بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - An-Najm : 1
وَ النَّجْمِ اِذَا هَوٰىۙ
وَالنَّجْمِ : قسم ہے تارے کی اِذَا هَوٰى : جب وہ گرا
تارے کی قسم جب غائب ہونے لگے
اثبات عظمت نبوت و محبت اقوال رسول اللہ ﷺ وعصمت حیات طیبہ : قال اللہ تعالیٰ : (آیت ) ” والنجم اذا ھوی ...... الی ....... من ایت ربہ الکبری : (ربط) گذشتہ سورت توحید خداوندی اور دلائل قدرت اور اثبات حشر ونشر کے مضامین پر مشتمل تھی اب اس سورت میں آنحضرت ﷺ کی نبوت و رسالت کا بیان ہے اور یہ کہ رسول خدا ﷺ کا ہر قول وعمل وحی الہی ہے پیغمبر کی ہر بات اور ان کا ہر عمل امت کے واسطے قانون اور اسوہ بنایا گیا ہے اللہ کے پیغمبر کی کوئی بات اور اس کی زبان سے نکلا ہوا کوئی لفظ خود اس کی خواہش سے نہیں ہوتا بلکہ اللہ کی وحی ہی ہوتا ہے جس طرح کہ قرآن اللہ کی وحی ہے بس فرق اتنا ہے کہ قرآن اللہ کا کلام لفظ اور معنی دونوں کا مجموعہ ہے اور حدیث رسول میں الفاظ اگر آپ ﷺ کے ہیں مگر معنی اور حکم اللہ ہی کا ہے ارشاد فرمایا۔ قسم ہے ستارہ کی جب کہ وہ غروب ہونے لگے یقیناً یہ تمہارے ساتھی جو ہمہ وقت تمہاری نظروں کے سامنے ہیں اور جن کی سیرت اور تعلیمات وہدایات قیامت تک کے واسطے امت کے ساتھ ہیں نہ تو راہ حق سے بھٹکے کہ بھول کر یا غلطی وخطاء سے راہ حق سے چوک گئے ہوں اور نہ ہی غلط راستہ اختیار کیا کہ جانتے اور دیکھتے ہوئے کسی غرض اور مقصد کی خاطر غلط راستہ اختیار کرلیا جائے اس طرح یہ ہر غلطی اور گمراہی سے محفوظ ومعصوم ہیں اور نہ بولتے ہیں کوئی لفظ اپنی زبان سے اپنی خواہش سے بلکہ ان کا تو زبان سے بولا ہوا ہر لفظ وہ اللہ کی وحی ہی ہوتا ہے جس کی وحی ان کو کی جاتی ہے جیسے کہ قرآن اپنے لفظ اور معنی کے ساتھ آپ ﷺ پر نازل ہوتا ہے اس طرح یہ الفاظ وکلمات جو آپ ﷺ کی زبان مبارک سے صادر ہوئے ہیں یہ ان ہی معانی اور احکام کی تعبیر ہیں جو احکام اور مضمون آپ ﷺ پر نازل کیا جاتا ہے تو آپ ﷺ اللہ کی مقرر کردہ راہ پر ایسی طرح قائم ہیں اور اسی پر آپ ﷺ کی زندگی کا ہر قول وفعل حتی کہ زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ اور جملہ احوال و کیفیات مطابقت وموافقت کے ساتھ جاری ہیں کہ سرمو بھی اس خط مستقیم سے انحراف نہیں جس طرح کہ ستارہ طلوع سے لے کر غروب تک اپنی پوری مسافت اسی خط پر قائم رہتے ہوئے پوری کرتا ہے جو اس کے واسطے مقرر کردیا گیا نہ وہ اپنی سمت بدلتا ہے نہ منزل سے ادھر یا ادھر اپنا رخ موڑتا ہے اور جس طرح ستارے مسافروں کے لئے رہنمائی کا سامان ہیں اسی طرح آپ ﷺ کی حیات مبارکہ از ابتدا، تا انتہاء تمام عالم کے واسطے رہنما ہے۔ 1 حاشیہ (آیت ) ” والنجم اذا ھوی “۔ قسم ہے ستارہ کے غروب کی، قسم کھا کر جواب قسم کو (آیت ) ” ما ضل صاحبکم “۔ کے الفاظ میں بیان فرمایا گیا ان کلمات سے قسم اور جواب قسم میں ربط اور مناسبت انشاء اللہ بخوبی واضح ہے اصل مضمون تھا آنحضرت ﷺ کی حیات مبارکہ کے کمال استقامت کا اور یہ کہ اس میں نہ بھول چوک سے غلطی کا احتمال ہے اور نہ جان بوجھ کر وہ راہ حق سے العیاذ باللہ منحرف ہوسکتے ہیں وہ منحرف تو کیا ہوں گے ان کی زندگی کے تو ہر قول وفعل کو آسمانوں کے تاروں کی طرح رہنما اور سمت ومنزل معلوم کرنے کا ذریعہ بنایا ہے کہ آپ ﷺ کے اسوۂ مبارکہ سے تمام دنیا راہ ہدایت پاسکتی ہے اس پر چل سکتی ہے اور اس پر چل کر منزل فلاح وسعادت تک پہنچ سکتی ہے غروب کی طرح طلوع بھی قدرت خداوندی کا عظیم نمونہ ہے مگر ممکن ہے کہ غروب سے قریب وقت دیکھ کر طالبان ہدایت کو مزید توقف کرنے کی گنجائش نہیں سمجھنی چاہئے بلکہ یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اب بھی اگر حصول ہدایت میں تاخیر کی تو پھر یہ باقی ماندہ مہلت اور موقعہ بھی ختم ہوجائے گا تو اسی طرح آنحضرت ﷺ کی حیات مبارکہ اور آپ ﷺ کی تعلیمات کو غنیمت سمجھنا چاہئے پھر یہ کہ طلوع سورج سے ستاروں کا غروب ہے تو اشارہ ہوسکتا ہے آنحضرت ﷺ کے خاتم الانبیاء ہونے کہ جانب کہ وہ تمام انبیاء سابقین جو اپنی اپنی جگہ اپنی قوموں کی رہنمائی کے لیے ستاروں کی مانند تھے اب خاتم الانبیاء کے آفتاب نبوت کے طلوع ہونے پر سب غائب ہوگئے اور جس طرح سورج کا نور تمام ستاروں کو مغلوب ومستور کردیتا ہے اسی طرح یہ آفتاب نبوت بھی (آیت ) ” لیظھرہ علی الدین کلہ “ کا پیکر بنکر طلوع ہورہا ہے۔ اللہ اعلم بالصواب ) سکھایا ہے انکو ایک بڑے مضبوط قوی والے طاقت ور فرشتہ نے جو پیدائشی طور پر نہایت قوی اور زور آور ہے یہاں تک کہ اس نے قوم لوط کی بستیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا تھا نہایت ہی حسن و جمال والا ہے یعنی جبریل امین (علیہ السلام) پھر وہ سیدھا ہو بیٹھا اور حال یہ کہ وہ آسمان کے اونچے کنارہ پر تھا جب کہ آنحضرت ﷺ نے جبریئل امین (علیہ السلام) کو ابتداء وحی کے زمانہ میں آسمان کے مشرقی کنارہ پر ان کی اصلی صورت میں دیکھا کہ ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں اور آسمان کے ایک کنارے سے لے کر دوسرے کنارے تک خلا کو پر کر رکھا ہے جس سے آپ ﷺ پر ہیبت اور کپکپی طاری ہوگئی تھی اور گھر آکر فرمایا تھا کہ ” دثرونی، دثرونی “۔ اور اس پر (آیت ) ” یایھا المدثر قم فانذر “۔ آیات نازل ہوئیں پھر وہ نزدیک ہوا اور لٹک آیا پھر اس قدر نزدیک ہوا کہ آپ سے صرف دو کمانوں کے برابر رہ گیا یا اس سے بھی نزدیک اور اپنے اصلی مستقر سے تعلق رکھنے کے باوجود نیچے اترا اور انتہائی نزدیکی اور قرب اختیار کرلیا پھر حکم بھیجا اللہ نے اپنے بندہ پر جو بھی حکم بھیجا اور جو اس کی مشیت ہوئی جھوٹ۔۔۔۔۔ کہا دل نے اس چیز کو جو رسول اللہ ﷺ نے اپنی آنکھ سے دیکھی آپ ﷺ کا دل آنکھ کے مشاہدہ پر مطمئن تھا اور اس کی تصدیق کررہا تھا کہ یہ بات نہ تھی کہ آنکھ کسی چیز کو دیکھتی ہو مگر اندر سے دل مطمئن نہ ہو اور تصدیق نہ کرتا ہو۔ تو اے لوگو ! کیا تم جھگڑ رہے ہو اس چیز پر جو ہمارا بندہ دیکھ رہا ہے اس ایک مرتبہ کی رؤیت پر کفار قریش اور منکرین کیا جھگڑ رہے ہیں اور کیوں تعجب کررہے ہیں اور بیشک ہمارا اس بندہ نے اسکو ایک بار اور بھی دیکھا ہے اترتے ہوئے سدرۃ المنتہی کے پاس جس کے آرام اور راحت کی بہشت ہے جب کہ آپ ﷺ شب معراج میں ساتویں آسمان پر پہنچے اور اس سے اوپر سدرۃ المنتہی اس بیری کے درخت کو دیکھا جو لوح محفوط سے دنیا میں نازل ہونے والے احکام خداوندی اور عالم زمین کے جملہ احوال و اعمال جو بارگاہ خداوندی میں پیش ہونے والے ہوتے ہیں، میں ان کا منتہی و مرکز ہے بس اسی کے قریب جنت الخلد ہے جس کو دیکھا اور یہ بیری کا نام محض دنیا والوں کو سمجھانے کیلئے ہے یہ نہیں کہ دنیا کے بیری کے درختوں کے مشابہ ہو بلکہ اس کی شان اور عظمت وخوب صورتی اس عالم کے مناسب اور شایان شان ہوگی جس طرح جنت کے انگور، انار پھل اگرچہ دنیاوی پھلوں کے نام سے تعبیر کئے گئے مگر ظاہر ہے کہ دنیا کے پھلوں کو ان سے کوئی بھی نسبت نہیں جب کہ ڈھانک رہی تھی اس سدرۃ المنتہی کو ایک ایسی چیز جس نے اس کو چھپا رکھا تھا کہ انوار و تجلیات اس پر اس طرح برس رہی تھیں کہ ہجوم انوار اور شدت تجلیات یا انوار و تجلیات پر برسنے والے خوش رنگ سنہرے پروانوں نے اسکو ڈھانک رکھا تھا جس طرح کہ سورج کی شعاعیں سورج کے کرہ کو نگاہوں سے چھپا لیتی ہیں تو ان تجلیات وانوار کے نزول کے وقت باوجود انکی شدت و کثرت کے آپ کی نگاہ نہ بہکی اور نہ حد سے آگے بڑھی، نہ ٹیڑھی اور ترچھی ہو کر دائیں سے بائیں مڑی اور نہ نگاہ مقام نظر سے آگے بڑھی بلکہ نظر محل نظر پر پوری قوت اور تثبت کے ساتھ جمی رہی یہ نہیں کہ اچٹتی نظر سے کوئی چیز نظر کے سامنے آگئی ہو تو، جو کچھ دیکھا وثوق ویقین کے ساتھ دیکھا اور جو کچھ نظر نے دیکھا دل اس پر مطمئن ہوا اور اس کی تصدیق کی بیشک آپ نے دیکھا اپنے رب کی عظیم الشان نشانیوں سے بڑی بڑی نشانیوں کو اور قدرت کے ایسے نمونے دیکھے کہ حق تعالیٰ کی عظمت وکبریائی کا پورا پورا مشاہدہ ہوگیا۔ شب معراج میں مشاہدہ آیات قدرت : سورة النجم کی ابتدائی آیات میں آنحضرت ﷺ کی نبوت و رسالت کو ثابت کیا گیا اور اپ ﷺ کے ہر قول وعمل کو وحی الہی اور اس کا حجت اور نمونہ ہدایت ہونا ذکر کیا گیا اور یہ کہ حق تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کو ایسا مقام عصمت و حفاظت کا عطا کیا گیا ہے، کہ باارادہ یا بلا ارادہ راہ حق سے سرموانحراف اور لغزش کا احتمال نہیں رہا اور ظاہر ہے کہ بغیر اس مقام عصمت کے وہ ذات ہادی عالم کیونکر بنائی جاسکتی تھی ظاہر ہے کہ جو خود غلطی اور گمراہی کا شکار ہوسکتا ہو وہ دوسروں کا ہادی ورہنما کیسے ہوگا اس لئے عصمت کا لازمہ نبوت ہونا عقلا بھی ثابت ہوا تو ابتداء میں آپ ﷺ کی شان رسالت بیان کرتے ہوئے اصل مقصد یعنی شب معراج میں آیات کبری اور قدرت کی عظیم نشانیوں کے مشاھدہ کا مضمون شروع فرمایا گیا پہلی اور دوسری آیت میں تو ستارے کے غروب کی قسم کھا کر یہ اعلان فرمایا گیا کہ (آیت ) ” ما ضل صاحبکم وما غوی “۔ اس ضمن میں آنحضرت ﷺ کی حیات مبارکہ کی عصمت و حفاظت ظاہر فرمائی گئی اور یہ کہ حق تعالیٰ نے آپ ﷺ کو ہر لغزش اور گمراہی سے محفوظ فرمایا ہے پھر تیسری اور چوتھی آیت میں آپ ﷺ کے ہر نطق کی خواہشات نفس سے پاکی کا ذکر فرماتے ہوئے فرمایا گیا کہ وہ وحی الہی ہے اور شریعت میں جو درجہ وحی الہی اور قرآن کریم کا ہے وہی درجہ آپ ﷺ کے فرمان مبارک کا ہے اور اس سے ذرہ برابر انحراف کرنے کی کسی بھی مومن کو قطعا گنجائش نہیں جیسے کہ ارشاد فرمادیا گیا (آیت ) ” فلا وربک لا یؤمنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لا یجدوا فی انفسھم حرجا مما قضیت ویسلموا تسلیما “۔ شان رسالت کی اس تحقیق وتثبیت اور حجیت اقوال رسول ﷺ کے بعد پانچویں آیت ” علمہ شدید القوی “۔ سے وحی الہی لانے والے قاصد فرشتہ کی قوت اور عظمت بیان کی گئی کہ وہ قاصد پیغامات خداوندی پہنچانے میں نہ مرعوب ہوسکتا ہے اور نہ کوئی طاقت اور زور اس کو مغلوب کرسکتا ہے اور نہ کوئی طاقت اور زور اس کو مغلوب کرسکتا ہے، کیونکہ وہ خود ہی ایسے مضبوط قوی اور زور والا ہے اس کے ساتھ ظاہری حسن و جمال اور وقار کا بھی پیکر ہے، جیسا کہ ابن عباس ؓ (آیت ) ” ذو مرۃ “۔ کی تفسیر میں۔ ذو منظر حسن ‘۔ فرماتے ہیں۔ 1 حاشیہ (تفسیر ابن کثیر۔ قرطبی، روح المعانی ) لہذا معلوم ہوگیا کہ رسول ﷺ خدا پر وحی لانے والا قاصد بھی کسی تقصیر وغلطی کا شکار نہیں ہوسکتا پھر اللہ کے رسول ﷺ نے اس قاصد کو خوب اچھی طرح پہچانا اس کو دیکھا اور نہایت قریب سے بھی دیکھا کہ پہلے افق اعلی پر نمایاں ہوا پھر اور قریب ہوا اور افق سماء کی بلندی سے نیچے کی طرف نزول کیا اور اتنا قریب ہوا کہ دو کمانوں یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا اور آنکھ کے مشاہدہ کی دل بھی تصدیق کرنے لگا تو ایسی قوتوں والے قاصد نے اس قرب کے بعد جو پیغام دیا اور پہنچا یا وہ یقیناً ہر طرح حجت ہے۔ ایک مرتبہ کی رؤیت کے بعد دوسری مرتبہ کی رؤیت (آیت ) ” ولقد راہ نزلۃ اخری “۔ سے بیان فرمائی گئی اس دوسری رؤیت کا محل اور مقام ساتواں آسمان اور سدرۃ المنتہی تھا جس کا مشاہدہ آپ ﷺ نے شب معراج میں فرمایا تو اس طرح ان ابتدائی مضامین کے بعد شب معراج کے احوال کی طرف کلام منتقل ہوا اور سدرۃ المنتہی کے قریب جنت الماوی ہونا اور سدرۃ المنتہی پر انوار و تجلیات کے برسنے کا ذکر فرمایا گیا اور یہ کہ وہاں آپ ﷺ نے اپنے رب کی آیات کبری کا مشاہدہ فرمایا۔ روایات صحیحہ سے یہ بات تو ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جبریل امین (علیہ السلام) کو ان کو اصلی صورت میں جس پر انکو پیدا کیا گیا دو مرتبہ دیکھا ہے ایک مرتبہ مکہ مکرمہ میں جب کہ غار حرا میں وحی نازل ہوچکنے کے بعد سلسلہ وحی رک گیا تھا اور وحی کے شوق وانتظار میں بےچین ہو کر باہر میدانوں اور پہاڑوں کی طرف نکل جائے تو اس زمانہ میں ایک مرتبہ جبرئیل کو دیکھا کہ آسمان و زمین کے درمیان اپنی عظیم جسامت سے افق سما کر گھیرے ہوئے ہیں اس عظیم الشان فرشتہ کو دیکھ کر آپ ﷺ پر رعب اور کپکپی طاری ہوگئی اور آپ ﷺ گھر لوٹے اور فرمایا۔ دثرونی، دثرونی ،۔ (جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا) دوسری مرتبہ جبریل امین (علیہ السلام) کو اصلی صورت میں شب معراج میں دیکھاجس کا ذکر (آیت ) ” ولقد راہ نزلۃ اخری عند سدرۃ المنتھی “۔ میں ہے اور اس رؤیت کو جبرئیل (علیہ السلام) کی رؤیت پر اور ان ہی کے قرب اور تدلی پر محمول کرنے والے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اور حضرت عائشہ ؓ ہیں اور ابوذر ؓ کی روایت کو بھی بعض ائمہ محدثین اسی کے مطابق قرار دیتے ہیں۔ تو اس طرح رؤیت جبرئیل (علیہ السلام) ایک مرتبہ زمین پر ہوئی اور ایک مرتبہ ملکوت سماوات پر سدرۃ المنتہی کے قریب، ابن جریر ؓ نے عبداللہ بن مسعود ؓ سے (آیت ) ” فکان قاب قوسین “۔ کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ یہ قرب جبرئیل (علیہ السلام) کا تھا اور (آیت ) ” فاوحی الی عبدہ ما اوحی “۔ کے بھی معنی یہ بیان کئے کہ جبرئیل (علیہ السلام) نے وحی کی اللہ کے بندہ محمد ﷺ کو جو بھی وحی کی ، حضرت شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں (دوسری بار جبرئیل (علیہ السلام) کو اپنی اصلی صورت پر دیکھا ) لیکن اس کے بالمقابل ایک جماعت صحابہ میں سے اس بات کی قائل تھی کہ شب معراج میں آنحضرت ﷺ کو رؤیت خداوندی حاصل ہوئی ہے اور یہ قرب اور تدلی حق تعالیٰ کے قرب اور تدلی پر جیسے بھی اس کے شان کے لائق ہو، محمول ہے، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ انس ؓ بن مالک اور حسن بصری (رح) اسی کے قائل تھے کہ رؤیت بصریہ ہوئی ہے اور ان کے علاوہ صحابہ اور تابعین کے طبقہ میں بھی متعدد حضرات رؤیت باری تعالیٰ کے قائل تھے، عکرمہ ؓ سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے لیکن ترمذی میں عکرمہ ؓ کی روایت سے اس نسبت میں تردد معلوم ہوتا ہے عکرمہ ؓ بیان کرتے ہیں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا، رای محمدربہ (کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے) میں نے عرض کیا، کیا حق تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیں ہے (آیت ) ” لا تدرکہ الابصار “ کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں فرمایا ”۔ ویحک “۔ (تجھ پر افسوس) یہ تو اس صورت میں کہ حق تعالیٰ متجلی ہو اپنے اس نور کے ساتھ جو اس کا نور ذاتی ہے اور آنحضرت ﷺ نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا ہے اور عکرمہ ؓ نے یہ بھی بیان کیا کہ ابن عباس ؓ کی حضرت کعب ؓ احبار سے ملاقات ہوئی تو اس ملاقات میں کعب ؓ کہنے لگے ان اللہ تعالیٰ قسم رؤیتہ وکلامہ بین محمد وبین موسیٰ فکلم موسیٰ مرتین ورأہ محمد مرتین۔ 1 حاشیہ (جامع ترمذی ) (کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا دیدار اور کلام محمد ﷺ وموسی (علیہ السلام) کے درمیان تقسیم کردیا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے دو مرتبہ اللہ سے کلام کیا اور محمد رسول اللہ ﷺ نے دو دفعہ اللہ رب العزت کا دیدار کیا) اور مسروق ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے عرض کیا، کیا محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے، فرمایا مسروق (رح) تو نے ایسی بات کہہ دی کہ میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے بیان کرتے ہیں میں نے عرض کیا اے ام ال مومنین ؓ ذرا ٹھہرائے (اور مجھے مہلت دیجئے) کہ کچھ عرض کروں اور میں نے یہ آیت پڑھی۔ (آیت ) ” لقد رای من ایات ربہ الکبری “۔ فرمایا تو اس آیت کو کہاں لے جارہا ہے یہ تو جبریل (علیہ السلام) کی رؤیت کا بیان ہے۔ صحیح مسلم میں ابوذر ؓ سے روایت ہے بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا ”۔ ھل رأیت ربک “۔ ارشاد فرمایا۔ نور انی اراہ۔ ایک روایت میں۔ رأیت نورا ‘۔ اور بعض شارحین نے ’۔ نورانی أراہ “۔ کو ’؛۔ نورانی اراہ “۔ پڑھا ہے یعنی وہ ذات رب جس کو میں نے دیکھا ہے وہ نور والی ذات ہے کہ میں اس کا دیدار کررہا ہوں۔ عکرمہ ؓ سے بروایت ترمذی اگرچہ ابتداء ابن عباس ؓ کی بات پر تردد اور اشکال ظاہر ہورہا ہے لیکن حافظ ابن کثیر (رح) نے۔ حاشیہ (تفسیر ابن کثیر جلد 4) بروایت ابن ابی حاتم عباد بن منصور (رح) سے یہ بیان کیا ہے کہ میں نے عکرمہ ؓ سے (آیت ) ” ماکذب الفؤاد مارای “۔ کی تفسیر دریافت کی تو عکرمہ ؓ کہنے لگے کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں تمہیں یہ بتاؤں کہ رسول اللہ ﷺ نے خدا کا دیدار کیا ہے میں نے کہا جی ہاں فرمایا ہاں دیکھا ہے اور ایک دفعہ کے بعد پھر ایک بار اور بھی دیکھا ہے۔ خاتم المحدثین حضرت سید انور شاہ کشمیری اور استاذی شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی (رح) کی رائے یہ ہے کہ معراج میں آنحضرت ﷺ کو رؤیت خداوندی ہوئی ہے، مشکلات القرآن میں حضرت شاہ صاحب (رح) نے ان آیات پر کلام فرمایا اور اس تحقیق کو استاذ محترم نے فتح الملہم شرح صحیح مسلم میں مدار تحقیق اور حل مسئلہ کے طور پر اختیار فرمایا حضرت شاہ صاحب (رح) نے ان آیات النجم کے مضمون کو تین حصوں پر اور تین حالتوں کے بیان