Maarif-ul-Quran - Ar-Rahmaan : 46
وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚ
وَلِمَنْ خَافَ : اور واسطے اس کے جو ڈرے مَقَامَ رَبِّهٖ : اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے جَنَّتٰنِ : دو باغ ہیں
اور جو شخص اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا اسکے لئے دو باغ ہیں
اعزاز واکرام اہل ایمان بعطاء نعمتہائے عظام از رب ذی الجلال والاکرام : قال اللہ تعالیٰ (آیت ) ” ولمن خاف مقام ربہ جنتین ...... الی ....... ذی الجلل والاکرام “۔ (ربط) گذشتہ سلسلہ آیات کفار ومجرمین کی تنبیہ اور ان کی سزاؤں کے بیان پر مشتمل تھا ان آیات میں اہل ایمان اور مطیعین کی جزاؤں اور ان پر آخرت میں عطا کردہ نعمتوں اور راحتوں کا بیان ہے ارشاد فرمایا جارہا ہے۔ اور جو شخص بھی ڈرا اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے اس کیلئے دو باغ ہیں جنت کے عظیم الشان باغات میں سے جن کی نعمتیں اور راحتیں وہ ہیں کہ نہ کسی آنکھ نے دیکھیں اور نہ کسی کان نے سنیں اور نہ کسی انسان کے قلب و دماغ میں اس کا تصور ہوا ظاہر ہے کہ یہ استحضار وتصور اور ڈر کہ اللہ کے سامنے میں کیا منہ لے کر حاضر ہوں گا قدم قدم پر انسان کو ہر خطاء وغلطی سے بچائے گا اور ہر مرحلہ پر وہ آخرت کے اجر وثواب حاصل کرنے کے لئے کوشاں رہے گا اور تقوی کا بلند ترین راستہ اختیار کرکے جن کے ایسے عالیشان باغات کا مستحق ہوگا پھر بتاؤ اے جن وانس تم اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس نعمت کا انکار کروگے ؟ ان عالیشان باغوں کی صفت یہ ہوگی کہ بہت سی شاخوں والے ہوں گے جو مختلف وانواواقسام پر مشتمل ہوں گی جن پر متعدد اقسام کے پھل ہوں گے اور ان کی شادابی اور سایہ اور بھی راحت ولذت کا باعث ہوگا تو پھر بتاؤ اے جن وانس تم اپنے رب کی نعمتوں میں سے کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے ان دونوں باغوں میں دو چشمے ہوں گے جو بہتے ہوں گے جس کی وجہ سے نہ کوئی درخت خشک ہوگا اور پھلوں اور پھولوں کی شادابی میں کوئی کمی نہیں آئے گی تو پھر بتاؤ اے جن وانس تم اپنے رب کی نعمتوں میں سے کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے ان باغوں میں پھل اور میوے ہوں گے قسم قسم کے۔ پھر بتاؤ اے جن وانس تم اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس نعمت کا انکار کرو گے ان نعمتوں اور ہر قسم کے خوشگوار پھلوں اور میووں کے علاوہ راحت اور آرام کے بھی پورے سامان عطا کئے جائیں گے تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے ایسے بستروں پر جن کے استر بھی دبیز ریشم کے ہوں گے اور ان باغوں کا میوہ (پھل) جھک رہا ہوگا اہل جنت کی جانب اور ان کو اتنی بھی مشقت کی ضرورت نہ ہوگی کہ اٹھیں اور درختوں کے قریب جاکر درختوں پر چڑھیں اور پھل توڑیں بلکہ درختوں کی شاخیں ان پر جھکی ہوئی ان سے قریب ہوں گی جب چاہیں تازہ بتازہ پھل درختوں سے توڑ کر کھاتے رہیں توبتاؤ اے جن وانس تم اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس نعمت کا انکار کرو گے ان تمام نعمتوں اور اسباب راحت کے علاوہ یہ بھی انعام ہوگا