Maarif-ul-Quran - Al-Anfaal : 67
مَا كَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّكُوْنَ لَهٗۤ اَسْرٰى حَتّٰى یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ١ؕ تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا١ۖۗ وَ اللّٰهُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَةَ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
مَا كَانَ : نہیں ہے لِنَبِيٍّ : کسی نبی کے لیے اَنْ : کہ يَّكُوْنَ : ہوں لَهٗٓ : اس کے اَسْرٰي : قیدی حَتّٰي : جب تک يُثْخِنَ : خونریزی کرلے فِي : میں الْاَرْضِ : زمین تُرِيْدُوْنَ : تم چاہتے ہو عَرَضَ : مال الدُّنْيَا : دنیا وَاللّٰهُ : اور اللہ يُرِيْدُ : چاہتا ہے الْاٰخِرَةَ : آخرت وَاللّٰهُ : اور اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
پیغمبر کو شایان نہیں کہ اس کے قبضے میں قیدی رہیں جب تک (کافروں کو قتل کر کے) زمین میں کثرت سے خون (نہ) بہا دے۔ تم لوگ دنیا کے مال کے طالب ہو۔ اور خدا آخرت (کی بھلائی) چاہتا ہے۔ اور خدا غالب حکمت والا ہے۔
تلقین احکام دربارۂ اسیران جنگ جنگ قال اللہ تعالیٰ ﷺ ان کان لنبی ان یکون لہ اس ری حتی یثخن فی الارض۔۔۔ الی۔۔۔ واللہ علیم حکیم (ربط) گزشتہ آیات میں جہاد و قتال کے مسائل اور احکام کا بیان تھا چونکہ جہاد و قتال میں بسا اوقات کفار قید ہو کر آتے ہیں اس لیے آئندہ آیات میں اسیران جنگ اور خاص کر اسیران بدر کے متعلق احکام بیان کرتے ہیں کیونکہ قیدیوں کے قتل اور فدیہ کا فیصلہ قتال سے فارغ ہونے کے بعد ہوتا ہے اس لیے اس سورت میں احکام قتال کو۔ قیدیوں کے احکام پر ختم فرمایا۔ شان نزول۔ اور شان نزول ان آیات کا یہ ہے کہ جب جنگ بدر میں ستر کافر قید ہو کر آئے تو آں حضرت ﷺ نے ان کے بارے میں صحابہ سے مشورہ کیا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہئے۔ صدیق اکبر رضی الہ عنہ نے یہ رائے دی کہ یا رسول اللہ یہ لوگ آپ کے رشتہ دار اور ہم قوم ہیں اور بھائی بند ہیں ان پر رحم کیا جائے اور فدیہ لے کر ان کی جان بخشی کردی جائے۔ آج ہر ایک اپنی استطاعت کے موافق فدیہ دے کر جان بخشی کرا سکتا ہے۔ شاید پھر کوئی دن آئے کہ یہ لوگ ہدایت پا جائیں جس سے مسلمانوں کے عدد میں اور ان کی مدد میں زیادتی ہوجائے اور اس وقت فدیہ سے جو مال ملے گا اس سے کفار سے محاربہ اور جنگ میں قوت حاصل ہوگی اور فاروق اعظم نے عرض کیا یارسول اللہ یہ لوگ کافروں کے پیشوا اور سردار ہیں آپ ہم کو ان سب کی گردنیں مارنے کی اجازت دیجئے اور سعد بن معاذ ؓ کی بھی یہی رائے تھی۔ آنحضرت ﷺ نے بوجہ رحم دلی ابوبکر کی رائے کو پسند کیا اور ان سے فدیہ لے کر چھوڑ دیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں فدیہ لینے پر عتاب آیا کہ نبی کے لیے یہ مناسب نہیں کہ کافروں کو فدیہ لے کر چھوڑ دے۔ جہاد سے مال حاصل کرنا مقصود نہیں بلکہ کافروں کی ضد اور ان کا زور توڑنا مقصود ہے اور یہ بات قتل ہی سے حاصل ہوسکتی اور یہ ظالم اور متکبر رحم دلی کے لائق نہیں بلکہ سرکوبی اور گردن زدنی کے لائق ہیں بہتر یہی ہے کہ ان کو قتل کیا جائے تاکہ کفر کی کمر ٹوٹ جائے۔ نکوئی بابداں ﷺ کردن چناں است کہ بد کرن بجائے نیک مرداں چناچہ فرماتے ہیں کہ کسی نبی کی شان کے لائق نہیں کہ اس کے پاس قیدی ہوں اور وہ ان سے فدیہ لے لے جب تک زمین میں ان کی خوب خونریزی نہ کرلے یہاں تک کہ کفر کی جان نکل جائے یا قریب المرگ ہوجائے دشمنان اسلام کی خونریزی ہی کفر کی ذلت اور اسلام کی عزت اور شوکت کا ذریعہ ہے اسی وجہ سے غزوہ بدر میں فرشتوں کو یہ حکم دیا گیا۔ فاضربوا فوق الاعناق واضربوا منہم کل بنان۔ پیغمبر کو حکم خداوندی یہ ہے کہ وہ اہل ایمان کو کافروں سے جہاد و قتال کا شوق دلائے اس کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ فقط کافروں کے قید کرنے پر اکتفاء کرے یا ان سے فدیہ لے کر ان کو رہاء کردے جہاد مقتضی ہے تقل کو اور فدیہ قتل سے مانع ہے۔ لہذا فدیہ لے کر ان کافروں کو چھوڑ دینا جہاد کی غروض وغایت کے منافی ہے اس لیے فدیہ لینے پر عتاب آیا اور سورة قتال میں جو من اور فداء کا اختیار دیا گیا ہے سو وہ بھی اثخان کفار کے بعد دیا گیا ہے کما قال تعالیٰ فاذا لقیتم الذین کفروا فضرب الرقاب حتی اذا اثخنتموھم فشدو الوثاق فاما منا بعد وامافداء حتی تضع الحرب اوزارھا۔ یعنی اے مسلمانوں جب تم کافروں سے جنگ کرو تو ان کی گردنیں مارو اور مارتے رہو یہاں تک کہ جب ان کا خون خوب بہا چکو کہ اب ان میں مسلمانوں سے لڑنے کی سکت باقی نہ رہے پھر ان کو قید کرو اور قید کرنے کے بعد یا تو ان پر احسان کرو کہ بلا معاوضہ لیے ہوئے ان کو چھوڑ دو یا ان سے فدیہ لے کر ان کو چھوڑ دو اور یہ حکم اس وقت تک ہے کہ جب تک لڑائی اپنے ہتھیار نہ ڈالے اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ جب تک اعداء اللہ کی خوب خونریری نہ ہوجائے اور لڑائی اسلام کے سامنے اپنے ہتھیار نہ ڈالدے اور حق کی ہیبت اور دبدبہ اور رعب قائم نہ ہوجائے اس وقت تک فدیہ لینا جائز نہیں ہاں جب کافروں کے اثخان یعنی ان کی خوب خونریزی کے بعد اسلام کی عمت اور ہیبت اور شوکت اور دبدبہ قائم ہوجائے تب اگر فدیہ لے کر ان کی جان بکشی کردی جائے تو جائز ہے لیکن اس سے پہلے جائز نہیں اول اثخان ہوجانا ضروری ہے اس کے بعد فدیہ اور احسان کی اجازت ہے اس سے پہلے نہیں۔ حاصل یہ کہ اے مسلمانو اثخان کے بعد یعنی خوب خونریزی کے بعد جب کفر خوب ذلیل اور خوار ہوجائے تو پھر تم کو من اور فداء کا اختیار ہے اس سے قبل نہیں اور مقعہ بدر پر منشاء خداوندی یہ تھا کہ کافروں کی خوب خونریزی کی جائے حتی کہ کفر کا دماغ پلپلا ہوجائے اور آئندہ کے لیے اس میں اسلام کے مقابلہ میں سر اٹھانے کی سکت نہ رہے اس موقعہ پر مسلمانوں نے چو کہ اعداء اللہ کے اثخان یعنی کافی خونریزی سے قبل ہی فدیہ لے لیا اس لیے بارگاہ خداوندی سے عتاب آیا۔ (دیکھو احکام القرآن للامام الجصاص ص 72 ج 3) خلاصہ کلام یہ کہ خدا تعالیٰ 1 کے نزدیک پسندیدہ یہی تھا کہ کافروں کو قتل کیا جائے تاکہ کفر کی شوکت ٹوٹ جائے اس لیے گزشتہ آیت میں یہ فرمایا کہ نبی کے شایان شان نہیں کہ کافی خونریزی کے بغیر قیدیوں کو زندہ چھوڑ دے اب آئندہ آیت میں مسلمانوں پر عتاب ہے۔ چناچہ فرماتے ہیں کہ اے مسلمانو تم دنیا کا سامان چاہتے ہو جو ایک حقیر اور عارضی چیز ہے عنقریب زائل ہونے والی ہے اس لیے تم نے فدیہ لینے کی رائے دی اور اللہ تمہارے لیے آخرت کی مصلحت چاہتا ہے کہ دین اسلام غالب ہو اور کفر مغلوب ہو اور اللہ غالب ہے حکتم وال اوہ تم کو کافروں پر غلبہ دینا چاہتا ہے۔ غلبہ کے بعد فتوحات سے تم کو اتنا مال مل جائے گا کہ چاہتا تو ابھی مل جاتے لیکن حکمت کی وجہ سے اس میں دیر ہو رہی ہے بہرحال تمہارا یہ فعل خدا تعالیٰ کو پسند نہیں آیا اور اگر اس بارے میں اللہ کی طرف سے کوئی حکم نہ لکھا جاچکا ہوتا تو البتہ پہنچتا تم کو اس مال کے بارے میں جو تم نے کافروں سے فدیہ میں لیا۔ اور انہیں چھوڑ کر بڑا عذاب اس کتاب کے من اللہ یعنی اس نوشتہ خدا وندی کے بارے میں مفسرین کا اختلاف ہے کہ اس سے کیا مراد ہے سو اس سے۔ 1 ۔ یا تو یہ مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے کہ بغیر صریح ممانعت کے عذاب نازل نہیں کرتا۔ 2 ۔ یا یہ مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نادانی اور اجتہادی خطا پر مواخذہ نہیں کرتا۔ 3 ۔ یا یہ مراد ہے کہ اللہ کے یہاں یہ امر طے شدہ ہے کہ کسی سے نادانستہ عمل پر مواخذہ نہیں کرتا یا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر سے مغفرت کا وعدہ فرمایا لیا ہے اور ان سے یہ کہہ دیا ہے اعملوا ما شئتم فقد غفرت لکم۔ کہ اے اہل بدر تم جو چاہے کرو تم جو غلطی کرو گے وہ معاف ہے۔ اس لیے کہ بدر کے میدان میں تم نے جو جاں نثاری اور جان بازی دکھلائی ہے اس کے صلہ میں تمہاری سب خطائیں معاف ہیں یا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کرلیا ہے کہ رسول کے ہوتے ہوئے کوئی عذاب نازل نہیں کرے گا کما قال تعالیٰ وما کان اللہ لیعذبھم وانت فیہم یا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے تقدیر میں لکھ دیا ہے کہ ان قیدیوں میں سے بہت سوں کی قسمت میں مسلمان ہونا ہے سو اگر اس قسم کا کوئی نوشتہ اور حکم و فرمان اللہ کی طرف سے پہلے صادر نہ ہوچکا ہوتا تو اس فدیہ لینے سے تم پر عذاب عظیم نازل ہوتا اور امام ابن جریر طبری کا میلان اس طرف ہے کہ یہ تمام معانی لفظ کتاب من اللہ کے تحت میں مندرج اور داخل ہیں کیونکہ لفظ عام ہے جو سب کو شامل ہے اور مطلب یہ ہے کہ اگر اس قسم کے موانع نہ ہوتے تو یہ غلطی اتنی عظیم اور ثقیل تھی کہ سخت عذاب نازل ہجانا چاہئے تھا اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا کہ اگر بالفرض والتقدیر عذاب نازل ہوتا تو سوائے عمر ؓ اور سعد بن معاذ ؓ کے کوئی نہ بچتا۔ جاننا چاہئے کہ عذاب نازل نہیں ہوا بلکہ محض آپ کے سامنے پیش کیا گیا ھا اور فقط آپ کو دکھلایا گیا تھا (جیسا کہ بعض روایات میں آیا ہے) تاکہ آں حضرت ﷺ قریب سے اس عذاب کو دیکھ لیں اور لوگوں کو بتلا دیں کہ اگر تمہاری اس غلطی پر عذاب نازل ہوتا تو ایسا ہوتا مقصود محض عذاب کا دکلانا تھا نہ کہ اس کا نازل کرنا اور اتارنا محبین کی تنبیہ کے لیے اتنا ہی کافی تھا (دیکھو زرقانی شرح مواہب ص 442 ج 1) اور اس وقت آپ کے سامنے عذاب کا پیش کرنا اسی قسم کا تھا۔ جیسے نماز کسوف میں آپ کے سامنے جنت و جہنم آپ کے سامنے دیوار قبلہ میں متمثل کر کے پیش کی گئی تاکہ عذاب کا ایک نظارہ ہوجائے کہ وہ کیسا ہوتا ہے اور بس تنبیہات : 1 ۔ جاننا چاہئے کہ ان خطابات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ ودلم داخل نہیں اس لیے کہ تریدون عرض الدنیا کا خطاب صرف ان لوگوں کو ہے جنہوں نے اپنے فائدہ کو مد نظر رکھ کر فدیہ لینے کا مشورہ دیا یا دیگر مصلح دینیہ کے ساتھ مالی مصلحت کو بھی ملحوط رکھا اور جن لوگوں نے محض صلہ رحمی اور رحم دلی اور دیگر مصالح دینیہ کی بنا پر یہ مشورہ دیا وہ اس خطاب اور عتاب میں داخل نہیں اخفاء اور پردہ پوشی کے لیے کطاب عام آیا ورنہ مراد سب نہیں بلکہ صرف بعض مراد ہیں عتاب اس پر آیا کہ تم نے دنیا کے فانی سامان پر کیوں نظر کی حالانکہ مومن کی نظر صرف آخرت پر ہونی چاہئے اور مالی اور دنیوی فوائد پر نظر کرنا اگرچہ فی حدذاتہ جائز ہے مگر صحابہ ؓ جیسے مقربین کی شان عالی اور منصب جلیل کے مناسب نہیں۔ اور آں حضرت ﷺ نے جو صدیق اکبر کی رائے کو عمر ؓ کی رائے پر ترجیح دی اس کا منشاء شفقت و رحمت کا غلبہ تھا نہ کہ مالی فائدہ اور اگر بالفرض والتقدیر کسی درجہ میں مالی فائدہ آپ کے پیش نظر بھی ہو تو وہ اپنے لیے تھا بلکہ دوسروں کے فائدہ کے لیے تھا اور دوسروں کے مال فائدہ کو ملحوظ رکھنا جودوکرم ہے جو عقلا ً شرعا محمود ہے وہ محل عتاب نہیں۔ 2 ۔ جنگ بدر میں جب ستر کافر مسلمانوں کے ہاتھ قید ہو کر آئے تو آپ نے صحابہ سے مشورہ کیا بعض نے مشورہ دیا کہ ان کو قتل کردیا جائے اور بعض نے کہا کہ ان سے کچھ مال لے کر چھوڑ دینا چاہئے اس پر آپ پر وحی نازل ہوئی ور جبریل امین نے آکر عرض کیا کہ آپ کے رب نے اسیران بدر کے بارے میں آپ کے صحابہ کو اختیار دیا ہے کہ خواہ ان کو قتل کریں اور خواہ ان سے فدیہ لے کر چھوڑیں مگر بایں شرط کہ آئندہ سال تمہارے بھی ستر آدمی شہید ہوں