Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 172
وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِیْۤ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ اَشْهَدَهُمْ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ١ؕ قَالُوْا بَلٰى١ۛۚ شَهِدْنَا١ۛۚ اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِیْنَۙ
وَاِذْ
: اور جب
اَخَذَ
: لیا (نکالی)
رَبُّكَ
: تمہارا رب
مِنْ
: سے (کی)
بَنِيْٓ اٰدَمَ
: بنی آدم
مِنْ
: سے
ظُهُوْرِهِمْ
: ان کی پشت
ذُرِّيَّتَهُمْ
: ان کی اولاد
وَاَشْهَدَهُمْ
: اور گواہ بنایا ان کو
عَلٰٓي
: پر
اَنْفُسِهِمْ
: ان کی جانیں
اَلَسْتُ
: کیا نہیں ہوں میں
بِرَبِّكُمْ
: تمہارا رب
قَالُوْا
: وہ بولے
بَلٰي
: ہاں، کیوں نہیں
شَهِدْنَا
: ہم گواہ ہیں
اَنْ
: کہ (کبھی)
تَقُوْلُوْا
: تم کہو
يَوْمَ الْقِيٰمَةِ
: قیامت کے دن
اِنَّا
: بیشک ہم
كُنَّا
: تھے
عَنْ
: سے
هٰذَا
: اس
غٰفِلِيْنَ
: غافل (جمع)
اور جب تمہارے پروردگار نے بنی آدم سے یعنی ان کی پیٹھوں سے انکی اولاد نکالی تو ان سے خود ان کے مقابلے میں اقرار کرا لیا (یعنی ان سے پوچھا کہ) کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ؟ وہ کہنے لگے کیوں نہیں ؟ ہم گواہ ہیں (کہ تو ہمارا پروردگار ہے) یہ اقرار اس لیے کرایا تھا کہ قیامت کے دن کہنے لگو کہ ہم کو تو اس کی خبر ہی نہ تھی۔
عہد الست قال اللہ تعالیٰ واذ اخذ ربک من بنی ادم من ظہورھم ذریتھم۔۔۔ الی۔۔۔ لعلھم یرجعون (ربط) گزشتہ آیات میں حق تعالیٰ نے اس عہد کا ذکر فرمایا تھا جو خاص بنی اسرائیل سے لیا گیا تھا اور جس کی خلاف ورزی سے وہ عذاب الٰہی کے مستحق ہوئے کما قال تعالیٰ الم یوخذ علیھم میثاق الکتب ان لا یقولو علی اللہ الا الحق۔ واذ نتقنا الجبل فوقھم کانہ ظلۃ۔ واذ اخذنا میثاقکم ورفعنا فوقکم الطور۔ اب ان آیات میں اس عہد کا ذکر فرماتے ہیں جو عالم ارواح میں تمام بنی آدم سے لیا گیا تھا کہ حق تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی پشت سے ان کی تمام اولاد کو جو تاقیام قیامت پیدا ہونے والی ہے نکالا اور انہیں عقل اور تکلم کی قوت عنایت فرمائی اور ان سے پوچھا الست بربکم کیا میں تمہارا پروردگار نہیں۔ قالو بلی۔ سب نے کہا کیوں نہیں بیشک آپ ہمارے پروردگار ہیں جس سے مقصود یہ بتلانا ہے کہ توحید امر فطری ہے ہر فرد بشر کی فطرت اور جبلت میں داخل ہے اللہ تعالیٰ نے ذریت کو پشت آدم سے نکالا اور ان سے اپنی خالقیت اور ربوبیت کا قول وقرار لیا اور خود ان کی جانوں کو اس قول وقرار پر گواہ غھہرایا کہ ان کا رب وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں چونکہ یہ عہد عالم ارواح میں لیا گیا تھا۔ دار دنیا میں آنے کے بعد اور عرصہ دراز گزر جانے کی وجہ سے اکثر کو اس عہد سے ذہول ہوگیا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کو اس عہد قدیم کی تذکیر اور یاد دہانی کے لیے مبعوث فرمایا تاکہ قیامت کے دن۔ ذہول اور غفلت کا عذر نہ کرسکیں۔ کما قال تعالیٰ ان تقولوا یوم القیمۃ انا کنا عن ھذا غفلین۔ یعنی اگر بالفرض والتقدیر قیامت کے دن کافر یہ عذر کریں کہ یہ عہد ہم کو یاد نہیں رہا۔ تو جواب ملیگا کہ اے غافلو ! اگر تم اس عہد کو بھول گئے تھے تو کیا ہم نے اس عہد کی یاد دہانی کے لیے پیغمبروں کو نہیں بھیجا اور علاوہ ازیں کائنات کا ہر ہر ذرا ہماری الوہیت اور وحدانیت کی گواہی دے رہا تھا اور تم کو یہ بھولا ہوا سبق یاد دلا رہا تھا پھر بھی تم نے کوئی توجہ نہ کی نہ انبیاء کرام کی سنی اور نہ دلائل اور براہین کی طرف التفات کیا۔ غرض یہ کہ یہ آیت غافلوں کو عہد الست کا بھولا ہوا سبق یاد دلانے کے لیے نازل ہوئی۔ باقی جو بڑے ہوشمند اور بیدار دل تھے وہ دنیا میں آنے کے بعد اس عہد سے غافل نہیں ہوئے۔ الست از ازل ہمچنائش بگوش بفریاد قالوا بلی در خردش عالم دنیا میں انسان پر سینکڑوں حالات اور واقعات گزرتے ہیں اور انسان اکو بھول جاتا ہے انسان بسا اوقات کوئی دستاویز لکھتا ہے اور عدالت میں اس کی رجسٹری بھی کرا لیتا ہے مگر بعض اوقات مرور زمانہ کی وجہ بالکل بھول جاتا ہے اور بعد میں جب عدالت میں مقدمہ پیش ہوتا ہے اور گواہ گواہی دیتے ہیں تو اس وقت یہ عذر مسموع نہیں ہوتا کہ میں بھول گیا تھا اور مجھ کو یہ بات یاد نہ رہی تھی۔ انسان کو اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہونا بھی یاد نہیں لوگوں کے کہنے ماں کو ماں سمجھتا ہے اگر کوئی شخص ماں کا حق ادا نہ کرے اور عذر یہ کرے کہ مجھے اپنا پیدا ہونا یاد نہیں تو میں اس کو کیسے ماں جانوں تو سب اس کو احمق کہیں گے۔ اسی طرح عہد الست کو سمجھو کہ انسان سے عالم ارواح میں جو عہد لیا گیا تھا وہ اس قفس عنصری میں آنے کے بعد اسے بھول گیا اور جب اس قفس عنصری سے رہا ہوگا اور یہ حجابات جسمانی مرتفع ہوجائیں گے تو وہ بھولا ہوا سبق اس کو یاد آجائے گا اور یاد داشت اور سہو ونسیان اور بھول چوک سب اللہ کے ارادے اور مشیت سے ہے اور اس کی حکمت سے ہے وہ اپنی حکمت سے ہزاروں چیزیں ہمارے حافظہ سے نکال دیتا ہے اسی طرح اگر وہی خدا اپنی کسی حکمت سے عہد الست کو بھلا دے اور پھر اس پر باز پرس کرے تو اسے حق ہے عہد الست کا یہ مضمون احادیث صحیحہ اور متواترہ سے ثابت ہے اور یہی جمہور اہل سنت والجماعت کا مذہب ہے۔ معتزلہ جو عقل کو نقل پر ترجیح دیتے ہیں وہ اس واقعہ کو بعید از عقل سمجھتے ہیں اور آیت میں ہایت رکیک تاویلیں کرتے ہیں جو مع جوابات کے تفسیر کبیر میں مذکور ہیں اہل علم تفسیر کبیر کی مراجعت کریں۔ عہد الست کے بارے میں معتزلہ کا مذہب معتزلہ یہ کہتے ہیں کہ انسان سے عالم ارواح میں کوئی عہد نہیں لیا گیا اور اس آیت کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں توحید اور ربوبیت کا اقرار ودیعت رکھا ہے اور اپنی ربوبیت اور وحدانیت پر بیشمار دلائل قائم کردئیے ہیں تو گویا کہ یہ سب دلائل خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کی ربوبیت کے لیے بمنزلہ عہد کے ہیں۔ خدا تعالیٰ کا ان دلائل کو تمہارے انفس اور آفاق میں پیدا کرنا گویا کہ تم سے اس کا عہد لینا اور تم کو اس پر گواہ بنانا ہے۔ اہلسنت والجماعت کا مذہب اہلسنت والجماعت یہ کہتے ہیں کہ معتزلہ کی یہ تاویل اسحادیث صحیحہ اور صریحہ کے صریح خلاف ہے اور اجماع صحابہ وتابعین کے خلاف ہے اس لیے کہ صحابہ وتابعین سے بالاتفاق عالم ارواح میں عہد لینا ثابت ہے لہذا معتزلہ کی یہ تاویل کسی طرح بھی قابل التفات نہیں۔ نیز میثاق حالی، میثاق قالی اور ازلی کے منافی نہیں۔ میثاق حالی اور عقلی دلائل عقلیہ اور فطریہ سے معلوم ہوسکتا ہے مگر میثاق قالی اور ازلی طور عقل سے بالا اور برتر ہے جہاں عقل کی رسائی نہیں اس قسم کی چیز انبیاء کرام ہی کی تعلیم اور بیان سے معلوم ہوسکتی ہے اس لیے احادیث میں اسی میثاق قالی اور ازلی کو بیان کیا گیا جو عقل سے معلوم نہیں ہوسکتا تھا۔ معتزلہ میثاق حالی اور عقلی تو قائل ہیں لیکن کتاب وسنت نے جس میثاق کی خبر دی ہے وہ میثاق قالی ہے اور دلائل ربوبیت کا میثاق۔ میثاق حالی اور عقلی ہے جو اس میثاق قالی اور ازلی کا مؤید اور مذکر ہے۔ اور کتاب وسنت نے اس میثا قدیم کی خبر دی ہے کہ جہاں عقل کی رسائی نہیں اور معتزلہ کے نزدیک اگر میثاق قالی اور ازلی کے انکار کی وجہ یہ ہے کہ وہ یاد نہیں رہا تو بہت سے لوگوں کو میثاق عقلی اور حالی بھی یاد نہیں۔ میثاق حالی کے دلائل عقلیہ یعنی دلائل آفاقیہ اور دلائل انفسیہ ان کی نظروں کے سامنے ہیں مگر وہ ان کو نظر نہیں آتے۔ چناچہ فرماتے ہیں اور اے نبی آپ لوگوں کو وہ واقعہ یاد دلائیے کہ جب تیرے پروردگار نے آدم کی پشت سے ان کی ذریت کو نکالا اور پھر اولاد آدم کی پشتوں سے ان کو توالد اور تناسل کی ترتیب کے مطابق نکالا یعنی جس ترتیب سے دنیا میں نسلا ً بعد نسل پیدا ہونگے اسی ترتیب سے ان کی پیٹھوں سے ان کی نسل کو نکالا اور ان کو عقل و شعور عطا کیا اور جس قدر ملائکہ اور مخلوقات اس وقت موجود تھے سب کے سامنے یہ عہد لیا تاکہ سب گواہ رہیں اور حجت قائم کرنے کے لیے خود انہی کو ان کی ذات پر گواہ بنایا اور ان سے پوچھا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں انہوں نے کہا کیوں نہیں بیشک تو ہمارا رب ہے اور ہم فقط مقر اور معترف نہیں بلکہ ہم اپنے اس اقرار کے خود ہی گواہ بھی ہیں اور وحدانیت سے بیخبر تھے یا یہ کہنے لگو کہ شرک تو ہم سے پہلے ہمارے آباء و اجداد نے کیا اور ہم ان کے بعد ان کی نسل تھے جیسا ہم نے ان کو کرتے دیکھا ویسا ہی ہم نے کیا ہمیں کیا معلوم تھا کہ تو رب العالمین اور وحدہ لاشریک لہ ہے پس کیا تو ہم کو دوزخ میں ڈال کر اس جرم کی پاداش میں ہلاک کرتا ہے جو ہم سے اگلے ناحق پرستوں نے کیا سو اس عہد اور اقرار اور ذاتی شہادت کے بعد تمہارا یہ عذر ختم ہوا۔ اب قیامت کے دن تم یہ عذر نہیں کرسکتے کہ ہم سے غفلت ہوئی اس لیے کہ جب خدا تعالیٰ نے پیغمبروں کی زبانی اس عہد کو یاد دلادیا تو پھر عذر کی گنجائش باقی نہیں رہی کیونکہ جب دلائل قطعیہ سے یاد دہانی کرادی گئی تو بمنزلہ تذکر ہی کے ہے انبیاء کرام کی یاد دہانی کے بعد نہ انکار کی مجال ہے اور نہ شک وشبہ کی گنجائش ہے اور جس طرح ہم نے عہد الست کو بیان کیا اسی طرح ہم کھول کھول کر اپنی ربوبیت اور الوہیت کی نشانیاں بیان کرتے ہیں تاکہ ان میں غوروفکر کریں اور تاکہ معلوم ہوجانے کے بعد ہماری ربوبیت اور الوہیت کے اقرار کی طرف رجوع کریں اور کفر وشرک سے باز آجائیں اور فطرت سابقہ کی طرف لوٹ جائیں۔ لطائف و معارف 1 ۔ یہ آیت عام اصطلاح میں آیت میثاق کہلاتی ہے اور جس عہد کا اس میں ذکر ہے اس کو عہد الست کہتے ہیں 2 ۔ جمہور مفسرین اور محدثین اس آیت کی تفسیر یوں بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ازل میں حضرت آدم کی تمام اولاد کو جو قیامت تک پیدا ہونے والی تھی ان کی پشت سے نکالا اور ان سے پوچھا کہ کیا میں تمہارا پروردگار نہیں۔ سب نے اقرار کیا اور بلی کہا کہ بیشک تو ہمارا پروردگار ہے پھر ان کو آدم کی پشت میں واپس کردیا اور یہی مضمون بیشمار احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اور یہی اہلسنت والجماعت کا مذہب ہے اور مقصود یہ ہے کہ اللہ کی محبت اور اس کی معرفت انسان کی فطرت میں داخل ہے۔ معتزلہ اور مدعیان عقل اس آیت کی تفسیر دوسری طرح کرتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ہم نے آدم کی پشت سے اس کی ذریت کو نکالا بلکہ یہ فرمایا ہے کہ ہم نے بنی آدم کی پشت سے ان کی ذریات کو نکالا۔ پس آیت کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہم نے بنی آدم کی پشتوں سے توالد اور تناسل کے طریقہ ان کی اولاد کو نکالا اس طرح پر کہ ان کے نطفے عورتوں کے رحم میں واقع ہوئے پھر وہ خون بنے پھر گوشت کا لوتھڑا پھر اور کئی تغیرات کے بعد وہ انسانی صورت میں رحم مادر سے باہر آئے پھر جب وہ سن تمیز کو پہنچے تو خدا تعالیٰ نے ان میں عقل پیدا کی جس سے وہ نیک وبد میں تمیز کرنے لگے اور اللہ تعالیٰ کے دلائل ربوبیت اور وحدانیت کو پہچاننے لگے اور ان کے دل نے اس بات کی شہادت دی کہ بیشک کوئی ان کا خالق اور پوردگار ہے گویا خدا تعالیٰ نے بواسطہ ان دلائل قدرت کے جو ان کی نظروں کے سامنے تھے ان سے یہ سوال کیا کہ میں تمہارا پروردگار نہیں۔ سب نے بزبان حال اس کا جواب دیا کہ بلی بیشک تو ہمارا پروردگار ہے اور ہم اپنے اس اقرار پر گواہ ہیں پس ان لوگوں کے نزدیک اس آیت کا تمام مضمون بطور تمثیل ہے نہ بطور حقیقت اور مطلب آیت کا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسانی فطرت ایسی بنائی ہے کہ اگر وہ اپنی خلقت کے عجائب اور اپنی صنعت کے غرائب پر نظر کرے جو خود اس کے اندر موجود ہیں تو اس کو معلوم ہوجائیگا کہ یہ سب چیزیں خدا تعالیٰ کی ربوبیت اور وحدانیت پر گواہ ہیں۔ اہل سنت والجماعت یہ کہتے ہیں کہ معتزلہ کی یہ تمام تاویلات نہایت رکیک اور بےمعنی ہیں۔ جن کی احادیث صحیحہ اور صریحہ اور اجماع صحابہ وتابعین کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں۔ 3 ۔ اس آیت میں بنی آدم کے پشتوں سے ان کی اولاد اور ذریت کا نکالنا ذکر کیا ہے اور آدم (علیہ السلام) کا ذکر نہیں کیا اس لیے کہ سب کو معلوم ہے کہ آدم (علیہ السلام) سب کے باپ ہیں اور سب انہی کی پشت سے نکلے ہیں اور مسند احمد اور نسائی اور مستدرک حاکم میں باسناد صحیح عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کی پشت سے ان کی ذریت کو نکالا اور سامنے بکھیر دیا جیسے چیونٹیاں اور پھر ان سے بالمشافہ کلام کیا الست بربکم، سب نے جواب میں بلی کہا۔ الی آخر الایۃ (دیکھو تفسیر ابن کثیر ص 261 ج 2) اور یہی مضمون حضرت عمر اور حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی احادیث میں آیا ہے (دیکھو تفسیر قرطبی ص 315 ج 7) اور ابو ہر ہرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی پشت پر ہاتھ پھیرا تو قیامت تک پیدا ہونے والی ذریت ان کی پشت سے نکل پڑی اور ہر شخص کی دو آنکھوں کے درمیان نوری کی ایک چمک رکھی پھر سب کو آدم (علیہ السلام) پر پیش کیا گیا آدم نے عرض کیا کہ اے رب یہ کون ہیں۔ فرمایا یہ تیری ذریت ہے پھر آدم (علیہ السلام) پر پیش کیا گیا آدم نے عرض کیا کہ اے رب یہ کون ہیں فرمایا یہ تیری ذریت ہے پھر آدم (علیہ السلام) کی ایک انسان پر نظر پڑی جس کی آنکھوں کے درمیان کا نور بہت چمک رہا تھا پوچھا کہ اے پروردگار یہ کون ہے فرمایا کہ یہ ایک آدمی ہے جو تیری ذریت کے پچھلی امتوں میں ہوگا اس کا نام داود ہے عرض کیا کہ اے پروردگار اس کی عمر کتنی مقرر کی ہے فرمایا ساٹھ سال عرض کیا اے پروردگا میری عمر میں سے اس کو چالیس سال دے دیجئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی درخواست قبول کی۔ الی آخر الحدیث رواہ الترمذی وقال ہذا حدیث حسن صحیح۔ نکتہ حضرت آدم نے حضرت داود کی پیشانی میں جو نور دیکھا شاید وہ نور خلافت الہیہ کا ہوگا جو حضرت آدم کے نور خلافت سے ملتا جلتا ہوگا۔ واللہ اعلم۔ بعد ازاں اللہ تعالیٰ نے ان ارواح کو اصلاب آباء میں لوٹا دیا جیسا کہ ابن عباس سے مروی ہے ثم ردھم فی اصلاب آبائھم حتی اخرجھم قرنا بعد قرن اخرجہ ابو الشیخ 4 ۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم کے دائیں جانب سے جو ذریت نکالی گئی وہ سفید اور نورانی تھی اور بائیں جانب سے جو ذریت نکالی گئی وہ سیاہ اور ظلماتی تھی اور آیت یوم تبیض وجوہ وسود وجوہ میں اسی طرف اشارہ ہے دائیں جانب سے جو نکالے گئے وہ اصحاب الیمین ہیں اور بائیں جانب سے جو نکالے گئے وہ اصحاب الشمال ہیں۔ ابو طاہر قزوینی (رح) تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اصحاب الیمین ہیں اور بائیں جانب سے جو نکالے گئے وہ اصحاب الشمال ہیں۔ ابو طاہر قزوینی (رح) فرماتے ہیں کہ اصحاب یمین پر تجلی ہیبت وقہر تھی اس لیے انہوں نے جبراً وقہراً بلی کہا اس لیے دنیا میں آکر دوسری راہ پر پڑگئے۔ 5 ۔ جمہور مفسرین اس طرف گئے ہیں کہ یہ عہد حضرت آدم کے پیدا ہونے کے بعد اور جنت میں داخل ہونے سے پہلے لیا گیا اور بعج کہتے ہیں کہ جنت میں داخل ہونے کے بعد ہبوط من السماء سے پہلے لیا گیا اور بعض کہتے ہیں کہ ہبوط یعنی آسمان سے اترنے کے بعد زمین پر لیا گیا۔ علامہ آلوسی فرماتے ہیں کہ ان روایات میں تطبیق وتوفیق مشکل ہے حضرات صوفیائے کرام یہ فرماتے ہیں کہ مختلف مواضع میں مختلف قسم کے عہد اور میثاق لیے گئے واللہ اعلم (دیکھو روح المعانی ص 93 ج 9) 6 ۔ جمہور مفسرین اس طرف گئے ہیں کہ یہ عدہ حضرت آدم کے پیدا ہونے کے بعد اور جنت میں داخل ہونے سے پہلے لیا گیا اور بعض کہتے ہیں کہ جنت میں داخل ہونے کے بعد ہبوط من السماء سے پہلے لیا گیا اور بعض کہتے ہیں کہ ہبوط یعنی آسمان سے اترنے کے بعد زمین پر لیا گیا۔ علامہ آلوسی فرماتے ہیں کہ ان روایات میں تطبیق وتوفیق مشکل ہے حضرات صوفیائے کرام (رح) تعالیٰ یہ فرماتے ہیں کہ مختلف مواضع میں مختلف قسم کے عہد اور میثاق لیے گئے واللہ اعلم۔ (دیکھو روح المعانی ص 93 ج 9) 6 ۔ اگر کسی کو یہ شبہ ہو کہ وہ عہد تو یاد نہیں رہا تو پھر کیا حاصل تو اس کو یوں سمجھئے کہ وہ عہد اگرچہ یاد نہیں رہا مگر اس کا نشان تو ہر ایک دل میں موجود ہے انسان کے دل میں قدرتی طور پر حق تعالیٰ کی طرف ایک میلان پایا جاتا ہے جب کبھی کوئی پریشانی پیش آتی ہے تو دل خدا کی طرف دوڑتا ہے اور اس سے اس مصیبت کے دفعیہ کا طلبگار اور امیدوار ہوتا ہے پس انسان کا دل خود اندر سے گواہی دیتا ہے کہ کوئی میرا پروردگار ضرور ہے بہرحال یہ میلان تمام طبیعتوں میں پایا جاتا ہے کسی میں کم اور کسی میں زیادہ خواہ وہ اس میلان کے منشاء کو سمجھے یا نہ سمجھے اور اس کے مقتضاء پر عمل کرنے کو آمادہ ہو یا نہ ہو اب رہا یہ امر کہ اس طبعی اور فطری میلان کا منشاء کیا ہے سو معلوم یوں ہوتا ہے کہ اس پیدائش سے پہلے انسان کو جناب باری تعالیٰ کی کسی قسم کی تجلی ضرور میسر آئی ہے جس کے سبب اس کے دل میں خدا کی محبت اس قدر جم گئی ہے کہ صدہا تکالیف اٹھاتا ہے اور پھر بھی خدا ہی کی طرف جھکتا ہے ورنہ کسی چیز کی محبت بےدیکھے اور بےبرتے پیدا نہیں ہوسکتی بس یہ بطعی میلان روز الست یا یوم میثاق کا ایک نشان ہے کہ اس وقت اپنے پروردگار کو دیکھا ہے اور اسی ایک جلوہ نے سب کو پروردگار کا عاشق بنادیا ہے تمام افراد بشر کا اقرار ربوبیت پر متفق ہونا اور یقین کے ساتھ اقرار کرنا کہ کوئی ہمارا پروردگار ہے سو یہ طبعی میلان اور فطری اذعان اسی پرانے عہد میثاق کا دھندلا سا نشان ہے کہ جو ایک لمحہ دو لمحہ یا ایک گھڑی دو گھڑی کے لیے پیش آیا سو ظاہر ہے کہ ایک گھڑی یا دو گھڑی کے قصہ کو مرور زمانہ اور انتقال مکانی سے بھول جانا کوئی مستبعد نہیں تھوڑی دیر کے لیے عہد الست کے وقت سب نے اپنے خدائے پروردگار کے جمال بےمثال کو دیکھا ہے اس لیے خدا کی محبت فطری طور پر دلوں میں ایسی راسخ اور پختہ ہوگئی کہ کسی طرح نکالنے نہیں نکلتی اور اگر کسی شخص میں یہ دیکھو کہ اس میں خدا کا میلان بالکل نہیں تو سمجھ لو کہ اس کی انسانی فطرت بالکل مسخ ہوچکی ہے اور خارجی اثرات کیوجہ سے انسانی خصلتیں سلب اور نابود ہوجاتی ہیں جیسے بعض اوقات خارجی اثرات سے خدا کا میلان طبیعت سے بالکل نکل جاتا ہے جو اس بات کی نشانی ہے کہ اس منکر خدا کی فطرت انسانی مسخ ہوچکی ہے اکثر عالم بلکہ تمام عالم کا اس میلان پر متفق ہوجانا اس امر کی نشانی ہے کہ کبھی نہ کبھی یہ بات کان میں پڑی ہے جو ہر ایک کی زبان پر آتی ہے مگر یہ امر کہ یہ بات کس موقعہ اور محل پر کان میں پڑی