Maarif-ul-Quran - Adh-Dhaariyat : 24
هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ ضَیْفِ اِبْرٰهِیْمَ الْمُكْرَمِیْنَۘ
هَلْ اَتٰىكَ : کیا آئی تمہارے پاس حَدِيْثُ : بات (خبر) ضَيْفِ اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم کے مہمان الْمُكْرَمِيْنَ : معزز
بھلا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہونچی ہے ؟
تذکرہ مہمانان ابراہیم (علیہ السلام) مشتمل برثواب مصدقین و عقوبت مکذبین : قال اللہ تعالیٰ : (آیت) ” ھل اتک حدیث ...... الی ...... انھم کانوا قوما فسقین “۔ (ربط) گذشتہ آیات میں مومنین ومتقین اور انکے انعامات کا بیان تھا قرآن کریم کا یہ خصوصی طرز بیان ہے کہ ایک فریق کے ذکر کے بعد اس کے بالمقابل فریق کا بھی حال بیان کردیا جائے تاکہ دونوں کا تقابل کرلیا جائے اور اس طرح ذہنی طور پر سامعین کیلئے قبول حق کی رغبت اور کفر ونافرمانی سے نفرت اور ڈر پیدا ہوسکے تو اب ان آیات میں نافرمانوں اور مجرموں کا ذکر ہے کہ خدا کے فرشتے ان پر عذاب لے کر پہنچے اور ان کو اس طرح ایک آن کی آن میں ہلاک کردیا گیا اور ہلاکت بھی ایسی عبرتناک کہ سننے والے سن کر کانپ جائیں، ارشاد فرمایا۔ اے ہمارے پیغمبر ﷺ کیا آپ کو قصہ معلوم ہوا ابراہیم (علیہ السلام) کے مہمانوں کا جو معزز تھے اس لیے کہ وہ اللہ کے فرشتے تھے اور اللہ کے فرشتے (آیت) ” عباد مکرمون “ (اس کے مکرم بندے) ہوتے ہیں یا معزز، بایں معنی کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے مکارم اخلاق کے لحاظ سے انکا اعزاز واکرام فرمایا جب کہ وہ مہمان ان کے پاس پہنچے پھر ان کو سلام کیا ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی جوابا ان کو کہا سلام (کہ تم پر خدا کی سلامتی ہو) پھر غور کرتے ہوئے کہ یہ کون لوگ ہیں کہنے لگے یہ تو انجان لوگ ہیں جن کو میں نہیں پہچان رہا ہوں ممکن ہے کہ یہ بات دل میں کہی ہو، اور ممکن ہے کہ زبان سے کہا ہو، لیکن بحکمت خداوندی فرشتوں نے سن کر سکوت کیا ہو اور یہ واضح نہ کیا ہو کہ ہم فرشتے ہیں، کیونکہ ابھی اس وضاحت کی ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجازت نہ ہوگی پھر ابراہیم (علیہ السلام) اپنے اہل کی طرف چلے اور ایک فربہ بچھڑا بھنا ہوا ان کے سامنے لے کر آئے پھر اس کو ان کے قریب کرکے رکھ دیا جیسے کسی مہمان کے سامنے کھانا رکھ دیا جائے چونکہ وہ فرشتے تھے اور فرشتے کھاتے پیتے نہیں وہ تو نور محض اور مخلوق نوری تھے، جب ابراہیم (علیہ السلام) نے دیکھا کہ کچھ نہیں کھاتے تو بولے کیا آپ لوگ کھاتے نہیں جب اس پر بھی فرشتوں نے کھانا شروع نہ کیا تو پھر دل میں ایک ڈر محسوس کیا انک کی طرف سے کہ آخرت کیا وجہ ہے کہ یہ لوگ باوجودیکہ عزت واکرام کے ساتھ ان کی ضیافت کی جارہی ہے پھر بھی نہیں کھا رہے ہیں کہیں یہ کوئی دشمن تو نہیں، اس زمانہ میں کوئی دشمن ہو کر کسی کے یہاں آتا تو اس کا کچھ کھایا نہیں کرتا تھا کیونکہ کسی کا کھا کر اس کے ساتھ دشمنی کرنا انسانی وقار کے خلاف سمجھتے تھے فرشتے اس ڈر