بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - Al-Qalam : 1
نٓ وَ الْقَلَمِ وَ مَا یَسْطُرُوْنَۙ
نٓ : ن وَالْقَلَمِ : قسم ہے قلم کی وَمَا يَسْطُرُوْنَ : اور قسم ہے اس کی جو کچھ وہ لکھ رہے ہیں
ن قلم کی اور جو (اہل قلم) لکھتے ہیں اس کی قسم
بیان عظمت رسول اکرم ﷺ وتلقین صبر و استقامت : قال اللہ تعالیٰ : (آیت) ” ن والقلم وما یسطرون ........ الی .......... سنسمہ علی الخرطوم “۔ (ربط) گزشتہ سورت میں خداوند عالم کی خالقیت کے دلائل ذکر کئے گئے اور یہ کہ اس کی قدرت کائنات کو محیط ہے اس کے احاطہ علم وقدرت سے کوئی مجرم نہیں نکل سکتا تو اب اس سورت میں آنحضرت ﷺ کی رسالت ونبوت کو ثابت فرمایا گیا اور یہ کہ آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے مجرمین خدا کے عذاب سے ہرگز نہیں بچ سکتے اور جو کچھ وہ آپ ﷺ پر اعتراض کرتے ہیں وہ سب لغو اور بےہودہ باتیں ہیں کوئی صحیح العقل انسان ایسی بےہودہ باتیں تصور بھی نہیں کرسکتا ارشاد فرمایا۔ ن۔ خدا تعالیٰ ہی اس کی مراد۔ یہی مسلک اہل حق اور محققین کا ہے اگرچہ بعض عارفین اس حرف نون کو ” ناصر “ یا ننصر “ کا مخفف وقرار دیکر یہ معنی بیان کرتے ہیں کہ یہ تسلی ہے آنحضرت ﷺ کو کہ ہم آپ کے مددگار ہیں یا ہم آپ ﷺ کی مدد کریں گے بعض مفسرین نے اور بھی معانی بیان کئے ہیں۔ واللہ اعلم۔ 12) بخوبی جانتا ہے قسم ہے قلم کی اور قسم ہے ان کی جو لکھتے ہیں آپ نہیں ہیں اپنے رب کے فضل سے دیوانہ بلکہ دنیا کے انسانوں میں سب سے زیادہ علم و حکمت اور عقل و دانائی کے مالک ہیں جس توحید اور مکارم اخلاق کی دنیا کو تعلیم دی وہ اس کا واضح ثبوت ہے کہ دنیا کے سارے حکماء اور فلاسفہ کو حکمت و دانائی آپ ﷺ کے چشم فیض سے ملی ہے آپ کی حکمت و دانائی اہل مکہ کے نزدیک کوئی عجب چیز نہیں قریش اور ان کے علاوہ اطراف و اکناف عرب میں اس کا چرچہ تھا یہ بات تو کیسے ممکن ہے کہ آپ دیوانہ ہوں بلکہ اور اس سے بڑھ کر یہ کہ آپ کے واسطے تو ایسا اجر عظیم ہے کہ جو کبھی بھی منقطع ہونے والا نہیں کیونکہ آپ ﷺ کی ذات سے دنیا میں توحید ومکارم اخلاق رواج پائیں گے خدا پرستی جب مشرق ومغرب میں پھیلے گی تو بلاشبہ اس سب کا اجر وثواب آپ ہی کو ملتا رہے گا اور بیشک آپ تو بڑے ہی اچھے اور بلند پایہ خلق پر ہیں۔ حاشیہ (خلق خاء اور لام کے ضمہ کے ساتھ عادت کو کہا جاتا ہے اچھی عادت کو خلق حسن اور بری عادت کو خلق سوء یعنی بداخلاقی سے تعبیر کریں گے تو خلق حسن یا خلق عظیم انسان میں اس طبعی ملکہ کو کہا جاتا ہے جس کے باعث انسان پسندیدہ کام سہولت سے کرسکتا ہے، بہرکیف عملی اور اخلاقی ہیئت عملیہ کو خلق کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے مثلا حیاء کرم، سخاوت، شجاعت، ہمدردی واعانت، وصلہ رحمی، صبر وحلم، اور ہر بری بات اور بےہودہ خصلت سے پرہیز اور نفرت کرنا تو اس طرح کا وصف انسان کی فطرت میں رچا ہوا ہو کہ یہ تمام باتیں بےتکلف اس سے واقع ہوتی رہی تو آنحضرت ﷺ ان جملہ حسنہ اور پسندیدہ خصلتوں سے نہ صرف یہ کہ متصف ہیں بلکہ دنیا نے ان باتوں کو صرف آپ ﷺ سے ہی سیکھا۔ ابوالدرداء ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے دریافت کیا گیا کہ آپ ﷺ کا خلق کیا تھا جو اب دیا آپ ﷺ کا خلق قرآن کریم تھا ام ال مومنین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ آپ سے زیادہ دنیا میں کوئی خوش خلق نہ تھا جب بھی کسی نے کام کے لیے بلایا آپ نے اس کا کام کردیا عمر بھر آپ نے کسی کو گالی نہ دی نہ برا بھلا کہا انس بن مالک ؓ فرمایا کبھی مجھے کسی کام کے نہ کرنے پر یہ نہیں فرمایا ” کہ کیوں نہیں کیا اور اگر کوئی کام غلط کرلیا تو یہ نہیں فرمایا کہ “ یہ کیوں کیا “ 12) ایسے اخلاق حمیدہ اور پسندیدہ اخلاق کہ دنیا میں ان اخلاق و اعمال نے مسلمانوں کو عزت و حکومت اور سربلندی عطا کی۔ تو عنقریب آپ بھی دیکھ لیں گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے کہ کون تم میں سے وہ ہے جو بھٹک رہا ہے اور کون وہ ہے جو پیکر علم و حکمت اور عقل و فراست ہے کون عاقبت اندیش ہے اور کس کی عقل ماری گئی ہے جس کی وجہ سے وہ پاگلوں جیسی باتیں اور حرکتیں کرتا ہے بلاشبہ آئندہ کی تاریخ اس کا فیصلہ کردے گی بیشک آپ کا رب ہی خوب جانتا ہے اس کو کہ جو بھٹکا ہوا ہے اسکے راستہ سے اور وہی خوب جانتا ہے ان کو بھی جو راہ راست پر ہیں اس کا علم ہر عمل اور ہر عامل کو محیط ہے اس وجہ سے ہدایت اور نیکی پر چلنے والوں کا انجام فلاح و کامیابی اور عزت و غلبہ ہوگا اور گمراہوں کا انجام ہلاکت وتباہی ہے کفار ومشرکین تو اسی کوشش میں لگے رہیں گے کہ آپ ﷺ دعوت وتبلیغ کے معامل میں ان کی کچھ رعایت کریں اور کفر وگمراہی اور معبودان باطلہ کے رد میں سخت رویہ کو ترک کردیں، جس کا نتیجہ ظاہر ہے یہی ہوسکتا ہے کہ حق و باطل اور توحید وشرک میں امتیاز ہی ختم ہوجائے گا اس لیے آپ کو تاکید ہے ہرگز ان جھٹلانے والوں کی بات نہ مانئے وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ آپ نرمی اخیتار کرلیں تو پھر وہ بھی آپ کے ساتھ نرمی برتیں ہرگز آپ ﷺ ایسا نہ کریں، انکو نرمی اور خوش خلقی کی طمع میں احقاق حق اور تردید باطل میں کسی طرح کی نرمی اور کمزوری مقام رسالت کے ساتھ زیب نہیں دیتی ایمان وحق پرستی کا تقاضا یہی ہے یہ کہ حق کی آواز بلاجھجک کے بلند کی جائے دشمن خواہ سختی اختیار کریں یا برا بھلا کہیں ہے اور آپ ہرگز بات نہ مانیں کسی ایسے شخص کی جو خوب قسمیں کھانے والا حقیر و ذلیل انسان ہو۔ طعن وتشنیع کرنے والا ہو چغل خوری کرتا پھرتا ہو ہر بھلے کام سے لوگوں کو روکتا ہو حد سے زیادہ سرکش بڑا ہی گناہگار ہو نہایت ہی بدخو و بےہودہ ان سب باتوں کے بعد بدنام۔ حاشیہ (رسوائے زمانہ اور ” بدنام ‘ لفظ ’ زنیم “ کا ترجمہ ہے جس کو حضرت شیخ الہند (رح) نے اپنے ترجمہ میں اختیار فرمایا بعض حضرات سلف اور اہل لغت نے زنیم کے معنی ولدالزنا اور ” حرام زادے “ کے کئے ہیں اور جس کافر کے بارے میں یہ آیات نازل ہوتیں وہ اہل مکہ میں اسی حیثیت کے ساتھ معروف تھا اور وہ ولید بن مغیرہ تھا۔ 12) رسوائے زمانہ بھی ہو یہ (اس شخص کا غرور وتکبر اور سرکشی اور ہر خیر سے لوگوں کو روکنا) اس وجہ سے تھا کہ وہ بہت مالدار اور بیٹوں والا تھا وہ اپنی سرکشی اور غرور میں اس حد تک پہونچا کہ جب اس کے سامنے ہماری آیتیں تلاوت کی جائیں تو کہے یہ تو پہلے گزرے ہوتے لوگوں کہانیاں ہیں اس مغرور ومتکر کو اس بات کا احساس تک نہ رہا کہ دنیا میں کسی شخص کا دولت مندیا صاحب اولاد ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ اسکی بات حق ہے اور وہی کا میاب بھی ہے اصل عزت و کامیابی تو انسان کے اخلاق و عادات اور کردار کی خوبی اور شرافت وخوش اسلوبی پر موقوف ہے تو ظاہر ہے کہ ایسے ابلہ فریب انسان کی باتوں کی طرف نہ کوئی التفات کو کرنا چاہئے اور نہ ہی اس سے متاثر ہونا چاہئے۔ ایسے نالائق اور بدبخت انسان کے لیے تو ہم نے یہ طے کرلیا ہے اور ہم داغ دیں گے اس کی سونڈ پر اس کی وہ ناک جو سونڈ کی طرح ہے نہایت ہی بےڈول اور چوڑی بڑی بھدی نظر آتی ہے یہ شخص قریش کا ایک سردار ولید بن مغیرہ تھا جس میں یہ تمام اوصاف بتمام و کمال موجود تھے اور ناک پر داغ میں ذلت ورسوائی کا داغ تھا جو اس پر لگ کر رہاعلاوہ ازیں حسی طور پر بھی دنیا میں یہ لگ کر رہا جسکی صورت یہ ہوئی کہ بدر کی لڑائی میں ایک انصاری کی تلوار کا اس کی ناک پر چرکا لگا اور اس سے وہ زخمی ہوئی مکہ مکرمہ آکر اس کی مرہم پٹی کی مگر یہ زخم کسی طرح اچھا نہ ہوا بلکہ ایک نمایاں داغ پڑگیا اور اس زخم کی سختی اور تلخی سے نجات نہ پاسکا حتی کہ اسی حالت میں جہنم رسید ہوگیا ، ناک ہی انسان کے غرور وتکبر کا نشان ہے عرف میں ناک عزت وآبرو کو کہتے ہیں اور ذلت ورسوائی کو محاروات میں ناک کٹ جانا کہتے ہیں تو اس لحاظ سے غرور وکود بینی کے نشان پر داغ لگایا جانا تکبر اور سرتابی کی مناسب سزا ہوئی اس میں ایک لطیف رمز اور اشارہ یہ بھی ہے اللہ کے گھر کی بےحرمتی کرنے والے ہاتھیوں کے لشکر کا انجام قریش مکہ نے دیکھ بھی لیا تھا اب یہ ہاتھی جیسی ناک والا بھی اپنی ذلت وہلاکت کا انجام دیکھ لے گا۔ قلم اور تحریر قلم تاریخ عالم میں حضور اکرم ﷺ کی عظمت وحقانیت کا ثبوت اعظم : دنیا میں علوم کے نقل اور اشاعت کا ذریعہ قلم ہے، اور قلم کے ذریعہ علم ومعرفت کے خزانے ایک قرن سے دوسرے قرن اور ایک قلب سے دوسرے قلب تک منتقل کیئے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آغاز وحی پر جب آنحضرت ﷺ کو (آیت) ” اقرا “ کا خطاب ہوا اور آپ ﷺ نے فرمایا ” ما انا بقاری “ کہ میں تو ایسا نہیں ہوں کہ پڑھا ہوا ہوں توقراءت اور علم و حکمت کے حصول کے اس واسطہ اور ذریعہ کا اس طرح ذکر فرمایا گیا۔ (آیت) ” اقرا وربک الاکرم الذی علم بالقلم۔ علم الانسان مالم یعلم “۔ کہ قلم کے ذریعے انسان تک وہ علوم پہنچتے ہیں جن کو وہ پہلے نہیں جانتا ہوتا ہے یہ بھی ممکن ہے کہ قلم سے تقدیر الہی کا قلم مراد ہو جیسے کہ عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے فرمایا اللہ رب العزت نے سب سے اول قلم پیدا فرمایا اور پھر اس کو فرمایا ” اکتب “ یعنی لکھ اے قلم، قلم نے کہا اے پروردگار کیا لکھوں جواب ملالکھ لے ہر وہ چیز جو موجود ہے اور وہ بھی جو قیامت تک ہونے والا ہے بہرکیف قلم کی عظمت ظاہر ہے اور اسی عظمت کے پیش نظر قلم اور قلم سے لکھے جانے والے علوم ومعارف کی قسم کھائی گئی چونکہ قسم اور جواب قسم میں ایک خاص ربط اور مناسبت ہوتی ہے تو (آیت) ” ماانت بن بنعمۃ ربک بمجنون “۔ یعنی اس اعلان ” کہ آپ ﷺ اپنے پروردگار کے فضل وانعام کی وجہ سے مجنون یا دیوانہ نہیں ہیں “ کے ثابت کرنے کے لئے قلم اور قلم سے تحریر کئے جانے والے علوم کی قسم کھائی کیونکہ علوم اور حکمتیں لکھی جاتی ہیں اور ایسی حکمتیں کہ دنیا کے حکماء ان پر حیران ہوں ان اسرار وحکم سے لوگوں کو فہم و شعور کا ایک حصہ ملے تو بلاشبہ اس قسم پر یہ مضمون مرتب کرنا اور کفار مکہ کے اس بےہودوہ ولغو اعتراض کا جواب نہایت ہی لطیف ہوا جیسے کہ کسی تاریکی اور ظلمت کے الزام کو رد کرنے کے لئے سورج اور سورج کی تابناک شعاعوں کی قسم کھائی جائے اسی وجہ سے اس اعتراض کے بالمقابل آنحضرت ﷺ کا وصف خلق عظیم کا ذکر فرمایا جو دنیا کی تمام حکمتوں اور دانائی کے رموز کے لئے ایک جامع اساس ہے کہ کہاں ان بےہودہ لوگوں کا یہ کہنا کہ آپ ﷺ مجنون ہیں اور کہاں آپ ﷺ کا یہ مقام کہ (آیت) ” لعلی خلق عظیم “ ، کہ جملہ کمالات عقلیہ وعملیہ کا سرچشمہ ہیں انس بن مالک ؓ بیان فرمایا کرتے تھے کہ نبی کریم ﷺ دنیا کے انسانوں میں سب سے زیادہ بہترین اخلاق والے تھے (فرمایا) اور میں نے کبھی کوئی ریشم ودیباج آنحضرت ﷺ کے کف مبارک (ہتھیلی) سے زائد خوشبودار نہیں پایا۔ حاشیہ (صحیح بخاری جلد 2۔ ) ایک روایت میں براء بن عازب ؓ سے مروی ہے فرمایا آنحضرت ﷺ احسن وجھا واحسن الناس خلقا تھے یعنی جس طرح آپ ظاہر جسم چہرے کے لحاظ سے پیکر حسن و جمال تھے باطنی اخلاق کے لحاظ سے حسن خلق کا پیکر اعظم تھے انس بن مالک ؓ کی حدیث میں ریشم اور مشک وعنبر کا ذکر اس بات کی طرف اشارہ کررہا ہے آپ کے اخلاق کی نرمی ولطافت کے سامنے ریشم کی نرمی ہیچ تھی اور آپ ﷺ کے اخلاق مبارکہ کی مہک اور خوشبو خوشبو کے سامنے ہر عطر اور مشک وعنبر شرماتے تھے۔ شیخ الاسلام حضرت علامہ عثمانی (رح) اپنے فوائد قرآن کریم میں فرماتے ہیں ” دنیا میں بہت دیوانے ہوئے ہیں اور کتنے عظیم الشان مصلحین گزرے ہیں ابتداء قوم نے دیوانہ کہہ کر پکارا ہے مگر قلم نے تاریخی معلومات کا جو ذخیرہ بطون اوراق میں جمع کیا ہے وہ ببانگ دہل شہادت دیتا ہے کہ واقعی دیوانوں اور ان دیوانہ کہلانے والوں کے حالات میں کس قدر زمین و آسمان کا تفاوت ہے آج آپ ﷺ کو (العیاذ باللہ) مجنون کے لقب سے یا د کرنا بالکل وہی رنگ رکھتا ہے جس رنگ میں دنیا کے جلیل القدر اور اولو العزم مصلحین کو ہر زمانہ کے شریروں اور بےعقلوں نے یاد کیا لیکن جس طرح تاریخ نے ان مصلحین کے اعلی کارناموں پر بقاء و دوام کی مہر ثبت کردی اور ان مجنون کہنے