بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - Adh-Dhaariyat : 1
وَ الذّٰرِیٰتِ ذَرْوًاۙ
وَالذّٰرِيٰتِ : قسم ہے پراگندہ کرنیوالی ( ہواؤں) ذَرْوًا : اڑاکر
بکھیرنے والیوں کی قسم جو اڑا کر بکھیر دیتی ہیں
اعلان وقوع قیامت وتنبیہ وتوبیخ برتردد و انکار حشرونشر : قال اللہ تعالیٰ : (آیت) ” والذریت ذروا ...... الی ...... کنتم بہ تستعجلون “۔ (ربط) سورة ق کا مضمون قیامت اور حشر ونشر کے ثابت کرنے پر مشتمل تھا اور اسی ضمن میں کچھ احوال قیامت حساب و کتاب کی پیشی مجرمین کی سزا اور مطیعین پر انعامات کا ذکر تھا اب اس سورة پاک میں وقوع قیامت کا اعلان فرمایا جارہا ہے اور ہواؤں، بادلوں ستاروں اور وہ فرشتے جو نظام کائنات پر مامور ہیں ان کی قسم کھا کر ایک طرف اس اعلان کے گویا دلائل پیش کئے جارہے ہیں کہ جس ذات کے قبضہ قدرت میں یہ عظیم کارخانہ چل رہا ہے وہی ذات قادر مطلق جب چاہے، اس نظام عالم کو درہم برہم کرکے قیامت برپا کر دے تو دوسری جانب احوال قیامت کی ہیبت و عظمت بھی مخاطبین کے ذہن میں قائم کی جارہی ہے اور ان کی غفلت و لاپرواہی پر توبیخ وملامت بھی ہے، ارشاد فرمایا۔ قسم ہے ان ہواؤں کی جو بکھیرتی ہیں اڑا کر پھر قسم ہے ان کی جو اٹھانے والی ہیں بوجھ کو پھر قسم ہے ان کی جو چلنے والی ہیں نرمی سے پھر قسم ہے ان کی تو تقسیم کرنے والی ہیں از روئے حکم بیشک بس یہی ہے کہ جو وعدہ تم سے کیا جارہا ہے وہ یقیناً سچا ہو کر رہے گا کہ دنیا کی زندگی عارضی ہے اور اس حیات دنیوی کے بعد دوبارہ قیامت میں اللہ جل شانہ کے روبرو حاضر ہونا ہے اور بیشک انصاف ہونا ہے کہ نہ کسی کی کوئی نیکی ضائع ہوگی اور نہ بدی کی سزا سے بچ سکے گا اور ہر ظالم خواہ اس نے دوسرے پر ظلم کیا ہو یا اپنی ذات پر ظلم کا بدلہ بہرحال اس پر ہوگا قسم ہے آسمان کی جو جال والا ہے کہ ستاروں کا جال اس پر گھرا ہوا ہے جو آسمان پر رونق کا باعث ہونے کے علاوہ خداوند عالم کی عظیم قدرت کی بہترین نشانی بھی ہے ان دلائل اور نشانیوں کے باوجود بھی حق سے انحراف و انکار کرنے والے لوگو ! بیشک تم تو ایک جھگڑے کی بات میں پڑے ہوئے ہو اس سے وہی باز رہے گا جو اس سے پھیر دیا گیا اور اپنی بدنصیبی کی وجہ سے اس خیر وسعادت کی راہ کو قبول کرنے سے محروم رہا، تو ظاہر ہے جو سعادت وخیر سے دھتکار دیا گیا اس کے حصہ میں اب کہاں سے ہدایت وسعادت حاصل ہوسکتی ہے ہلاک ہوں اٹکل وتخمین لگانے والے لوگ جو اپنی غفلت وجہالت میں بھٹک رہے ہیں پوچھتے ہیں تمسخر اور مذاق کے انداز میں بتائیے تو کب ہے وہ جزاء کا دن ایسے احمقانہ سوال کرنے والوں کو جواب دے دو جزاء کا دن وہ ہوگا جس دن وہ جہنم کی آگ پر آزمائے جائیں گے اور اوندھے منہ آگ پر ان کو ڈالا جارہا ہوگا۔ (آیت) ” یوم یسحبون فی النار علی وجوھھم ذوقوا مس سقر “۔ اس وقت کہا جاتا ہوگا چکھ لو مزہ اپنی شرارت وخباثت کا یہی تو ہے وہ عذاب یا جزاء کا دن جس کی تم جلدی کررہے تھے اور پوچھ رہے تھے کہ کب آئے گا وہ انصاف کا دن جیسا کہ ان کو اس دن کا بہت انتظار ہے اور اس کی تاخیر انکو بھاری معلوم ہورہی ہے تو جب عذاب ان پر مسلط ہوگا تو کہا جاتا ہوگا کہ بس اب دیکھ لو اور یقین کرلو بلاشبہ ان کے استہزاء و تمسخر کا ایسا ہی جواب قدرت کی طرف سے ہونا چاہئے سو ایسے منکرین اور گستاخ لوگوں کو ہماری طرف سے سب کچھ سنا دیا جائے۔ کلمات قسم کی تشریح : (آیت) ” والذریت “۔ الخ۔ میں واؤ قسمیہ ہے جیسے (آیت) ” والصآفات “۔ وغیرہ میں قسم کے معنی ہیں لفظ ذاریات جمع ذاریۃ کی ہے ذروا کے معنی بکھیرنے کے ہیں تو ذاریات اہل عرب کے یہاں ان ہواؤں کو کہا جاتا ہے جو غبار اور ذرات بکھیرتی ہیں گویا تیز ہوائیں اور آندھیاں اس کا مصداق ہوئیں پھر ان سے بادل بنتے ہیں جن میں اللہ کی قدرت سے پانی کے ذخائر جمع ہوتے ہیں اور طرح یہ ہوائیں ان بادلوں کو لئے پھرتی ہیں اور بوجھ اٹھائے ہوتی ہیں جب پانی برسنے کا وقت قریب آتا ہے تو ان ہواؤں میں نرمی آجاتی ہے پھر اللہ کے حکم سے جہاں جس قدر بارش کا حصہ ہوتا ہے تو وہ زمین کے اس حصہ کو تقسیم ہوجاتا ہے تو اس لحاظ سے یہ ہوائیں جن کی تحریک سے یہ بادل حرکت میں آئے اور برسے گویا تقسیم کرنے والی ہوئیں۔ یہ تفسیر ان ائمہ مفسرین کے قول پر ہے جن کی رائے یہ ہے کہ یہ چاروں یعنی ذاریات، حاملات، جاریات اور مقسمات ہواؤں ہی کی صفات ہیں لیکن بعض ائمہ مفسرین ذاریات سے ہوائیں مراد لیتے ہیں اور حاملات سے بادل جاریات سے کشتیاں اور بعض ستارے اور مقسمات سے فرشتے مراد لیتے ہیں۔ سعید بن المسیب (رح) بیان کرتے ہیں ایک شخص حضرت عمرفاروق ؓ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا اے امیر ال مومنین مجھے بتائیے کہ (آیت) ” والذریت ذروا “۔ کیا ہے ؟ فرمایا یہ ہوائیں ہیں اور اگر میں رسول اللہ ﷺ سے یہ نہ سنتا کبھی نہ کہتا پھر پوچھا فرمائیے (آیت) ” حاملات وقرا “۔ کیا ہے ؟ فرمایا بادل ہیں اور اگر میں رسول اللہ ﷺ سے نہ سنتا کبھی نہ کہتا پھر سوال کیا کہ (آیت) ” جاریات یسرا “۔ کیا ہے جواب دیا یہ کشتیاں ہیں جو سمندر میں بڑی سہولت اور آسمانی سے تیرتی ہیں اور حسب سابق اس کو بھی رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کیا پھر کہا اچھا (آیت) ” فالمقسمات “ کے کیا معنی ہیں فرمایا یہ ملائکہ ہیں جو اللہ کی مخلوق پر اس کا رزق تقسیم کرنے والے یا اس کے اوامرواحکام مخلوقات تک پہنچانے والے ہیں تو جمہور مفسرین کے مشہور قول کے مطابق الجاریات سمندر میں تیرنے والی کشتیاں اور جہاز ہیں اور حضرت علی ؓ بن ابی طالب کی تفسیر میں الجاریات سے مراد ستارے ہیں تو اس لحاظ سے ان آیات میں جن اشیاء کی قسم کھائی گئی وہ عالم زمین سے ہوائیں اور عالم جو سے بادل اور ملکوت السموت سے ستارے اور فرشتے ہوئے اس طرح ان مخلوقات عظیم کا ذکر نہایت ہی لطیف انداز سے ترتی من الادنی الی الاعلی کا نمونہ ہوگیا حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے بھی اسی طرح منقول ہے۔ 1 حاشیہ (تفسیر ابن کثیر، روح المعانی۔ ) مسند بزار میں اس طرح کا مضمون حضرت علی ابی طالب ؓ سے روایت کیا ہے جب کہ وہ کوفہ کے منبر پر خطبہ دے رہے تھے تو ایک شخص نے ان کلمات کی تفسیر دریافت کی اور آپ ؓ نے اسی طرح جواب دیا۔ 2 حاشیہ (بحوالہ تفسیر ابن کثیر) ” ایان “ لغت عربیہ میں زمانہ اور وقت کے سوال کے لئے واضع کیا گیا ہے لیکن اس کا استعمال اس موقعہ پر ہوتا ہے جہاں متکلم کسی چیز کی آمد بعید اور ناقابل تسلیم سمجھتا ہو برخلاف لفظ متی کے کہ وہ مطلق سوال عن الوقت کے لئے استعمال کیا جاتا ہے الغرض ان کے اس سوال میں عناد و انکار قیامت اور یہ کہ جس قیامت کی دھمکی دی جارہی ہے وہ کہاں آئے گی تو اس طبعی شقاوت کے باعث جواب میں تنبیہ اور سختی کا رنگ اختیار کرتے ہوئے فرمایا (آیت) ” یوم ھم علی النار یفتنون “۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس اللہ سرہ العزیز فرماتے ہیں یہ جواب اسی طرز کا ہے جیسے کسی مجرم کے واسطے پھانسی کا حکم ہوجائے مگر وہ احمق باوجود قیام براہین کے محض اس وجہ سے کہ تاریخ نہیں بتلائی گئی تکذیب ہی کئے جائے اور یہی کہتا رہے اچھا وہ دن کب آئے گا چونکہ یہ سوال از راہ تعنت سے اس لئے جواب میں بجائے تاریخ بتلانے کے یہ کہنا بھی نہایت ہی مناسب ہوگا وہ دن اس وقت آئے گا جب تم پھانسی پر لٹکائے جاؤ گے “۔ تو اسی طرح یہاں (آیت) ” ایان یوم الدین “۔ کے جواب میں بھی مناسب ہوا کہ فرمایا جائے (آیت) ” یوم ھم علی النار یفتنون “۔ ان کلمات میں مجرمین پر تنبیہ کے بعد اہل انعام اور مطیعین کے انعام واکرام کا ذکر فرمایا جارہا ہے۔
Top