پر محمول فرمایا جس کا حاصل یہ ہے کہ ابتدائی تین آیات میں اللہ نے موحی الیہ یعنی اپنے رسول کا ذکر فرمایا کہ استقامت علی الحق اور عصمت و حفاظت کا یہ مقام ہے اور ان کا ہر قول وفعل وحی الہی ہے موحی الیہ کے بیان کے بعد واسطہ وحی یعنی وحی پہنچانے والے قاصد کی عظمت وقوت کا بیان ہوا اور یہ کہ موحی الیہ کو واسطہ وحی اور قاصد سے معرفت اور قرب بھی ہے جو افق اعلی کے عنوان سے ذکر کیا گیا اس کے بعد کی آیات اس حالت کو بیان کررہی ہیں جو موحی الیہ اور رب العزت کے مابین شب معراج میں واقع ہوئی وہ قرب و دیدار ہے جس کو (آیت ) ” ما کذب الفؤاد ما رای “ ، میں بیان فرمایا گیا اور جن آیات کے دکھلانے کے لئے سفراسراء کرایا گیا جس کو فرمایا گیا۔ (آیت ) ” لنریہ من ایاتنا “۔ (تاکہ دکھائیں ہم اپنی عظیم آیات ونشانیاں) عروج سموات اور سدرۃ المنتہی پر اس وعدہ کی تکمیل کرکے فرما دیا گیا (آیت ) ” لقد رای من ایات ربہ الکبری “۔ تو اگر یہ آیت صرف رؤیۃ جبریل (علیہ السلام) ہوتی تو نہ تو اس کے وعدہ کی ضرورت تھی اور نہ ہی اسکو عظیم ترین آیات میں شمار کیا جاتا۔ کیونکہ جبریل امین (علیہ السلام) کی رؤیت تو اصلی صورت میں پہلے ہی آغاز وحی کے زمانہ میں ہوچکی تھی جو معراج سے آٹھ نو برس قبل کا زمانہ تھا تو پھر ظاہر ہے (آیت ) ” لنریہ “۔ سے جس چیز کے دکھانے کا وعدہ ہورہا ہے وہ وہی چیز ہوسکتی ہے جس کو آپ ﷺ نے پہلے نہ دیکھا ہو علاوہ ازیں جبریل (علیہ السلام) تو آپ ﷺ کے وزیر تھے جیسا کہ احادیث صحیحہ وصریحہ سے ثابت ہے تو پھر صرف انکے دیدار کے لیے معراج جیسا عظیم الشان معجزہ مقدر فرمانا قرین قیاس نہیں معلوم ہوتا تھا اس وجہ سے بھی یہی راجح معلوم ہوتا ہے کہ اس تیسرے حصہ آیات میں قرب خداوندی اور دیدار خداوندی کا بیان ہے جس کے لئے سیر ملکوت سموت کرائی گئی اور سدرۃ المنتہی سے بلند مقام تک پہنچایا گیا پھر جب کہ حضرات صحابہ ؓ کی ایک جماعت اس کی قائل تھی اور آیات کا انطباق بھی بلاتکلف وتردد ہورہا ہے تو معراج میں دیدار خداوندی ماننے میں کوئی اشکال باقی نہیں رہتا۔ آیت مبارکہ (آیت ) ” لاتدر کہ الابصار “۔ سے پیدا ہونے والے اشکال حل کرنے کے لئے استاذ محترم شیخ الاسلام (رح) اپنے فوائد میں فرماتے ہیں۔ لیکن یاد رہے کہ یہ رؤیت وہ نہیں جس کی نفی آیت ”۔ لاتدر کہ الابصار “۔ میں کی گئی ہے کیونکہ اس سے غرض احاطہ کی نفی کرنا ہے یعنی نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں (جیسے کہ مادی چیزوں کی حقیقت کا احاطہ اور ماہیت کا ادراک ہوجاتا ہے) علاوہ بریں ابن عباس ؓ سے جب سوال کیا گیا کہ دعوائے رؤیت آیت ”۔ لاتدر کہ الابصار “۔ کے مخالف ہے تو فرمایا ویحک ذاک اذا تجلی بنورہ الذی ھو نورہ “۔ (رواہ الترمذی) معلوم ہوا کہ خداوندی قدوس کی تجلیات وانوار متفاوت ہیں بعض انوار قاہرہ للبصر ہیں بعض نہیں اور رؤیت فی الجملہ دونوں پر صادق آتی ہے اور اسی لئے کہا جاسکتا ہے کہ جس درجہ کی رؤیت مومنین کو آخرت میں نصیب ہوگی جب کہ نگاہ ہیں تیز کردی جائیں گی جو اس تجلی کو برداشت کرسکیں گی وہ دنیا میں کسی کو حاصل نہیں ہاں ایک خاص درجہ کی رؤیت سیدنا محمد رسول اللہ علیہ الصلوۃ والتسلیم ‘۔ کو شب معراج میں ابن عباس ؓ کی روایت کے موافق میسر ہوئی اور اس خصوصیت میں کوئی بشر آپ ﷺ کا شریک وسہیم نہیں نیز انھی انوار و تجلیات کے تفاوت اور تنوع پر نظر کرتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ (حضرت) عائشہ ؓ (حضرت) ابن عباس ؓ کے اقوال میں کوئی تعارض نہیں شاید وہ نفی ایک درجہ میں کرتی ہوں اور یہ اثبات دوسرے درجہ میں کررہے ہوں اور اسی طرح ابوذر ؓ کی روایات ”۔ رایت نورا۔ اور، نورانی اراہ، یا نور انی اراہ “۔ میں تطبیق ممکن ہے واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم انتہی کلامہ من فوائدہ۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت، راہ مرتین “۔ کی مراد بعض روایات کے الفاظ سے یہ کی جاتی ہے کہ مرۃ بقلیہ ومرۃ راہ بعینہ، لیکن یہ بھی امکان ہے کہ ایک مرتبہ کی رؤیت وہ ہو جو حالت منام میں ایک رات آپ ﷺ نے فرمائی جس کا ذکر حدیث اختصام ملاء اعلی میں ہے اور دوسری مرتبہ شب معراج میں جیسا کہ امام احمد بن حنبل (رح) نے ایک روایت میں ابن عباس ؓ سے مرفوعا یہ نقل کیا ”۔ قال رسول اللہ ﷺ رایت ربی عزوجل “۔ ان لفظوں کو روایت کرکے کہا ” فانہ حدیث اسنادہ علی شرط الصحیح۔ کہ یہ حدیث ایسی ہے کہ اس کی سند صحیح کی شرط پر ہے فرمایا لیکن یہ حدیث منام کا ایک مختصر حصہ ہے جیسا کہ احمد بن حنبل (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا میرا رب میرے سامنے متجلی ہوا ایک بہترین صورت میں حالت نوم میں اور فرمایا اے محمد ! جانتے ہو کہ ؟ ملاء اعلی کس چیز میں خصومت کررہے ہیں میں نے کہا نہیں تو رب العزت نے اپنا دست بےمثال میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھ دیا جس کی ٹھنڈک (لطافت وسکینت) میں اپنے سینہ کے درمیان محسوس کرنے لگا اس کے بعد پھر جب سوال کیا تو میں نے جواب دیا نعم فی الکفارات والدرجات الخ۔ بہرکیف ان قرائن اور دلائل سے آیات نجم کے اس تیسرے حصہ کو رؤیت خداوندی پر محمول کرنا واضح معلوم ہوتا ہے۔ مسئلہ کی اہمیت تو چاہتی تھی کہ اس کے متعلقہ پہلوؤں پر تفصیل سے کلام کیا جاتا لیکن ضیق مقام کے باعث اختصار کے ساتھ یہ نقول پیش کردیں اور ترجیح راجح کے طور پر حضرت شاہ صاحب (رح) اور استاذ محترم کی رائے ناچیز نے اپنی تعبیر میں پیش کردی میں اپنے علم وفہم کے قصور کے باعث نہیں کہہ سکتا کہ حضرت شاہ صاحب (رح) کی مراد بتمام و کمال واضح کرسکا یا نہیں حضرات قارئین سے اپنی تقصیر وکوتاہی پر عفو و درگذر کا طالب ہوں فاصفحوا الصفح الجمیل۔
Top