بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - Al-Anfaal : 1
یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْاَنْفَالِ١ؕ قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ١ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِكُمْ١۪ وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗۤ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
يَسْئَلُوْنَكَ : آپ سے پوچھتے ہیں عَنِ : سے الْاَنْفَالِ : غنیمت قُلِ : کہ دیں الْاَنْفَالُ : غنیمت لِلّٰهِ : اللہ کیلئے وَالرَّسُوْلِ : اور رسول فَاتَّقُوا : پس ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَاَصْلِحُوْا : اور درست کرو ذَاتَ : اپنے تئیں بَيْنِكُمْ : آپس میں وَاَطِيْعُوا : اور اطاعت کرو اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗٓ : اور اس کا رسول اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
(اے محمد ﷺ ! مجاہد لوگ) تم سے غنیمت کے مال کے بارے میں دریافت کرتے ہیں (کہ کیا حکم ہے) کہہ دو کہ غنیمت خدا اور اس کے رسول کا مال ہے۔ تو خدا سے ڈرو اور آپس میں صلح رکھو۔ اور اگر ایمان رکھتے ہو تو خدا اور اس کے رسول کے حکم پر چلو۔
قال اللہ تعالیٰ یسئلونک عن الانفال۔۔۔ الی۔۔۔ ومفرۃ ورزق کریم سورة انفال کل مدنی ہے جنگ بدر کے بعد نازل ہوئی اسی وجہ سے اس سورت کو سورة بدر بھی کہتے ہیں اس میں پچھتر یا چھتر یا ستتر آیتیں اور دس رکوع ہیں۔ فائدہ : انفال۔ نفل بالتحریک کی جمع ہے جس سے مراد مال غنیمت ہے۔ نفل در اصل بمعنی زیارت ہے اور نفل کو نفل اس لیے کہتے ہیں کہ وہ اصل فرض سے زائد ہے اور غنیمت کو نفل اس لیے کہا گیا کہ وہ اللہ کی طرف سے فضل اور عطیہ ہے مال غنیمت پہلی امتوں پر حلال نہ تھا اس امت پر بطور فضل وزیادت حلال کردیا گیا اور غنیمت اس مال کو کہتے ہیں جو جہاد میں کافروں سے حاصل ہو اور فقہاء کی اصطلاح میں نفل کا اطلاق اس مال پر ہوتا ہے جو مسلمانوں کا امیر کسی غازی کو اس کافر مقتول کا گھوڑا یا ہتھیار دے دے جس کافر کو اس غازی نے قتل کیا ہے چونکہ یہ مال غازی کو اس کے اصل حصہ سے زائد ملتا ہے اس لیے اس زائد عطیہ کو نفل کہا جاتا ہے اور اس آیت میں انفال سے غنائم کے معنی مراد ہیں۔ (ربط) گزشتہ سورت میں انبیاء کرام کا اپنی اپنی قوموں اور امتوں کے مقابلہ میں غلبہ اور کامیابی کا ذکر تھا اب اس سورت میں زیادہ تر غزوۂ بدر کا بیان ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو محض تائید غیبی سے فتح ونصرت اور غلبہ عطاء کیا ظاہری اسباب اور ظاہری سازوسمان کے لحاظ سے صحابہ بالکل بےسروسامان تھے حق تعالیٰ نے ان بےسروسامانوں سے سرداران قریش کے غرر اور تکبر کو خاک میں ملا دیا اور صحابہ کرام کی ایک مٹھی بھر جماعت جو ملائکہ مقربین 1 لا یستکبرون عن عبادتہ ویسبحونہ ولہ یسجدون۔ کا نمونہ تھی مستکبرین کے لشکر جرار پر غالب آئی اور یہ کامرانی اور کامیابی تقوی اور توکل کی برکت تھی اس لیے اس سورت کو تقوی اور خوف اور خشیت اور توکل سے شروع فرمایا تاکہ معلوم ہوجائے کہ دنیا اور آخرت کی کامیابی کا دورامدار اخلاص اور تقوی اور توکل اور اطاعت خدا و رسول پر ہے۔ 