Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 172
وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِیْۤ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ اَشْهَدَهُمْ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ١ؕ قَالُوْا بَلٰى١ۛۚ شَهِدْنَا١ۛۚ اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِیْنَۙ
وَاِذْ : اور جب اَخَذَ : لیا (نکالی) رَبُّكَ : تمہارا رب مِنْ : سے (کی) بَنِيْٓ اٰدَمَ : بنی آدم مِنْ : سے ظُهُوْرِهِمْ : ان کی پشت ذُرِّيَّتَهُمْ : ان کی اولاد وَاَشْهَدَهُمْ : اور گواہ بنایا ان کو عَلٰٓي : پر اَنْفُسِهِمْ : ان کی جانیں اَلَسْتُ : کیا نہیں ہوں میں بِرَبِّكُمْ : تمہارا رب قَالُوْا : وہ بولے بَلٰي : ہاں، کیوں نہیں شَهِدْنَا : ہم گواہ ہیں اَنْ : کہ (کبھی) تَقُوْلُوْا : تم کہو يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن اِنَّا : بیشک ہم كُنَّا : تھے عَنْ : سے هٰذَا : اس غٰفِلِيْنَ : غافل (جمع)
اور جب تمہارے پروردگار نے بنی آدم سے یعنی ان کی پیٹھوں سے انکی اولاد نکالی تو ان سے خود ان کے مقابلے میں اقرار کرا لیا (یعنی ان سے پوچھا کہ) کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ؟ وہ کہنے لگے کیوں نہیں ؟ ہم گواہ ہیں (کہ تو ہمارا پروردگار ہے) یہ اقرار اس لیے کرایا تھا کہ قیامت کے دن کہنے لگو کہ ہم کو تو اس کی خبر ہی نہ تھی۔
عہد الست قال اللہ تعالیٰ واذ اخذ ربک من بنی ادم من ظہورھم ذریتھم۔۔۔ الی۔۔۔ لعلھم یرجعون (ربط) گزشتہ آیات میں حق تعالیٰ نے اس عہد کا ذکر فرمایا تھا جو خاص بنی اسرائیل سے لیا گیا تھا اور جس کی خلاف ورزی سے وہ عذاب الٰہی کے مستحق ہوئے کما قال تعالیٰ الم یوخذ علیھم میثاق الکتب ان لا یقولو علی اللہ الا الحق۔ واذ نتقنا الجبل فوقھم کانہ ظلۃ۔ واذ اخذنا میثاقکم ورفعنا فوقکم الطور۔ اب ان آیات میں اس عہد کا ذکر فرماتے ہیں جو عالم ارواح میں تمام بنی آدم سے لیا گیا تھا کہ حق تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی پشت سے ان کی تمام اولاد کو جو تاقیام قیامت پیدا ہونے والی ہے نکالا اور انہیں عقل اور تکلم کی قوت عنایت فرمائی اور ان سے پوچھا الست بربکم کیا میں تمہارا پروردگار نہیں۔ قالو بلی۔ سب نے کہا کیوں نہیں بیشک آپ ہمارے پروردگار ہیں جس سے مقصود یہ بتلانا ہے کہ توحید امر فطری ہے ہر فرد بشر کی فطرت اور جبلت میں داخل ہے اللہ تعالیٰ نے ذریت کو پشت آدم سے نکالا اور ان سے اپنی خالقیت اور ربوبیت کا قول وقرار لیا اور خود ان کی جانوں کو اس قول وقرار پر گواہ غھہرایا کہ ان کا رب وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں چونکہ یہ عہد عالم ارواح میں لیا گیا تھا۔ دار دنیا میں آنے کے بعد اور عرصہ دراز گزر جانے کی وجہ سے اکثر کو اس عہد سے ذہول ہوگیا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کو اس عہد قدیم کی تذکیر اور یاد دہانی کے لیے مبعوث فرمایا تاکہ قیامت کے دن۔ ذہول اور غفلت کا عذر نہ کرسکیں۔ کما قال تعالیٰ ان تقولوا یوم القیمۃ انا کنا عن ھذا غفلین۔ یعنی اگر بالفرض والتقدیر قیامت کے دن کافر یہ عذر کریں کہ یہ عہد ہم کو یاد نہیں رہا۔ تو جواب ملیگا کہ اے غافلو ! اگر تم اس عہد کو بھول گئے تھے تو کیا ہم نے اس عہد کی یاد دہانی کے لیے پیغمبروں کو نہیں بھیجا اور علاوہ ازیں کائنات کا ہر ہر ذرا ہماری الوہیت اور وحدانیت کی گواہی دے رہا تھا اور تم کو یہ بھولا ہوا سبق یاد دلا رہا تھا پھر بھی تم نے کوئی توجہ نہ کی نہ انبیاء کرام کی سنی اور نہ دلائل اور براہین کی طرف التفات کیا۔ غرض یہ کہ یہ آیت غافلوں کو عہد الست کا بھولا ہوا سبق یاد دلانے کے لیے نازل ہوئی۔ باقی جو بڑے ہوشمند اور بیدار دل تھے وہ دنیا میں آنے کے بعد اس عہد سے غافل نہیں ہوئے۔ الست از ازل ہمچنائش بگوش بفریاد قالوا بلی در خردش عالم دنیا میں انسان پر سینکڑوں حالات اور واقعات گزرتے ہیں اور انسان اکو بھول جاتا ہے انسان بسا اوقات کوئی دستاویز لکھتا ہے اور عدالت میں اس کی رجسٹری بھی کرا لیتا ہے مگر بعض اوقات مرور زمانہ کی وجہ بالکل بھول جاتا ہے اور بعد میں جب عدالت میں مقدمہ پیش ہوتا ہے اور گواہ گواہی دیتے ہیں تو اس وقت یہ عذر مسموع نہیں ہوتا کہ میں بھول گیا تھا اور مجھ کو یہ بات یاد نہ رہی تھی۔ انسان کو اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہونا بھی یاد نہیں لوگوں کے کہنے ماں کو ماں سمجھتا ہے اگر کوئی شخص ماں کا حق ادا نہ کرے اور عذر یہ کرے کہ مجھے اپنا پیدا ہونا یاد نہیں تو میں اس کو کیسے ماں جانوں تو سب اس کو احمق کہیں گے۔ اسی طرح عہد الست کو سمجھو کہ انسان سے عالم ارواح میں جو عہد لیا گیا تھا وہ اس قفس عنصری میں آنے کے بعد اسے بھول گیا اور جب اس قفس عنصری سے رہا ہوگا اور یہ حجابات جسمانی مرتفع ہوجائیں گے تو وہ بھولا ہوا سبق اس کو یاد آجائے گا اور یاد داشت اور سہو ونسیان اور بھول چوک سب اللہ کے ارادے اور مشیت سے ہے اور اس کی حکمت سے ہے وہ اپنی حکمت سے ہزاروں چیزیں ہمارے حافظہ سے نکال دیتا ہے اسی طرح اگر وہی خدا اپنی کسی حکمت سے عہد الست کو بھلا دے اور پھر اس پر باز پرس کرے تو اسے حق ہے عہد الست کا یہ مضمون احادیث صحیحہ اور متواترہ سے ثابت ہے اور یہی جمہور اہل سنت والجماعت کا مذہب ہے۔ معتزلہ جو عقل کو نقل پر ترجیح دیتے ہیں وہ اس واقعہ کو بعید از عقل سمجھتے ہیں اور آیت میں ہایت رکیک تاویلیں کرتے ہیں جو مع جوابات کے تفسیر کبیر میں مذکور ہیں اہل علم تفسیر کبیر کی مراجعت کریں۔ عہد الست کے بارے میں معتزلہ کا مذہب معتزلہ یہ کہتے ہیں کہ انسان سے عالم ارواح میں کوئی عہد نہیں لیا گیا اور اس آیت کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں توحید اور ربوبیت کا اقرار ودیعت رکھا ہے اور اپنی ربوبیت اور وحدانیت پر بیشمار دلائل قائم کردئیے ہیں تو گویا کہ یہ سب دلائل خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کی ربوبیت کے لیے بمنزلہ عہد کے ہیں۔ خدا تعالیٰ کا ان دلائل کو تمہارے انفس اور آفاق میں پیدا کرنا گویا کہ تم سے اس کا عہد لینا اور تم کو اس پر گواہ بنانا ہے۔ اہلسنت والجماعت کا مذہب اہلسنت والجماعت یہ کہتے ہیں کہ معتزلہ کی یہ تاویل اسحادیث صحیحہ اور صریحہ کے صریح خلاف ہے اور اجماع صحابہ وتابعین کے خلاف ہے اس لیے کہ صحابہ وتابعین سے بالاتفاق عالم ارواح میں عہد لینا ثابت ہے لہذا معتزلہ کی یہ تاویل کسی طرح بھی قابل التفات نہیں۔ نیز میثاق حالی، میثاق قالی اور ازلی کے منافی نہیں۔ میثاق حالی اور عقلی دلائل عقلیہ اور فطریہ سے معلوم ہوسکتا ہے مگر میثاق قالی اور ازلی طور عقل سے بالا اور برتر ہے جہاں عقل کی رسائی نہیں اس قسم کی چیز انبیاء کرام ہی کی تعلیم اور بیان سے معلوم ہوسکتی ہے اس لیے احادیث میں اسی میثاق قالی اور ازلی کو بیان کیا گیا جو عقل سے معلوم نہیں ہوسکتا تھا۔ معتزلہ میثاق حالی اور عقلی تو قائل ہیں لیکن کتاب وسنت نے جس میثاق کی خبر دی ہے وہ میثاق قالی ہے اور دلائل ربوبیت کا میثاق۔ میثاق حالی اور عقلی ہے جو اس میثاق قالی اور ازلی کا مؤید اور مذکر ہے۔ اور کتاب وسنت نے اس میثا قدیم کی خبر دی ہے کہ جہاں عقل کی رسائی نہیں اور معتزلہ کے نزدیک اگر میثاق قالی اور ازلی کے انکار کی وجہ یہ ہے کہ وہ یاد نہیں رہا تو بہت سے لوگوں کو میثاق عقلی اور حالی بھی یاد نہیں۔ میثاق حالی کے دلائل عقلیہ یعنی دلائل آفاقیہ اور دلائل انفسیہ ان کی نظروں کے سامنے ہیں مگر وہ ان کو نظر نہیں آتے۔ چناچہ فرماتے ہیں اور اے نبی آپ لوگوں کو وہ واقعہ یاد دلائیے کہ جب تیرے پروردگار نے آدم کی پشت سے ان کی ذریت کو نکالا اور پھر اولاد آدم کی پشتوں سے ان کو توالد اور تناسل کی ترتیب کے مطابق نکالا یعنی جس ترتیب سے دنیا میں نسلا ً بعد نسل پیدا ہونگے اسی ترتیب سے ان کی پیٹھوں سے ان کی نسل کو نکالا اور ان کو عقل و شعور عطا کیا اور جس قدر ملائکہ اور مخلوقات اس وقت موجود تھے سب کے سامنے یہ عہد لیا تاکہ سب گواہ رہیں اور حجت قائم کرنے کے لیے خود انہی کو ان کی ذات پر گواہ بنایا اور ان سے پوچھا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں انہوں نے کہا کیوں نہیں بیشک تو ہمارا رب ہے اور ہم فقط مقر اور معترف نہیں بلکہ ہم اپنے اس اقرار کے خود ہی گواہ بھی ہیں اور وحدانیت سے بیخبر تھے یا یہ کہنے لگو کہ شرک تو ہم سے پہلے ہمارے آباء و اجداد نے کیا اور ہم ان کے بعد ان کی نسل تھے جیسا ہم نے ان کو کرتے دیکھا ویسا ہی ہم نے کیا ہمیں کیا معلوم تھا کہ تو رب العالمین اور وحدہ لاشریک لہ ہے پس کیا تو ہم کو دوزخ میں ڈال کر اس جرم کی پاداش میں ہلاک کرتا ہے جو ہم سے اگلے ناحق پرستوں نے کیا سو اس عہد اور اقرار اور ذاتی شہادت کے بعد تمہارا یہ عذر ختم ہوا۔ اب قیامت کے دن تم یہ عذر نہیں کرسکتے کہ ہم سے غفلت ہوئی اس لیے کہ جب خدا تعالیٰ نے پیغمبروں کی زبانی اس عہد کو یاد دلادیا تو پھر عذر کی گنجائش باقی نہیں رہی کیونکہ جب دلائل قطعیہ سے یاد دہانی کرادی گئی تو بمنزلہ تذکر ہی کے ہے انبیاء کرام کی یاد دہانی کے بعد نہ انکار کی مجال ہے اور نہ شک وشبہ کی گنجائش ہے اور جس طرح ہم نے عہد الست کو بیان کیا اسی طرح ہم کھول کھول کر اپنی ربوبیت اور الوہیت کی نشانیاں بیان کرتے ہیں تاکہ ان میں غوروفکر کریں اور تاکہ معلوم ہوجانے کے بعد ہماری ربوبیت اور الوہیت کے اقرار کی طرف رجوع کریں اور کفر وشرک سے باز آجائیں اور فطرت سابقہ کی طرف لوٹ جائیں۔ لطائف و معارف 1 ۔ یہ آیت عام اصطلاح میں آیت میثاق کہلاتی ہے اور جس عہد کا اس میں ذکر ہے اس کو عہد الست کہتے ہیں 2 ۔ جمہور مفسرین اور محدثین اس آیت کی تفسیر یوں بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ازل میں حضرت آدم کی تمام اولاد کو جو قیامت تک پیدا ہونے والی تھی ان کی پشت سے نکالا اور ان سے پوچھا کہ کیا میں تمہارا پروردگار نہیں۔ سب نے اقرار کیا اور بلی کہا کہ بیشک تو ہمارا پروردگار ہے پھر ان کو آدم کی پشت میں واپس کردیا اور یہی مضمون بیشمار احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اور یہی اہلسنت والجماعت کا مذہب ہے اور مقصود یہ ہے کہ اللہ کی محبت اور اس کی معرفت انسان کی فطرت میں داخل ہے۔ معتزلہ اور مدعیان عقل اس آیت کی تفسیر دوسری طرح کرتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ہم نے آدم کی پشت سے اس کی ذریت کو نکالا بلکہ یہ فرمایا ہے کہ ہم نے بنی آدم کی پشت سے ان کی ذریات کو نکالا۔ پس آیت کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہم نے بنی آدم کی پشتوں سے توالد اور تناسل کے طریقہ ان کی اولاد کو نکالا اس طرح پر کہ ان کے نطفے عورتوں کے رحم میں واقع ہوئے پھر وہ خون بنے پھر گوشت کا لوتھڑا پھر اور کئی تغیرات کے بعد وہ انسانی صورت میں رحم مادر سے باہر آئے پھر جب وہ سن تمیز کو پہنچے تو خدا تعالیٰ نے ان میں عقل پیدا کی جس سے وہ نیک وبد میں تمیز کرنے لگے اور اللہ تعالیٰ کے دلائل ربوبیت اور وحدانیت کو پہچاننے لگے اور ان کے دل نے اس بات کی شہادت دی کہ بیشک کوئی ان کا خالق اور پوردگار ہے گویا خدا تعالیٰ نے بواسطہ ان دلائل قدرت کے جو ان کی نظروں کے سامنے تھے ان سے یہ سوال کیا کہ میں تمہارا پروردگار نہیں۔ سب نے بزبان حال اس کا جواب دیا کہ بلی بیشک تو ہمارا پروردگار ہے اور ہم اپنے اس اقرار پر گواہ ہیں پس ان لوگوں کے نزدیک اس آیت کا تمام مضمون بطور تمثیل ہے نہ بطور حقیقت اور مطلب آیت کا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسانی فطرت ایسی بنائی ہے کہ اگر وہ اپنی خلقت کے عجائب اور اپنی صنعت کے غرائب پر نظر کرے جو خود اس کے اندر موجود ہیں تو اس کو معلوم ہوجائیگا کہ یہ سب چیزیں خدا تعالیٰ کی ربوبیت اور وحدانیت پر گواہ ہیں۔ اہل سنت والجماعت یہ کہتے ہیں کہ معتزلہ کی یہ تمام تاویلات نہایت رکیک اور بےمعنی ہیں۔ جن کی احادیث صحیحہ اور صریحہ اور اجماع صحابہ وتابعین کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں۔ 3 ۔ اس آیت میں بنی آدم کے پشتوں سے ان کی اولاد اور ذریت کا نکالنا ذکر کیا ہے اور آدم (علیہ السلام) کا ذکر نہیں کیا اس لیے کہ سب کو معلوم ہے کہ آدم (علیہ السلام) سب کے باپ ہیں اور سب انہی کی پشت سے نکلے ہیں اور مسند احمد اور نسائی اور مستدرک حاکم میں باسناد صحیح عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کی پشت سے ان کی ذریت کو نکالا اور سامنے بکھیر دیا جیسے چیونٹیاں اور پھر ان سے بالمشافہ کلام کیا الست بربکم، سب نے جواب میں بلی کہا۔ الی آخر الایۃ (دیکھو تفسیر ابن کثیر ص 261 ج 2) اور یہی مضمون حضرت عمر اور حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی احادیث میں آیا ہے (دیکھو تفسیر قرطبی ص 315 ج 7) اور ابو ہر ہرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی پشت پر ہاتھ پھیرا تو قیامت تک پیدا ہونے والی ذریت ان کی پشت سے نکل پڑی اور ہر شخص کی دو آنکھوں کے درمیان نوری کی ایک چمک رکھی پھر سب کو آدم (علیہ السلام) پر پیش کیا گیا آدم نے عرض کیا کہ اے رب یہ کون ہیں۔ فرمایا یہ تیری ذریت ہے پھر آدم (علیہ السلام) پر پیش کیا گیا آدم نے عرض کیا کہ اے رب یہ کون ہیں فرمایا یہ تیری ذریت ہے پھر آدم (علیہ السلام) کی ایک انسان پر نظر پڑی جس کی آنکھوں کے درمیان کا نور بہت چمک رہا تھا پوچھا کہ اے پروردگار یہ کون ہے فرمایا کہ یہ ایک آدمی ہے جو تیری ذریت کے پچھلی امتوں میں ہوگا اس کا نام داود ہے عرض کیا کہ اے پروردگار اس کی عمر کتنی مقرر کی ہے فرمایا ساٹھ سال عرض کیا اے پروردگا میری عمر میں سے اس کو چالیس سال دے دیجئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی درخواست قبول کی۔ الی آخر الحدیث رواہ الترمذی وقال ہذا حدیث حسن صحیح۔ نکتہ حضرت آدم نے حضرت داود کی پیشانی میں جو نور دیکھا شاید وہ نور خلافت الہیہ کا ہوگا جو حضرت آدم کے نور خلافت سے ملتا جلتا ہوگا۔ واللہ اعلم۔ بعد ازاں اللہ تعالیٰ نے ان ارواح کو اصلاب آباء میں لوٹا دیا جیسا کہ ابن عباس سے مروی ہے ثم ردھم فی اصلاب آبائھم حتی اخرجھم قرنا بعد قرن اخرجہ ابو الشیخ 4 ۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم کے دائیں جانب سے جو ذریت نکالی گئی وہ سفید اور نورانی تھی اور بائیں جانب سے جو ذریت نکالی گئی وہ سیاہ اور ظلماتی تھی اور آیت یوم تبیض وجوہ وسود وجوہ میں اسی طرف اشارہ ہے دائیں جانب سے جو نکالے گئے وہ اصحاب الیمین ہیں اور بائیں جانب سے جو نکالے گئے وہ اصحاب الشمال ہیں۔ ابو طاہر قزوینی (رح) تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اصحاب الیمین ہیں اور بائیں جانب سے جو نکالے گئے وہ اصحاب الشمال ہیں۔ ابو طاہر قزوینی (رح) فرماتے ہیں کہ اصحاب یمین پر تجلی ہیبت وقہر تھی اس لیے انہوں نے جبراً وقہراً بلی کہا اس لیے دنیا میں آکر دوسری راہ پر پڑگئے۔ 5 ۔ جمہور مفسرین اس طرف گئے ہیں کہ یہ عہد حضرت آدم کے پیدا ہونے کے بعد اور جنت میں داخل ہونے سے پہلے لیا گیا اور بعج کہتے ہیں کہ جنت میں داخل ہونے کے بعد ہبوط من السماء سے پہلے لیا گیا اور بعض کہتے ہیں کہ ہبوط یعنی آسمان سے اترنے کے بعد زمین پر لیا گیا۔ علامہ آلوسی فرماتے ہیں کہ ان روایات میں تطبیق وتوفیق مشکل ہے حضرات صوفیائے کرام یہ فرماتے ہیں کہ مختلف مواضع میں مختلف قسم کے عہد اور میثاق لیے گئے واللہ اعلم (دیکھو روح المعانی ص 93 ج 9) 6 ۔ جمہور مفسرین اس طرف گئے ہیں کہ یہ عدہ حضرت آدم کے پیدا ہونے کے بعد اور جنت میں داخل ہونے سے پہلے لیا گیا اور بعض کہتے ہیں کہ جنت میں داخل ہونے کے بعد ہبوط من السماء سے پہلے لیا گیا اور بعض کہتے ہیں کہ ہبوط یعنی آسمان سے اترنے کے بعد زمین پر لیا گیا۔ علامہ آلوسی فرماتے ہیں کہ ان روایات میں تطبیق وتوفیق مشکل ہے حضرات صوفیائے کرام (رح) تعالیٰ یہ فرماتے ہیں کہ مختلف مواضع میں مختلف قسم کے عہد اور میثاق لیے گئے واللہ اعلم۔ (دیکھو روح المعانی ص 93 ج 9) 6 ۔ اگر کسی کو یہ شبہ ہو کہ وہ عہد تو یاد نہیں رہا تو پھر کیا حاصل تو اس کو یوں سمجھئے کہ وہ عہد اگرچہ یاد نہیں رہا مگر اس کا نشان تو ہر ایک دل میں موجود ہے انسان کے دل میں قدرتی طور پر حق تعالیٰ کی طرف ایک میلان پایا جاتا ہے جب کبھی کوئی پریشانی پیش آتی ہے تو دل خدا کی طرف دوڑتا ہے اور اس سے اس مصیبت کے دفعیہ کا طلبگار اور امیدوار ہوتا ہے پس انسان کا دل خود اندر سے گواہی دیتا ہے کہ کوئی میرا پروردگار ضرور ہے بہرحال یہ میلان تمام طبیعتوں میں پایا جاتا ہے کسی میں کم اور کسی میں زیادہ خواہ وہ اس میلان کے منشاء کو سمجھے یا نہ سمجھے اور اس کے مقتضاء پر عمل کرنے کو آمادہ ہو یا نہ ہو اب رہا یہ امر کہ اس طبعی اور فطری میلان کا منشاء کیا ہے سو معلوم یوں ہوتا ہے کہ اس پیدائش سے پہلے انسان کو جناب باری تعالیٰ کی کسی قسم کی تجلی ضرور میسر آئی ہے جس کے سبب اس کے دل میں خدا کی محبت اس قدر جم گئی ہے کہ صدہا تکالیف اٹھاتا ہے اور پھر بھی خدا ہی کی طرف جھکتا ہے ورنہ کسی چیز کی محبت بےدیکھے اور بےبرتے پیدا نہیں ہوسکتی بس یہ بطعی میلان روز الست یا یوم میثاق کا ایک نشان ہے کہ اس وقت اپنے پروردگار کو دیکھا ہے اور اسی ایک جلوہ نے سب کو پروردگار کا عاشق بنادیا ہے تمام افراد بشر کا اقرار ربوبیت پر متفق ہونا اور یقین کے ساتھ اقرار کرنا کہ کوئی ہمارا پروردگار ہے سو یہ طبعی میلان اور فطری اذعان اسی پرانے عہد میثاق کا دھندلا سا نشان ہے کہ جو ایک لمحہ دو لمحہ یا ایک گھڑی دو گھڑی کے لیے پیش آیا سو ظاہر ہے کہ ایک گھڑی یا دو گھڑی کے قصہ کو مرور زمانہ اور انتقال مکانی سے بھول جانا کوئی مستبعد نہیں تھوڑی دیر کے لیے عہد الست کے وقت سب نے اپنے خدائے پروردگار کے جمال بےمثال کو دیکھا ہے اس لیے خدا کی محبت فطری طور پر دلوں میں ایسی راسخ اور پختہ ہوگئی کہ کسی طرح نکالنے نہیں نکلتی اور اگر کسی شخص میں یہ دیکھو کہ اس میں خدا کا میلان بالکل نہیں تو سمجھ لو کہ اس کی انسانی فطرت بالکل مسخ ہوچکی ہے اور خارجی اثرات کیوجہ سے انسانی خصلتیں سلب اور نابود ہوجاتی ہیں جیسے بعض اوقات خارجی اثرات سے خدا کا میلان طبیعت سے بالکل نکل جاتا ہے جو اس بات کی نشانی ہے کہ اس منکر خدا کی فطرت انسانی مسخ ہوچکی ہے اکثر عالم بلکہ تمام عالم کا اس میلان پر متفق ہوجانا اس امر کی نشانی ہے کہ کبھی نہ کبھی یہ بات کان میں پڑی ہے جو ہر ایک کی زبان پر آتی ہے مگر یہ امر کہ یہ بات کس موقعہ اور محل پر کان