بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - An-Naba : 1
عَمَّ یَتَسَآءَلُوْنَۚ
عَمَّ : کس چیز کے بارے میں يَتَسَآءَلُوْنَ : وہ ایک دوسرے سے سوال کر رہے ہیں
(یہ) لوگ کس چیز کی نسبت پوچھتے ہیں ؟
سورة النبا : گستاخی مجرمین بصورت سوال ومطالبہ روز قیامت وذکر قانون جزاء وسزا مع دلائل قدرت : قال اللہ تعالیٰ : (آیت) ” عم یتسآء لون ........ الی ......... فلن نزیدکم الا عذابا “۔ (ربط) سورة نباء مکی سورت ہے جس کی چالیس آیات اور دو رکوع ہیں۔ اس سے قبل سورة المرسلات میں حق تعالیٰ شانہ نے بڑی ہی قوت و عظمت کے ساتھ اعلان فرمایا کہ جس قیامت کا انسانوں سے وعدہ کیا گیا وہ یقیناً برپا ہو کر رہے گی، اس کے لئے خداوند عالم نے ہواؤں اور فرشتوں کی قسم کھا کر نہ صرف یہ کہ وقوع قیامت کا اعلان فرمایا بلکہ احوال قیامت بھی ذکر کردئیے گئے کہ جب نظام عالم درہم برہم ہوگا، تو زمین و آسمان اور چاند سورج اور کواکب کا کیا حال ہوگا، اب اس سورت میں مجرمین ومنکرین قیامت کے معاملہ میں جس گستاخی سے سوال کرتے تھے یا یہ مطالبہ کہ قیامت کب آئے گی، اور کیوں نہیں قیامت واقع ہوتی بیان کرکے ان کا رد، اور ان پر تنبیہ کی جارہی ہے اور ساتھ ہی دلائل قدرت اور جزاء وسزا کا قانون بھی بیان فرمایا جارہا ہے، ارشاد فرمایا ، کس چیز کے بارے میں یہ لوگ ایک دوسرے سے سوال کررہے ہیں، آخر کس بات کی تحقیق وتفتیش مقصود ہے، کیا ان میں اس امر کی صلاحیت ہے کہ جس چیز کو آپس میں ایک دوسرے سے بطور استہزاء و مذاق پوچھ رہے ہیں، اس کی حقیقت سمجھ لیں ؟ نہیں ہرگز نہیں، یا یہ کہ وہ جو پیغمبر خدا اور مومنین سے سوال کر رہے ہیں اور بطور تمسخر کہہ رہے ہیں کہ جناب وہ قیامت کب آئے گی، دیر کیوں ہورہی ہے اور اب تک کیوں نہیں آئی اے مخاطبو ! جانتے بھی ہو کہ یہ کیسی چیز کا سوال کررہے ہیں، یہ پوچھ رہے ہیں ایک بہت ہی عظیم الشان خبر اور ہیبت ناک بات کو، جس میں وہ خود مختلف ہیں کوئی کہتا ہے کہ ہرگز قیامت نہیں آئیگی کوئی اس کو مانتا ہے کوئی کہتا ہے کہ عذاب وثواب روح پر ہوگا، بدن سے اس کا کوئی تعلق نہیں، کسی کا خیال ہے کہ بدن بھی اٹھایا جائے گا تو جس چیز میں خود یہ اختلاف کررہے ہیں، اس کے بارے میں اس طرح کا سوال یا مطالبہ یا اس کا مذاق نہایت ہی لغو اور بیہودہ بات ہے، خبردار ہوجاؤ اب عنقریب ہی یہ لوگ جان لیں گے پھر خبردار ہوجاؤ ضرور یہ لوگ جان لیں گے کہ قیامت کیا ہے اور اس کے ہولناک مناظر کیسے ہیں یہ سب کچھ آنکھوں کے سامنے آجائے گا آخران کو اس بارے میں کیا تردد اور شبہ ہے، ہماری قدرت تو ہر چیز پر غالب ہے، تو کیا نہیں بنایا ہے ہم نے زمین کو بستر انسانوں کے لیے جس پر وہ آرام کرتے ہیں اور اسی پر ان کا اٹھنا بیٹھنا اور لیٹنا ہے، اور کیا نہیں بنایا ہم نے زمین کے لیے پہاڑوں کو میخیں جنہوں نے لرزتی ہوئی اور کانپتی ہوئی زمین کو میخوں کی طرح قائم ہو کر ساکن بنادیا۔ حاشیہ (جیسا کہ احادیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ رب العزت نے جب زمین کو پیدا فرمایا وہ حرکت کرنے لگی اور لرزنے لگی، تو پہاڑ پیدا فرمائے اور پہاڑوں کو زمین کے مختلف حصوں اور جانبوں میں میخوں کی طرح گاڑ دیا جس پر زمین ساکن ہوگئی۔ 12) (جامعی ترمذی) اور ہم نے پیدا کی ہے تم کو جوڑے بنا بنا کر یعنی مرد و عورت، تاکہ مرد عورت کو اپنا جوڑا بنا کر اس کے ذریعے سکون حاصل کرے جیسا کہ (آیت) ” ومن ایتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا الیھا “۔ میں فرمایا، یا طرح طرح کی شکلیں اور صورتیں بنائیں، اچھی بری یا انسانوں میں بعضے نیک اور بعضے بد، وغیرہ تو اس طرح اے انسانو ! تم کو تقابل اور جوڑے کی شکل میں بنایا ہے، اور بنایا ہم نے تمہاری نیند کو ارام اور بدن کی راحت کا ذریعہ اور دن بھر کی محنت ومشقت کے بعد تکان وتعب سے سکون حاصل کرنے کا سامان، اور بنادیا رات کو تمہارے واسطے اوڑھنا جو لباس کی طرح تم کو اپنے میں چھپا لیتی ہے اور لباس کی طرح انسان کے بدن کو راحت و آرام پہنچاتی ہے اور لباس پردہ بھی ہے تو رات کی تاریکی میں ہر کام چھپا ہوا رہتا ہے، رات کی تنہائیوں میں خدا کی عبادت کرنے والے لوگوں کی نگاہوں سے مستور، اخلاص کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں تو کچھ بدنصیب رات کے پردہ میں چھپ کر جرائم ومعاصی کے مرتکب ہوتے ہیں، غرض رات کا پردہ مخلوق کے عیب وہنر کو خالق کے سامنے عیاں کرنے کا بھی سامان ہے، اور بنایا ہے دن کو روزی کا ذریعہ، کہ اس میں ہر ایک کسب معاش اور روزی کمانے میں مصروف ہوتا ہے۔ اہل سعادت کسب معاش یا کسب فضائل کے لئے رات کے آرام کو عملی قوتوں کے لئے مستعد اور توانا بناتے ہیں لیکن اہل شقاوت اور غافلوں کی زندگی بس اسی طرح گذر جاتی ہے، دن کو وقت روزی کمانے میں اور رات کا وقت آرام و راحت یا عیش و عشرت میں گذر جاتا ہے، حالانکہ اللہ کی قدرت انسانوں کی نظروں کے سامنے ہمہ وقت ظاہر ہے اور بنایا ہے ہم نے تمہارے اوپر سات آسمانوں کو مضبوط چھت کی طرح جو تمہارے سروں پر قائم ہے جو مدت دراز گذرنے کے باوجود نہ بوسیدہ ہوئے اور نہ ہی ان میں کوئی رخنہ پیدا ہوا، تو جس خدا نے یہ آسمان اپنی حکمت وقدرت سے بنائے اس کی قدرت و حکمت کو سمجھنا چاہئے اور اس سے اپنی زندگی کا رشتہ قائم کرکے اپنے شب وروز فکر آخرت میں گذارنے چاہئیں نہ کہ غفلت اور محض دنیا کمانے میں ،۔ اور بنایا ہم نے سورج کو ایک دہکتا ہوا چراغ، پھر اس سورج کے نور سے چاند اور تاروں کو نور بخشا، اور اس جہان میں بندوں کے لئے جو بھی راحت کے اسباب اور رزق کے سامان تھے وہ مہیا کئے اس طرح کہ اتارا ہم نے بادلوں سے برستا ہوا پانی، فلاسفہ اور حکماء خواہ اس کے کچھ بھی اسباب بیان کریں لیکن ان اسباب کی یہ کارفرمائی بھی ایک عظیم قدرت کا کرشمہ ہے کہ کس طرح بادلوں سے بارش چھوٹی چھوٹی بوندوں کی شکل میں برستی ہے پھر زمین اس کو جذب کرتی ہے، تاکہ ہم اس کے ذریعے پیدا کریں ہر قسم کا غلہ اور سبزہ اور اگائیں گنجان باغات جن میں طرح طرح کے پھل اور میوے لگتے ہیں، غلوں اور سبزوں سے انسانوں اور جانوروں کی روزی کا سامان بنایا اور ان ہی چیزوں سے عیش و عشرت اور راحت ولذت کے جملہ اسباب پیدا کیے پانی بھی ایک زمین بھی ایک ہر ایک کی خاصیت اور طبیعت بھی واحد ہے، لیکن دیکھو کہ غلوں، پھلوں اور پھولوں کے کس قدر مختلف اور کیسے۔ 1 حاشیہ (جیسا کہ ارشاد ہے (آیت) ” وفی الارض قطع متجاورات وجنات من اعناب وزرع ونخیل صنوان وغیر صنوان یسقی بمآء واحد ونفضل بعضھا علی بعض فی الاکل ان فی ذلک لایات لقوم یعقلون “۔ جس کی تفسیر سورة رعد میں گذر چکی، لفظ معصرات کی تفسیر ابن عباس ؓ بادلوں سے فرماتے تھے، مجاہد (رح) اور قتادہ (رح) بیان کرتے ہیں کہ ” ماء ثجاج “ مسلسل برسنے والی بارش کو کہتے ہیں۔ متفاوت ذائقے اور متضادخاصیتیں ہیں یہ سب کچھ حق تعالیٰ شانہ کی کمال قدرت اور حکمت کی نشانیاں ہیں، پھر یہ کہ یہ رزق پیدا کرکے ہر ایک کو خواہ کوئی مومن ہو یا کافر نفع اٹھانے کی اجازت دیدی لیکن یہ سب کچھ صرف اس جہان میں ہے، برخلاف آخرت کے کہ وہاں کی نعمتیں راحتیں اور باغات اور پھل وپھول مومن کے ایمان اور اعمال صالحہ اور اعتقادات صحیحہ ہی ہوں گے جو ان صورتوں میں اہل ایمان کے سامنے آئیں گے اور دنیا میں انسان کے عقائد خبیثہ کفر وشرک اور بداعمالیاں آخرت میں شجر زقوم، حمیم وغساق (کھولتا ہوا گرم پانی زخموں سے بہنے والا خون راد اور پیپ) بن کر اہل جہنم کا رزق ہوگا، یہی وہ جزاء وسزا ہے جو یوم الفصل میں ہر ایک کو ملے گی چناچہ فیصلہ کا یہ دن ایک متعین کردہ وقت ہے جس میں اس کا امکان نہیں کہ مقدم ومؤخر ہوسکے، یہ دن وہ ہوگا جب صور پھونکا جائے گا جس پر دنیا کا نظام درہم برہم ہوجائے گا اور تمام دنیا الٹ پلٹ کر نیست ونابود ہوجائے گی ، پھر تم آؤ گے جوق در جوق۔ حاشیہ (افواجا جمع فوج کی ہے جس کا ترجمہ جماعت اور ٹولیوں کے لفظ سے کیا جاسکتا ہے، یہ عنوان بالکل اسی طرح ہے جو دوسری آیت میں فرمایا گیا ہے (آیت) ” ویوم نحشر من کل امۃ فوجا “۔ تو ہوسکتا ہے کہ یہ افواج ہر ایک پیغمبر کی امت ہو لیکن اس لحاظ سے کہ یہ خطاب ہے اہل مکہ کو ہے اس وجہ سے اس کا مفہوم یہی زیادہ واضح ہے کہ جماعتوں اور پارٹیوں کی صورت میں ان مجرمین کو لایا جائے گا، اور اس کی صورت بظاہر یہ ہوگی کہ مختلف قسم کے عقائد باطلہ اور مختلف قسم کی بدکاریوں میں پڑنے والوں کو گرو ہوں اور پارٹیوں میں تقسیم کردیا جائے گا اور اس لحاظ سے مختلف اور متعدد ٹولوں کی شکل میں محشر میں ان کی حاضری ہوگی۔ 