Maarif-ul-Quran - Al-Anfaal : 7
وَ اِذْ یَعِدُكُمُ اللّٰهُ اِحْدَى الطَّآئِفَتَیْنِ اَنَّهَا لَكُمْ وَ تَوَدُّوْنَ اَنَّ غَیْرَ ذَاتِ الشَّوْكَةِ تَكُوْنُ لَكُمْ وَ یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖ وَ یَقْطَعَ دَابِرَ الْكٰفِرِیْنَۙ
وَاِذْ : اور جب يَعِدُكُمُ : تمہیں وعدہ دیتا تھا اللّٰهُ : اللہ اِحْدَى : ایک کا الطَّآئِفَتَيْنِ : دو گروہ اَنَّهَا : کہ وہ لَكُمْ : تمہارے لیے وَتَوَدُّوْنَ : اور چاہتے تھے اَنَّ : کہ غَيْرَ : بغیر ذَاتِ الشَّوْكَةِ : کانٹے والا تَكُوْنُ : ہو لَكُمْ : تمہارے لیے وَ : اور يُرِيْدُ : چاہتا تھا اللّٰهُ : اللہ اَنْ : کہ يُّحِقَّ : ثابت کردے الْحَقَّ : حق بِكَلِمٰتِهٖ : اپنے کلمات سے وَيَقْطَعَ : اور کاٹ دے دَابِرَ : جڑ الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
اور (اس وقت کو یاد کرو) جب خدا تم سے وعدہ کرتا تھا کہ (ابو سفیان اور ابو جہل کے) دو گرہوں میں ایک گردہ تمہارا مسخر) ہوجائے گا۔ اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بے (شان و) شوکت (یعنی بےہتھیار) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے اور خدا چاہتا تھا کہ اپنے فرمان سے حق کو قائم رکھے اور جو کافروں کی جڑ کاٹ کر (پھینک) دے۔
ذکر انعام دوم قال اللہ تعالیٰ واذ یعدکم اللہ احدی الطائفتین۔۔۔ الی۔۔۔ ولو کرہ المجمون (ربط ان آیات میں غزوہ بدر کے متعلق دوسرے انعام کا ذکر فرماتے ہیں اور یہ بتلاتے ہیں کہ تم تو غیر ذی شوکت جماعت یعنی قافلہ ابو سفیان کے طلبگار ہو اور خدا تعالیٰ کو احقاق حق اور ابطال باطل مقصود ہے اور یہ بات ذی شوکت جماعت یعنی ابو جہل کے لشکر جرار کے مقابلہ اور جنگ سے حاصل ہوتی ہے۔ دین حق کا غلبہ اور باطل کی سرکوبی خونریز جنگ سے ہوتی ہے نہ کہ تجارتی قافلہ سے چناچہ فرماتے ہیں اور یاد کرو تم اس وقت کو کہ جب اللہ تم سے وعدہ کرتا تھا کہ دو جماعتوں میں سے یعنی ابو جہل کے لشکر اور ابو سفیان کے قافلہ تجارت میں سے ایک گروہ تمہارے لیے مسخر اور مقدر ہے۔ دو فریق میں سے ایک فریق ضرور تمہارے ہاتھ لگے گا یا قافلہ لوٹو گے۔ یا لشکر کفار کو قتل کرو گے اور تم یہ چاہتے تھے کہ غیر ذی شوکت جماعت تمہارے ہاتھ لگے یعنی تم قافلہ کو لوٹنا چاہتے تھے جس کے پاس جنگی قوت و شوکت نہ تھی اور ابوجہل کی جماعت جو ہتھیار بند تھی اور کیل کانٹے سے لیس تھی تم اس سے مقابلہ کرنا نہیں چاہتے تھے اور اللہ یہ چاہتا تھا کہ اپنی باتوں سے حق کو ثابت کر دکھائے اور کافروں کی جڑ کاٹ ڈالے تاکہ کافروں کی اس ذلت آمیز قتل سے دین اسلام کا حق ہونا اور کفر کا باطل ہونا ظاہر کرے اگرچہ مجرموں کو یہ ناگوار گزرے اب تم کو اختیار ہے کہ ان دونوں میں سے جس بات کو چاہو اختیار کرو بالآخر سب نے کفار سے لڑنے کو اختیار کیا اور ابوجہل کے مقابلہ کے لیے روانہ ہوئے مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی ایک جماعت یہ چاہتی تھی کہ تجارتی قافلہ پر حملہ ہو کہ کانٹا بھی نہ چبھے اور بہت سا مال ہاتھ آجائے اور اللہ تعالیٰ یہ چاہتا تھا کہ مسلمانوں کی ایک بےسروسامان مٹھی بھر جماعت کفار کے لشکر جرار پر غالب آئے تاکہ خدا کے وعدوں کی سچائی اور اسلام کا معجزہ ظاہر ہو اور کفر ایسا ذلیل و خوار ہو کہ دنیا اس کی ذلت و خواری کا تماشہ دیکھے چناچہ ایسا ہی ہوا کہ جنگ بدر میں قریش کے ستر سردار مارے گئے جن میں ابو جہل بھی تھا جو اس امت کا فرعون تھا اور ستر ہی قید ہوئے اس طرح کفر کی کمر ٹوٹ گئی۔
Top