میں پڑی ہے وہ یاد نہیں رہا مکان اور زمان اگرچہ یاد نہیں رہا مگر اس کا نشان تو موجود ہے مرور زمانہ کی وجہ سے یہ عہد یاد نہیں رہا جس وقت عہد لیا گیا تھا اس وقت ذریت چھوٹے چھوٹے ذرات کی مقدار میں تھی اس وقت سے لے کر توالد اور تناسل تک ایک طویل عرصہ گزرا اور ذرات مختلف اطوار اور ادوار سے گزرتے رہے یہاں تک کہ اس عالم فانی میں داخل ہوئے تو مدت مدیدہ کا یہ عہد بھول گئے (دیکھو الیواقیت والجواہر ص 115 ج 1) اور حق جل شانہ کا یہ ارشاد وذکر فان الذکری تنفع ال مومنین۔ فذکر انما انت مذکر اسی طرف مشیر معلوم ہوتا ہے اس لیے کہ اس قسم کی آیتوں میں تذکیر کا حکم دیا گیا ہے اور تذکیر کے اصل معنی لغت میں بھولی ہوئی بات کو یاد دلانے کے ہیں اسی طرح سمجھو کہ عہد الست کے بھولے ہوئے سبق کو انبیاء کرام نے یاد دلایا اس وجہ سے علماء کی ایک جماعت یہ کہتی ہے کہ کافر کو جو بچہ شعور وادراک سے پہلے مرجائے وہ جنت میں جائیگا اس لیے کہ اس کے عہد اور میثاق میں کوئی تغیر نہیں آیا البتہ کافر کی جو الواد بالغ ہو کر یہودی یا نصرانی ہوجائے اور اسی پر وہ مرجائے تو وہ جہنم میں جائے گی اس لیے کہ اس نے روز اول کے میثاق کو توڑ دیا۔ 7 ۔ اور عہد الست میں سب سے پہلا خطاب حق تعالیٰ کی طرف سے یہ تھا۔ الست بربکم ربوبیت کے متعلق سوال تھا اسی طرح مرنے کے بعد قبر میں پہلا سوال اللہ تعالیٰ کی ربوبیت ہی کے متلعق ہوتا ہے قبر میں منکر نکیر سب سے ہلے یہی سوال کرتے ہیں من ربک تیرا رب کون ہے ازل میں بھی الست بربکم فرمایا اور قبر میں بھی رب ہی کے متعلق سوا ال ہوا۔ 8 ۔ نفحات میں مذکور ہے کہ علی سہیل اصفہانی قدس سرہ سے لوگوں نے پوچھا کہ آپ کو روز بلی یاد ہے تو فرمایا کیوں نہیں مجھے روز بلی ایسا یاد ہے جیسے کل گزشتہ۔ کسی نے یہ کلام شیخ الاسلام خواجہ عبداللہ انصاری سے ذکر کیا تو فرمایا کہ اس جواب میں نقصان ہے جو کل گزر گئی یا جو کل آئے گی اس سے صوفی اور درویش کو کیا مطلب اس روز کی تو ابھی شام بھی نہیں ہوئی اور صوفی اور درویش تو ابھی اسی دن میں ہے۔ روز امروز است اے صوفی وشان : کے بود ازدی واز فردا نشان آنکہ از حق نیست غافل یکنفس : ماضی ومستقبلش حال است وبس 9 ۔ شیخ عبدالوہاب شعرانی (رح) تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان سب کو آدم (علیہ السلام) کی پشت کی بالوں کی مسامات کی راہ سے نکالا پھر ان سے کہا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں انہوں نے گویائی کے ذریعے سے جواب دہا اور بلی کہا اور وہ اسی حالت میں زندہ اور صاحب عقل تھے اور عقلاً یہ امر محال نہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں باوجود اس قدر چھوٹے ہونے کے حیات اور عقل دید سے آخر وہ حیوانات جو بذریعہ خورد بین نظر آتے ہیں کسی قدر ادراک اور شعور ان کو بھی حاصل ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے رزق حاصل کرنے کی سعی کرتے ہیں اور ان میں توالد اور تناسل بھی ہے اور وہ ایذا رساں چیزوں سے بچتے بھی ہیں اور اگر کوئی ان کی راہ میں آجاتا ہے تو اس سے کترا جاتے ہیں تو جب یہ باتیں اہل سائنس کے نزدیک بھی مسلم ہیں تو عہد الست کے واقعہ سے کیوں تعجب کرتے ہیں۔ خدا کی قدرت کے لحاظ سے اس میں کوئی استبعاد نہیں اور ظاہر یہ ہے کہ وہ ذرات انسان کی صورت پر ہونگے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ذریت کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ ذرات کا لفظ نہیں فرمایا اور لغت میں ذریت کا اطلاق اسی چیز پر آتا ہے جس کی صورت بن چکی ہو باہمی امتیاز کا ذریعہ یہی صورت اور شکل ہے۔ 17 ۔ امام رازی (رح) فرماتے ہیں کہ بدن انسانی میں دو قسم کے اجزاء ہوتے ہیں کیونکہ یہ امر مشاہدہ اور ہدایت سے ثابت ہے کہ ابتداء ولادت سے لے کر اخیر عمر تک بدن کے اجزاء میں کمی اور زیادتی ہوتی رہتی ہے ابتداء ولادت کے وقت بدن دو بالشت تھا اور اخیر عمر میں سات آٹھ بالشت کا ہوگیا۔ بدن کبھی فربہ ہوتا ہے اور کبھی لاغر مگر ہر حال میں یہ شخص وہی کہلاتا ہے کہ جو ابتداء ولادت کے وقت تھا پس جو اجزاء اول عمر سے اخیر عمر تک باقی رہتے ہیں وہ اجزاء اصلیہ ہیں اور جن اجزاء بدن میں کمی اور زیادتی ہوتی رہتی ہے وہ اجزاء زائدہ ہیں پس اس آیت اور جن احادیث میں بنی آدم کی پشتوں سے ان کی اولاد کا نکالنا آیا ہے سو وہ اجزاء اصلیہ کا نکالنا مراد ہے اور اصلی اور حقیقی انسان یہی اجزاء اصلیہ ہیں اور روح کا تعلق انہی اجزاء اصلیہ کے ساتھ ہوتا ہے پس حقیقی انسان جو احکام شرعیہ کا مخاطب اور مکلف ہے وہ یہی ذرات ہیں جن کے ساتھ روح متعلق ہے اور قیامت کے دن درحقیقت انہی اجزاء اصلیہ کو دوبارہ زندہ کیا جائیگا اور انہی اجزاء اصلیہ کے ساتھ روح متعلق کر کے حساب و کتاب و عذاب وثواب دیا جائیگا جس طرح دنیاوی زندگی میں روح کا اصل انہی اجزاء اصلیہ کے ساتھ تھا اسی طرح بعث بعد الموت کے وقت بھی زائد اجزاء ان کے ساتھ ملادئیے جائیں گے (امام رازی کا کلام ختم ہوا) 11 ۔ حکمت جدیدہ نے کلاں بینوں اور مائیکرومیٹرے سے (جو باریک اجسام کی مقدار معلوم کرنے کا آلہ ہے) یہ دریافت کیا ہے کہ پانی کے ایک چھوٹ قطرہ میں اتنے حیوانات ہوتے ہیں کہ تمام روئے زمین پر اتنے ادمی نہیں ہوتے اور ان میں توالد اور تناسل بھی جاری ہے اور باوجود اس کثرت کے نہ ان میں اژدحام معلوم ہوتا ہے اور نہ کوئی کسی سے ٹکراتا ہے حالانکہ ان کی حرکت نہایت سریع ہے اور یہ وہ حیوانات ہیں جو موجودہ کلاں بینوں سے نظر آتے ہیں اگر ان کلاں بینوں سے زیادہ قوت والی کلاں بین ہو تو معلوم نہیں کہ اور کتنے محسوس ہونگے (دیکھو ! مقاصد الاسلام حصہ سوم ص 32 ج 3 وحصہ ہفتم ص 39 ج 7 ۔ مصنفہ مولانا انوار اللہ خان صاحب حیدر آبادی) نیز حکمت جدیدہ کی رو سے ایک تخم میں کروڑہا کروڑ متامیز اجزاء موجود ہوتے ہیں جو آئندہ درختوں کا تخم بنتے ہیں اور ایک قطرہ منی میں کروڑہا کروڑ ایسے متمائز اجزاء موجود ہوتے ہیں جو صدہا سال کی آنے والی نسلوں کا مادہ بنتے ہیں یہ دلدادگان مغربیت یہ سب کچھ بلا دلیل ماننے کے لیے تیار ہیں۔ مگر خدا تعالیٰ نے جو حضرت آدم کی پشت سے ذریت نکالنے کی خبر دی ہے اس کے ماننے کے لیے تیار نہیں۔
Top