Maarif-ul-Quran - At-Tawba : 123
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِیْنَ یَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ وَ لْیَجِدُوْا فِیْكُمْ غِلْظَةً١ؕ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ جو ایمان لائے (مومن) قَاتِلُوا : لڑو الَّذِيْنَ : وہ جو يَلُوْنَكُمْ : نزدیک تمہارے مِّنَ الْكُفَّارِ : کفار سے (کافر) وَلْيَجِدُوْا : اور چاہیے کہ وہ پائیں فِيْكُمْ : تمہارے اندر غِلْظَةً : سختی وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے ساتھ
اے اہل ایمان ! اپنے نزدیک کے (رہنے والے) کافروں سے جنگ کرو۔ اور چاہئے کہ وہ تم میں سختی (یعنی محنت وقوت جنگ) معلوم کریں۔ اور جان رکھو کہ خدا پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔
ترتیب جہاد وقتال قال اللہ تعالیٰ ۔ یا ایہا الذین امنوا قاتلوا الذین یلومونکم من الکفار۔۔۔ الی۔۔۔ ان اللہ مع المتقین۔ (ربط): نصف پارۂ دہم سے یہاں تک غزوۂ تبوک سے متخلفین کے شنائع اور قبائح کا بیان تھا کہ ان لوگوں نے جہاد سے تخلف کیا پھر گزشتہ آیات میں احکام جہاد کی طرف رجوع فرمایا اور جہاد و قتال کے فضائل بیان کیے اب اس آیت میں جہاد و قتال کی ترتیب بیان کرتے ہیں کہ جہاد و قتال کس طرح ہونا چاہئے وہ ترتیب یہ ہے کہ اول ان کفار سے ہونا چاہئے جو مسلمانوں سے قریب تر ہوں اور پھر جو ان قریب رہنے والوں کے قریب ہوں اس طرح حلقۂ جہاد کو وسیع کرنا چاہئے نبی اکرم ﷺ نے اول مشرکین عرب سے قتال کیا اور پھر بنی قریظہ اور بنی نضیر اور خیبر کے اہل کتاب سے جہاد کیا۔ جو مدینہ کے ارد گرد رہتے تھے اور پھر جب ان سے فارغ ہوئے تو شام کا قصد کیا۔ غزوۂ موتبہ اور غزوہ تبوک یہ سب شام ہی کی طرف اقدام تھا۔ پھر خلفاء راشدین نے بھی اسی ترتیب کو ملحوظ رکھا اول شام کو فتح کیا پھر عراق کو پھر مصر کو چناچہ فرماتے ہیں اے مسلمانو ! اول ان کفار سے جہاد و قتال کرو جو تمہارے آس پاس رہتے ہیں۔ جیسے بنو قریظہ اور بنی نضیر اور مشرکین عرب قریبی دشمن کو ختم کرنا سب مقدم ہے ورنہ حقیقت کے لحاظ سے تمام کافر مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ کما قال تعالیٰ ان الکافرین کانوا لکم عدوا مبینا۔ ولا یزالون یقاتلونکم حتی یردوکم عن دینکم۔ وغیر ذلک من الایات۔ غرض یہ کہ تمام کافر مسلمانوں کے دشمن ہیں اس لیے تمام کافروں سے جہاد و قتال کا حکم آیا۔ قاتلوا لمشرکین کافۃ کما یقاتلونکم کافۃ اور اس آیت میں یہ حکم دیا کہ قریبی کافروں سے جہاد و قتال کو مقدم سمجھیں اور چاہئے کہ وہ کافر تمہارے اندر سختی کو محسوس کریں۔ یعنی جہاد و قتال کے وقت بھی شدت سے ان کا مقابلہ کرو اور زمانہ صلح میں بھی ان سے ڈھیلا پن نہ برتو۔ یہ کافر جس کو ڈھیلا دیکھتے ہیں اس کو ڈھیلا مارتے ہیں اور خوب یقین رکھو کہ اللہ متقیوں کے ساتھ یعنی اللہ کی حفاظت اور نصرت اور اعانت اور معیت پرہیزگاروں کے ساتھ ہے جب تک تم تقویٰ پر قائم رہو گے خدا کی نصرت اور اعانت تمہارے ساتھ رہے گی۔ نکتہ : حضرات صوفیہ فرماتے ہیں کہ مومن کافر قریبی دشمن اس کا نفس امارہ ہے۔ جو کفران نعمت میں سب سے آگے ہے اور تمام دشمنوں میں سب سے زیادہ یہی قریب ہے اس لیے نفس امارہ سے جہاد و قتال جہاد اکبر ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے المھاجر من ھجر ما نھی اللہ عنہ والمجاھد من جاھد نفسہ یعنی اصل مہاجر وہ جو معصیت سے ہجرت کر کے طاعت کی طرف آجائے اور اصل مجاہد وہ ہے جو اپنے (قریبی دشمن) نفس سے جہاد کرے۔ ذکر تمسخر منافقین وتنفر شاں از آیات قرآن معہ وعید وتہدید قال اللہ تعالی۔ واذا ما انزلت سورة فمنھم من یقول۔۔۔ الی۔۔۔ بانھم قوم لایفقھون۔ (ربط): اوپر کے رکوعات اور آیات میں منافقین کے ذمائم کا ذکر ہوا منجملہ ان کے ایک یہ تھا کہ جب کوئی آیت نازل ہوتی تو وہ اس کے ساتھ تمسخر کرتے ہیں اور تمسخر دلیل ہے غایت تنفر کی۔ اور غایت تنفر دلیل ہے غایت کفر کی۔ دین حق کے ساتھ تمسخر کفر کا آخری درجہ ہے اس آیت میں ان لوگوں کے متعلق خبر دی گئی کہ ان لوگوں کے دلوں پر مہر لگ چکی ہے یہ ایمان نہیں لائیں گے۔ بلکہ کفر ہی پر ان کی موت آئے گی۔ اسلام کے ساتھ تمسخر کرنا یہی علامت اس بات کی ہے کہ ان کے دلوں پر مہر لگ چکی ہے۔ (ربط دیگر): پہلی آیت میں کفار سے قتال کا حکم تھا اب اس آیت میں اس کا سبب بیان کرتے ہیں وہ یہ یہ لوگ آیات خداوندی کے ساتھ استہزاء اور تمسخر کرتے ہیں ایسوں سے تو جہاد و قتال بلاشبہ فرض اور واجب ہے۔ چناچہ فرماتے ہیں اور جب قرآن کی کی کوئی جدید سورت نازل ہوتی ہے جس میں منافقین کے نفاق اور عناد کا ذکر ہوتا ہے تو بعض منافقین بطور استہزاء اور تمسخر بعض غریب مسلمانوں سے پوچھتے ہیں کہ بتلاؤ کہ تم میں سے اس سورت نے کس کا ایمان زیادہ کیا اور کس کے ایقان وعرفان میں اضافہ ہوا۔ سو اس کا جواب یہ ہے کہ جو لوگ ایمان دار ہیں اور پہلے سے ایمان اور تقویٰ کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں اس سورت نے ان کے ایمان میں اور زیادتی کردی اس سورت کے نازل ہونے سے ان کا یقین اور بڑھ گیا کیونکہ قرآن کے دلائل عقلیہ اور براہین قطعیہ کو سن کر ان کے سابق ایقان اور عرفان میں اور میں اور اضافہ ہوجاتا ہے اور قرآن جن چیزوں کی خبر دیتا ہے اس کا آنکھوں سے مشاہدہ ہوجاتا ہے اس طرح سے ان کا ایمان استدلالی ایمان شہودی بن جاتا ہے اور شک اور شبہ کا امکان بھی ختم ہوجاتا ہے اور وہ اس سورت کے نازل ہونے سے غایت درجہ خوش ہوتے ہیں۔ کہ اس سورت کا نزول ان کے ایقان وعرفان کی زیادتی کا سبب بنا اور جو حال پہلے تھا اب اس سے بھی بہتر اور برتر ہوگیا اور جن لوگوں کے دلوں میں شک اور نفاق کی بیماری ہے اور ان کے دل مکر اور حیلہ کی گندگی سے بھرے ہوئے ہیں تو یہ جدید سورت ان کی سابقہ پلیدی اور گندگی سے بھرے ہوئے ہیں تو یہ جدید سورت ان کی سابقہ پلیدی اور گندگی پر ایک اور نئی گندگی اور پلیدی کا اضافہ کردیتی ہے۔ گزشتہ بغض وعناد کے ساتھ ایک جدید بغض اور عناد کا اضافہ ہوجاتا ہے اور یہ کیفیت دن بدن ترقی کرتی جاتی ہے حتی کہ کفر اور نفاق کا ملکہ ان میں راسخ اور پختہ ہوجاتا ہے اور پھر کفر ہی کی حالت میں ان کی جان نکلتی ہے مطلب آیت کا یہ ہے کہ جب کبھی کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو وہ اسرار بلاغت اور دلائل اعجاز کے ساتھ نازل ہوتی ہے اور دلائل قاطعہ اور براہین ساطعہ کے ساتھ احقاق حق اور ابطال باطل پر مشتمل ہوتی ہے اس لیے اس کے نزول سے اہل ایمان کی ایمانی کیفیت میں اضافہ اور دلائل وبراہین کی روشنی میں ان پر حق واضح اور روشن ہوجاتا ہے اور دین اسلام کے بارے میں انہین شرح صدر ہوجاتا ہے اور منافقین کے غیظ اور عناد میں اضافہ ہوجاتا ہے اگر یہ منافقین عناد اور حسد سے ہٹ کر بنظر انصاف آیات قرآنیہ میں غور وفر کرتے تو ان کی بھی آنکھیں کھل جاتیں مگر عناد کی یہ کیفیت دن بدن ان میں مستحکم ہوتی ہے اور دلائل قاطعہ اور براہین ساطعہ کے ساتھ احقاق حق اور ابطال باطل پر مشتمل ہوتی ہے اس لیے اس کے نزول سے اہل ایمان کی ایمانی کیفیت میں اضافہ ہوجاتا ہے اور دلائل وبراہین کی روشنی میں ان پر حق واضح اور روشن ہوجاتا ہے اور دین اسلام کے بارے میں انہیں شرح صدر ہوجاتا ہے اور منافقین کے غیظ اور عناد میں اضافہ ہوجاتا ہے اگر یہ منافقین عناد اور حسد ہٹ کر بنظر انصاف آیات قرآنیہ میں غور وفکر کرتے تو ان کی بھی آنکھیں کھل جاتیں مگر عناد کی یہ کیفیت دن بدن ان میں مستحکم ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ کفر ہی کی حالت میں وہ مرگئے۔ آگے ارشاد فرماتے ہیں کہ کیا یہ منافق اس بات کو نہیں دیکھتے کہ وہ ہر سال ایک دو بار آزمائے جاتے ہیں یعنی ہر سال میں ایک دو بار ضرور رسوا ہوتے ہیں اور ان کا نفاق اور جھوٹ مسلمانوں پر ظاہر ہوجاتا ہے پھر بھی اپنے جھوٹ اور نفاق اور بدعہدی سے اور توبہ نہیں کرتے اور نہ وہ نصیحت پکڑتے ہیں کہ سمجھیں کہ یہ رسوائی ہماری تنبیہ کے لیے رونما ہوئی ہے۔ اور منافقین کا یہ حال جو گزشتہ آیت میں بیان کیا گیا ہے وہ مجلس نبوت سے باہر کا حال تھا اب اندرون مجلس نبوت ان کی فضیحت کا حال سنو وہ یہ کہ جب کبھی کوئی ایسی سورت نازل ہوتی ہے جس میں ان کے نفاق اور فضائح اور قبائح کا ذکر ہو اور وہ خود بھی اس وقت بارگاہ رسالت میں حاضر ہوں تو اس وقت اشارہ سے پوچھتے ہیں کہ مسلمانوں میں سے کوئی تمہیں کوئی دیکھتا تو نہیں یعنی اگر کوئی مسلمان نہیں دیکھتا تو مجلس سے کھسک جاؤ اور اگر کوئی مسلمان تم کو دیکھتا ہے تو نہیں یعنی اگر کوئی مسلمان نہیں دیکھتا تو مجلس سے کھسک جاؤ اور اگر کوئی مسلمان تم کو دیکھتا ہے تو تھوڑی دیر اور صبر کرو۔ جب مسلمان غافل ہوجائیں گے تب اٹھ کر چل دیں گے۔ پھر جب دیکھتے ہیں کہ ان کو کوئی مسلمان نہیں دیکھ رہا ہے تو آپ کی مجلس سے پھرجاتے ہیں یعنی اپنے گھر چلے جاتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اللہ ہی نے ان کے دلوں کو اسلام سے پھیر دیا ہے اس لیے وہ آپ کی مجلس سے پھرجاتے ہیں وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ لوگ بےسمجھ ہیں۔ حق اور باطل اور نفع اور ضرر کو سمجھتے نہیں۔
Top