بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - Al-Haaqqa : 1
اَلْحَآقَّةُۙ
اَلْحَآقَّةُ : سچ مچ ہونیوالی (قیامت)
سچ مچ ہونیوالی
ذکر احوال قیامت وبیان انجام مکذبین ومنکرین : قال اللہ تعالیٰ : (آیت) ” الحآقۃ ماالحآقۃ ............. الی ........... الا الخاطؤن “۔ (ربط) گذشتہ سورت کا موضوع بیان آنحضرت ﷺ کی رسالت کی عظمت وحقانیت کو ثابت کرتے ہوئے غرور وتکبر اور نافرمانی کی وہ کس طرح ہلاک وتباہ ہوئے۔ ارشاد فرمایا وہ چمٹ جانے والی چیز کیا ہے وہ چمٹ جانے والی چیز اور اے مخاطب تو نے کیا سوچا کیا ہے وہ مسلط وہ جانے والی ؟ کسی کی سوچ اور فکر نہیں اندازہ کرسکتی کہ وہ مسلط ہوجانے والی چیز یعنی قیامت کی گھڑی جس کا وقوع علم الہی ازلی سے طے ہوچکا اس قدر ہیبت ناک اور عظیم ہے اور وہ بیشک واقع ہو کر رہنے والی ہے اور جب واقع ہوگی تو کوئی اس کو ٹلا نہیں سکتا اس وقت حق و باطل بالکل جدا جدا نظر آئیں گے اور ہر اشتباہ اور شک وشبہ دور ہوجائے گا اور ہر حق ایسا ثابت وراسخ ہوجائے گا کہ اس میں خصومت وجھگڑا کرنے والے مقہور ومغلوب ہوجائیں گے۔ حاشیہ (ان الفاظ میں لفظ الحاقہ کے لغوی معانی کے تنوع اور کثرت کے پیش نظر وہ متعدد معانی ظاہر کردیتے گئے ہیں جو اس مقام پر مفہوم ہوسکتے ہیں۔ 12۔ ) ظاہر ہے کہ ایسی برحق اور ثابت حقیقت کو ماننا چاہئے اس سے انکار اور اس میں کسی قسم کا بھی شک وشبہ نہ کرنا چاہئے اور اس بات کو فراموش نہ کرنا چاہئے اس انکار وتکذیب کا انجام کوئی اچھا نہیں چناچہ جھٹلایا ثمود اور عاد نے اس کھڑکھڑانے اور کوٹ ڈالنے والی چیز کا تو پھر اسے سننے والو ! سنو اس کا انجام کیا ہوا بہرحال ثمود تو ہلاک کردیئے گئے ایک اچھال کر رکھ دینے والی ہلاکت سے اور وہ جو عاد کے لوگ تھے سو وہ ہلاک کئے گئے ایک تیز وتند آندھی سے جو ہاتھوں سے نکل جان والی تھی جو اس قدر شدید اور سخت تیز وتند تھی کہ کسی مخلوق کا اس پر قابو نہ تھا حتی کہ جو فرشتے ہوا کے نظام پر مسلط تھے اور ہواؤں کو قابو میں رکھنے پر مامور تھے گویا انکے ہاتھوں سے بھی نکلی جارہی تھی، جس کو مقرر اور مسلط تھے اور ہواؤں کو قابو میں رکھنے پر مامور تھے گویا انکے ہاتھوں سے بھی نکلی جارہی تھی، جس کو مقرر اور مسلط کردیا تھا ان پر سات راتوں اور آٹھ دن تک لگا تار جس پر تباہی اور بربادی کا یہ عالم تھا کہ اے مخاطب اگر تو اس منظر کو دیکھے تو دیکھے گا قوم کو اس حال میں پچھڑے پڑے ہیں گویا وہ کھجور کے کھوکھلے تنے ہیں جو اکھاڑ کر پھینک دیئے گئے جب کہ یہ قوم اپنی توانائی اور ڈیل ڈول میں تنومند ہونے کی وجہ بڑے ہی غرور اور نخوت سے کہا کرتے تھے (آیت) ” من اشد منا قوۃ “۔ کہ ہم سے زیادہ کون ہے طاقت ورجو اپنی تمام قوتوں کے باوجود اس طرح ہلاک کردیئے گئے کہ ان کا نام ونشان بھی باقی نہ رہا تو اے مخاطب بتا ؟ کیا تو دیکھ رہا ہے ان میں سے کوئی بچا ہوا نشان۔ اور فرعون آیا اور اس سے پہلے والے بھی اور وہ الٹی ہوئی بستیوں والے بھی خطا ونافرمانی کے ساتھ پھر انہوں نے جب اپنے رب کے رسول کی نافرمانی کی تو پکڑ لیا ان کو ان کے رب نے بڑی ہی سخت پکڑے جس نے ان کو ریزہ ریزہ کرڈالا اور دنیا کی کوئی طاقت اور انکے پہاڑوں کے تراشے ہوئے محفوظ قلعے بھی انکو خدا کی گرفت سے نہ بچا سکے یعنی عاد وثمود کے بعد فرعون نے خوب سرکشی کی اور بڑھ چڑھ کر باتیں کرتا رہا تو وہ اور اسی طرح قوم شعیب اور قوم لوط تباہ کردی گئی اور قوم لوط کی بستیاں الٹ دی گئیں کیونکہ ان سب قوموں نے اپنے اپنے پیغمبروں کی نافرمانی کی تھی اور خدا کے ساتھ مقابلہ کیا تو سب ہی کو خدا نے اپنی سخت پکڑ سے پکڑا اور ہلاک کرڈالا اور قوم نوح کو بھی ایسے طوفان سے تباہ کرڈالا کہ ظاہر اسباب میں کسی کے بھی بچ جانے کا امکان نہ تھا حتی کہ وہ نافرمان بیٹا جو یہ کہنے لگا کہ (آیت) ” ساوی الی جبل یعصمنی من المآء “۔ کہ میں پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر پناہ لے لوں گا مجھے سفینہ نوح (علیہ السلام) میں پناہ لینے کی ضرورت نہیں وہ بھی ہلاک ہوا اور کسی کو بھی اس طوفان نے باقی نہ چھوڑا خواہ وہ پہاڑوں کی بلند چوٹیوں پر چڑھ گیا ہو۔ تو بیشک ہم نے ایسے طوفان کے وقت جب کہ پانی ابل رہا تھا کہ زمین کے چشمے پھوٹ پڑے تھے اور آسمان کے دروازے کھلے ہوئے تھے تو اے باقی رہنے والے انسانو ! ہم نے ایک چلنے والی کشتی میں تم کو سوار کرلیا جو ان طوفانی تھپیڑوں میں تمہیں لئے جارہی تھی تاکہ بنا دیں ہم اسکو تمہارے واسطے یاد گار اور عبرت کانمونہ اور محفوظ رکھیں اس کو وہ کان جو واقعات کو سننے اور محفوظ رکھنے والے ہیں تو یہ واقعہ خداوندعالم کی قدرت اور حکمت کا کیسا عظیم نمونہ ہوا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان پر ایمان لانے والوں کو اس طوفان سے بچا لیا اور نافرمان قوم کو غرق کرڈالا تاکہ رہتی دنیا تک یہ عبرت ناک نمونہ قائم رہے اور لوگ اس واقعہ سے خدا کے احسان وکرم کو بھی سمجھیں اور نافرمان ومجرموں کے واسطے اس کے قہر و عذاب کو بھی جان لیں تو دنیا میں پیش آنے والے یہ واقعات اور ہلاکت وتباہی کے نمونے ہر انسان کو اس پر متوجہ کرتے ہیں کہ وہ قیامت کی شدت اور اس پر عالم کی تباہی وہلاکت کا بھی تصور کرے اور اس پر ایمان بھی لائے چناچہ جب صور پھونکا جائے گا ایک بار پھونکا جانا اور اٹھالی جائے گی زمین اور پہاڑ پھر کوٹ دیا جائے گا انکو ایک ہی دفعہ اور زمین باوجود اپنی قوت ومضبوطی اور پہاڑ باوجود اپنی عظمت و پختگی کے ریزہ ریزہ کردیئے جائیں گے تو بس اسی دن واقع ہوجائے گی وہ واقع ہونے والی گھڑی جو روز قیامت ہے اور پھٹ جائے گا آسمان پھر وہ اس دن بکھر رہا ہوگا نہایت ہی ہلکی بکھرنے والی چیز کی طرح اور روئی کے گالوں کی طرح اڑتا ہوگا، اور جس وقت کہ آسمان درمیان سے