Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Hashr : 18
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا
: اے
الَّذِيْنَ
: جو لوگ
اٰمَنُوا
: ایمان والو
اتَّقُوا اللّٰهَ
: تم اللہ سے ڈرو
وَلْتَنْظُرْ
: اور چاہیے کہ دیکھے
نَفْسٌ
: ہر شخص
مَّا قَدَّمَتْ
: کیا اس نے آگے بھیجا
لِغَدٍ ۚ
: کل کے لئے
وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ
: اور تم ڈرو اللہ سے
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
خَبِيْرٌۢ
: باخبر
بِمَا
: اس سے جو
تَعْمَلُوْنَ
: تم کرتے ہو
اے ایمان والو ! خدا سے ڈرتے رہو اور ہر شخص کو دیکھنا چاہئے کہ اس نے کل (یعنی فروائے قیامت) کیلئے کیا (سامان) بھیجا ہے اور ہم پھر کہتے ہیں کہ خدا ہی سے ڈرتے رہو۔ بیشک خدا تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے۔
دعوت تقوی وفکر آخرت برائے اھل ایمان مع ذکر عظمت رب ذوالجلال والاکرام : قال اللہ تعالیٰ : (آیت) ” یایھا الذین امنوا اتقوا اللہ ..... الی ...... وھو العزیز الحکیم “۔ (ربط) گزشتہ آیات میں منافقین کی سازشوں اور اسلام کے خلاف ان کی معاندانہ سرگرمیوں کا ذکر تھا، تو اب ان آیات میں اہل ایمان کو تقوی اور فکر آخرت کی دعوت دی جارہی ہے اس لیے کہ ایمان وتقوی اور فکر آخرت ہی مسلمان قوم کے لیے ہر عزت و غلبہ اور ترقی کا باعث ہے وہ عظیم وصف ہے جس کے باعث مسلمان اپنے دشمن کی ہر سازش سے محفوظ رہتا ہے تو ارشاد فرمایا۔ اے ایمان والو ! ڈرتے رہو خدا سے اور ہر متنفس کو دیکھنا چاہئے کہ اس نے کیا بھیجا ہے کل آنے والے دن کے واسطے، ایمان اور اعمال صالحہ کا ذخیرہ ہی روز آخرت کام آنے والا ہے اور روز آخرت بس کل آنیوالا ہی دن ہے تو اس کے واسطے تیاری کرنی چاہئے، دیکھنا اور سوچنا چاہئے کہ اس کے واسطے اعمال صالحہ کا کیا ذخیرہ مہیا کیا ہے اور تقوی اختیار کرو اللہ کا، تقوی ہی اساس ہے ایمان وعمل کی، بیشک اللہ ان تمام کاموں سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو، اگر کسی متنفس کے قلب میں یہ اعتقاد راسخ ہے کہ خداوند عالم کے سامنے بندہ کا ہر کام اور اس کا ہر حال عیاں ہے تو بلاشبہ خوف وتقوی پید اہوجائے گا یہ اعتقاد ہی تقوی کی بنیاد ہے جس کا لازمی اثر انسانی زندگی میں احتیاط اور فکر کی صورت میں رونما ہوگا اور یہی وہ بنیاد ہے جس پر ایمان اور اخلاص مرتب ہے اور نفاق کی گندگی سے پاک رہنے کا باعث ہے۔ اور نہ ہوجاؤ تم ان لوگوں سے جنہوں نے خدا کو بھلادیا اور شب وروز اپنی نفسانی شہوتوں اور دنیوی لذتوں میں منہمک رہے جس کا تنیجہ یہ ہوا کہ پھر اللہ نے بھی انکو بھلا دیا اور اس طرح اللہ کی توفیق اور خیر کے کاموں کی صلاحیت اور اس کا احساس بھی ان سے مفقود ہوگیا۔ اور آخرت کے فکر وتصور سے بھی غافل ہوگئے، یہ لوگ اللہ کی فرماں برداری سے خارج ہیں کیونکہ ان کی اس غفلت و لاپرواہی اور انہماک فی الدنیا کی وجہ سے وہ صلاحیت اور جوہر ہی ختم ہوگیا جس کے ذریعے انسان سعادت اور انابت الی اللہ حاصل کرسکتا ہے، بلاشبہ یہ حقیقت ہے کہ برابر نہیں ہیں جہنم والے اور جنت والے جہنمی عذاب جہنم میں مبتلا ہوتے ہیں وہ عذاب جس کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا، اور اہل جنت اللہ تعالیٰ کے انعامات اور جنت کی راحتوں اور نعمتوں سے نوازے جاتے ہیں تو یقیناً جنت والے ہی کامیاب ہیں اور اپنی مراد پانے والے ہیں، فلاح وسعادت کے اصول اور قوت نظریہ وعملیہ کی اصلاح کے ضابطے اللہ رب العزت نے قرآن کریم کی صورت میں دنیا کے انسانوں کے واسطے نازل کیے، اسی سے انسانی زندگی فلاح وسعادت سے ہم کنار ہوسکتی ہے، اس کلام الہی کی عظمت کا یہ مقام ہے کہ اگر ہم نازل کرتے اس قرآن کو کسی پہاڑ پر تو اے مخاطب یقیناً تو دیکھتا اس پہاڑ کو ہیبت الہی سے پارہ پارہ ہوجانے والا، اگر اس پہاڑ میں انسان کی طرح عقل ہوتی شعور عطا کرکے اس پر قرآن نازل کیا جاتا تو وہ سمجھتا اور عظمت وہیبت خداوندی سے ایسا متاثر ہوتا کہ ریزہ ریزہ ہوجاتا لیکن افسوس کہ یہ انسان جس پر یہ کلام الہی اتارا گیا ایسا سخت دل واقع ہوا ہے کہ نہ اس کا دل کانپتا ہے اور نہ خشیت وتقوی کے آثار اس میں نظر آتے ہیں انسان کو چاہئے کہ اس امانت الہیہ کی عظمت کو پہچانے اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کرے آخر اس انسان کو یاد کرنا چاہئے کہ روز میثاق اس امانت کو جب اللہ نے آسمان و زمین اور پہاڑوں پر پیش فرمایا تھا اور آسمان و زمین نے اس کی عظمت وہیبت سے گھبرا کر انکار کردیا تھا تو اس حضرت انسان نے اس بوجھ کو اٹھایا تھا اور اس امانت کی حفاظت اور اس کا حق ادا کرنے کا اقرار کیا تھا۔ کما قال اللہ تعالیٰ : (آیت) ” انا عرضنا الامانۃ علی السموت والارض والجبال فابین ان یحملنا واشفقن منھا وحملھا الانسان انہ کان ظلوما جھولا “۔ اور یہ مثالیں ہم بیان کرتے ہیں لوگوں کیلئے شاید وہ نصیحت حاصل کرلیں اور جس سعادت ابدیہ کا حصول انسان کی فطرت میں ودیعت رکھا گیا ہے اس کو حاصل کرسکیں اور فلاح و کامیابی کی منزل تک پہنچنے کی جو صلاحیتیں اس کو عطا کی گئی ہیں ان کو بروئے کار لاسکے اور قوت نظریہ درست کرنے کے بعد قوائے عملیہ کو اس کے تابع کردے، جو صرف حق تعالیٰ شانہ کی ذات وصفات کی معرفت اور دل و دماغ میں اس عقیدہ کو راسخ کرلینے پر موقوف ہے تو جان لینا چاہئے کہ وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ہی پوشیدہ۔ حاشیہ : (” الغیب “ بڑا ہی وسیع المعنی لفظ ہے، انسان کی حس بصر سے لیکر حواس خمسہ تک ہر حس سے جو چیز غائب ہے اس کو غیب کہا جائے گا، اضافہ کردہ الفاظ میں بھی اشارہ کردیا گیا کہ غیب کا اطلاق حواس ظاہرہ سے غائب ہی چیز پر نہیں بلکہ جو انسان ادراک اور عقل وفکر کی پرواز سے بالاوبرتر ہے وہ بھی غیب ہے چناچہ آخرت اور احوال آخرت جیسی جملہ چیزیں غیب کا مصداق ہیں، انسان ہی کیا بلکہ ملائکہ اور جنوں کے ادراک و شعور سے بھی پوشیدہ چیزیں اس میں شامل ہیں۔ چناچہ ملاء اعلی اور ملکوت السموت کی بہت سی چیزیں فرشتوں سے بھی پوشیدہ ہیں الغرض ہر وہ چیز جو مخلوق کے ادراک و شعور سے بالا ہو یا بعد مکانی سے حواس بصریہ وغیرہ سے مستور وپوشیدہ ہو اس کا غیب کہا جائے گا، جو ایک وسیع عالم ہے، اور اس کے بیشمار مراتب ودرجات ہیں جیسا کہ حضرات عارفین وصوفیاء بیان کرتے ہیں اسی طرح عالم شہادت کے بھی بیشمار مراتب ودرجات ہیں۔ 12) اور ظاہر کا جاننے والا ہے جو چیز انسانی ادراک و شعور سے ماوراء ہو اس چیز کو نہ انسانی حواس ادراک کرسکتے ہیں اور نہ ہی وہاں تک عقل کی پرواز ہے، وہ صرف خدا ہی جانتا ہے اور ہر ظاہر چیز کو بھی خدا ہی جانتا ہے جب کہ انسان بہت سی چیزوں کو دیکھنے اور محسوس کرنے کے باوجود اس کے جاننے سے عاجز رہتے ہیں، وہی بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے جس کی عنایات ورحمتیں انسان کو آمادہ کرتی ہیں کہ وہ صرف اسی رحمن ورحیم کی عبادت و بندگی کرے، اس کے خزائن رحمت بےپایاں ہیں دنیا میں وہ اپنی رحمتوں سے مومن و کافر، انسان وحیوان، شجروحجر سب ہی کو نوازتا ہے اس طرح کہ اس کی رحمت و عنایت رحمت ومہربانی کے لباس میں ظاہر ہوتی ہے اور کبھی پیکر تکلیف وشدت میں اس کی یہ رحمت اس کے بندوں کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور ان ظاہری وباطنی رحمتوں کو اس پروردگار نے اپنے مومن بندوں کے لیے آخرت میں مخصوص کردیا، غرض وہ پروردگار ہی ایسا معبود ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہی بادشاہ ہے تمام کائنات کا اسی سلطنت وحکمرانی کائنات پر جاری ہے بروبحر زمین و آسمان پر بسنے والی ہر مخلوق اس کے فرمان کے تابع ہے کسی کو مجال نہیں کہ اس کے حکم سے عدول کرسکے یا بغاوت کرسکے، وہی بادشاہ ہے جس کے قبضہ میں تمام خزانے ہیں جن کی کوئی حدوانتہاء نہیں اور اس کی بادشاہت دنیا وآخرت میں ایسی کامل اور مضبوط بادشاہت ہے کہ اس کے حکم سے کسی کو سرتابی کی مجال نہیں، جس کو نہ کسی کی بغاوت کا خطرہ ہے اور نہ کسی کی خیانت کی فکر اور نہ کسی کی معاونت وامداد کا محتاج، وہ پاک ہے ہر عیب سے اور ایسی ہر بری بات سے جو اس کے شایان شان نہ ہو، جو ہر نقصان وزوال سے محفوظ وسالم ہے اور اپنی مخلوق وبندوں کو سلامتی عطا کرنے والا ہے، وہی امن و پناہ دینے والا ہے خواہ دنیا کی کوئی مصیبت و پریشانی ہو یا آخرت کی وہی محافظ ونگہبان ہے اپنی مخلوق پر کہ ہر آفت ومصیبت سے بھی وہ ہی محفوظ رکھتا ہے اور وہی بندوں کے ہر عمل کانگران اور ان کے احوال کا رقیب ہے، کماقال اللہ تعالیٰ : (آیت) ” ان اللہ کان علیکم رقیبا “۔ وہ بڑی ہی عزت والا۔ غالب وقاہر اور زبردست دباؤ والا صاحب عظمت ہے۔ حاشیہ (لفظ ” المتکبر “ کا ترجمہ صاحب عظمت سے کیا، لفظ کبر بڑائی اور عظمت کے معنی کے لیے وضع کیا گیا ہے تو باب تفعل میں استعمال ہونے سے مفہوم ہوگا علو وبلندی اور عظمت کو اختیار کرنے والا یعنی اس سے متصف امام رازی (رح) اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ تکبر انسانوں کی صفات میں مذموم ہے، اور تکبر کو صفت ذم شمار کیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ متکبر کے معنی جب یہ ہوئے کہ وہ اپنی ذات سے کبر وبڑائی ظاہر کرنے والا ہو تو مخلوق تو سراسر عاجز ہے، ہزاراں ہزار عیب ہر انسان میں ہوتے ہیں تو ایسے نقائص اور عیوب کے ہوتے ہوئے انسان کا کبر اور بڑائی کرنا یقیناً مذموم ہوگا اور وہ اس میں جھوٹا ہوگا، اس کو تذلل و تواضع اور اظہار پستی ہی زیب دیتا ہے لیکن اس کے برعکس اللہ رب العزت کی ذات تو ہر کمال وبلندی سے متصف ہے اس لیے جب وہ اپنی بڑائی اور علو کو ظاہر کرے گا تو حقیقت کے عین مطابق ہوگا۔ اور بندوں کو یہ بات رہنمائی کرنے والی ہوگی کہ حق تعالیٰ جل شانہ وعم نوالہ کی جلالت شان اور اس کی عظمت و برتری کو پہچانیں۔ پاکی ہے اللہ رب العالمین کی ان تمام چیزوں سے جو وہ شرک کی کرتے ہیں اس لیے کہ جو پروردگار ان صفات کا مالک اور صاحب عظمت ہوگا اس کا کون شریک ہوگا، لہذا وہ ہر شرک اور شریک سے پاک ہے وہی اللہ ہے پیدا کرنے والا، ایجاد کرنے والا، صورت بنانے والا جیسا کہ ایک قطرۂ آب پر انسان کی شکل و صورت اور اس کے جسم کی ساخت اور اس کے اعمال واخلاق اور کردار کی ہیئت وتصویر وہی کھینچتا ہے اسی کے واسطے ہیں سب پاکیزہ نام جس کی پاکی بیان کرتی ہیں، وہ تمام چیزیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں کہ ہو چیز شجر وحجر بہائم وطیور اور وحوش ہر ایک اس کی تسبیح وتہلیل میں مشغول ہے، جیسے کہ ارشاد ہے (آیت) ” وان من شیء الا یسبح بحمدہ ولکن لاتفقھون تسبیحھم “۔ وہی زبردست حکمت والا ہے، کیونکہ جو ذات ان جملہ اوصاف کی حامل ہوگی، وہ بلاشبہ بڑی ہی قدرت وقوت والی بھی ہوگی اور بڑی ہی حکمت والی بھی ہوگی، اس لیے کہ اس میں سے ہر صفت اس کی کمال حکمت کی دلیل ہے اور ہر صفت کا ظہور اس کی مخلوقات میں بالکل اسی طرح ہے جس طرح آفتاب کی روشنی کا ثبوت و ظہور عالم کے ایک ایک ذرہ سے ہورہا ہے۔ امام احمد بن حنبل (رح) اور ترمذی (رح) نے معقل بن یسار ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص صبح کے وقت تین مرتبہ، اعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطن الرجیم “۔ پڑھ کر یہ تین آخری آیات سورة حشر کی تلاوت کرے تو اللہ تعالیٰ اس پر ستر ہزار فرشتے مقرر کردے گا جو اس پر دعاء رحمت کرتے رہیں گے یہاں تک کہ شام ہوجائے اور اسی طرح اگر شام کے وقت پڑھ لے تو صبح تک یہ تعداد فرشتوں کی اس پر رحمت کی دعا کرتی رہے گی اور اگر وہ اس دن مرے گا تو اس حالت میں انتقال کریگا کہ وہ شہید ہوگا۔ حافظ عماد الدین ابن کثیر (رح) اپنی تفسیر میں (آیت) ” لوانزلنا ھذا القران “۔ کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ کلام الہی کی عظمت وہیبت کا جب یہ مقام ہے کہ پہاڑ اپنی سختی وغلظت اور قوت کے باوجود اس قدر متاثر ہوتے ہیں کہ اگر ان میں وہ فہم و شعور ودیعت رکھ دیا جائے جو انسانوں کو عطا ہوا ہے تو وہ اپنی اس عظمت و سختی کے باوجود خدا وندعالم کی خشیت وہیبت سے پارہ پارہ ہوجاتا تو انسان کی حالت قابل افسوس ہے کہ وہ انسانی شعور واحساس رکھتے ہوئے خدا کی خشیت سے متاثر نہ ہو حالانکہ وہ کتاب الہی کو سمجھتا ہے اس میں تدبر اور غور وفکر کی بھی صلاحیت رکھتا ہے ،۔ 