Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 19
وَ یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَیْثُ شِئْتُمَا وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ
وَيٰٓاٰدَمُ
: اور اے آدم
اسْكُنْ
: رہو
اَنْتَ
: تو
وَزَوْجُكَ
: اور تیری بیوی
الْجَنَّةَ
: جنت
فَكُلَا
: تم دونوں کھاؤ
مِنْ حَيْثُ
: جہاں سے
شِئْتُمَا
: تم چاہو
وَلَا تَقْرَبَا
: اور نہ قریب جانا
هٰذِهِ
: اس
الشَّجَرَةَ
: درخت
فَتَكُوْنَا
: پس ہوجاؤ گے
مِنَ
: سے
الظّٰلِمِيْنَ
: ظالم (جمع)
اور (ہم نے) آدم (سے کہا کہ) تم اور تمہاری بیوی بہشت میں رہو سہو اور جہاں سے چاہو (اور جو چاہو) نوش جان کرو مگر اس درخت کے پاس نہ جانا ورنہ گنہگار ہوجاؤ گے۔
تتمہ : اور ہم نے آدم کو کہا کہ اے آدم تم اور تمہاری بیوی حوا فی الحال جنت میں سکونت اور قیام یعنی سر دست جنت ہی میں رہو پھر اس میں سے جہاں سے چاہو کھاؤ پیو لیکن اس خاص درخت کے قریب نہ جانا ورنہ تم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجاؤ گے، ظلم کے اصل معنی لغت میں نقصان اور کمی کے آتے ہیں کما قال تعالیٰ ولم تظلم منہ شیئا اس لیے ہم نے ظالم کا ترجمہ گنہگار سے نہیں کیا بلکہ نقصان اٹھانے والے کیا اور یہی زیادہ مناسب ہے ابلیس چونکہ آدم کی وجہ سے ملعون اور مطرود ہوچکا تھا اس لیے اس کے دل میں حسد اور اور انتقام کی اگ سلگ رہی تھی حضرت آدم کی یہ نعمت اور کرام دیکھ کر حسد اور انتقام کی آگ اور بھڑک گئی۔ اس لیے ازراہ عداوت اس فکر میں پڑا کہ کسی طرح مکر و فریب سے ان کو اس عیش و عشرت اور اعلیٰ مقام سے علیحدہ کرایا جائے۔ 1 ۔ ادھر کچھ قرآئن سے حضرت آدم کو یہ محسوس ہوا کہ مجھے ایک دن یہ مقام کریم چھوڑ کر دنیا میں جانا ہوگا کیونکہ زمین کی مٹی میری فطرت میں داخل ہے اور اسی سے میرا خمیر تیار ہوا ہے۔ بتقاضائے ان کو یہ اندیشہ تھا کہ میرا خمیر مجھ کو زمین کی طرف کھینچ کر نہ لے جائے اس لیے کہ اصل اپنی فرع کے لیے جاذب ہوتی ہے اس بناء پر حضرت آدم کو یہ اندیشہ ہوا کہ مبادا کسی وقت بتقاضائے فطرت مجھ کو زمین کی طرف کھنچنا پڑے۔ 2 ۔ علاوہ ازیں تمام فرشتوں میں میری خلافت ارضی کا اعلان ہوچکا ہے اور اسی کے لیے مجھ کو پیدا کیا گیا ہے کما قال تعالیٰ واذا قال ربک للملئکۃ انی جاعل فی الارض خلیفۃ لہذا ایک نہ دیک دن مجھ کو منصب خلافت کی ادائیگی کے لیے زمین پر اترنا پڑے گا اس لیے حضرت آدم کو اپنے خلود جنت کی طرف سے ہر وقت کھٹکا لگا رہتا تھا۔ 3 ۔ نیز اس اعلان خلافت کے بعد حق تعالیٰ کا حضرت آدم کو یہ حکم دینا اسکن انت وزوجک الجنۃ اس طرف مشیر ہے کہ یہ حکم چند روزہ سکونت کا ہے دائمی قیام کا حکم نہیں کیونکہ اسکن فرمایا ہے اقم نہیں فرمایا اس حکم کو سن کر حضرت آدم نے زبان سے تو کچھ نہ فرمایا مگر دل میں ڈر گئے اور چونکہ حضرت آدم خداوند ذوالجلال کے عاشق صادق تھے جنت کے قیام کو اس لیے مغتنم سمجھتے تھے کہ بہشت کا قیام قرب خداوندی کا ذریعہ جس سے بڑھ کر عاشق صادق کی نظر میں کوئی چیز محبوب اور مطلوب نہیں ابلیس نے یہ خیال کیا کہ عاشق صادق کو قرب کی طمع اور لالچ دیکر چکمہ دیا جاسکتا ہے۔ اس لیے اس نے حضرت آدم اور حواء سنتے ہی اس کی طرف مائل ہوجائیں کیونکہ زیادتی قرب یا دوام قرب عاشق کی عین تمنا اور آرزو ہے۔ عاشق صادق کی شان تو یہ ہوتی ہے۔ تلخ تر از فرقت تو، ہیچ نیست بےپناہت غیر پیچا پیچ نیست (یعنی تیری جدائی سے زیادہ تلخ کوئی چیز نہیں اور بغیر تیری پناہ کے سوائے الجھن اور حیرانی کے کچھ نہیں) پس شیطان نے اس راہ سے ان دونوں کے دل میں وسوہ ڈالا تاکہ اس درخت سے کھانے سے وہ قابل شرم چیز جو ان کی جو ان کی مستور تھی وہ ان کے سامنے ظاہر کردے یعنی ان پر ان کی شرمگاہیں ظاہر ہوجائیں کیونکہ اس درخت کی خاصیت ہی یہ تھی کہ اس کے کھانے کے بعد جنت کا لباس بدن سے اتر جائے اور وہ وسوسہ جس کے ذریعے ابلیس نے حضرت آدم اور حواء (علیہما السلام) کو دھوکہ دیا وہ یہ تھا کہ آدم اور حوا سے یہ کہا کہ نہیں منع کیا تم کو تمہارے پروردگار نے اس درخت کے کھانے سے مگر اس خطرہ سے کہ تم دونوں اس کو کھا کر مبادا فرشتے نہ ہوجاؤ کہ فرشتوں کی طرح کھانے اور پینے سے مستغنی ہوجاؤ اور فرشتوں کی طرح تسبیح و تقدیس تمہاری غذا بن جائے اور فرشتوں کی طرح اطاعت خداوندی تمہاری طییعت اور مزاج بن جائے اور معصیت کا احتمال بھی باقی نہ رہے یا اگر فرشتے نہ بنو تو ہمیشہ زندہ رہنے والوں میں سے ہوجاؤ کہ موت کا خطرہ باقی نہ رہے کیونکہ اس کے کھانے میں یہ دونوں خاصیتیں ہیں شیطان کا مطلب یہ تھا کہ اے آدم تم کو جو خلود فی الجنت کی طرف سے کھٹکا لگا رہتا ہے اس کے ازالہ کی صورت یہ ہے کہ آپ اس دانۂ گندم کو کھا لیجئے تو آپ کو بہشت کا مدامی قیام حاصل ہوسکے گا آپ کے خلود اور بقاء میں صرف یہ مانع ہے آپ اس کو اٹھا دیجئے آپ کا مقصود جو قرب دائمی ہے وہ آپ میسر آجائے گا جیسا کہ دوسری جگہ ہے۔ یا آدم ھل ادلک علی شجرۃ الخلد وملک لا یبلی اور ابتداء میں جو آپ کو ممانعت کی گئی تھی سو غالباً اس وقت ملکیت اور حیات ابدیہ آپ کے مناسب حال نہ تھی اور اب آپ ترقی کر گئے ہیں جس سے آپ میں اس کی صلاحیت پیدا ہوگئی ہے جو آپ کے حال کے مناسب ہے اس لیے اب اس درخت کے کھالینے میں کوئی حرج نہیں۔ اور اس کے بعد شیطان دونوں کے روبرو قسم کھا کر کہنے لگا کہ خدا کی قسم میں تمہارے خیر خواہوں میں ہوں یعنی اگرچہ میں تمہارا دشمن ہوں مگر خدا کی قسم یہ بات تو تمہاری خیر خواہی سے کہہ رہا ہوں اور محض بطور خیر خواہوں میں ہوں یعنی اگرچہ میں تمہارا دشمن ہوں مگر خدا کی قسم یہ بات تو تمہاری خیر خواہی سے کہہ رہا ہوں اور محض بطور خیر خواہی خلود اور بقاء کا یہ طریقہ تم کو بتلا رہا ہوں چونکہ میں تم سے پہلے اس جگہ رہا ہوں اس لیے میں یہاں کیے احوال اور اطوار سے بخوبی واقف ہوں اور خدا کی قسم میں تم سے پہلے پیدا ہوا ہوں اور تم سے زیادہ یہاں کا علم رکھتا ہوں اس لیے بطور خیر خواہی تم کو یہ مشورہ دے رہا ہوں حضرت آدم کے دل میں حق جل شانہ کی عظمت اس درجہ راسخ تھی کہ ان کو یہ شبہ بھی نہ گزرا کہ کوئی خدا کے نام سے جھوٹی قسم کھانے کی جرأت بھی کرسکتا ہے اور حکم شرعی بھی یہی ہے کہ جب کوئی خدا کی قسم کھائے تو اس کی بات مان لینی چاہئے اس لیے حضرت آدم اور حواء اس کے دھوکے اور فریب میں آگئے جس سے حضرت آدم کا کمال اور جمال بھی ظاہر ہوا کہ خداوند ذوالجلال کے کس درجہ شیدائی اور فدائی تھے کہ اس کا نام سن کر پگھل گئے اور کسی نے کیا خوب کہا ہے قد یخدع المومن باللہ یعنی مومن اللہ کا نام سن کر دشمن کے فریب میں آجاتا ہے عاشق سے جب محبوب کا نام لے کر کچھ کہا جاتا ہے تو اس وقت اس کے دل کا حال کچھ اور ہوتا ہے اس لیے ادم (علیہ السلام) اس کی جھوٹی قسموں کا اعتبار کر بیٹھے اور ان کو اس کی خیر خواہی کا یقین ہوگیا۔ اور اس سے پہلے ان کو کسی مکار اور فریبی سے واسسطہ بھی دھوکہ سے بلندی سے اتار کر پستی کی طرف ڈال دیا۔ اور دانہ گندم کے کھانے کی طرف ان کو مائل کردیا۔ پس جونہی انہوں نے اس درخت کے پھل کو چکھا تو ان کا ستر کھل گیا۔ جو اس درخت کی خاصیت تھی وہ ظاہر ہوئی اور بہشتی لباس ان سے اتر گیا اور وہ شرما گئے اور شرما کر اپنے اوپر بہشت کے درختوں کے پتے چپکانے لگے تاکہ اپنے ستر کو چھپائیں۔ اور اس وقت ان کے رب نے ان کو پکارا کیا میں نے تم کو اس درخت کے کھانے سے منع نہیں کردیا تھا اور کیا میں نے تم سے یہ نہیں کہ دیا تھا کہ تحقیق یہ شیطان ہر چیز میں تمہارا دشمن ہے اس سے بچتے رہنا اگرچہ وہ قسمیں کھا کر خیر خواہی جتلائے پھر تم اس کے کہنے میں کیوں آگئے دونوں بولے اے پروردگار ہم قصور وار ہیں اور تیری مغفرت اور رحمت کے امیدوار ہیں بیشک ہم نے ابلیس کے فریب میں آکر اپنی جانوں کو نقصان پہنچایا۔ اور اپنا ہی کام خراب کیا کہ ہمارا یہ جنتی لباس بدن سے اتر پڑا حکم عدولی سے تیرا کوئی نقصان نہیں بیشک ہم اگر عزم اور حزم یعنی تامل اور احتیاط سے کام لیتے تو یہ نقصان نہ دیکھتے اور اگر آپ ہمارا یہ قصور معاف نہ کریں اور آئندہ کے لیے ہم پر اپنالطف وکرم نہ فرمائیں تو بیشک ہم خسارہ اور نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے اور اگر آپ نے اپنی مغفرت اور رحمت سے ہم کو نواز دیا تو ہمارا یہ خسارہ مبدل بہ منفعت ہوجائے گا۔ شیطان نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو دوام قرب خداوندی کے حصول کا ایک ذریعہ بتلایا جو ان کی تمنا اور آرزو تھی اس لیے اس ذوق وشوق کی حالت میں حق تعالیٰ کے حکم لا تقربا ھذہ الشجرۃ اور ان ھذا عدو لک ولزوجک فلا یخرجنکما من الجنۃ فتشقی سے ذہول اور نسیان ہوا اور یہ بھی خیال نہ رہا کہ جب میں مسجود ملائکہ بن چکا ہوں تو اب ملک (فرشتہ) بننے کی کیا ضرورت رہی کما قال تعالیٰ فنسی ولم نجد لہ عزما۔ مگر اس کو قرب الٰہی کا زریعہ سمجھ کر گزرے اور ظاہر ہے کہ اگر بھول کر کوئی کام خلاف حکم سرزد ہوجائے تو اس کو لغزش اور خطاء اجتہادی کہتے ہیں یہ اگر معصیت ہے تو محض صورۃ معصیت ہے اور حقیقۃ ً معصیت وہ ہے جو دیدہ و دانستہ ہو۔ حضرات انبیاء کا طریقہ یہ ہے کہ جب ان سے کوئی بھول چوک ہوجاتی ہے تو وہ فوراً بارگاہ خداوندی میں معافی کے خواستگار ہوجاتے ہیں اور اپنی لغزش کی کوئی تاویل نہیں کرتے تاویل بھی خلاف ادب ہے اسی وجہ سے حضرت آدم لغزش کے بعد توبہ اور استغفار کی طرف متوجہ ہوگئے جس سے انکا مرتبہ اور بلند ہوگیا۔ کما قال تعالیٰ وعصی آدم ربہ فغوی ثم اجتبہ ربہ۔ معصیت کے بعد اجتباء کا ذکر اس توبہ اور استغفار کا ثمرہ ہے خوب سمجھ لو۔ اور شیطان نے دیدہ و دانستہ حکم عدولی کی اور اپنے زعم باطل کی توجیہات اور تاویلات شروع کردیں جس سے اور زیادہ ذلیل اور خوار ہو۔ حضرات انبیاء اپنے علو مرتبت اور رفعت اور کمال معرفت کے سبب اپنی ادنی لغزشوں پر بھی مواخذۂ خداوندی سے خائف اور ترساں رہتے ہیں جن پر دوسرے لوگوں سے مواخذہ نہیں ہوتا اور جو اموران سے ازراہ سہو ونسیان سرزد ہوجاتے ہیں ان لغزشوں کو ان کے علو مرتبہ کے لحاظ سے سیئات اور معاصی کے نام سے تعبیر کردیا جاتا ہے ورنہ فی الحقیقت دوسرے لوگوں کے گناہوں کی طرح گناہ نہیں ہوتے بلکہ دوسرے لوگوں کے لیے بمنزلہ نیکی ہوتے ہیں البتہ یہ لغزشیں اور بھول چوک حضرات انبیاء کے مرتبہ کے لحاظ سے بمنزلہ ذنوب کے ہوجاتے ہیں جیسا کہ کہا گیا ہے حسنات الابرار سیئات المقربین یعنی نیکوں کی نیکیاں مقربین کے گناہ ہیں۔ ایں خطا از صد صواب اولی تراست خون شہیداں را از آب اولی تر است چناچہ عارف رومی قدس سرہ السامی، فرماتے ہیں گرچہ یک مؤ بد گنہ کو جستہ بود لیک آں مو در دو دیدہ رستہ بود (اگرچہ وہ گناہ جو ادم (علیہ السلام) سے سرزد ہوا وہ بال کے برابر تھا لیکن وہ بال کے برابر تھا لیکن وہ بال آنکھوں میں ظاہر ہوا) انسان کے جسم پر کم وبیش بال ہوتے ہیں مگر ان سے کوئی تکلیف نہیں ہوتی لیکن آنکھوں کے اندر اگر کوئی بال آجائے تو وہ سخت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ بود آدم دیدۂ نور قدیم موئے در دیدہ بود کوہ عظیم (اسی طرح سمجھو کہ آدم (علیہ السلام) کی ذات بابرکات نور قدیم کے آنکھ کی طرح تھی اور آنکھ جیسی نازک چیز میں ایک بال بھی بمنزلہ ایک بھاری پہاڑ موجب ثقل ہوتا ہے۔ گردراں حالت بکروے مشورت درپشیمانی نہ گفتے معذرت ( ہاں اگر اس حالت میں جبکہ شیطان ان کو اپنی تقدیر سراپا تزویر سے دھوکہ دے رہا تھا۔ حق جل شانہ سے مشورہ کرلیتے کہ اے پروردگار اس بارے میں آپ کا کیا ارشاد ہے تو آدم (علیہ السلام) کو ندامت اور پشیمانی سے معذرت یعنی توبہ اور استغفار کی نوبت ہی نہ آتی کیونکہ حضرت آدم رسول مکلم تھے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے بلا واسطہ ان کو وحی ہوتی تھی وہ اس بارے میں بھی بلا واسطہ حق تعالیٰ سے دریافت کرسکتے تھے لہٰذا ان کی شایان شان یہ تھا کہ جس طرح ان کو بلا واسطہ یہ نہی پہنچی تھی کہ لا تقربا ھذہ الشجرۃ ( اس درخت کے قریب نہ جانا) تو اسی طرح ان کے لیے یہ مناسب تھا کہ جب شیطان نے ان کو یہ مشورہ دیا تھا تو وہ خود خداوند تعالیٰ سے بلا واسطہ دریافت کرتے کہ یہ ابلیس مجھے یہ مشورہ دیتا ہے۔ اس بارے میں کیا حکم ہے اور کیا وہ سابق نہی مرتفع ہوگئی۔ پس حضرت آدم نے وہ چیز ترک کی جو ان کی شان کے لیے اولی اور انسب تھی کہ خدا تعالیٰ سے دریافت کرتے لیکن بھول گئے اور خدا تعالیٰ سے دریافت نہ کیا پس اس ترک اولیٰ کی وجہ سے عتاب آیا اور یہ ترک اولی بھی ان کی شان کے لحاظ سے ہے ورنہ ہمارے لحاظ سے ترک اولیٰ بھی نہیں کیونکہ اللہ کے نام کی قسم سے حجت پوری ہوجاتی ہے۔ خدا تعالیٰ نے فرمایا اگرچہ میں نے تمہاری تقصیر کو معاف کیا اور تمہاری توبہ اور معذرت قبول ہوئی اور آئندہ کے لیے تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ تم پر میری رحمتیں اور برکتیں مبذول ہوں گی لیکن فی الحال یہ حکم دیا جاتا ہے کہ تم جنت سے زمین پر اترو تاکہ تمہاری پیدائش کا مقصد جو خلافت فی الارض ہے اور جس پر تم نامزد ہوچکے ہو۔ وہ زمین پر اترنے ہی سے پورا ہوگا اور باہمی عدل و انصاف جو خلافت کے لواز میں سے ہے وہ جنت میں رہ کر پورا نہیں ہوسکتا۔ خلافت کے لیے باہمی دشمنی اور عداوت چاہئے اور یہ امر جنت میں ممکن نہیں باہمی عداوت کا محل زمین ہے لہذا تم زمین کی طرف اترو وہاں ایک دوسرے کا دشمن ہوگا اور اللہ کا خلیفہ تمہارے درمیان عدل و انصاف کرے گا اور یہ سلسلہ قیامت تک ممتد رہے گا تمہارا یہ ہبوط اگرچہ بظاہر لغزش اور خطا کا اثر معلوم ہوتا ہے لیکن درپردہ مشیت الہیہ کی تکمیل ہے مگر چونکہ اس منصب جلیل یعنی منصب خلافت کی سپردگی جنت سے نکلنے پر موقوف تھی۔ اس لیے اس بھولے سکھانے کو اس کا ایک ظاہری سبب اور بہانہ بنادیا گیا صورۃً اور ظاہر اگرچہ وہ کھانا نزول عتاب کا باعث بنا لیکن درحقیقت وہ ازدیاد مراتب اور عروج مدارج کا سبب بنا۔ خلاصۂ کلام یہ کہ حکم یہ ہوا کہ جنت سے زمین کی طرف اترو اور تمہاری اولاد ایک دوسرے کی دشمن ہوگی اور تمہارے لیے ایک وقت معین تک یعنی مرنے تک زمین میں ٹھہرنا ہے اور سامان دنیوی سے نفع اٹھانا ہے اور وہاں رہ کر جنت کی واپسی کی تیاری کرنا ہے اور یہ شیطان بھی زمین پر جارہا ہے وہاں جا کر اس سے ہوشیار رہنا ہے اور اس کے دھوکہ میں نہ آنا اور پھر چند روز کے بعد تم کو ہماری طرف آنا ہے اور یہ بھی فرمایا کہ تم اسی زمین میں زندگی بسر کرو گے اور اسی میں مرو گے۔ اور پھر قیامت کے قریب اسی میں سے زندہ کر کے نکالے جاؤگے۔ اور حساب کتاب کے بعد تم میں سے جو شخص اپنے باپ آدم کے طریقہ پر چلا ہوگا وہ جنت میں پہنچ جائے گا ورنہ سجین اور اسفل السافلین میں اس کا ہبوط ہوجائے گا۔ لطائف ومعارف 1 ۔ حضرت آدم اللہ سبحانہ کے من کل الوجوہ مقبول اور برگزیدہ بندے تھے کما قال تعالیٰ ان اللہ اصطفی آدم ونوحا وآل ابراہھیم وآل عمران علی العلمین الایۃ۔ ہر اعتبار سے ظاہرا و باطناً خدا کے پسندیدہ اور چیدہ و برگزیدہ تھے حق تعالیٰ شانہ نے خود اپنے دست خاص سے حضرت آدم کو پیدا کیا اور اپنے صفات و کمالات کا انکو آئینہ اور مظہر بنایا جیسا کہ حدیث میں ہے خلق اللہ ادم علی صورتہ پس خلیفہ ساخت صاحب سینۂ تابود شاہیش را آئینہ اور بلا واسطہ اپنے کلام اور خطاب کے شرف سے ان کو شرف بخشا اور خلعت خلافت اور خلعت نبوت و رسالت سے ان کو سرفراز کیا اور مسجود ملائک بنایا تاکہ معلوم ہوجائے کہ نبی اور رسول کا درجہ فرشتوں سے بڑھ کر ہے اور قرب خداوندی میں ان کا مقام ملائکہ کے مقام سے بلند اور برتر ہے جیسا اہلسنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ انبیاء کرام ملائکہ سے افضل ہیں اور جب فرشتوں پر حضرت آدم کا فضل و کمال ظاہر ہوگیا تو خداوند ذوالجلال نے ان کو جنت میں رہنے کا حکم دیا یا آدم اسکن انت وزوجک الجنۃ حضرت آدم جنت کے قیام کو از بس مغتنم سمجھتے تھے کہ وہاں کا قیام قرب خداوندی کا ذریعہ تھا۔ مگر قرائن سے یہ محسوس کرتے تھے کہ مجھے ایک نہ ایک دن یہ مقام چھوڑنا پڑے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو مٹی سے پیدا کیا ہے میری اصل فطرت زمینی ہے مبادا بتقاضائے فطرت کسی وقت مجھ کو زمین کی طرف کھنچنا پڑے کیونکہ فرع کا اصل کی طرف انجذاب ایک فطری امر ہے۔ نیز میری پیدائش کا اصل مقصد خلافت فی الارض ہے نہ معلوم کس وقت اس منصب کی انجام دہی کے لیے زمین پر اترنا پڑے۔ نیز فی الحال جو مجھ کو قیام جنت کا حکم دیا گیا ہے وہ یا آدم اسکن انت وزوجک الجنۃ کے عنوان سے آیا ہے جس سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ یہاں کا قیام دائمی نہیں بلکہ چند روزہ سکونت ہے اس لیے ان کو اپنے خلود فی الجنۃ کی طرف سے کھٹکا رہتا تھا۔ اور باوجود اس علم کے کہ میں مسجود ملائکہ ہوں اور خداوند ذوالجلال نے جو علم اور شرف اور منصب خلافت مجھ کو عطاء کیا ہے وہ ملائکہ کی تسبیح و تقدیس سے افضل ہے۔ خدا تعالیٰ کے عاشق صادق تھے۔ حق تعالیٰ کی محبت بےغایت کی وجہ سے قیام جنت کو قرب خداوندی کا ذریعہ سمجھ کر اس کی طرف مائل تھے اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کوئی افضل اور جلیل المرتبہ اپنے سے کمتر اور فروتر کی کسی نعمت اور فضیلت کی طرف کسی عارض کی بناء پر مائل ہوجاتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن کچھ لوگ ایسے ہوں گے کہ ان کی سہولت اور خفت کو دیکھ کر انبیاء کرام بھی ان پر غبطہ کریں گے سو یہ غبطہ اس بناء پر نہ ہوگا کہ وہ لوگ انبیاء سے افضل ہوں گے بلکہ کسی سہولت اور راحت کی بناء پر ہوگا اسی طرح حضرت آد کو باوجود افضلیت اور باوجود فضل کلی کے اگر ملائکہ کے بعض جزئی فضائل کی طرف میلان ہوجائے تو یہ میلان ان کی افضلیت کے منافی نہیں۔ شیطان نے حضرت آدم کی اسی تڑپتی ہوئی رگ کو تاک لیا اور سمجھ گیا کہ اسی راہ سے ان کو دھوکہ اور فریب دیا جاسکتا ہے چناچہ ان کے پاس آیا اور خدا کی قسم کھا کر یہ کہا اگر تم جنت کا خلود اور دوام چاہتے ہو تو اس درخت سے کچھ کھالو تمہارا مقصد حاصل ہوجائے گا۔ یعنی تم ہمیشہ جنت ہی میں رہو گے اور زمین پر اترنا نہیں پڑے گا۔ حضرت آدم اس کے فریب میں آگئے اور اکل حنطہ کا ارتکاب کر بیٹھے ارتکاب کے بعد اپنی خطاء اور لغزش کا احساس ہوا اور بصد ندامت وشرمساری اور بصد گریہ وزاری ان کلمات سے توبہ اور معذرت کی۔ ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا وترحمنا لنکونن من الخاسرین۔ 2 ۔ ہبوط کا حکم : بعد ازاں حضرت ادم اور حوا کو حکم ہوا کہ بہشت سے زمین پر اتریں اور حضرت آدم کو بہشت سے نکلنے کا حکم ازروئے عتاب و عقاب نہ تھا۔ بلکہ اس درخت کے کھانے کا اثر تھا جس طرح انکشاف ستر اس کا ایک اثر تھا۔ خصوصا جبکہ بعض آیات اس پر دال ہیں کہ ہبوط کا حکم قبول توبہ کے بعد ہوا ہے کما قال تعالیٰ فتلقی ادم من ربہ کلمات فتاب علیہ انہ ہو التواب الرحیم قلنا اھبطوا منہا جمیعا۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ قبول توبہ کے زمین اتارے گئے اور ظاہر ہے کہ قبول توبہ کے بعد عتا اور عقاب کے کوئی معنی نہیں۔ حضرت آدم کا بہشت میں رہنا اس شرط کے ساتھ مشروط تھا کہ وہ اس درخت سے نہ کھائیں اور اب مصلحت ان کے بہشت میں رہنے کی نہ تھی اور وقت آگیا کہ نوشتۂ قضا وقدر ظہور میں آئے اور وہ اپنے مقام خلافت پر جائیں جیسا کہ انی جاعل فی الارض خلیفۃ صاف اس پر دلالت کرتا ہے کہ حضرت آدم کو پیدا ہی اس لیے کیا گیا تھا کہ وہ زمین پر خلیفہ ہوں اور زمین انہی کے لیے پیدا کی گئی تھی کما قال تعالیٰ خلق لکم ما فی الارض جمیعا۔ پس یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ حضرت آدم کا زمین پر اتارنا سزا یا بطور اہانت تھا۔ وہ تو پہلے ہی خلافت الہیہ فی الارض کے لیے مامور اور نامزد ہوچکے ہیں۔ یہ عجیب اہانت ہے کہ ان کو خلافت فی الارض عطاء کی جارہی ہے اور وہ منصب جلیل ان کو عطاء کیا جارہا ہے جس کی فرشتوں نے ونحن نسبح بحمدک ونقدس لک کہہ کر خواہش ظاہر کی تھی اور حق جل شانہ کے اس ارشاد وعصی ادم ربہ فغوی ثم اجتبہ ربہ سے صاف ظاہر ہے کہ اس لغزش کے بعد خدا تعالیٰ نے مزید برگزیدہ بنایا۔ پس حضرت آدم کو بہشت سے زمین پر اترنے کا حکم اہانت کی بناء پر نہ تھا بلکہ انی جاعل فی الارض خلیفۃ کی تکمیل کے لیے تھا کہ جن کو پیدا ہی خلافت ارضی کے لیے کیا گیا ہے ان کو مقام خلافت میں پہنچا دیا جائے بظاہر اگرچہ بعد ہوگا مگر معنی ً اور رتبۃً قرب پہلے سے زیادہ ہوگا۔ خدا تعالیٰ کے اعتبار سے زمین اور آسمان سب برابر ہیں۔ اور مقام خلافت قیام جنت سے کہیں اعلی اور ارفع ہے اور یہ مقام خلافت اس درجہ بلند ہے کہ ملائکہ سموات وارضین کو اسی وجہ سے سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تاکہ خلیفہ الٰہی کی فضیلت اور برتری ملائکہ پر ثابت ہوجائے۔ 3 ۔ حضرت آدم کے اس قول ربنا ظلمنا انفسنا میں۔ ظلم سے گناہ اور جرم کے معنی مراد نہیں ظلم کے اصل معنی نقصان اور کمی اور کوتاہی کے ہیں حق تعالیٰ کے اس قول ولم تظلم منہ شیئا میں ظلم سے کمی کے معنی مراد ہیں اور عقلاً اور شرعاً ظلم کے درجات ہیں۔ حق تعالیٰ نے شرک کو ظلم عظیم فرمایا ہے۔ ان الشرک لظلم عطیم۔ اور دوسری جگہ ان اللہ لا یظلم مثقال ذرۃ۔ فرمایا ہے معلوم ہوا کہ کوئی ظلم یعنی کوئی نقصان اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ ذرہ کے برابر ہوتا ہے۔ تو حضرت آدم کے ظلم کے معنی یہ ہیں کہ اے پروردگار ہم نے شیطان کے دھوکہ میں آکر اپنا نقصان کیا کہ آپ کے حکم کی متابعت سے اور شیطان کی مخالفت سے ہم کو جو درجات اور مراتب حاصل ہوئے ان میں کمی آگئی اور سردست جنت کا لباس ہمارے بدن سے اتر گیا اور تیرے مقام قرب اور مقام اختصاص سے ہم کو دور جانا پڑ رہا ہے اور نعمائے جنت سے محروم ہورہے ہیں۔ ہم پر رحم فرما۔ 3 ۔ قصہ آدم (علیہ السلام) وبستن قضاء نظر اور از مراعات صریح نہی وترک تاویل عارف رومی قدس سرہ السلامی نے اپنی مثنوی میں بزبان ہد ہد ایک قصہ بیان کیا جس میں بتلایا۔ چوں قضا آید شود دانش بخواب ٍمہ سیہ گردد بگیرد آفتاب یعنی جب قضا آتی ہے تو عقل ہوجاتی ہے اور اس کا ادراک بھی سو جاتا ہے اور قضا الٰہی سے چاند سیاہ پڑجاتا ہے اور سورج کو گرہن لگ جاتا ہے مطلب یہ ہے کہ عقل جو آفتاب اور ماہتاب کی طرح روشن ہے قضاء الٰہی سے وہ بےنور اور تاریک ہوجاتی ہے اب آگے اسی مضمون کی تائید کے لیے حضرت آدم کا قصہ بیان کرتے ہیں بظاہر یہ قصہ بھی بزبان ہد ہد ہے اور ممکن ہے کہ یہ قصہ عارف رومی کی طرف سے ہو اور مقصود یہ ہے کہ غلبہ قضاء وہ چیز ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے باوجود اتنے بڑے عل ومعرفت کے لغزش ہوگئی کہ قضا وقدر نے ان کی نظر کو صریح نہی کی رعایت سے باز رکھا اور ترک تاویل اور عدم تاویل کی بجائے تاویل کی طرف ان کو مائل کردیا اور تاویل کی راہ اختیار کر گئے یہ سب قضاء وقدر کا کرشمہ تھا۔ ابو البشر کو علم الاسماء بک است صد ہزاراں علمش اندر ہر رگ است یعنی حضرت آدم علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام جو ابو البشر ہیں اور مرتبہ علم آدم الاسماء کے تاجدار ہیں اور لاکھوں علم ان کی رگ میں بھرے ہوئے ہیں۔ اگے علم الاسماء کی تفسیر فرماتے ہیں۔ اسم ہر چیزے چناں کا ں چیز ہست تا بپایاں جان اورا داد دست تمام چیزوں کے نام اور جس حالت پر وہ واقع ہیں سب کا نام ونشاں ان کی آخری حالت تک ان کی روح کو عطاء کردیا گیا۔ خلاصہ تفسیر کا یہ ہوا کہ علم آدم الاسماء سے صرف اشیاء کے نام بتا دینا مراد نہیں بلکہ اسماء عام ہے جو حقائق اور اوصاف اور خواص اور آثار سب کو شامل ہے پس تعلیم اسماء کا مطلب یہ ہوا کہ تمام اشیاء کے نام اور ان کی ماہیتیں اور صفتیں اور خاصیتیں سب آدم کو بتلا دیں کیونکہ خلیفۃ اللہ فی الارض کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ دنیا میں پیش آنے والے امور مثلا کھانا اور پینا اور بھوک اور پیاس اور سرور اور حزن اور شہوت اور غضب وغیرہ وغیرہ اس قسم کے تمام امور کے ماہیتوں اور خاصیتوں سے واقف ہو اس لیے یہ تمام امو رحضرت آدم کو بتلا دئیے گئے تاکہ زمین میں منصب خلافت کو انجام دے سکیں اور فرشتوں میں اللہ نے کسی حکمت سے یہ استعداد نہیں رکھی کہ وہ ان امور حسیہ اور جسمانیہ کا کماحقہ، ادراک کرسکیں ملائکہ اس قسم کے امور سے منزہ ہیں اس لیے منصب خلافت بجائے ملائکہ کے حضرت آدم کو ملا۔ چشم آدم چوں بنور پاک دید جان وسر نا مہاگشتن پدید جب فرشوں نے ان میں نوار حق اور تجلیات ربانی کو درخشاں دیکھا تو سب سجدہ میں گر گئے اور خدمت کے لیے دوڑے۔ جب ملائکہ نے حضرت آدم میں نور حق کا جلوہ گر دیکھا تو سب سجدہ میں گر گئے بخلاف ابلیس کے کہ اس کی نظر صرف مادہ طین تک محدود رہی اور نور حق سے نابینا بن گیا اس لیے سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ اور خداوند ذوالجلال سے بحث شروع کی۔ خلقتنی من نار وخلقتہ من طین۔ ایں چنیں آدم کہ نامش می برم گرستایم تاقیامت قاصرم " ہد ہد " جس کی زبان پر یہ قصہ بیان کیا جارہا ہے وہ ہدہد یہ کہتا ہے کہ ایسے آدم جنا کا نام میں لے رہا ہوں اگر قیامت تک بھی ان کی تعریف و توصیف کروں تو تب بھی قاصر رہوں۔ ایں ہمہ دانست وچوں آمد قضا دانش یک نہی شد بروئے غطا باوجودیکہ حضرت آدم کو یہ سارا علم حاصل تھا اور تمام چیزوں کے خواص آثار سے واقف تھے لیکن جب قضا نمودار ہوئی تو ایک نہی الا تقربا ھذہ الشجرۃ کا علم ان پر پوشیدہ ہوگیا اور غیبی طور پر اس پر ایک پردہ پڑگیا جس سے وہ دشمن کے وسوسہ سے تردد میں پڑگئے جس کا اگلے شعر میں بیان ہے کا سے عجب نہی از پئے تحریم بود یا بتاویلے بدوتوھیم بود حضرت آدم حیران تھے اور تعجب اور تردد میں تھے کہ خدا جانے یہ نہی تحریم مطلق کے لیے ہے کہ ذاتی طور پر اس درخت کے قریب جانا مطلقاً حرام ہے یا یہ نہی متلبس بتاویل ہے اور اس نہی سے ظاہری معنی مراد نہیں بلکہ تاویلی اور مجازی معنی مراد ہیں جس سے مجھ کو وہم میں ڈال دیا گیا ہے تاویل کے معنی ہیں کلام کو ظاہر سے پھیر کر ایسے معنی کی طرف لے جانا جو قواعد شریعت اور قواعد عربیت کے مطابق ہوں اور توہیم اور ابہام کے معنی۔ قریبی اور متبادر مفہوم کو چھوڑ کر معنی بعید مراد لینا۔ اس لیے حضرت آدم کو خیال کہ عجب نہیں کہ یہ نہی تاویل ہو اور اس سے اس درخت کی ممانعت مراد نہ ہو بلکہ کوئی اور معنی مراد ہوں یعنی اس درخت سے کھانا فی حد ذاتہ حرام نہ ہو۔ محض کسی حکمت اور مصلحت سے اس درخت سے کھانے کی ممانعت کردی گئی ہو۔ غرض یہ کہ حضرت آدم دشمن کے وسوسہ سے تردد میں پڑگئے کہ یہ نہی اور ممانعت ذاتی حرمت کی وجہ سے ہے یا یہ نہی تنزیہی ہے یا محض شفقت کی بناء پر ہے کہ اس وقت میری استعداد کمزور ہے۔ شاید اس حالت میں اس کا تحمل نہ کرسکوں اور ممکن ہے کہ یہ نہی تابیدی نہ ہو بلکہ وقتی ہو اور کسی عارض اور مصلحت کی بناء پر ہو اور یہ خیال کیا کہ جونہی اور ممانعت محض شفقت کی بناء پر ہو یا کسی وقتی اور عارضی مصلحت کی وجہ سے ہو تو ایسی نہی کی خلاف ورزی کوئی گناہ نہیں اس لیے وہ درخت سے کھانے پر آمادہ ہوگئے۔ دردلش تاویل چوں ترجیح یافت طبع در حیرت سوئے گندم شتافت حضرت آدم اسی حیرت اور تردد میں تھے کہ دل نے تاویل کو ترجیح اور طبیعت حیرت میں آکر گندم کی طرف مائل ہوگئی تو بارگاہ خداوندی سے عتاب ہوا اور ہبوط کا حکم آیا اس لیے کہ اس درخت کی خاصیت یہ ہے کہ جو اس کو کھائے گا وہ دنیا کی طرف ضرور اترے گا۔ کھانے کے بعد حضرت آدم کو اپنی خطا کا احساس ہو اتو توبہ اور استغفار شروع کی اب آگے اس کی مثال بیان فرماتے ہیں۔ باغباں را خارچوں دریائے رفت دزدفرصت یافت کا لابرد تفت اس قصہ کی ایسی مثال ہوگئی جیسے کوئی باغبان ہو اور اس کے پاؤں میں کانٹا لگ جائے تو وہ بیچارہ تو کانٹا نکالنے لگا اور چرو کو فرصت میں مال چرانے کا موقع مل گیا کہ جلدی سے سارا مال لے کر چلتا بنا۔ اسی طرح حضرت آدم (علیہ السلام) باغبان علم ومعرفت تھے ان کے پائے قلب میں وسوسہ کا ایک کانٹا چبھا اور اس کے نکالنے میں مشغول ہوئے دزدلعین (ابلیس) موقع پا کر ان کی متاع راحت وسکینت کو چرا کرلے بھاگا۔ چوں زحیرت رست باز آمد براہ دید بردہ دزدرخت از کارگاہ جب حضرت آدم اس حیرت سے نکلے اور راہ حقیقت ان پر منکشف ہوئی تو دیکھا کہ چور کارخانہ سے مال ومتاع چرا کرلے گیا۔ حضرت آدم سمجھ گئے کہ یہ سب شیطان کا فریب تھا تاکہ مجھ کو جنت سے محروم کرادے۔ ربنا انا ظلمنا گفت و آہ یعنی آمد ظلمت وگم گشت راہ اس وقت حضرت ادم (علیہ السلام) بصد آہ و درد ربنا ظلمنا کہہ کر بارگاہ خداوندی میں معذرت کرنے لگے روتے جاتے تھے اور آہیں بھرتے جاتے تھے یعنی اے خدا ہماری عقل پر ظلمت اور تاریکی چھا گئی اور ہم سے راستہ گم ہوگیا اس دوسرے مصرعہ میں اشارہ اس طرف ہے کہ حضرت آدم کی اس دعا ربنا ظلمنا انفسنا میں ظلمنا، ظلم سے مشتق نہیں بلکہ ظلمت سے مشتق ہے پس ظلمنا انفسنا کے معنی یہ ہوں گے کہ اے پروردگار ہم نے قلت عمل اور قلت احتیاط کی بناء پر اپنے آپ کو ظلمت اور تاریکی میں ڈال دیا اور اپنے مرتبے اور منزل کو ملحوظ رکھ کر عمل نہ کیا اور ان مشقتوں میں پڑے جو اس درخت کے خواص میں سے ہیں۔ پس حضرت آدم کا درخت سے کھانا اور پھر اس کے بعد زمین پر اترنا سب قضاء وقدر سے تھا۔ ابتداء میں حضرت آدم کی افضلیت اور سیادت ظاہر ہوئی۔ اب وقت آیا کہ حسب قضاء وقدر ان کی خلافت ظہور میں آئے اس لیے یہ اکل شجر اس کے لیے ایک بہانہ بنادیا گیا۔ ایں قضا ابرے بود خورشید پوش شیر واژدہا بودز وہمچو موش حضرت آدم (علیہ السلام) کا قصہ بیان کر کے بطور نتیجہ فرماتے ہیں کہ اس قضا کی ایسی مثال ہے کہ جیسے ایک بادل ہو وہ آفتاب کو چھپا لے قضا ایسی سخت چیز ہے کہ اس کے سامنے شیر اور اژدہا چوہے کے مانند عاجز اور لاچار ہیں (دیکھو مثنوی مولانا روم ص 103 و ص 104 دفتر اول) اضافت کردن آدم (علیہ السلام) آن زلت را بخویشتن۔ ربنا ظلمنا الخ واضافت کردن ابلیس گناہ خود رابحق۔ رب بما اغویتنی الخ حضرت آدم (علیہ السلام) کا اپنی لغزش کو اپنی طرف منسوب کرنا اور ربنا ظلمنا کہنا (کہ اے پروردگار ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا) اور ابلیس کا اپنے جرم کو خدا کی طرف منسوب کرنا کہ اس طرح کہا کہ رب بما اغویتنی (اے پروردگار تو نے مجھے گمراہ کیا) اپنے گمراہی کو خدا کی طرف منسوب کیا۔ اس مضمون کا تعلق مسئلہ جبرواختیار سے ہے معتزلہ بندہ کو اپنے افعال کا خالق سمجھتے ہیں اور جبریہ بندہ کو مجبور محض سمجھتے ہیں اور تمام افعال کو خدا کی طرف نسبت کرتے ہیں اور اہلسنت والجماعت کا مسلک نہایت معتد اور متوسط ہے جبر اور قدر کے درمیان ہے کہ افعال کا خالق تو اللہ تعالیٰ ہی ہے مگر بندہ خداداد قدرت اور اختیار سے ان افعال کا کا سب اور مرتکب ہے پس ابلیس تو جرم کر کے جبری محض بن گیا کہ اغواء کی نسبت باری تعالیٰ کی طرف کردی اور خود بری الذمہ اور بےتعلق بن گیا۔ گفت شیطاں کہ بما اغویتنی کرد فعل خود نہان وبودنی شیطان نے بما اغویتنی کہا اور اس کمینہ نے اپنے کسب اور ارتکاب غوایت کو چھپا کر اغواء کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کردیا تاکہ خود بری الذمہ بن جائے۔ گفت آدم کہ ظلمنا انفسنا او زفعل حق زبد غافل چو ما اور حضرت آدم نے ظلمنا انفسنا کہہ کر ظلم کو اپنی نفس کی طرف منسوب کیا اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ ہماری طرح فعل حق یعنی خلق سے غافل ہوں جیسے ہم اکثر امور میں خدا کی خالقیت سے غافل ہو کر یہ کہ دیا کرتے ہیں کہ یہ چیز میری پیدا کردہ ہے گویا کہ ہم بندہ کو اپنے افعال کا خالق سمجھتے ہیں۔ حضرت آدم کو خوب معلوم تھا کہ ہر چیز کا خالق خدا تعالیٰ ہے اور بندہ کا سب اور مرتکب ہے مگر حضرت آدم نے ربنا ظلمنا انفسنا میں اپنی تقصیر کو اپنی طرف منسوب کیا اور ادب کی وجہ سے خالق کی طرف منسوب نہیں کیا۔ در گنہ او از ادب پنہانش کرد زاں گنہ برخود زدن او بربخورد گنہ کے بارے میں ادب کی وجہ سے اللہ کے فعل خلق کو پوشیدہ رکھا اور اس کے خلق کا ذکر نہیں کیا بلکہ اپنی طرف منسوب کیا اور گناہ کو اپنی طرف منسوب کرنے سے ان کو اس ادب کا بہت ہی اچھا پھل ملا۔ کہ عفو تقصیر اور رفع درجات اور خلافت الٰہی سے مشرف اور سرفراز ہوئے بعد توبہ گفتش اے آدم نہ من آفرید م در تو ایں جرم ومحن توبہ قبول کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم سے کہا اے آدم کیا یہ تقصیر (اکل شجرہ) خود میں نے تیرے اندر پیدا نہیں کی یعنی میں ہی تو اس تقصیر کا خالق ہوں اور یہ سب کچھ میری ہی قضا وقدر سے واقع ہوا ہے پھر تم نے معذرت کے وقت اس فعل کو میری طرف منسوب نہیں کیا بلکہ اپنی منسوب کیا نہ کہ تقدیر وقضاء من بد آں چوں بوقت عذر کردی آن نہاں کیا یہ سب کچھ میری ہی قضا وقدر سے نہ تھا جو تو نے عذر کے وقت اس کو پوشیدہ رکھا اور یہ نہیں کہا کہ میری تقدیر میں ایسا ہی لکھا تھا لہذا میں بےقصور ہوں گفت ترسیدن ادب نگذاشتم گفت گفت من ہم پاس آنت داشتم حضرت آدم نے عرض کیا کہ میں سوء ادب سے ڈر گیا اور دامن ادب ہاتھ سے نہ چھوڑا تو فرمایا کہ پھر میں نے ہی تیرے ادب کا لحاظ کیا اور تجھے اپنے عفو وکرم سے نوازا گناہ گرچہ اختیار ما حافظ تو در طریق ادب کوش گو گناہ من است ہر کہ آرد حرمت او حرمت برد ہر کہ آرد قند لوزینہ خورد حق تعالیٰ نے فرمایا کہ جو شخص ہماری بارگاہ میں ادب اور احترام کو ملحوظ رکھتا ہے وہ اس کے صلہ میں حرمت اور کرامت لے جاتا ہے یعنی ہمارا مقبول اور مقرب بن جاتا ہے اور مثل مشہور ہے کہ قند لاؤ اور لوزینہ (یعنی حلو بادام) کھاؤ۔ (مثنوی مولانا روم۔ دفتر اول ص 124 وکلید مثنوی دفتر اول حصہ اول ص 365) خاصان حق کی لغزش عوام کی طاعت سے افضل ہے زلت او بہ زطاعت نزد حق پیش کفرش جملہ ایمانہا خلق (اے کہنہ وبوسیدہ و بےاعتبار) (حاشیہ۔ مثنوی دفتر اول ص 135 ومفتاح العلوم ص 242 ج 28 وکلید مثنوی ص 281 ج 1) مرد کامل کی لغزش خدا کے نزدیک اور لوگوں کی صدہا طاعت سے بہتر ہے اور اس کے کفر کے سامنے جس کو لوگ بظاہر کفر سمجھتے ہیں۔ تمام لوگوں کے ایمان کہنہ اور بوسیدہ ہیں خاصانِ حق سے قصداً تو کوئی معصیت ظہور میں نہیں آسکتی البہ سہو ونسیان کی بناء پر کسی وقت ان سے لغزش ہوجاتی ہے مگر ان کی لغزش اور اوروں کے ہزارہا حسنات اور طاعت سے بہتر ہوتی ہے کیونکہ انبیاء کرام سے جو بھول چوک ہوجاتی ہے وہ سراسر اخلاص اور نیک نیتی پر مبنی ہوتی ہے جس کو خطاء اجتہادی کہنا چاہیے مگر لغزش کے بعد جب ان کو تنبہ ہوتا ہے تو ندامت وخجالت میں غرق ہوجاتے ہیں اور بصد ہزار گریہ وزاری توبہ و استغفار اور معذرت کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں جن کی ندامت اور شرمساری اور گریہ وزاری کو دیکھ کر فرشتے بھی عشعش کرنے لگتے ہیں اور اس پر گریہ زاری کی وجہ سے ایسے مرتبہ عظمی پر پہنچتے ہیں کہ دوسرے لوگ طاعت اور عبادت کر کے بھی اس مقام تک نہیں پہنچ سکتے ان حضرات کی لغزشیں۔ سیئات المقربین کے قبیل سے ہیں اور سیئات المقربین باجماع اولیاء وعارفین حسنات ابرابر سے کہیں بہتر ہے۔ مرد کامل سے زلت (لغزش) کے بعد جو ذلت و خواری اور حیاء اور انکساری اور گریہ وزاری ظہور میں آتی ہے وہ درپردہ اس کی ترقی اور معراج معنوی ہے کہ پہلے سے زیادہ اس کا مقام بلند ہوگیا (زلت) کے معنی لغزش کے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے مقام بلند سے پھسل گیا اور جو فعل اس کے مقام رفیع کے مناسب نہ تھا وہ اس سے سرزد ہوگیا اس لغزش کے بعد جو ہوش آیا تو ندامت وخجالت اور گریہ وزاری کے پروں سے پرواز کی اور مقام قرب کی اتنی بلندی پر پہنچ گیا کہ جہاں اس لغزش سے پہلے نہیں پہنچا تھا اور پہلے سے زیادہ اس کے درجے بلند ہوگئے اور اہل بدر کے متعلق جو ارشاد آیا ہے۔ اعملو ما شئتم فقد غفرت لکم اس کا مطلب یہ ہے کہ اہل بدر سے دیدہ دانستہ اللہ کی معصیت ظہور میں نہیں آئے گی البتہ بمقتضائے بشریت بطریق سہو ونسیان ان سے لغزشیں ہوں گی یعنی ان سے کبھی ایسے افعال سرزد ہوں گے جو ان کی شان اور مرتبہ کے مناسب نہ ہوں گے اس قسم کے جو امور ان سے صدور اور ظہور میں آئیں گے۔ وہ اللہ کے یہاں سب معاف ہیں اور دوسرے مصرعہ میں جو فرمایا کہ انسان کامل کا کفر اور لوگوں کے ایمان سے بہتر ہوگا سو اس مصرعہ میں کفر سے اصطلاحی اور شرعی کفر مراد نہیں بلکہ مقام فناء کی طرف اشارہ ہے کہ اس حالت میں پہنچ کر انسان کی زباں سے بےاختیار " انالحق " اور سبحانی ما اعظم شانی۔ اس قسم کے الفاظ سرزد ہوجاتے ہیں جو بظاہر اور قضاء اضی میں کفر شمار کیے جاتے ہیں لیکن یہ درحقیقت کمال ایمان کی دلیل ہوتے ہیں جیسا کہ حدیث قدسی میں آیا ہے لایزال عبدی یتقرب الی بالنوافل حتی اذا احببتہ کنت سمعہ الذی یسمع بہ وبصرہ الذی یبصر بہ ویدہ التی یبطش بھا ورجلہ التی یمشی بھا روہ البخاری) پس مقام فناء میں اس قسم کے جو کلمات سرزد ہوتے ہیں وہ بظاہر کفر معلوم ہوتے ہیں لیکن درحقیقت وہ کمال قرب کی دلیل ہوتے ہیں اس قسم کے الفاظ حضرات اولیاء سے بیخودی کی حالت میں نکلے ہیں اس لیے شرعاً معذور ہیں۔ یہ تمام تفصیل بحر العلوم شرح مثنوی سے ماخوذ ہے۔ حضرات اہل علم اصل بحر العلوم ص 102 ج 1 دفتر اول اور مثنوی بع کانپوری کے ص 135 دفتر اول کے حواشی کی مراجعت کریں۔ چوں بنالد زار بےشکر وگلہ افتد اندر ہفت گردوں غلغلہ اور جب وہ انسان کامل لغزش کے بعد زار وقطار گریہ وزاری اور شرمساری کرتا ہے جس کا سبب نہ تو شکریہ ہوتا ہے اور نہ کوئی شکوہ ہوتا ہے تو ایسی گریہ وزاری سے ساتوں آسمانوں میں غلغلہ پڑجاتا ہے اور سکان ملکوت حیرت میں رہ جاتے ہیں فرشتوں نے ایسی بےقراری اور ایسی گریہ وزاری کا منظر کب دیکھا تھا۔ ہر ومش صد نامہ صد پیک از خدا یار بےزر شصت لبیک از خدا اور اس حالت میں اس انسان کامل کو صدہا نام وپیام خدا کی طرف سے پہنچتے ہیں اور اس کے ایک مرتبہ یارب کہنے سے ساٹھ مرتبہ (یعنی بکثرت) خدا کی طرف سے لبیک کا جواب آتا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ جو بندہ ایک نیکی لے کر آتا ہے تو اس کو کم از کم دس گنا اجر ملتا ہے اور جو شخص خدا سے ایک بالشت قریب ہوتا ہے تو خدا اس سے ایک گز قریب ہوجاتا ہے اور جو شخص خدا کی طرف چل کر آتا ہے۔ خدا اس کی طرف دوڑ کر آتا ہے۔ (رواہ مسلم) ہر دمے اور ایکے معراج خاص برسر فرقش نہد صد تاج خاص اور اس مرد کامل کو اس شرمساری اور گریہ وزاری سے ہر دم خاص معراج حاصل ہوتی رہتی ہے یعنی ہر دم اس کو عروج اور ترقی مراتب حاصل ہوتی رہتی ہے اور اس کے سر پہ خدا تعالیٰ کے قرب خاص کا ایک خاص تاج رکھ دیا جاتا ہے معراج سے مراد مرتبہ قرب ہے چونکہ مراتب قرب ہے چونکہ مراتب قرب کی کوئی انتہا نہیں اس لیے خاصان خدا کو یہ ترقی لحظہ بلحظہ علی الدوام ہوتی رہتی ہے (دیکھو مثنوی مولانا روم ص 135 دفتر اول) خلاصۂ کلام یہ کہ حضرات انبیاء کرام سے لغزش کے بعد جو شرمساری اور گریہ وزاری ظہور میں آتی ہے اس سے ان کی اندرونی محبت اور اخلاص کا حال کھلتا ہے کہ ان کا باطن حق تعالیٰ کی محبت اور عظمت سے کس درجہ لبریز ہے جس طرح ابلیس لعین کے سوال و جواب سے اس کی اندرونی نخوت وتکبر کا حال ظاہر ہوا اسی طرح حضرت ادم سے لغزش کے بعد ندامت اور معذرت سے ان کا اندرونی اخلاص ظاہر ہوا جس سے ان کا فضل و کمال اور حسن و جمال اور چمک گیا اور اس لغزش سے اگرچہ ظاہر میں ہبوط اور نزول ہوا مگر درحقیقت وہ علو اور عروج تھا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کا یہ ہبوط اگرچہ حتا وظاہرا نزول تھا مگر درپردہ وہ معراج باطنی تھی اس بناء پر عارف رومی نے انبیاء کی لغزش کو عوام کی طاعت سے بہتر قرار دیا اور یہ ارشاد فرمایا ع زلت او بہ ز طاعت پیش حق الخ اس کی تفصیل گزر گئی اس وقت اس راقم الحروج کے خیال میں یہ آیا کہ اگر یہ مضمون ان لفظوں میں ادا کی اجائے تو امید ہے کہ کوئی حرج نہ ہوگا زلت خاصاں وسہو وغفلتے بہتر از صد سالہ مایاں طاعتے جیسا کہ صدیق اکبر ؓ سے منقول ہے یا لیتنی کنت سھو محمد ﷺ (کاش میں نبی کریم علیہ السلوۃ والتسلیم کا سہو ونسیان بن جاتا) کہ حضور پرنور کا سہو ونسیان ہماری طاعت سے ہزار درجہ بہتر ہے۔ 7 ۔ ایک اشکال : بعض اہل ظاہر نے اس قصہ سے قیاس کے ناجائز ہونے پر استدلال کیا ہے اور لکھا ہے کہ قیاس ایک فعل شیطانی ہے اور سب سے پہلے جس نے قیاس کیا وہ ابلیس ہے اور ابلیس قیاس ہی کی وجہ سے مطرود ہوا۔ جواب : یہ ہے کہ منکرین نے قیاس کا یہ استدلال سراپا اختلال، خود ایک قیاس فاسد و باطل ہے ابلیس کے مردود ہونے کی وجہ یہ ہے اس نے محض اپنی رائے سے حکم خداوندی کے قبول کرنے سے انکار کردیا اور غرور وتکبر کی وجہ سے اس کو غیر معقول اور مستحسن قرار دیا اور ایسے قیاس کا دنیا میں کوئی امام اور مجتہد قائل نہیں کہ جو صریح حکم خداوندی کے خلاف ہو قیاس اس وقت کیا جاتا ہے کہ جب کتاب و سنت اور اجماع امت سے کوئی حکم صراحۃ ثابت نہ ہو۔ امور منصوصہ میں کوئی شخص بھی قیاس کا قائل نہیں۔ نص پر تو بےچون وچرا عمل فرض ہے اس قصہ سے اس قیاس کی برائی ظاہر ہوتی ہے کہ جو نص صریح کے معارضہ اور مقابلہ میں کیا جائے مطلق قیاس کی مذمت ظاہر نہیں ہوتی اور ائمہ مجتہدین کا قیاس وحی خداوندی اور ارشاد نبوی کے تابع ہوتا ہے۔ امام قرطبی (رح) تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تمام صحابہ اور تابعین کا مذہب یہی ہے کہ قیاس حجت شرعیہ ہے اور عقلا اور شرعا اس کا اتباع ضروری ہے صرف چند اہل ظاہر قیاس کے منکر ہیں۔ مگر وہ صحیح نہیں۔ صحیح وہ ہی ہے جو صحابہ وتابعین کا مسلک ہے اور اسی کو امام بخاری (رح) نے اپنی جامع صحیح میں اختیار فرمایا اور کتاب الاعتصام میں حجت قیاس کے لیے متعدد ابواب اور تراجم منعقد فرمائے اور یہ واضح فرمایا کہ اگر مسئلہ کا حکم کتاب اور سنت اور اجماع امت سے معلوم نہ ہوسکے تو قیاس واجب ہے اور اسی پر تمام امت کا اجماع ہے اور خلفاء راشدین اور صحابہ وتابعین سے یہی ثابت ہے کہ جب ان کو کسی امر میں اشتباہ پیش آتا اور کتاب وسنت اور اجماع امت سے اس کا حکم نہ معلوم ہوتا تو امثال اور اشباہ پر اس کو قیاس کرتے (دیکھو تفسیر قرطبی ص 171 جلد 7) منکرین قیاس کے شور وغوغا کے بند کرنے کے لیے ہم امام قرطبی (رح) کا اصل کلام ہدیہ اور ناظرین کرتے ہیں وہو ہذا قال الامام القرطبی (رح) اختلف الناس فی القیاس الی قائل بہ وراد لہ فاما القائلون بہ فھم الصحابۃ والتابعون وجمھور من بعدھم وان التعبد بہ جائز عقلا واقع شرعا وھو الصحیح وردہ بعض اھل الظاہر والاول ھو الصحیح وال البخاری فی کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ المعنی لا عصمۃ لا حد الا فی کتاب اللہ او سنۃ نبیہ او فی اجماع العلماء اذا وجد فیھا الحکم فن لم یوجد فالقیاس وقد ترجم علی ھذا ( باب من شبہ اصلا معلوما باصل مبین قد بین اللہ حکمھا لیفھم السائل) وترجم بعد ھذا ( باب الاحکام التی تعرف بالدلائل وکیف معنی الدلالۃ وتفسیرھا) وقال الطبری الاجتھاد والاستنباط من کتاب اللہ و سنۃ نبیہ ﷺ واجماع الامۃ ھو الحق الواجب و الفرض اللازم لاھل العلم وبذلک جاءت الاخبار عن النبی ﷺ وعن جماعۃ الصحابۃ والتابعین وقال ابو تمام المالکی اجمعت الامۃ علی القیاس فمن ذلک انھم اجمعوا علی قیاس الذھب والورق فی الزکوۃ وقال ابوبکر اقیلوا فی بیعتی فقال علی واللہ لا نقیلک ولا نستقیلک رضیک رسول اللہ ﷺ لدیننا فلا نرضاک لدینا فق اس الامامۃ علی الصلاۃ وق اس الصدیق الزکوۃ علی الصلوۃ وقال واللہ لا افترق بین ما جمع اللہ وصرح علی بالقیاس فی شارب الخمر بمحضر من الصحابۃ وقال انہ اذ سکر ھذی و فی شارب الخمر بمحضر من الصحابۃ وقال انہ اذا سکر ھذی واذا ھذی افتری فحدہ حد القاذف وکتب عمر الی ابی موسیٰ الاشعری کتابا فیہ الفھم الفھم فیما یختلج فی صدرک معالم یبلغک فی الکتاب والسنۃ اعرف الامثال والاشتباہ ثم قس الامور عند ذلک فاعمد الی احبھا الی اللہ تعالیٰ واشبھہا بالحق فیما تری الحدیث بطولہ ذکرہ الدارقطنی واما الاثار وای القرآن فی ھذا المعنی فکثیر وھو یدل علی ان القیاس اصل من اصول الدین وعصمۃ من عصم المسلمین یرجع الیہ المجتھدون ویفزع الیہ العلماء العاملون فیستطبون بہ الاحکام وھو قول الجماعۃ الذین ھم الحجۃ ولا یلتفت الی من شذ عنھا واما الری المذموم والقیاس المتکلف المنھی عنہ فھو مالم یکن علی ھذہ الاصول المذکورۃ لان ذلک ظن ونزغ من الشیطان قال اللہ تعالیٰ ولا تقف ما لیس لک بہ علم وکل ما یودہ المخالف من الاحادیث الضعیفۃ والاخبار الواھیۃ فی ذم القیاس فھی محمولۃ علی ھذ النوع من القیاس المذموم والذی لیس لہ فی الشرع اصل معلوم وتتمیم ھذا الباب فی کتب الاصول۔ انتھی کلام القرطبی فی تفسیر سورة الاعراف ص 171-173 ج 7 اور حافظ ابن قیم (رح) نے اعلام الموقعین میں اس پر نہایت تفصیل کے ساتھ کلام کیا ہے اور یہ ثاب کیا ہے کہ رائے اور قیاس کی دو قسمیں ہیں ایک محمود اور ایک مذموم محمود وہ ہے جو اصول شریعت یعنی کتاب اور سنت اور اجماع امت سے ماخوذ ہو اور مذموم وہ ہے جو اصول شریعت سے ماخوذ نہ ہو محض ظن اور تخمین پر مبنی ہو اور فرمایا کہ جن احادیث اور آثار صحابہ میں رائے کی مذمت آئی ہے اس سے اسی قسم کی رائے مراد ہے اور جن آیات اور احادیث میں رائے کی مدح آئی ہے اس سے رائے محمود مراد ہے اور اسی طرح حافظ ابن تیمیہ (رح) نے منہاج السنۃ اور القیاس فی الشرع الاسلامی میں لکھا ہے اور اس مسئلہ کی تفصیل پارۂ پنجم میں زیر تفسیر آیت فان تنازعتم فی شیئ فردہ الی اللہ والرسول میں گزر چکی ہے وہاں دیکھ لیا جائے۔ دربیان آنکہ اول کسی کہ در مقابل نص صریح قیاس آورد ابلیس علیہ اللعنۃ بود اس بات کے بیان میں کہ سب سے پہلے جس نے نص صریح اور حکم واضح اور وحی خداوندی کے مقابلہ میں اپنا قیاس پیش کیا وہ ابلیس ملعون تھا جیسا کہ مشہور ہے اول من قاس ابلیس۔ یعنی جس نے سب سے پہلے قیاس کیا وہ ابلیس تھا۔ اول آنکس کیں قیاسکہا نمود پیش انوار خدا ابلیس بود سب سے پہلا شخص جس نے انوار الہیہ (یعنی احکام منصوصہ) کے مقابلہ میں اپنے بیہودہ قیاسات چلانے شروع کیے وہ ابلیس تھا۔ گفت نار از خاک بیشک بہتر است من زنار واوز خاک اکدر است کہنے لگا کہ اس میں کیا شک ہے کہ آگ مٹی سے بہتر ہے میں آگ سے پیدا ہوا ہوں اور وہ خاک تاریک سے پیدا ہوا ہے۔ پس قیاس فرع بر اصلش کنیم او زظلمت ما زنور روشنیم پس مناسب ہے کہ ہم فرع کو اصل پر قیاس کریں سو ان کی اصل مادۂ ظلماتی ہے اور میری اصل مادۂ نورانی اور درخشانی ہے یعنی آگ ہے ابلیس نے یہ قیاس کیا اور غلط کی۔ اول تو اس پر کیا دلیل ہے کہ آگ مٹی سے بہتر ہے دونوں ہی عنصر اللہ کی مخلوق ہیں عنصریت میں دونوں برابر ہیں اور اگر حقیقت پر نظر کی جائے تو مٹی آگ سے بہتر ہے اس لیے کہ مٹی میں متانت اور وقار ہے اور حلم اور حیاء صبر کا مادہ ہے اسی وجہ سے حضرت آدم تواضع اور تضرع کی طرف مائل ہوئے اور عفو اور مغفرت اور اجتباء سے سرفراز ہوئے اور آگ کی طبیعت میں خفت اور حدت اور ارتفاع اور طیش اور اضطراب ہے اسی وجہ سے شیطان تکبر اور مقابلہ پر آیا جس کی وجہ سے وہ ابدی لعنت اور شقاوت کا مورد بنا۔ گفت حق نے بلکہ " لا انساب " شد زہد وتقوی فضل را محراب شد حق تعالیٰ نے فرمایا ہماری بارگاہ میں نسب اور مادہ اور اصل کا اعتبار نہیں کما قال تعالی۔ فاذا نفخ فی الصور فلا انساب بینھم یومئذ ولا یتساءلون۔ ہمارے یہ ان فضیلت کا معیار زہد اور تقوی ہے۔ کما قال تعالیٰ ان اکرمکم عنداللہ اتقکم اور یہ وصف آدم میں ہے تجھ میں نہیں۔ ایں نہ میراث جہان فانی است کہ بانسابش بیابی جانی ست یہ فضیلت کوئی دنیوی میراث نہیں کہ جسے تم نسب کے ذریعے حاصل کرسکو بلکہ یہ روحانی میراث ہے بلکہ ایں میراث ہائے انبیاء است وارث ایں جانہائے اتقیا است بلکہ یہ فضیلت انبیاء کرام کی میراث ہے اور اس کی وارث متقی اور پرہیزگاروں کی ارواح ہیں پور آں بوجہل شد مومن عیاں پور آن نوح نبی از گمرھاں ابو جہل کا بیٹا یعنی عکرمہ جو اپنے باپ کی طرح مشہور جنگجو اور آں حضرت ﷺ کا شدید ترین دشمن تھا وہ تو اسلام سے بہرہ ور ہوگیا اور فتح و مکہ میں مشرف باسلام ہو کر مومنین مخلصین میں سے بن گیا حالانکہ اس کی اصل کافر ہے اور حضرت نوح (علیہ السلام) کا فرزند کنعان گمراہوں میں سے ہوگیا جس کی اصل پاک اور برگزیدہ ہے۔ معلوم ہوا کہ اصل مادہ کا اعتبار نہیں۔ یخرج الحی من المیت ویخرج المیت من الحی۔ زادۂ خاکی منور شد چوماہ زادۂ آتش توئی اے روسیاہ اسی طرح سمجھ لو کہ ایک خاک زادہ یعنی آدم (علیہ السلام) چاند کی طرح انوار الٰہی سے منور اور روشن ہوگیا اور اے شیطان تو آتش زادہ ہے اے روسیاہ تو تاریک رہا مادۂ ناری کی ظلمت اور دخان نے تجھ کو تاریکی میں ڈال دیا۔ ایں قیاسات وتحری روز ابر یا بشب مرد قبلہ را کر دست جبر اس قسم کے قیاسات اور اٹکل کی باتیں اس وقت چلتی ہیں کہ جب ابر چھایا ہوا ہو یا رات کا وقت ہو کہ قبلہ نظر نہ آتا ہو اس وقت اس قسم کے قیاسات اور تخمینے قبلہ کا جبر اشتباہ اور بدل بن سکتے ہیں لیک با خور شید وکعبہ پیش رو ایں قیاس و ایں تحری را مجو لیکن ایسی حالت میں کہ جب آفتاب طلوع کیے ہوئے ہو اور خانہ کعبہ سامنے ہو تو اس وقت تحری اور قیاس سے نماز ہرگز جائز نہیں کعبہ نا دیدہ مکن زو رو متاب از قیاس اللہ اعلم بالصواب روز روشن ہو اور کعبہ سامنے ہو ایسی حالت میں ادھر ادھر دیکھنا اور تحری اور قیاس کرنا ایسا ہے کہ تجھے کعبہ نظر نہیں آتا ایسی حالت میں جبکہ کعبہ سامنے ہو اور دن کی روشنی ہو محض قیاس اور تحری کی بناء پر اس سے منہ پھیرنا کب جائز ہے اسی طرح وحی خداوندی اور ارشاد نبوی بمنزلہ طلوع آفتاب اور حضور کعبہ ہے اس کے ہوتے ہوئے قیاس کی گنجائش نہیں (مثنویہ دفتر اول ص 305) واللہ اعلم بالصواب )
Top