پھٹنا شروع ہوگا تو فرشتے ہوں گے ، اس کے کناروں پر اور اٹھاتے ہوئے ہوں گے، اے مخاطب تیرے رب کا عرش اس دن اپنے اوپر آٹھ فرشتے، عرش عظیم کی یہ عظمت وشان ہوگی، جس کو ایسے آٹھ فرشتے اٹھائے ہوں گے جو پہاڑوں کو اٹھائے رکھتے ہیں ہواؤں کو قابو کرتے ہیں سمندروں اور سمندر کے طوفانی تھپیڑوں کو روکتے ہیں وہ آٹھ فرشتے عرش الہی اٹھائے ہوئے ہوں گے تو ایسے دن اے انسانو ! تم پیش کئے جاؤ گے اپنے رب کے سامنے حال یہ ہوگا کہ کوئی چھپی چیز چھپی نہ رہے گی، اس پروردگار علیم وخبیر سے پھر ایسی صورت میں رب العالمین اپنے عرش پر جلوہ افروز ہوگا اور میدان حشر میں اولین وآخرین جمع ہوں گے اور اس علیم وخبیر اور قادر مطلق کی عدالت میں پیشی ہورہی ہوگی اور میزان عدل و انصاف قائم کرنے والے رب کی عدالت میں لوگوں کے نامہ اعمال پیش ہورہے ہوں گے تو جس کا نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دی دیا جائے گا جو اس کی کامیابی اور نجات کی علامت ہوگی تو وہ فرط مسرت اور کمال خوشی سے کہتا ہوگا اے لوگو ! آجاؤ میرا نامہ اعمال یعنی نتیجہ کامیابی پڑھ لو میرے رب نے مجھ پر کیسا عظیم انعام و احسان فرما دیا میں تو پہلے ہی سے گمان کرتا تھا کہ میں اپنے حساب کے وقت پر پہنچنے والا ہوں اور میرے اعمال کا حساب ہوگا اور خدا کی رحمت پر مجھے بھروسہ تھا کہ وہ مجھے اپنے فضل وکرم سے نوازے گا مجھے حیات جاودانی اور ابدی نعمتیں ملیں گی اور جب مجھے یہ خیال تھا تو میں اپنے نفس کا محاسبہ کرتا رہا اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ میں خدا کا یہ انعام واکرام دیکھ رہا ہوں اور اسی کے فضل وکرم سے میرا حساب پاک وصاف ہے تو وہ نہایت ہی خوشی اور عیش و عشرت والی زندگی میں ہوگا اور من مانی ہر نعمت و راحت اس کو ملتی ہوگی نہایت بلند وعظیم المرتبہ باغ میں ہوگا جس کے خوشے اور میوے اس پر جھکے ہوئے ہوں گے اس حالت میں اہل جنت کو کہا جارہا ہوگا کھاؤ پیو خوب رج کر جتنا چاہو خوشگواری کے ساتھ ان اعمال صالحہ کی وجہ سے جو تم کرتے تھے گزر ہوئے دنوں اور دنیوی زندگی میں تم نے اللہ کی خوشنودی کے لیے نفس کی خواہشات کو روکا بھوک وپیاس کی تکلیف برداشت کی صبر و قناعت کو اختیار کیا تو یہ اسی کا بدلہ ہے کہ بےروک ٹوک اللہ نے تم پر یہ ساری نعمتیں پھیلا دی ہیں۔ یہ تو حال ہے ان لوگوں کا جن کو دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال ملے گا اور جن کو نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ بڑی حسرت اور پشیمانی کے عالم میں کہے گا کیا ہی اچھا ہوتا کہ مجھ کو میرا نوشتہ اعمال ہی نہ ملتا اور میں نہ ہی جانتا کہ میرا حساب کیا ہے اے کاش وہی موت میرا کام تمام کردینے والی ہوتی اور میرا نام ونشان ہی مٹ جاتا اور یہ عذاب وہلاکت کی نوبت دیکھنی نہ پڑتی افسوس میرا مال بھی میرے کچھ کام نہ آیا جس پر