Maarif-ul-Quran - Adh-Dhaariyat : 47
وَ السَّمَآءَ بَنَیْنٰهَا بِاَیْىدٍ وَّ اِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ
وَالسَّمَآءَ : اور آسمان بَنَيْنٰهَا : بنایا ہم نے اس کو بِاَيْىدٍ : اپنی قوت۔ ہاتھ سے وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ : اور بیشک ہم البتہ وسعت دینے والے ہیں
اور آسمانوں کو ہم ہی نے ہاتھوں سے بنایا اور ہم سب کو مقدور ہے
اثبات توحید و رسالت مع دلائل وبراہین و تسلی سید الانبیاء والمرسلین ﷺ :۔ قال اللہ تعالیٰ : (آیت) ” والسمآء بنینھا باید ...... الی ..... الذی یوعدون “۔ (ربط) سلسلہ بیان مکذبین ومنکرین کے انکار وتکذیب کے عبرتناک انجام کا چل رہا تھا اب ان مکذبین ومنکرین پر حجت قائم کرنے کے لئے توحید و رسالت کو دلائل کے ساتھ ثابت کیا جارہا ہے ارشاد فرمایا۔ اور آسمان کو ہم نے بنایا ہے اپنی قدرت سے اور ہم بہت ہی وسیع القدرت ہیں اور زمین کو ہم نے فرش بنایا سو ہم کیسے اچھے اس کو بچھانے والے ہیں کہ اس میں کس قدر منافع رکھے اور کتنی انواع و اقسام کی چیزیں پیدا کیں غلے، پھل سبزے اور پھول سب کچھ انسانوں کے نفع اور راحت کے لیے پیدا کیا اور زمین کو اس طرح بچھا دیا کہ اس پر نقل و حرکت کا سلسلہ بھی جاری ہے اور یہ تمام چیزیں اس سے پیدا ہورہی ہیں اور اس کی تہہ میں جو معدنیات وخزائن ودیعت رکھے وہ مزید برآں ہے اور ہر چیز (نوع) سے ہم نے جوڑا بنایا جیسے سیاہ وسفید، شیریں وتلخ، خوبصورت وبدصورت، اور روشنی و تاریکی، نافع ومضر، بلند وپست اور مذکر ومؤنث اسید ہے کہ تم مخلوقات کے اس تنوع اور قدرت خداوندی کے عظیم مظاہر سے اللہ کی توحید وخالقیت کو سمجھ جاؤ اس لئے ان دلائل توحید اور قدرت کی نشانیوں کو دیکھ کر اور سمجھ کر اور تم کو چاہئے کہ بس تم اللہ کی طرف دوڑو عقل اور انسانی فطرت ہی آمادہ کررہی ہے کہ خالق کائنات کو پہچان کر اس کی خالقیت اور وحدانیت پر ایمان لایا جائے اور یہ بھی عقل انسانی اور فطرت فیصلہ کررہی ہے کہ اس کے تقاضوں کو پورا نہ کرنا ہلاکت و بربادی کا باعث ہے لیکن مع ھذا، اے کفار قریش میں اللہ کی طرف سے تمہارے لئے کھلم کھلا ڈرانیوالا ہو کر آیا ہوں کہ توحید وخالقیت رب العالمین کے انکار پر تم کو آگاہ ہوجانا چاہئے کہ عذاب آکر رہے گا پھر تاکید سے کہتا ہوں اور خدا کے ساتھ کوئی دوسرا معبود نہ بناؤ میں تمہارے واسطے اسی خدا کی طرف سے واضح ڈرانے والا ہوں ایسے روشن دلائل کے ساتھ دعوت توحید دینے والے پیغمبر پر چاہئے تھا کہ ایمان لاتے اور ایسا مخلص ومشفق رسول جو ہلاکت سے بچانے کے لیے تباہی کے انجام سے آگاہ کررہا ہے اور اس سے ڈرا رہا ہے اس کی بات پر یقین کرتے لیکن افسوس کہ قریش مکہ نہ ایمان لائے اور نہ اللہ کے پیغمبر ہادی کی بات پر یقین کیا بلکہ وہ تو تمسخر پر آمادہ ہوگئے کہ کبھی ساحر کہا، اور کبھی مجنون و دیوانہ تو حق تعالیٰ تسلی دیتے ہوئے فرماتے ہیں، اے ہمارے پیغمبر آپ ﷺ ان باتوں پر رنجیدہ نہ ہوں صبرکیجئے اسی طرح انسے پہلے جس کسی قوم کے پاس بھی کوئی رسول اللہ کا پیغام لے کر آیا ان لوگوں نے یہی