اور خوف کو محسوس کرکے کہنے لگے مت ڈرو ہم تو اللہ کے فرشتے ہیں اس وجہ سے نہیں کھا رہے ہیں نہ کھانے کی وجہ یہ نہیں کہ ہم تمہارے دشمن ہیں بلکہ ہم تو تمہیں ایک بشارت خداوندی سنانے آئے ہیں اور بشارت دی ان کو ایک فرزند کی جو بڑا ہی علم والا ہوگا کیونکہ وہ فرزند اللہ کے علم میں طے تھا کہ پیغمبر ہوں گے اور پیغمبر کا علم اپنے زمانہ میں سب سے بڑھ کر ہوتا ہے اور یہ بشارت حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی پیدائش کی تھی جن کی نسل سے انبیاء بنی اسرائیل پیدا ہوئے تو ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی (سارہ علیہا السلام) جو ان باتوں کو سن رہی تھیں سامنے سے آئی پکارتی ہوئی پھر اپنے چہرہ کو پیٹا اپنے ہاتھ سے اور کہنے لگیں اچھا بڑھیا اور بانجھ اور عجیب ہے کہ اس کے بچہ پیدا ہوگا۔ فرشتوں نے کہا تعجب کی کیا بات ہے خدا کی قدرت اور اس کے امر سے ایسا ہی تمہارے لیے تمہارے رب نے فیصلہ کردیا ہے وہ بیشک بڑا ہی حکمت والا خوب جاننے والا ہے اگرچہ یہ بات اپنی جگہ قابل تعجب ہے لیکن خداوند عالم کی بلند پایہ حکمتوں اور اسکے علم کے پیش نظرنہ اس کی قدرت میں تردد کیا جاسکتا ہے اور نہ اس کی اس حکمت پر کہ بڑھاپے کے زمانہ میں ایک بانجھ کو بچہ دیدے کوئی شبہ ہوسکتا ہے بلکہ اس کی شان علیمی اور حکیمی پر ایمان رکھنے والے ہر فرد کو بلا تردد اور بلاتعجب اس پر یقین کرنا چاہئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فراست نبویہ سے سمجھا کہ فرشتوں کی آمد علاوہ اس بشارت کے کسی اور غرض سے بھی ہے ممکن ہے کہ کچھ آثار ظاہر ہورہے ہوں اور کوئی تعجب نہیں کہ جو فرشتے خدا کی طرف سے ایک مجرم قوم کیلئے اس کا قہر و عذاب لیکر آئے ان پر آثار قہر محسوس کیئے ہوں اور اس سے کچھ طبعی گھبراہٹ بھی ہوئی ہو جس کا بعد میں دور ہونے کا ذکر ہے تو دریافت کیا اچھا پھر بتاؤ کیا اہم بات ہے تمہاری اے بھیجے ہوئے فرشتو ! کہا ہم بھیجے گئے ہیں ایک مجرم قوم یعنی قوم لوط کی طرف تاکہ ہم ان پر برسائیں کنکریاں پتھر کی جن پر علامت ہوگی۔ 1 حاشیہ (بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر کنکریپر نام لکھا ہوا تھا اور وہ اسی پر پڑتی اور اگر ان میں سے بھاگتا تو وہ کنکری اس کا تعاقب کرکے اس کے سر کو پاش پاش کرتی (سورۂ ہود میں وہی تفصیل گزر چکی) (ابن کثیر قرطبی ) آپ کے رب کی طرف سے جو حد سے گزرنے والی قوم کے لئے ہے چناچہ ان بستیوں پر عذاب کا وقت آیا تو حق تعالیٰ فرماتے ہیں تو ہم نے ان بستیوں سے نکال لیا ہر اس شخص کو جو مومنین سے تھا تاکہ ان کو جدا کرنے کے بعد باقی ماندہ مجرمین پر خدا کا عذاب نازل ہو لیکن ہم نے مسلمانوں کا کوئی گھر نہ پایا بجز ایک گھر کے اور چھوڑ دیا ہم نے اپنی نشانی کو بعد میں آنے والے ان لوگوں کے لئے جو درد ناک عذاب سے ڈرتے ہوں جو دردناک عذاب سے ڈرتے ہوں اور اسی طرح موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعہ میں عبرت کا سامان اور ہمارے قہر کی نشانیاں موجود ہیں جب کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو بھیجا فرعون کی طرف ایک واضح حجت اور یدبیضاء اور عصا جیسے معجزات کے ساتھ مگر اس نے مع اپنے ارکان سلطنت کے رو گردانی کی اور کہنے لگا یہ تو جادوگر یا مجنون ہیں سو ہم نے پکڑا اس کو اور اس کے لشکر کو پھر پھینک دیا دریا کی موجوں میں اور وہ ملامت کا مستحق تھا اس لیے اس طرح بدحالی اور ذلت کے ساتھ غرق کیا گیا کہ اس کی تاریخ خود اس پر ہمیشہ ملامت کرتی رہے گی اور عاد کے قصہ میں بھی عبرت ہے جب کہ ہم نے ان پر ایک آندھی چھوڑی۔ 1 حاشیہ (یہ آندھی مغربی ہوا تھی یہی وہ حقیقت تھی جس کو آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا نصرت بالصباو اہلکت عار بالدبور مجھے مدد دی گئی بادصبا (مشرقی ہوا) سے اور قوم عاد کو ہلاک کیا گیا پچھمی ہوا سے۔ ) جو بہت ہی منحوس تھی نہ گزرتی وہ کسی چیز پر بھی مگر یہ کہ اس کو بنادیتی بوسیدہ ہڈی کی طرح ریزہ ریزہ اور تمود کے واقعہ میں بھی عبرت کا سامان ہے جب کہ ان سے کہہ دیا گیا تھا مزے اڑالو ایک وقت معین تک اگر کفر سے باز نہ آئے تو بس اتنے دن اور چین و آرام سے گزار لو وہ تین دن کی مہلت تھی جیسا کہ گذر چکا، اس معین مدت کے گزرنے پر عذاب خداوندی سے تباہ کردئیے جاؤ گے مگر وہ سرکشی ہی کرتے رہے اپنے پروردگار کے حکم سے سو ایک بجلی جیسی کڑک نے ان کو دبوچ لیا اور وہ دیکھ رہے تھے پس نہ تو ان میں سکت تھی کھڑے ہونے کی کہ کہیں بھاگ ہی جائیں بلکہ اوندھے منہ گر رہے تھے جیسے کہ پہلے ارشاد فرمایا گیا (آیت) ” فاصبحوا فی دیارھم جاثمین “۔ اور نہ ہی وہ بدلہ لے سکے اور ظاہر ہے کہ انتقام خداوندی کا بدلہ لینے کی کس کو مجال ہوسکتی ہے۔ اور قوم نوح کو بھی یاد کرو جو ان سے پہلے گذری بیشک وہ لوگ بڑے ہی نافرمان تھے کہ ایک طویل مدت حضرت نوح (علیہ السلام) کے وعظ ونصیحت اور تبلیغ سے بھی باز نہ آئے اور خدا کی نافرمانی پر تلے رہے جس کا انجام یہی ہوا کہ طوفان۔ 2 حاشیہ (تفصیلات سورة اعراف ہود اور یونس، میں گزر چکیں۔ ) میں غرق کردئیے گئے اور ان کا نام ونشان بھی باقی نہ رہا یہ واقعات بسط و تفصیل کے ساتھ متعدد سورتوں میں گذر چکے۔ : فرشتوں کا سلام حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس پہنچنے پر ان لفظوں کے ساتھ قرآن نے ذکر کیا (آیت) ” فقالوا سلاما “۔ منصوب تو یہ جملہ فعلیہ کی صورت میں تھا کہ سلمنا علیک سلاما یا نسلم علیک سلاما۔ جس کا مفہوم یہی ہے کہ ہم آپ کو سلام کرتے ہیں اس کے جواب میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا سلام کہنا مرفوع جملہ اسمیہ ہے اور جملہ اسمیہ میں استمرار اور دوام کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لحاظ سے فرشتوں کے سلام سے زیادہ بلیغ ابراہیم (علیہ السلام) کا سلام ہوا اور قرآن کریم کا حکم ہے کہ جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے بہتر اس کے سلام کا جواب دیا کرو تو اس طرح ابراہیم (علیہ السلام) کا جواب قرآن کریم کے فرمان کے مطابق فرشتوں کے سلام سے احسن اور بہتر ہوگیا۔
Top