Maarif-ul-Quran - Al-Hadid : 17
اِعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یُحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا١ؕ قَدْ بَیَّنَّا لَكُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ
اِعْلَمُوْٓا : جان لو اَنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ تعالیٰ يُحْيِ الْاَرْضَ : زندہ کرتا ہے زمین کو بَعْدَ مَوْتِهَا ۭ : اس کی موت کے بعد قَدْ بَيَّنَّا : تحقیق بیان کیں ہم نے لَكُمُ : تمہارے لیے الْاٰيٰتِ : آیات لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَعْقِلُوْنَ : تم عقل سے کام لو
جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ہم نے اپنی نشانیاں تم سے کھول کھول کر بیان کردی ہیں تاکہ تم سمجھو
تمثیل بےثباتی دنیا و عظمت خداوند خالق کائنات وتعلیم صبر و قناعت وتاکید فکر آخرت : قال اللہ تعالیٰ : (آیت ) ” اعلموا انما الحیوۃ الدنیا ...... الی ...... ھو الغنی الحمید “۔ (ربط) گذشتہ آیات میں انسان کا دنیوی نعمتوں اور راحتوں میں لگ کریاد خدا اور فکر آخرت سے غلفت و لاپرواہی برتنے پر تنبیہ فرمائی گئی تھی اور یہ کہ یہ طریقہ اہل کتاب کا تھا اہل ایمان کو یہ بات زیب نہیں دیتی اب ان آیات میں دنیا اور دنیا کی لذتوں کی ناپائیداری بیان فرمائی جارہی ہے اور اسکی بےثباتی کا ایک نقشہ پیش کیا جارہا ہے تاکہ دنیا کی حقیقت سمجھی جاسکے، فرمایا ، جان لو اس کے سوا کچھ نہیں کہ دنیا کی زندگی بس ایک کھیل اور تماشا اور بناؤ سنگار اور تمہارے درمیان آپس میں ایک دوسرے پر فخر کرنا برائیاں مارنا اور مال واولاد میں زیادتی کی کوشش کرنا بس ان ہی میں مصروف ومنہمک رہتے ہوئے انسان اپنی زندگی گزار دیتا ہے بچپن میں کھیل تماشا ہے جوانی آئی تو بناؤ سنگار میں پڑگیا پھر کچھ عمر پختہ ہوئی تو عزت وجاہ اور نام ونمود اور اپنی ساکھ جمانے کی فکر میں لگ گیا، مال اولاد کے غم میں لگے ہوئے ہے کہ مال خوب جمع کرلوں اولاد کے کام آئے گا عزت بڑھے گی قوم میں مقام بلند ہوگا تو از اول تاآخریہی منزلیں جن کو انسان طے کرتا چلا جاتا ہے اور اس بات کو سوچتا بھی نہیں کہ دنیا کی زندگی ہے کیا ؟ اور اس کی حقیقت کیا ہے نہ اس کی ناپائیداری کا خیال ہے اور نہ کبھی یہ تصور کہ ان تمام لذتوں نعمتوں اور راحتوں کا انجام کیا ہے دنیوی زندگی کی حالت بالکل ایسی ہی ہے جیسے بارش کہ جب برسی تو بہت ہی اچھا لگا اس کا سبزہ اور شادابی، کھیتی کرنیوالوں کو پھر یہ سبزہ زور پکڑتا ہے لہلہانے لگتا ہے تو اے مخاطب دیکھے گا تو اس کو سبزہ اور شادابی، کھیتی کرنیوالوں کو پھر یہ سبزہ زور پکڑتا ہے لہلہانے لگتا ہے تو اے مخاطب دیکھے گا تو اس کو کہ وہ زرد ہونے لگا ہے جب پکنے کا وقت قریب آتا ہے پھر جب وہ خشک ہوجائے تو ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے کہ آدمی اور جانور