Maarif-ul-Quran - At-Taghaabun : 9
یَوْمَ یَجْمَعُكُمْ لِیَوْمِ الْجَمْعِ ذٰلِكَ یَوْمُ التَّغَابُنِ١ؕ وَ مَنْ یُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ یَعْمَلْ صَالِحًا یُّكَفِّرْ عَنْهُ سَیِّاٰتِهٖ وَ یُدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا١ؕ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ
يَوْمَ يَجْمَعُكُمْ : جس دن وہ جمع کرے گا تم کو لِيَوْمِ الْجَمْعِ : جمع کرنے کے دن ذٰلِكَ : یہ يَوْمُ التَّغَابُنِ : دن ہے ہار جیت کا ۭوَمَنْ يُّؤْمِنْۢ : اور جو ایمان لائے گا بِاللّٰهِ : اللہ پر وَيَعْمَلْ صَالِحًا : اور عمل کرے گا اچھے يُّكَفِّرْ عَنْهُ : دور کردے گا اس سے سَيِّاٰتِهٖ : اس کی برائیاں وَيُدْخِلْهُ : اور داخل کرے گا اس کو جَنّٰتٍ تَجْرِيْ : باغوں میں ، بہتی ہیں مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ : جن کے نیچے نہریں خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ : ہمیشہ رہنے والے ہیں ان جنتوں میں اَبَدًا : ہمیشہ ہمیشہ ذٰلِكَ : یہی لوگ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ : کامیابی ہے بہت بڑی
جس دن وہ تم کو اکٹھا ہونے (یعنی قیامت) کے دن اکٹھا کرے گا وہ نقصان اٹھانے کا دن ہے اور جو شخص خدا پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے وہ اس سے اس کی برائیاں دور کر دے گا اور باغہائے بہشت میں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں داخل کرے گا ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ یہ بڑی کامیابی ہے
تنبیہ برفکر آخرت وترغیب ایمان وعمل صالح ونصیحت برائے صبر و استقامت واطاعت خداوندی : قال اللہ تعالیٰ : (آیت) ” یوم یجمعکم لیوم الجمع ....... الی ....... العزیز الحکیم “۔ (ربط) گزشتہ آیات میں ان نافرمانوں پر وعیدتھی جو اللہ کے پیغمبر پر ایمان لانے کی بجائے نافرمانی وبغاوت کرتے رہے اور اللہ نے اپنے رسول کے ذریعے قیامت اور جزاء وسزا کے امور سے جب آگاہ کیا تو ایسے نافرمان اور گستاخ اور باتوں کا انکار و تمسخر کرنے لگے ان مضامین کے بعد اب ان آیات حق تعالیٰ شانہ نے قیامت کے احوال بیان فرمائے اور یہ کہ منکرین کا روز قیامت کیا حشر ہوگا اور اہل ایمان کیسی کیسی نعمتوں اور اللہ کی عنایتوں سے سرفراز ہوں گے، تو ارشاد فرمایا۔ جس روز کہ وہ پروردگار تم کو جمع کرے گا، سب انسانوں کے جمع ہونے کا دن میدان حشر میں تو وہ دن ہوگا ہارجیت کا۔ 1 حاشیہ (یہ ترجمہ لفظ تغابن کا کیا گیا، تغابن جو غبن سے مشتق ہے، باب تفاعل کی خاصیت سے اسی معنی کو ادا کررہا ہے، کیونکہ ہر ایک کو قیامت میں یہی تمنا ہوگی کہ میں دوسرے سے بازی لے جاؤں اور اس کے مقابلہ میں میری جیت ہوجائے، مقاتل بن حیان (رح) سے منقول ہے فرمایا اس سے بڑھ کر اور کیا ہارجیت ہوگی کہ ایک گروہ جنت کی طرف چلاجائے اور دوسرے گروہ کو جہنم میں جھونک دیا جائے ، ابن عباس ؓ فرماتے تھے کہ یوم التغابن قیامت کا نام ہے اور قیامت کا دن یوم الجمعہ بھی ہے