12) میدان حشر میں اپنے رب کے سامنے اعمال کی پیشی کے لیے اور رب العالمین کی عدالت میں حاضری ہوگی اور آسمان کھول دیئے جائیں گے، پھر جس میں کھولنے کے بعد دروازے ہوجائیں گے جیسے کوئی مضبوط اور مستحکم گول چھت میں دراڑیں پڑجائیں اور پھر وہ چھت منہدم ہوجائے، ایسے ہی کچھ آسمانوں کے پھٹنے اور ان میں شگاف پڑنے یادروازوں کے کھل جانے کا حال ہوگا، اور پہاڑ ریزہ ریزہ کرکے اڑا دیئے جائیں گے تو وہ ہوجائیں گے ریت کے ذرات جو فضا میں اڑ رہے ہوں گے یہی وہ پہاڑ تھے جن کو زمین کی سطح پر میخوں کی طرح گاڑ دیا گیا تھا تاکہ وہ وہ ٹھیری رہے، تو جب یہ میخیں ہی ختم ہوجائیں گی تو وہ زمین کہاں ٹھیری رہے گی جو ان ان کے ذریعہ قائم تھی تو اس طرح آسمان و زمین سب ہی درہم برہم ہوجائیں گے اور جب آسمان و زمین ہی نہ رہیں گے تو دنیا کا وجود کیا باقی رہے گا چناچہ نیست ونابود ہوجائے گی۔ اور طرح عالم آخرت قائم ہوجائے گا، جہاں مجرمین ونافرمانوں کو نظر آئے گا کہ بیشک جہنم تاک میں ہوگی اور منتظر ہوگی سرکشوں اور مجرموں کی کہ کب یہ مجرمین ومنکرین اور نافرمان میرے منہ کا لقمہ ہوتے ہیں جہنم ان کی منتظر ہوگی انکا ٹھکانا بننے کے لیے جس میں یہ ٹھہرنے والے ہوں گے بڑی ہی طویل مدتوں تک۔ حاشیہ (” بڑی ہی طویل مدتوں تک “ لفظ احقابا کا ترجمہ کرکے یہ ظاہر کیا گیا کہ احقاب کسی محدود اور متناہی مدت کے لئے نہیں بولا گیا ہے بلکہ ایسی طویل مدت مراد ہے جسکی کوئی حد اور انتہاء ہی نہ ہو۔ اگرچہ نفس لغت میں حقب جس کی جمع احقاب ہے کے معنی بعض اہل لغت نے مخصوص معین طویل مدت کے ذکر کئے ہیں مثلا کسی نے ایک ہزار برس یا اس سے زائد کہا، مگر سعید (رح) نے بروایت قتادہ (رح) بیان کیا کہ احقاب وہ مدت ہے جس کی کوئی انتہاء نہ ہو۔ نافع ؓ نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا خدا کی قسم اہل نار جہنم سے ہرگز نہ نکل سکیں گے، یہاں تک کہ وہ اس میں پڑے رہیں گے، احقابا یعنی مدت دراز اور راوی نے اس کی بھی تفسیر کی ہے، لہذا اہل لغت نے اس کے معنی میں کوئی مدت بیان کئے ہیں تو اس سے یہ وہم کرنا درست نہیں کہ شاید اہل جہنم کسی مدت کے گذرنے کے بعد جہنم سے نکال لئے جائیں گے، اور ظاہر ہے کہ یہ تصور کیونکر ممکن ہے جب کہ خلود نار کی تصریح قرآن کریم نے متعدد آیات میں بڑی ہی وضاحت سے فرما دی حتی کہ یہ فرمادیا گیا۔ (آیت) ” کلما ارادوا ان یخرجوا منھا اعیدوا فیھا “۔ اور (آیت) ” وماھم بخارجین منھا “۔ اور (آیت) ” خلدین فیھا ابدا “۔ وغیرہ وغیرہ تو ان آیات کے بعد اس طرح کوئی تصور ممکن ہی نہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔ 12) جس کے طول کی کوئی انتہاء نہ ہوگی اور ابد الآباد اسی میں رہیں گے، ان بدنصیبوں کے لیے آرام و راحت کا کیا تصور ہوسکتا ہے بلکہ ہر قسم کی تکلیف اور مصیبت ان کے مقدر میں ہوگی اس طرح کہ نہیں چکھ سکیں گے اس جہنم میں کوئی مزا ٹھنڈک کا اور نہ ہی ٹھنڈے پانی کا، نہ جگہ سکون اور ٹھنڈک کی ہوگی۔ بعض مفسرین نے اس کی تفسیر میں نیند کو بھی بیان کیا ہے جس کے معنی یہ ہوئے کہ نیند کی راحت تو کیا نصیب ہوگی، اس کا مزا بھی چھکنا نصیب نہ ہوگا اور ظاہر ہے کہ نیند کی حالت انسان کے لیے سکون اور ٹھنڈک کا باعث ہے۔ 