اسکو روند روند کر چورا چورا کردیتے ہیں اور شادابی و خوبصورتی کا نام ونشان بھی باقی نہیں رہتا جو اس کھیتی کے ابھرنے اور اس کے سرسبزوشاداب ہونے پر پہلے نظروں کو لبھارہی تھی اب جب کہ وہ کھیتی گھانس پھونس کے تنکے اور ریزے ہوچکی تو اس کی طرف کسی قسم کا میلان ہی باقی نہ رہا یہی حال بالکل دنیا کی زندگی کا ہے اور اسکے سازوسامان کا ہے میرے استاذ حضرت مولانا عثمانی (رح) فرماتے ہیں بس یہ ہی حال دنیا کی زندگانی اور اس کے سازوسامان کا سمجھو کہ وہ فی الحقیقت ایک دغا کی پونجی اور دھوکے کی ٹٹی ہے آدمی اسکی عارضی بہار سے فریب کھا کر اپنا انجام تباہ کرلیتا ہے حالانکہ موت کے بعد یہ چیزیں کام آنے والی نہیں وہاں کچھ اور ہی کام آئے گا یعنی ایمان اور عمل صالح جو شخص دنیا سے یہ چیز کما کرلے گیا سمجھو بیڑا پار ہے آخرت میں اس کے لئے مالک کی خوشنودی ورضا مندی ہے اور جو دولت ایمان سے تہی دست رہا اور کفروعصیان کا بوجھ لے کر پہنچا اس کے لئے سخت عذاب ہے اور جس نے ایمان کے باوجود اعمال میں کوتاہی کی اس کے لئے جدل یا بدیر دھکے مکہ کھا کر معافی ہے دنیا کا خلاصہ وہ تھا “ اور آخرت میں معاملہ یہ ہوگا کہ عذاب شدید مقدر ہوگا جس سے نجات کا کوئی امکان نہیں بجز اللہ کی رحمت اور مغفرت کے جو ایمان وعمل صالح ہی کی بدولت نصیب ہوسکتی ہے۔ اور مغفرت ومعافی بھی ہے اللہ کی طرف سے اگر کوئی صاحب ایمان شخص اپنی غفلت و لاپرواہی سے کسی گناہ کا ارتکاب کرلے اور نادم وشرمندہ ہو کر خدا کی بارگاہ میں تائب ہو اور اللہ کی طرف سے رضامندی بھی ہے ایمان وعمل صالح والوں کے لیے نیز ان لوگوں کے واسطے بھی جو گناہ اور خطاء کے بعد تائب ہوجائیں تو خداوند عالم انکی توبہ پر خوش ہوتا ہے اور دنیا کی زندگی تو بس دھوکہ ہی کا سامان ہے الغرض جب دنیا کی زندگی اور اس کی لذتیں فانی اور ناپائیدار ہیں اور دنیا کا سامان اور متاع زندگی درحقیقت دھوکہ ہی کا سامان ہے تو انسان کو چاہئے کہ موت سے غافل نہ ہو آخرت کی فکر میں لگا رہے اور دنیا کے دھوکہ میں مبتلا نہ ہو اس لئے بجائے دنیوی زندگی میں انہماک اور اس کے سازوسامان کی فکر وتیاری کے اے لوگو ! دوڑو اس مغفرت کی طرف جو تمہارے رب کی طرف سے ہے اور اس جنت کی طرف جس کا عرض آسمان و زمین کے پھیلاؤ کے برابر ہے جو تیار کی گئی ہے ان لوگوں کے واسطے جو اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے یہی اللہ کا فضل وانعام ہے کہ وہ اپنی تمام تر کوششیں اور دوڑ آخرت اور جنت کی نعمتوں کی طرف پھیر دے اور یہ کمال اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے جس کے واسطے چاہے اسی کو علم محیط ہے وہ جانتا ہے کہ کس میں اس نعمت کی صلاحیت ہے اور کون اس صلاحیت اور سعادت سے محروم رہنے کے قابل ہے اور اللہ بڑے ہی فضل والا ہے جو اپنے انعامات سے بندوں کو نوازتا ہے اور یہ نوازا جانا اور