Maarif-ul-Quran - At-Tur : 29
فَذَكِّرْ فَمَاۤ اَنْتَ بِنِعْمَتِ رَبِّكَ بِكَاهِنٍ وَّ لَا مَجْنُوْنٍؕ
فَذَكِّرْ : پس نصیحت کیجیے فَمَآ اَنْتَ : پس نہیں آپ بِنِعْمَتِ : نعمت سے رَبِّكَ : اپنے رب کی بِكَاهِنٍ : کا ھن وَّلَا مَجْنُوْنٍ : اور نہ مجنون
تو (اے پیغمبر ! ) تم نصیحت کرتے رہو تم اپنے پروردگار کے فضل سے نہ تو کاہن ہو اور نہ دیوانے
زجرو توبیخ مجرمین از عذاب خداوندی وحمایت ایزدی بہ تسبیح وحمد رب العالمین : قال اللہ تعالیٰ : (آیت ) ” فذکر فما انت بنعمت ربک ....... الی ...... وادبار النجوم “۔ (ربط) ماقبل آیات سورة والطور میں دوگروہوں کا ذکر فرمایا گیا ایک گروہ مجرمین کا اور دوسرا مطیعین کا اور احوال متعلقہ بھی ذکر کردیئے گئے تو اس کے بعد یہ مناسب ہوا کہ اہل عناد و انکار کو زجر و تو بیخ عذاب خداوندی سنایا جائے کیونکہ انسانی طبائع کا خاصہ ہے کہ برے افعال و اعمال کے نتائج بدسن کرمتاثرہوتے ہیں پھر اس حالت تأثر میں اگر اسکو مزید تنبیہ وزجر کیا جائے تو وہ ان برے اعمال سے باز آنے کا قصد کرلیتا ہے تو اسی لحاظ سے اب ان آیات میں ان مکذبین کا رد بھی کیا جارہا ہے اور ساتھ ہی آنحضرت ﷺ کو تسلی بھی دی جارہی ہے کہ اگر منکرین آپ ﷺ کا مقابلہ کریں کوئی بےہودہ اور لغوطریقہ اختیار کریں تو آپ اس پر رنجیدہ نہ ہوں آپ ایسی باتوں پر صبر کریں آپ ہماری حمایت ونگرانی میں ہیں اور خداوند عالم کی حمد وثناء اور اس کی پاکی بیان کرتے رہئے یہ قلب کی قوت وہمت کا بھی سامان ہے اور اللہ کی حمایت ونصرت کا بھی ذریعہ ہے تو ارشاد فرمایا۔ پس آپ تو ان معاندین کو جو ابھی تک آپ کی طرف رخ نہیں کررہے ہیں سمجھاتے رہئے خواہ یہ آپ کو کچھ بھی کہیں بہرحال آپ اپنے رب کی فضل سے نہ تو کاہن ہیں اور نہ مجنون جیسا کہ یہ مشرکین مکہ کہتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ایسے پیغمبر خدا کو جس کی زبان حکمت ترجمان سے ایک ایک لفظ حکمت ومعرفت اور انسانی رشد وہدایت کا جاری ہوتا ہے اس کو مجنون کہنا خود کہنے والے کے دیوانہ ہونے کی دلیل ہے جس کو خود ان مشرکین کے سنجیدہ لوگ بھی قبول نہ کرتے تو یہ کہنا شروع کردیتے کہ یہ شاعر ہیں جس کو حق تعالیٰ فرما رہے ہیں اچھا کیا یہ لوگ آپ ﷺ کی نسبت یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ شاعر ہیں جن کے متعلق ہم موت کے حادثہ کا انتظار کررہے ہیں کہ جس طرح اور بھی دنیا میں شاعر ہیں جن کے متعلق ہم موت کے حادثہ کا انتظار کررہے ہیں کہ جس طرح اور بھی دنیا میں شاعر آئے اور اپنی زندگی گزار کر مرگئے اسی طرح آپ ﷺ کے بارے میں بھی کہہ رہے ہیں آپ کہہ دیجئے اچھا تم لوگ انتظار کرتے رہو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں کہ تمہارے اس انکار وکفر کا انجام بد کب تم پر آئے گا اور اس وقت تم اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے کہ میں جو کچھ کہتا تھا وہ حق ہے اور وہی اللہ کا دین ہے اور یہ کہ اللہ ہی کے دین کا غلبہ اور کامیابی ہو کر رہتی ہے خواہ اس کا کتنا ہی مقابلہ کیا جائے۔ ایسی خلاف فطرت اور خلاف عقل باتیں یہ منکرین کیسے کررہے ہیں بڑے ہی تعجب کی بات ہے جس کو کوئی صاحب عقل قبول نہیں کرسکتا تو کیا ان کی عقلیں ان کو ان باتوں کا حکم کررہی ہیں ؟ ظاہر ہے کہ عقل انسانی ایسی لغو بات کا تصور بھی نہیں کرسکتی یا یہ کہ یہ سرکش لوگ ہیں اور یہی فیصلہ ہے کہ یہ بات محض عناد اور سرکشی کی وجہ سے عقل تو ایسی بات کسی کو نہیں سمجھا سکتی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ قرآن خو دآپ نے بنایا ہے حقیقت یہ ہے کہ یہ بات منکرین خود سمجھ رہے ہیں کہ ہم غلط کہہ رہے ہیں اور ان کو اس بارے میں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ یہ کسی بشر کا کلام نہیں ہوسکتا تو یہ باتیں (ان مشرکین کا کہنا) اس بناء پر نہیں کہ وہ کسی نتیجہ اور حقیقت تک نہیں پہنچے بلکہ ان کا مقصد تو بس یہی ہے کہ وہ ایمان نہیں لاتے تو آخر انکار کی ایسے لوگوں کے پاس کیا دلیل ہے اور کس وجہ سے وہ قرآن کریم کے کلام الہی ہونے کا انکار کررہے ہیں اگر وہ اس پر ہی اصرار کرتے ہیں کہ یہ وحی الہی اور کلام ربانی نہیں بلکہ آپ ﷺ نے ہی گھڑ لیا ہے تو پھر چاہئے کہ یہ لوگ اسی جیسا کوئی کلام بنا کرلے آئیں اگر یہ سچے ہیں یہ لوگ بھی عربی اور بڑے فصیح وبلیغ قادر الکلام اور مایہ ناز شاعر ہیں ان کو عربی کلام مقابلہ میں پیش کردینے میں کیا رکاوٹ ہے جب کہ نبی کریم ﷺ نے نہ تو کسی معلم سے کچھ سیکھا اور نہ پڑھا اور نہ سخن گوئی میں اس سے پہلے عرب قوم میں ان کا کوئی مقام دیکھا گیا۔ اگر یہ منکرین ان دلائل سے بھی قرآن کو کلام الہی اور آنحضرت ﷺ کی نبوت و رسالت اور خدا کی وحدانیت تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور خالق کے پیدا کردیئے گئے ہیں یا یہ کہ انہوں نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور اس طرح خود اپنے آپ کو گویا صفت خالقیت میں شریک قرار دیا اور وجہ سے خدا کی وحدانیت کو نہیں تسلیم کرتے حالانکہ ان کی فطرت میں خدا کی خالقیت کا تصور پوری طرح موجود ہے اور دلائل وشواھد بھی اس امر کے متقضی ہیں کہ خدا کی خالقیت اور وحدانیت پر یقین کیا جائے افسوس یہ لوگ ایمان تو کیا لاتے بلکہ یقین ہی نہیں کرتے کیونکہ اگر صحیح معنی میں یقین حاصل ہوتا تو اس کو قبول کرتے اور مانتے اے پیغمبر کیا ان کے پاس آپ کے رب کی رحمت کے خزانے ہیں اور خزائن رحمت میں نبوت و رسالت بھی ہے کہ جس کو یہ چاہیں نبوت و رسالت دیں یا یہ کہ یہ لوگ حکمران ہیں کہ ان