12) اور نہ لباس اور نہ ہی طعام اور پانی کچھ نہ ہوگا، بجز کھولتے ہوئے گرم پانی اور زخموں سے بہنے والے خون اور پیپ کے یہ بدلہ ہوگا پورا پورا، جو ان کی بداعمالیوں شہوت پرستی اور عیش و عشرت میں زندگی گذاردینے کا پورا پورا اور عین مطابق بدلہ ہوگا شہوت وحرص اور دنیا کی آگ ان کے دلوں میں بھڑکا کرتی تھی، قیامت میں اسی کے مطابق کھولتا ہوا پانی ملے گا اور دنیا میں عملی زندگی فواحش وبدکاری میں گزاری تھی جن کی غلاظت وگندگی زخموں سے بہنے والے خون اور پیپ سے کم نہ تھی تو کھولتے ہوئے پانی کے ساتھ یہ جمع کردیا جائے گا۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ یہ لوگ کوئی توقع نہ رکھتے تھے، حساب و کتاب کی اور اس امر کی تسلیم نہ کرتے تھے کہ قیامت اور روز جزاء آنے والا ہے اسی اعتقاد باطل میں مبتلا رہ کر انہوں نے اپنی قوت نظریہ بھی ضائع کی اور قوت عملیہ کو ہدایت کے بجائے گمراہی میں صرف کیا، اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا خوب جھٹلانا جس میں انہوں نے کسی طرح کسر نہ اٹھا رکھی، آیات خداوندی کا بھی انکار کیا، احکام خداوندی کی بھی تعمیل نہ کی اور دلائل قدرت اور اللہ کی نشانیوں کو بھی نہ مانا، ایسے مجرموں کو تکذیب ونافرمانی کرکے بےفکر نہ ہونا چاہئے ان کو جان لینا چاہئے کہ وہ ہماری گرفت سے بچ کر نہیں جاسکتے اور ہر چیز کا ہم نے احاطہ کر رکھا ہے اس طرح کہ وہ ایک طے شدہ لکھی ہوئی چیز ہے، تو ہم مجرمین کے ہر جرم کو بھی جانتے ہیں اور اس کی سزا کا وقت بھی ہم نے طے کر رکھا ہے، چناچہ وہ اسی وقت آئے گی جب اس کا وقت ہوگا، اس لیے جب وہ عذاب اور سزا اپنے مقررہ وقت پر آئے گی تو ان کو کہا جائے گا پس چکھ لو، عذاب کا مزا اور یہ توقع نہ کرو کہ شاید یہ عذاب کسی وقت کم ہوجائے گا نہیں ہرگز نہیں تو ہم نہیں بڑھائیں گے، تمہارے واسطے کوئی بھی چیز بجز عذاب کے کہ لمحہ بلمحہ عذاب اور دکھ بڑھتا ہی جائے گا اور دم بدم جہنم کی شدت اور مصیبت بڑھتی ہی جائے گی جیسا کہ ارشاد فرمایا، اے مجرمو ! جوں جوں احکام خداوندی نازل ہوئے تم کو وعظ ونصیحت کی جاتی تو اسی کے ساتھ تمہاری شقاوت وسرکشی میں اضافہ ہوتا جاتا تھا تو آج روز قیامت اسی کی مطابقت ومناسبت سے لمحہ بہ لمحہ عذاب میں زیادتی اور شدت ہی ہوتی جائے گی۔ فائدہ : حضرت ابوبرزۃ الاسلمی ؓ سے روایت ہے حسن بصری (رح) نے ان سے دریافت کیا اہل جہنم کے لئے کون سی آیت سب سے زائد شدید ہے فرمایا، میں نے آنحضرت ﷺ سے سنا آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی، اور فرمایا جب جہنمی تمنا کریں گے، یا اس بات کی درخواست کریں گے کہ کم ازکم یہ عذاب ہی کچھ کم کردیا جائے تو اس پر اعلان ہوگا (آیت) ” فذوقوا فلن نزیدکم الا عذابا “۔ آپ نے یہ آیت تلاوت کرکے فرمایا اس کے بعد تو اہل جہنم کی شدت و پریشانی کی کوئی حد ہی باقی نہ رہے گی اور حسرت وویل کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا۔
Top