Maarif-ul-Quran - Al-Anfaal : 20
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَ اَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَۚۖ   ۧ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اَطِيْعُوا : حکم مانو اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول وَلَا تَوَلَّوْا : اور مت پھرو عَنْهُ : اس سے وَاَنْتُمْ : اور جبکہ تم تَسْمَعُوْنَ : سنتے ہو
اے ایمان والو ! خدا اور اس کے رسول کے حکم پر چلو اور اس سے رو گردانی نہ کرو اور تم سنتے ہو۔
ترغیب بر اطاعت وامانت وترہیب از معصیت وخیانت و زجر دوستاں از مشابہت دشمناں قال اللہ تعالیٰ یا ایہا الذین امنوا اطیعوا اللہ ورسولہ۔۔۔ الی۔۔۔ واللہ ذوالفضل العظیم (ربط) گذشتہ آیت میں یہ فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کے ساتھ ہے اب ان آیات میں اہل ایمان کو ہدایت فرماتے ہیں کہ حق جل شانہ کی معیت اور نصرت اور حمایت کا دارومدار اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت پر ہے اگر تم اللہ کی معیت اور اس کی نصرت کے طلبگار ہو تو اس کی دو شرطیں ہیں۔ اول تو یہ کہ اللہ اور اس کے رسول کی دل وجان سے ایسی اطاعت کرو جس میں خیانت کا شائبہ نہ ہو اس لیے کہ خیانت اطاعت کاملہ میں مخل ہے۔ دوم یہ کہ اہل ایمان پر لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو خدا کے دشمنوں اور اس کے باغیوں یعنی کافروں اور منافقوں کی مشابہت اور مماثلت سے محفوظ رکھیں جیسا کہ حدیث میں ہے۔ من تشبہ بقوم فھو منہم (جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہیں میں شمار ہوگا) کوئی بادشاہ اور فرمانروا یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ اس کی وفاداری کا دعوی دار اس کے دشمنوں کا ہمرنگ اور ہم لباس اور ہم صورت بنے۔ اسی طرح دعوی تو ہو ایمان کا اور خدا اور رسول کی محبت کا اور صورت اور طرز معاشرت سارا کا سارا ہو دشمنان خدا و رسول کا سا۔ یہ در پردہ اجتماع ضدین ہے۔ جو حکماء اور عقلاء کی نظر میں احمقانہ دعوی ہے۔ اس لیے ان آیات میں (اولا) حق تعالیٰ نے اطاعت کاملہ کا حکم دیا اور (ثانیا) اعداء اسلام یعنی کفار اور منافقین سے تشبہ کی ممانعت فرمائی کما قال تعالیٰ ولا تکونوا کالذین قالو سمعنا۔ اور پھر اس ی کے ساتھ مشبہ بہ کی مذمت میں ان کو شر الدواب فرمایا تاکہ تشبہ بالکفار کی قباحت خوب ذہن نشین ہوجائے اور ثالثا یا ایہا الذین امنوا استجیبو الخ میں یہ بتلایا کہ اطاعت خدا اور رسول حیات ابدی کا ذریعہ ہے۔ اور (رابعا) یا ایہا الذین امنوا لا تخونوا اللہ میں خیانست سے ممانعت کی اور بال اور اولاد کے فتنہ پر تنبیہ فرمائی اس لیے کہ اس سے اطاعت میں خلل پڑتا ہے اور (خامسا) یا ایہا الذین امنوا ان تتقوا اللہ میں تقوی کے فوائد اور برکات کو بیان فرمایا اور یہ تمام مضامین اپس میں غایب درجہ متناسب اور متجاذہب ہیں۔ چناچہ فرماتے ہیں اے ایمان والو ! اگر تم اللہ کی معیت 1 چاہتے ہو تو تم اطاعت کرو اللہ کی اور اس کے رسول کی اور رسول کے حکم سے روگردانی نہ کرو حالانکہ تم سن رہے ہو کہ وہ ہمارے رسول ہیں اور ان کی اطاعت ہماری اطاعت ہے اور ایمان کا مقتضی ہی اطاعت ہے اور ان لوگوں کے مشابہ نہ ہو جو زبان سے تو یہ کہتے ہیں کہ ہم نے تیرا حکم سن لیا اور دل سے نہیں سنتے یعنی منافقوں کے مانند نہ بنو جن کا ظاہر کچھ ہے اور باطن کچھ فقط سر کے کانوں سے سن لینا کافی نہیں اور یہ فقط مقتضائے ایمان کے خلاف نہیں بلکہ مقتضائے انسانیت کے بھی خلاف ہے اس لیے کہ تحقیق بد ترین حیوانات اللہ کے نزدیک وہ لوگ ہیں جو حق کے سننے سے بہرے اور حق کے بولنے سے گونگے اور حق کے سمجنے سے بےعقل ہیں نہ حق کو سنتے ہیں اور نہ حق بات منہ سے نکالتے ہیں اور نہ حق بات کے سمجھنے کی طرف عقل کو متوجہ کرتے ہیں ایسے لوگ بہائم سے بھی بدتر ہیں اس لیے کہ حیوانات تو عقل اور ادراک سے عاری ہیں انہیں کیا ہوا کہ عقل اور شعور کے ہوتے ہوئے نفس اور طبیعت کی طرف دوڑ پڑے اور اگر اللہ ان میں کوئی خیر اور بھلائی جانتا یعنی حق کی طلب اور قبول حق کی صلاحیت جانتا تو ضرور ان کو حق سنا دیتا یعنی ان کو سننے کی توفیق سے آیات قرآنی سے ہدایت حاصل کرتے اور حق کو سمجھ جاتے اور اگر بالفرض خدا تعالیٰ ان کو ایسی حالت میں سنادے جبکہ ان میں کچ بھی خیر نہیں اور نہ حق کی طلب ہے بلکہ بجائے خیر کے ان کے دل عناد اور حق کی نفرت سے لبریز ہیں ایسی حالت میں اگر خدا تعالیٰ ان کو سنا بھی دے تب بھی وہ روگدانی کریں گے اور اعارض کر کے الٹے پیر بھاگیں گے جن میں خیر کا کوئی مادہ ہی نہ ہو اور قبول حق کی صلاحیت اور استعداد ہی نہ ہو اور نہ حق کی طلب ہو اور نہ اس کی فکر اور تلاش ہو تو ایسے بدبخت سننے کے بعد بھی ہدایت پر نہیں آتے اور ظاہری کانوں سے سننے کے بعد بھی بےرخی برتتے ہیں کیونکہ خٰر سے خالی ہونے کی وجہ سے یہ لوگ دائرہ انسانیت سے نکل کر دائرہ حیوانیت میں داخل ہوچکے ہیں۔ یہاں تک محروم اور مردود لوگوں کا حال بیان ہوا اب آئندہ آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے اہل قرب اور محبین کو متابعت رسول کی راہ سے اپنے قرب اور مشاہدہ کی دعوت دیتے ہیں لہذا تم کو چاہئے کہ اس کی دعوت کو قبول کرو تاکہ تم کو حیات دائمی حاصل ہو۔ چناچہ فرماتے ہیں اے ایمان والو تمہارا ایمان جب مکمل ہوگا کہ جب تمہارا دل زندہ ہوجائے لہذا اگر تم حیات روحانی اور حیات جاودانی حاصل کرنا چاہتے ہو تو اللہ اور اس کے رسول کی پکار کو قبول کرو جب اللہ کا رسول روحانی زندگی بخشنے کے لیے تم کو بلائے یعنی علوم حقہ اور ایمان اور اعمال صالحہ کی طرف بلائے جس سے دنیا میں تم کو روحانی زندگی ہو اور جنت میں حیات ابدر حاصل ہو غرض یہ کہ جس دین کی طرف آپ بلاتے ہیں وہ دل کو زندہ کرنے والا ہے اور دل کی زندگی سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں پھر کوئی وجہ نہیں کہ تم اس نعمت عظمی سے روگردانی کرو اور ساتھ ساتھ اس بات کو جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوتا ہے وہ مقلب القلوب ہے دلوں کو پلٹتا رہتا ہے یعنی زندگو کو غنیمت سمجھو اور استجابت رسول میں دیر نہ کرو شاید تھوڑی دیر کے بعد دل کی یہ حالت نہ رہے دل آدمی کے قبضہ میں نہیں بلکہ دل خدا کے ہاتھ میں ہے وہ اس کو الٹتا پلٹتا رہتا ہے۔ ابتداء اللہ تعالیٰ کسی کے دل کو خیر سے نہیں روکتا اور نہ اس پر مہر کرتا ہے البتہ اگر بندہ کاہلی اور سستی اور روگردانی کرنے لگے اور حد سے گذر جائے تو پھر اللہ تعالیٰ بھی اس کی سزا اور پاداش میں اپنی توفیق اور ہدایت کو روک لیتا ہے یا کوئی حق پرستی کو چھوڑ کر ضد اور عناد پر اتر آئے تو پھر اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر کردیتا ہے اور اس پر قفل ڈال دتیا ہے جس سے دل کے اندر خیر پہنچنے کا راستہ بند ہوجاتا ہے (ہذا توضیح مافی موضح القرآن) اور بچتے اور ڈرتے رہو اس فتنہ سے کہ جس کا وابل تم میں سے فقط ان لوگوں پر نہ پڑے گا جنہوں نے خاص کر ظلم کا ارتکاب کیا ہے بلکہ اس کا وبال عام ہوگا ظالم اور غیر ظالم سب ہی اس کی زد میں آجائیں گے آیت میں فتنہ سے مداہنت فی الدین کا فتنہ مراد ہے کہ جب لوگ کھلم کھلا منکرات کا ارتکاب کرنے لگیں اور اہل علم باوجود قدرت کے مداہنت برتیں اور نہ ہاتھ سے اور نہ زبان سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کریں اور نہ دل سے اس سے نفرت کریں جو آخری درجہ ہے اور نہ ایسے لوگوں سے میل جول کو چھوڑیں تو ایسی صورت میں اگر من جانب اللہ کوئی عذاب آیات تو وہ عام ہوگا جس میں اہل معاصی اور مرتکبین منکرات کی کوئی تخصیص نہ ہوگی بلکہ وہ عذاب مداہنت کرنے والوں پر بھی واقع ہوگا کیونکہ منکرات اور معاصی اگر لوگوں میں شائع ہوجائیں تو ان کی تغییر حسب قدرت سب پر واجب ہے اور جو باوجود قدرت کے سکوت کرے تو معلوم ہوا کہ وہ بھی دل سے راضی ہے اور راضی حکم میں عامل کے ہے بلکہ بعض اوقات رضا بالمنکر۔ ارتکاب منکر سے زیادہ دین کے لیے مضر ہوتی ہے اس لیے اس فتنہ میں پر جو عقوبت اور مصیبت نازل ہوگی وہ سب کو عام ہوگی اور جان لو کہ اللہ سخت عذاب دینے والا ہے جو اس کی معصیت اور نافرمانی کو دیکھ کر باوجود قدرت کے اس پر سکوت کریگا اور اندر سے اس کا دل رنجیدہ نہ ہوگا تو اس کو بھی عذاب پہنچے گا۔ 1 گزشتہ آیت میں وان اللہ مع ال مومنین کے ساتھ ربط کی طرف اشارہ ہے منہ عفا اللہ عنہ پس اس آیت کا خلاصہ مطلب یہ ہوا کہ خود بھی خدا تعالیٰ و رسول کی اطاعت اور فرمانرداری کرو۔ اور جو اس کی نافرمانی کرے اس کو نصیحت اور فہمارئش کرو۔ زمانیں تو کم از کم بیزاری اور نفرت کا اظہار کرو اور حضرت شاہ عبدالقادر (رح) تعالیٰ نے آیت کا مطلب یہ لیا ہے کہ مسلمانوں کو ایسے فتنہ اور فساد اور ایسے گناہ سے بالخصوص بچنا چاہئے جسکا خراب اثر گناہ کرنے والے کی ذات سے متعدی ہو کر دوسروں تک پہنچتا ہے پہلے فرمایا تھا کہ خدا اور رسول کے حکم ماننے میں کاہلی نہ کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ دیر کرنے کی وجہ سے دل ہٹ جائے اور پھر اس کا کرنا اور مشکل ہوجائے اب تنبیہ فرماتے ہیں کہ اگر نیک لوگ کاہلی کریں تو عامل لوگ بالکل چھوڑ دیں گے تو رسم بد پھیلے گی اس کا وابل سب پر پڑے گا جیسے جنگ میں دلیر سستی کریں تو نامرد بھاگ ہی جائیں پھر شکست پڑے تو دلیر بھی نہ تھام سکیں۔ آگے فرماتے ہیں کہ اپنے ضعف اور ناتوانی کی بناء پر حکم برداری میں کاہلی نہ کریں اور اس وقت کو یاد کرو کہ جب تم شمار میں بہت تھوڑے تھے اور سرزمین مکہ میں ہجرت سے پہلے تم ضعیف اور ناتواں سمجھے جاتے تھے۔ ضعف کا یہ حال تھا کہ تم ڈرتے تھے کہ کافر تم کو کہیں اچک نہ لے جائیں پس اللہ نے تم کو مدینہ میں ٹھکانہ دیا اور اپنی مدد سے تم کو قوت بخشی اور تمہارا ضعف مبدل بہ قوت ہوا اور تم کو اپنی کمزوری کی بناء پر جو یہ خدشہ لگا رہتا ہے کہ دشمنان اسلام ہم کو نچ کھسوٹ کر نہ لیجائیں یہ خدشہ دور ہوا اور ہجرت کے بعد تم کو جہاد کا حکم ہوا اور پکیزہ اور ستھری چیزوں سے تمہیں روزی دی اور مال غنیمت تمہارے لیے حلال کیا جو پہلی امتوں کے لیے حلال نہ تھا۔ تاکہ تم اس کی نعمتوں کا شکر مانو جتنا شکر کرو گے اسی قدر نعمتوں میں زیادتی ہوگی آگے فرماتے ہیں کہ منعم کا حق اور اس کا شکر یہ ہے کہ اس کے حق میں کوئی خیانت نہ کی جائے چناچہ فرماتے ہیں اے ایمان والو ایمان کا مقتضی یہ ہے کہ تم خدا اور رسول کے ساتھ خیانت نہ کرو اور نہ اپنی آپس کی امانتوں میں خیانت کرو اور حالانکہ تم جانتے ہو کہ امانت کی حفاطت واجب ہے اور خیانت کرنے کا بڑا وبال ہے خیانت کے لغوی معنی نقص اور کمی کے ہیں۔ پس کسی کے حقوق میں کمی کرنا خیانت ہے اسی طرح اللہ کا دین امانت ہے اللہ کی طرف اس کو ادا کردو۔ اس کے فرائض بجا لاؤ اور اس کی مقرر کی ہوئی حدود پر قائم رہو۔ یہ آیت ابو لبابہ انصار کے بارے میں نازل ہوئی یہود بنی قریظہ نے جب حضور پرنور سے صلح کی درخواست کی تو اس بات میں یہود نے ابو لبابہ سے مشورہ کی اور پوچھا کہ آنحضرت ﷺ ہمارے ساتھ کیا معاملہ کریں گے چونکہ ان کے مال و عیال اس گھڑی میں ان کے پاس تھے اس لیے مقتضائے بشریت ابو لبابہ نے انگلی سے حلق کی طرف اشارہ کیا یعنی تم سب کو قتل کر ڈالیں گے۔ ابو لبابہ اشارہ کر تو گزرے مگر فورا تنبہ ہوا کہ میں نے خدا اور رسول کے ساتھ خیانت کی واپس آکر اپنے آپ کو مسجد نبوی کے ایک ستون سے باندھ دیا اور عہد کیا کہ نہ کچھ کھاؤں گا اور نہ پیوں گا حتی کہ موت آجائے۔ یا اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول سات آٹھ دن یونہی بندھے رہے فاقہ سے غشی طاری ہوگئی آخر بشارت پہنچی کہ حق تعالیٰ نے تمہاری توبہ قبول کی اس پر کہا کہ خدا کی قسم جب تک رسول اللہ ﷺ اپنے دست مبارک سے میری رسی نہ کھولیں گے اس وقت تک میں اپنے آپ کو نہ کھولوں گا۔ آپ تشریف لائے اور خود اپنے دت مبارک سے ان کو کھولا۔ لؓ وارضاہ۔ (تفسیر در منثور ص 178 ج 3) تحذیر از فتنہ مال واولاد ابو لبابہ انصاری نے جو یہود کی یہ خیر خواہی کی اور خدا و رسول سے ایک قسم کی خیانت کی اس کی وجہ یہ تھی کہ ابو لبابہ کے اہل و عیال اور ان کے اموال بنی قریظہ میں تھے ان کے بچاؤ کے لیے ایسا کیا اس لیے آئندہ آیت میں متنبہ فرماتے ہیں کہ مال اور اولاد فتنہ ہیں یعنی تمہارے لیے آزمائش ہیں یہ اموال اور اولاد تم کو اس لیے دئیے گئے ہیں کہ تم اس عطیہ کا شکر ادا کرو اور اطاعت بجا لاؤ نہ اس لیے کہ تم بمقابلہ اسلام ان کی رعایت کرو اور اللہ اس کے رسول سے خیانت کرو۔ چناچہ فرماتے ہیں اور خوب جان لو کہ تمہارے مال اور اولاد بڑی آزمائش ہیں عاقل کو چاہئے کہ ان چیزوں کی محبت میں پڑ کر اللہ اور اس کے رسول سے خیانت نہ کرے اور یقین رکھو کہ اللہ کے یہاں بڑا ثواب ہے جس کے سامنے یہ تمام دنیوی منافع ہیچ ہیں لہذا مال اور اولاد کی خاطر ثواب اور آخرت کو ہاتھ سے نہ دینا چاہئے۔ برکات تقوی اے ایمان والو اگر تم اپنے ایمان کو فتنہ سے بچانا چاہتے ہو تو اللہ سے ڈرتے رہو اور تقویٰ کو اپنا شعار بنا لو تو اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں پر ایسی فتح اور غلبہ دے گا کہ پھر تمہیں کافروں کی کسی رعایت کی ضرورت ہی نہ رہے گی اور فتنہ سے تم محفوظ ہوجاؤ گے۔ مطلب یہ ہے کہ فرقان سے فتح ونصرت مراد ہے اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ فرقان سے نور ہدایت مراد ہے یعنی تقوی کی برکت سے اللہ تمہارے دل میں ایک نور ڈال دیگا جس سے تم ذوقا ووجدانا حق اور باطل میں فرق کرلیا کرو گے۔ اور اس کے علاوہ تقوی کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تم سے تمہارے برائیاں دور کریگا اور تم کو بخش دیگا اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔ وہم و گمان سے بڑھ کردیتا ہے۔ شاہ عبدالقادر فرماتے ہیں کہ شاید فتح بدر میں مسلمانوں کے دل میں آیا کہ یہ فتح اتفاقی ہے، حضرت سے مخفی کافروں پر احسان کریں کہ ہمارے گھر بار اور اہل و عیال کو مکہ میں نہ ستاویں سو پہلی آیت میں خیانت کو منع فرمایا اور دوسری آیت میں تسلی دی کہ آگے فیصلہ ہوجائے گا تمہارے گھر بار کافروں میں گرفتار نہ رہیں گے (موضح القرآن)
Top