطا کی ہیں جن میں حرمت کا شبہ نہیں ان میں سے کھاؤ اور اعتدال کے ساتھ ان کو استعمال کرو نہ حلال سے حرام کی طرف دوڑو اور نہ حلال میں اتنے منہمکم ہوجا ؤ کہ اللہ سے غافل ہوجاؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو جس پر تم ایمان رکھتے ہو اس کے حکم اور رضاء کے خلاف کوئی کام مت کرو۔ شان نزول) ۔ ان آیات کا شان نزول یہ ہے کہ ایک دن جناب رسول اللہ ﷺ نے عثمان بن مظعون کے گھر میں لوگوں کو نصیحت کی اور قیامت کے کچھ احوال بیان کیے لوگ آپ کے اس وعظ سے نہایت متاثر ہوئے اور رونے لگے اس کے بعد اکابر صحابہ میں سے دس آدمی، یعنی ابوبکر، حضرت علی، عبداللہ بن مسعود، اور عبداللہ بن عمر اور ابوذر غفاری اور سالم مولی ابی حذیفہ، اور مقداد بن اسود اور سلمان فارسی، معقل بن مقرن، یہ سب عثمان بن مظعون، ؓ اجمعین کے گھر میں داخل ہوئے اور سب نے اس پر اتفاق کیا کہ دن بھر روزہ اور رات بھر نماز ادا کریں گے اور فرش پر سوجائیں گے اور گوشت اور چربی نہیں کھائیں گے اور نہ عورتوں اور خوشبو کے قریب جائیں گے اور ٹاٹ پہنا کریں گے اور دنیا کو بالکل ترک کردیں گے اور اپنی شرمگاہوں کو کاٹ ڈالیں گے اور راہب بن جائیں گے اور ان باتوں پر قسمیں کھائیں گے اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں اور نبی نے ان لوگوں کو بلا کر یہ فرمایا کہ مجھ کو یہ حکم نہیں دیا گیا میں یہودیت اور نصرانیت دے کر نہیں بھیجا گیا میں تو ملت حنیفہ سمحہ یعنی ملت ابراہیمیہ دے کر بھیجا گیا ہوں جہاں نہایت سہل اور آسان ہے تحقیق تم پر تمہارے نفس کا بھی حق ہے خدا کی قسم میں تم سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے والا ہوں لیکن روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں اور رات کو عبادت بھی کرتا ہوں اور اپنی عورتوں کے پاس بھی جاتا ہوں اور نکاح بھی کرتا ہوں جو میری سنت سے روگردانی کرے وہ میری امت سے نہیں (تفسیر قرطبی ص 260 ج 6، تفسیر ابن کثیر۔ ص 87 ج 2) ۔ فائدہ۔ کسی حلال چیز کو اس نیت سے ترک کردینا کہ اس ترک سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوگا یہ رہبانیت ہے جس کو اسلام نے بدعت اور ممنوع قرار دیا ہے اور اگر کسی حلال چیز کو بعض اوقات کسی جسمانی یا نفسانی علاج کی خاطر ترک کردیا جائے تو یہ مباح ہے داخل بدعت نہیں جیسے کسی طبیب جسمانی یاروحانی کے کہنے سے بغرض علاج اگر گوشت وغیرہ سے پرہیز کرلیاجائے تو یہ جائز ہے۔
Top