کہ اس روز اولین وآخرین ایک ہی میدان میں جمع ہوں گے (تفسیر ابن کثیر ج 4) کوئی ذلیل وناکام اور کوئی کامیاب وسربلند پوری زندگی کی ہارجیت کا منظر انسان بس اسی روز دیکھے گا، اور جو لوگ اللہ پر ایمان لائیں اور نیکی کے کام کریں تو اللہ ان کی برائیوں کو مٹا دے گا اور ان کو ایسے باغوں اور محلات میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں جو ہمیشہ ان باغوں میں رہنے والے ہوں گے یہی سب سے بڑی کامیابی ہے اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری نشانیاں جھٹلائیں تو یہ لوگ جہنمی ہیں جو ہمیشہ جہنم میں رہیں گے، اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔ تو ان حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے انسانوں کو چاہئے کہ ہارجیت کے ان دن کی فکر کریں اور وہ کام کریں جس پر کامیابی اور جیت ہو، اور ان کاموں سے بچیں جس سے ذلت وناکامی اور ہارہو۔ نیارب وفقنا لما تحب وترضی من القول والعمل والنیۃ وثبتنا علی ملۃ الاسلام توفنا مسلمین والحقنا بالصالحین غیر خزایا ولاندامی ولا مفتونین، امین یا رب العلمین “۔ ایمان کی حقیقت اس بات کا بھی تقاضا کرتی ہے کہ مومن اپنی زندگی کے ہر مرحلہ پر یہ بھی یقین رکھے کہ نہیں پہنچتی ہے کوئی مصیبت مگر اللہ ہی کے حکم سے، اور جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہے اللہ اس کے قلب کو سیدھا۔ 1 (آیت) ” ومن یؤمن باللہ یھدقلبہ “۔ کی تفسیر میں اعمش (رح) ابوظبیان (رح) سے بیان کرتے ہیں کہ ہم علقمہ ؓ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے تو انہوں نے جب یہ آیت پڑھی، تو ان سے اس کے معنی دریافت کہئے گئے، فرمایا اس کا مفہوم یہ ہے کہ جب کسی شخص کو کوئی مصیبت پہنچے تو یقین کرے کہ یہ تقدیر خداوندی سے ہے۔ اور اس پر راضی ہو صبر و سکون اختیار کرے۔ ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں یہ یقین کرے کہ قضا الہی کو کوئی لوٹا نہیں سکتا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ ہدایت قلب کے معنی یہ ہیں کہ اس پر ثواب کی امید رکھے اور بعض ائمہ فرماتے کہ (آیت) ” یھد قلبہ “۔ ہر نقصان اور مصیبت پر (آیت) ” انا للہ وانا الیہ راجعون “۔ پڑھنا ہے۔ صحیح بخاری اور مسلم میں روایت ہے آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا عجیب حال ہے مومن کا جو بھی قضا وقدر سے اس پر پیش آتا ہے اس کو اس چیز میں اجر وثواب ہی ملتا ہے اگر کوئی تکلیف پہنچتی ہے اور اس پر صبر کرتا ہے تو اس پر بھی اجر وثواب ہے اور اگر کوئی راحت ونعمت حاصل ہوتی ہے اور اس پر شکر کرتا ہے تو اس پر بھی اس کو ثواب ملتا ہے غرض مومن ہر طرح سے خیر ہی خیر کماتا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر۔ صحیحین) راستہ بتاتا ہے اور اللہ ہر چیز خوب جاننے والا ہے، تو جو لوگ تکلیف و راحت اور نرمی و سختی غرض ہر حالت کو اللہ کی ہی طرف سے جانتے ہوئے اسی کے حکم سے فرماں بردار ومطیع رہیں گے، خدا تعالیٰ ان کے اعتقاد وعمل ہر حالت کا خوب علم رکھنے والا ہے اور اس پر بدلہ بھی دینے والا ہے، اے ایمان والواسی پر قائم رہو اور اطاعت کرتے رہو اللہ کی اور اس کے رسول کی اور اگر تم روگردانی کرو گے تو ہمیں کوئی نقصان نہ ہوگا اس کا نقصان تو ہر اس شخص پر ہوگا جو روگردانی کرنے والا ہے بس ہمارے رسول پر تو واضح طور سے اللہ کا پیغام پہنچا دینا ہے جب اللہ کے رسول نے اللہ کے احکام پہنچا دیئے تو اس کے بعد عملی ذمہ داری مخاطبین پر عائد رہے گی سو جیسا کچھ بھی عمل کریں گے اس کا ثمرہ سامنے آجائے گا مل خیر اور سعادت کی راہ سے بھٹکا نیوالی باتوں سے انسان کو بیخبر اور بےفکر نہ ہونا چاہئے اس لیے اے ایمان والو ! سن لو یقیناً تمہاری بیویاں اور تمہاری اولاد میں سے کچھ تمہارے دشمن بھی ہوتے ہیں، سو ان سے احتیاط رکھو اگر وہ تم کو راہ راست خدا اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت سے بھٹکانا چاہیں یا ان کی محبت ودلجوئی میں اللہ کے احکام فراموش کردو، بیشک اس طرح کا طرز اولاد اور بیویوں کا اہل ایمان کے واسطے باعث اذیت و تکلیف ہے لیکن بجائے اس کے کہ تم ان سے قطع تعلق کرلو یا ان کو کوئی تکلیف پہنچاؤ مناسب یہ ہے کہ درگزر کرو اور اگر تم ان ایذاؤں کو دل سے مٹا دو اور درگذر کرو اور معاف کردو تو بہتر ہے کیونکہ اللہ ہی بخشنے والا مہربان ہے اس بناء پر اگر اولاد وبیویوں میں سے ایسی کوئی بات پیش آئے جس میں تمہاری حق تلفی ہے تو اس پر بجائے برافروختہ ہونے کے درگزر اور عفوہی بہتر ہے مگر پھر بھی یہ بات نہ بھلانا بیشک تمہارے تمہارے مال اور اولاد تمہارے واسطے ایک آزمائش ہے جس کے ذریعے اللہ اپنے بندوں کو آزماتا ہے تو جو لوگ اس آزمائش میں کامیاب ہوں تو بس اللہ تو ایسا رحیم وکریم ہے کہ اس کے یہاں بڑا ہی عظیم ثواب ہے، خدا کی آزمائش میں کامیابی اور اجر عظیم کا استحقاق اسی میں مضمر ہے کہ بس اللہ سے ڈرتے رہو جہاں تک تم سے ہوسکے اور اس کے احکام سنتے رہو اور اطاعت وفرماں برداری کرتے رہو اور بدنی عبادات وحقوق کی تکمیل کے ساتھ کچھ خرچ بھی کرو اللہ کی راہ میں اپنے ہی فائدہ کے لیے اللہ کی راہ میں خرچ سے روکنے والی خصلت مال کی محبت و لالچ ہے جو انسان کو ایسی سعادت سے محروم کردینے والی بدترین خصلت ہے اس لیے ہر انسان کو چاہئے کہ اس مذموم خصلت سے اپنے آپ کو پاک رکھے اور حقیقت یہی ہے جو لوگ اپنے آپ کو نفس کی خواہش اور مال کی محبت سے بچا لیں تو ایسے ہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہوئے ہرگز کسی کو یہ تصور نہ کرنا چاہئے کہ اس کے مال میں کمی آجائے گی بلکہ یہ تو اللہ کو قرضہ حسنہ دینا ہے اگر تم اللہ کو دو گے اچھی قرض دینا خوش دلی اور اجر وثواب کی امید رکھتے ہوئے تو اللہ تعالیٰ اس کو بڑھائے گا تمہارے واسطے اور مغفرت کرے گا، تمہارے لیے تمہاری ان کوتاہیوں کی جو عبادات اور فرائض کی ادائیگی میں تم سے ہوجاتی ہیں اور اللہ تو بڑا ہی قدر دان ہے حلم و درگذر والا کہ معمولی چیز کو بھی نظر کرم سے قبول فرما لے اور اس قلیل مقدار پر اجر عظیم عطا فرما دے کہ ایک نیکی کو دس گنا سے سات سو تک پہنچا دے اور کبھی صدقہ کی ایک کھجور پہاڑ کے برابر بنادے جیسے کہ حدیث میں ارشاد ہے اگر بندہ حلال اور پاک کمائی سے صدق دل سے ایک کھجور بھی اللہ کی راہ میں صدقہ کرے تو اللہ اس کو اپنے دائیں ہاتھ میں لے لیتا ہے پھر اس کو نشوونما فرماتا ہے جیسا کہ کوئی شخص اپنے بچھڑے کو پالے یہاں تک یہ وہ ایک کھجور پہاڑ کے برابر ہوجاتی ہے کس کی کھجور پہاڑ کے برابر ہوسکتی ہے اور کس کی اس مقام سے کم رہتی ہے، یہ سب کچھ اللہ رب العزت کے حوالہ ہے وہی پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہے زبردست حکمت والا ظاہری اعمال اور باطنی احوال کی اس کو خبر ہے، اس کے مطابق ثمرات اعمال اور جزائیں بندوں کو عطا کی جاتی ہیں اور ہر ایک کو جو کچھ دنیوی اور اخروی جزا دی جاتی ہے وہ اس کی حکمت کے عین مطابق ہوتی ہے لہذا اس تصورت کی گنجائش نہیں کہ کسی کو کیا بدلہ ملا اور کسی کو کیا نہیں ملا جس کو جو کچھ عطا ہوتا ہے وہ اس کی حکمت کا عین متقضی ہوتا ہے۔ دنیاوی زندگی میں مصائب کا راز اور ان پر صبر کی تلقین : آیت مبارکہ ”۔ مااصاب من مصیبۃ الا باذن اللہ “ ، کی تفسیر میں حکیم الامت محمد اشرف علی تھانوی قدس اللہ سرۂ نے اپنے ایک وعظ رفع الموانع میں عجیب حقائق اور لطائف بیان فرمائے حضرت والد صاحب (رح) کی ایک یادداشت سے ناچیز نقل کرتے ہوئے حضرات قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہے، فرماتے ہیں۔ ان آیتوں میں حق تعالیٰ نے موانع طریق کو بیان فرمایا ہے یعنی جو چیزیں خدا کے راستہ سے روکنے والی اور خدا کو یاد سے غافل کرنے والی ہیں ان کی اجمالی فہرست اس رکوع میں بیان فرمائی اور فقط موانع کے بیان پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ ساتھ ساتھ ان کا علاج بھی مذکور ہے اور قرآن کریم میں یہ خاص بات ہے کہ جہاں امراض کا ذکر ہے وہاں اس کا علاج اور اس کی دوا بھی مذکور ہے موانع کی جزئیات تو بیشمار ہیں لیکن وہ موانع باوجود تعدد اور تکثر جزئیات دو امر کلی میں منحصر ہیں ، اول ” ضرا “ یعنی جو حالت انسان کو ناگوار ہے دوسرے ” سرا “ یعنی جو حالت انسان کو گوارا اور باعث مسرت ہے لیکن یہ دونوں حالتیں بھی مطلقا مانع نہیں بلکہ قید افراط کے ساتھ مانع ہیں، تفصیل اس کی یہ ہے کہ کوئی بھی شخص ایسا نہیں جس پر سرا یا ضراء میں کم وبیش ایک نہ ایک حالت کا عروض علی سبیل التعاقب والتناؤب نہ رہتا ہو لیکن بعض مرتبہ قلب اپنی اصلی حالت پر رہتا ہے اور بعض مرتبہ جب سراء اور ضراء کی حالت زیادہ ہوتی ہے تو قلب کو اپنی طرف مشغول کرلیتی ہے بس یہی دوسری حالت مانع طریق ہے اس لیے کہ جو شے کم ناگوار ہو یا کم گوار ہو وہ قلب کو مشغول نہیں کرتی البتہ جو حالت زیادہ گوارا ہو یا زیادہ ناگوار ہو وہ مانع ہوتی ہے جو حالت زیادہ گوارا ہو وہ نعمت ہے اور جو حالت زیادہ ناگوارا ہو اس کا نام مصیبت ہے پس قلب کو مشغول کرنے والی دو چیزیں ہوئیں اور انکی ذات مانع نہیں بلکہ مصیبت اور نعمت کا درجہ مانع ہے جس سے قلب متاثر ہو یہاں سے ایک اشکال دفع ہوگیا وہ یہ کہ جب مصیبت اور نعمت مانع ہیں تو انبیاء اور اولیاء کے حق میں بھی مصائب اور نعم مانع ہونے چاہئیں، اس لیے کہ انبیاء اور اولیاء پر مصائب بھی بہت آئے جیسا کہ حدیث میں ہے اشد الناس بلاء الانبیاء ثم الامثل فالامثل۔ اور اسی طرح حضرات انبیاء پر دنیوی نعمتیں بھی بہت فائض ہوتی ہیں، کما قال تعالیٰ (آیت) ” ولقد ارسلنا رسلا من قبلک وجعلنا لھم ازواجا وذریۃ “۔ لہذا اگر مصیبت اور نعمت شاغل ہیں تو انبیاء کے لیے بھی شاغل ہوں گی جو اب یہ ہے کہ مصیبت اور نعمت کی ذات شاغل نہیں بلکہ ان سے متاثر ہونا مانع ہے اور حضرات انبیاء کو مصائب اور نعم سے ایسا تاثر نہیں ہوتا کہ ان کو خدا سے غافل کردے الحاصل دو چیزیں حضرت حق کے مانع ثابت ہوئیں ایک مصیبت اور ایک نعمت (آیت) ” مااصاب من مصیبۃ الا باذن اللہ “ میں مصیبت کا مانع ہونا اور اس کا علاج مذکور ہے وہ یہ کہ تم اعتقاد رکھو کہ ہر چیز اللہ ہی کے حکم سے آتی ہے وہ مالک علی الاطلاق ہے ہم کو کسی چوں وچرا اور اعتراض کا حق نہیں جب یہ اعتقاد قلب میں راسخ ہوجاوے تو مصیبت کی شدت قلب کو ہرگز از جارفتہ نہ کرے گی آگے ارشاد ہے (آیت) ” ومن یؤمن باللہ یھدقلبہ “۔ یعنی جو شخص اللہ کے ساتھ ایمان رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے قلب کو علاج کی ہدایت فرما دیتے ہیں یعنی یہی نسخہ کیمیا اثر استعمال کرکے دیکھو تو کیسا فائدہ ہوتا ہے کما قال تعالیٰ (آیت) ” والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا “۔ آگے ارشاد ہے۔ واللہ بکل شیء علیم “۔ یعنی ہر شئے کو جانتا ہے پس یہ وہی جانتا ہے کہ کون اس کی راہ میں سعی کرتا ہے اور کون نہیں یہاں تک تو حق تعالیٰ نے خاص مرض مصیبت کے مانع طریق ہونے کا ایک خاص نسخہ تجویز فرمایا وہ یہ کہ مراقبہ کیا کرو کہ ہر مصیبت اللہ کی ہی طرف سے ہے آگے ایک عام نسخہ کا ذکر ہے، جس میں مریض اور تندرست سب شریک ہیں یعنی (آیت) ” واطیعوا اللہ واطیعوا الرسول “۔ اور ” اطیعوا “ کا کوئی متعلق ذکر نہیں فرمایا جس سے بقاعدۂ بلاغت عموم مستفاد ہوتا ہے یعنی تمام امور میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور امر کو بجالاؤ اور معاصی سے پرہیز کرو۔ (آیت) ” فان تولیتم فانما علی رسولنا البلغ المبین “۔ یعنی ہم نے جو تمہارے مرض کا علاج اپنے رسول ﷺ کی معرفت تجویز کیا ہے اسی رسول کی اطاعت کرو اور امر بجا لاؤ اور معاصی سے پرہیز کرو۔ (آیت) ” فان تولیتم فانما علی رسولنا البلغ المبین “۔ یعنی ہم نے جو تمہارے مرض کا علاج اپنے رسول ﷺ کی معرفت تجویز کیا ہے اگر کسی نے اس خاص یا عام نسخہ کے استعمال سے اعراض کیا تو یاد رکھو کہ ہمارے رسول کے ذمہ بجز اس کے کچھ نہیں کہ تم کو دوا اور پرہیز بتلادیں، نسخہ کا استعمال اور پھر شفاء اور صحت طبیب کے ذمہ نہیں طبیب کا یہی بہت بڑا احسان ہے کہ وہ تم کو دوا ابتلا دے یہ ان لوگوں کا بیان تھا کہ جنہوں نے ابھی تک نسخہ کا استعمال نہیں کیا، آگے ان لوگوں کا بیان ہے کہ جو نسخہ استعمال اور پھر شفاء اور صحت طبیب کے ذمہ نہیں طبیب کا یہی بہت بڑا احسان ہے کہ وہ تم کو دوا ابتلا دے یہ ان لوگوں کا بیان تھا کہ جنہوں نے ابھی تک نسخہ کا استعمال نہیں کیا، آگے ان لوگوں کا بیان ہے کہ جو نسخہ استعمال کررہے ہیں، (آیت) ” اللہ لاالہ الا ھو وعلی اللہ فلیتوکل ال مومن ون “۔ یعنی ان لوگوں کو اپنے علاج پر بھروسہ نہ کرنا چاہئے بلکہ اللہ پر نظر رکھنی چاہئے اور نہ علاج کے ثمرات کا منتظر رہنا چاہئے بعض مرتبہ مجاہدہ اور ریاضت سے عجب اور ناز پیدا ہوجاتا ہے اس آیت میں اس کے دفعیہ کی طرف اشارہ ہے۔ یہاں تک مصیبت کے متعلق بیان تھا آگے نعمت کے متعلق ارشاد ہے۔ (آیت) ” یایھا الذین امنوا ان من ازواجکم واولادکم عدوا لکم فاحذروھم “۔ یعنی اے ایمان والو تمہاری بیبیوں اور تمہاری اولاد میں سے کچھ تمہارے دشمن ہیں، پس تم ان سے احتیاط رکھو ایسا نہ ہو کہ وہ تم کو اپنے اندر مشغول کرکے راہ حق سے ہٹا دیں، نعمتیں اگرچہ بہت ہیں، لیکن دنیا میں انسان کو اولاد اور ازواج بہت محبوب ہوتی ہیں اس لیے بالتخصیص ان کا ذکر فرمایا اور ان کا مانع ہونا دو طریق سے ہے اول تو یہ کہ اولاد اور ازواج ایسی فرمائشیں کریں جو خدا اور رسول کے حکم کے خلاف ہو اور یہ مغلوب ہو کر ان کا ارتکاب کرے، دوم یہ کہ وہ خود ان کی محبت میں اس قدر مغلوب ہوجائے کہ اللہ کی یاد سے رک جائے جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ ایک شخص کبوتر کے پیچھے بھاگا جاتا تھا تو حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا، الشیطان یتبع الشیطانۃ یعنی ایک شیطان ایک شیطان کے پیچھے جارہا ہے اس کو شیطانہ اس لیے فرمایا کہ اس کے حق میں تو اس نے شیطان ہی کا کام دیا کہ اس کو ذکر اللہ سے غافل کردیا پس ایسے ہی وہ اولاد اور ازواج اس محبت کے حق میں بلاقصد عدوبن گئے کہ وہ ان کی محبت میں ایسا منہمک ہوا کہ اپنے اصلی کام کو بھول گیا پس مانع انہماک فی الحبت ہوا اور بعض مرتبہ غیر اللہ کی محبت میں انہماک شرک کے درجہ کو پہنچ جاتا ہے کما قال تعالیٰ (آیت) ” ومن الناس من یتخذ من دون اللہ اندادا یحبونھم کحب اللہ “۔ اور چونکہ ایمان لانا احبیت کے اقرار کو مستلزم ہے اس لیے آگے ارشاد ہے (آیت) ” والذین امنوا اشد حبا للہ “۔ یعنی جو ایمان لے آیا وہ تو رجسٹری شدہ محب اور عاشق ہے پھر غیر اللہ پر نظر ڈالنا سراسر غیرت ایمانی کے خلاف ہے۔ اور چونکہ مال بھی نعمت کا ایک فرد ہے اس لیے حب مال کے متعلق آئندہ ارشاد فرماتے ہیں (آیت) ” انما اموالکم واولادکم فتنۃ “۔ اور چونکہ اولاد کا فتنہ زیادہ سخت ہے اس لیے اولاد کو مال کے ساتھ مکرر فرمایا نیز یہ کہ مال کی محبت کا منشاء بھی اکثر اولاد ہی ہوتی ہے اس لیے مال اور اولاد دونوں کو ملا کر ذکر فرمایا اور محبت کے دو درجے ہیں ایک محبت لاواء الحقوق یہ مستحسن ہے، دوسری محبت لتحصیل الحظوظ اگر حدود شرعیہ کے اندر ہو تو پھر ممنوع اور مذموم نہیں اور فتنہ کے معنی یہاں وہ نہیں جس کو عام لوگ فتنہ اور فساد کہتے ہیں، بلکہ فتنہ کے معنی امتحان کے ہیں، یعنی مال اور اولاد تمہارے لیے امتحان کی چیز ہے یعنی ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے ساتھ مشغول ہوتے ہو یا ہمارے ساتھ اور جو امتحان میں کامیاب ہوا تو اس کے واسطے اللہ کے پاس بڑا ثواب ہے۔ یہاں تک موانع کی فہرست مکمل ہوگئی وہ کل تین چیزیں ہوئیں ایک مصیبت اور نعمت کے دو فرد ایک اولاد وازواج اور ایک مال اگر کسی کو یہ شبہ ہو کہ ان کی مانعیت افراط فی المحبت اور تاثر قلبی کی وجہ سے ہے اور یہ امر اختیاری نہیں تو اس کا جواب ارشاد فرماتے ہیں (آیت) ” فاتقوا اللہ ما استطعتم الآیۃ “۔ یعنی جتنا بچنا تمہاری استطاعت اور قدرت میں ہے اس میں کمی نہ کرو یعنی جو حکم تم کو دیا جائے اس کو گوش ہوش سے سنو اور اس پر عمل کرو اور شریعت نے جو دستور العمل تمہارے لیے تجویز کیا ہے اس کے پابند رہو اور چونکہ مال انسان کو بالطبع محبوب ہے اس لیے تقوی کے افراد میں سے انفاق فی سبیل اللہ کو اہتمام شان کے لیے مستقلا علیحدہ ذکر فرمایا (آیت) ” وانفقوا خیرا النفسکم “ یعنی اپنے نفسوں کے لیے مال خرچ کرو اور (آیت) ” لانفسکم “۔ اس لیے فرمایا کہ اس انفاق کا نفع تمہاری ہی طرف عائد ہوگا اور اللہ تعالیٰ غنی اور بےنیاز ہے۔ (آیت) ” ومن یوق شح نفسہ فاولئک ھم المفلحون “۔ یعنی جو شخص نفس کی حرص سے بچا لیا جائے یعنی اس کے نفس میں ایسی سماحت پید اہوجائے کہ مال کی محبت اور غیر اللہ کا تعلق اس میں باقی نہ رہے تو سمجھ لو کہ ان لوگوں فلاح اور کامیابی حاصل ہوگئی اور یوق، بصیغہ مجہول میں اس طرف اشارہ ہے کہ یہ وقایت یعنی نگہداشت تمہارا کام نہیں بلکہ ہمارا کام ہے بچانے والے ہم ہیں تم اپنے اس مجاہدہ پر ناز نہ کرنا، مقصود تک پہنچانا ہمارا کام ہے نفس میں جب تک شح اور حرص باقی نہ رہے مجاہدہ میں لگے رہو ایک لمحہ کے لیے مطمئن نہ ہو اور چونکہ نفس بالطبع حریص واقع ہوا اس لیے کسی چیز کے چھوڑنے پر اس وقت تک راضی نہیں ہوتا جب تک اس کو کسی بڑی چیز کی حرص نہ دلائی جائے، اس لیے آئندہ آیت میں اخروی نعمتوں کی حرص دلاتے ہیں تاکہ دنیا کی حرص چھوڑ دے۔ (آیت) ” ان تقرضوا اللہ قرضا حسنا یضاعفہ “۔ اور دوسرے مقام پر (آیت) ” اضعافا کثیر “۔ آیا ہے اور حدیث میں سات سو تک مضاعفت آئی ہے، یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مطلق حرص مذموم نہیں بلکہ حرص کی دو قسمیں ہیں، غیر اللہ کی حرص تو مذموم ہے اور انعامات خداوندی کی حرص محمود ہے، (آیت) ” واللہ شکور حلیم “۔ اور اللہ تعالیٰ بڑے قدر دان ہیں اور بہت حلم والے ہیں اور وہ (آیت) ” عالم الغیب والشھادۃ ہیں اخلاص اور ریاء اور اپنے عمل پر ناز کو خوب جانتے ہیں اس لیے وہ عزیز یعنی زبردست ہیں، یعنی نازل کرنے والوں کا ناز توڑ دیتے ہیں اور بعض مرتبہ ریاء اور عجب کی سزا میں تاخیر ہوتی ہے وہ حکمت پر بھی مبنی ہوتی ہے، اس لئے کہ وہ حکیم ہے اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں اس تاخیر میں بھی حکمت ہے ، (ملخص از رفع الموانع وعظ نمبر 2 سلسلہ تبلیغ) (ازافاضات والد محترم قدس اللہ سرۂ )
Top