Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Ar-Rahmaan : 46
وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚ
وَلِمَنْ خَافَ
: اور واسطے اس کے جو ڈرے
مَقَامَ رَبِّهٖ
: اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے
جَنَّتٰنِ
: دو باغ ہیں
اور جو شخص اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا اسکے لئے دو باغ ہیں
اعزاز واکرام اہل ایمان بعطاء نعمتہائے عظام از رب ذی الجلال والاکرام : قال اللہ تعالیٰ (آیت ) ” ولمن خاف مقام ربہ جنتین ...... الی ....... ذی الجلل والاکرام “۔ (ربط) گذشتہ سلسلہ آیات کفار ومجرمین کی تنبیہ اور ان کی سزاؤں کے بیان پر مشتمل تھا ان آیات میں اہل ایمان اور مطیعین کی جزاؤں اور ان پر آخرت میں عطا کردہ نعمتوں اور راحتوں کا بیان ہے ارشاد فرمایا جارہا ہے۔ اور جو شخص بھی ڈرا اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے اس کیلئے دو باغ ہیں جنت کے عظیم الشان باغات میں سے جن کی نعمتیں اور راحتیں وہ ہیں کہ نہ کسی آنکھ نے دیکھیں اور نہ کسی کان نے سنیں اور نہ کسی انسان کے قلب و دماغ میں اس کا تصور ہوا ظاہر ہے کہ یہ استحضار وتصور اور ڈر کہ اللہ کے سامنے میں کیا منہ لے کر حاضر ہوں گا قدم قدم پر انسان کو ہر خطاء وغلطی سے بچائے گا اور ہر مرحلہ پر وہ آخرت کے اجر وثواب حاصل کرنے کے لئے کوشاں رہے گا اور تقوی کا بلند ترین راستہ اختیار کرکے جن کے ایسے عالیشان باغات کا مستحق ہوگا پھر بتاؤ اے جن وانس تم اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس نعمت کا انکار کروگے ؟ ان عالیشان باغوں کی صفت یہ ہوگی کہ بہت سی شاخوں والے ہوں گے جو مختلف وانواواقسام پر مشتمل ہوں گی جن پر متعدد اقسام کے پھل ہوں گے اور ان کی شادابی اور سایہ اور بھی راحت ولذت کا باعث ہوگا تو پھر بتاؤ اے جن وانس تم اپنے رب کی نعمتوں میں سے کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے ان دونوں باغوں میں دو چشمے ہوں گے جو بہتے ہوں گے جس کی وجہ سے نہ کوئی درخت خشک ہوگا اور پھلوں اور پھولوں کی شادابی میں کوئی کمی نہیں آئے گی تو پھر بتاؤ اے جن وانس تم اپنے رب کی نعمتوں میں سے کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے ان باغوں میں پھل اور میوے ہوں گے قسم قسم کے۔ پھر بتاؤ اے جن وانس تم اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس نعمت کا انکار کرو گے ان نعمتوں اور ہر قسم کے خوشگوار پھلوں اور میووں کے علاوہ راحت اور آرام کے بھی پورے سامان عطا کئے جائیں گے تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے ایسے بستروں پر جن کے استر بھی دبیز ریشم کے ہوں گے اور ان باغوں کا میوہ (پھل) جھک رہا ہوگا اہل جنت کی جانب اور ان کو اتنی بھی مشقت کی ضرورت نہ ہوگی کہ اٹھیں اور درختوں کے قریب جاکر درختوں پر چڑھیں اور پھل توڑیں بلکہ درختوں کی شاخیں ان پر جھکی ہوئی ان سے قریب ہوں گی جب چاہیں تازہ بتازہ پھل درختوں سے توڑ کر کھاتے رہیں توبتاؤ اے جن وانس تم اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس نعمت کا انکار کرو گے ان تمام نعمتوں اور اسباب