جنت کے انعامات اعمال کا بدلہ نہیں بلکہ محض اللہ کا فضل وانعام ہے اور حقیقت کو بھی خوب سمجھ لینا چاہئے کہ جو بھلائی اللہ نے کسی کے واسطے مقدر فرما دی وہ اسکو ضرور حاصل ہو کر رہے گی اور جو چیز کسی کے مقدر میں نہیں ہو کبھی بھی ہاتھ نہیں آسکتی لہذا اگر کوئی خیر یا نفع کی چیز حاصل نہ ہو سکے تو اس پر غمگین ومضطرب ہونے کی ضرورت نہیں اور نعمتوں کے حصول پر غرور وتکبر نہ کرنا چاہئے اور مصائب وآفات سے مضطرب وبے چین ہونا بھی غلط ہے بلکہ یہ اعتقاد قلب کی گہرائیوں میں راسخ کرلینا چاہئے کہ کوئی بھی مصیبت ایسی نہیں ہے کہ جو زمین میں واقع ہو اور نہ کوئی ایسی مصیبت کہ جو تمہاری جانوں میں ہو مگر یہ کہ وہ اللہ کی طرف سے ایک لکھی ہوئی کتاب میں ہوتی ہے قبل اس کے کہ ہم اس کو پیدا کریں اور ظاہر کریں اس وجہ سے دنیا میں ہر آفت و تکلیف اور راحت ونعمت خدا کے لکھے ہوئے فیصلے ہی کے مطابق واقع ہوتی ہے بیشک یہ چیز اللہ پر بہت ہی آسان ہے اے لوگو ! یہ سب کچھ تم کو بتایا اور سمجھایا جارہا ہے اس وجہ سے کہ تم غم نہ کیا کرو ان چیزوں پر جو تم سے فوت ہوجائیں اور نہ شیخی جتایا کرو ان چیزوں پر جو اللہ نے تم کو عطا کیں بلکہ اللہ کے انعامات پر شکر کیا کرو اور آفاتومصائب کے آنے پر صبر کیا کرو اور اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا ہے ہر اس شخص کو جو شیخی جتانے والا بڑائی مارنے والا ہو ایسے لوگ کہ جو بخل کرتے ہیں خود بھی اور دوسروں کو بھی آمادہ کرتے ہیں کہ وہ بھی بخل کریں یقیناً ایسا رویہ اللہ سے اور اس کے احکام سے روگردانی کرنا ہے جو شخص بھی اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت سے منہ موڑے گا تو اس کو اپنے انجام سے آگاہ ہونا چاہئے اور یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ تو ہر چیز سے بےنیاز ہر خوبی کے ساتھ موصوف ہے اسکو کسی کی نافرمانی نقصان نہیں پہنچا سکتی اور نہ ہی اس کو کسی کی فرماں برداری کی کوئی حاجت ہے اس لیے کسی بھی انسان کو اللہ کی عطا کی ہوئی نعمتوں مال و دولت پر مغرور ومتکبر نہ ہونا چاہئے اور نہ شیخی اور بڑائی جتلانی چاہئے اور جو کچھ اللہ نے مال عطا کیا ہے اس کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہئے نہ یہ کہ بخل کرے بلکہ اور ظلم یہ کہ دوسروں کو بھی بخل پر آمادہ کرے تو اس سے بڑھ کر انسان کے واسطے کوئی برائی نہیں ہوسکتی ساتھ ہی اس کو یہ بھی عقیدہ قلب کی گہرائیوں میں راسخ کرلینا چاہئے کہ ہر راحت اللہ کا انعام ہے اس وجہ سے اس پر شکر گزار ہو اور ہر تکلیف ومصیبت خدا ہی کے فیصلہ سے ہے اس لیے اس پر صبر و استقامت چاہئے اور خدا ہی سے اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے رجوع کرنا چاہئے کہ اس کی بارگاہ میں تضرع وزاری اور دعا والتجاء میں مشغول ہو نہ یہ کہ بےصبری اور بےقراری اختیار کرلے۔
Top