مجھے بڑا ہی بھروسہ اور گھمنڈ تھا اور میں سمجھتا تھا کہ خواہ کوئی بھی مصیبت سامنے آئے میں اپنی دولت کے ذریعہ اس سے بچ جاؤں گا مجھے اپنی قوت پر زعم تھا افسوس کہ میری قوت و حکومت بھی برباد ہوئی اب نہ میری دولت کام آرہی ہے اور نہ قوت و حکومت اور نہ حجت بازی جو دنیا میں کیا کرتا تھا اسی پشیمانی اور حسرت کے عالم میں ہوگا کہ ہر ایسے مجرم کے لیے فرمان خداوندی جاری ہوگا پکڑو اس کو پھر طوق ڈال دو اس کی گردن میں پھر گھسیٹواسکو آگ میں جو جہنم میں دہک رہی ہو پھر ایک زنجیر میں کہ جس کا طول ستر گز۔ حاشیہ۔ (گز سے عالم آخرت کا گز یا ہاتھ مراد ہے جس کی حد اور مقدار کا اندازہ عالم دنیا میں نہیں کیا جاسکتا واللہ اعلم بالصواب 12) یا ستر ہاتھ ہو اسکو جکڑ دو تاکہ جلنے کی حالت میں ذرا بھی حرکت نہ کرسکے کیونکہ آگ میں جلنے والا انسان کبھی ادھر ادھر حرکت کرکے آگ کی سوزش سے بچنے یا اسکو کم کرنے کی کوشش کیا کرتا ہے تو اس کی بھی کوئی گنجائش نہ رہے یہ سب کچھ اس لئے ہوگا کہ یہ شخص دنیا میں رہتے ہوئے ایمان نہیں رکھتا تھا خدائے برتر پر جب نہ خدا پر ایمان ویقین تھا تو خدا کے احکامات سے بھی نافرمانی کرتا تھا نہ خدا تعالیٰ کے حق ادا کرتا تھا اور نہ ہی بندوں کے حقوق پہچانتا تھا چناچہ نہ ترغیب دیتا تھا محتاج ومسکین کے کھانے پر خود تو کیا کھلاتا اور مدد کرتا زبان سے بھی کسی دوسرے کو اس پر آمادہ کرنے اور ترغیب دلانے کی توفیق نہ ہوتی تھی سو ایسے نافرمان کے لیے آج یہاں نہ کوئی دوست ہے اور نہ اسکے واسطے کوئی چیز کھانے کی ہے بجز زخموں کے دھو ون کے اور ان میں سے بہتے ہوئے راد پیپ کے جس کو کوئی نہیں کھا سکتا بجز ان خطاکاروں اور مجرموں کے اور وہ بھی بھوک اور پیاس کی شدت میں مجبور ہو کر یا اس دھوکہ میں کہ شاید یہ بھی کوئی کھانے اور پینے کی چیز ہے۔ اعاذنا اللہ ربنا من سائر انواع العذاب فی الدنیا والاخرۃ۔ فرشتوں کا عرش الہی اٹھانا : اس آیت مبارکہ میں عرش الہی کو اٹھانے والے آٹھ فرشتوں کا بیان ہے۔ تفسیر قرطبی اور تفسیر البحر المحیط میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ یہ فرشتوں کی آٹھ صفیں ہوں گی جن کی تعداد اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں بعض روایات میں حاملین عرش کے بیان میں چار کا عدد کیا ہے، تفسیر مظہری میں بیان کیا کہ روز محشر سے قبل حاملین عرش چار فرشتے ہوں گے مگر نفخ صور اور محشر کے وقت اس کی عظمت کی وجہ سے ان پہلے حاملین کو مزید چار حاملین کے ذریعہ قوی کردیا جائے گا تاکہ عرش الہی کو سنبھال سکیں، بظاہر اس وجہ سے اس وقت حق تعالیٰ شانہ کے جلال وہیبت سے عرش الہی زیادہ وزنی اور اس کا اٹھانا گراں ہوگا۔ اس آیت مبارکہ جس میں عرش الہی کے اٹھانے کا ذکر ہے اسی طرح ایسے مضمون کی دیگر آیات کی فلاسفہ، معتزلہ اور صوفیہ حقیقت پر محمول کرنے کے بجائے تاویل کرتے ہیں چناچہ معتزلہ کہتے ہیں کہ عرش وکرسی کے معنی بطور مجاز واستعارہ تسلط اور غلبہ کے ہیں اور خداوند عالم کی شان حاکمیت کو بیان کرنا ہے اور فرشتوں کے اٹھانے سے مراد انکے ذریعہ اسکا ظہور ہے قاضی بیضاوی (رح) جیسا کہ بعض مواقع پر فلاسفہ اور معتزلہ کی رائے اور خیال سے متاثر ہوئے ہیں یہاں بھی انہوں نے کچھ اسی طرح فرمایا کہ یہ تمثیل ہے کیونکہ خدا تعالیٰ تو نہ جسم ہے اور نہ اجسام و حوادث کی صفات واحوال میں سے کسی چیز سے متصف ہوسکتا ہے اور نہ وہ مخلوق کی طرح کسی مکان اور جہت میں سمانے والا ہے کہ کسی تخت پر بیٹھا ہو اور اس تخت کو حقیقی طور پر کوئی اٹھائے ہوئے ہو یہ چیزیں تو مخلوق اور حادث کی صفات میں سے ہیں اس بناء پر محض تمثیل کے طور پر اسکے غلبہ اور شان حکمرانی اور عدل و انصاف اور مخلوقات کے فیصلوں کے نفاذ کو اس تعبیر سے بیان فرمایا گیا۔ اسی طرح حضرات صوفیاء بھی تاویل کا طریقہ اختیار کرتے ہیں بعض کہتے ہیں عرش مجید حق تعالیٰ شانہ کی صورت جہانداری اور بادشاہت ہے اور قیامت میں یہ بصورت عرش یعنی تخت شاہی ظاہر ہوگی اور اس کی جہانداری اور شان حاکمیت دنیا میں چار صفات کے ساتھ قائم ہے کہ موجودات کا کوئی ذرہ بھی اس سے خالی نہیں اور وہ سب کو محیط ہے وہ چار صفات یہ ہیں اول (1) علم، دوم (2) قدرت (3) سوم ارادہ، (4) چہارم، حکمت آخرت میں یہ چار صفات مزید چار صفات کے ساتھ جمع ہو کر آٹھ ہوجائیں گی۔ تاکہ دنیا وآخرت دونوں جہانوں کی جہانداری اور حاکمیت میں امتیازہوجائے وہ چار صفات جو آخرت میں زائد ہوں گی ان میں (1) اول انکشاف تام کہ اس عالم میں کوئی چیز بھی مخفی، مبہم، پوشیدہ اور ملتبس نہ رہے گی بلکہ ہر چیز کی اصل حقیقت ظاہر ہوجائے گی تاکہ کسی قسم کا دھوکہ شبہ اور مغالطہ باقی نہ رہے ایس وجہ سے اس عالم میں جاہل وعالم اور کافر و مومن سب پر حقائق خفیہ برابر ظاہر ہوجائیں گے، ہر ایک کو ہر بات کی حقیقت کا انکشاف ہوجائے گا اور معرفت تامہ حاصل ہوجائے گی جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے (آیت) ” یوم تبلی السرآ ئر۔ اسمع بھم وابصر یوم یاتوننا “۔ کہ کس قدر سننے اور دیکھنے والے ہوں گے جس دن کہ وہ ہمارے سامنے آئیں گے اور فرمان خداوندی (آیت) ” فکشفنا عنک غطآءک فبصرک الیوم حدید “۔ اے انسان آج ہم نے تیری آنکھ کا پردہ ہٹا دیا ہے تو آج کے دن تیری نگاہ بڑی ہی تیز ہے الغرض پہلی صفت انکشاف تام کی ہوگی، (2) دوسری صفت کمال بلوغ کہ ہر چیز مرتبہ نقصان سے اپنے حد کمال کو پہنچ جائے گی، استعداد و قابلیت علم وفہم احساس و شعور حتی کہ جو لوگ دنیا میں بےفوقوف وکم عقل ہوں گے وہ نہایت ہی فہیم وذ کی اور کامل العقل ہوں گے اور جو لوگ ضعیف وناقص حتی کہ لنگڑے ٹولے ہوں گے وہ توانا وتندرست اور صحیح وسالم اٹھیں گے یہی حال قوائے باطنیہ کا بھی ہوگا یہی وجہ ہے کہ دار آخرت میں ہر چیز کے لیے خلود وبقاء ہوگا، کیونکہ فناء وصف ایمان ہے اس کو اس عالم میں وصف کمال سے بدل کر دوام اور خلود عطا کردیا جائے گا جیسے کہ آیت مبارکہ (آیت) ” وان الدار الاخرۃ لھی الحیوان لوکانوا یعلمون “۔ (3) تیسری صفت تقدیس کہ کسی شے میں کسی قسم کی کدورت وملاوٹ باقی نہ رہے گی ہر چیز خالص ہوگی اگر نعمت و راحت ہے تو اس میں نقمت وکلفت کی قطعا آمیزش نہ ہوگی اور عذاب وکلفت ہے تو اس میں ادنی سکون و آرام یا خفت کا امکان نہ ہوگا کیونکہ عالم دنیا میں تو حقائق پر مجاز کے پردے اور چھلکے چڑھے ہوتے ہوسکتے ہیں جو آخرت میں سب کے سب اتر کر اصل حقائق واضح اور نمایاں ہوں گے اور غلاف وچھلکوں سے اصل جو ہر و مغز نکل کر صاف نظر آتا ہوگا۔ (4) چوتھی صفت عدل اور ابقاء حق کہ پورا پورا انصاف ہوگا اور ہر ایک کو عدل و انصاف کے پیمانے سے تول کر اس کا حق ادا ہوتا ہوگا خواہ نیکی ہو یا بدی خیر ہو یا شر ایمان ہو یا کفر عمل صالح ہو یا معصیت غرض ہر چیز کا پورا پورا بدلہ ملے گا۔ تو حق تعالیٰ کی شان حاکمیت اور جہانداری کی ان صفات کے ساتھ جو پہلے سے تھیں یہ مزید چار صفات مل جائیں گی تو ظاہر ہے کہ عرش الہی کی عظمت اور اس کا ثقل بھی زائد ہوجائے گا تو جو عرش جہانداری دنیا میں چار فرشتوں پر تھا وہ آخرت میں آٹھ فرشتوں پر ہوجائے گا اس طرح چار صفات الہیہ کے ساتھ آخرت میں مزید چار صفات کا ظہور آٹھ فرشتوں کا عرش الہی کو اٹھانا ہوا۔ بہرکیف صوفیاء اور فلاسفہ نے اس طرح کی تاویلات بیان کی ہیں مگر اکثر ائمہ متکلمین اور اہل سنت کا موقف اس قسم کی آیات میں یہی ہے کہ حقیقت پر محمول کرتے ہوئے اور اس کی کیفیات اور جملہ احوال کو خداوندعالم کے علم کے حوالہ کردینا جیسے کہ امام مالک (رح) نے فرمایا ”۔ الاستواء معلوم والکیف مجھول والایمان بہ لازم والسوال عنہ بدعۃ “۔ کہ خدا کا عرش پر مستوی ہونا معلوم ہے جیسے کہ نص قرآنی نے بتاد یا مگر کیفیت مجہول اور غیر معلوم ہے اور اس پر ایمان لانا لازم ہے اور سوال وتحقیق کہ کیسے اور کس طرح عرش پر متمکن ہے بدعت ہے کیونکہ نہ رسول کریم ﷺ نے بیان فرمایا اور نہ ہی صحابہ کرام کرام ؓ نے کبھی اس کی تحقیق کی گویا انکا یہی رنگ رہا جو حق تعالیٰ نے اس طرح کے متشابہات میں فرمایا (آیت) ” والراسخون فی العلم یقولون امنا بہ کل من عند ربنا “۔ اکنون کر ادماغ کہ پر سدز باغبان بلبل چہ گفت صباچہ کردوگل چہ شنید : واللہ اعلم بالصواب ولا یعلم تاویلہ الا اللہ وامنا بما امرنا اللہ فیارب اکتبنا مع الشھدین امین یا رب العلمین ھذا ما فھمت من تفسیر الکبیر والبحر المحیط و تفسیر العلامہ الوسی و تفسیر العزیزی و تفسیر الحقانی والکلمات التی سمتعھا من شیخی واستاذی شیخ الاسلام العلامہ شبیراحمد عثمانی وما ضبطت وحفظت من کلمات حضرت الوالد الشیخ محمد ادریس الکاندھلوی متعنا اللہ تعالیٰ من فیوضھم وبرکاتھم امین یا رب العالمین۔
Top