1 حاشیہ (تفسیر ابن کثیرج 4۔ ) میرے شیخ محترم حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہفوائد قرآن کریم۔ 2 حاشیہ 2 (فوائد قرآن کریم۔ 12) میں فرماتے ہیں کہ میرے والد مرحوم (رح) نے ایک طویل نظم کے ضمن میں یہ تین شعر کہے۔ سنتے سنتے نغمہائے محفل بدعات کو۔ کان بہرے ہوگئے دل بدمزہ ہونے کو ہے۔ آؤ سنوائیں تمہیں وہ نغمہ مشروع بھی پارہ جس کے لحن سے طور ہدی ہونے کو ہے۔ حیف گر تاثیر اس کی تیرے دل پر کچھ نہ ہو کوہ جس سے (آیت) ” خاشعا متصدعا ہونے کو ہے۔ حضرات عارفین اور علماء ربانیین کی تحقیق یہ ہے، جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے کہ جمادات ونباتات میں بھی اللہ رب العزت نے احساس و شعور کی صلاحیت رکھی ہے چناچہ سورة بقرہ میں بنی اسرائیل کی شقاوت اور تساوت قلبیہ کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ (آیت) ” ثم قست قلوبکم من بعد ذلک فہی کالحجارۃ اواشد قسوۃ وان من الحجارۃ لما یتفجر منہ الانھار وان منھا لما یشقق فیخرج منہ المآء وان منھا لما یھبط من خشیۃ اللہ۔ چناچہ جمادات کے احساس و شعور کا ثبوت اس واقعہ سے بھی ملتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے واسطے جب منبر تیار کیا گیا اور آپ ﷺ نے پہلی مرتبہ اس پر خطبہ دینا شروع فرمایا وہ کھجور کے درخت کا تنا جو ستون کی طرح مسجد میں گڑا ہوا تھا اور آپ ﷺ اسی پر ٹیک وسہارا لے کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے تو وہ ستون بیقرار ہو کر اس طرح رونے لگا کہ جیسے کوئی بچہ روتا ہو یہ آواز سب نے سنی آنحضرت ﷺ منبر سے نیچے اترے اس ستون کو تھپکا تسلی دی، جیسے بچے کو تھپک کر تسلی دی جاتی ہو اور اس کو خاموش کیا جاتا ہو، حضرات صحابہ کرام ؓ فرماتے ہیں ہم نے دیکھا کہ وہ ستون اپنی آواز ضبط کرنے لگا، راوی حدیث اس قصہ کر ذکر کرتے ہوئے ” لما کان یسمع من الذکر والوحی “۔ کہ وہ ستون اس وجہ سے رویا کہ وہ جو ذکر اور وحی الہی سنا کرتا تھا اس سے بعد ہوگیا۔ حاشیہ (صحیح بخاری جلد 1۔ ابواب الخطبہ۔ 12) اسی وجہ سے اس ستون کا نام ستون حنانہ رکھا گیا۔ حسن بصری (رح) اس حدیث نقل کرکے فرماتے ہیں اے مسلمانو ! دیکھو جب ایک لکڑی کا تنا اور ستون رسول اللہ ﷺ کے شوق و محبت میں بےقرار ہو کر آہ وزاری کرنے لگا تو تم انسان ذی عقل ہو تمہیں چاہئے کہ تم بھی اپنے قلب میں رسول اللہ ﷺ کا شوق اور محبت اس لکڑی کے ستون سے زائد پیدا کرو یہی وہ چیز ہے جس کو حضرت رومی (رح) نے فرمایا۔ فلسفی کو منکر حنانہ است از حواس انبیاء بیگانہ است : اسماء حسنی وصفات خداوندی : قال اللہ تعالیٰ : (آیت) ” وللہ الاسمآء الحسنے فادعوہ بھا “۔ ارشاد مبارک ہے اللہ تعالیٰ کے لیے اسماء حسنی اور صفات علی ہیں انہی کے ذریعے خدا تعالیٰ سے دعا مانگا کرو مثلا یا اللہ اور یارحمن اور یا غفارکہہ کر دعا مانگو اور یا ذات یا موجود یا شئی کہہ کر دعا مت مانگو اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنے کو سوال اور دعا کا ذریعہ بناؤ خود تراشیدہ ناموں سے اللہ کو مت پکارو۔ اسماء حسنی سے اللہ کے نام اور اوصاف مراد ہیں جو اس کی ذات پر یا اس کی کسی صفت پر دلالت کریں لفظ ” اللہ “ ذات خداوندی کا اسم علم ہے اور اسم ذات ہے جو اس کی ذات پر دلالت کرتا ہے اور باقی اوصاف سب اس کے تابع ہیں اور بعثت نبوی سے پہلے عرف عرب میں اللہ ذات خداوندی کے لیے بولا جاتا تھا، شریعت نے اسی نام کو بحال رکھا، اللہ تعالیٰ کے اسماء اور صفات اور اس کے کمالات کی کوئی حد نہیں مگر اللہ پر صرف ان اسماء کا اطلاق درست ہے جو شرع شریف سے ثابت ہیں اپنی رائے سے ان میں کوئی تبدیلی نہیں کرنی چاہئے ، علماء متکلمین کی رائے ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء توفیقی ہیں یعنی صاحب شرع کے واقف کرانے اور بتلانے پر موقوف ہیں شرع میں جس اسم کا اطلاق حق تعالیٰ کی ذات پر آیا ہے اس اسم کا اطلاق کرنا تو جائز ہے۔ اور جس اسم کا اطلاق نہیں آیا اس کا اطلاق نہیں کرنا چاہئے اگرچہ اس میں معنی کمال کے پائے جاتے ہوں، مثلا اللہ تعالیٰ پر جو اد اور کریم کا اطلاق جائز ہے اس لئے کہ اس اسم کا اطلاق شرع میں آیا ہے اور اللہ تعالیٰ کو سخی کہنا جائز نہیں اس لیے کہ اس اسم کا اطلاق شرع میں نہیں آیا لہذا ہم کو چاہئے کہ خدا تعالیٰ کو ان ناموں سے پکاریں جو قرآن اور حدیث سے ثابت ہیں اپنی رائے اور قیاس سے خدا کے نام تجویز نہ کریں، حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”، ان اللہ تسعۃ وتسعین اسماء من احصاھا دخل الجنۃ “۔ یعنی اللہ کے ننانوے نام ہیں جس نے ان کو محفوظ اور یاد کرلیا وہ جنت میں داخل ہوا، سوجاننا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات بیشمار ہیں لیکن یہ ننانوے نام، تمام اسماء حسنی اور صفات علی کی اصل ہیں کہ دنیا میں اہل عقل کے نزدیک جس قدرصفات کمال متصور ہوسکتی ہیں وہ سب انہی ننانوے اسماء حسنی کے تحت درج ہیں اور یہ ننانوے اسماء حسنے بیشمار صفات کمالیہ کے لئے بمنزلہ اصل کے ہیں اور تمام صفات کمال کا خلاصہ اور اجمال ہیں اور حدیث میں احصاء سے محض زبانی یاد کرلینا مراد نہیں بلکہ یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ تعالیٰ ان تمام اسماء حسنی اور صفات علی کے ساتھ موصوف ہے تو جس نے حق تعالیٰ کو تمام صفات کمالیہ کے ساتھ موصوف جانا وہ جنت میں داخل ہوگا۔ اللہ رب العزت کے ننانوے (99) اسماء حسنی :۔ 1۔ اللہ معبود برحق اور موجود مطلق، یہ نام خدا تعالیٰ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے، غیر خدا پر اس کا اطلاق نہیں ہوسکتا نہ حقیقۃ نہ مجازا۔ 2۔ الرحمن نہایت رحم والا۔ 3۔ الرحیم بڑا مہربان۔ 4۔ الملک بادشاہ حقیقی، اپنی تدبیر اور تصرف میں مختار مطلق۔ 5۔ القدوس تمام عیبوں اور برائیوں سے پاک اور منزہ، فضائل اور محاسن کا جامع اور معائب اور مخلوقات کی صفات سے معرا اور مبرا۔ 6۔ السلام آفتوں اور عیبوں سے سالم اور سلامتی کا عطا کرنے والا بےعیب۔ 7۔ ال مومن مخلوق کو آفتوں سے امن دینے والا اور امن کے سامان پیدا کرنے والا۔ 8۔ المھیمن ہر چیز کا نگہبان اور پاسبان۔ 9۔ العزیز عزت والا اور غلبہ والا، کوئی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا اور نہ کوئی اس پر غلبہ پاسکتا ہے ، 10۔ الجبار جبر اور قہر والا ٹوٹے ہوئے کا جوڑنے والا اور بگڑے ہوئے کا درست کرنے والا کوئی اسے مجبور نہیں کرسکتا۔ 11۔ المتکبر انتہائی بلند اور برتر، یعنی بزرگ اور بےنیاز جس کے سامنے سب حقیر ہیں۔ مر اور ارسد کبریاء ومنی کہ ملکش قدیم است وذاتش غنی۔ 12۔ الخالق مشیت اور حکمت کے مطابق ٹھیک اندازہ کرنے والا اور اس کے مطابق پیدا کرنے والا اس نے ہر چیز کی ایک خاص مقدار مقرر کردی کسی کو چھوٹا اور کسی کو بڑا، اور کسی کو انسان اور کسی کو حیوان، کسی کو پہاڑ اور کسی کو پتھر اور کسی کو مکھی اور کسی کو مچھر، ہر ایک کی ایک خاص مقدار مقرر کردی۔ 13۔ الباریء بلاکسی اصل کے اور بلا کسی خلل کے پیدا کرنے والا۔ 14۔ المصور طرح طرح کی صورتیں بنانے والا کہ ہر صورت کو دوسری سے جدا اور ممتاز بناتا ہے۔ 15۔ الغفار بڑا بخشنے والا اور عیبوں کا چھپانے والا اور پردہ پوشی کرنے والا۔ 16۔ القھار بڑا قہر اور غلبہ والا کہ جس کے سامنے سب عاجز ہوں ہر موجود اس کے قدرت کے سامنے مقہور و عاجز ہے۔ 17۔ الوھاب بغیر غرض اور بغیر عوض کے بخشنے والا، بندہ بھی کچھ بخش دیتا ہے مگر اس کی بخشش ناقص اور ناتمام ہوتی ہے بندہ کسی کو کچھ روپیہ پیسہ دے سکتا ہے مگر صحت اور عافیت نہیں دے سکتا۔ 18۔ الرزاق روزی دینے والا اور روزی کا پیدا کرنے والا رزق اور مرزوق سب اسی کی مخلوق ہے۔ 19۔ الفتاح رزق اور صحت کا دروازہ کھولنے والا اور مشکلات کی گرہ کھولنے والا۔ 20۔ العلیم بہت جاننے والا جس سے کوئی چیز مخفی نہ ہو۔ اس کا علم تمام کائنات کے ظاہر و باطن کو محیط ہے۔ 21۔ القابض تنگی کرنے والا۔ 22۔ الباسط فراخی کرنے والا، یعنی رزق حسی اور معنوی کی تنگی اور فراخی سب اس کے ہاتھ میں ہے کسی پر رزق کو فراخ کیا اور کسی پر تنگ کیا۔ 23۔ الخافض پست کرنے والا۔ 24۔ الرافع بلند کرنے والا، جس کو چاہے عزت دے اور جس کو چاہے ذلت دے جس کو چاہے ہدایت دے اور جس کو چاہے گمراہ کر دے۔ 25۔ المعز عزت دینے والا۔ 26۔ المذل ذلت دینے والا جس کو چاہے عزت دے اور جس کو چاہے ذلت دے جس کو چاہے ہدایت دے اور جس کو چاہے گمراہ کر دے۔ 27۔ السمیع بہت سننے والا۔ 28۔ البصیر بہت دیکھنے والا۔ 29۔ الحکم حکم کرنے والا اور فیصلہ کرنے والا کوئی اس کے فیصلہ کو رد نہیں کرسکتا اور نہ کوئی اس کے فیصلہ پر تبصرہ کرسکتا ہے۔ 30۔ العدل انصاف کرنے والا، اس کی بارگاہ میں ظلم اور جو روستم عقلا محال ہے۔ 31۔ اللطیف باریک بین اور نیکی اور نرمی کرنے والا ایسی خفی اور باریک چیزوں کا ادراک کرنے والا جہاں نگاہیں نہیں پہنچ سکتیں۔ 32۔ الخبیر بڑا ہی آگاہ اور باخر ہے، ہر چیز کی حقیقت کو جانتا ہے ہر چیز کی اس کو خبر ہے یہ ناممکن ہے کہ کوئی چیز موجود ہو اور خدا کو اس کی خبر نہ ہو۔ 33۔ الحلیم بڑا ہی بردبار، علانیہ نافرمانی بھی اس کو مجرمین کی فوری سزا پر آمادہ نہیں کرتی گناہوں کی وجہ سے وہ رزق نہیں روکتا۔ 34۔ العظیم بڑا ہی عظمت والا جس کے سامنے سب ہیچ ہیں اور کسی کی اس تک رسائی نہیں۔ 35۔ الغفور بہت بخشنے والا۔ 36۔ الشکور بڑا قدر دان، تھوڑے عمل پر بڑا ثواب دینے والا۔ 37۔ العلی بلند مرتبہ کہ اس سے اوپر کسی کا مرتبہ نہیں۔ 38۔ الکبیر بہت بڑا کہ اس سے بڑا کوئی متصور نہیں۔ 39۔ الحفیظ نگہبان مخلوق کو آفتوں اور بلاؤں سے محفوظ رکھنے والا۔ 40۔ المقیت مخلوق کو قوت یعنی روزی اور غذادینے والا، روح اور جسم دونوں کو روزی دینے والا اور بعض نسخوں میں ” المغیث “ ہے یعنی فریاد کو پہنچنے والا۔ 41۔ الحسیب ہر حال میں کفایت کرنے والا یا قیامت کے دن بندوں سے حساب لینے والا، 42۔ الجلیل بزرگ تر، یعنی کمال استغناء اور کمال تقدس اور کمال تنزیہ کے ساتھ موصوف ہے۔ 43۔ الکریم کرم اور بخشش والا بغیر سوال کے اور بغیر وسیلہ کے عطا کرنے والا۔ 44۔ الرقیب نگہبان اور نگران کسی شے سے وہ غافل نہیں اور کوئی شے اس کی نظر سے پوشیدہ نہیں۔ 45۔ المجیب دعاؤں کا قبول کرنے والا اور بندوں کی پکار کا جواب دینے والا۔ 46۔ الواسع فراخ علم والا، جس کا علم اور جس کی نعمت تمام اشیاء کو محیط ہے۔ 47۔ الحکیم حقائق اور اسرار کا جاننے والا جس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں اور حکمت کے معنی کمال علم کے ساتھ، فعل اور عمل کا عمدہ ہونا اور پختہ ہونا یعنی اس کی کار اور گفتار سب درست اور استوا رہے۔ 48۔ الودود نیک بندوں کو دوست رکھنے والا خیر اور احسان کو پسند کرنے والا۔ 49۔ المجید ذات اور صفات اور افعال میں برزگ اور شریف۔ 50۔ الباعث مردوں کو زندہ کرنے والا اور قبروں سے اٹھانے والا اور سوتے ہوؤں کو بستروں سے جگانے والا۔ 51۔ الشھید حاضروناظر اور ظاہر و باطن پر مطلع اور بعض کہتے ہیں کہ امور ظاہرہ کے جاننے والے کو شہید کہتے ہیں اور امور باطنہ کے جاننے والے کو خبیر کہتے ہیں اور مطلق جاننے والے کو علیم کہتے ہیں۔ 52۔ الحق ثابت اور برحق یعنی جس کی خدائی اور شہنشاہی حق ہے اور اس کے سوا سب باطل اور ہیچ۔ 53۔ الوکیل کارساز جس کی طرف کسی نے اپنا کام سپرد کردیا ہو وہ اس کا کام بنانے والا ہے۔ 54۔ القوی غیرمتناہی قوت والا یعنی توانا اور زور والا جس کو کبھی ضعف لاحق نہیں ہوتا۔ 55۔ المتین استوار اور شدید القوت جس میں ضعف اور اضمحلال کا امکان نہیں اور اس کی قوت میں کوئی اس کا مقابل اور شریک نہیں۔ 56۔ الولی مددگار اور دوست رکھنے والا یعنی اہل ایمان کا محب اور ناصر۔ 57۔ الحمید سزاوار حمد وثناء ذات وصفات اور افعال کے اعتبار سے ستودہ۔ 58۔ المحصی کائنات عالم کی مقدار اور شمار کو جاننے والا زمین کے ذرے اور بارش کے قطر سے اور درختوں کے پتے اور انسانوں اور حیوانوں کے سانس سب اس کو معلوم ہیں۔ 59۔ المبدیء پہلی بار پیدا کرنے والا اور عدم سے وجود میں لانے والا۔ 60۔ المعید دوبارہ پیدا کرنے والا، پہلی بار بھی اس نے پیدا کیا اور قیامت کے دن بھی وہی دوبارہ پیدا کرے گا اور معدومات کو دوبارہ ہستی کا لباس پہنائے گا۔ 61۔ المحیے زندہ کرنے والا۔ 62۔ الممیت مارنے والا، جسمانی اور روحانی ظاہری اور باطنی موت اور حیات کا مالک جس نے ہر ایک کی موت اور حیات کا وقت اور اس کی مدت مقرر اور مقدر کردی۔ 63۔ الحیے بذات خود زندہ اور قائم بالذات جس کی حیات کو کبھی زوال نہیں۔ 64۔ القیوم کائنات عالم کی ذات وصفات کا قائم رکھنے والا اور تھامنے والا یعنی تمام کائنات کا وجود اور ہستی اس کے سہارے سے قائم ہے۔ 65۔ الواجد۔ غنی اور بےپرواہ کہ کسی چیز میں کسی کا محتاج نہیں، یا یہ معنی کہ اپنی مراد کو پانیوالا جو چاہتا ہے کرتا ہے نہ کوئی اس سے چھوٹ سکتا ہے اور نہ کوئی اس تک پہنچ سکتا ہے۔ 66۔ الماجد بڑی بزرگی والا مطلق بزرگ۔ 67۔ الواحد ایک، کوئی اس کا شریک نہیں۔ 68۔ الاحد ذات وصفات میں یکتا اور یگانہ یعنی بےمثال اور بےنظیر۔ 1 حاشیہ۔ 1 (احد کا لفظ ترمذی کی روایت اور بیہقی کی دعوات کبیر میں نہیں آیا، البتہ ابن ماجہ کی روایت میں یہ لفظ آیا ہے۔ دیکھو شرح کتاب الاذکار ص 215 ج 3۔ ) 69۔ الصمد سردار کامل، سب سے بےنیاز اور سب اس کے محتاج، یعنی ذات وصفات کے اعتبار سے ایسا کامل مطلق کہ وہ کسی کا محتاج نہ ہو اور سب اس کے محتاج ہوں۔ 70۔ القادر قدرت والا اسے اپنے کام میں کسی آلہ کی ضرورت نہیں عجز اور بےچارگی سے پاک اور منزہ۔ 71۔ المقتدر بذات خود کامل القدرت کسی چیز کے کرنے میں اسے دشواری نہیں اور کسی میں یہ قدرت نہیں کہ اس کی قدرت میں مزاحمت کرسکے۔ 72۔ المقدم دوستوں کو آگے کرنے والا۔ 73۔ المؤخر دشمنوں کو پیچھے کرنے والا۔ 74۔ الاول سب سے پہلا۔ 75۔ الاخر سب پچھلا یعنی اس سے پہلے کوئی موجود نہ تھا اور اس کے سوا جو موجود ہوا اس کو اسی کی بارگاہ سے وجود ملا۔ 76۔ الظاہر آشکارا۔ 77۔ الباطن پوشیدہ ! یعنی بلحاظ دلائل قدرت کے آشکارا ہے کہ ہر ذرہ اسکے کمال قدرت پر دلالت کرتا ہے اور باعتبار کنہ اور حقیقت کے پوشیدہ ہے۔ 78۔ الوالی کارساز اور مالک اور تمام کاموں کا متولی اور منتظم۔ 79۔ المتعالی عالیشان اور بہت بلند اور برتر، کہ جہاں تک کوئی نہ پہنچ سکے۔ 80۔ البر نیکی اور احسان کرنے والا نیکوکار۔ 81۔ التواب توبہ قبول کرنے والا، اور توجہ کرنے والا۔ 82۔ المنتقم سرکشوں سے بدلہ لینے والا۔ 83۔ العفو گناہوں اور تقصیروں سے بڑا درگذر کرنے والا اور گناہوں کو مٹا دینے والا۔ 84۔ الرء وبڑا ہی مہربان جس کی رحمت کی غایت اور نہایت نہیں۔ 85۔ مالک الملک خداوند جہاں وملک کا جس طرح چاہے تصرف کرے کوئی اس کے حکم اور تصرف کو نہ روک سکے۔ 68۔ ذوالجلال والاکرام صاحب عظمت و جلال جس کا حکم جاری اور نافذ ہے اور اس کی اطاعت لازم ہے اور اپنے فرمانبرداربندوں کی تعظیم و تکریم کرنے والا اور ان کو عزت دینے والا اور ان پر کرم کرنے والا جس کے پاس جو عزت اور کرامت ہے وہ اسی کا عطیہ ہے۔ 87۔ المقسط عادل اور منصف مظلوم کا ظالم سے بدلہ لیتا ہے۔ 88۔ الجامع تمام متفرق چیزوں کو جمع کرنے والا جس نے اپنی قدرت و حکمت سے جسم انسانی اور حیوانی میں عناصر متضادہ کر جمع کیا۔ 89۔ الغنی بےپرواہ اسے کسی کی حاجت نہیں اور کوئی اس سے مستغنی نہیں۔ 90۔ المغنی مخلوق کو بےپرواہ کرنے والا۔ یعنی وہ خود بےنیاز ہے اور جس کو چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے حسب حکمت ومصلحت اس کو بےپرواہ کردیتا ہے اور بقدر ضرورت اس کو دے دیتا ہے۔ 91۔ المانع روکنے والا اور باز رکھنے والا جس چیز کو وہ روک لے کوئی اس کو دے نہیں سکتا۔ 92۔ الضآر ضرر پہنچانے والا۔ 93۔ النافع نفع پہنچانے والا۔ یعنی نفع اور ضرر سب اس کے ہاتھ میں ہے خیر وشر نفع وضرر سب اسی کی طرف سے ہے۔ 94۔ النور وہ بذات خود ظاہر اور روشن ہے اور دوسروں کو ظاہر اور روشن کرنے والا ہے، نور اس چیز کو کہتے ہیں جو ظاہر بنفسہ ہو اور دوسرے کے لیے مظہر ہو۔ آسمان و زمین سب ظلمت عدم میں مستور تھے اللہ نے ان کو عدم کی ظلمت سے نکال کر نور وجود عطا کیا جس سے سب ظاہر ہوگئے اس لئے وہ (آیت) ” نور السموت والارض ہے۔ درظلمت عدم ہمہ بودیم بیخبر نور وجود سر شہود از تو یا فتیم۔ 95۔ الھادی راہ دکھانے والا اور بتلانے والا اور چلانے والا کہ یہ راہ سعادت ہے اور یہ راہ شقاوت ہے۔ 96۔ البدیع بےمثال اور بےنمونہ عالم کا پیدا کرنے والا۔ 97۔ الباقی۔ ہمیشہ ہمیشہ رہنے والا یعنی دائم الوجود جس کو کبھی فناء نہیں اور اس کے وجود کی کوئی انتہاء نہیں اللہ تعالیٰ واجب الوجود ہے ماضی کے اعتبار سے وہ قدیم ہے اور مستقبل کے لحاظ سے وہ باقی ہے ورنہ اس کو ذات کے لحاظ سے وہاں نہ ماضی ہے اور نہ مستقبل ہے اور وہ بذات خود باقی ہے اور جنت و جہنم کو جو دوام اور بقاء ہے وہ اس کے باقی رکھنے سے ہے اور بقاء اور ابقاء میں فرق ہے۔ 98۔ الوارث تمام موجودات کے فناء ہوجانے کے بعد سب کا وارث اور مالک جب سارا عالم فناء کے گھاٹ اتار دیا جائے گا تو وہ خود ہی فرمائے گا (آیت) ” لمن الملک الیوم “۔ اور خود ہی جواب دے گا۔ (آیت) ” للہ الواحد القھار “۔ 99۔ الرشید رہنمائے عالم یعنی دینی اور دنیوی مصلحتوں میں عالم کا رہنما اور اس کا ہر تصرف عین رشد اور عین صواب اور اس کی ہر تدبیر نہایت درست ہے۔ 100۔ الصبور بڑا صبر کرنے والا، کہ نافرمانوں کے پکڑنے اور سزا دینے میں اور دشمنوں سے انتقام لینے میں جلدی نہیں کرتا بلکہ ان کو مہلت دیتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے ننا نوے نام ہیں جن کے ساتھ اسم اللہ مل کر سو کا عدد پورا ہوجاتا ہے۔ حاشیہ (الاسماء الحسنی ماءۃ علی عدددرجۃ الجنۃ والذی یکمل الماءۃ ” اللہ “ دیکھو شرح کتاب الاذکار ص 202 ج 3۔ ) اور جنت کے سو درجے ہیں، سو جو ان اسماء حسنی کو یاد کرے اور ان کی معنی کو سمجھ کر دل میں یہ یقین کرے کہ اللہ تعالیٰ ان صفات کمالیہ کے ساتھ موصوف ہے اور ان ناموں کے ذریعہ سے اللہ کو یاد کرے اور ان کے ذریعہ اپنی حاجتیں مانگے یعنی جو نام اس کی حاجت اور ضرورت کے مناسب ہو اس نام کے ذریعہ اللہ سے دعا کرے مثلا جو روز ہی کا حاجتمند ہو وہ ” یا رزاق “ کو کہہ کر دعا مانگے اور طالب علم دین، یا علیم، کہہ کر دعا مانگے، اور گم گشتہ راہ، یا ھادی، کہہ کر دعا مانگے وغیرہ وغیرہ جو ایسا کرے گا وہ بہشت میں داخل ہوگا اور اللہ تعالیٰ کے یہ ننانوے نام ترمذی وغیرہ کی روایت میں آئے ہیں جن میں اکثر قرآن کریم میں مذکور ہیں، اللہ کے اسماء وصفات بیشمار ہیں مگر مشہور حدیثوں میں ان ننانوے ناموں کا ذکر آیا ہے، کیونکہ یہ نام تمام صفات کمالیہ کی اصل اور جڑ ہیں باقی ان کے علاوہ اور بھی اللہ کے کچھ نام ہیں جو احادیث میں وارد ہوئے ہیں، مثلا قاھر اور شاکر اور دائم اور تدیم اور وتر اور فاطر اور علام اور ملیک اور اکرم اور مدبر اور رفیع اور ذی الطول اور ذی المعارج اور ذی الفضل اور خلاق اور سید اور حنآن اور منان اور دیان وغیرہ وغیرہ۔ حاشیہ (المقصد الاسنی شرح اسماء الحسنی للامام الغزالی (رح)۔ اسم اعظم کی تفصیل کے لیے شرح حصن حصین اور شرح کتاب الاذکار کی مراجعت فرمائیں) اس لیے ہم نے ان ننانوے (99) ناموں کی شرح پر اکتفا کیا جو سلف صالحین میں بطور ورد معروف ومشہور ہیں، ہر مسلمان کو چاہئے کہ ان اسماء الحسنی کو یاد کرے اور انکو ورد اور وظیفہ بنائے اور ان تمام اسماء حسنی میں اسم اللہ، اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ہے جس کے ذریعے دعاقبول ہوتی ہے اور اسم اللہ، ذات واجب الوجود اور معبود برحق کا نام ہے، اور یہ نام سوائے حق تعالیٰ کے کسی اور پر اطلاق نہیں کیا جاتا نہ حقیقۃ اور نہ مجازا۔ حضرات اہل علم اگر اسماء حسنی کی مزید تفصیل معلوم کرنا چاہیں تو امام بیہقی (رح) کی کتاب الاسماء والصفات از ص 6 تا ص 94 دیکھیں اور امام غزالی (رح) کی کتاب المقصد الاسنی شرح اسماء اللہ الحسنے اور شرح کتاب الاذکار از ص 199 تا ص 226 جلد 3 دیکھیں۔ غرض ان آیات مبارکہ میں ابتداء میں حکم تقوی فرمایا گیا اور آخرت کی فکر اور تیاری کے لیے متوجہ کیا گیا اس مقصد کا حصول چونکہ عظمت وحی اور خداوندعالم کی ذات وصفات کی معرفت پر موقوف تھا تو قرآن کریم کی شان عظمت بیان کرتے ہوئے حق تعالیٰ نے اپنی صفات عظیمہ کے بیان پر اس مضمون کو ختم فرمایا۔ تم تفسیر سورة الحشر وللہ الحمد والمنۃ
Top