Maarif-ul-Quran - At-Tawba : 122
وَ مَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا كَآفَّةً١ؕ فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّیَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْۤا اِلَیْهِمْ لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُوْنَ۠   ۧ
وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) لِيَنْفِرُوْا : کہ وہ کوچ کریں كَآفَّةً : سب کے سب فَلَوْ : بس کیوں لَا نَفَرَ : نہ کوچ کرے مِنْ : سے كُلِّ فِرْقَةٍ : ہر گروہ مِّنْھُمْ : ان سے۔ ا ن کی طَآئِفَةٌ : ایک جماعت لِّيَتَفَقَّهُوْا : تاکہ وہ سمجھ حاصل کریں فِي الدِّيْنِ : دین میں وَلِيُنْذِرُوْا : اور تاکہ وہ ڈر سنائیں قَوْمَھُمْ : اپنی قوم اِذَا : جب رَجَعُوْٓا : وہ لوٹیں اِلَيْهِمْ : ان کی طرف لَعَلَّھُمْ : تاکہ وہ (عجب نہیں) يَحْذَرُوْنَ : بچتے رہیں
اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب نکل آئیں۔ تو یوں کیوں نہ کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین (کا علم سیکھتے اور اس) میں سمجھ پیدا کرتے اور جب اپنی قوم کی طرف واپس آتے تو ان کو ڈر سناتے تاکہ وہ حذر کرتے۔
فرض کفایہ بودن جہاد وفرض کفایہ بودن تحصیل علم دین قال اللہ تعالیٰ ۔ وما کان ال مومن ون لینفروا کافۃ۔۔۔ الی۔۔۔ لعلھم یحذرون (ربط): گزشتہ رکوعات میں میں جہاد سے تخلف پر جو ملامت کی گئی اس سے بعض مسلمانوں کو یہ شبہ ہوا کہ ہر جہاد میں مسلمانوں پر نفیر یعنی خروج فرض عین ہے اس لیے اس آیت میں یہ بتلاتے ہیں کہ ہر جہاد میں جانا فرض عین نہیں بلکہ فرض علی الکفایہ ہے اور یہ بتلاتے ہیں کہ جس طرح جہاد فرض علی الکفایہ ہے اسی طرح تفقہ دی الدین یعنی تحصیل علم دین بھی فرض کفایہ ہے جب کوئی لشکر جہاد کے لیے روانہ ہو اور آں حضرت ﷺ شہر میں مقیم ہوں تو ایک جماعت کا آنحضرت ﷺ کے پاس موجود رہنا ضروری ہے تاکہ وہ آں حضرت ﷺ کی خدمت بابرکت میں رہ کر تفقہ فی الدین حاصل کریں یعنی دین سکیکھیں تاکہ مجاہدین کا لشکر جب جہاد سے واپس آئے تو اس عرصہ میں جو دین سیکھا ہے اس سے ان کو آگاہ کریں۔ چناچہ فرماتے ہیں اور جب آں حضرت ﷺ جہاد کے لیے کوئی شلکر روانہ کریں اور خود مدینے میں مقیم رہیں تو مسلمانوں کے لیے یہ روا نہیں کہ سب کے سب ایک دم سے جہاد کے لیے نکل جائیں سب کا ایک دم سے جہاد میں نکل جانا مناسب نہیں ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ہر بڑی جماعت میں سے کچھ آدمی تو جہاد کے لیے نکل جائیں اور کچھ آدمی دین سیکھنے کے لیے آں حضرت ﷺ کے پاس ٹھہر جائیں اور آں حضرت کی خدمت میں رہ کر دین سیکھیں تاکہ یہ باقی ماندہ لوگ حضور پر نور ﷺ کی خدمت میں رہ کر دین میں سمجھ حاصل کریں اور فقہ سیکھیں اور تاکہ ڈرائیں یہ فقہاء اپنی قوم کو جو جہاد میں گئی ہے جب وہ قوم سفر جہاد سے ان کی طرف واپس آئے شاید وہ لوگ بری باتوں سے بچتے رہیں اور احتیاط برتیں اور جس چیز سے ان کو ڈرایا گیا ہے اس سے حذر کریں۔ اس آیت کی تفسیر میں زیادہ مشہور دو قول ہیں ایک قول تو وہ ہے جس کے مطابق آیت کی تفسیر کی گئی اس قول پر آیت کا حاصل مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو یہ مناسب نہیں سب کے سب ہی جہاد میں نکل کھڑے ہوں اور رسول خدا کی صحبت میں کوئی بھی نہ رہے بلکہ مناسب یہ ہے کہ کچھ لوگ جہاد میں جائیں اور کچھ رسول خدا ﷺ کے پاس رہ کر دین کے مسائل سیکھیں اور دین میں سمجھ پیدا کریں۔ پھر جب مجاہدین جہاد سے ان کے پاس لوٹ کر واپس آئیں تو وہ ان مجاہدین کو احکام خداوندی سے آگاہ کریں اور خدا کی معصیت سے ڈرائیں تاکہ وہ ان احکام سے واقف ہو کر (جو ان کے پیچھے رسول خدا ﷺ پر نازل ہوئے ہیں) اللہ کی نافرمانی سے ڈریں۔ امام قرطبی اور جلال الدین سیوطی اور علامہ آلوسی نے اسی قول کو اختیار فرمایا۔ اس قول کی بنا پر طائفہ نافرہ سے وہ جماعت مراد ہے جو جہاد کے لیے نکلی اور لیتفقھوا اور لینذروا کی ضمیریں ان باقی ماندہ لوگوں کی طرف راجع ہیں جو جہاد کے لیے نہیں نکلے بلکہ تحصیل علم کے لیے آپ کی خدمت بابرکت میں ٹھہرے ہے اور اذا رجعوا کی ضمیر طائفہ نافرہ کی طرف راجع ہے۔ یعنی اس جماعت کی طرف راجع ہے جو جہاد میں جا کر اب واپس آئی ہے۔ (دیکھو تفسیر قرطبی ص 294 ج 8 ۔ روح المعانی ص 43-44 ج 11 ۔ صاوی حاشیہ جلالین ص 175 ج 2) دوسرا قول یہ ہے کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ سب لوگ طلب علم کے لیے اپنے گھروں سے نہ نکل جائیں بلکہ تھوڑے سے لوگ جایا کریں اور وہ علم حاصل کر کے اپنی قوم کو فائدہ پہنچائیں یعنی ان کو تعلیم دین اور وعظ وتلقین کریں۔ پہلے قول کی بناء پر آیت ہذا احکام جہاد کا بقیہ اور تتمہ تھی اور اس قول کی بناء پر آیت بقیہ احکام جہاد نہیں بلکہ ایک مستقل حکم ہے جس سے مقصود طلب علم دین کے لیے گھر سے نکلنے کی مشروعیت بیان کرنا ہے اور اس حکم کو احکام جہاد کے ساتھ متصل ذکر کرنے میں اشارہ اس رف ہے کہ سفر دو طرح پر ہوتا ہے ایک سفر جہاد کے لیے اور ایک سفر طلب علم دین کے لیے دونوں میں خروج فی سبیل اللہ ہے اور دونوں کی غرض احیاء دین اور اعلاء دین ہے۔ ایک میں سیف وسنان سے دوسرے میں زبان اور قلم اور برہان سے اس قول کی بناء پر فلولا نفر میں طلب علم کے لیے نفیر اور خروج مراد ہے اور لیتفقہوا میں اور لینذروا کی ضمیریں اسی طائفہ نافرہ کی طرف راجع ہوں گی جس نے طلب علم دین کے لیے نفیر اور خروج کیا ہے۔ (دیکھو روح المعانی ص 44 ج 1) اور مطلب یہ ہے کہ تحصیل علم دین کے لیے ہر بڑے قبیلہ میں سے کچھ آدمیوں کو ضرور نکلنا چاہیے کیونکہ علم دین کا حاصل کرنا رض کفایہ ہے اگر کوئی بھی حاصل نہ کرے تو سب گنہگار ہوں گے۔ اور فقہ سے مراد احکام شریعت کا علم ہے جس میں عقائد اور اعمال ظاہرہ اور اعمال باطنہ سب داخل ہیں سب ہی کا جاننا فرض ہے اول ایمان یہ علم عقائد ہوا۔ دوم۔ علم اسلام یہ علم فقہ ہوا۔ سوم علم احسان یہ علم تصوف ہوا اور دین ان تینوں کے مجموعہ کا نام ہے اور علم صرف ونحو اور علم لغت و اصول کا جاننا بالذات فرض نہیں بلکہ واجب بالغیر اور فرض بالغیر ہے اس لیے کہ فرض اور واجب کا ذڑیعہ اور وسیلہ ہے۔ جاننا چاہئے کہ فقاہت فی الدین کا درجہ مطلق علم سے بالاتر ہے علم کے معنی جاننے کے ہیں اور فقاہت کے معنی لغت میں فہم اور سمجھ کے ہیں " فقیہ " لغت اور شریعت کے اعتبار سے اس شخص کو کہتے ہیں کہ جو شریعت کے حقائق اور دقائق کو اور اس کے ظہر اور بطن کو سمجھا ہوا ہو محض الفاظ یاد کرلینے کا نام فقاہت نہیں۔ جن لوگوں نے خدادا حافظہ سے کتاب وسنت کے الفاظ یاد کیے اور امت تک ان کو بلا کم وکاست پہنچایا وہ حفاظ قرآن اور حفاظ حدیث کا گروہ ہے جزاھم اللہ عن الاسلام والمسلمین خیرا۔ آمین۔ اور جن لوگوں نے خدادا عقل سلیم اور فہم مستقیم سے کتاب وسنت کے معانی اور شریعت کے حقائق اور دقائق اور اس کے اصول و فروع امت کو سمجھائے تاکہ امت ان احکام پر عمل کرسکے ان کو فقہاء کہتے ہیں خواہ فقہاء ظاہر کے ہوں یا باطن کے اصل مقصود اطاعت خدا و رسول ہے اور اطاعت کا اصل دارومدار معانی پر ہے محض الفاظ یاد کرلینے سے فریضۂ اطاعت کا اصل دارومدار معانی پر ہے محض الفاظ یاد کرلینے سے فریضۂ اطاعت ادا نہیں ہوسکتا۔ اصل عالم وہ جو شریعت کے معانی اور مقاصد کو سمجھتا ہو کما قال تعالیٰ وتلک الامثال نضربھا للناس وما یعقلھا الا العالمون۔ شریعت کی حفاظت امت پر فرض ہے حضرات محدثین نے الفاظ شریعت کی حفاظت کی اور حضرات فقہاء نے معانی شریعت کی حفاظت کی دونوں ہی اللہ تعالیٰ کے مقبول گروہ ہیں جس طرح انبیاء کرام میں درجات اور مراتب کا فرق ہے۔ کما قال تعالیٰ تلک الرسل فضلنا بعضھم علی بعض منھم من کلم اللہ ورفع بعضھم درجت۔ اسی طرح وارثین انبیاء یعنی علماء میں بھی درجات اور مراتب کا فرق ہے۔ حضرات محدثین اور حضرت فقہا میں اتنا ہی فرق ہے جتنا کہ لفظ اور معنی میں درجہ اور مراتب کا فرق ہے۔ حافظ قرآن الفاظ قرآنی کا حافظ ہے اور ایک مفسر قرآن معانی قرآن کا عالم اور فاہم ہم ہے۔ بہرحال اس آیت سے طلب سے علم دین اور تفقہ فی الدین کی کمال فضیلت ثابت ہوتی ہے اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ عالموں پر بےعلموں کو عذاب الٰہی سے ڈرانا فرض ہے اور بےعلموں پر عالموں کی تقلید فرض ہے ناقص پر کامل کی تقلید عقلاً فرض ہے جو شخص درجہ اجتہاد کو نہ پہنچا اس پر کسی مجتہد کامل کی تقلید فرض ہے۔
Top