1 گزشتہ سورت کے خاتمہ کے ساتھ ربط کی طرف اشارہ ہے شان نزول : سورة انفال مدنی ہے ہجرت کے بعد ایام جنگ بدر میں نازل ہوئی جب مسلمانوں کو جنگ بدر میں بعنایت الٰہی فتح نصیب ہوئی اور کافروں کا بہت سارا مال قبضہ میں آیا تو اس مال کی تقسیم میں لوگوں نے کچھ اختلاف کیا جوانوں کا گروہ یہ کہتا تھا کہ غنیمت کے زیادہ حقدار ہم ہیں کیونکہ ہم نے دشمنوں کو قتل کیا ہے اور ہم آگے بڑھ کر لڑے ہیں اور ہم نے ان کو شکست دی ہے جسے اور بوڑھے یہ کہتے تھے کہ ہم زیادہ حقدار ہیں اس لیے کہ ہم تمہاری پشت پناہی پر تھے اور تم ہماری قوت سے لڑے ہو اگر خدانخواست شکست ہوتی تو تم بھاگ کر ہمارے پاس آکر دم لیتے نیز یہ کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی حفاظت کر رہے تھے اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ کسی کو بھی حق نہیں فتح محض اللہ کی مدد سے ہوئی اس فتح کو تم اپنی قوت بازو کا کرشمہ سمجھو۔ اللہ اس مال کا مالک ہے اور رسول اس کا نائب ہے جیسا آپ مناسب سمجھیں گے تقسیم کردیں گے چناچہ آنحضرت ﷺ نے وہ مال سب پر برابر تقسیم کردیا اور آئندہ کے لیے نصیحت کردی گئی کہ جو پکے مسلمان ہیں ان کو چاہئے کہ ہر معاملہ میں خدا سے ڈریں اور آپس میں صلح اور آشتی سے رہیں حرص اور طمع کو دل سے نکال دیں اور خدا کا رسول جو حکم دے اس پر بےچون وچرا عمل کریں اور نظر اللہ پر رکھیں مغفرت اور درجات عالیہ انہی لوگوں کو ملتے ہیں جن کی نظر صرف اللہ پر ہوتی ہے چناچہ فرماتے ہیں (اے نبی) یہ لوگ آپ سے غنیمتوں کا حکم پوچھتے ہیں مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ تو آپ کے اصحاب اور احباب ہیں ان کا مطمع نظر تو فقط اجر اخروی ہونا چاہئے تھا مال غنیمت اگرچہ بلاشبہ حلال ہے مگر آپ حکم دریافت کرتے اور حرف استھقاق زبان پر لاتے۔ آپ ان کے جواب میں کہدیجئے کہ مال غنیمت جہاد اور جدوجہد کا اجر اور معاوضہ نہیں جہاد کا اجر آخرت میں ملے گا اور یہ تمام اموال غنیمت خالص اللہ کی ملک ہیں۔ مشرکین کی ملک سے نکل کر اللہ کی ملک میں داخل ہوئے ہیں تم پر بطور انعام تقسیم کیے جائیں گے نہ کہ بطور معاوضہ و استحقاق اور رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کا خلیفہ اور نائب ہے۔ پس یہ تمام اموال رسول اللہ ﷺ کے دست تصرف میں ہیں جسے چاہتا ہے بحکم خداوندی دیتا اور تقسیم کرتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اموال غنیمت سب اللہ کا مال ہیں اور اسکا رسول اس کا نائب ہے وہ اپنے اختیار سے جس کو جتنا چاہے دے تمہیں اس کے حکم پر چلنا چاہئے اور آپس میں نزاع نہیں کرنا چاہئے۔ پس اللہ سے ڈرو اور تقوی کی راہ اختیار کرو کہ اس کی ملک میں بغیر اس کی اجازت کے تصرف کرو اور اپنے آپس کے معاملہ کو صاف اور درست کرو اور باہمی اختلاف کو یار اور غمخواری سے بدل ڈالو۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اختلاف کچھ حد اعتدال سے آگے نکل گیا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس پر تنبیہ فرمائی اور ان کا فیصلہ اپنے رسول کے سپرد فرمایا چناچہ رسول اللہ ﷺ نے مال مسلمانوں پر درست طریقہ سے تقسیم کردیا اور اختلاف کرنے والوں نے اپنے اختلاف کی اصلاح کرلی اور فمرانبرداری کرو خدا اور اس کے رسول کی اگر تم ایمان والے ہو اس لیے کہ ایمان طاعت اور تقوی کو مقتضی ہے۔ اس آیت یعنی ان کنتم مومنین میں حرف ان شک کے لیے نہیں بلکہ جوش دلانے اور برانگیختہ کرنے کے لیے ہے کہ جب تم مومن ہو تو تقوی کی راہ اختیار کرو اور رسول کی اطاعت کرو جز ایں نیست کو مومن کاملین جو ایمان کے مقتضی پر چلتے ہیں وہ وہی لوگ ہیں کہ جب ان کے سامنے ہمارے کلام کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو یہ ایتیں ان کے ایمان کو اور زیادہ مضبوط کردیتی ہیں مطلب یہ ہے کہ جب کوئی آیت نازل ہوتی ہے تو اس پر ایمان لاتے ہیں اور پہلی نازل ہوئی آیتوں کا ایمان جب اس آیت کے ایمان کے ساتھ مل جاتا ہے تو ایمان اور زیادہ ہوجاتا ہے یا یہ مطلب ہے کہ تلاوت کے انوار وبرکات سے ان کے باطن میں نور یقین زیادہ ہوجاتا ہے اور ظاہر میں طاعت اور اعمال صالحہ کی زیادتی ہوجاتی ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ جو اہل دل ہیں جب ان کے سامنے قرآن پڑھا جاتا ہے تو ان کے دل کا روزن اور زیادہ وسیع اور فراخ ہوجاتا ہے اور عالم غیب کا نور اس میں چمکنے لگتا ہے اور غیر اللہ سے نظر اٹھ جاتی ہے اس لیے یہ لوگ صرف اپنے پروردگار پر بھروسہ کرتے ہیں اور ان کو ماسوی اللہ کی پروا نہیں رہتی۔ ایسے ہیں کہ ٹھیک ٹھیک نماز ادا کرتے ہیں۔ یعنی آداب عبودیت کا پورا پورا لحاظ رکھتے ہیں اور جو روزی ہم نے ان کو دی ہے اس میں سے کچھ ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں ایسے ہی لوگ جو صفات مذکورہ کے ساتھ موصوف ہوں سچے اور پکے مومون ہیں جن کے مومن ہونے میں کسی قسم کا شک اور شبہ نہیں ہوسکتا ایسے لوگوں کے لیے ان کے پروردگار کے پاس بڑے درجے اور مرتبے ہیں اور ان کی تقصیر ات کی بخشش ہے اور عمدہ روزی ہے جو محنت اور مشقت سے مبرا اور زوال اور حساب کے خوف سے خالی ہے۔ امام قشیری (رح) تعالیٰ فرماتے ہیں کہ رزق کریم وہ ہے جو مرزوق کو ارزاق کے مشاہدہ سے مانع نہ ہو۔ 1 ایمان کی زیادتی اور نقصان کی بحث تفسیر آل عمران زیر آیت ان الناس قد جمعو لکم فاخشوھم فزادھم ایمانا میں گزر چکی ہے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے مومنین کاملین کی پانچ صفتیں ذکر فرمائیں اول : اللہ تعالیٰ کی عظمت اور ہیبت سے قلوب کا معمور ہونا دوم ؛ تلاوت قرآن اور سماع کلام الٰہی سے ایمان میں زیادتی کا ہونا سوم : اللہ پر توکل اور اعتماد : چہارم : آداب عبودیت کی بجا آوری پنجم : قلب کا حرص اور طمع اور بخل سے پاک ہونا۔ یہ پانچ خصلتیں ایمان کے عظیم شعبے ہیں جس میں یہ پانچ صفتیں جمع ہوجائیں اس کا ایمان ثابت اور مھقق ہوگیا۔ اولئک ہم ال مومن ون حقا۔ ایسے پکے اور سچے مومنوں کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا ایسے تین مومنوں کا تو تین لاکھ کافر بھی مقابلہ نہیں کرسکتے۔
Top