ہے وہ یاد نہیں رہا مکان اور زمان اگرچہ یاد نہیں رہا مگر اس کا نشان تو موجود ہے مرور زمانہ کی وجہ سے یہ عہد یاد نہیں رہا جس وقت عہد لیا گیا تھا اس وقت ذریت چھوٹے چھوٹے ذرات کی مقدار میں تھی اس وقت سے لے کر توالد اور تناسل تک ایک طویل عرصہ گزرا اور ذرات مختلف اطوار اور ادوار سے گزرتے رہے یہاں تک کہ اس عالم فانی میں داخل ہوئے تو مدت مدیدہ کا یہ عہد بھول گئے (دیکھو الیواقیت والجواہر ص 115 ج 1) اور حق جل شانہ کا یہ ارشاد وذکر فان الذکری تنفع ال مومنین۔ فذکر انما انت مذکر اسی طرف مشیر معلوم ہوتا ہے اس لیے کہ اس قسم کی آیتوں میں تذکیر کا حکم دیا گیا ہے اور تذکیر کے اصل معنی لغت میں بھولی ہوئی بات کو یاد دلانے کے ہیں اسی طرح سمجھو کہ عہد الست کے بھولے ہوئے سبق کو انبیاء کرام نے یاد دلایا اس وجہ سے علماء کی ایک جماعت یہ کہتی ہے کہ کافر کو جو بچہ شعور وادراک سے پہلے مرجائے وہ جنت میں جائیگا اس لیے کہ اس کے عہد اور میثاق میں کوئی تغیر نہیں آیا البتہ کافر کی جو الواد بالغ ہو کر یہودی یا نصرانی ہوجائے اور اسی پر وہ مرجائے تو وہ جہنم میں جائے گی اس لیے کہ اس نے روز اول کے میثاق کو توڑ دیا۔ 7 ۔ اور عہد الست میں سب سے پہلا خطاب حق تعالیٰ کی طرف سے یہ تھا۔ الست بربکم ربوبیت کے متعلق سوال تھا اسی طرح مرنے کے بعد قبر میں پہلا سوال اللہ تعالیٰ کی ربوبیت ہی کے متلعق ہوتا ہے قبر میں منکر نکیر سب سے ہلے یہی سوال کرتے ہیں من ربک تیرا رب کون ہے ازل میں بھی الست بربکم فرمایا اور قبر میں بھی رب ہی کے متعلق سوا ال ہوا۔ 8 ۔ نفحات میں مذکور ہے کہ علی سہیل اصفہانی قدس سرہ سے لوگوں نے پوچھا کہ آپ کو روز بلی یاد ہے تو فرمایا کیوں نہیں مجھے روز بلی ایسا یاد ہے جیسے کل گزشتہ۔ کسی نے یہ کلام شیخ الاسلام خواجہ عبداللہ انصاری سے ذکر کیا تو فرمایا کہ اس جواب میں نقصان ہے جو کل گزر گئی یا جو کل آئے گی اس سے صوفی اور درویش کو کیا مطلب اس روز کی تو ابھی شام بھی نہیں ہوئی اور صوفی اور درویش تو ابھی اسی دن میں ہے۔ روز امروز است اے صوفی وشان : کے بود ازدی واز فردا نشان آنکہ از حق نیست غافل یکنفس : ماضی ومستقبلش حال است وبس 9 ۔ شیخ عبدالوہاب شعرانی (رح) تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان سب کو آدم (علیہ السلام) کی پشت کی بالوں کی مسامات کی راہ سے نکالا پھر ان سے کہا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں انہوں نے گویائی کے ذریعے سے جواب دہا اور بلی کہا اور وہ اسی حالت میں زندہ اور صاحب عقل تھے اور عقلاً یہ امر محال نہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں باوجود اس قدر چھوٹے ہونے کے حیات اور عقل دید سے آخر وہ حیوانات جو بذریعہ خورد بین نظر آتے ہیں کسی قدر ادراک اور شعور ان کو بھی حاصل ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے رزق حاصل کرنے کی سعی کرتے ہیں اور ان میں توالد اور تناسل بھی ہے اور وہ ایذا رساں چیزوں سے بچتے بھی ہیں اور اگر کوئی ان کی راہ میں آجاتا ہے تو اس سے کترا جاتے ہیں تو جب یہ باتیں اہل سائنس کے نزدیک بھی مسلم ہیں تو عہد الست کے واقعہ سے کیوں تعجب کرتے ہیں۔ خدا کی قدرت کے لحاظ سے اس میں کوئی استبعاد نہیں اور ظاہر یہ ہے کہ وہ ذرات انسان کی صورت پر ہونگے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ذریت کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ ذرات کا لفظ نہیں فرمایا اور لغت میں ذریت کا اطلاق اسی چیز پر آتا ہے جس کی صورت بن چکی ہو باہمی امتیاز کا ذریعہ یہی صورت اور شکل ہے۔ 17 ۔ امام رازی (رح) فرماتے ہیں کہ بدن انسانی میں دو قسم کے اجزاء ہوتے ہیں کیونکہ یہ امر مشاہدہ اور ہدایت سے ثابت ہے کہ ابتداء ولادت سے لے کر اخیر عمر تک بدن کے اجزاء میں کمی اور زیادتی ہوتی رہتی ہے ابتداء ولادت کے وقت بدن دو بالشت تھا اور اخیر عمر میں سات آٹھ بالشت کا ہوگیا۔ بدن کبھی فربہ ہوتا ہے اور کبھی لاغر مگر ہر حال میں یہ شخص وہی کہلاتا ہے کہ جو ابتداء ولادت کے وقت تھا پس جو اجزاء اول عمر سے اخیر عمر تک باقی رہتے ہیں وہ اجزاء اصلیہ ہیں اور جن اجزاء بدن میں کمی اور زیادتی ہوتی رہتی ہے وہ اجزاء زائدہ ہیں پس اس آیت اور جن احادیث میں بنی آدم کی پشتوں سے ان کی اولاد کا نکالنا آیا ہے سو وہ اجزاء اصلیہ کا نکالنا مراد ہے اور اصلی اور حقیقی انسان یہی اجزاء اصلیہ ہیں اور روح کا تعلق انہی اجزاء اصلیہ کے ساتھ ہوتا ہے پس حقیقی انسان جو احکام شرعیہ کا مخاطب اور مکلف ہے وہ یہی ذرات ہیں جن کے ساتھ روح متعلق ہے اور قیامت کے دن درحقیقت انہی اجزاء اصلیہ کو دوبارہ زندہ کیا جائیگا اور انہی اجزاء اصلیہ کے ساتھ روح متعلق کر کے حساب و کتاب و عذاب وثواب دیا جائیگا جس طرح دنیاوی زندگی میں روح کا اصل انہی اجزاء اصلیہ کے ساتھ تھا اسی طرح بعث بعد الموت کے وقت بھی زائد اجزاء ان کے ساتھ ملادئیے جائیں گے (امام رازی کا کلام ختم ہوا) 11 ۔ حکمت جدیدہ نے کلاں بینوں اور مائیکرومیٹرے سے (جو باریک اجسام کی مقدار معلوم کرنے کا آلہ ہے) یہ دریافت کیا ہے کہ پانی کے ایک چھوٹ قطرہ میں اتنے حیوانات ہوتے ہیں کہ تمام روئے زمین پر اتنے ادمی نہیں ہوتے اور ان میں توالد اور تناسل بھی جاری ہے اور باوجود اس کثرت کے نہ ان میں اژدحام معلوم ہوتا ہے اور نہ کوئی کسی سے ٹکراتا ہے حالانکہ ان کی حرکت نہایت سریع ہے اور یہ وہ حیوانات ہیں جو موجودہ کلاں بینوں سے نظر آتے ہیں اگر ان کلاں بینوں سے زیادہ قوت والی کلاں بین ہو تو معلوم نہیں کہ اور کتنے محسوس ہونگے (دیکھو ! مقاصد الاسلام حصہ سوم ص 32 ج 3 وحصہ ہفتم ص 39 ج 7 ۔ مصنفہ مولانا انوار اللہ خان صاحب حیدر آبادی) نیز حکمت جدیدہ کی رو سے ایک تخم میں کروڑہا کروڑ متامیز اجزاء موجود ہوتے ہیں جو آئندہ درختوں کا تخم بنتے ہیں اور ایک قطرہ منی میں کروڑہا کروڑ ایسے متمائز اجزاء موجود ہوتے ہیں جو صدہا سال کی آنے والی نسلوں کا مادہ بنتے ہیں یہ دلدادگان مغربیت یہ سب کچھ بلا دلیل ماننے کے لیے تیار ہیں۔ مگر خدا تعالیٰ نے جو حضرت آدم کی پشت سے ذریت نکالنے کی خبر دی ہے اس کے ماننے کے لیے تیار نہیں۔
Top