راحت کے علاوہ یہ بھی انعام ہوگا کہ ان باغات میں ایسی عورتیں (حورعین) ہوں گی جو نگاہ نیچی رکھنے والی ہوں گی، حیاء عورت کی زینت و خوبصورتی ہے تو ظاہری جملہ محاسن اور خوبصورتیوں پر ایک مزید خوبصورتی یہ ہوگی کہ وہ قاصرات الطرف اور نگاہیں نیچی رکھنے والی ہوں گی جو ان کی عفت کی نشانی ہے جن کو نہ چھوا ہوگا ان سے پہلے کسی انسان نے اور نہ کسی جن نے جو خاص ان ہی اہل جنت کے واسطے پیدا کی جائیں گی تو پھر سوچوبتاؤ اے جن وانس تم اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس نعمت کا انکار کرو گے وہ حوریں اپنے حسن و جمال اور طہارت و پاکیزگی میں گویا یاقوت ومرجان اور خوش رنگ وبیش بہا مونگاہوں گی تو پھر بتاؤ اے جن وانس تم اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس نعمت کا انکار کرو گے ظاہر ہے کہ احسان ونیکوکاری کا بدلہ کچھ نہیں سوائے بھلائی اور خوبی کے سو اس وجہ سے اہل ایمان و احسان کو ایسی ہی بھلائیوں، خوبیوں، نعمتوں اور راحتوں کا بدلہ دیا جائے گا تو پھر بتاؤ اے جن وانس تم اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس نعمت کا انکار کرو گے اور ان دو باغوں سے کم درجے کے دو باغ اور ہوں گے، تو پھر بتاؤ اے جن وانس تم اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس نعمت کا انکار کرو گے نہایت سبز گہرے رنگ کے ہوں گے کہ انکی شادابی اور تروتازگی انتہاء پر پہنچی ہوگی تو پھر بتاؤ اے جن وانس تم اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس نعمت کا انکار کرو گے، ہر نعمت وانعام کو اے جن وانس سوچو غور کرو اور اس نعمت کا تصور کرکے سمجھو کہ خدا کا کس قدر انعام وکرم ہے اسکی ہر نعمت دعوت فکر دے رہی ہے اور نعمتوں سے نوازے ہوئے ہر فرد سے سوال کرتی ہے کیا تو مجھ کو جھٹلا سکتا ہے۔ ان دونوں باغوں میں دو چشمے ہیں پانی کے ابلتے ہوئے تو پھر بتاؤ اے جن وانس تم اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس نعمت کا انکار کرو گے ان میں پھل میوے کھجوریں اور انار ہیں جو دنیا کے پھلوں کھجوروں اور انگور وانار پر قیاس نہیں کیے جاسکتے جیسی وہاں کی ہر نعمت اس عالم کی شان بلند وبالا کے مطابق ہے اسی طرح یہ پھل اور غذائیں بھی وہی کی شان کے مطابق ہوں گی نام تو بیشک یہی ہیں جو دنیا کے پھلوں کے ہیں لیکن دنیا کے پھلوں اور جنت کے پھلوں میں زمین و آسمان سے بھی سے بھی زائد فرق ہے تو پھر بتاؤ اے جن وانس تم اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس نعمت کا انکار کرو گے ؟ ان سب باغوں میں جو یہ دو کم درجے کے ہیں اور وہ پہلے دو جو نہایت عالی شان اور بلند مرتبہ ہیں نہایت ہی بہترین پاکیزہ خوبصورت عورتیں (یعنی حورعین) تو پھر بتاؤ اے جن وانس تم اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس نعمت کا انکار کرو گے وہ حوریں ہیں جو رکی رہنے والی ہیں خیموں میں یہ نہیں کہ باہر نکلی نکلی ماری ماری پھرتی ہوں عورت کی عظمت اور اس کی خوبی و خوبصورتی ستر و حجاب اور اپنے گھر کی زینت ہی بنے رہنے میں ہے اس وجہ سے اہل جنت کے واسطے جو حورعین جنت میں ہوں گی ان کی خاص صفت ” فی الخیام “ بیان فرمائی گئی تو پھر بتاؤ اے جن وانس تم اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس نعمت کا انکار کرو گے ، ؟ نہ چھوا ہوگا ان حورعین کو ان سے پہلی کسی آدمی نے اور نہ کسی جن نے تو پھر بتاؤ اے جن وانس تم اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس نعمت کا انکار کرو گے ؟ یہ اہل جنت تکیہ لگائے بیٹے ہوں گے سبز مسندوں اور نہایت قیمتی نفیس بچھونوں پر انتہائی راحت اطمینان و سکون کی یہ نشست ہوگی جو ان کی مجلسوں میں نظر آتی ہوگی یہ ہوں گے انعامات اور اعزاز واکرام اہل ایمان اور خداوند عالم سے خشیت وتقوی رکھنے والے بندوں پر تو پھر بتاؤ اے جن وانس تم اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس نعمت کا انکار کرو گے ؟ اے مخاطب ان تمام تفصیلات کو سننے کے بعد بس سمجھ لے کہ بڑی ہی برکت والا ہے تیرے رب کا نام جو بڑی ہی عظمت اور بزرگی والا ہے یہ سب قدرت کی نشانیاں ” جنت و جہنم “ اور انکے احوال اہل جہنم پر عذاب وسزائیں اور اہل جنت پر انعام وکرم خداوند ذوالجلال کی عزت وکبریائی کی ایسی دلیل ہے کہ نہ اس میں کوئی شبہ کرسکتا ہے اور نہ کسی کو انکار کی مجال ہوسکتی ہے یہ اسی کا کرم ہے وہ اپنے وفادار بندوں پر احسان وانعام فرماتا ہے اور اسی کی یہ شان کبریائی ہے کہ مجرمین سے انتقام لیتا ہے اور یہ بھی واضح ہے کہ ہر خوبی اور نعمت کا سرچشمہ اللہ رب العزت کی ذات ہے اور یہ ساری نعمتیں اہل ایمان اہل کو اس کا نام لینے اور اس کا کلمہ پڑھنے کی بدولت میں اسیلئے جیسے اس کی ذات بالا و برتر اور بابرکت ہے معلوم ہوا کہ اس کا نام بھی بہت بڑا ہے جس کے لینے سے یہ سب کچھ حاصل ہوتا ہے۔ صدق اللہ تبارک اسم ربک ذی الجلال والاکرام نسئال اللہ العظیم الکریم الوھاب ذالجلال والاکرام ان یجعلنا من اھل الایمان والاخلاص وان یحشرنا مع الذین انعم اللہ علیھم من النبین والصدیقین والشھدآء والصالحین وحسن اولئک رفیقا، امین یا رب العالمین۔ قرآن کریم میں تکرار آیات ومضامین کی حکمت : سورة الرحمن میں (آیت ) ”۔ فبای الآء ربکما تکذبان “۔ کا بار اعادہ فرمایا گیا اسی طرح سورة القمر میں (آیت) ” ولقد یسرنا القران للذکر فھل من مد کر “۔ اور سورة والمرسلات میں (آیت ) ” ویل یومئذ للمکذبین “۔ مکرر ہے تو تکرار مضامین وآیات کے سلسلہ میں مناسب معلوم ہوتا ہے اصولی طور پر حضرات قارئین کی خدمت میں اجمالا اتنا عرض کردیا جائے کہ قرآن کریم کے طرز بیان میں ایک خصوصی طرز یہ بھی ہے کہ واقعات وقصص اور انکے اجزاء کو بار بار بیان کرتا ہے اور بعض آیات معینہ بار بار دہرائی جاتی ہیں مثلا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) حضرت اسماعیل (علیہ السلام) حضرت نوح (علیہ السلام) حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت صالح (علیہ السلام) حضرت شعیب (علیہ السلام) اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعات قرآن کریم میں متعدد جگہ ذکر کئے گئے اور حضرت موسیٰ وہارون (علیہما السلام) اور فرعون کے ذکر سے تو شاید ہی کوئی حصہ قرآن کریم کا خالی ہو ان تمام واقعات کو قرآن بکثرت کہیں اجمال اور تفصیل سے کسی جگہ بعض اجزاء قصہ اور دوسری جگہ دوسرے بعض اجزاء بیان کرتا ہے اسی طرح بعض آیات مثلا (آیت ) ”۔ فبای الآء ربکما تکذبان “۔ اور ویل یومئذ للمکذبین “ ایک ہی سورت میں بار بار دہرائی جارہی ہے تکرار مضامین وآیات کی تفصیلی حکمتیں تو متعلقہ مقامات کی تفسیر میں امام رازی (رح) زمخشری (رح) اور علامہ آلوسی (رح) کے کلام سے معلوم ہوسکتی ہیں۔ اس مقام پر ان حضرات اور حضرت شاہ ولی اللہ (رح) کے کلام سے اخذ کرو بعض اصولی چیزیں اشارۃ بیان کرنے پر ہم اکتفاء کرتے ہیں خلاصہ یہ کہ قرآن کریم جن واقعات کو بیان کرتا ہے ہر واقعہ اپنے مختلف اجزاء اور متعدد پہلوؤں کے اعتبار سے بہت سے مفید ثمرات اور اہم نتائج پر مشتمل ہوتا ہے تو ہر مقام وموضوع اور مقصد کی رعایت کرتے ہوئے ہر واقعہ کو کبھی مجموعی طور پر اور کبھی اس کے کسی ایک جز اور پہلو کو کہیں اجمال اور کہیں تفصیل کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے اور متعدد مقامات پر اس ایک ہی واقعہ کو ذکر کرنے سے ہر مقام کے مناسب ایک نئے فائدہ اور نتیجہ کا اخذ کرنا مقصود ہوتا ہے انہیں مقاصد ونتائج کی کثرت کو پیش نظر رکھتے ہوئے بیان واقعہ یا اس کے اجزاء میں تکرار اختیار کیا جاتا ہے دیکھنے والے کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ چیز مکرر ذکر کی جارہی لیکن مقصد اور غرض کے اعتبار سے وہ مکرر نہیں بلکہ نئی چیز ہوتی ہے مثلا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قصہ کے بنیادی اجزاء اور پہلو حسب ذیل ہیں : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت کے بعد آغوش مادر کے بجائے سمندر کی موجوں کے حوالہ ہوجانا پھر ایک حیرت انگیزطریقہ سے فرعون کے یہاں پہنچ جانا اسی کے گھر میں تربیت پانا قبطی کو قتل کرکے مدین کی طرف بھاگنا وہاں ایک انوکھے طور پر نکاح ہوجانا اہلیہ کو ہمراہ لے جاتے ہوئے آگ کے شعلہ کو دیکھ کر پہاڑی پر جانا اور وہاں سے منصب نبوت سے سرفراز ہو کر لوٹنا اور معجزہ کا عطا ہوجانا پھر دعوت ایمان لے کر فرعون کے پاس جانا فرعون کا تمرد وسرکشی کے ساتھ تحقیر آمیز سوال و جواب کرن کرنا معجزات دیکھ کر فرعون اور تمام ساحروں کا ذلیل ہونا انجام کار فرعون اور اس کی قوم کا دریائے نیل میں غرق ہوجانا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا مظفر ومنصور ہو کر بنی اسرائیل کو روز روز کے عذاب سے بچالینا وغیرہ وغیرہ۔ اب قرآن کریم کبھی اس قصہ اور اسکے اجراء کو اپنی قدرت عظیمہ اور اپنی جلالت شان کے ظاہر کرنے کے لیئے ذکر کرتا ہے کہ حق تعالیٰ کی عظمت و طاقت اور سطوت وجبروت کے سامنے فرعون جیسے متمرد اور مغرور ومتکبر بادشاہ کی حقیقت کچھ نہیں دم کے دم میں اللہ نے اسکی سلطنت اور طاقت و شوکت کو درہم برہم کرڈالا اتنے بڑے سازو سامان والا کس طرح بےگور وکفن مارا گیا کسی جگہ مقصود ان ہی ہیبت ناک اور تاسف انگیز واقعات کے بیان کرنے سے غافل بندوں کو عبرت دلانا ہوتا ہے کہ تم کو بھی ان معاصی اور کفریات سے باز رہنا چاہئے جن کا یہ خمیازہ پہلی قومیں بھگت چکی ہیں ورنہ کچھ بعید نہیں کہ خدا کی طرف سے تمہارے ساتھ بھی وہی معاملہ ہو کسی مقام پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور انکی اتباع کرنے والوں پر احسان جتانا مقصود ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان پر پیغمبر خدا کی اطاعت وپیروی کی وجہ سے یہ انعام فرمائے کہ ایسے جابر وخونخوار کے پنجہ ظلم سے نجات بخشی جس کے مقابلہ کی کوئی طاقت نہ تھی پھر اسی ظالم کے تاج وتخت کا وارث بھی بنا دیا۔ کسی جگہ معجزات کے ذکر سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی صداقت کا ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے غرض اسی نوع کے اور بہت سے مقاصد ہوتے ہیں جن کے پیش نظر واقعات اور انکے اجزاء کو ہر ایک مقصد کے اثبات کے لیے ذکر کیا جاتا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ قدس اللہ سرہ العزیز تکرار مطالب قرآن کے متعلق اکسیر فی اصول التفسیر۔ 1 حاشیہ (صفحہ نمبر 10 مطبوعہ کانپور۔ 12) میں فرماتے ہیں۔ : ” تکرار در مطالب قرآن کریم برائے آں است کہ آنچہ خواہیم کہ سامع را افادہ نمائیم دو قسم می باشد یکے از آنکہ مقصود آنجامجرد تعلیم مالا یعلم بود تامخاطب حکم مجہول رامعلوم کندد آں نادانستہ دانستہ گردو دیگرآں کہ مقصود استحضار آں علم مدرکہ ادباشد تا ازاں لذت فراواں گیرد ورنگ ایں علم برہمہ قومی غالب آیدو قرآن کریم بہ نسبت ہری کے از علوم خمسہ کہ بیانش خواہد آمد ہر دو قسم افادہ ارادہ فرمود تعلیم مالا یعلم بہ نسبت جاہل ورنگین ساختن نفوس بداں بہ سبب تکرار بہ نسبت عالم اللھم مگر دراکثر احکام کہ تکرار آنجاحاصل نشدہ افادہ دوم آنجامطلوب نبودہ و لہذا درشریعت بتکرار تلاوت امر فرمودہ اندنہ بمجرد فہم اکتفاء کردہ اندایں قدر فرق نہادہ اند کہ دراکثر احوال آں مسائل بعبارت تازہ واسلوب جدید اختیار فرمودہ اند تا اوقع باشد درنفوس والذباشد دراذہان اگر تکرار بیک لفظ کنند چیزے باشد کہ بطو وظیفہ آں را تکرار نمانید درصورت اختلاف تعبیرات وتفاسیر اسالیب ذہن خوض کند وخاطر بکلی درآں فرو وود “۔ حاصل یہ ہے کہ قرآن کریم کی ہر تعلیم اور ہر حکم کے مخاطب دو قسم کے آدمی ہوتی ہیں اور دو ہی اعتبار ونظریوں کے ساتھ قرآن خطاب فرماتا ہے ایک وہ کہ جو اس حکم سے ناواقف ہیں ان کو تو صرف ایک نامعلوم چیز کی طرف تعلیم دینا ہے دوسرے وہ کہ محض امر غیر معلوم کی تعلیم دینا مقصود نہیں ہوتی بلکہ اس کیفیت کا قلب میں راسخ کردینا مقصود ہوتا ہے تاکہ قوت مدرکہ اس علم کا پورے طور پر استحضار کرے اور طبائع اس سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ اس کے رنگ میں رنگی جائیں۔ اور ظاہر ہے کسی کام میں ملکہ بغیر اسکی پابندی اور التزام اور بار بار کی مشق کے نہیں ہوسکتا اسی طرح اذہان و طبائع کا علوم الہیہ کے رنگ میں رنگا جانا تکرار و مداومت کا محتاج ہوگا جیسا کہ نماز و روزہ اور تمام عبادات کی پابندی اس امر کا باعث ہے کہ ہم اطاعت وانقیاد کے خوگر ہوجاتے ہیں اور بلکہ بسا اوقات اس کے ترک سے اذیت محسوس ہونے لگتی ہے اس طرح کلمہ توحید اور ذکر اللہ کی پابندی حق تعالیٰ کے تصور اور اس کی محبت قلب میں جما دینے کی تاثیر رکھتی ہے قلب میں اس کیفیت کے رسوخ کا ذریعہ کثرت ذکر کثرت تلاوت تکرار اور مواظبت عمل ہے تو مضامنین ومطالب قرآنیہ کا تکرار بھی اسی لئے ہے کہ تاکہ مخاطبین کے قلوب میں یہ مضامنین وعلوم پورے طور پر راسخ ومتمکن ہوجائیں اور طبیعت انھی کے رنگ میں رنگی جائے ذہن انکی حلاوت و شیرینی سے لطف اندوز ہونے لگیں پھر مزید خوبی یہ کہ تکرار بعینہ ایک ہی لفظ اور عنوان کے ساتھ نہیں بلکہ ہر جگہ تازہ عبارت اور نئے اسلوب کے ساتھ ہے تو اختلاف تعبیرات کی وجہ سے ذہن کو زیادہ غور وخوض کا موقعہ ملتا ہے اور مدرکہ انسانی کو ہر بار اس مضمون کے سننے سے نئی لذت حاصل ہوتی ہے۔ سورة الرحمن میں ایک ہی (آیت ) ”۔ فبای الآء ربکما تکذبان “۔ بار بار دھرائی گئی ہے کیونکہ حق تعالیٰ نے اس سورت میں اپنی مخلوق جن وانس پر بڑے انعامات کا ذکر فرمایا ہے اور ہر نعمت کے ذکر کے بعد اس آیت کو لایا گیا تقریر وتثبیت اور الزام حجت کے طور پر کہ اے جن وانس (بھلا بتاؤ) اب اپنے رب کی نعمتوں میں کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے (انکی ناشکری کرو گے) مقصد یہ ہے کہ سامع ہر ہر نعمت پر متنبہ ہو کر اپنے پر ورگار کی نعمتوں کو پہچانے اور ان کا شکر بجالانے کے لیے آمادہ ہو اس سورت میں انعامات کا ذکر ایک تو بصورت انعام ہے کہ ان نعمتوں کو یاد لایا گیا جو منعم حقیقی کی طرف سے بندوں پر کی گئیں اور دوسرے آخروی رنج ومحن اور عذاب جہنم کے بیان میں اپنے انعام کو ذکر فرمایا تاکہ ان آلام اور کیفیات مصائب کو سن کر ان امور سے پرہیز کریں جو عذاب آخری کا سبب ہیں ان امور کا ذکر بھی انعام ہے اگرچہ بیان تو عذاب اور شدت کا ہے مگر اس وجہ سے کہ اس سے مقصود بندوں کو ان اعمال وافعال سے بچنے کی تعلیم ہے جو اس عذاب وشدت کا باعث ہیں لامحالہ ان احوال کا ذکر بھی یقیناً ایک نعمت خداوندی ہی ہوا اور اس پر (آیت ) ”۔ فبای الآء ربکما تکذبان “۔ اسی طرح مربوط اور چپساں ہواجی سے دیگرانعامات خداوندی پر ہے زانی و بدکار اور لوٹ و غارت گری ڈالنے والوں کی سزا پاک باز ونیک طینت لوگوں کو بعنوان بشارت اور اس طرح اس کو تعبیر کیا جائے کہ یہ سزا دینے والے حاکم کے انعامات میں سے ایک عظیم انعام ہے یا جیسے تریاق کا ذکر انعام ہے تو اس کے بالمقابل کم اور مہلک زھر کا بیان بھی مخاطب کے واسطے معلم کا بہت بڑا انعام ہے تاکہ وہ اپنے مخاطب کو نافع اور مضر ہر قسم کی چیزوں سے مطلع اور باخبر کردے۔ چناچہ امام رازی (رح) ” نہایۃ الایجاز فی ذرایۃ الاعجاز “ اور سید مرتضی ” کتاب الامالی “ میں فرماتے ہیں۔ ان فعل العقاب وان لم یکن نعمۃ فذکرہ ووصفہ والا نذار بہ من اکبر النعم لان فی ذالک زجرا عما یستحق بہ العقاب۔ 1 حاشیہ (کتاب الامالی ص 88) بیشک فعل عقاب اور عذاب بظاہر اگرچہ کوئی نعمت نہیں ہے لیکن اس کا ذکر اور اس کی کیفیت کا بیان بڑی عظیم الشان نعمتوں میں سے ہے کیونکہ اس کے ذکر سے ان برے کاموں سے روکنا مقصود ہے جنکے کرنے سے انسان عذاب خداوندی کا مستحق ہوجاتا ہے۔ شیخ سیوطی (رح) نے فرمایا۔ وقد سئل ای نعمۃ فی قولہ تعالیٰ کل من علیھا فان فاجیب باجوبۃ حسنھا النقل من دارالھموم لی دار السرور واراحۃ لمومنین ، (الاتقان فی علوم القرآن) ۔ یہ سوال کیا گیا (آیت ) ” کل من علیھا فان “۔ کونسی نعمت کا بیان ہے (کہ جس کے بعد (آیت ) ”۔ فبای الآء ربکما تکذبان “۔ فرمایا گیا جس طرح انعامات خداوندی پر اس کو اس سورت میں ذکر کیا گیا ہے) تو اس کے متعدد جواب دیئے گئے جن میں سب سے بہتر یہ جواب ہے کہ اس آیت میں دار الہموم (یعنی تکالیف وآلام اور رنج وغم کی زندگی) سے دارالسرور کی طرف منتقل ہونے کا اور اہل ایمان کے واسطے راحتوں کا بیان ہے (جو یقیناً ایک عظیم الشان نعمت ہے لہذا اس کے ذکر پر بھی (آیت ) ”۔ فبای الآء ربکما تکذبان “۔ آیت مربوط اور چسپاں بلکہ نہایت ہی لطیف ہے ، ) غرض قرآن کریم کے خصوصی طرز خطاب میں تکرار خطاب مضامین اور آیات میں جس کے بیشمار اسرار اور حکمتیں ہیں ہم نے صرف بطور مثال یہ چند چیزیں بیان کردیں اعجاز قرآن کی بحث ہم یہ عرض کرچکے ہیں دنیا کے تمام اہل علم اور ارباب نظر وفکر اور اصحاب فہم وبصیرت بھی قرآن کریم کی بحث میں ہم یہ عرض کرچکے ہیں دنیا کے تمام اہل علم اور ارباب نظر وفکر اور اصحاب فہم وبصیرت بھی قرآن کریم کے حقائق ومعارف اور اس کے اسرار ولطائف کا پوری طرح ادراک نہیں سکتے اس باب میں انکی مشترکہ مساعی اور کوششیں صرف وہی نسبت رکھ سکتی ہیں جو ناپیدا کنار سمندر کے سامنے ایک قطرہ کو ہے وحی الہی اور علوم قرآن کے سامنے تمام دنیا کے اہل علم کی علمی وفکری صلاحیتوں کے بارے میں قرآن کریم نے فیصلہ فرمادیا ہے۔ (آیت ) ” وما اوتتیم من العلم الا قلیلا “۔ اور نہیں دیا گیا ہے اے لوگو ! تم کو علم میں سے مگر ایک نہایت ہی قلیل حصہ۔ اس لیے ظاہر ہے کہ یہ محدود علم کس طرح لامتناہی اور غیر محدود علوم اور حقائق کی بلندیوں تک رسائی کرسکتا ہے۔ (آیت ) ” فللہ الحمد رب السموت ورب الارض رب العلمین ولہ الکبریآء فی السموت والارض وھو العزیز الحکیم :۔ تکرار آیات کی حکمت پر علامہ سید مرتضی (رح) شیخ سیوطی (رح) امام فخر الدین رازی (رح)، اور حضرت شاہ ولی اللہ قدس اللہ سرۂ نے تفصیل کے ساتھ کلام فرمایا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اکثر اوقات ایک واقعہ مختلف اجزاء کے اعتبار سے بہت سے مسائل اور متعدد نتائج پر مشتمل ہوتا ہے جس کی وجہ سے متکلم اس واقعہ کو کسی وقت کسی لحاظ سے ذکر کرتا ہے۔ اور کسی وقت دوسرے لحاظ سے اس کا ذکر کرتا ہے اور ہر موقعہ پر اس کے ایک خاص نتیجہ کا لحاظ کرتے ہوئے کلام کی تحقیق وتثبیت یا اس کی تفصیل و توضیح ہوتی ہے مثلا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے واقعہ سے متعلق بہت سے مسائل وموضوعات ہیں اور اسکے متعدد اجزاء ہیں، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا حیرت انگیز طریقہ پر فرعون کے یہاں پہنچنا اور اسکے یہاں تربیت پانا ایک قبطی کے قتل کے بعد مدین کی طرف بھاگنا اور وہاں ایک عجیب اور انوکھے طریقے سے نکاح ہوجانا اپنے اہل کو لے کر جاتے ہوئے راستہ میں آگ دیکھنا اور آگ دیکھنے کی بجائے منصب نبوت و رسالت سے سرفراز ہونا معجزات میں خاص معجزہ یدبیضاء اور عصا کا معجزہ دیا جانا، پھر ان معجزوں کو لے کر فرعون کے دربار میں دعوت توحید و ایمان کے ساتھ جانا جادوگروں کا مقابلہ اور ان کا ایمان لانا فرعون کی دھمکی اور جادوگروں کی ایمان پر ثابت قدمی اور پختگی وغیرہ وغیرہ اب ظاہر ہے کہ یہ متعدد موضوعات ہیں سطحی منظر سے دیکھنے والا ہر موقعہ پر یہ خیال کرے گا کہ بار بار حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ اور فرعون کا واقعہ دہرایا جارہا ہے لیکن درحقیقت ہر جگہ موضوع اور مقصد جدا ہوگا اسی طرح دیگر انبیاء کے واقعات کا بھی اعادہ و تکرار ہے اور ہر جگہ ایک حکمت اور مفید مضمون ہے جو دوسری جگہ نہیں گویا تکرار ہی نہیں ہے بلکہ ہر موقعہ پر ایک مستقل مضمون اور عظیم مقصد کی تحقیق وتثبیت ہے۔ علاوہ ازیں قرآن حکیم کا بیان اور واقعات کا ذکر صرف اسی حد تک نہیں ہوتا کہ ایک بات بتا دی جائے یا کسی واقعہ کو بطور خبر واطلاع بیان کردی جائے بلکہ ان حقائق کو ذہن اور مخاطب کی طبیعت میں رچانا ہی مقصود ہوتا ہے جو ظاہر ہے بغیر تکرار کے ممکن نہیں کسی چیز کا مجرد علم اور چیز ہے اور اس چیز سے ذہن کا مانوس ومربوط ہونا اور اس کے مطابق مزاج بن جانا یہ دوسری بات ہے تو یہ نوعیت اسکی مقتضی ہے کہ بار بار اعادہ ہوتا آں کہ وہ مضمون قلب و دماغ کی گہرائیوں میں راسخ ہوجائے اور حتے کہ وہ مزاج وطبیعت ہوجائے حضرت شاہ والی اللہ قدس اللہ سرہ تکرار مطالب قرآن کے موضوع پر اکسیر فی اصول التفسیر میں فرماتے ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ ” قرآن کریم کی ہر تعلیم اور ہر حکم کے مخاطب دو قسم کے آدمی ہوتے ہیں ایک وہ لوگ جو اس کے اس حکم سے پہلے سے ناواقف ہیں اور ان کو صرف حکم سنانا اور اس سے باخبر کرنا مقصود ہوتا ہے ایک قسم ان لوگوں کی ہے جن کو اس حکم کا علم یا اس بات کی خبر پہلے سے تو ہوچکی ہے لیکن انکے قلب میں اس مضمون یا اس حکم کے مطابق کیفیت راسخ نہیں ہوتی اس گروہ سے خطاب اس وجہ سے کیا جاتا ہے کہ یہ تعلیم ان کے دلوں میں جگہ پکڑ لے اور ان کے قلب کی گہرائیوں میں اور رگ وپے میں سرایت کرجائے “ تو ظاہر ہے کہ اس طرح کسی حقیقت اور علم کا راسخ ہوجانا تکرار و اعادہ کو مقتضی ہے اسی پر ہر آیت کے تکرار کو بھی محمول کرلیا جائے کہ سورة الرحمن میں ہر مرتبہ کسی نہ کسی نعمت کے بعد حق تعالیٰ کا یہ دریافت فرمانا کہ اے جن وانس بتاؤ اپنے رب کی نعمتوں میں سے تم کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے تاکہ ہر نعمت کے ذکر کے بعد سامع اللہ کے انعام کو سوچے اور اس کو پہچانے اور پھر غور وفکر کی گہرائیوں میں چنکر لگا کر یہ سمجھنے پر مجبور ہوجائے کہ بیشک رب العالمین کی بیشمار نعمتوں میں انسان کسی بھی نعمت کا انکار نہیں کرسکتا اور جب اس نعمت کے ذکر کے بعد یہ سنے (آیت ) ”۔ فبای الآء ربکما تکذبان “۔ تو ہر بار دل کی گہرائیوں سے نکلے لا بشیء من نعمک ربنا نکذب ولک الحمد اس قسم کا تکرار تو قدیم شعراء عرب کے کلام میں بھی پایا گیا ہے اور اس تکرار کو بڑا ہی بلیغ بلکہ لذیذ سمجھا جاتا ہے چناچہ عرب کے ایک مشہور شاعر مہلہل بن ربیعہ نے کلیب کے مرثیہ میں ہر مصرعہ کے بعد اس مصرعہ کا اعادہ کیا علی ان لیس عدلا من کلیب۔ حاشیہ (کتاب الامالی صفحہ 86۔ 87) اسی طرح لیلی اخییہ توبۃ من الحمیر کے مرثیہ میں ہر مصرعہ پر لنعم الفتی یا توب کنت دہراتی ہے علی ھذا القیاس اس قسم کے سینکڑوں نظائر کلام عرب میں بکثرت موجود ہیں۔
Top