Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 35
یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ اِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْكُمْ اٰیٰتِیْ١ۙ فَمَنِ اتَّقٰى وَ اَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ : اے اولاد آدم اِمَّا : اگر يَاْتِيَنَّكُمْ : تمہارے پاس آئیں رُسُلٌ : رسول مِّنْكُمْ : تم میں سے يَقُصُّوْنَ : بیان کریں (سنائیں) عَلَيْكُمْ : تم پر (تمہیں) اٰيٰتِيْ : میری آیات فَمَنِ : تو جو اتَّقٰى : ڈرا وَاَصْلَحَ : اور اصلاح کرلی فَلَا خَوْفٌ : کوئی خوف نہیں عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا هُمْ : اور نہ وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
اے بنی آدم ہم تم کو یہ نصیحت ہمیشہ کر رہے ہیں کہ جب ہمارے پیغمبر تمہارے پاس آیا کریں اور ہماری آیتیں تم کو سنایا کریں تو ان پر ایمان لایا کرو کہ جو شخص ان پر ایمان لاکر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا تو ایسے لوگوں کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے۔
نداء چہارم تذکیر عہد قدیم باطاعت خداوند کریم وبیان نعیم وجحیم قال اللہ تعالیٰ یبنی ادم اما یاتینکم رسل منکم۔۔۔ الی۔۔۔ اور ثتموھا بماکنتم تعملون۔ (ربط) ( گزشتہ آیات میں بنی آدم کے لیے تین نداؤں کا بیان ہوا جن میں عقائد و اعمال میں ابلیس کے اتباع اور موافقت سے اور احکام الہیہ کی مخالفت سے ممانعت فرمائی اب آئندہ آیات میں نداء چہارم کا ذکر ہے جس سے بنی آدم کو اپنا عہد قدیم یاد دلاتے ہیں اور بتلاتے ہیں کہ تم کو اس مضمون کا خطاب کوئی جدید امر نہیں بلکہ عالم ارواح میں تم سے یہ عہد لے لیا گیا تھا کہ دیکھو ہم دنیا میں اپنے رسول بھیجیں گے اور ان کے ذریعہ سے ہم تم کو راہ ہدایت اور صراط مستقیم سے آگاہ کریں گے کہ اس راہ پر چل کر تم ہم تک پہنچ سکو گے اور جو ہمارے رسولوں کا اتباع کرے گا۔ اس کو یہ جزاء ملے گی اور جو ان کے احکام سے انحراف کرے گا اور شیطان کی راہ پر چلے گا اس کو یہ سزا بھگتنی پڑے گی جیسا کہ سورة بقرہ میں گزر چکا۔ قلنا اھبطوا منھا جمیعا فاما یاتینکم منی ھدی فمن تبع ھدای فلا خوف علیھم ولا ھم یحزنون الایات۔ غرض یہ کہ ان آیات میں اس عہد قدیم کا یاد دلانا مقصود ہے جو اولاد آدم سے عالم ارواح میں لیا گیا تھا جو توحید اور رسالت اور قیامت اور مبدأ ومعاد کے بیان پر اجمالا مشتمل تھا چناچہ فرماتے ہیں۔ اے اولاد آدم ہم نے تم سے روز ازل میں یہ کہ دیا تھا کہ اگر تمہارے پاس تم ہی میں سے یعنی تمہاری جنس سے رسول آئیں جو تم پر میری آیتیں پڑھیں پس جو ان کی ہدایت اور نصیحت کو سن کر اللہ سے ڈرے اور اپنی حالت کو درست کرے یعنی پوری طرح سے ان کا اتباع کرے تو ایسوں پر قیامت کے دن نہ کچھ خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ اور جنہوں نے ان کے آنے کے بعد ہمارے احکام کو جھٹلایا اور ان کے قبول کرنے سے تکبر کیا تو ایسے ہی لوگ دوزخی ہیں وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے کبھی بھی عذاب سے نہیں نکل سکیں گے۔ مسیلمہ قادیان کا ایک ھذیان واضح ہو کہ قادیانی جماعت نے مسیلمۂ قادیان کے اثبات نبوت کے لیے قرآن میں تحریف کا بیڑا اٹھا رکھا ہے چناچہ اس آیت کے معنی میں بھی تحریف کی ہے اور اس سے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد بھی رسول آسکتے ہیں۔ جواب : یہ ہے کہ یہ خطاب امت محمدیہ کو نہیں بلکہ یہ آیت حضرت آدم کے قصہ سے متعلق ہے۔ اور یہ اس وقت کا حکم ہے کہ جب دنیا کی ابتداء تھی اور زمین پر کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا تھا جیسا کہ ابن جریر (رح) تعالیٰ نے ابو یسار سلمی سے نقل کیا ہے کہ یہ خطاب یعنی یبنی ادم اما یاتینکم رسل منکم الخ کل اولاد آدم کو ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم اور ان کی ذریت کو اپنے دست قدرت میں لے کر عالم ارواح میں فرمایا تھا (روح المعانی ص 99 ج 8) جیسا کہ سورة بقرہ کے سیاق سے ظاہر ہوتا ہے قلنا اھبطوا منھا جمیعا فاما یاتینکم منی ھدی الخ اور سورة طہ کے رکوع ہفتم میں حضرت آدم اور حواء کو ملا کر ان الفاظ میں خطاب فرمایا ہے۔ قال اھبطا منھا جمیعا بعضکم لبعض عدو فاما یاتینکم منی ھدی فمن اتبع ھدای فلا یضل ولا یشقی۔ پس ان آیات نے واضح کردیا کہ یہ قصہ حضرت آدم کے وقت کا ہے اور یہ خطاب خاص اولاد آدم کو ہے کہ اے اولاد آدم خوب یادرکھو کہ یہ شیطان تمہارا دشمن ہے کہ تم اس کے مکروفریب سے ہوشیار رہنا۔ ایسا نہ ہو کہ تم کو شرک اور بےحیائی اور اثم وعدوان میں پھنسا کر پدری میراث (یعنی جنت) سے محروم کردے۔ ہم تذکیر آخرت کے لیے وقتا فوقتا تمہاری طرف اپنے رسول اور پیغمبر بھیجیں گے جو صاحب شریعت اور صاحب آیات بینات ہوں گے اور وہ تم کو اپنے باپ کی میراث یعنی جنت کے حاصل کرنے کی ترغیب دیں گے پس جو ان کا اتباع کرے گا وہ فلاح پائے گا اور جو ان کی تکذیب کرے گا وہ ہلاک اور برباد ہوگا چناچہ اس اعلان کے بعد حضرت آدم کی اولاد میں بڑے بڑے اولو العزم پیغمبر اور صاحب شریعت اور صاحب کتاب رسول اور پیغمبر آئے۔ یہاں تک کہ خاتم الانبیاء مبعوث ہوئے اور نبوت و رسالت کا دروازہ بند ہوگیا جیسا کہ آیات قرآنیہ اور احادیث متواترہ سے روز روشن کی طرح واضح ہے کہ سرور عالم محمد رسول اللہ ﷺ کے بعد قیامت تک کوئی نبی مبعوث نہ ہوگا۔ ق قادیان کے دہقان نصوص قطعیہ صریحہ کے خلاف قیامت تک کے لیے انبیاء ورسل کی آمد کا دروازہ کھولنا چاہتے ہیں اور اس قسم کی آیتوں سے استدلال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قیامت تک رسولوں کے بھیجنے کا وعدہ کیا ہے یہ بالکل غلط ہے یہ وعدہ اولاد آدم سے ہے خاتم الانبیاء کے بعد قیامت تک نہ کوئی جدید شریعت آسکتی ہے اور نہ کوئی صاحب کتاب رسول آسکتا ہے مسیلمۂ قادیان کے نزدیک خاتم الانبیاء کے بعد صرف غیر تشریعی نبوت کا دروازہ کھلا ہوا ہے اور تشریعی نبوت کا دروازہ اس کے نزدیک بھی بند ہے اور آیت مذکورہ یعنی یبنی ادم اما یاتینکم رسل منکم یقصون علیکم ایاتی میں بظاہر ان رسولوں کا آنا مراد ہے جو صاحب شریعت اور صاحب کتاب اور صاحب معجزات ہوں پس اگر یہ آیت بقاء نبوت پر دلیل ہے تو اس سے تو ہر قسم کی نبوت و رسالت کی بقاء ثابت ہوجائے گی۔ خواہ وہ نبوت تشریعی ہو یا غیر تشریعی۔ قادیان کے دہقان یہ کہہتے ہیں کہ نبوت ایک نعمت ہے۔ امت محمدیہ باوجود خیر الامم ہونے کے اس نعمت سے کیسے محروم رہے تو جواب یہ ہے کہ تشریعی نبوت سب سے ہی اعلی اور اکمل نعمت ہے تو جب سابقہ امتوں کو تشریعی نبی اور رسول ملتے رہے تو یہ امت تشریعی نبوت و رسالت کی نعمت سے کیوں محروم رہے اس لیے قادیانیوں کو چاہیے کہ کھل کر یہ اعلان کریں کہ تشریعی نبوت کا دروازہ بھی کھلا ہوا ہے اور خاتم الانبیاء کے بعد مستقل رسول اور صاحب شریعت اور صاحب کتاب نبی بھی آسکتے ہیں۔ ظلی اور بروزی نبوت کا نام لینے کی ضرورت نہیں غرض یہ کہ یہ آیت اگر بالفرض والتقدیر بقاء نبوت پر دلالت کرتی ہے تو اس آیت سے ہر قسم کے نبوت کے بقاء کا امکان ثابت ہوجائے گا۔ خواہ وہ نبوت تشریعی ہو یا غیر تشریعی سو یہ آیت بہائی فرقہ والوں کے لیے دلیل ہوگی جو اپنے اعتقاد میں قرآن کو منسوخ سمجھتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اب بہاء اللہ کی نبوت و رسالت کا دور شروع ہوگیا اور اسی آیت سے وہ دلیل پکڑتے ہیں۔ نیز اگر خاتم النبیین کے بعد کوئی نبی ہوسکتا ہے تو مرزائے قادیان کے بعد بھی نبی آسکتا ہے اور مرزا کا بھی ظل اور بروز ہوسکتا ہے۔ تفصیل سزائے مکذبین ومتکبرین گزشتہ آیت میں جس عہد کا ذکر کیا گیا اس میں نعیم وجحیم کا اجمالا ذکر تھا اب قدرے اس کی تفصیل کرتے ہیں۔ اول اہل جحیم کا حال بیان کرتے ہیں پھر اہل نعیم کا حال اور مآل بیان کریں گے۔ چناچہ فرماتے ہیں پس اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا۔ جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا یعنی جو بات خدا تعالیٰ نے نہیں کہی وہ اس کی طرف منسوب کی مثلا اس کا شریک ٹھہرایا یا اس کی آیتوں کو جھٹلایا یعنی جو بات خدا نے کہی تھی اس کا انکار کردیا ایسے لوگوں کو نوشۂ خداوندی سے حصہ پہنچے گا۔ یعنی خدا تعالیٰ نے ان کے لیے جو عمر اور مال وجاہ مقدر کیا ہے وہ ان کو دنیا میں مل جائے گا اور ایک وقت تک ان کو ملتا رہے گا۔ یہاں تک کہ جب ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے ان کی روحیں نکالنے آئیں گے تو وہ ان سے کہیں گے بتلاؤ کہا ہیں وہ جن کو تم اللہ کے سوا پکارا کرتے تھے۔ یعنی ان کو پکارو اور بلاؤ کو تمہاری مدد کریں اور تم کو عذاب سے بچائیں کفار جواب دیں گے کہ وہ معبود تو ہم سے غائب ہوگئے۔ واقعی کوئی ہمارے کام نہیں آیا اور اس وقت مجبور ہو کر وہ کافر اپنی جانوں پر گواہی دیں گے کہ بیشک وہ کافر تھے یعنی وہ اپنے کفر کا اقرار کریں گے اور بعض آیات میں جو یہ آیا ہے کہ وہ اپنے کفر وشرک کا انکار کریں گے۔ سو وہ اس آیت کے منافی نہیں اس لیے کہ قیامت کے دن مختلف مواقف اور مختلف احوال ہوں گے کسی جگہ انکار کریں گے اور کسی جگہ اقرار کریں گے خدا تعالیٰ فرمائے گا کہ تم سب آگ میں ان امتوں کے ساتھ شامل ہوجاؤ جو جنوں اور انسانوں میں سے تم سے پہلے گزری ہیں یعنی جس آگ میں پہلے زمانوں کے کفار جن وانس ہیں تم بھی انہی میں داخل اور شامل ہوجاؤ اور اس وقت کیفیت یہ ہوگی کہ جب کبھی کوئی جماعت داخل ہوگی تو لعنت کرے گی اپنی دوسری ہم جنس جماعت پر یہودی یہودیوں پر لعنت کریں گے۔ عیسائی عیسائیوں پر۔ مجوسی مجوسیوں پر غرض یہ کہ اس مصیبت میں ایک دوسرے کی ہمدردی تو کیا ہوتی ایک دوسرے پر لعنت کریں گے یہاں تک کہ جب وہ سب دوزخ میں گر کر ایک دوسرے سے مل جائیں گے تو ان کی پچھلی جماعت جو بعد میں داخل ہوئی ہوگی ان کی پہلی جماعت کے حق میں یہ کہے گی پچھلی جماعت سے عوام الناس مراد ہیں جو اپنے سرداروں کے تابع تھے اور ان کے حکم پر چلتے تھے اور پہلی جماعت سے ان کے سردار اور رؤسا مراد ہیں۔ اے ہمارے پروردگار انہی لوگوں نے ہم کو گمراہ کیا تھا یعنی یہ ہمارے مقتداء اور گمراہ ہیں اور ہم کو بھی گمراہ کر رہے ہیں غرض یہ کہ ہماری گمراہی کا سبب یہ لوگ ہوئے ہیں سو آپ ان لوگوں کو بہ نسبت ہمارے دوزخ کا عذاب دو چند دیجئے کیونکہ ان کا دھرا قصور ہے یہ خود بھی گمراہ تھے اور ہم کو بھی گمراہ کیا۔ خدا تعالیٰ فرمائے گا دونوں کا دونا عذاب ہے پہلی جماعت کو اس لیے دو گنا عذاب ہے کہ خود بھی گمراہ ہوئے اور باوجود اس کے کہ انبیاء اور ان کے وارثوں نے براہین قاطعہ اور دلائل ساطعہ سے تم پر حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا واضح کردیا۔ پھر بھی تم نے ان گمراہوں کا تباع کیا اور اہل حق کو چھوڑ کر ان کے پیچھے ہوئے اور انبیاء اور ان کے وارثوں نے پچھلی قوموں کی تباہی اور بربادی کا حال تم کو سنادیا۔ پھر بھی تم نے عبرت حاصل نہ کی و لیکن تم جانتے نہیں کہ ہر فریق کس درجہ عذاب کا مستحق ہے اور آئندہ چل کر اس کے عذاب میں کس قدر زیادتی ہوگی اور حق تعالیٰ کے اس جواب کے بعد ان کی پہلی جماعت ان کی پچھلی جماعت سے یہ کہے گی پس اس حساب سے تو تم کو ہم پر کوئی فضیلت اور فوقیت نہ ہوئی ہم دو چند عذاب میں مبتلا ہوئے اسی طرح تم بھی دو چند عذاب میں مبتلا ہوئے۔ گمراہی اور کفر میں ہم تم دونوں برابر ہیں۔ اچھا تو اب ہماری طرح تم بھی عذاب کا مزہ چکھو بدلہ میں اس کفر کے جو تم کماتے تھے۔ الغرض ہر ایک اپنے کرتوت کا مزہ چکھے گا۔ اس میں شک نہیں کہ جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان کے قبول کرنے سے تکبر کیا ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے۔ یعنی ان کی زندگی میں ان کے اعمال وافعال آسمان پر نہیں چڑھ سکیں گی کیونکہ ان کے اعمال گندے ہیں اور ان کی روحیں نجس ہیں اور اللہ کی طرف اعمال صالحہ اور کلمات طیبہ اور پاک روحیں ہی چڑھتی ہیں۔ اسمان کا دروازہ ان لوگوں کے لیے کھلتا ہے۔ جنہوں نے انبیاء کرام کی بےچون وچرا تصدیق کی اور سر تسلیم ان کے سامنے خم کیا۔ اور جنہوں نے بجائے تصدیق کے انبیاء کی تکذیب کی اور بجائے تواضع کے ان سے تکبر کیا ان کے لیے آسمان کا دروازہ نہیں کھل سکتا جیسا کہ احادیث میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہے کہ فرشتے جب کافر کی روح کو قبض کر کے آسمان کی طرف چرھتے ہیں تو آسمان اور زمین کے درمیان رہنے والے فرشتوں کی جس جماعت پر گزرتے ہیں تو وہ جماعت یہ کہتی ہے کہ یہ خبیث روح کس کی ہے جس سے مردار کی بدبو آرہی ہے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ یہ فلاں بن فلاں ہے اور دنیا میں جو اس کا بہت برا نام تھا وہ لے کر بتاتے ہیں یعنی اس خبیث کا اسم اور مسمی دونوں ہی گندہ اور پلید ہیں جب آسمان پر پہنچتے ہیں تو اس کے لیے دروازہ کھولنے کی درخواست کرتے ہیں۔ مگر اس کے لیے دروازہ نہیں کھولا جاتا اور اس کی روح کو آسمان سے سجین کی طرف پھینک دیا جاتا ہے اور مومن کی روح کے لیے آسمان کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور ہر آسمان کے مقرب فرشتے دوسرے آسمان تک اس کے ساتھ جاتے ہیں۔ تفصیل کے لیے احادیث کا مطالعہ کریں۔ غرض یہ کہ کافروں کی ارواح کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے تو یہ مرنے کے بعد کا حال ہوا اور قیامت کے حساب و کتاب کے بعد یہ لوگ جنت میں داخل نہیں ہونگے۔ یہاں تک کے اونٹ سوئی کے ناکہ میں داخل ہوجائے اور ظاہر ہے کہ یہ ناممکن اور محال ہے لہذا ان کا جنت میں داخل ہونا بھی ناممکن اور محال ہے۔ اس قسم کے کلام کو تعلیق بالمحال کہتے ہیں حاصل یہ ہے کہ جس طرح اونٹ کا سوئی کے ناکہ میں داخل ہونا محال ہے۔ اسی طرح ان کا جنت میں داخل ہونا بھی محال ہے اور اسی طرح ہم مجرموں کو سزا دیا کرتے ہیں یعنی کفار کو جو ہم نے یہ سزا دی کہ جنت میں ان کا داخل ہونا ناممکن اور محال بنادیا وجہ اس کی یہ ہے کہ وہ مجرم ہیں اور مجرم کی یہی سزا ہے اور جرم یہ ہے کہ احکام خداوندی کی تکذیب کی اور ان کے قبول کرنے ستکبر کیا مقصود یہ ہے کہ کافر دخول جنت سے قطعاً مایوس اور ناامید ہوجائیں ان کی تکذیب اور تکبر نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان پر جنت کا دروازہ بند کردیا۔ اور عذاب محیط کو ان پر ایسا مسلط کردیا کہ ان کے لیے دوزخ ہی کافرش ہوگا اور ان کے اوپر اسی کے بالا پوش ہوں گے یعنی آگ ہی ان کا اوڑھنا اور بچھونا ہوگی۔ جس طرح دنیا میں ان کو کفر اور تکذیب اور تکبر احاطہ کیے ہوئے تھا اسی طرح آخرت میں ان کو عذاب خداوندی احاطہ کیے ہوئے ہوگا اور اسی طرح ہم ظالموں کو سزا دیا کرتے ہیں اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو اللہ پر جھوٹ بولے یا اس کے احکام کو جھٹلائے جس کا ذکر فمن اطلم ممن افتری علی اللہ کذبا الخ میں ابھی گزرا ہے ظلم ہی سے کلام کا آغاز ہوا اور ظلم ہی پر اس کا اختتام ہوا۔ تفصیل جزاء مومنین صالحین گزشتہ آیات میں مکذبین اور متکبرین کی سزا کی تفصیل تھی اب آگے مومنین صالحین کی جزاء کی تفصیل ہے جس میں اشارۃً یہ بتلایا ہے کہ آسمان اور جنت کے دروازوں کا کھلنا اعمال شاقہ پر موقوف نہیں کہ کوئی شخص کسی درجہ میں مشقت یا تکلیف مالا یطاق کا عذر کرسکے چناچہ فرماتے ہیں اور جو لوگ آیات الہیہ پر ایمان لائے اور انبیاء کی ہدایت کے مطابق انہوں نے نیک عمل کیے اور ایمان لانا اور اعمال صالحہ کا کرنا کوئی مشکل کام نہیں کیونکہ ہماری عادت یہ ہے کہ ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے اور اس کے مقدمات سے برھ کر اس پر بوجھ نہیں ڈالتے مطلب یہ ہے کہ ایمان اور عمل صالح کی تکلیف ایسا بوجھ نہیں جو ناقابل برداشت ہو اور طاقت بشری سے باہر ہو سو ایسے لوگ بہشتی ہیں بہشت میں داخل ہونگے وہ ہمیشہ بہشت ہی میں رہیں گے عمل ان کا اگرچہ محدود تھا مگر اس کی جزاء غیر محدود ہوگی اور جنت میں داخل ہوں گے وہ ہمیشہ بہشت ہی میں رہیں گے عمل انکا اگرچہ محدود تھا مگر اس کی جزاء غیر محدود ہوگی اور جنت میں داخل ہونے کے بعد اہل جنت کے مابین اہل نار کی طرح باہمی عداوت اور ایک دوسرے پر لعنت اور ایک دوسرے سے نفرت نہ ہوگی بلکہ ان مومنین صالحین کے سینوں میں جو ایک دوسرے کی طرف سے دنیا میں بمقتضائے بشریت کسی غلط فہمی کی بناء پر کسی قسم کی کوئی خفگی اور رنجش اور ناخوشی ہوگی تو جنت میں جانے کے بعد اس کو ہم ان کے سینوں سے کھینچ کر باہر نکال دیں گے جنت میں پنچ جانے کے بعد نہ ایک کو دوسرے سے عداوت ہوگی اور نہ شکوہ وشکایت سب بھائی بھائی بن کر رہیں گے کیونکہ رنج وغم عیش کو مکدر کردیتا ہے اور جنت میں تکدر کا نام ونشان نہ ہوگا اس آیت سے معلوم ہوا کہ دنیا میں کبھی اس درجہ کے نیکوں میں بھی باہم رنجش اور کدورت پیش آجایا کرتی ہے جو خدا کے نزدیک بھی الذین امنوا وعملوا الصالحات اور اصحاب الجنۃ کا مصداق ہوتے ہیں اور ان کی اس باہمی رنجش سے اللہ کے نزدیک ان کے مرتبہ میں کوئی فرق نہیں آتا کیونکہ ان کی رنجش اور کدورت کی بنیاد حسد اور طمع پر نہیں ہوتی بلکہ محض للہ اور فی اللہ ہوتی ہے گو نفس الامر میں ان دونوں میں سے ایک خطا پر ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ اپنی طرف سے طلب حق میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرتے ان سے جو خطا اور غلطی ہوتی ہے وہ اجتہادی ہوتی ہے جس پر کوئی مواخذہ نہیں جیسا کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے لا تکلف نفس الا وسعہا۔ بلکہ اس پر اجر جیسا کہ حدیث میں ہے من اجتھد فاصاب فلہ اجران و من اخطأ فلہ اجر واحد۔ جس نے اجتہاد کیا اور صواب کو پہنچا اس کو دو اجر ہیں اور جس نے اجتہاد میں خطا کی اس کو ایک اجر ہے حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت ہم اہل بدر کے بارے میں نازل ہوئی۔ نیز آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ مجھے امید ہے کہ میں اور عثمان ؓ اور طلحہ ؓ اور زبیر ؓ قیامت کے دن انہی لوگوں میں سے ہونگے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے ونزعنا ما فی صدورھم من غل (تفسیر ابن کثیر ص 215 ج 2 (تفسیر قرطبی ص 208 ج 7) کہتے ہیں کہ جنتی جب جنت کی طرف دوڑیں گے تو اس کے دروازے کے پاس ایک درخت پائیں گے جس کے نیچے دو چشمے جاری ہونگے جس میں سے ایک چشمے کا پانی وہ پئیں گے تو ان کے سینوں کا کینہ دور ہوجائیگا۔ وہی شراب طہور ہے کما قال تعالیٰ وسقاھم ربھم شرابا طھورا دوسرے چشمے سے وہ غسل کریں گے گے جس سے ان پر تازگی اور خوشحالی آجائے گی۔ (روح المعانی ص 104 ج 8 و تفسیر ابن کثیر ص 215 ج 2) اور بعض علماء نے ونزعنا مافی صدورھم من غل کے یہ معنی بیان کیے ہیں کہ باوجودیکہ جنتیوں کے مدارج مختلف ہوں گے کوئی اعلی درجہ میں ہوگا اور کوئی ادنی درجہ میں مگر با ایں ہمہ ان کے دلوں میں ایک دوسرے پر حسد نہ ہوگا ہر ایک اپنے درجہ میں خوش ہوگا اور سب ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور اخلاص رکھیں گے بخلاف دوزخیوں کے کہ وہ ایک دوسرے پر لعنت کریں گے (تفسیر قرطبی ص 208 ج 7) ان کے مکانات کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور وہ لوگ غایت مسرت سے حق تعالیٰ کے شکر میں یہ کہیں گے کہ سپاس بےقیاس ہے اس خداوند کریم کے لیے جس نے اپنے لطف وکرم سے ہم کو دنیا میں ایمان صحیح اور عمل صالح کی توفیق دی جس کی بدولت آج ہم کو جنت کی یہ عزت و کرامت نصیب ہوئی اور ہم بذات خود رہ یاب نہ ہوتے اگر اللہ ہم کو توفیق نہ دیتا اس کی توفیق اور عنایت سے ہم کو ہدایت میسر ہوئی واللہ لولا اللہ ما اھتدینا ولا تصدقنا ولا صلینا فانزلن سکینۃ علینا ونحن عن فضلک ما استغینا گر بدرقۂ لطف تو نماید راہ از راہ تو ہیچ کس نگگردد آگاہ آنکہ برہ رسند وباید رفتن توفیق رفیق نشد واویلاہ اہل ایمان دخول جنت کے بعد اول حق تعالیٰ کی نعمت ہدایت اور نعمت توفیق کا شکر ادا کریں گے بعد ازاں حضرات انبیاء ورسل کا ذکر کریں گے جو خدا اور بندوں کے درمیان میں واسطہ فی الہدایت اور واسطہ فی الانعام ہیں اور یہ کہیں گے البتہ تحقیق ہمارے پروردگار کے رسول حق لے کر آئے تھے اگر یہ حضرات ہماری رہبری اور رہنمائی نہ کرتے تو ہم خدا تک نہیں پہنچ سکتے تھے یہ نعمت و کرامت جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں وہ سب ان کا فیض صحبت اور ان کے اتباع کی برکت ہے اور ان حضرات نے ایمان اور عمل صالح اور اتباع شریعت پر ہجو جو وعدے ہم سے لیے تھے وہ سب سچ نکلے اور نعمائے آخرت کی جو بشارتیں ان حضرات نے ہم کو دی تھیں آج ہم نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرلیا۔ ہم کو جو کچھ ملا وہ حضرات انبیاء کے واسطے سے ملا بغیر انبیاء کرام کے توسط کے بارگاہ خداوندی میں رسائی ممکن نہیں۔ صلوات اللہ وسلامہ علیھم اجمعین وعلی خاتم الانبیاء والمرسلین وعلی آلہ و اصحابہ اجمعین وعلینا معھم یا ارحم الراحمین۔ خلاصۂ مطلب یہ کہ محض حق تعالیٰ کی توفیق اور دستگیری اور پھر حضرات انبیاء کرام کی رہنمائی اور رہبری سے ہم کو یہ اعلی مقام نصیب ہوا اور نہ ہم کہاں اور یہ مقام کہاں اور اہل جنت جب ان تمام نعمتوں اور کرامتوں کو اللہ تعالیٰ کی توفیق اور ہدایت اور اس کے لطف و عنایت کا کرشمہ سمجھ کر اس کا شکر کریں گے اور اس کو اپنے ایمان اور عمل صالح کا ثمرہ اور صلہ نہیں سمجھیں گے۔ تو اس وقت ان کو خدا کی طرف سے نداء دی جائے گی۔ کہ یہ جنت ہے جس کے تم اپنے عملوں کے عوض وارث بنائے گئے ہو یعنی یہی وہ جنت ہے جس کا تم سے دنیا میں رسولوں نے وعدہ کیا تھا اب تم اس کے مالک ہوگئے حق تعالیٰ کے فضل سے اور پھر ایمان اور عمل صالح کی برکت سے تم نے اپنے باپ آدم کی میراث ہمیشہ کے لیے حاصل کرلی۔ : اور یہ نداء کرنے والا خدا کی طرف سے کوئی فرشتہ ہوگا جیسا کہ تفسیر در منثور میں ابو معاذ بصری ؓ سے مرفوعاً منقول ہے جس کے الفاظ یہ ہیں فیذھب الملک فیقول سلام علیکم تلکم الجنۃ اور ثتموھا بما کنتم تعملون۔ نکتہ : اہل جنت نے اپنے اعمال کو حقیر اور ہیچ سمجھا اور جنت کو محض اللہ کا فضل سمجھا اور اس کا شکر کیا اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آوازہ پڑا کہ چونکہ تم نے اعمال کو حقیر اور ہیچ سمجھا اور ان کو قابل جزا اور انعام نہ جانا اور ہماری بارگاہ میں تذلل اور تواضع اور ادب کو ملحوظ رکھا اس لیے اعلان کیا جاتا ہے کہ یہ جنت تمہاری عملی جدو جہد کا ثمرہ اور نتیجہ ہے اور ہمیشہ کے لیے تم اس کے مالک بنادئیے گئے۔ نکتہ دیگر : بما کنتم تعملون سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ عمل صالح دخول جنت کا سبب ہے اور ایک حدیث میں یہ آیا ہے کہ کوئی شخص بسبب عمل کے جنت میں نہ جائے گا بلکہ رحمت الٰہی کے سبب سے جنت میں جائیں گے سو جاننا چاہئے کہ آیت اور حدیث میں کوئی تعارض نہیں دخول جنت کا سبب ظاہری بندہ کا عمل ہے اور سبب حقیقی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے آیت میں سبب ظاہری کا ذکر ہے اور حدیث میں سبب حقیقی مراد ہے پس آیت اور حدیث میں کوئی تعارض نہیں رہا۔
Top