گے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ہم ان سے فدیہ لے کر ایک گونہ قوت حاصل کریں اور سال آئندہ حق تعالیٰ جس کو چاہیں شہادت کی عزت و کرامت سے سرفراز فرمائیں اور ہمارے ستر آدمی جنت میں داخل ہوں آپ نے بمشورہ صحابہ کرام اسیران بدر سے فدیہ لے کر ان کو چھوڑ دیا اس پر یہ آیات عتاب نازل ہوئیں اب یہاں شبہ یہ ہے کہ جب من جانب اللہ قتل اور فدیہ دونوں کا اختیار دے دیا گیا تھا تو پھر فدیہ لینے پر کیوں عتاب نازل ہوا۔ جواب : جواب اس کا یہ ہے کہ یہ اختیاط فقط ظاہری اور صوری تھا لیکن معنوی اور حقیقی لحاظ سے اختبار (یعنی آزمائش) اور امتحان تھا کہ دیکھیں مسلمان اعداء اللہ کے قتل کو اختیار کرتے ہیں یا سامان دنیا کو اختیار کرتے ہیں اور یہ بات اہر ہوجائے کہ مسلمان اپنی رائے سے کس طرف جھکتے ہیں۔ جیسے حق تعالیٰ نے ازواج مطہرات کو دو صورتوں میں اختیار دیا کہ چاہے دنیا کو اختیار کریں اور چاہے آخرت کو اختیا کریں کا قال تعالیٰ ۔ یا ایہا النبی قل لا ازواجک ان کنتن تردن الحیاۃ الدنیا وزینتھا فتعالین امتعکن وسرحکن سراحا جمیلا۔ وان کنتن تردن اللہ ورسولہ والدار الاخرۃ فان اللہ اعد للمحسنتا منکن اجرا عظیما۔ بیان حلت فدیہ فدیہ للینے پر جب عتاب نازل ہوا تو مسلمان ڈر گئے اور غنائم بدر سے (جن میں فدیہ اساری بھی شامل تھا) ہاتھ کھینچ لیا۔ اور اس کے حلال ہونے میں شبہ ہوگیا اس پر آئندہ آیت نازل ہوئی جس میں ان کی تسلی فرما دی گئی کہ وہ اللہ کی عطا ہے اس کو خوش سے کھاؤ مال غنیمت فی حد ذاتہ حلال اور طیب ہے اس کے طریق حصول میں تم سے لغزش ہوئی وہ معاف کردی گئی اور یہ فدیہ ہم نے لیے مباح کردیا پس جو مال غنیمت تم نے حاصل کیا ہے جس میں یہ فدیہ بھی شامل ہے اس کو پاک اور حلال سمجھ کر کھاؤ وہ حلال ہے اور بلا شبہ پاک ہے ہمارے عتاب سے اس میں جو کراہت آئی تھی وہ اب ہماری معافی اور اباحت سے زائل ہوگئی اس آیت میں خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کی تسلی کردی کہ یہ حرام نہیں بلکہ بلاشبہ حلال ہے لہذا اس کو خدا تعالیٰ کا عطیہ سمجھ کر کھاؤ اور آئندہ کے لیے احتیاط رکھو اور خدا سے ڈرتے رہو اور مال کی حرص اور طمع سے بچتے رہو۔ بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے کہ اس نے تمہاری اس خطا کو معاف کیا اور فدیہ کو تمہارے لیے حلال کردی ایہ اس کی رحمت ہے۔ بعد ازاں بعض قیدی مسلمان ہوگئے اور زر فدیہ بھی ادا کردیا مگر فدیہ کی ادائیگی ان پر گراں گزری جس سے وہ دل شکستہ ہوئے اس پر ان کی تسلی کے لیے آئندہ آیت نازل ہوئی۔ اے نبی آپ ان قیدیوں سے جو آپ کے ہاتھ میں ہیں اور مسلمان ہوگئے ہیں جن سے آپ نے فدیہ لے لیا ہے یہ کہدیجئے کہ تم اس پر فسوس نہ کرو اگر اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں ایمان اور خلوص نیت کی کوئی بھلائی جانے گا یا دیکھے گا تو تم کو دیا ہی میں اس مال سے بہتر دیدے گا جو فدیہ میں تم سے لیا گیا ہے اور آخرت میں تمہارے تمام گناہ بخشدے گا۔ جو تم نے زمانہ کفر وشرک میں کیے ہیں اور اللہ بڑ ابخشنے والا مہربان ہے وہ اپنی رحمت اور مہربانی سے اس فدیہ کا نعم البدل تم کو عطا فرمادیں گے یہ آیت حضرت عباس کے بارے میں نازل ہوئی حضرت عباس سے جب فدیہ مانگا گیا تو انہوں نے کہا کہ میں تو بالکل غریب ہوگیا میرے پاس تو کچھ بھی نہیں آپ نے فرمایا کہ وہ سونا کہاں جو تم مکہ سے چلتے وقت رات کی تاریکی میں اپنی بیوی ام الفضل کو دے کر آئے تھے۔ چونکہ یہ راز نہایت مخفی تھا تو عباس سن کر نہایت متعجب ہوئے اور کہنے لگے اے بھتیجے تم کو یہ کیونکر معلوم ہوا آپ نے فرمایا کہ مجھ کو میرے پروردگار نے بتلا یہ سن کر حضرت عباس کو یقین ہوگیا کہ آپ سچے نبی ہیں۔ فورا اسلام لے آئے پھر ان دونوں بھتیجوں عقیل اور نوفل کو اسلام لانے کا حکم دیا تو وہ اسی وقت مسلمان ہوگئے پھر خدا تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی مطلب آیت کا یہ ہے کہ اگر تم صدق دل سے ایمان لائے اور اپنے ایمان، زبان پر ثابت قدم رہے تو جو مال تم سے اب لیا گیا ہے اس سے بہتر اللہ تم کو دے گا اور تمہارے گناہ بھی معاف کردے گا یہ اس کے علاوہ ہے۔ حضرت عباس کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے دو وعدے کیے تھے ایک تو یہ کہ جو مال مجھ سے لیا ہے اس سے بہتر مجھ کو دے گا سو اللہ نے اپنا یہ وعدہ پورا کیا جو اس نے مجھ سے لیا تھا اس سے بہتر مجھ کو دے دیا۔ بیس اوقیہ سونے کے عوض اب میرے پاس بیس غلام ہیں جو سب تاجر ہیں اور ان میں سے ادنی غلام مجھے بیس ہزار درہم ادا کرتا ہے اور اللہ نے مجھے آب زمزم پلانے کی خدمت عطا جس کے بدلہ میں میں تمام اہل مکہ کے اموال کو پسند نہیں کرتا اور دوسرا وعدہ مغفرت کا ہے اس کے اپنے پروردگار سے امید لگائے ہوئے ہوں کہ وہ میرے گناہوں کو بخش دے گا۔ اور خداوند کریم کے وعدہ میں خلاف نہیں ہوتا۔ اور اگر اللہ تعالیٰ ان قیدیوں کے دل میں کوئی شر یا شرارت کہ یہ قیدی شرارت سے مسلمان ہوئے ہیں اور آپ کے ساتھ خیانت اور دغا کرنا چاہتے ہیں تو آپ کوئی فکر نہ کیجئے۔ وہ اس سے پہلے بیھی خدا اور رسول کے ساتھ خیانت اور دغا کرچکے ہیں اور اس کا انجام بھی دیکھ چکے ہیں پھر اگر اسلام کے ساتھ کوئی دغا کرنا چاہتے ہیں تو کرلیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کے پکڑنے پر قدرت دی یہاں تک کہ وہ جنگ بدر میں آپ کے ہاتھ گرفتار ہوئے۔ اور اس کے بعد بھی ممکن ہے کہ تجھ کو ان پر غالب اور قادر کردے جس طرح وہ پہلے قادر تھا۔ اسی طرح وہ آئندہ بھی قادر ہے اور اللہ خوب جاننے والا ہے کوئی غدار اور خائن اس مخفی نہیں اور بڑی حکمت وا ا ہے۔ اس کی حکمتوں کا ادراک کسی کی قدرت میں نہیں۔ ۔۔۔۔۔
Top