Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 26
یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِكُمْ وَ رِیْشًا١ؕ وَ لِبَاسُ التَّقْوٰى١ۙ ذٰلِكَ خَیْرٌ١ؕ ذٰلِكَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ : اے اولاد آدم قَدْ اَنْزَلْنَا : ہم نے اتارا عَلَيْكُمْ : تم پر لِبَاسًا : لباس يُّوَارِيْ : ڈھانکے سَوْاٰتِكُمْ : تمہارے ستر وَرِيْشًا : اور زینت وَلِبَاسُ : اور لباس التَّقْوٰى : پرہیزگاری ذٰلِكَ : یہ خَيْرٌ : بہتر ذٰلِكَ : یہ مِنْ : سے اٰيٰتِ : نشانیاں اللّٰهِ : اللہ لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَذَّكَّرُوْنَ : وہ غور کریں
اے بنی آدم ہم نے تم پوشاک اتاری کی تمہاری ستر ڈھانکے اور تمہارے بدن کو زینت دے اور جو پرہیزگاری کا لباس ہے وہ سب سے اچھا ہے۔ یہ خدا کی نشانیاں ہیں تاکہ لوگ نصیحت پکڑیں
تحذیر از فتنۂ شیطانی دربارۂ بےحیائی وعریانی قال اللہ تعالیٰ یبنی ادم قد انزلنا علیکم لباسا۔۔۔ الی۔۔۔ لا یستاخرون ساعۃ ولا یستقدمون (ربط) گزشتہ قصہ میں شیطان کی عداوت کا ذکر فرمایا اور اسی سلسلہ میں یہ بیان فرمایا کہ شیطان نے حضرت آدم اور حواء کو دھوکہ دیا جس کا اثر یہ ہوا کہ ان کے بدن سے جنت کا لباس اتر پڑا جس سے گھبرا کر اور شرما کر جنت کے درختوں کے پتوں سے ستر کو ڈھانکنے لگے۔ یہ برہنگی شیطان کا پہلا فتنہ تھا اب آئندہ آیات میں اسی فتنہ کے متعلق احکام ارشاد فرماتے ہیں جس میں اہل عرب اور شیطان کے اغواء اور اضلال سے مبتلا تھے کہ برہنہ طواف کرتے تھے اور بعض چیزوں کے کھانے کو زمانۂ حج میں حرام جانتے تھے بعض لوگ بکری کا دودھ اور گوشت اور چکنائی چھوڑ دیتے تھے اور بعض لوگ گھی کو حرام کرلیتے تھے۔ اور حضرت آدم کے قصہ میں شیطان کی عداوت کا اثر حضرت آدم (علیہ السلام) کے ساتھ لباس اور طعام میں ظاہر ہوا۔ شجرۂ مممنوعہ کے کھانے کی وجہ سے جنت کے باقی اطعمہ سے محروم ہوئے اور جنت کا لباس بھی بدن سے اتر گیا۔ اس لیے حضرت آدم کے قصہ کے بعد شیطان کے اضلال اور اغواء کا جو اثر عرب کے اطعمہ اور البسہ میں ظاہر ہوا اس کے متعلق احکام نازل ہوئے کہ عریانی اور برہنگی۔ یہ سب امور حرام ہیں اور شیطان کے اغواء اور اضلال سے ہیں۔ اس لیے ان آیات میں اولاد آدم کو شیطان کی عداوت سے ڈرایا کہ یہ لعین، کہیں باپ کی طرح تم کو مصیبت میں مبتلا نہ کردے اس لیے شدید احتیاط کی ضرورت ہے۔ حق جل شانہ نے ان ہدایات اور ارشادات میں بنی آدم کو چار جگہ یا بنی آدم کے خطاب سے مخاطب فرمایا اور لفظ یا کلام عرب میں نداء بعید کے لیے آتا ہے اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ جو لوگ اس قسم کی بےحیائیوں میں مبتلا ہیں۔ وہ فطرت اور انسانیت اور آدمیت سے بہت بعید ہیں ان کو فطرت اور آدمیت کے قریب کرنے کے لیے یا بنی آدم کہہ کر پکارا جا رہا ہے۔ (نداء اول) یبنی آدم قد انزلنا علیکم لباسا الخ نداء دوم) یبنی آدم لا یفتننکم الشیطان کما اخرج ابویکم (نداء سوم) یبنی ادم خذوا زینتکم عند کل مسجد الخ (نداء چہارم) یبنی ادم اما یاتینکم رسل منکم یقصون علیکم اٰیاتی۔ اور ان تمام مواضع میں حق تعالیٰ نے اپنے الزامات کا ذکر فرمایا ہے۔ نداء اول اے اولاد آدم ہم نے تم کو بےستری کی شرمندی سے بچانے کے لیے تم پر یہ انعام کیا کہ تحقیق ہم نے تم پر ایک لباس اتارا جو تمہاری شرمگاہوں کو چھپاتا ہے اور تمہارے لیے موجب زینت بھی ہے اور اس ظاہری لباس کے علاوہ جس سے صرف بدن کا تستر اور تزین ہوجاتا ہے ایک معنوی لباس بھی ہے وہ تقوی اور پرہیزگاری کا لباس ہے اور یہ لباس سب لباسوں سے بہتر ہے۔ تقوی سے مراد خوف خداوندی ہے جس میں ایمان اور اعمال صالحہ سب داخل ہیں۔ اور لباس پرہیزگاری سب لباسوں سے بہتر ہے ایک شاعر کہتا ہے۔ اذا انت لم تلبس ثیابا من التقی غریب وان واری القمیص قمیص یعنی اگر تو تقوی کا لباس پہنے ہوئے نہیں تو درحقیقت برہنہ ہے، اگرچہ ظاہر میں کرتہ پر کرتہ ہو : انزال کے معنی اوپر سے نیچے اتارنے کے ہیں چونکہ لباس کی پیدائش کا سبب بارش ہے جو آسمان سے نازل ہوتی ہے جب تک آسمان سے بارش نہ ہو تو زمین سے روئی پیدا نہیں ہوتی جس سے لباس بنتا ہے۔ اس لیے لباس کے پیدا کرنے کو اتارنے سے تعبیر کیا گیا۔ یہ یعنی ہمارا تم پر لباس ظاہری وباطنی کو اتارنا خدا کی نشانیوں میں سے ہے جو اس کے فضل و رحمت پر دلالت کرتی ہیں تاکہ لوگ ان میں غور کریں اور نصیحت پکڑیں اور اس کی نعمتوں کا شکر بجا لائیں اور برہنگی سے اپنے آپ کو محفوظ رکھیں۔ نداء دوم اے اولاد آدم تم اپنے باپ کا قصہ سن چکے ہوشیار رہنا کہیں شیطان تم کو فریب نہ دے دے۔ جیسا کہ اس نے تمہارے باپ آدم وحواکو جنت سے نکلوا دیا تھا۔ یعنی یہ شیطان تمہارا جدی اور پدری دشمن ہے اس سے احتیاط رکھنا یہ ننگے طواف کرنا اور تقوی کے لباس سے خالی ہونا یہ شیطانی حرکت ہے اسی نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے ایسی حالت میں نکلوایا کہ ان کا لباسان سے اس غرض سے اتارا تھا کہ ان کی شرمگاہیں دکھلائے تاکہ وہ اس شرم وندامت کی حالت میں جنت سے علیحدہ ہوں تحقیق وہ اور اس کا جتھا تم کو ایسی طرح سے دیکھتا ہے کہ تم ان کو نہیں دیکھتے یعنی شیاطین تو آدمیوں کو دیکھتے ہیں اور آدمی شیاطین کو نہیں دیکھتے ایسے دشمن سے بچنا بہت مشکل ہے کہ جو ہم کو تو دیکھتا ہوں اور ہم اسے نہ دیکھتے ہوں ایسے دشمن سے بچاؤ ایمان اور تقویٰ ہی کے لباس سے ممکن ہے تحقیق ہم نے شیاطین کو انہی لوگوں کا رفیق اور دوست بنایا ہے جو ایمان نہیں لاتے یعنی ان کا تسلط اور زور بےایمانوں ہی پر ہے جو اس کے دوست ہیں اور جو لوگ ایمان اور تقویٰ لباس زیب تن کیے ہوئے ہیں جس وقت بےحیائی کا کام کرتے ہیں۔ جیسے خانہ کعبہ کا ننگے طواف کرنا اور کوئی ان کو اس سے منع کرتا ہے تو اپنی اس بےحیائی کے عذر میں یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادوں کو اسی طریقہ پر پایا ہے اور اللہ نے ہم کو یہ حکم دیا ہے۔ یعنی اپنے افعال قبیحہ اور اعمال شنیعہ کے جواز اور استحسان کے ثبوت میں اپنے بڑوں کو پیش کرتے ہیں اور ان افعال کو فرمودۂ خداوندی بتلاتے ہیں اے نبی آپ ان سے کہدیجئے کہ تم خدا تعالے پر محض افتراء کرتے ہو کہ اللہ نے ہمیں اس کام کا حکم دیا ہے یہ بالکل جھوٹ ہے۔ تحقیق اللہ تعالیٰ بری باتوں کے کرنے کا حکم نہیں دیتا عقلاً یہ ناممکن اور محال ہے کہ اللہ تعالیٰ بےحیائی اور بری باتوں کا حکم دے اللہ تو انصاف کرنے کا اور نماز پڑھنے کا حکم دیتا ہے کیا تم اللہ کی طرف وہ بات منسوب کرتے ہو جس کا تمہیں کوئی علم نہیں یعنی تم اپنی بےعلمی سے اللہ پر بہتان باندھتے ہو۔ یہ نہایت سخت گستاخی اور بےباکی ہے آپ کہدیجئے کہ میرا پروردگار اس سے منزہ ہے کہ وہ کسی امر تسبیح کا حکم دے میرے پروردگار نے تو انصاف کا حکم دیا ہے اور انصاف کی بات یہ ہے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے خدا کے ساتھ کسی کو شریک گرداننا سراسر ظلم اور بےانصافی ہے اور میرے پروردگار نے یہ حکم دیا ہے کہ ہر نماز کے وقت اپنے منہ سیدھے خدا کی طرف متوجہ کرو اور اللہ کو ایسے پکارو کہ خالص اسی کی اطاعت کرنے والے ہو۔ یعنی عبادت اور دعا میں بتوں کو شریک نہ کرو محض اللہ ہی کی اطاعت کرو اور یہ سمجھ لو کہ ایک دن تم کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔ جیسے خدا نے تم کو پہلی بار پیدا کیا اسی طرح تم بالآخر اس کی طرف لوٹو گے یعنی ننگے پن اور ننگے بدن اور ننگے پاؤں اور غیر مختون اور خدا کے روبرو پیش ہوگے۔ اور تم سے اعمال کی باز پرس ہوگی اور اس وقت پیش آنے والے دو گروہ ہوں گے ایک اہل سعادت کا اور ایک اہل شقاوت کا یعنی مومن اور کافر۔ ان میں سے ایک فریق کو اللہ نے ہدایت دی جو نبی آخر الزمان پر ایمان لایا اور ایک فریق پر گمراہی اور بدبختی ثابت ہوئی جس نے شیاطین کو اپنا دوست بنایا اس وقت ہر ایک کی سعادت اور شقاوت ظاہر ہوجائے گی کیونکہ ان لوگوں نے خدا کو چھوڑ کر شیاطین کو اپنا دوست بنایا اور ان کے کہنے پر چلے اور توحید کی بجائے بت پرستی اختیار کی اور بیحیائی کے کام کیے اور گمان یہ کرتے ہیں کہ ہم ہدایت پر ہیں۔ حشر کے بعد معلوم ہوجائیگا کہ دنیا میں کون حق پر تھا اور کون باطل پر تھا۔ یعنی ایسے اندھے ہوگئے ہیں کہ گمراہی کو ہدایت سمجھتے ہیں۔ نداء سوم اے اولاد آدم تمام احوال میں اور خاص کر نماز کی حالت میں اپنے بدن کی زینت اور رونق کو یعنی لباس کو ضرور لے لیا کرو۔ جو تمہاری زینت اور آرائش کے لیے پیدا کیا گیا اور لذائذ اور طیبات سے کھاؤ اور پیو تاکہ عبادت، اور اطاعت خداوندی کی قوت تم میں پیدا ہو اور کھانے اور پینے اور پہننے میں حدود شریعت سے باہر نہ نکلو۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ حد سے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتے۔ زمانہ جاہلیت میں دستور تھا کہ کفار برہنہ ہو کر خانہ کعبہ کا طواف کرتے تھے مرد۔ دن میں اور عورتیں رات میں۔ نیز ایام حج میں کھانا بھی کم کھاتے اور بد مزہ کھایا کرتے تھے۔ اس میں گھی وگیرہ نہ ڈالتے تھے۔ اس آیت میں حق تعالیٰ نے ان لغویات کا رد فرمایا اور آئندہ آیات میں بھی اسی کا رد ہے۔ چناچہ فرماتے ہیں آپ ان لوگوں سے جو ایام حج میں پاکیزہ غذاؤں سے اجتناب کرتے ہیں اور برہنہ طواف کرنے کو عبادت سمجھتے ہیں یہ کہدیجئے کہ بتلاؤ کس نے حرام کیا ہے اللہ کی زینت کو یعنی لباس اور پوشاک کو جس کو اللہ نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کیا ہے اور کس نے حرام کیا ہے اللہ کی زینت کو یعنی لباس اور پوشاک کو جس کو اللہ نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کیا ہے اور کس نے حرام کیا ہے کھانے پینے کی پاکیزہ چیزوں کو یعنی کسی نے بھی حرام نہیں یہ تمہاری جہالت ہے کہ تم طواف میں کپڑے نہیں پہنتے جو تمہارے لیے موجب زینت ہیں اور گوشت اور چربی نہیں کھاتے جو تمہارے لیے باعث لذت و راحت ہیں یہ تمام لذائذ وطیبات تمہارے ہی نفع کے لیے پیدا کیے ہیں۔ آپ ان سے یہ کہہ دیجئے کہ یہ ملبوسات اور لذائذ طیبات کی نعمتیں دنیاوی زندگی میں دراصل ایمان والوں کے واسطے ہیں۔ یعنی کھانے پینے اور پہننے کی تمام نعمتیں در اصل مسلمانوں کے لیے پیدا کی گئی ہیں اور وہی ان کے اصل مستحق ہیں۔ تاکہ اللہ کے رزق سے اللہ کی طاعت اور عبادت کی قوت حاصل ہو۔ لیکن دنیا میں کافر بھی ان کے شریک ردئیے گئے ہیں بلکہ بطور استدراج وامہال ان کو زیادہ دے دیا گیا ہے تاکہ ان پر حجت پوری ہوجائے۔ رزق کے اسل مستحق اہل ایمان ہیں اور کافران کے طفیلی ہیں۔ ان نعمتوں سے مقصود بالانعام اہل ایمان ہیں جو اللہ کے محترم اور مکرم بندے ہیں جو اس کا رزق کھا کر اس کی اطاعت کرتے ہیں اور اس کے دشمنوں کا مقابلہ کرتے ہیں اور خدا کے نافرمان اور سرکش اگرچہ دنیاوی رزق میں بظاہر اہل ایمان کے شریک ہیں لیکن در پردہ طفیلی اور تابع ہیں کفار خدائے تعالیٰ کی نظر میں بمنزلہ چوپاؤں کے ہیں۔ اولئک کا لانعام بل ھم اضل ان شر الدواب عند اللہ الذین کفرو۔ جس طرح حیوان کو انسان کے طفیل میں کھانے کو بہت زیادہ مل جاتا ہے اسی طرح کفار کو اہل ایمان کے طفیل اور صدقہ میں خوب مل رہا ہے اور قیامت کے دن تمام نعمتیں خالص اہل ایمان ہی کے لیے ہوں گی۔ آخرت میں کفار کو بطور تطفل اور بطور تبعیت بھی ان نعمتوں میں سے کوئی حصہ نہیں ملے گا کیونکہ جنت اور جنت کی نعمتیں کافروں پر حرام ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت اور مصلحت سے دنیاوی زندگی میں کافروں کو نعمتوں میں شریک کردیا مگر یہ شرکت اصالتا نہیں بلکہ تبعا ہے بالذات نہیں بلکہ بالعرض ہے لقولہ تعالیٰ ومن کفر فامتعہ قلیلا ثم اضطرہ الی عذاب النار۔ یا یہ معنی ہیں کہ دنیا میں مومن اور کافر سب شریک ہیں۔ ع دشمن بریں خوان یغماچہ دوست مگر قیامت کے دن نعمتیں خاص ایمانداروں کے حصہ میں آئیں گی اور کفار ان سے محروم رہیں گے اسی طرح ہم اپنے احکام کو تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں اس گروہ کے لیے جو جانتے اور بوجھتے ہیں اور جو جہالتوں اور حماقتوں میں مبتلا ہیں ان کے لیے بتلانا اور نہ بتلانا سب برابر ہے۔ تفصیل محرمات گزشتہ آیات میں جاہلیت کی لغویات کا رد فرمایا اب آگے محرمات کی قدرے تفصیل فرماتے ہیں۔ آپ کہدیجئے کہ جز ایں نیست کہ اللہ نے حرام کیا ہے تمام بےحیائی کے کاموں کو جو ان میں سے ظاہر ہیں ان کو بھی جیسے برہنہ طواف کرنا اور جو ان میں سے چھپے ہیں ان کو بھی جیسے بدکاری مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے عمدہ لباس اور عمدہ غذاؤں کو حرام نہیں کیا بلکہ بےحیائی کے کاموں کو حرام کیا ہے جن کے تم مرتکب ہو اور اللہ نے ہر قسم کے گناہ کو حرام کیا ہے۔ جس میں شراب اور جوا خاص طور پر داخل ہے کما قال تعالیٰ فیھما اثم کبیر اور کسی پر ناحق ظلم اور زیادتی کو حرام کیا ہے اور اس بات کو اللہ نے حرام کیا ہے کہ تم اللہ کے ساتھ ایسی چیز کو شریک گردانو جس کی اللہ نے کوئی حجت اور سند نہیں اتاری اور حرام کیا اللہ نے اس بات کو کہ تم اللہ کی طرف ایسی بات منسوب کرو جس کا تم کو علم نہ ہو یعنی اپنی جہالت سے اللہ پر بہتان باندھنا حرام ہے ظلم اور زیادتی اور شرک اور خدا پر جھوٹ بولنا۔ اگرچہ فواحش اور اثم (گناہ) کے تحت میں داخل تھا لیکن چونکہ یہ تین گناہ سب سے بڑھ کر ہیں اس لیے ان کو علیحدہ بیان کیا تاکہ ان کی برائی واضح ہوجائے مطلب یہ ہے کہ جو چیزیں واقع میں حلال ہیں ان کو تم نے حرام سمجھ رکھا ہے اور جو چیزیں واقع میں حرام ہیں تو خدا تعالیٰ ان کے ارتکاب پر سزا کیوں نہیں دیتا تو جواب یہ ہے کہ ہر امت کے لیے ایک وقت مقرر ہے اس وقت مقرر کے آنے تک ان کو مہلت ملتی ہے پس جب وہ وقت مقرر آپہنچے تو ایک لمحہ کے لیے آگے اور پیچھے نہیں ہوسکتے وقت مقررہ آجانے کے بعد کوئی توبہ اور معذرت قوبل نہیں مقصود یہ ہے کہ عذاب الٰہی میں جلدی کرنا بیکار ہے ہر شخص کے لیے ایک خاص وقت مقرر ہے جب وہ وقت آجائے گا تو پھر ایک لمحہ کی تقدیم وتاخیر نہیں ہوسکتی۔ : لا یستقدمون کا ذکر محض تاکید اور مبالغہ کے لیے ہے جیسے ایک خریدار دکاندار سے قیمت بتلانے کے وقت کہتا ہے کچھ کم وبیش، تو دکاندار کہتا ہے کم وبیش کچھ نہیں دونوں جگہ کم کا ذکر مقصود ہے اور پیش کا لظ محض تاکید اور مبالغہ کے لیے تبعاً اور استطراداً ذکر کردیا گیا ہے اس طرح یہاں مقصود یہ ہے کہ جب خدا کا وعدہ آپہنچے تو پھر اٹل ہے ایک منٹ کی تقدیم وتاخیر نہیں ہوسکتی مقصود تاخیر کی نفی کرنا ہے۔ تقدیم کی نفی تو پہلے ہی سے ظاہر ہے اس کی نفی کا ذکر محض تاکید اور مبالغہ کے لیے ہے۔
Top