کہا جادوگر یا مجنون تو اسی طرح اگر یہ کفار مکہ آپ ﷺ کو کچھ کہیں تو تعجب کی بات نہیں کیا یہ لوگ ایک دوسرے کو اس کی وصیت کرتے چلے آئے ہیں کہ ہر ایک قوم اللہ کے رسولوں سے ایک ہی قسم کا مذاق اور ایک ہی طرح کا انکار کررہی ہے حالانکہ ایک قوم کا دوسری قوم سے کبھی ملنا بھی نہیں ہوا پھر بھی سب کا ایک ہی بات کہنا عجیب ہے اصل میں اسکی وجہ یہ نہیں کہ ایک قوم دوسری قوم سے مل کر اس کو طے کرتی چلی آتی ہو کہ تم بھی اپنے پیغمبر کا اس طرح انکار کرنا بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ یہ سب لوگ سرکش ہیں اور سرکشی کی یہ علت مشترکہ سب میں یکساں ہے اس وجہ سے اس کے نتیجہ میں زبانوں سے نکلنے والی بات بھی ایک ہی معلوم ہوئی ہے علت جب واحد اور متحد ہے تو اس کا ثمرہ اور نتیجہ بھی ایک ہی ہوگا پس آپ ﷺ ان سے اعراض کرلیجئے اور بلاوجہ ان کی طرف التفات سے اپنے اپ کو افسردہ وغمگین نہ بنائیے آپ کسی طرح بھی قابل مؤاخذہ نہیں اگر یہ لوگ ایمان نہ لائیں تو اس کو آپ پر ذمہ داری نہیں خدا کی طرف ہی لو لگائے رکھیئے اور نصیحت کرتے رہئے کیونکہ بار بار سمجھانا اور نصیحت کرنا یقین کرنے والوں کو نفع پہنچاتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ ان مخاطبین میں کسی وقت کسی کو اللہ تعالیٰ یقین کی صلاحیت عطا کردے اور پھر یہی ہے کہ وعظ ونصیحت سے اگر منکرین و کفار کوئی فائدہ نہ اٹھائیں گے تو اہل ایمان کو تو بہرحال نفع ہوگا اور نہیں پیدا کیا ہے میں نے جن وانس کو مگر صرف اسی لئے کہ وہ عبادت کریں اصل مقصد تخلیق تو یہی ہے اگرچہ وہ اپنی مادی زندگی کے اسباب کی تکمیل وفراہمی کے لیے اور بھی دوسرے کام کریں لیکن اصل مقصد حیات عبادت خداوندی برقرار رکھتے ہوئے دنیا کے ہر کام اور ہر عمل کو خواہ وہ کسب معاش ہوکھانا پینا ہو سونا جاگنا ہو، لباس وسکونت ہو ان امور میں اشتغال اور ان کی تکمیل میں عملی کوشش عبادت کے اصل مقصد تخلیق ہونے کے منافی نہیں پھر جب ان کو اصل مقصد تخلیق کی تکمیل کا ذریعہ بنا لیا جائے تو پھر ان منافع کا حصول اور ان میں اشتغال ان مقصد کے منافی ہونے کے بجائے مقصد اصلی کے مبادی میں سے ہوجائے گا، اور اس مقصد کے تعین کے بعد دنیاچون کہ دارالامتحان ہے اس لیے اس مقصد کے حصول کے لیے انسان کو قدرت علی العمل اور اختیار کی صلاحیت دی اور خیر وشر اس کے سامنے واضح کرکے خیر کی دعوت دیدی اور شر سے بچنے کا حکم دیدیا گیا تاکہ وہ اپنے اختیار اور عملی صلاحیت کو ایمان وہدایت کے راستہ پر صرف کرکے نجات وانعام خداوندی کا مستحق بنے اور اگر سرکشی اور نافرمانی کی روش اختیار کرے تو عذاب کا مستحق ہو۔ الغرض تخلیق جن وانس کا مقصد تو اللہ کی عبادت ہی ہے مگر عبادت اور طاعت کا کرنا جن وانس کے اختیار پر چھوڑ دیا گیا اور ان کے عمل ہدایت وگمراہی کو شجروحجر کی حرکات کی طرح بےبس وبے اختیار نہیں رکھا گیا یہی وجہ ہے کہ ان اشیاء کیلئے جن وانس کی طرح جنت و جہنم اور جزاء وسزا کا تصور نہیں کیونکہ انکے احوال میں ان کے کسب واختیار کو دخل نہیں ہے قرآن کریم میں حیوانات طیور شجر وحجر بادلوں اور سایوں کی تسبیح وتحمید اور عبادت کا ذکر ہے جیسے ارشاد ہے (آیت) ” قد علم صلوتہ وتسبیحہ “۔ مگر ان کی عبادات پر اہل ایمان وطاعت کی طرح جنت اور نعمأ جنت کا ذکر نہیں حضرت علی ؓ اسی مضمون کے قریب آیت مبارکہ کی تفسیر بعض مفسرین مثلا بغوی (رح) نے بیان کی ہے یہ بھی ممکن ہے مراد یہ ہو کہ جن وانس کی تخلیق ایسی استعداد وصلاحیت اور جوہر پر کی گئی کہ وہ ہدایت اور حق کو قبول کرکے اللہ کی عبادت کرسکیں (آیت) ” فطرۃ اللہ التی فطر الناس علیھا لا تبدیل لخلق اللہ کا مضمون اس کی تائید کرتا ہے اور وہ حدیث معروف بھی ” کل مولود یولد علی الفطرۃ فابواہ یھودانہ اوینصرانہ اویمجسانہ “۔ (کہ ہر بچہ صحیح فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اسکے ماں باپ اس کو یہودی بنالیں، یا نصرانی بنالیں یا مجوسی) اسی کی موید ہے۔ الغرض اس تقدیر پر مراد یہ ہوگی کہ میں نے نہیں پیدا کیا جن وانس کو مگر ایسی صلاحیت اور استعداد کے ساتھ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں، متکلمین اور اکثر مفسرین کے ذوق سے پہلی تفسیر اولی اور راجح معلوم ہوتی ہے۔ (واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم) بہرکیف جن وانس کا مقصد تخلیق عبادت خداوندی ہے اور اس مقصد کے حصول وتکمیل کو جن وانس کے اختیار وکسب پر موقوف کردیا گیا اور انکو عقل وفہم کی صلاحیتوں کے عطا کرنے کے بعد ایمان کی دعوت دی گئی اور ظاہر ہے اس طلب عبادت میں اللہ تعالیٰ کا نہ کوئی فائدہ ہے اور نہ اس کو مخلوق کی عبادت کی حاجت ہے بلکہ خود مخلوق اپنے خالق کی عبادت کی محتاج ہے اور اسی میں سعادت و فلاح مضمر ہے، اس لئے فرمایا۔ میں ان سے نہیں چاہتا ہوں کوئی روزینہ اور نہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں میں نے بندگی کا حکم دنیا کے آقاؤں کی طرح نہیں دیا ہے کہ وہ اپنے غلاموں کو کہتا ہے کہ محنت کرو اور کما لاؤ بلکہ میں ہی تو سب کو روزی دینے والا ہوں اور سب میرے محتاج ہیں عبادت کا حکم صرف اسی لئے دیا ہے کہ میری عظمت وشہنشاہیت کو پہچان کر میری بندگی کرو اور میرے انعام کے مستحق بنو۔ 1 حاشیہ (یہی وہ حقیقت ہے جس کو فرمایا گیا۔ من نکردم خلق تا سودے کنم بلکہ تابربندگاں جو دے کنم : (آیت) ” ماارید منھم من رزق “۔ کی یہ تفسیر قاضی بیضاوی (رح) کی رائے کے مطابق ہے دوسرا مفہوم (آیت) ” ماارید منھم “۔ کا یہ ہے کہ جن وانس کی تخلیق سے میں نے ارادہ یہ کیا کہ وہ میری عبادت کریں اور یہی ان کا مقصد حیات ہے جس کی وجہ سے ان کو چاہئے کہ وہ اپنی فکری اور عملی صلاحیتیں عبادت ہی کیلئے صرف کریں ان کی تخلیق سے میں کسی قسم کے رزق کا ارادہ نہیں کیا یعنی یہ کہ وہ اپنے رزق اور اپنی اولاد کی رزق کی فراہمی کو مقصود اصلی سمجھ کر آخرت اور عبادت کو نظر انداز کردیں جیسے یہ ممکن نہیں کہ بندے مجھ کو کھلائیں اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ کوئی دوسرے کو کھلاتے میں ہی تو رزاق ذوالقوۃ المتین ہوں۔ گویا یہ مضمون اسی کے قریب ہوگیا جو سورة طہ میں ان الفاظ کے ساتھ ذکر فرمایا گیا (آیت) ” وامراھلک بالصلوۃ اصطبر علیھا لانسئلک رزقا نحن نرزقک تو لانسئلک رزقا “۔ کا مفہوم یہ ہے کہ اے مخاطب اپنے گھروالوں کو نماز کا حکم کیجئے اور خود بھی اس پر پابند رہئے ہم اپ سے رزق کا سوال نہیں کرتے مراد یہ ہے کہ ہر گھر کا سرپرست اپنے افراد خانہ کے لئے معاش کا فکر کرتا ہے تو بجائے اس کے کہ وہ اپنی سرپرستی تمام تراصلاح معاش کے لئے صرف کرے اور اپنے گھروالوں کی آخرت کی فکر نہ کرے اس کو چاہئے کہ وہ افراد خانہ کی اصلاح معاد کے لئے پوری کوشش کرے اصلاح معاد میں اگر کوتاہی ہوئی تو اس پر باز پرس ہوگی لیکن اصلاح معاش کی کوتاہی پر ہم درگزر کریں گے اور اس بات کا حکم اور تاکید اسی وجہ سے ہے کہ رزق دینے والے تو ہم ہیں حدیث قدسی کا مضمون ہے ” اے ابن آدم تو میرے عبادت کے واسطے فارغ ہوجا میں تیرے قلب کو غنا سے بھر دونگا اور اگر تون نے ایسا نہ کیا تو تیرے قلب کو افکار وپریشانیوں سے بھردونگا اور تیرے فقر کو دور نہ کروں گا “۔ ) بیشک اللہ ہی روزی دینے والا بڑا طاقت ور مضبوط ہے ان حقائق کو دیکھتے ہوئے شرک وکفر سے پرہیز کرنا چاہئے لیکن پھر بھی اگر کوئی نافرمانی سے باز نہیں آتا تو وہ بہت بڑا ظالم ہے اور ظالم سزا سے بچ نہیں سکتا بیشک ان ظالموں کا ڈول بھر چکا جیسے ان کے ساتھیوں کا ڈول بھرچکا، اور ڈول بھرچکنے کے بعدانسان کنوئیں سے ہٹتا ہے اور اپنا حصہ لے کر اب دوسرے کے واسطے ڈول چھوڑتا ہے تو اسی طرح یہ ظالم دنیا کی زندگی کی عیش و راحت کا ڈول بھر چکے اور اب خدا کی گرفت اور سزا کا وقت آچکا ہے جب کہ ان کے ساتھیوں کا بھی اسی طرح انجام ہوا کہ نافرمانی کرتے رہے لیکن جب خدا کا عذاب آیا تو اس سے بچ نہ سکے تو اسی طرح بس ان ظالموں کے لئے خدا کا عذاب طے ہوچکا ہے اب یہ لوگ مجھ سے جلدی نہ کریں جیسے کہ یہ بدبخت پہلے سے کہتے رہتے ہیں کہ اچھا وہ عذاب لے آئیے جس کی دھمکی دی جارہی ہے سو ہلاکت ہے کافروں کیلئے ان کے اس دن کے عذاب سے جس کا ان سے وعدہ ہوچکا یعنی قیامت کا دن یا اس سے پہلے ہی جو دنیاوی سزا کا دن اللہ کے علم میں طے ہوچکا تھا چناچہ بدر کا دن آیا اور مشرکین مکہ کو دنیا میں بھی سزا مل گئی۔ حاشیہ (اشارہ ہے کہ وعدۂ عذاب کا دن آخرت تو ہے ہی لیکن دنیا میں بھی عذاب کا جو وقت اللہ نے مقرر کرلیا تھا وہ خدا تعالیٰ جل شانہ نے غزوہ بدر میں دیکھا دیا۔ 12) : (آیت) ” فان للذین ظلموا ذنوبا مثل ذنوب اصحبھم “۔ کے ترجمہ میں بعض مفسرین کی رائے کے موافق ذنوبا بمعنی بھرا ہوا ڈول لیتے ہوئے یہ مراد واضح کی گئی کہ یہ ڈول کا بھر جانا بس دنیاوی منافع اور راحتوں کا سلسلہ ختم ہوجانا ہے جیسا کہ ڈول بھر لینے والا شخص کنوئیں سے ہٹ جاتا ہے اور دوسرا اس کی جگہ آجاتا ہے اسی طرح بس ان کافروں کی زندگی اور منافع حیات کا ڈول بھر چکا اب تقدیر خداوندی سے مصائب و عذاب کا دور شروع ہوجانے والا ہے۔ بعض مفسرین نے ذنوب کی تفسیر۔ حصہ سے کی ہے تو اس صورت میں مراد حصہ عذاب ہوگا ان ظالموں کے واسطے بھی عذاب کا ایسا ہی حصہ طے کردیا گیا ہے جیسا کہ ان کے ساتھیوں کے لئے تھا لہذا اب جلدی کرنے کی ضرورت نہیں۔
Top