کا حکم چلے اور جس کو یہ لوگ رسول بنانے کی اجازت دیں اس کو رسول بنایا جائے پھر آخر کیوں آپ ﷺ کی نبوت کا انکار کرتے ہیں بہرحال کوئی عقلی دلیل تو ان کے پاس ایسی نہیں کہ جس کی بناء پر یہ لوگ رسالت محمدیہ ﷺ کا انکار کرسکیں تو کیا ان کے پاس کوئی ایسی سیڑھی ہے کہ اس پر چڑھ کر آسمان کی باتیں سن لیں اور اس طرح دعوی کرسکیں کہ ایک نقلی دلیل اور آسمانی وحی ہمارے پاس آئی ہے جس سے ظاہر ہوا کہ یہ (محمد رسول اللہ ﷺ رسول بنا کر نہیں بھیجے گئے ہیں اگر کوئی ایسی جرات کرتا ہے تو چاہئے کہ ان کا سننے والا کوئی واضح دلیل لے کر آئے اور ثابت کرے کہ یہ شخص رسول بنایا گیا ہے اور محمد ﷺ رسول خدا نہیں (العیاذ باللہ) اے مشرکین ومنکرین ایسی بےدلیل اور لغو باتوں سے باز آجاؤ جو کفر وعناد میں کرتے چلے جارہے ہو، بتاؤ کیا اس (خدا خالق کائنات) کے لئے بیٹیاں ہیں اور تمہارے واسطے بیٹے ہیں الغرض دلائل سے خداوند عالم کی توحید اور اے ہمارے پیغمبر آپ ﷺ کی رسالت ثابت ہوچکی ہے پھر بھی یہ لوگ آخر آپ ﷺ کی نبوت پر ایمان کیوں نہیں لاتے کیا آپ ان سے کوئی معاوضہ طلب کررہے ہیں کہ وہ اس تاوان کے بوجھ میں دبے ہوئے ہیں کہ ان کو یہ تاوان گراں معلوم ہوتا ہو کیا ان کے پاس غیب کا علم ہے کہ یہ اس کو لکھ رہے ہیں اور لکھ کر اپنے پاس محفوظ کرلیا ہے جس کے باعث وہ امور غیب اور وحی الہی سے ثابت شدہ باتوں کا انکار اور رد کررہے ہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ رسول خدا کے ساتھ کچھ برائی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور ان کی مخفی سازشیں یہی ظاہر کررہی ہیں سو انکو سن لینا چاہئے پس جو لوگ کفر کررہے ہیں وہ خود ہی اس برائی کا شکار ہوں گے چناچہ اس سازش کا انجام دیکھ لیا، بدر میں ذلیل وناکام ہوئے اور مقتول وقیدی بھی بنے بہرکیف یہ سب واقعات وحقائق اس بات کی دلیل ہیں کہ خداوند عالم یکتا ہے وہی وحدہ لاشریک لہ قادر مطلق اور خالق کائنات ہے اگر اب بھی تسلیم نہیں تو بتائیں کیا ان کا کوئی اور معبود ہے اللہ کے سوا ؟ نہیں ہرگز نہیں پاکی ہے اللہ رب العزت کی ذات کیلئے ان چیزوں سے جن کو یہ خدا کے ساتھ شریک کرتے ہیں اور منکرین کے پاس جب اور کوئی حجت نہ رہتی تو اس قسم کی بات کہنے لگتے کہ اچھا ہم آپ ﷺ کی رسالت پر جب یقین کریں گے جب آسمان کا کوئی ٹکڑا توڑ کر ہمارے پاس لے آؤ تو اسکے بارے میں ایسے دشمناں عقل کو اول تو یہ جواب دیا جائے کہ معجزات کی فرمائش بڑی ہی گستاخی ہے اور پھر یہ کہ اگر بالفرض فرمائشی معجزہ ظاہر بھی کردیا جائے تو پھر اس پر ایمان نہ لانے کا انجام سوائے ہلاکت اور عذاب خداوندی سے تباہی کے کچھ نہیں اصل بات تو یہ ہے کہ اگر ان کا فرمائشی معجزہ ظاہر بھی کردیا جائے اور یہ لوگ آسمان کے ٹکڑیکو دیکھ بھی لیں تب بھی ایمان نہ لائیں گے اور یہ کہہ دیں گے یہ تو تہہ بر تہہ جماہوا بادل ہے تو اے ہمارے پیغمبر آپ ﷺ ان لوگوں کی اس قسم کی لغو باتوں سے غمگین و متفکر نہ ہوں بس انکو چھوڑ دیجئے اپنی اسی حالت پر یہاں تک کہ ان کو اپنے اس دن سے سابقہ پڑجائے جس میں انکے ہوش و حواس اڑ اجائیں گے یہ وہ دن ہوگا جس میں نہ ان کی کوئی تدبیر انکے کام آئے گی اور نہ ہی ان کی مدد کی جاسکے گی اس وقت تو ہر کافر اور بدبخت اپنی مصیبت میں گھرا ہوگا اور آخرت میں ان لوگوں پر یقیناً یہ مصیبت آئے گی۔ لیکن ان ظالموں کے واسطے ایک بہت بڑا عذاب واقع ہونے والا ہے اس دن کے عذاب سے پہلے چناچہ اہل مکہ قحط میں مبتلا ہوئے اور بدر میں ذلیل ہوئے قتل کیے گئے مگر افسوس اکثر لوگ ان میں سے جانتے نہیں ہیں کہ انتقام الہی کس قدر شدید چیز ہے اور انتصار الہی سے کس طرح اہل ایمان فاتح و غالب ہوا کرتے ہیں۔ تو اے پیغمبر ﷺ آپ صبر کیجئے اپنے رب کے فیصلہ کے لیے اور جو کچھ یہ لوگ سازشیں کررہے ہیں ان سے ہرگز بھی پریشان نہ ہوں کیونکہ آپ تو ہماری حفاظت میں ہیں پھر کس بات کا ڈر ہے اور اگر طبعی تاثرات سے دل پر کچھ ملال اور بوجھ ہو تو اپنے رب کی تسبیح و تمحید میں لگے رہئے جس وقت کہ آپ اٹھیں سو کر تہجد کے وقت یا کسی مجلس سے اور رات کے کسی حصہ میں بھی اس کی پاکی وحمد کیا کیجئے مثلا عشاء کا وقت اور ستاروں کے غروب ہونے کے بعد بھی جو کہ وقت فجر ہے ان اوقات میں نماز خدا کی حمد وثناء اور تسبیح قلب کے بوجھ کو کم کردے گی اور رجوع الی اللہ کی نعمت سے ایسی فرحت حاصل ہوگی کہ ان ظاہری احوال وواقعات سے دل پر واقع ہونے والا بوجھ اور غم بھی جاتا رہے گا۔ (آیت ) ” وسبح بحمد ربک حین تقوم “۔ کی تفسیر میں اکثر مفسرین تہجد کا وقت مراد لیتے ہیں جیسے کہ حدیث عبادۃ بن الصامت ؓ میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص رات کے درمیان کسی حصہ میں بیدار ہو اور یہ کلمات پڑھے ”۔ لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیء قدیر سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم “۔ پھر اس کے بعد یہ کہے (آیت ) ” رب اغفرلی “۔ یا کوئی بھی دعا مانگے تو ضرور اسکی دعا قبول کی جائے گی مجاہد (رح) نے (آیت ) ” حین تقوم “۔ سے مجلس سے اٹھنا مراد لیا ہے اور کلمات۔ سبحانک اللہم وبحمدک اشھد ان لاالہ الا انت استغفرک واتوب الیک۔ کو کفارۃ المجلس فرمایا گیا ہے۔ (آیت ) ” ادبار النجوم “۔ کی تفسیر میں ابن عباس ؓ سے فجر کی دو سنتیں بھی بیان کی گئی ہیں اور حضرت عائشہ ؓ فرمایا کرتی تھیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو ان دورکعتون سے زیادہ کسی بھی سنت یا نفل پر پابندی کرتے نہیں دیکھا۔ تم تفسیر سورة والطور وللہ الحمد والمنہ
Top