Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 26
یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِكُمْ وَ رِیْشًا١ؕ وَ لِبَاسُ التَّقْوٰى١ۙ ذٰلِكَ خَیْرٌ١ؕ ذٰلِكَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ
: اے اولاد آدم
قَدْ اَنْزَلْنَا
: ہم نے اتارا
عَلَيْكُمْ
: تم پر
لِبَاسًا
: لباس
يُّوَارِيْ
: ڈھانکے
سَوْاٰتِكُمْ
: تمہارے ستر
وَرِيْشًا
: اور زینت
وَلِبَاسُ
: اور لباس
التَّقْوٰى
: پرہیزگاری
ذٰلِكَ
: یہ
خَيْرٌ
: بہتر
ذٰلِكَ
: یہ
مِنْ
: سے
اٰيٰتِ
: نشانیاں
اللّٰهِ
: اللہ
لَعَلَّهُمْ
: تاکہ وہ
يَذَّكَّرُوْنَ
: وہ غور کریں
اے بنی آدم ہم نے تم پوشاک اتاری کی تمہاری ستر ڈھانکے اور تمہارے بدن کو زینت دے اور جو پرہیزگاری کا لباس ہے وہ سب سے اچھا ہے۔ یہ خدا کی نشانیاں ہیں تاکہ لوگ نصیحت پکڑیں
تحذیر از فتنۂ شیطانی دربارۂ بےحیائی وعریانی قال اللہ تعالیٰ یبنی ادم قد انزلنا علیکم لباسا۔۔۔ الی۔۔۔ لا یستاخرون ساعۃ ولا یستقدمون (ربط) گزشتہ قصہ میں شیطان کی عداوت کا ذکر فرمایا اور اسی سلسلہ میں یہ بیان فرمایا کہ شیطان نے حضرت آدم اور حواء کو دھوکہ دیا جس کا اثر یہ ہوا کہ ان کے بدن سے جنت کا لباس اتر پڑا جس سے گھبرا کر اور شرما کر جنت کے درختوں کے پتوں سے ستر کو ڈھانکنے لگے۔ یہ برہنگی شیطان کا پہلا فتنہ تھا اب آئندہ آیات میں اسی فتنہ کے متعلق احکام ارشاد فرماتے ہیں جس میں اہل عرب اور شیطان کے اغواء اور اضلال سے مبتلا تھے کہ برہنہ طواف کرتے تھے اور بعض چیزوں کے کھانے کو زمانۂ حج میں حرام جانتے تھے بعض لوگ بکری کا دودھ اور گوشت اور چکنائی چھوڑ دیتے تھے اور بعض لوگ گھی کو حرام کرلیتے تھے۔ اور حضرت آدم کے قصہ میں شیطان کی عداوت کا اثر حضرت آدم (علیہ السلام) کے ساتھ لباس اور طعام میں ظاہر ہوا۔ شجرۂ مممنوعہ کے کھانے کی وجہ سے جنت کے باقی اطعمہ سے محروم ہوئے اور جنت کا لباس بھی بدن سے اتر گیا۔ اس لیے حضرت آدم کے قصہ کے بعد شیطان کے اضلال اور اغواء کا جو اثر عرب کے اطعمہ اور البسہ میں ظاہر ہوا اس کے متعلق احکام نازل ہوئے کہ عریانی اور برہنگی۔ یہ سب امور حرام ہیں اور شیطان کے اغواء اور اضلال سے ہیں۔ اس لیے ان آیات میں اولاد آدم کو شیطان کی عداوت سے ڈرایا کہ یہ لعین، کہیں باپ کی طرح تم کو مصیبت میں مبتلا نہ کردے اس لیے شدید احتیاط کی ضرورت ہے۔ حق جل شانہ نے ان ہدایات اور ارشادات میں بنی آدم کو چار جگہ یا بنی آدم کے خطاب سے مخاطب فرمایا اور لفظ یا کلام عرب میں نداء بعید کے لیے آتا ہے اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ جو لوگ اس قسم کی بےحیائیوں میں مبتلا ہیں۔ وہ فطرت اور انسانیت اور آدمیت سے بہت بعید ہیں ان کو فطرت اور آدمیت کے قریب کرنے کے لیے یا بنی آدم کہہ کر پکارا جا رہا ہے۔ (نداء اول) یبنی آدم قد انزلنا علیکم لباسا الخ نداء دوم) یبنی آدم لا یفتننکم الشیطان کما اخرج ابویکم (نداء سوم) یبنی ادم خذوا زینتکم عند کل مسجد الخ (نداء چہارم) یبنی ادم اما یاتینکم رسل منکم یقصون علیکم اٰیاتی۔ اور ان تمام مواضع میں حق تعالیٰ نے اپنے الزامات کا ذکر فرمایا ہے۔ نداء اول اے اولاد آدم ہم نے تم کو بےستری کی شرمندی سے بچانے کے لیے تم پر یہ انعام کیا کہ تحقیق ہم نے تم پر ایک لباس اتارا جو تمہاری شرمگاہوں کو چھپاتا ہے اور تمہارے لیے موجب زینت بھی ہے اور اس ظاہری لباس کے علاوہ جس سے صرف بدن کا تستر اور تزین ہوجاتا ہے ایک معنوی لباس بھی ہے وہ تقوی اور پرہیزگاری کا لباس ہے اور یہ لباس سب لباسوں سے بہتر ہے۔ تقوی سے مراد خوف خداوندی ہے جس میں ایمان اور اعمال صالحہ سب داخل ہیں۔ اور لباس پرہیزگاری سب لباسوں سے بہتر ہے ایک شاعر کہتا ہے۔ اذا انت لم تلبس ثیابا من التقی غریب وان واری القمیص قمیص یعنی اگر تو تقوی کا لباس پہنے ہوئے نہیں تو درحقیقت برہنہ ہے، اگرچہ ظاہر میں کرتہ پر کرتہ ہو : انزال کے معنی اوپر سے نیچے اتارنے کے ہیں چونکہ لباس کی پیدائش کا سبب بارش ہے جو آسمان سے نازل ہوتی ہے جب تک آسمان سے بارش نہ ہو تو زمین سے روئی پیدا نہیں ہوتی جس سے لباس بنتا ہے۔ اس لیے لباس کے پیدا کرنے کو اتارنے سے تعبیر کیا گیا۔ یہ یعنی ہمارا تم پر لباس ظاہری وباطنی کو اتارنا خدا کی نشانیوں میں سے ہے جو اس کے فضل و رحمت پر دلالت کرتی ہیں تاکہ لوگ ان میں غور کریں اور نصیحت پکڑیں اور اس کی نعمتوں کا شکر بجا لائیں اور برہنگی سے اپنے آپ کو محفوظ رکھیں۔ نداء دوم اے اولاد آدم تم اپنے باپ کا قصہ سن چکے ہوشیار رہنا کہیں شیطان تم کو فریب نہ دے دے۔ جیسا کہ اس نے تمہارے باپ آدم وحواکو جنت سے نکلوا دیا تھا۔ یعنی یہ شیطان تمہارا جدی اور پدری دشمن ہے اس سے احتیاط رکھنا یہ ننگے طواف کرنا اور تقوی کے لباس سے خالی ہونا یہ شیطانی حرکت ہے اسی نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے ایسی حالت میں نکلوایا کہ ان کا لباسان سے اس غرض سے اتارا تھا کہ ان کی شرمگاہیں دکھلائے تاکہ وہ اس شرم وندامت کی حالت میں جنت سے علیحدہ ہوں تحقیق وہ اور اس کا جتھا تم کو ایسی طرح سے دیکھتا ہے کہ تم ان کو نہیں دیکھتے یعنی شیاطین تو آدمیوں کو دیکھتے ہیں اور آدمی شیاطین کو نہیں دیکھتے ایسے دشمن سے بچنا بہت مشکل ہے کہ جو ہم کو تو دیکھتا ہوں اور ہم اسے نہ دیکھتے ہوں ایسے دشمن سے بچاؤ ایمان اور تقویٰ ہی کے لباس سے ممکن ہے تحقیق ہم نے شیاطین کو انہی لوگوں کا رفیق اور دوست بنایا ہے جو ایمان نہیں لاتے یعنی ان کا تسلط اور زور بےایمانوں ہی پر ہے جو اس کے دوست ہیں اور جو لوگ ایمان اور تقویٰ لباس زیب تن کیے ہوئے ہیں جس وقت بےحیائی کا کام کرتے ہیں۔ جیسے خانہ کعبہ کا ننگے طواف کرنا اور کوئی ان کو اس سے منع کرتا ہے تو اپنی اس بےحیائی کے عذر میں یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادوں کو اسی طریقہ پر پایا ہے اور اللہ نے ہم کو یہ حکم دیا ہے۔ یعنی اپنے افعال قبیحہ اور اعمال شنیعہ کے جواز اور استحسان کے ثبوت میں اپنے بڑوں کو پیش کرتے ہیں اور ان افعال کو فرمودۂ خداوندی بتلاتے ہیں اے نبی آپ ان سے کہدیجئے کہ تم خدا تعالے پر محض افتراء کرتے ہو کہ اللہ نے ہمیں اس کام کا حکم دیا ہے یہ بالکل جھوٹ ہے۔ تحقیق اللہ تعالیٰ بری باتوں کے کرنے کا حکم نہیں دیتا عقلاً یہ ناممکن اور محال ہے کہ اللہ تعالیٰ بےحیائی اور بری باتوں کا حکم دے اللہ تو انصاف کرنے کا اور نماز پڑھنے کا حکم دیتا ہے کیا تم اللہ کی طرف وہ بات منسوب کرتے ہو جس کا تمہیں کوئی علم نہیں یعنی تم اپنی بےعلمی سے اللہ پر بہتان باندھتے ہو۔ یہ نہایت سخت گستاخی اور بےباکی ہے آپ کہدیجئے کہ میرا پروردگار اس سے منزہ ہے کہ وہ کسی امر تسبیح کا حکم دے میرے پروردگار نے تو انصاف کا حکم دیا ہے اور انصاف کی بات یہ ہے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے خدا کے ساتھ کسی کو شریک گرداننا سراسر ظلم اور بےانصافی ہے اور میرے پروردگار نے یہ حکم دیا ہے کہ ہر نماز کے وقت اپنے منہ سیدھے خدا کی طرف متوجہ کرو اور اللہ کو ایسے پکارو کہ خالص اسی کی اطاعت کرنے والے ہو۔ یعنی عبادت اور دعا میں بتوں کو شریک نہ کرو محض اللہ ہی کی اطاعت کرو اور یہ سمجھ لو کہ ایک دن تم کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔ جیسے خدا نے تم کو پہلی بار پیدا کیا اسی طرح تم بالآخر اس کی طرف لوٹو گے یعنی ننگے پن اور ننگے بدن اور ننگے پاؤں اور غیر مختون اور خدا کے روبرو پیش ہوگے۔ اور تم سے اعمال کی باز پرس ہوگی اور اس وقت پیش آنے والے دو گروہ ہوں گے ایک اہل سعادت کا اور ایک اہل شقاوت کا یعنی مومن اور کافر۔ ان میں سے ایک فریق کو اللہ نے ہدایت دی جو نبی آخر الزمان پر ایمان لایا اور ایک فریق پر گمراہی اور بدبختی ثابت ہوئی جس نے شیاطین کو اپنا دوست بنایا اس وقت ہر ایک کی سعادت اور شقاوت ظاہر ہوجائے گی کیونکہ ان لوگوں نے خدا کو چھوڑ کر شیاطین کو اپنا دوست بنایا اور ان کے کہنے پر چلے اور توحید کی بجائے بت پرستی اختیار کی اور بیحیائی کے کام کیے اور گمان یہ کرتے ہیں کہ ہم ہدایت پر ہیں۔ حشر کے بعد معلوم ہوجائیگا کہ دنیا میں کون حق پر تھا اور کون باطل پر تھا۔ یعنی ایسے اندھے ہوگئے ہیں کہ گمراہی کو ہدایت سمجھتے ہیں۔ نداء سوم اے اولاد آدم تمام احوال میں اور خاص کر نماز کی حالت میں اپنے بدن کی زینت اور رونق کو یعنی لباس کو ضرور لے لیا کرو۔ جو تمہاری زینت اور آرائش کے لیے پیدا کیا گیا اور لذائذ اور طیبات سے کھاؤ اور پیو تاکہ عبادت، اور اطاعت خداوندی کی قوت تم میں پیدا ہو اور کھانے اور پینے اور پہننے میں حدود شریعت سے باہر نہ نکلو۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ حد سے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتے۔ زمانہ جاہلیت میں دستور تھا کہ کفار برہنہ ہو کر خانہ کعبہ کا طواف کرتے تھے مرد۔ دن میں اور عورتیں رات میں۔ نیز ایام حج میں کھانا بھی کم کھاتے اور بد مزہ کھایا کرتے تھے۔ اس میں گھی وگیرہ نہ ڈالتے تھے۔ اس آیت میں حق تعالیٰ نے ان لغویات کا رد فرمایا اور آئندہ آیات میں بھی اسی کا رد ہے۔ چناچہ فرماتے ہیں آپ ان لوگوں سے جو ایام حج میں پاکیزہ غذاؤں سے اجتناب کرتے ہیں اور برہنہ طواف کرنے کو عبادت سمجھتے ہیں یہ کہدیجئے کہ بتلاؤ کس نے حرام کیا ہے اللہ کی زینت کو یعنی لباس اور پوشاک کو جس کو اللہ نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کیا ہے اور کس نے حرام کیا ہے اللہ کی زینت کو یعنی لباس اور پوشاک کو جس کو اللہ نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کیا ہے اور کس نے حرام کیا ہے کھانے پینے کی پاکیزہ چیزوں کو یعنی کسی نے بھی حرام نہیں یہ تمہاری جہالت ہے کہ تم طواف میں کپڑے نہیں پہنتے جو تمہارے لیے موجب زینت ہیں اور گوشت اور چربی نہیں کھاتے جو تمہارے لیے باعث لذت و راحت ہیں یہ تمام لذائذ وطیبات تمہارے ہی نفع کے لیے پیدا کیے ہیں۔ آپ ان سے یہ کہہ دیجئے کہ یہ ملبوسات اور لذائذ طیبات کی نعمتیں دنیاوی زندگی میں دراصل ایمان والوں کے واسطے ہیں۔ یعنی کھانے پینے اور پہننے کی تمام نعمتیں در اصل مسلمانوں کے لیے پیدا کی گئی ہیں اور وہی ان کے اصل مستحق ہیں۔ تاکہ اللہ کے رزق سے اللہ کی طاعت اور عبادت کی قوت حاصل ہو۔ لیکن دنیا میں کافر بھی ان کے شریک ردئیے گئے ہیں بلکہ بطور استدراج وامہال ان کو زیادہ دے دیا گیا ہے تاکہ ان پر حجت پوری ہوجائے۔ رزق کے اسل مستحق اہل ایمان ہیں اور کافران کے طفیلی ہیں۔ ان نعمتوں سے مقصود بالانعام اہل ایمان ہیں جو اللہ کے محترم اور مکرم بندے ہیں جو اس کا رزق کھا کر اس کی اطاعت کرتے ہیں اور اس کے دشمنوں کا مقابلہ کرتے ہیں اور خدا کے نافرمان اور سرکش اگرچہ دنیاوی رزق میں بظاہر اہل ایمان کے شریک ہیں لیکن در پردہ طفیلی اور تابع ہیں کفار خدائے تعالیٰ کی نظر میں بمنزلہ چوپاؤں کے ہیں۔ اولئک کا لانعام بل ھم اضل ان شر الدواب عند اللہ الذین کفرو۔ جس طرح حیوان کو انسان کے طفیل میں کھانے کو بہت زیادہ مل جاتا ہے اسی طرح کفار کو اہل ایمان کے طفیل اور صدقہ میں خوب مل رہا ہے اور قیامت کے دن تمام نعمتیں خالص اہل ایمان ہی کے لیے ہوں گی۔ آخرت میں کفار کو بطور تطفل اور بطور تبعیت بھی ان نعمتوں میں سے کوئی حصہ نہیں ملے گا کیونکہ جنت اور جنت کی نعمتیں کافروں پر حرام ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت اور مصلحت سے دنیاوی زندگی میں کافروں کو نعمتوں میں شریک کردیا مگر یہ شرکت اصالتا نہیں بلکہ تبعا ہے بالذات نہیں بلکہ بالعرض ہے لقولہ تعالیٰ ومن کفر فامتعہ قلیلا ثم اضطرہ الی عذاب النار۔ یا یہ معنی ہیں کہ دنیا میں مومن اور کافر سب شریک ہیں۔ ع دشمن بریں خوان یغماچہ دوست مگر قیامت کے دن نعمتیں خاص ایمانداروں کے حصہ میں آئیں گی اور کفار ان سے محروم رہیں گے اسی طرح ہم اپنے احکام کو تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں اس گروہ کے لیے جو جانتے اور بوجھتے ہیں اور جو جہالتوں اور حماقتوں میں مبتلا ہیں ان کے لیے بتلانا اور نہ بتلانا سب برابر ہے۔ تفصیل محرمات گزشتہ آیات میں جاہلیت کی لغویات کا رد فرمایا اب آگے محرمات کی قدرے تفصیل فرماتے ہیں۔ آپ کہدیجئے کہ جز ایں نیست کہ اللہ نے حرام کیا ہے تمام بےحیائی کے کاموں کو جو ان میں سے ظاہر ہیں ان کو بھی جیسے برہنہ طواف کرنا اور جو ان میں سے چھپے ہیں ان کو بھی جیسے بدکاری مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے عمدہ لباس اور عمدہ غذاؤں کو حرام نہیں کیا بلکہ بےحیائی کے کاموں کو حرام کیا ہے جن کے تم مرتکب ہو اور اللہ نے ہر قسم کے گناہ کو حرام کیا ہے۔ جس میں شراب اور جوا خاص طور پر داخل ہے کما قال تعالیٰ فیھما اثم کبیر اور کسی پر ناحق ظلم اور زیادتی کو حرام کیا ہے اور اس بات کو اللہ نے حرام کیا ہے کہ تم اللہ کے ساتھ ایسی چیز کو شریک گردانو جس کی اللہ نے کوئی حجت اور سند نہیں اتاری اور حرام کیا اللہ نے اس بات کو کہ تم اللہ کی طرف ایسی بات منسوب کرو جس کا تم کو علم نہ ہو یعنی اپنی جہالت سے اللہ پر بہتان باندھنا حرام ہے ظلم اور زیادتی اور شرک اور خدا پر جھوٹ بولنا۔ اگرچہ فواحش اور اثم (گناہ) کے تحت میں داخل تھا لیکن چونکہ یہ تین گناہ سب سے بڑھ کر ہیں اس لیے ان کو علیحدہ بیان کیا تاکہ ان کی برائی واضح ہوجائے مطلب یہ ہے کہ جو چیزیں واقع میں حلال ہیں ان کو تم نے حرام سمجھ رکھا ہے اور جو چیزیں واقع میں حرام ہیں تو خدا تعالیٰ ان کے ارتکاب پر سزا کیوں نہیں دیتا تو جواب یہ ہے کہ ہر امت کے لیے ایک وقت مقرر ہے اس وقت مقرر کے آنے تک ان کو مہلت ملتی ہے پس جب وہ وقت مقرر آپہنچے تو ایک لمحہ کے لیے آگے اور پیچھے نہیں ہوسکتے وقت مقررہ آجانے کے بعد کوئی توبہ اور معذرت قوبل نہیں مقصود یہ ہے کہ عذاب الٰہی میں جلدی کرنا بیکار ہے ہر شخص کے لیے ایک خاص وقت مقرر ہے جب وہ وقت آجائے گا تو پھر ایک لمحہ کی تقدیم وتاخیر نہیں ہوسکتی۔ : لا یستقدمون کا ذکر محض تاکید اور مبالغہ کے لیے ہے جیسے ایک خریدار دکاندار سے قیمت بتلانے کے وقت کہتا ہے کچھ کم وبیش، تو دکاندار کہتا ہے کم وبیش کچھ نہیں دونوں جگہ کم کا ذکر مقصود ہے اور پیش کا لظ محض تاکید اور مبالغہ کے لیے تبعاً اور استطراداً ذکر کردیا گیا ہے اس طرح یہاں مقصود یہ ہے کہ جب خدا کا وعدہ آپہنچے تو پھر اٹل ہے ایک منٹ کی تقدیم وتاخیر نہیں ہوسکتی مقصود تاخیر کی نفی کرنا ہے۔ تقدیم کی نفی تو پہلے ہی سے ظاہر ہے اس کی نفی کا ذکر محض تاکید اور مبالغہ کے لیے ہے۔
Top