Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 155
وَ اخْتَارَ مُوْسٰى قَوْمَهٗ سَبْعِیْنَ رَجُلًا لِّمِیْقَاتِنَا١ۚ فَلَمَّاۤ اَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ قَالَ رَبِّ لَوْ شِئْتَ اَهْلَكْتَهُمْ مِّنْ قَبْلُ وَ اِیَّایَ١ؕ اَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَهَآءُ مِنَّا١ۚ اِنْ هِیَ اِلَّا فِتْنَتُكَ١ؕ تُضِلُّ بِهَا مَنْ تَشَآءُ وَ تَهْدِیْ مَنْ تَشَآءُ١ؕ اَنْتَ وَلِیُّنَا فَاغْفِرْ لَنَا وَ ارْحَمْنَا وَ اَنْتَ خَیْرُ الْغٰفِرِیْنَ
وَاخْتَارَ : اور چن لئے مُوْسٰي : موسیٰ قَوْمَهٗ : اپنی قوم سَبْعِيْنَ : ستر رَجُلًا : مرد لِّمِيْقَاتِنَا : ہمارے وعدہ کے وقت کے لیے فَلَمَّآ : پھر جب اَخَذَتْهُمُ : انہیں پکڑا ( آلیا) الرَّجْفَةُ : زلزلہ قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب لَوْ شِئْتَ : اگر تو چاہتا اَهْلَكْتَهُمْ : انہیں ہلاک کردیتا مِّنْ قَبْلُ : اس سے پہلے وَاِيَّايَ : اور مجھے اَتُهْلِكُنَا : کیا تو ہمیں ہلاک کریگا بِمَا : اس پر جو فَعَلَ : کیا السُّفَهَآءُ : بیوقوف (جمع) مِنَّا : ہم میں سے اِنْ هِىَ : یہ نہیں اِلَّا : مگر فِتْنَتُكَ : تیری آزمائش تُضِلُّ : تو گمراہ کرے بِهَا : اس سے مَنْ : جس تَشَآءُ : تو چاہے وَتَهْدِيْ : اور تو ہدایت دے مَنْ : جو۔ جس تَشَآءُ : تو چاہے اَنْتَ : تو وَلِيُّنَا : ہمارا کارساز فَاغْفِرْ : سو ہمیں بخشدے لَنَا : اور تو وَارْحَمْنَا : ہم پر رحم فرما وَاَنْتَ : اور تو خَيْرُ : بہترین الْغٰفِرِيْنَ : بخشنے والا
اور موسیٰ نے (اس میعاد پر جو ہم نے مقرر کی تھی) اپنی قوم کے ستر آدمی منتخب (کر کے کوہ طور پر حاضر) کئے جب ان کو زلزلے نے پکڑا تو (موسی نے) کہا کہ اے پروردگار ! اگر تو چاہتا تو ان کو اور مجھ کو پہلے ہی سے ہلاک کردیتا۔ کیا تو اس فعل کی سزا میں جو ہم میں سے بےعقل لوگوں نے کیا ہے ہمیں ہلاک کر دے گا ؟ یہ تو تیری آزمائش ہے۔ اس سے تو جس کو چاہے گمراہ کرے اور جسے چاہے ہدایت بخشے۔ تو ہی ہمارا کار ساز ہے۔ تو ہمیں (ہمارے گناہ) بخش دے اور ہم پر رحم فرما اور تو سب سے بہتر بخشنے والا ہے۔
ذکر میقات توبہ و معذرت از عبادت عجل قال اللہ تعالیٰ واختار موسیٰ قومہ سبعین رجلا۔۔۔ الی۔۔۔ اولئک ھم المفلحون (ربط) گزشتہ رکوع میں میقات مناجاۃ وتکلیم کا ذکر کیا اور اس کے بع گوسالہ پرستی کا قصہ ذکر کیا اب ان آیات میں میقات توبہ و معذرت کا ذکر ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے ستر آدمیوں کو منتخب کیا کہ وہ کوہ طور پر حاضر ہوں اور عبادت عجل سے معذرت کریں جب یہ لوگ کوہ طور پر پہنچے تو ایک ابر نمودار ہوا جس نے سارے پہاڑ کو ڈھانپ لیا۔ سب سے پہلے اس ابر میں موسیٰ (علیہ السلام) داخل ہوئے اور قوم سے کہا کہ تم قریب آجاؤ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کلام کیا جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کے کلام اور پیغام سے ان کو خبردار کیا تو یہ کہنے لگے کہ اے موسیٰ ہم کو تو یقین نہیں آتا کہ واقع میں خدا تم سے باتیں کررہا ہے۔ اس کہنے پر ان پر ایک بجلی گری جس سے سب مر کر رہ گئے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے جب یہ دیکھا کہ یہ سب عذاب الٰہی میں پکڑے گئے تو نہایت عاجزی سے ان کی رہائی کی درخواست کی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کو دوبارہ زندگی عطاء فرمائی۔ (تفسیر کبیر) خلاصۂ کلام یہ کہ یہ میقات اس میقات کے علاوہ ہے جو من جانب اللہ عطاء توریت کے لیے مقرر ہوا تھا۔ اور آیت حاضرہ کی ترتیب سے بظاہر یہی مفہوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ گو سالہ پرستی کے بعد پیش آیا اور یہ میقات گوسالہ پرستی سے معذرت کے لیے مقرر ہوا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اولا میقات کلام کا ذکر فرمایا پھر اس کے بعد قصہ اتخاذ عجل ذکر کیا اور پھر گوسالہ پرستی کے واقعہ کے بعد یہ قصہ ذکر کیا معلوم ہوا کہ یہ قصہ گزشتہ قصہ کے مغائر ہے اور اسی ترتیب کے ساتھ یہ قصہ اور سورتوں میں بھی مذکور ہوا ہے اور اکثر وبیشتر۔ ترتیب ذکری و بیانی میں باعتبار وقوع کے ترتیب زمانی بھی ملحوظ ہوتی ہے۔ اور چونکہ یہ میقات عبادت عجل سے معذرت کے لیے مقرر ہوا اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس میقات کو میقات التوبہ والمعذرۃ کے نام سے موسوم کیا جائے اور پہلے میقات کو میقات کلام ومناجاۃ سے تعبیر کیا جائے۔ تاکہ فرق واضح ہوجائے۔ اور بعض علماء اس طرف گئے ہیں کہ یہ واقعہ بھی میقات اول ہی کا ہے اور اسی کا بقیہ اور تتمہ ہے اور یہ قصہ اسی وقت کا ہے جبکہ موسیٰ (علیہ السلام) توریت لینے کے لیے گئے تھے تو اسی وقت ستر لوگوں کو اس لیے اپنے ہمراہ لے گئے تھے کہ یہ بھی خدا کا کلام سنیں اور واپس آکر بنی اسرائیل کے سامنے شہادت دیں مگر جب ان لوگوں نے وہاں جا کر یہ گستاخی کی کہ لن نؤمن لک حتی نری اللہ جہرۃ کہا تو منجانب اللہ ان کو ایک صاعقہ نے پکر لیا بعد میں موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے معافی ہوئی اور سورة نساء کی یہ آیت فقالو ارنا اللہ جھرۃ فاخذتھم الصعقۃ بظلمھم ثم اتخذوا العجل من بعد ما جاءتھم البینت۔ صراحۃ اس پر دلالت کرتی ہے کہ گوسالہ پرستی اس واقعہ کے بعد ہوئی۔ امام رازی اور دیگر محققین کی رائے یہ ہے کہ یہ میقات۔ گزشتہ میقات کے علاوہ اور مغائر ہے۔ تفصیل کے لیے تفسیر کبیر دیکھیں اور شیخ الاسلام ابو السعود (رح) تعالیٰ نے بھی اسی قول کو اختیار کیا ہے۔ اور جو لوگ امام رازی (رح) تعالیٰ کی طرح اس واقعہ کو گوسالہ پرستی کے بعد بتلاتے ہیں وہ آیت نساء کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں یعنی ثم اتخذوا العجل میں ثم ترتیب زمانی کے لیے نہیں بلکہ ترتیب رتبی یعنی ادنی سے اعلی کی طرف ترقی کے لیے کہ بےمحابا اللہ کی رویت کی درخواست اگرچہ ظلم عظیم ہے ہے لیکن فی حد ذاتہ دیدار خداوندی ممکن ہے محال نہیں مگر اتخاذ عجل تو اس درجہ قبیح اور شنیع ہے کہ جس کی کوئی حد اور انتہاء نہیں۔ اس لیے کہ شریک باری تو عقلاً ونقلاً محال اور ممتنع بالذات ہے چناچہ فرماتے ہیں اور موسیٰ (علیہ السلام) نے ہمارے مقررہ وقت پر لانے کے لیے ستر آدمی منتخب کیے تاکہ کوہ طور پر موسیٰ (علیہ السلام) کے ہمراہ جا کر گو سالہ پرستی سے توبہ کریں اور یہ ستر اشخاص وہ تھے جنہوں نے خود تو گوسالہ پرستی نہیں کی تھی لیکن گو سالہ پرستی پر انکار بھی نہ کیا تھا اور نہ اس سے علیحدگی اختیار کی۔ چناچہ حضرت شاہ والی اللہ قدس اللہ سرہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں یعنی تاعذر گوئند از عبادت گو سالہ ایں جماعت اگرچہ عبادت نکروہ بودند بر عبادت کنندگاں انکار ہم نکردند پس خدا تعالیٰ ہلاک ساخت، واللہ اعلم (کذا فی فتح الرحمن) اور وہب بن منبہ (رح) تعالیٰ سے یہ منقول ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) جب الواح توریت لے کر آئے تو بنی اسرائیل کے ایک گروہ نے یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کوئی کلام نہیں کیا اور نہ ہم کو اس بات کا یقین ہے کہ یہ الواح توریت اللہ تعالیٰ کی عطا فرمودہ ہیں۔ ہم آپ کی بات کا جب یقین کریں گے کہ جب آپ ہمارے بزرگوں کا ایک گروہ اپنے ساتھ لیجائیں اور وہ خود جا کر اللہ کا کلام سن لیں اور واپس آکر گواہی دیں تب ہم یقین کریں گے۔ (دیکھو تفسیر البحر المحیط ص 399 ج 4 لابی حیان (رح) تعالیٰ ) مطلب یہ ہے کہ توریت لانے کے بعد قوم نے مطالبہ کیا کہ اے موسیٰ ہم تمہاری بات کا اس وقت یقین کریں گے جب تم ہمارے منتخب آدمیوں کو لے جا کر اللہ کا کلام سناؤ جب وہ آکر گواہی دیں گے تب ہم آپ کا یقین کریں گے کہ جب آپ ہمارے بزرگوں کا ایک گروہ اپنے ساتھ لیجائیں اور وہ خود جا کر اللہ کا کلام سن لیں اور واپس آکر گواہی دیں تب ہم یقین کریں گے (تفسیر البحر المحیط ص 399 ج 4 لابی حیان (رح) تعالیٰ ) مطلب یہ ہے کہ توریت لانے کے بعد قوم نے مطالبہ کیا کہ اے موسیٰ ہم تمہاری بات کا اس وقت یقین کریں گے جب تم ہمارے منتخب آڈمیوں کو لے جا کر اللہ کا کلام سناؤ جب وہ آکر گواہی دیں گے تب ہم آپ کا یقین کریں گے۔ چناچہ موسیٰ علیہ ان لوگوں کو کوہ طور پر لے گئے وہاں پہنچ کر انہوں نے اللہ کا کلام سنا تو اب اس میں یہ شاخسانہ نکالا کہ معلوم نہیں پس پردہ کون کلام کر رہا ہے ہم تو جب ایمان لائیں گے کہ جب خدا تعالیٰ کو کھلم کھلا اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کما قال تعالیٰ حا کیا عنھم۔ لن نؤمن لک حتی نری اللہ جھرۃ اس پر ایک زلزلہ آیا جس سے سب ہلاک ہوگئے۔ پس جب ان ستر آدمیوں کو زلزلہ نے پکڑ لیا جس سے وہ سب مرگئے۔ موسیٰ (علیہ السلام) یہ دیکھ کر ڈرے کہ بنی اسرائیل مجھ پر تہمت لگائیں گے کہ اس نے لے جا کر مروا دیا تو کہا کہ اے میرے پروردگار آپ چاہتے تو ان کو اور مجھ کو یہاں آنے سے پہلے ہی ہلاک کردیتے اور بنی اسرائیل مجھ کو متہم نہ کرتے کیا تو ہم کو اس کام پر ہلاک کرتا ہے جو ہم میں سے بیوقوفوں نے کیا ہے مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ بیوقوف اور نادان ہیں ان کی خطاء معاف فرمادیجئے۔ نہیں ہے یہ واقعہ مگر آپ کی آزمائش اور امتحان۔ کہ آپ نے ان کو اپنا کلام سنایا جس سے وہ دیدار کی طمع میں پڑے اور دائرہ ادب سے باہر نکل گئے یا یہ مطلب ہے کہ آپ نے اپنی قدرت سے ان کے ایک خود ساختہ بچھڑے میں آواز پیدا کردی جس سے یہ بیوقوف فتنہ میں مبتلا ہوگئے یہ آپ ہی کی طرف سے فتنہ اور امتحان تھا۔ اس قسم کے فتنہ اور امتحان سے آپ جس کو چاہتے ہیں گمراہ کرتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں ہدایت کرتے ہیں آپ کی مشیت اور حکمت کا کسی کو علم نہیں تو تو ہمارا آقا ہے پس تو ہماری خطا کو معاف کر اور ہم پر مہربانی کر اور تو سب معاف کرنے والوں سے بہتر معاف کرنے والا ہے تو بغیر کسی غرض اور نفع کے محض اپنے فضل وکرم سے معاف کرتا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی دوسری دعا واکتب لنا فی ھذہ الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ انا ھدنا الیک یہ موسیٰ (علیہ السلام) کی دوسری دعا کا ذکر ہے پہلی دعا دفع مضرت اور رفع مصیبت کے لیے تھی اور یہ دعا تحصیل منفعت کے لیے ہے جس میں دنیا اور آخرت کی بھلائی کی درخواست ہے اور اے اللہ اس دعا کے ساتھ ایک دعا یہ ہے کہ لکھدے تو ہمارے لیے اس دنیا میں بھلائی اور آخرت میں بھی بھلائی دینا اور آخرت کی بھلائی کی دستاویز اور قبالہ میری امت کے لیے لکھدیجئے۔ مطلب یہ تھا کہ میری امت سب امتوں پر فائق رہے اس لیے کہ ہم تیری طرف رجوع ہوئے ہیں تجھ سے ہر خیر کے امیدوار ہیں۔ جواب خداوندی حق تعالیٰ نے جواب میں فرمایا میرا عذاب ہے اس کو میں جس پر چاہتا ہوں نازل کرتا ہوں کوئی مجھ پر اعتراض نہیں کرسکتا سب میری ملک اور سب میرے غلام ہیں اور مالک کو اپنے ملک پر ہر قسم کے تصرف کا اختیار ہے اور میری رحمت اور مہربانی ہر چیز کو اپنے اندر سمائے ہوئے ہے اللہ کی رحمت دنیا میں مومن اور کافر کو شامل ہے اگر اللہ کی یہ رحمت عامہ نہ ہوتی تو کوئی کافر وفاجر اور کوئی نافرمان زندہ نہ رہتا کما قال تعالیٰ ولو یؤاخذ اللہ الناس بما کسبوا ما ترک علی ظھرہا من دابۃ۔ اللہ کی اس رحمت عامہ سے مومن و کافر سب کو حصہ مل رہا ہے اور اس رحمت عامہ کا دروازہ سب کے لیے کھلا ہوا ہے اور اس رحمت عامہ میں سے آپ کی امت کو بھی حصہ مل چکا ہے یہ رحمت عامہ بلا سوال کے اور بلا استحقاق کے سب کو پہنچ رہی ہے۔ اے بدادۂ رائیگاں صد چشم و گوش : نے زر شوت بخش کردہ عقل وہوش در عدم ما مستحقاں کے بدیم : کہ بدیں جان وو بدیں دانش شدیم ما نبودیم وتقاضا ما ہنود : لطف تو ناگفتہ ما می شنود اور اس رحمت عامہ کے علاوہ خدا تعالیٰ کی ایک رحمت خاصہ بھی ہے جس کا خاصان خاص پر نزول ہوتا ہے اس رحمت خاصہ کے حصول کے لیے تین شرطیں ہیں تقوی اور ایتاء زکوٰۃ اور ایمان بالاآیات یعنی اللہ کے تمام احکام کو ماننا جس میں یہ اوصاف مذکورہ پائے جائیں گے وہ اس رحمت خاصہ کا مستحق ہوگا۔ حاصل کلام یہ کہ اے موسیٰ میری ایک رحمت تو عام ہے جس میں کوئی قید وشرط نہیں اس میں سے آپ کی قوم کو بھی حصہ مل رہا ہے اور میری ایک رحمت خاص ہے جو چند شرطوں کے ساتھ مشروط ہے پس البتہ میں اس رحمت خاصہ کو جو دین اور دنیا دونوں کی بھلائی کو جامع ہو۔ جس کا آپ سوال کر رہے ہیں ان وگوں کے لیے لکھدوں گا جو خدا تعالیٰ سے ڈرتے رہتے ہیں یعنی ان کے قلوب خدا کی عظمت اور جلال سے لبریز ہیں اور (2) زکوٰۃ دیتے رہتے ہیں یعنی ان کے نفوس مال کی محبت سے پاک اور صاف ہوچکے ہیں اور ہماری تمام آیتوں (3) پر یقین رکھتے ہیں ایسا نہ ہو کہ بعض آیتوں کو مانیں اور بعض کو نہ مانیں۔ پس اس رحمت خاصہ اور کاملہ میں سے بنی اسرائیل میں سے اس شخص کو حصہ ملے گا جو متقی اور پرہیزگار ہو اور زکوٰۃ گزار ہو اور ایمان کامل رکھتا ہو یعنی اللہ کے تمام احکام کو مانتا ہو ان لوگوں میں سے نہ ہو جن کے بارے میں افتؤمنون ببعض الکتب وتکفرون ببعض نازل ہوئی رحمت خاصہ کے یہ شرائط تو ان لوگوں کے لیے ہیں جو خاتم الانبیاء کی بعثت سے پہلے ہوں گے اور خاتم الانبیاء کی بعثت کے بعد یہ رحمت خاصہ ان لوگوں کے لیے ہوگی جو توریت اور انجیل کی پیشین گوئیوں کے مطابق اس نبی آخر الزمان پر ایمان لائیں گے۔ اور اس کی مدد کریں گے ان کو اس رحمت خاصہ میں سے حصہ ملے گا (دیکھو البحر المحیط ص 403 ج 4) چناچہ فرماتے ہیں کہ رحمت خاصہ اور کاملہ جس کا آپ نے سوال کیا ہے میں اس رحمت خاصہ کو خاص متقیوں اور مومنوں کے لیے لکھوں گا اور اخیر زمانہ میں اس کا مصداق وہ لوگ ہونگے جو صدق دل سے اس رسول کی پیروی کریں گے جو نبی امی ہے یعنی وہ نبی نہ لکھنا جانتا ہے اور نہ پڑھنا جانتا ہے اور باوجود بےپڑھے لکھے ہونے کے علم و حکمت کے چشمے اس کی زبان سے جاری ہونگے اور یہ اس کی نبوت و رسالت کی دلیل ہوگی حافظ شیرازی نے کیا خوب کہا نگارِ من کہ بہ مکتب نرفت و خط ننوشت : بغمزہ مسئلہ آموز صدر مدرس شد جس کو وہ یہاں توریت اور انجیل میں لکھا ہوا پائیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ اے موسیٰ جس رحمت خاصہ اور دینی اور دنیوی بھلائی کا تو خواستگار ہے۔ اخیر زمانہ میں اس رحمت خاصہ میں ان لوگوں کو حصہ ملے گا جو توریت اور انجیل کے پیش گوئیوں کے مطابق اس نبی امری کا اتباع کریں گے جس کے اوصاف وہ اپنے یہاں توریت اور انجیل میں لکھے ہوئے پائیں گے حالانکہ اس وقت تک انجیل نازل نہیں ہوئی تھی اشارہ اس طرف تھا کہ جب انجیل نازل ہوگی تو اس میں بھی آپ کا ذکر ہوگا چناچہ ورقہ بن نوفل اور عبداللہ بن سلام اور مخریق اور بحیرا راہب اور نسطورا راہب اور نجاشی شاہ حبشہ (رح) تعالیٰ مع قسیسین اور رہبان یہ سب انہی بشارات کی بناء پر مسلمان ہوئے اور ضفا طر رومی یعنی بشپ روم آں حضرت ﷺ کے ایلچی دحیہ کلبی کے ہاتھ پر یہ کہہ کر مشرف باسلام ہوا کہ یہ وہی نبی آخر الزماں ہیں جن کی توریت اور انجیل میں بشارت دی گئی۔ مگر رومیوں نے اس کو شہید کردیا ہرقل شاہ روم نے بھی اس کی تصدیق کی مگر سلطنت کی خاطر اسلام قبول نہیں کیا۔ مقوقس شاہ مصر نے بھی اس کا اقرار کیا اسلام تو نہیں لایا مگر ماریہ قبطیہ وغیرہ تحفے بھیجے اور وہ نبی امی ان کو ہر پسندیدہ کام کا حکم دیگا اور ہر ناپسندیدہ کام سے ان کو منع کرے گا۔ اور تمام پاکیزہ چیزوں کو ان کے لیے حلال کر دیگا۔ مراد وہ پاکیزہ چیزیں ہیں جو بنی اسرائیل کی نافرمانیوں کی سزا میں توریت میں ان پر حرام کی گئی تھیں جیسے اونٹ کا گوشت اور بھیڑ اور بکری اور گائے کی چربی اور تمام ناپاک اور گندی چیزوں کو ان پر حرام کردے گا۔ جیسے مردار اور خون اور سور کا گوشت اور جیسے رشوت اور سود اور ان سے وہ بوجھ اور مشقتوں کے طوق دور کردے گا جو موسیٰ (علیہ السلام) کے وقت میں ان پر تھے جیسے توبہ میں جان کا مارنا اور قصاص کا واجب ہونا اور دیت کا ممنوع ہونا اور مال غنیمت کا جلادینا مطلب یہ ہے کہ اگلی شریعتوں میں جو سختیاں تھیں انہیں دور کردیگا۔ اور شریعت کو ان پر آسان اور ہلکا کردیگا۔ پس جو لوگ اس نبی امی موصوف بصفات مذکورہ پر ایمان لائیں گے اور اس کی تعظیم کریں گے اور اس کے دشمنوں کے مقابلہ پر اس کی مدد کریں گے اور اس نور ہدایت یعنی کلام الٰہی کی پیروی کریں گے جو اس کے ساتھ آسمان سے زمین پر اتارا گیا ہے ایسے لوگ فلاح پانے والے ہیں اخیر زمانے میں دین ودنیا دونوں کی بھلائی ایسے ہی لوگوں کو ملے گی۔ یہ صحابۂ کرام اور خلفاء راشدین کا گروہ ہے جن کے لیے دنیا اور آخرت کی بھلائی پہلے ہی سے مقدر ہوچکی تھی دنیا میں فتح ونصرت حاصل ہوئی اور شام اور ایران کی سلطنتوں پر قابض ہوئے اور آخرت میں نجات اور مغفرت اور درجات عالیہ کی بشارتوں سے سرفراز کیے گئے۔ ذالک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء لطائف و معارف 1 ۔ حضرت شاہ عبدالقادر فرماتے ہیں کہ شاید حضرت موسیٰ نے اپنی امت کے حق میں دنیا اور آخرت کی بھلائی جو مانگی تھی مراد یہ تھی کہ میری امت سب امتوں پر مقدم اور فائق رہے دنیا اور آخرت میں خدا تعالیٰ نے جواب میں فرمایا کہ میرا عذاب اور میری رحمت کسی فرقہ پر مخصوص نہیں سو عذاب تو اسی پر ہے جس کو اللہ چاہے اور رحمت عامہ سب مخلوق کو شامل ہے۔ لیکن وہ رحمت خاصہ جو تم طلب کر رہے ہو وہ ان لوگوں کے نصیب میں لکھی ہے جو اللہ کا ڈر رکھتے ہیں اور اپنے مال کی زکوٰۃ دیتے ہیں یا اپنے نفس کا تزکیہ کرتے ہیں اور خدا کی ساری باتوں پر یقین کامل رکھتے ہیں یعنی آخری امت کو جو سب کتابوں پر ایمان لاوے گی سو حضرت موسیٰ کی امت میں سے جو کوئی آخری کتاب پر یقین لایا اس کو یہ نعمت پہنچی اور حضرت موسیٰ کی دعا ان کو لگی۔ انتہی کلامہ بتوضیح یسیر (منقول از تفسیر عثمانی) چناچہ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے جو دعا اپنی امت کے لیے مانگی تھی وہ ان کی امت کے حق میں قبول نہ ہوئی بلکہ بجائے ان کی امت کے امت محمدیہ کے حق میں قبول ہوگئی اور مطلب یہ ہوا کہ اے موسیٰ جس دنیا اور آخرت کی بھلائی کا تم سوال کر رہے ہو وہ امت محمدیہ کو ملے گی اور تمہاری یہ دعا خلفاء راشدین کے ہاتھوں پر پوری ہوگی کہ وہ ولی کامل بھی ہونگے اور بادشاہ عادل بھی ہونگے اور ولایت آخرت کی نیکی ہے اور بادشاہت دنیا کی بھلائی ہے اور اس کے مجموعہ کا نام خلافت راشدہ ہے اور علامہ طیبی (رح) تعالیٰ یہ فرماتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی اپنی امت کے لیے یہ دعا ایسی ہے جیسے ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی ذریت کے لیے یہ دعا کی ومن ذریتی کہ اے اللہ میری ذریت کو بھی امامت میں حصہ ملے تو حق تعالیٰ نے جواب میں یہ فرمایا۔ لا ینال عھدی الظالمین۔ مطلب یہ تھا کہ تمہاری دعا اور درخواست قبول ہے مگر اس منصب امامت کے حصول کے لیے عدالت اور تقوی شرط ہے ظالم اور فاسق کو یہ منصب نہیں ملے گا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو جواب دیا کہ تم نے اپنی امت کے لیے جو دنیا اور آخرت کی بھلائی کی دعا کی ہے وہ منظور ہے مگر اس رحمت خاصہ کے حصول کے لیے تقوی اور زکوٰۃ اور ایمان بالآیات شرط ہے پس آپ کی امت میں سے جو اس رحمت خاصہ کے مستحق ہوجائیں جس درجہ کا ایمان اور تقوی ہوگا اسی درجہ کی رحمت کے مستحق ہونگے۔ رحمت کاملہ کا استحقاق اہل طاعت کاملہ ہی کو ہے اس کے بعد بتلایا کہ اخیر زمانہ میں جب نبوت محمدیہ کا دور دورہ ہوگا اس وقت اس رحمت کاملہ اور خاصہ کے مستحق وہ لوگ ہونگے جو اس نبی امی فداہ نفسی وابی وامی ﷺ پر ایمان لائیں گے اور دل وجان سے اس کی مدد کریں گے۔ آنحضرت ﷺ کے زمانہ مبارک کے اہل کتاب کو سنانے کے لیے یہ مضمون ذکر کیا گیا کہ اس زمانے کے اہل کتاب اگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اس دعا میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو ان کو چاہئے کہ اس نبی امی پر ایمان لائیں جس کو توریت جس کو توریت اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں اللہ کی رحمت خاصہ ان لوگوں کے واسطے جو نبی امی کا اتباع کریں گے خواہ وہ بنی اسرائیل میں سے ہوں یا غیروں سے ہوں۔ 2 ۔ آیت الذی یجدونہ مکتوبا عندھم کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل میں سے جو لوگ اس نبی آخر الزمان کا عہد مبارک پائیں ان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اس نبی آخر الزمان پر ایمان لائیں تاکہ ان کو رحمت خاصہ میں بقدر ایمان اور تقوی کے حصہ مل جائے۔ قال ابن عباس انما اخذتھم الرجفۃ لانھم لم ینھوا من عبد العجل ولم یرضوا عبادتہ وقیل ھؤلاء السبعون غیر من قالوا ارنا اللہ جھرۃ (تفسیر قرطبی ص 295 جلد 7) قال ابو حیان اختلفوا فی ھذا المیقات اھو میقات المناجات ونزول التوراۃ او غیرہ فقیل ھو الاول بین فیہ بعض ماجری من احوالہ وروی ھذا عن ابن عباس وقیل ھو میقات آخر غیر میقات المناجاۃ ونزول التوراۃ فقال وھب بن منبہ (رح) تعالیٰ قال قال بنو اسرائیل لموسی ان طائفۃ تزعم ان اللہ لا یکلمک فخذ منا من یذھب معک لیسمعوا کلامہ فیؤمنوا فاحی اللہ تعالیٰ الیہ ان یختار من قومہ سبعین من خیارھم ثم ارتق بھم الجبل انت وھارون واستخلف یوشع ففعل فلما سمعوا سآلوا موسیٰ ان یریھم اللہ جھرۃ فاخذتھم الرجفۃ الی ان قالو ابو حیان۔ والذی یظھر ان ھذا ربہ بظاھر تغائر القصتین وما جری فیھا اذ فی تلک ان موسیٰ کلمہ اللہ و سلہ الرؤیۃ واحالہ فی الرویۃ علی تجلیہ للجبل۔ وثبوتہ فلم یثبت وصارو کاد صعق موسیٰ وفی ھذہ اختیر السبعون لمیقات اللہ واخذتھم الرجفۃ ولم تاخذ موسیٰ وللفصل الکثیر الذی بین اجزاء الکلام لو کانت قصۃ واحدۃ کذا فی البحر المحیط صفحہ 399 ج اور ابو حیان کا یہ کلام امام رازی (رح) تعالیٰ کے کلام کا خلاصہ ہے۔ حضرات اہل علم تفصیل کے لیے تفسیر کبیر صفحہ 306 ج 4 کی مراجعت کریں۔ 3 ۔ اس آیت میں اس نبی آخر الزمان کے نو وصف تو صراحۃ ً ذکر کیے اور ایک وصف ضمناً ذکر فرمایا یعنی اس نبی امی پر ایک کتاب نازل ہوگی جو نور ہدایت ہوگی اور رہروان آخرت کے لیے مشعل ہوگی مطلب یہ ہے کہ اس نبی امی پر آسمان سے ایک کتاب نازل ہوگی جسے وہ پڑھ کر سنائے گا توریت کی طرح لکھی ہوئی کتاب اس کو عطاء نہ ہوگی۔ اور وہ نو صفتیں یہ ہیں۔ 1 ۔ وہ رسول ہوگا 2 ۔ وہ نبی ہوگا 2 ۔ وہ امی ہوگا یعنی نوشت وخواند سے ناواقف ہوگا مگر علم اور حکمت کا چشمہ اس کی زبان سے جاری ہوگی اور یہ اس کی نبوت کی بڑی دلیل ہوگی ورنہ مخالفین کو یہ گنجائش ہوتی کہ وہ یہ کہتے آپ کتب سابقہ کو دیکھ کر اگلے زمانے کے حالات بیان کرتے ہیں اور انبیاء سابقین کے صحیفوں کی مدد سے آپ اپنے دین کے قواعد اور احکام مرتب کرتے ہیں سو سزاوار رحمت خاصہ وہی لوگ ہونگے جو اس نبی امی کا اتباع کریں گے۔ 4 ۔ علماء یہود اور نصاری اس نبی امی کو توریت اور انجیل میں لکھا ہوا پائیں گے۔ توریت اور انجیل میں آپ کی بالتفصیل صفات مذکور تھیں اور اس وقت کے یہود اور نصاری ان مضامین سے واقف تھے اور اگر یہ مضامین توریت وانجیل میں موجود نہ ہوتے تو تمام یہود اور نصاری شور مچاتے اور قرآن کریم کی اس قسم کی آیتوں کی تکذیب کرتے اور یہ کہتے کہ یہ سراسر افتراء ہے اور یہ شخص کذاب اور مفتری ہے توریت وانجیل میں کہیں بھی آپ کا ذکر نہیں اور جن مجلسوں میں النبی الامی الذی یجدونہ مکتوبا عندھم فی التوراۃ والانجیل جیسی آیتوں کی تلاوت کی جاتی۔ وہاں جا کر علماء اہل کتاب کھلم یہ کہتے۔ کہ یہ سب غلط ہے اور تمام یہود ونصاری مشرکین مکہ کو جو آپ کے دشمن خاص تھے اس سے آگاہ کرتے نیز آپ کا علماء یہود ونصاری کے مدارس میں جا کر تحدی کے ساتھ یہ بیان کرنا کہ میں وہی نبی ہوں جسکی توریت اور انجیل میں خبر دی گئی یہ اس امر کی قطعی دلیل ہے کہ آپ کو ان بشارتوں کا جزم اور یقین تھا چناچہ بہت سے علماء یہود اور علاء نصاری اور بہت سے راہب اور عابد وزاہد اسی بناء پر ایمان لائے جیسے شاہ حبشہ اور جو ایمان نہیں لائے جیسے ہرقل شاہ روم وغیرہ سو انہوں نے اس بات کی تصدیق کہ آپ وہی نبی ہیں جن کی توریت اور انجیل میں خبر دی گئی ہے۔ حق یہ ہے کہ کتب سابقہ میں آپ کا ذکر موجود تھا مگر معاندین نے ان میں تحریف کردی اور اس قسم کی تمام عبارتیں توریت اور انجیل سے نکالدیں اگرچہ اب بھی بعض اناجیل قدیمہ میں فارقلیط کا لفظ موجد ہے جو لفظ احمد کا ترجمہ ہے اور انبیاء سابقین کی بشارات کے متعلق اس ناچیز نے ایک مستقل رسالہ بھی لکھدیا ہے اہل اس کو دیکھیں جو چھپ چکا ہے۔ چناچہ عارف رومی قدس سرہ السامی فرماتے ہیں بود در انجیل نام مصطفیٰ : واں سر پیغمبراں بحر صفا بود ذکر حلیہا وشکل او : بود ذکر غزو صوم واکل او طائفہ نصرانیاں بہر ثواب : چوں رسید ندے بداں نام و خطاب بوسہ دادندے بداں نام شریف : رونہادنددے بداں وصف لطیف 5 ۔ پانچویں صف آپ کی یہ بیان کی کہ آپ لوگوں کو تمام نیک باتوں کا حکم دیں گے۔ 6 ۔ چھٹی صف آپ کی یہ بیان فرمائی کہ آپ لوگوں کو تمام بری باتوں سے منع کریں گے۔ یہ دونوں صفتیں اگرچہ نمام انبیاء میں مشترک ہیں مگر علی وجہ الکمال آپ میں پائی جائیں گی۔ آپ کی تعلیم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تمام جزئیات کو حاوی ہوگی۔ 7 ۔ ساتوی صفت آپ کی یہ بیان کی کہ آپ لوگوں کے لیے پاکیزہ اور ستھری چیزوں کو حلال کریں گے جس سے انسانی طبیعت کراہت اور نفرت نہیں کرتی بلکہ انسان کے لیے موجب لذت اور منفعت ہے اگرچہ مشرکین نے اپنی جہالت سے ان پاکیزہ چیزوں کو اپنے اوپر حرام کر رکھا ہے۔ 8 ۔ اور آٹھویں صفت آپ کی یہ فرمائی کہ وہ نبی گندی اور ناپاک چیزوں کو حرام کریگا جن کے استعمال میں سراسر مضرت اور نقصان ہے جیسے مردار اور خنزیر اور قمار اور شراب وغیرہ اگرچہ مشرکوں نے اپنی جہالت سے ان چیزوں کو اپنے اوپر حلال کر رکھا ہے۔ 9 ۔ اور نویں صفت آپ کی یہ بیان فرمائی کہ آپ یہودیوں پر سے ان کے بوجھ اتاریں گے اور ان کے طوقوں کو دور کریں گے یعنی ان کی شریعت میں جو سخت احکام جو ان کی پیٹھوں پر بمنزلہ بھاری بوجھوں کے تھے اور گلوں میں بمنزلہ طوق اور پھندوں کے تھے۔ ان کو منسوخ کر کے ان کی جگہ سہل احکام دیں گے یعنی اس کی شریعت سہل اور آسان ہوگی مثلا توریت میں بنی اسرائیل کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ اگر تم سے گناہ ہوجائے تو اس کی تو بہ قتل ہے کہ تم اپنے آپ کو قتل کر ڈالو اسلام میں یہ حکم منسوخ ہوگیا اور یہ حکم دیا گیا کہ توبہ کے لیے گزشتہ گناہ پر ندامت اور شرمساری اور آئندہ کے لیے یہ عزم کہ اب یہ کام نہیں کروں گا توبہ کے لیے فقط اتنا کافی ہے۔ توریت میں یہ حک تھا کہ اگر کپڑا ناپاک ہوجائے تو جتنا ناپاک ہوا ہے اتنے کو قینچی سے کاٹ ڈالا جائے۔ یہ حکم اسلام میں منسوخ ہوگیا اور کپڑے کا پانی سے دھونا کافی قرار دیا گیا۔ توریت میں قصاص فرض تھا اور دیت حرام تھی اسلام نے اس کی جگہ یہ حکم دیا کہ اگر ورثہ قصاص معاف کردیں اور اس کی جگہ دیت پر راضی ہوجائیں تو پھر قصاص ضروری نہیں توریت میں حکم تھا کہ ہفتہ کے دن دنیا کا کوئی کاروبار نہ کرو۔ اسلام نے اس کو منسوخ کردیا۔ توریت میں حکم تھا کہ کنایس (یعنی مسجد اور معبد) سے نماز نہ پڑھو اسلام نے اس کی جگہ حکم دیا کہ نماز ہر جگہ صحیح ہے۔ 10 ۔ دسویں صفت اس نبی امی کی یہ بیان کی کہ اس نبی پہ ایک نور ہدایت یعنی قرآن نازل ہوگا جو اس کا اتباع رکے گا وہ فلاح پائے گا اور واتبعوا النور الذی انزل معہ میں اسی صفت کے ساتھ اشارہ ہے اور توریت سفر پنجم باب 18 ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ خبر دی کہ میں بنی اسرائیل کے بھائیوں میں تجھ جیسا ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا الخ اس آخری جمہ میں قرآن کریم کے نزول کی طرف اشارہ ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قدس سرہ فرماتے ہیں کہ ان آیات کا مطلب بالاختصار یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے بارگاہ الٰہی میں دعا کی کہ اے پروردگار ملاء اعلیٰ میں میری امت کے لیے دنیا اور آخرت کی نیکی مقدر کردے۔ رب الارباب سے جواب ملا یہود ایک حال پر نہ رہیں گے بلکہ ان میں سے بعض کو میرا عذاب پہنچے گا اور یہ وہ لوگ تھے جن کی نسبت اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وقضینا الی بنی اسرائیل فی الکتاب لتفسدن فی الارض مرتین۔ اور بعض رحمت الٰہی کے مورد ہونگے اور یہ وہ لوگ ہیں جن کی نسبت اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے واذکروا نعمۃ اللہ علیکم اذ جعل فیکم انبیاء وجعلکم ملوکا وا اتا کم ما لم یؤت احدا من العالمین پھر فرمایا۔ فساکتبھا للذین یتقون۔ یعنی پس ان لوگوں کے لیے میں دنیا اور آخرت کی نیکی لکھ دونگا جن کی صفت یہ ہے کہ وہ متقی ہونگے زکوٰۃ دیں گے اور اسکی نشانیوں پر ایمان رکھیں گے۔ پس ان آیات سے مفہوم ہوا کہ یہ لوگ جو مذکورہ بالا اوصاف سے موصوف ہوں زمانہ آئندہ میں پیدا ہونے والے تھے دنیا میں فتح ونصرت حاصل ہو اور دیگر سلطنتیں ان کی مطیع اور باجگذار ہوں اور آخرت میں نجات اور مغفرت حاصل ہو اور درجات اور مناصب عالیہ ان کو حاصل ہوں۔ بعد ازاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ خصوصا یہ وہ لوگ ہونگے جو نبی امی کے تابعدار ہوں گے جس کی تعریف و توصیف کتاب الٰہیہ میں پائی گئی اورا نبی اء سابقین نے ان کی بعثت کی خبر دی جس سے کافۂ انام پر حجت پوری ہوئی اور منکرین عنداللہ معذور نہ رہے اور کتب الٰہیہ میں اللہ نے جو آں حضرت ﷺ کی تعریف کی وہ یہ ہے کہ وہ نبی امی نیکی کا حکم کرے گا اور برائی سے منع کرے گا تمام پاک چیزیں حلال کرے گا اور خبائث حرام کریگا اور ان کے سر سے بار گراں اور گردن سے ان کے طوق اتار دے گا یعنی شرائع شاقہ کو منسوخ کردیگا اور ملت حنفیہ اور شریعت سہلہ کو جاری کرے گا۔ پس آنحضرت ﷺ کی نبوت و رسالت کمال رافت و رحمت الہیہ ہے۔ ان آیات میں ضمناً اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی اتباع کرنے والوں کی اور آپ کے اعوان وانصار کی مدح فرمائی اور ان کی صلاح کونین اور فلاح دارین کی خبر دی ہے اور شک نہیں کہ خلفاء راشدین آنحضرت ﷺ پر ایمان لائے اور جان ومال سے آپ کی مدد کی پھر آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد تازیست اسی طرح ساعی اور کوشاں رہے اس سے زیادہ اور کیا فضیلت ہوسکتی ہے۔ وہ ہذا ہوا المقصود (ازالۃ الخفاء) خلاصہ کلام یہ کہ اس دعاء موسوی کا ظہور خلفاء راشدین کے ہاتھوں پر ہوا اور صحابہ کرام اس رحمت خلاصہ کے مورد بنے اور یہ امر بخوبی واضح ہوگیا کہ کتب الٰہیہ میں اس نبی امی کے تابعداروں اور مددگاروں کی جو تعریف و توصیف کی گئی اس کا مصداق صحابہ کرام اور خلفائے راشدین ہیں جن کو دنیا کی نیکی تو یہ ملی کہ فتح ون صرت ہوئی اور دنیا کی سلطنتیں اور ریاستیں ان کی باجگذار بنیں اور آخرت کی نیکی یہ ملی کہ خوشنودی اور رضاء خداوندی اور جنت اور مغفرت اور قسم قسم کی عزت و کرامت کا پروانہ ان کو دیا ہی میں مل گیا اور اخیر آیات میں مہاجرین اور انصار کی خاص طور پر مدح فرمائی۔ فالذین امنوا بہ وعزروہ ونصروہ وابتعوا النور الذی انزل معہ اولئک ہم المفلحون۔ اور ان کے صلاح اور فلاح دارین کی خبر دی واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
Top