والوں کا نام ونشان باقی نہ چھوڑا قریب ہے کہ قلم اور اسکے ذریعہ لکھی ہوئی تحریریں آپ ﷺ کے ذریعہ لکھی ہوئی تحریریں آپ ﷺ کے ذکر خیر اور آپ کے بےمثال کارناموں اور علوم ومعارف کو، ہمیشہ کے لئے روشن رکھیں گے اور آپ کو دیوانہ بتلانے والوں کو وجود صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹ جائے گا ایک وقت آئے گا جب ساری دنیا آپ کی حکمت و دانائی کی داد دے گی اور آپ کے کامل ترین انسان ہونے کو بطور ایک اجتماعی عقیدہ کے تسلیم کرلے گی ، بھلا خداوند قدوس جس کی فضیلت و برتری کو ازل الآزال میں اپنے قلم نور سے لوح محفوظ کی تختی پر نقش کرچکا کسی کی طاقت ہے کہ محض مجنون ومفتون کی پھبتیاں کس کر اس کے ایک شوشہ کو مٹا سکے جو ایسا خیال رکھتا ہو وہ پرلے درجے کے مجنون یا جاہل ہے۔ حاشیہ (فوائدعثمانی (رح)) حضور اکرم ﷺ کی یہ شان علم و حکمت اور محاسن اخلاق کا سرچشمہ ہونے کے بیان کے لئے (آیت) ” لعلی خلق عظیم “۔ لفظ علی کے ساتھ اختیار فرمایا گیا عربی زبان میں لفظ علی استعلاء اور غلبہ کے بیان کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو اشارہ فرمایا گیا کہ آپ ﷺ صرف یہی نہیں کہ صاحب خلق عظیم ہوں بلکہ آپ ﷺ تو ان اخلاق حمیدہ پر ماوی اور غالب ہیں اور عظیم کے لفظ نے اور بھی وسعت پیدا کردی۔ اہل مکہ یا ولید بن مغیرہ جیسے بدبختوں کی اس بےہودہ بات ” کہ آپ ﷺ مجنون ہیں “ رد کرنے کے لیے یہاں حق تعالیٰ شانہ نے تین باتیں ذکر فرمائیں یا یہ کہ تین طرح اس کی تردید کی ایک تو یہ فرمایا (آیت) ” ما انت بنعمۃ ربک بمجنون “ ، جس میں اشارہ ہوا کہ جس ہستی پر خدا کی نعمت بےپایاں ہو وہ کیسے دیوانہ ومجنون ہوسکتا ہے دوسری بات یہ فرمائی (آیت) ” وان لک لاجرا “۔ یعنی دیوانگی تو درکنار آپ کو مقام عظمت تو یہ ہے کہ آپ کا اجروثواب کبھی منقطع ہی نہیں ہوسکتا کیونکہ آپ کے علوم ومعارف اور ہدایات سے تو دنیا قیامت تک مستفید ہوتی رہے گی تو جو ہستی اس مقام و مرتبہ کی ہو کہ اس کی ہدایات وعلوم سے دنیا قیامت تک مستفید ہو اور اس طرح اس کا اجر کبھی بھی منقطع نہ ہوسکتا ہو تو بھلا کیا کوئی عقل والا انسان ایسے کو مجنون و دیوانہ کہہ سکتا ہے پھر تیسری بات یہ فرمائی کہ (آیت) ” انک لعلی خلق عظیم “۔ تو خلق عظیم سے متصف ہونا تو کمال عقل و دانائی ہے تو پھر کون وہ پاگل ہے جو ایسی ہستی کو مجنون و دیوانہ کہہ رہا ہے یا یہ کہہ لیجئے کہ کفار مکہ کے بےہودہ اور نہایت ہی بھونڈی بات کی تردید مسلسل اور پے درپے تین دلیلوں اور اس کے برعکس تین عظیم کمالات (جو علم و حکمت اور عقل و دانائی کا پیکر ہیں) کے بیان سے کی گئی۔ فائدہ : حضرات مفسرین اگرچہ ان آیات کو ولید بن مغیرہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں لیکن قرآن کریم کے مضامین خواہ وہ کسی بھی جزوی واقعہ یا شخصی مسئلہ کے لئے نازل ہوں مگر ان کا مفہوم ایک قانون کلی اور عمومی مفہوم کے درجہ میں ہوتا ہے کہ جو بھی ان احوال سے متصف ہو یہ آیات اسی پر منطبق ہیں۔
Top