کہ ان باغات میں ایسی عورتیں (حورعین) ہوں گی جو نگاہ نیچی رکھنے والی ہوں گی، حیاء عورت کی زینت و خوبصورتی ہے تو ظاہری جملہ محاسن اور خوبصورتیوں پر ایک مزید خوبصورتی یہ ہوگی کہ وہ قاصرات الطرف اور نگاہیں نیچی رکھنے والی ہوں گی جو ان کی عفت کی نشانی ہے جن کو نہ چھوا ہوگا ان سے پہلے کسی انسان نے اور نہ کسی جن نے جو خاص ان ہی اہل جنت کے واسطے پیدا کی جائیں گی تو پھر سوچوبتاؤ اے جن وانس تم اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس نعمت کا انکار کرو گے وہ حوریں اپنے حسن و جمال اور طہارت و پاکیزگی میں گویا یاقوت ومرجان اور خوش رنگ وبیش بہا مونگاہوں گی تو پھر بتاؤ اے جن وانس تم اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس نعمت کا انکار کرو گے ظاہر ہے کہ احسان ونیکوکاری کا بدلہ کچھ نہیں سوائے بھلائی اور خوبی کے سو اس وجہ سے اہل ایمان و احسان کو ایسی ہی بھلائیوں، خوبیوں، نعمتوں اور راحتوں کا بدلہ دیا جائے گا تو پھر بتاؤ اے جن وانس تم اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس نعمت کا انکار کرو گے اور ان دو باغوں سے کم درجے کے دو باغ اور ہوں گے، تو پھر بتاؤ اے جن وانس تم اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس نعمت کا انکار کرو گے نہایت سبز گہرے رنگ کے ہوں گے کہ انکی شادابی اور تروتازگی انتہاء پر پہنچی ہوگی تو پھر بتاؤ اے جن وانس تم اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس نعمت کا انکار کرو گے، ہر نعمت وانعام کو اے جن وانس سوچو غور کرو اور اس نعمت کا تصور کرکے سمجھو کہ خدا کا کس قدر انعام وکرم ہے اسکی ہر نعمت دعوت فکر دے رہی ہے اور نعمتوں سے نوازے ہوئے ہر فرد سے سوال کرتی ہے کیا تو مجھ کو جھٹلا سکتا ہے۔ ان دونوں باغوں میں دو چشمے ہیں پانی کے ابلتے ہوئے تو پھر بتاؤ اے جن وانس تم اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس نعمت کا انکار کرو گے ان میں پھل میوے کھجوریں اور انار ہیں جو دنیا کے پھلوں کھجوروں اور انگور وانار پر قیاس نہیں کیے جاسکتے جیسی وہاں کی ہر نعمت اس عالم کی شان بلند وبالا کے مطابق ہے اسی طرح یہ پھل اور غذائیں بھی وہی کی شان کے مطابق ہوں گی نام تو بیشک یہی ہیں جو دنیا کے پھلوں کے ہیں لیکن دنیا کے پھلوں اور جنت کے پھلوں میں زمین و آسمان سے بھی سے بھی زائد فرق ہے تو پھر بتاؤ اے جن وانس تم اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس نعمت کا انکار کرو گے ؟ ان سب باغوں میں جو یہ دو کم درجے کے ہیں اور وہ پہلے دو جو نہایت عالی شان اور بلند مرتبہ ہیں نہایت ہی بہترین پاکیزہ خوبصورت عورتیں (یعنی حورعین) تو پھر بتاؤ اے جن وانس تم اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس نعمت کا انکار کرو گے وہ حوریں ہیں جو رکی رہنے والی ہیں خیموں میں یہ نہیں کہ باہر نکلی نکلی ماری ماری پھرتی ہوں عورت کی عظمت اور اس کی خوبی و خوبصورتی ستر و حجاب اور اپنے گھر کی زینت ہی بنے رہنے میں ہے اس وجہ سے اہل جنت کے واسطے جو حورعین جنت میں ہوں گی ان کی خاص صفت ” فی الخیام “ بیان فرمائی گئی تو پھر بتاؤ اے جن وانس تم اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس نعمت کا انکار کرو گے ، ؟ نہ چھوا ہوگا ان حورعین کو ان سے پہلی کسی آدمی نے اور نہ کسی جن نے تو پھر بتاؤ اے جن وانس تم اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس نعمت کا انکار کرو گے ؟ یہ اہل جنت تکیہ لگائے بیٹے ہوں گے سبز مسندوں اور نہایت قیمتی نفیس بچھونوں پر انتہائی راحت اطمینان و سکون کی یہ نشست ہوگی جو ان کی مجلسوں میں نظر آتی ہوگی یہ ہوں گے انعامات اور اعزاز واکرام اہل ایمان اور خداوند عالم سے خشیت وتقوی رکھنے والے بندوں پر تو پھر بتاؤ اے جن وانس تم اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس نعمت کا انکار کرو گے ؟ اے مخاطب ان تمام تفصیلات کو سننے کے بعد بس سمجھ لے کہ بڑی ہی برکت والا ہے تیرے رب کا نام جو بڑی ہی عظمت اور بزرگی والا ہے یہ سب قدرت کی نشانیاں ” جنت و جہنم “ اور انکے احوال اہل جہنم پر عذاب وسزائیں اور اہل جنت پر انعام وکرم خداوند ذوالجلال کی عزت وکبریائی کی ایسی دلیل ہے کہ نہ اس میں کوئی شبہ کرسکتا ہے اور نہ کسی کو انکار کی مجال ہوسکتی ہے یہ اسی کا کرم ہے وہ اپنے وفادار بندوں پر احسان وانعام فرماتا ہے اور اسی کی یہ شان کبریائی ہے کہ مجرمین سے انتقام لیتا ہے اور یہ بھی واضح ہے کہ ہر خوبی اور نعمت کا سرچشمہ اللہ رب العزت کی ذات ہے اور یہ ساری نعمتیں اہل ایمان اہل کو اس کا نام لینے اور اس کا کلمہ پڑھنے کی بدولت میں اسیلئے جیسے اس کی ذات بالا و برتر اور بابرکت ہے معلوم ہوا کہ اس کا نام بھی بہت بڑا ہے جس کے لینے سے یہ سب کچھ حاصل ہوتا ہے۔ صدق اللہ تبارک اسم ربک ذی الجلال والاکرام نسئال اللہ العظیم الکریم الوھاب ذالجلال والاکرام ان یجعلنا من اھل الایمان والاخلاص وان یحشرنا مع الذین انعم اللہ علیھم من النبین والصدیقین والشھدآء والصالحین وحسن اولئک رفیقا، امین یا رب العالمین۔ قرآن کریم میں تکرار آیات ومضامین کی حکمت : سورة الرحمن میں (آیت ) ”۔ فبای الآء ربکما تکذبان “۔ کا بار اعادہ فرمایا گیا اسی طرح سورة القمر میں (آیت) ” ولقد یسرنا القران للذکر فھل من مد کر “۔ اور سورة والمرسلات میں (آیت ) ” ویل یومئذ للمکذبین “۔ مکرر ہے تو تکرار مضامین وآیات کے سلسلہ میں مناسب معلوم ہوتا ہے اصولی طور پر حضرات قارئین کی خدمت میں اجمالا اتنا عرض کردیا جائے کہ قرآن کریم کے طرز بیان میں ایک خصوصی طرز یہ بھی ہے کہ واقعات وقصص اور انکے اجزاء کو بار بار بیان کرتا ہے اور بعض آیات معینہ بار بار دہرائی جاتی ہیں مثلا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) حضرت اسماعیل (علیہ السلام) حضرت نوح (علیہ السلام) حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت صالح (علیہ السلام) حضرت شعیب (علیہ السلام) اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعات قرآن کریم میں متعدد جگہ ذکر کئے گئے اور حضرت موسیٰ وہارون (علیہما السلام) اور فرعون کے ذکر سے تو شاید ہی کوئی حصہ قرآن کریم کا خالی ہو ان تمام واقعات کو قرآن بکثرت کہیں اجمال اور تفصیل سے کسی جگہ بعض اجزاء قصہ اور دوسری جگہ دوسرے بعض اجزاء بیان کرتا ہے اسی طرح بعض آیات مثلا (آیت ) ”۔ فبای الآء ربکما تکذبان “۔ اور ویل یومئذ للمکذبین “ ایک ہی سورت میں بار بار دہرائی جارہی ہے تکرار مضامین وآیات کی تفصیلی حکمتیں تو متعلقہ مقامات کی تفسیر میں امام رازی (رح) زمخشری (رح) اور علامہ آلوسی (رح) کے کلام سے معلوم ہوسکتی ہیں۔ اس مقام پر ان حضرات اور حضرت شاہ ولی اللہ (رح) کے کلام سے اخذ کرو بعض اصولی چیزیں اشارۃ بیان کرنے پر ہم اکتفاء کرتے ہیں خلاصہ یہ کہ قرآن کریم جن واقعات کو بیان کرتا ہے ہر واقعہ اپنے مختلف اجزاء اور متعدد پہلوؤں کے اعتبار سے بہت سے مفید ثمرات اور اہم نتائج پر مشتمل ہوتا ہے تو ہر مقام وموضوع اور مقصد کی رعایت کرتے ہوئے ہر واقعہ کو کبھی مجموعی طور پر اور کبھی اس کے کسی ایک جز اور پہلو کو کہیں اجمال اور کہیں تفصیل کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے اور متعدد مقامات پر اس ایک ہی واقعہ کو ذکر کرنے سے ہر مقام کے مناسب ایک نئے فائدہ اور نتیجہ کا اخذ کرنا مقصود ہوتا ہے انہیں مقاصد ونتائج کی کثرت کو پیش نظر رکھتے ہوئے بیان واقعہ یا اس کے اجزاء میں تکرار اختیار کیا جاتا ہے دیکھنے والے کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ چیز مکرر ذکر کی جارہی لیکن مقصد اور غرض کے اعتبار سے وہ مکرر نہیں بلکہ نئی چیز ہوتی ہے مثلا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قصہ کے بنیادی اجزاء اور پہلو حسب ذیل ہیں : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت کے بعد آغوش مادر کے بجائے سمندر کی موجوں کے حوالہ ہوجانا پھر ایک حیرت انگیزطریقہ سے فرعون کے یہاں پہنچ جانا اسی کے گھر میں تربیت پانا قبطی کو قتل کرکے مدین کی طرف بھاگنا وہاں ایک انوکھے طور پر نکاح ہوجانا اہلیہ کو ہمراہ لے جاتے ہوئے آگ کے شعلہ کو دیکھ کر پہاڑی پر جانا اور وہاں سے منصب نبوت سے سرفراز ہو کر لوٹنا اور معجزہ کا عطا ہوجانا پھر دعوت ایمان لے کر فرعون کے پاس جانا فرعون کا تمرد وسرکشی کے ساتھ تحقیر آمیز سوال و جواب کرن کرنا معجزات دیکھ کر فرعون اور تمام ساحروں کا ذلیل ہونا انجام کار فرعون اور اس کی قوم کا دریائے نیل میں غرق ہوجانا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا مظفر ومنصور ہو کر بنی اسرائیل کو روز روز کے عذاب سے بچالینا وغیرہ وغیرہ۔ اب قرآن کریم کبھی اس قصہ اور اسکے اجراء کو اپنی قدرت عظیمہ اور اپنی جلالت شان کے ظاہر کرنے کے لیئے ذکر کرتا ہے کہ حق تعالیٰ کی عظمت و طاقت اور سطوت وجبروت کے سامنے فرعون جیسے متمرد اور مغرور ومتکبر بادشاہ کی حقیقت کچھ نہیں دم کے دم میں اللہ نے اسکی سلطنت اور طاقت و شوکت کو درہم برہم کرڈالا اتنے بڑے سازو سامان والا کس طرح بےگور وکفن مارا گیا کسی جگہ مقصود ان ہی ہیبت ناک اور تاسف انگیز واقعات کے بیان کرنے سے غافل بندوں کو عبرت دلانا ہوتا ہے کہ تم کو بھی ان معاصی اور کفریات سے باز رہنا چاہئے جن کا یہ خمیازہ پہلی قومیں بھگت چکی ہیں ورنہ کچھ بعید نہیں کہ خدا کی طرف سے تمہارے ساتھ بھی وہی معاملہ ہو کسی مقام پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور انکی اتباع کرنے والوں پر احسان جتانا مقصود ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان پر پیغمبر خدا کی اطاعت وپیروی کی وجہ سے یہ انعام فرمائے کہ ایسے جابر وخونخوار کے پنجہ ظلم سے نجات بخشی جس کے مقابلہ کی کوئی طاقت نہ تھی پھر اسی ظالم کے تاج وتخت کا وارث بھی بنا دیا۔ کسی جگہ معجزات کے ذکر سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی صداقت کا ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے غرض اسی نوع کے اور بہت سے مقاصد ہوتے ہیں جن کے پیش نظر واقعات اور انکے اجزاء کو ہر ایک مقصد کے اثبات کے لیے ذکر کیا جاتا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ قدس اللہ سرہ العزیز تکرار مطالب قرآن کے متعلق اکسیر فی اصول التفسیر۔ 1 حاشیہ (صفحہ نمبر 10 مطبوعہ کانپور۔ 12) میں فرماتے ہیں۔ : ” تکرار در مطالب قرآن کریم برائے آں است کہ آنچہ خواہیم کہ سامع را افادہ نمائیم دو قسم می باشد یکے از آنکہ مقصود آنجامجرد تعلیم مالا یعلم بود تامخاطب حکم مجہول رامعلوم کندد آں نادانستہ دانستہ گردو دیگرآں کہ مقصود استحضار آں علم مدرکہ ادباشد تا ازاں لذت فراواں گیرد ورنگ ایں علم برہمہ قومی غالب آیدو قرآن کریم بہ نسبت ہری کے از علوم خمسہ کہ بیانش خواہد آمد ہر دو قسم افادہ ارادہ فرمود تعلیم مالا یعلم بہ نسبت جاہل ورنگین ساختن نفوس بداں بہ سبب تکرار بہ نسبت عالم اللھم مگر دراکثر احکام کہ تکرار آنجاحاصل نشدہ افادہ دوم آنجامطلوب نبودہ و لہذا درشریعت بتکرار تلاوت امر فرمودہ اندنہ بمجرد فہم اکتفاء کردہ اندایں قدر فرق نہادہ اند کہ دراکثر احوال آں مسائل بعبارت تازہ واسلوب جدید اختیار فرمودہ اند تا اوقع باشد درنفوس والذباشد دراذہان اگر تکرار بیک لفظ کنند چیزے باشد کہ بطو وظیفہ آں را تکرار نمانید درصورت اختلاف تعبیرات وتفاسیر اسالیب ذہن خوض کند وخاطر بکلی درآں فرو وود “۔ حاصل یہ ہے کہ قرآن کریم کی ہر تعلیم اور ہر حکم کے مخاطب دو قسم کے آدمی ہوتی ہیں اور دو ہی اعتبار ونظریوں کے ساتھ قرآن خطاب فرماتا ہے ایک وہ کہ جو اس حکم سے ناواقف ہیں ان کو تو صرف ایک نامعلوم چیز کی طرف تعلیم دینا ہے دوسرے وہ کہ محض امر غیر معلوم کی تعلیم دینا مقصود نہیں ہوتی بلکہ اس کیفیت کا قلب میں راسخ کردینا مقصود ہوتا ہے تاکہ قوت مدرکہ اس علم کا پورے طور پر استحضار کرے اور طبائع اس سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ اس کے رنگ میں رنگی جائیں۔ اور ظاہر ہے کسی کام میں ملکہ بغیر اسکی پابندی اور التزام اور بار بار کی مشق کے نہیں ہوسکتا اسی طرح اذہان و طبائع کا علوم الہیہ کے رنگ میں رنگا جانا تکرار و مداومت کا محتاج ہوگا جیسا کہ نماز و روزہ اور تمام عبادات کی پابندی اس امر کا باعث ہے کہ ہم اطاعت وانقیاد کے خوگر ہوجاتے ہیں اور بلکہ بسا اوقات اس کے ترک سے اذیت محسوس ہونے لگتی ہے اس طرح کلمہ توحید اور ذکر اللہ کی پابندی حق تعالیٰ کے تصور اور اس کی محبت قلب میں جما دینے کی تاثیر رکھتی ہے قلب میں اس کیفیت کے رسوخ کا ذریعہ کثرت ذکر کثرت تلاوت تکرار اور مواظبت عمل ہے تو مضامنین ومطالب قرآنیہ کا تکرار بھی اسی لئے ہے کہ تاکہ مخاطبین کے قلوب میں یہ مضامنین وعلوم پورے طور پر راسخ ومتمکن ہوجائیں اور طبیعت انھی کے رنگ میں رنگی جائے ذہن انکی حلاوت و شیرینی سے لطف اندوز ہونے لگیں پھر مزید خوبی یہ کہ تکرار بعینہ ایک ہی لفظ اور عنوان کے ساتھ نہیں بلکہ ہر جگہ تازہ عبارت اور نئے اسلوب کے ساتھ ہے تو اختلاف تعبیرات کی وجہ سے ذہن کو زیادہ غور وخوض کا موقعہ ملتا ہے اور مدرکہ انسانی کو ہر بار اس مضمون کے سننے سے نئی لذت حاصل ہوتی ہے۔ سورة الرحمن میں ایک ہی (آیت ) ”۔ فبای الآء ربکما تکذبان “۔ بار بار دھرائی گئی ہے کیونکہ حق تعالیٰ نے اس سورت میں اپنی مخلوق جن وانس پر بڑے انعامات کا ذکر فرمایا ہے اور ہر نعمت کے ذکر کے بعد اس آیت کو لایا گیا تقریر وتثبیت اور الزام حجت کے طور پر کہ اے جن وانس (بھلا بتاؤ) اب اپنے رب کی نعمتوں میں کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے (انکی ناشکری کرو گے) مقصد یہ ہے کہ سامع ہر ہر نعمت پر متنبہ ہو کر اپنے پر ورگار کی نعمتوں کو پہچانے اور ان کا شکر بجالانے کے لیے آمادہ ہو اس سورت میں انعامات کا ذکر ایک تو بصورت انعام ہے کہ ان نعمتوں کو یاد لایا گیا جو منعم حقیقی کی طرف سے بندوں پر کی گئیں اور دوسرے آخروی رنج ومحن اور عذاب جہنم کے بیان میں اپنے انعام کو ذکر فرمایا تاکہ ان آلام اور کیفیات مصائب کو سن کر ان امور سے پرہیز کریں جو عذاب آخری کا سبب ہیں ان امور کا ذکر بھی انعام ہے اگرچہ بیان تو عذاب اور شدت کا ہے مگر اس وجہ سے کہ اس سے مقصود بندوں کو ان اعمال وافعال سے بچنے کی تعلیم ہے جو اس عذاب وشدت کا باعث ہیں لامحالہ ان احوال کا ذکر بھی یقیناً ایک نعمت خداوندی ہی ہوا اور اس پر (آیت ) ”۔ فبای الآء ربکما تکذبان “۔ اسی طرح مربوط اور چپساں ہواجی سے دیگرانعامات خداوندی پر ہے زانی و بدکار اور لوٹ و غارت گری ڈالنے والوں کی سزا پاک باز ونیک طینت لوگوں کو بعنوان بشارت اور اس طرح اس کو تعبیر کیا جائے کہ یہ سزا دینے والے حاکم کے انعامات میں سے ایک عظیم انعام ہے یا جیسے تریاق کا ذکر انعام ہے تو اس کے بالمقابل کم اور مہلک زھر کا بیان بھی مخاطب کے واسطے معلم کا بہت بڑا انعام ہے تاکہ وہ اپنے مخاطب کو نافع اور مضر ہر قسم کی چیزوں سے مطلع اور باخبر کردے۔ چناچہ امام رازی (رح) ” نہایۃ الایجاز فی ذرایۃ الاعجاز “ اور سید مرتضی ” کتاب الامالی “ میں فرماتے ہیں۔ ان فعل العقاب وان لم یکن نعمۃ فذکرہ ووصفہ والا نذار بہ من اکبر النعم لان فی ذالک زجرا عما یستحق بہ العقاب۔ 1 حاشیہ (کتاب الامالی ص 88) بیشک فعل عقاب اور عذاب بظاہر اگرچہ کوئی نعمت نہیں ہے لیکن اس کا ذکر اور اس کی کیفیت کا بیان بڑی عظیم الشان نعمتوں میں سے ہے کیونکہ اس کے ذکر سے ان برے کاموں سے روکنا مقصود ہے جنکے کرنے سے انسان عذاب خداوندی کا مستحق ہوجاتا ہے۔ شیخ سیوطی (رح) نے فرمایا۔ وقد سئل ای نعمۃ فی قولہ تعالیٰ کل من علیھا فان فاجیب باجوبۃ حسنھا النقل من دارالھموم لی دار السرور واراحۃ لمومنین ، (الاتقان فی علوم القرآن) ۔ یہ سوال کیا گیا (آیت ) ” کل من علیھا فان “۔ کونسی نعمت کا بیان ہے (کہ جس کے بعد (آیت ) ”۔ فبای الآء ربکما تکذبان “۔ فرمایا گیا جس طرح انعامات خداوندی پر اس کو اس سورت میں ذکر کیا گیا ہے) تو اس کے متعدد جواب دیئے گئے جن میں سب سے بہتر یہ جواب ہے کہ اس آیت میں دار الہموم (یعنی تکالیف وآلام اور رنج وغم کی زندگی) سے دارالسرور کی طرف منتقل ہونے کا اور اہل ایمان کے واسطے راحتوں کا بیان ہے (جو یقیناً ایک عظیم الشان نعمت ہے لہذا اس کے ذکر پر بھی (آیت ) ”۔ فبای الآء ربکما تکذبان “۔ آیت مربوط اور چسپاں بلکہ نہایت ہی لطیف ہے ، ) غرض قرآن کریم کے خصوصی طرز خطاب میں تکرار خطاب مضامین اور آیات میں جس کے بیشمار اسرار اور حکمتیں ہیں ہم نے صرف بطور مثال یہ چند چیزیں بیان کردیں اعجاز قرآن کی بحث ہم یہ عرض کرچکے ہیں دنیا کے تمام اہل علم اور ارباب نظر وفکر اور اصحاب فہم وبصیرت بھی قرآن کریم کی بحث میں ہم یہ عرض کرچکے ہیں دنیا کے تمام اہل علم اور ارباب نظر وفکر اور اصحاب فہم وبصیرت بھی قرآن کریم کے حقائق ومعارف اور اس کے اسرار ولطائف کا پوری طرح ادراک نہیں سکتے اس باب میں انکی مشترکہ مساعی اور کوششیں صرف وہی نسبت رکھ سکتی ہیں جو ناپیدا کنار سمندر کے سامنے ایک قطرہ کو ہے وحی الہی اور علوم قرآن کے سامنے تمام دنیا کے اہل علم کی علمی وفکری صلاحیتوں کے بارے میں قرآن کریم نے فیصلہ فرمادیا ہے۔ (آیت ) ” وما اوتتیم من العلم الا قلیلا “۔ اور نہیں دیا گیا ہے اے لوگو ! تم کو علم میں سے مگر ایک نہایت ہی قلیل حصہ۔ اس لیے ظاہر ہے کہ یہ محدود علم کس طرح لامتناہی اور غیر محدود علوم اور حقائق کی بلندیوں تک رسائی کرسکتا ہے۔ (آیت ) ” فللہ الحمد رب السموت ورب الارض رب العلمین ولہ الکبریآء فی السموت والارض وھو العزیز الحکیم :۔ تکرار آیات کی حکمت پر علامہ سید مرتضی (رح) شیخ سیوطی (رح) امام فخر الدین رازی (رح)، اور حضرت شاہ ولی اللہ قدس اللہ سرۂ نے تفصیل کے ساتھ کلام فرمایا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اکثر اوقات ایک واقعہ مختلف اجزاء کے اعتبار سے بہت سے مسائل اور متعدد نتائج پر مشتمل ہوتا ہے جس کی وجہ سے متکلم اس واقعہ کو کسی وقت کسی لحاظ سے ذکر کرتا ہے۔ اور کسی وقت دوسرے لحاظ سے اس کا ذکر کرتا ہے اور ہر موقعہ پر اس کے ایک خاص نتیجہ کا لحاظ کرتے ہوئے کلام کی تحقیق وتثبیت یا اس کی تفصیل و توضیح ہوتی ہے مثلا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے واقعہ سے متعلق بہت سے مسائل وموضوعات ہیں اور اسکے متعدد اجزاء ہیں، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا حیرت انگیز طریقہ پر فرعون کے یہاں پہنچنا اور اسکے یہاں تربیت پانا ایک قبطی کے قتل کے بعد مدین کی طرف بھاگنا اور وہاں ایک عجیب اور انوکھے طریقے سے نکاح ہوجانا اپنے اہل کو لے کر جاتے ہوئے راستہ میں آگ دیکھنا اور آگ دیکھنے کی بجائے منصب نبوت و رسالت سے سرفراز ہونا معجزات میں خاص معجزہ یدبیضاء اور عصا کا معجزہ دیا جانا، پھر ان معجزوں کو لے کر فرعون کے دربار میں دعوت توحید و ایمان کے ساتھ جانا جادوگروں کا مقابلہ اور ان کا ایمان لانا فرعون کی دھمکی اور جادوگروں کی ایمان پر ثابت قدمی اور پختگی وغیرہ وغیرہ اب ظاہر ہے کہ یہ متعدد موضوعات ہیں سطحی منظر سے دیکھنے والا ہر موقعہ پر یہ خیال کرے گا کہ بار بار حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ اور فرعون کا واقعہ دہرایا جارہا ہے لیکن درحقیقت ہر جگہ موضوع اور مقصد جدا ہوگا اسی طرح دیگر انبیاء کے واقعات کا بھی اعادہ و تکرار ہے اور ہر جگہ ایک حکمت اور مفید مضمون ہے جو دوسری جگہ نہیں گویا تکرار ہی نہیں ہے بلکہ ہر موقعہ پر ایک مستقل مضمون اور عظیم مقصد کی تحقیق وتثبیت ہے۔ علاوہ ازیں قرآن حکیم کا بیان اور واقعات کا ذکر صرف اسی حد تک نہیں ہوتا کہ ایک بات بتا دی جائے یا کسی واقعہ کو بطور خبر واطلاع بیان کردی جائے بلکہ ان حقائق کو ذہن اور مخاطب کی طبیعت میں رچانا ہی مقصود ہوتا ہے جو ظاہر ہے بغیر تکرار کے ممکن نہیں کسی چیز کا مجرد علم اور چیز ہے اور اس چیز سے ذہن کا مانوس ومربوط ہونا اور اس کے مطابق مزاج بن جانا یہ دوسری بات ہے تو یہ نوعیت اسکی مقتضی ہے کہ بار بار اعادہ ہوتا آں کہ وہ مضمون قلب و دماغ کی گہرائیوں میں راسخ ہوجائے اور حتے کہ وہ مزاج وطبیعت ہوجائے حضرت شاہ والی اللہ قدس اللہ سرہ تکرار مطالب قرآن کے موضوع پر اکسیر فی اصول التفسیر میں فرماتے ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ ” قرآن کریم کی ہر تعلیم اور ہر حکم کے مخاطب دو قسم کے آدمی ہوتے ہیں ایک وہ لوگ جو اس کے اس حکم سے پہلے سے ناواقف ہیں اور ان کو صرف حکم سنانا اور اس سے باخبر کرنا مقصود ہوتا ہے ایک قسم ان لوگوں کی ہے جن کو اس حکم کا علم یا اس بات کی خبر پہلے سے تو ہوچکی ہے لیکن انکے قلب میں اس مضمون یا اس حکم کے مطابق کیفیت راسخ نہیں ہوتی اس گروہ سے خطاب اس وجہ سے کیا جاتا ہے کہ یہ تعلیم ان کے دلوں میں جگہ پکڑ لے اور ان کے قلب کی گہرائیوں میں اور رگ وپے میں سرایت کرجائے “ تو ظاہر ہے کہ اس طرح کسی حقیقت اور علم کا راسخ ہوجانا تکرار و اعادہ کو مقتضی ہے اسی پر ہر آیت کے تکرار کو بھی محمول کرلیا جائے کہ سورة الرحمن میں ہر مرتبہ کسی نہ کسی نعمت کے بعد حق تعالیٰ کا یہ دریافت فرمانا کہ اے جن وانس بتاؤ اپنے رب کی نعمتوں میں سے تم کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے تاکہ ہر نعمت کے ذکر کے بعد سامع اللہ کے انعام کو سوچے اور اس کو پہچانے اور پھر غور وفکر کی گہرائیوں میں چنکر لگا کر یہ سمجھنے پر مجبور ہوجائے کہ بیشک رب العالمین کی بیشمار نعمتوں میں انسان کسی بھی نعمت کا انکار نہیں کرسکتا اور جب اس نعمت کے ذکر کے بعد یہ سنے (آیت ) ”۔ فبای الآء ربکما تکذبان “۔ تو ہر بار دل کی گہرائیوں سے نکلے لا بشیء من نعمک ربنا نکذب ولک الحمد اس قسم کا تکرار تو قدیم شعراء عرب کے کلام میں بھی پایا گیا ہے اور اس تکرار کو بڑا ہی بلیغ بلکہ لذیذ سمجھا جاتا ہے چناچہ عرب کے ایک مشہور شاعر مہلہل بن ربیعہ نے کلیب کے مرثیہ میں ہر مصرعہ کے بعد اس مصرعہ کا اعادہ کیا علی ان لیس عدلا من کلیب۔ حاشیہ (کتاب الامالی صفحہ 86۔ 87) اسی طرح لیلی اخییہ توبۃ من الحمیر کے مرثیہ میں ہر مصرعہ پر لنعم الفتی یا توب کنت دہراتی ہے علی ھذا القیاس اس قسم کے سینکڑوں نظائر کلام عرب میں بکثرت موجود ہیں۔
Top